Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایسٹ انڈیا کمپنی

پنکج سبیر

ایسٹ انڈیا کمپنی

پنکج سبیر

MORE BYپنکج سبیر

    وہ کل جمع نو تھے۔ اس میں اگر دو بچوں کو بھی جوڑ دیا جائے تو کل تعداد گیارہ ہو جاتی ہے۔ حالاں کہ ویسے تو ریل کا یہ عوامی ڈبہ مسافروں سے ٹھساٹھس بھرا ہوا تھا لیکن اس کے حصے میں یہ گیارہ تھے۔ ایک طرف بیٹھے ہوئے پانچ، دوسری طرف چار اور ساتھ میں دو بچے۔ ان گیارہ میں اسے کھڑکی کے پاس اپنی من پسند جگہ مل گئی تھی۔ ایک بار اسے ٹرین میں کھڑکی کے پاس جگہ مل جائے تو پھر اسے ڈبے کے اندر کی باقی دنیا سے کوئی سروکار نہیں رہتا۔ اس کا ذہن باہر تیزی سے دوڑتے کھیت کھلیانوں، ندی تالابوں، بجلی ٹیلی فون کے کھمبوں اور پہاڑ ی سلسلوں کے ساتھ دوڑنے لگتا ہے۔ ساتھ میں تال ملانے لگتی ہے۔ ریل کی پٹریوں پر تھاپ دیتے پہیوں کی آواز، سٹک سٹک، پٹک پٹک۔۔۔ سٹک سٹک، پٹک پٹک۔۔۔

    آج اسے شروع میں کھڑکی کے پاس جگہ نہیں ملی تھی لیکن اچانک ہی کھڑکی کے پاس بیٹھے صاحب سے ٹی سی کی کچھ گفتگو ہوئی اور وہ اپنا سامان اٹھا کر ٹی سی کے ساتھ چلے گئے۔ ویسے بھی وہ اور ان کا اعلیٰ درجے کا سامان، دونوں ہی اس عوامی ڈبے میں کچھ بے میل نظر آ رہے تھے۔ شاید وہ اس سے بہتر درجے کا ٹکٹ نہ مل پانے کی وجہ سے یہاں بیٹھ گئے تھے۔۔۔ غریب لوگوں کے بھارت میں۔ موقع ملتے ہی وہ اپنے حصے کی کھڑکی ایک غریب کو دے کر امیروں والے بھارت میں چلے گئے۔ جیسے ہی وہ ہٹے، اس نے بجلی کی سی تیزی سے کھڑکی پر قبضہ کر لیا۔ وہاں بیٹھتے ہی اسے محسوس ہوا کہ اب سفر کتنا بھی لمبا کیوں نہ ہو، کچھ فرق نہیں پڑنے والا، اس لیے کہ اب وہ کھڑکیوں کے اس پار کی دنیا کے ساتھ منسلک ہو گیا ہے۔ سفر اب قدرت کو ساتھ لے کر چلےگا۔

    تو وہ کل جمع گیارہ تھے۔ مجبوری کے تحت ایسے لوگوں کا تشکیل پایا ہوا سماج جو آپس میں بالکل اجنبی تھے۔ اس سماج میں نہ کوئی کسی کے ماضی سے واقف تھا نہ مستقبل سے۔ بس حال کے کچھ گھنٹوں کا وقت کاٹنے کے لیے یہ سماج بن گیا تھا۔ کھڑکی کے پاس کی سیٹ پر قبضہ کر لینے کے کافی دیر بعد وہ ڈبے کے اندر آیا۔ یہاں آنے کا مطلب ذہنی طور پر اندر آنے سے ہے۔ باہر کے نظاروں کو چھوڑ کر وہ اندر آیا تو اسے یہ دس لوگ نظر آئے جو اسے ملاکر گیارہ تھے اور مذکورہ بالا سماج کی تشکیل کر رہے تھے۔

