Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

احسان منزل

انتظار حسین

احسان منزل

انتظار حسین

MORE BYانتظار حسین

    کہانی کی کہانی

    یہ افسانہ معاشرتی سطح پر قدیم سے جدید تک کا سفر کرنے، رہن سہن، عادات و اطوار، آداب و سلام کے طریقے میں تبدیلی پر مبنی ہے۔ احسان منزل میں رہنے والے افراد دقیانوسیت کی حد تک روایتی اقدار کے پابند تھے۔ بیٹے کی تعلیم علی گڑھ میں ہونے کی وجہ سے ان کی سوچ میں تھوڑی بہت لچک تو آئی لیکن ذہنیت تبدیل نہ ہوئی ۔ ماں نے جو پابندیاں محمودہ پر لگائی تھیں اسی طرح کی پابندیاں وہ اپنی بیٹی پر لگا رہی ہوتی ہیں۔

    یہ اس زمانے کا ذکر ہے کہ جب علامہ راشدالخیری ابھی زندہ تھےاور رسالہ’’عصمت‘‘ ہر مہینے باقاعدگی سے احسان منزل میں پہنچتا تھا۔ ’’عصمت‘‘ کی خریداری بھی دراصل احسان منزل کی تاریخ کا بہت اہم واقعہ ہے، یہ پرچہ جب پہلی مرتبہ احسان منزل میں پہنچا تو سارے محلہ میں ایک شور پڑ گیا۔ جس نے سنا اس نے دانتوں میں انگلیاں دابیں اور قربِ قیامت کی پیشن گوئی کی۔ اس روز مولوی مہربان علی اپنے بیٹے کے منی آرڈر کی امید میں ڈاک خانہ گئے ہوئے تھے، ڈاکئے اس وقت ڈاک چھانٹ رہے تھے۔ مولوی صاحب کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پیکٹ پہ ماہنامہ ’’عصمت‘‘ دہلی چھپا ہوا ہے اور اس کے نیچے سرخ روشنائی سے شیخ عرفان الحق کی بیٹی کا پتہ لکھا ہوا ہے۔

    مولوی مہربان علی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، وہ اپنا منی آرڈر تو بھول گئے اور ایک تازہ حادثے کے راوی بن کر محلے کو لوٹے، انھوں نے محلہ کے چند سنجیدہ آدمیوں کو یہ واقعہ بڑی رازداری سے سنایا کہ عرفان کے گھر رسالہ آیا ہے اور یہ کہ انھوں نے اس پہ اپنی آنکھوں سے ان کی بیٹی کا نام لکھا ہوا دیکھا ہے۔ لیکن ایسی خبر بھلا چھپتی ہے۔ سارے میں یہ خبر بجلی کی طرح پھیل گئی کہ عرفان الحق کی کنواری بیٹی کے نام رسالے آتے ہیں، کنواری لڑکی کے نام رسالے آنا یہ خود کون سی کم معیوب بات تھی۔ اس پہ طرّہ یہ کہ پتہ میں نام بھی اس کا لکھا ہوتا تھا، دلّی سے یہاں تک کا ڈاک کا سفر کچھ ایسا مختصر نہ تھا، نہ معلوم کتنے مردوں نے اور کیسے کیسے مردوں نے یہ نام پڑھا ہوگا ۔ اگر عرفان الحق ذرا عقل مند ہوتے تو پتہ میں بجائے ’’محترمہ محمودہ بانو معرفت شیخ عرفان الحق‘‘ کی عبارت کے سیدھا سادا فقرہ’’ شیخ عرفان الحق‘‘ بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن ان کی عقل تو کہیں چرنے چلی گئی تھی۔

    جب اس افواہ نے زیادہ زور پکڑا اور اعتراضات ان تک پہنچنے شروع ہوئے تو انہوں نے بات پر پردہ ڈالنے کی بجائے الٹی ہٹ دھرمی دکھائی، جس کسی معترض کا نام ان کے کان میں پڑا، اسے انہوں نے جاہل اور دقیانوسی ٹھہرایا اور علی الاعلان یہ بات کہی کہ عورتوں کی تعلیم کا حکم کلام پاک میں آیا ہے۔ انہوں نے اپنے فعل کے جواز میں مختلف حدیثوں اور روایتوں کے حوالے سے یہ بھی ثابت کیا کہ حضرت فاطمہ زہرا عربی فارسی اور اردو کے سارے علوم پڑھی ہوئی تھیں۔ واقعات سے قطع نظر عقلی دلیل ان کے پاس یہ تھی کہ مدینہ علم کی لختِ جگر اور بابِ مدینہ علم کی رانی جاہل کیسے ہو سکتی تھی، پتے میں محمودہ کے نام کا جواز بھی حضرت فاطمہ زہرا کے نام ہی کا مرہونِ منّت تھا۔ وہ کہتے تھے کہ نبی کی بیٹی سے زیادہ با عصمت اور پردہ دار اور کون ہو سکتی ہے۔ اور ان کا نام آج تک ہزاروں نامحرموں کی زبان پر آتا ہے۔

    عرفان الحق کی ساری دلیلیں برحق لیکن ان کا یہ اقدام تھا باغیانہ ہی، نہ ہوئے شیخ احسان الحق زندہ ورنہ یا تو وہ بیٹی کو کان پکڑ کے گھر سے نکال دیتے یا خود کپڑے پھاڑ کر گھر سے نکل جاتے، یوں زمانے کا طور ان کی زندگی ہی میں بگڑ چکا تھا۔ اور سر سیّد کی تحریک زور پکڑتی جا رہی تھی، لیکن احسان منزل کی روایات پہ انہوں نے آنچ نہیں آنے دی۔

    ان کے آگے دو جوان بیٹیاں بیٹھی تھیں لیکن مجال تھی کہ کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا، پردے کا جو اہتمام سات پشتوں سے چلا آتا تھا وہ بد ستور قائم تھا، شیخ صاحب پردے کی اس روایت پر شدت سے عامل تھے، جس کے زیر اثر کنواری بیٹیاں باپ بھیوّں تک سے چھپتی تھیں، شیخ صاحب کو یہ تو پتہ تھا کہ ان کے دو بیٹیاں ہیں اور عرفان کو یہ معلوم تھا