    سامنے کی سیٹ پر چھوٹا پریوار سکھی پریوار براجمان تھا۔ دیہات کے نوجوان میاں بیوی اور ان کی دو چھوٹی چھوٹی بیٹیاں۔ یہ بیٹیاں اس بات کا ثبوت تھیں کہ یہ کنبہ زیادہ دنوں تک ’’چھوٹا پریوار سکھی پریوار‘‘ نہیں رہ پائے گا۔ اگر دو بیٹے ہوتے تو شاید رہ لیتا۔ لیکن میاں بیوی کی جوان العمری اور دو بیٹیاں چھوٹا پریوار سکھی پریوار کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہی تھیں۔ ان چار کے بعد ایک عورت اپنی نوجوان بیٹی کے ساتھ بیٹھی تھی۔ لڑکی چوں کہ نوعمر تھی اس لیے ظاہر ہے کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی، ٹھیک اس کے سامنے۔ ماں بیٹی کی چربی ان کے کھاتے پیتے گھر کا ہونے کا ثبوت دے رہی تھی۔ یہ تھی اس کے فریق مخالف کی بنچ یعنی اس کے ٹھیک سامنے کی سیٹ پر تشریف فرما اس کے حصے کا آدھا سماج۔

    اب اس نے اپنی بغل کے لوگوں پر نظر ڈالی۔ اس نظربازی کے دوران اسے محسوس ہوا کہ فریق مخالف کی طرف نظر ڈالنا بہت آسان ہے، آنکھیں اٹھاؤ اور دیکھ لو۔ لیکن اپنے موافق فریق کو دیکھنے کے لیے باقاعدہ کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اپنی بنچ کے لوگوں میں خود کو چھوڑ کر اس نے باقی لوگوں کو دیکھا۔ مخالف سمت کے لوگوں کی طرف نظر دوڑائی تھی تو ان میں کوئی ردعمل نہیں ہوا تھا۔ لیکن جب گردن گھماکر، کچھ جھک کر اس نے اپنی طرف بیٹھے لوگوں کا جائزہ لیا تو ان لوگوں، خاص کر عورتوں کی آنکھوں میں ان کا ردعمل صاف دکھائی پڑا جو کچھ یوں تھاکہ ’’دیکھو کیسے گھور رہا ہے۔‘‘

    خیر اس دیکھنے دکھانے کے عمل میں جو کچھ نظر آیا وہ اس طرح تھا: اس کے ٹھیک بغل میں دو عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، ان کے بعد پھر ایک اور عورت تھی اور ایک مرد۔ اب اسے یوں بھی کہا جا سکتا تھا کہ تین عورتیں اور ایک مرد بیٹھے ہوئے تھے لیکن ایسا اس لیے نہیں کہا جا رہا کہ دو عورتیں ایک ساتھ تھیں جب کہ تیسری عورت اور چوتھا مرد ایک ساتھ، جیساکہ ان کی گفتگو سے ظاہر ہو رہا تھا۔ اس کے ٹھیک پاس کی خواتین روایتی ہندوستانی خواتین جو غالباً نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھیں۔ روایتی اس لیے کہ ان کی بات چیت کے کردار خواہ رہ رہ کر بدل کیوں نہ رہے ہوں، موضوع ایک ہی تھا۔۔۔ غیبت اور یہ غیبت پوری شدت اور پوری ایمان داری کے ساتھ کی جا رہی تھی، حالاں کہ کبھی کبھی یہ کاناپھوسی میں بھی بدل جاتی تھی۔ شاید ان عورتوں کا ماننا تھاکہ دیواریں خواہ ریل کے ڈبے کی ہوں یا گھر کی، دیواریں تو دیواریں ہیں اور ان کے کان ہوتے ہی ہیں۔

    ان دو عورتوں کے اس طرف جو مرد عورت کا جوڑا بیٹھا ہوا تھا، وہ دراصل دو ضعیف تھے۔ ایک سردارجی اور ان کی بیوی۔ سردارجی اپنے مکمل روایتی لباس میں تھے بلکہ کرپان بھی لٹکائے ہوئے تھے۔ بیوی یا تو ان سے زیادہ ضعیف تھیں یا بیمار تھیں۔ ایسا اس لیے کیوں کہ سردارجی تھوڑی تھوڑی دیر بعد خود اٹھ کر نیچے فرش پر بیٹھ جاتے تھے اور جو فاضل جگہ اسی طرح بنتی، اس پر ان کی اہلیہ نیم دراز سی ہو جاتی تھیں۔ ایسا بار بار ہو رہا تھا۔

    پوری طرح جائزہ لے لینے کے بعد اس نے دوبارہ سامنے دیکھا۔ اس کے ٹھیک سامنے بیٹھی لڑکی اس سے نظر ملنے پر بلاوجہ ہی شرما گئی۔ کچھ لڑکیوں کے ساتھ یہی مسئلہ ہوتا ہے، ایک ٹھیک ٹھاک سا مرد جو تھوڑی دور سے دیکھنے پر جوان ہونے کا وہم پیدا کرتا ہو، اس کی محض موجودگی سے ان کے اندر کچھ کچھ ہونے لگتا ہے۔ صورت حال کچھ ایسی ہو گئی کہ کچھ ہی دیر میں اسے کنکھیوں سے دیکھنا، دوپٹہ منھ میں دبانا، پیر کے انگوٹھے سے زمین کرید کر شرمانا جیسی نادر و نایاب اداؤں کو سامنے دیکھنے کا موقع حاصل ہوا۔ گرچہ ٹرین کے اس ریگستان جیسے فرش پر کریدنے کے لیے کچھ تھا بھی نہیں، تاہم خواتین روایتوں کی پاسداری میں یقین کرتی ہیں۔ اب اگر روایت پیر کے انگوٹھے سے زمین کریدنے کی ہے تو کریدنا ہے۔ ادھر کونے کا چھوٹا پریوار سکھی پریوار اپنے طرزعمل سے ظاہر کر رہا تھاکہ یہ سفر ختم ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد چھوٹے پریوار کا دائرہ توڑ دےگا، حالاں کہ بچیوں کی وجہ سے دونوں خاصے پریشان نظر آ رہے تھے۔

    تو اس طرح دو۔ دو کے چار گروہوں میں گیارہ اراکین کا یہ سماج آپس میں گفتگو کر رہا تھا اور ان سب کے بیچ ایک بالکل بلا وجہ کی گفتگو اس کے اور سامنے والی لڑکی کے درمیان چل رہی تھی، حالاں کہ یہ نگاہوں میں ہونے والی گفتگو تھی اور پوری طرح یک طرفہ تھی۔ اسی یک طرفہ گفتگو کی وجہ سے وہ دوبارہ کھڑکی سے باہر نکل گیا اور ایک بار پھر ندی، تالاب، پیڑ اور پہاڑوں کے ساتھ دوڑنے لگا۔ اچھا ہوتا ہے کھڑکی کے پاس بیٹھنا، کیوں کہ بیٹھنے والے کو ایک بڑی سہولت یہ ہوتی ہے کہ ڈبے یا بس کے اندر کا ماحول کسی خاص شخص یا کسی خاص واقعے کے سبب اندر رکنے لائق نہ رہ گیا ہو تو جسمانی طور پر اندر رہ کر بھی ذہنی طورپر باہر نکلا جا سکتا ہے جو وہ ابھی کر رہا ہے۔

    کافی دیر تک وہ کھڑکی کے باہر دوڑتا رہا۔۔۔ تب تک، جب تک باہر اندھیرا ندی، پہاڑ، تالاب وغیرہ کو نگل نہیں گیا اور باہر دوڑنا اس کے لیے مکمل طور پر بیکار نہیں ہو گیا۔ گھنا اندھیرا باہر پھیلا تو وہ اندر لوٹ آیا۔ اندر آکر پہلی تسلی اسے یہ ملی کہ اس کا وہ خاموش ساتھی اپنی ماں کے کندھے پر سر ٹکائے سونے یا کم از کم اونگھنے کی حالت میں آ چکا تھا۔ باقی سب کچھ پہلے جیسا ہی تھا۔ ہاں ایک لگ بھگ ادھیڑ عمر کے عورت مرد جو صرف اس لیے میاں بیوی کہے جا سکتے تھے کہ ٹرین بھارت میں تھی۔ وہ دونوں جہاں دونوں سیٹیں ختم ہوتی ہیں ٹھیک اسی جگہ آکر کھڑے ہو گئے تھے۔ شوہر مکمل طور پر ہندوستانی ادھیڑ تھا جس کے سر کے بال غائب ہو چکے تھے اور پیٹ توند نام کی ایک بےجان چیز میں تبدیل ہو چکا تھا۔ بیوی اس سے بھی زیادہ ہندوستانی نظر آ رہی تھی۔

    شوہر کی آنکھوں میں کچھ پا لینے کی بےچینی نظر آ رہی تھی۔ اس نے دیکھاکہ کونے والے سردارجی کی بیوی فی الحال لیٹی ہوئی ہے اور سردارجی سیٹ کے نیچے اونگھنے والی کیفیت میں نظر آ رہے ہیں۔ ان کھڑے ہوئے نووارد میاں بیوی کی نگاہیں نیم دراز سردارنی کے ذریعے گھیری ہوئی جگہ پر ٹکی ہوئی تھیں۔ اگر سردارجی پاس نہیں بیٹھے ہوتے تو اب تک ان لوگوں نے یقینی طور پر سردارنی کو اٹھا دیا ہوتا۔ رات کافی ہوچکی تھی لیکن عوامی ڈبے میں کیا رات، کیا دن۔ بیٹھے بیٹھے اونگھنا ہی تھا وہ بھی لوہے کی سخت سیٹوں پر۔ اسے صرف ایک بات کا ڈر تھا کہ اس کے ٹھیک سامنے والے کی نیند ٹوٹ نہ جائے ورنہ اسے پھر اس کا شرمانا لجانا جھیلنا پڑےگا۔ اندھیرے میں وہ کھڑکی کے باہر بھی تو نہیں جا سکےگا۔

    سردارنی اچانک کچھ کراہی اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔ سردارجی کو اس بات کا پتہ نہیں چل پایا کہ سردارنی اٹھ کر بیٹھ گئی ہے۔ وہ اونگھتے رہے۔ سردارنی کی نظر بھی شاید کمزور تھی۔ وہ اٹھ کر چپ چاپ بیٹھ گئی، بس ایک بار دوپٹہ سنبھال کر سر ڈھکا۔ سردارنی کے اٹھتے ہی کھڑے ہوئے میاں بیوی کے درمیان کچھ ایسا ہوا جسے فلمی زبان میں آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کہا جا سکتا ہے۔ اس بات کو صرف اسی نے دیکھا کہ کھڑے ہوئے شوہر نے بھوئیں اوپر اچکا کر، گردن کو سامنے کھینچ کر سردارنی کے بیٹھ جانے سے بنی خالی جگہ کی طرف اشارہ کیا اور جواب میں کھڑی بیوی نے تین مرتبہ گرگٹ کی طرح سر ہلاکر اپنی منظوری دے کر شوہر کے ہاتھ سے بیگ لے لیا۔ یہ پوری واردات اس کے لیے دلچسپ ہو گئی تھی۔ اسے اب ڈبے کے اندر بھی مزا آنے لگا تھا۔

    ہاتھوں میں بیگ لے کر کھڑی بیوی کچھ دیر تک کھڑی رہی، پھر بلی کی طرح دبے پاؤں اس خالی جگہ کی طرف بڑھی۔ دبے پاؤں بڑھنے کی وجہ شاید یہی تھی کہ سردارجی کی نیند نہ کھل جائے۔ اس صورت میں سردارجی اس جگہ کے پہلے حق دار ہونے کے سبب وہاں بیٹھ جاتے۔ لیکن کھڑی بیوی کا شاید قسمت آج ساتھ دے رہی تھی۔ وہ اپنا بیگ اور لگ بھگ بیگ جیسا ہی ٹھسا ٹھسایا جسم لے کر اس خالی جگہ پر بیٹھ گئی، گویا اب اسے بیٹھی بیوی کہا جا سکتا تھا۔ کھڑی بیوی کے بیٹھتے ہی اس کی سیٹ پر ہلکی سی ہلچل ہوئی۔ یہ حرکت سردارنی کی طرف سے نہیں ہوئی، اس لیے کہ اسے تو کچھ سوجھ ہی نہیں رہا تھا، یہ ہلچل اس کے ٹھیک پاس بیٹھی دونوں روایتی خواتین کی جانب سے ہوئی تھی۔

    یہ دونوں اب بھی اونگھ اونگھ کر غیبت میں مصروف تھیں۔ رات ہو جانے کی وجہ سے غیبت کے موضوع بھی رات یا نیند سے متعلق ہو گئے تھے۔ مثلاً فلانی کو تو رات کے نو بجتے بجتے ہی نیند آنے لگتی ہے یا ڈھکانی صبح کے آٹھ بجے تک سوتی رہتی ہے۔ ان دونوں کا غیبت کا یہ کام تیسری عورت یعنی کھڑی پتنی کے پاس آکر بیٹھتے ہی کچھ دیر کے لیے رک گیا۔ غیبت کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس میں تین عورتوں کے شریک ہونے کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ کانوں کی جو پھسپھساہٹ دو عورتوں کے بیچ مزا دیتی ہے وہ مزا تین میں کہاں۔ یہی وجہ تھی شاید کہ دونوں خواتین کے بیچ کی گفتگو کھڑی بیوی کے بیٹھی بی بی میں تبدیل ہوتے ہی تھم گئی اور دونوں اس کی طرف دیکھنے لگیں۔

    اسی درمیان سردارجی کی اونگھنے والی کیفیت ختم ہو گئی۔ انھوں نے اٹھ کر جیسے ہی اپنی جگہ پر ان خاتون کو دیکھا تو فوراً بولے، ’’او بھیَن جی اتتھے تو میں بیٹھا تھا۔‘‘ عورت نے فوراً اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ ادھیڑ شوہر نے فوراً سردارجی کو جواب دیا، ’’سردارجی، عورت ہیں، کب تک کھڑی رہتیں۔ آپ تو اچھے بیٹھے ہی ہو نیچے۔‘‘ سردارجی معمر ہونے کے ساتھ نرم خو بھی تھے۔ ایک خاتون کے بیٹھنے پر اپنا اعتراض کیسے درج کراتے۔ کچھ نہیں بولے۔ مڑ کر سردارنی سے کچھ پوچھنے لگے۔ کھڑا شوہر اور بیٹھی بیوی دونوں مسکرا رہے تھے۔ اس نے ان کے رویے پر کچھ اعتراض کرنا چاہا لیکن پھر سوچا جانے دو اپنا کیا گیا، جگہ تو سردارجی کی گئی۔

    کچھ دیر تک اس نے کھڑکی کے باہر اندھیرے میں آنکھیں پھاڑکر دیکھنے کی کوشش کی لیکن باہر کچھ سوجھ ہی نہیں رہا تھا۔ وہ پھر اندر آ گیا۔ اس کے ٹھیک سامنے اب بھی لوگ اونگھ رہے تھے۔ وہ بھی اونگھنے لگا۔ کافی دیر تک وہ اونگھتا رہا۔ اس کی اس بے روک ٹوک اونگھ کے پیچھے کئی اسباب تھے۔ جیسے کہ اس کے ٹھیک سامنے آنکھوں ہی آنکھوں میں ہونے والی اشارے بازی کا اونگھ جانا، چھوٹا پریوار سکھی پریوار کی کنبہ جاتی کاوشوں کا تھم جانا اور ٹھیک پاس کھلے غیبت کے دفتر کا بھی اونگھ جانا۔ کافی دیر بعد جب اس کی آنکھیں کھلیں تو اس نے دیکھا کہ زیادہ تر ہم سفر اونگھنے والی اسٹیج سے نیند والی اسٹیج میں داخل ہو چکے ہیں۔ صرف پانچ لوگ ہی جاگ رہے ہیں۔ سردارجی، سردارنی، کھڑا شوہر، بیٹھی بیوی اور خود۔ بیٹھی بیوی اپنے کھڑے شوہر کی فکر میں جاگ رہی تھی اور سردارجی سردارنی کی وجہ سے جاگ رہے تھے، یعنی دونوں جوڑے ہندوستان کی ازدواجی زندگی کی نادر مثال بنے ہوئے تھے۔

    سردارنی کو بیٹھے رہنے میں پریشانی ہو رہی تھی، اس لیے وہ بار بار پہلو بدل رہی تھیں۔ پہلے وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد نیم دراز ہوجاتی تھیں لیکن کھڑی خاتون کے بیٹھی ہونے کے بعد پیر پھیلانے کی جگہ ختم ہوگئی تھی۔ اہلیہ کو پریشان دیکھ کر سردارجی نے دھیرے سے پوچھا، ’’کی ہُوا ویراں والیئے‘‘ لیٹنا ہے؟ سردارنی کی سمجھ میں کوئی جواب نہیں آیا۔ وہ چپ چاپ بیٹھی رہیں۔ سردارجی ان کی تکلیف سمجھ کر بھی چپ رہے۔ اسی درمیان اس نے دیکھاکہ بیٹھی بیوی اور کھڑے شوہر کے درمیان پھر آنکھوں آنکھوں میں کچھ اشارہ ٹائپ کی چیز ہوئی۔ جس کے ہونے کے بعد بیٹھی بیوی کے چہرے پر ایک آدھ انچ لمبی مسکراہٹ پھیل گئی۔

    بیٹھی بیوی کے لہجے میں خلوص کی مٹھاس گھولتے ہوئے سردارجی سے پوچھا، ’’کیا بات ہے بھائی صاحب۔ بھابھی جی سے بیٹھا نہیں جا رہا ہے کیا؟‘‘ سردارجی نے سوچا کہ شاید سیٹ خالی کرنے کے مقصد سے یہ پوچھا جا رہا ہے، اس لیے فوراً ہی جواب دیا، ’’ہاں بھیَن جی، طبیعت خراب ہے، زیادہ دیر بیٹھ نہیں پاتیں۔‘‘ بیٹھی بی بی نے کہا، ’’اب تو سب سو ہی گئے ہیں۔ میرے پاس ایک موٹی دری ہے۔ آپ اسے دونوں سیٹوں کے بیچ بچھا کر ان کو وہاں لٹا دو۔ یہاں انھیں پریشانی ہو رہی ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ اپنے کھڑے شوہر کی طرف مخاطب ہوکر بولی، ’’سنیے آپ ہی تھوڑی جگہ بناکر یہ دری بچھا دیجیے، بھائی صاحب اکیلے ہیں۔‘‘ خودہی صلاح دے کر اور خود ہی اسے منظوری دے کر اس نے بیگ سے دری نکال کر شوہر کی طرف بڑھا دی۔ شوہر نے فرماں بردار بچے کی طرح دری ہاتھ میں لی اور دونوں سیٹوں کے بیچ رکھے سامان کو سیٹوں کے نیچے سرکاتے ہوئے دری کو بچھا دیا۔

    دری بچھتے ہی بیٹھی بی بی نے فوراً سردارجی کا بیگ لے کر اسے دری کے ایک سرے پر تکیے کی طرح رکھ دیا اور سردارجی سے بولی، ’’لیجیے بھائی صاحب، بھابھی جی کو یہاں لٹا دیجیے، یہاں انھیں آرام مل جائےگا۔‘‘ سردارجی نے اٹھ کر سردارنی کا ہاتھ پکڑ کر اٹھا لیا اور نیچے بچھی دری پر لٹانے لگے۔ ان سب میں کھڑا شوہر بھی اپنا تعاون دے رہا تھا۔ سردارنی کے لیٹتے ہی کھڑا شوہر بھی فوراً سردارنی کے اٹھنے سے خالی ہوئی جگہ پر بیٹھ کر بیٹھا شوہر ہو گیا۔ سردارجی نے اسے بیٹھتے دیکھا لیکن کچھ نہ بولے۔ بولتے بھی کیسے، انھیں لوگوں کی دری پر تو سردارنی کو لٹایا ہے۔ سردارجی نے سردارنی کے پیروں کے پاس تھوڑی جگہ بنائی اور وہیں نیچے بیٹھ گئے۔ بیٹھی بی بی نے سردارجی سے کہا، ’’یہاں بھابھی جی آرام سے صبح تک سو سکیں گی۔‘‘ جواب میں سردار جی نے بڑی ملائمیت سے سر ہلا دیا۔

    رات کافی ہو چکی تھی۔ ٹرین پوری رفتار سے بھاگ رہی تھی۔ اسے یاد آیا بچپن میں تاریخ کے استاد باربار اسے سمجھاتے تھے کہ کس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں آئی، پھر دھیرے دھیرے ہندوستان میں پھیلی اور آخرکار پورے ملک پر قابض ہو گئی۔ تب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ تاریخ کا وہ سبق آج جاکر اس کی سمجھ میں آیاکہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے کس طرح ہندوستان پر قبضہ کیا ہوگا۔ اس نے بیٹھی بیوی اور تازہ تازہ بیٹھے شوہر کی طرف دیکھا۔ اسے محسوس ہوا وہ دونوں یونین جیک میں بدل گئے ہیں۔ وہ دھیرے سے مسکرایا اور آنکھیں بند کرکے اونگھنے لگا۔ باقی مسافروں کے ساتھ اب بیٹھا شوہر اور بیٹھی بیوی اور سردارجی و سردارنی بھی اونگھنے کے آگے کا مرحلہ طے کرتے، نیند کی طرف بڑھ رہے تھے، کیوں کہ اب سبھی مطمئن ہو گئے تھے۔ یونین جیک سیٹ پر لہرا رہا تھا اور ہندوستان نیچے دری پر سو رہا تھا۔ وہ بھی دھیرے دھیرے سو گیا۔

    مأخذ:

    ہندی کہانیاں (Pg. 261)

      • ناشر: آج کی کتابیں، کراچی
      • سن اشاعت: 2012

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے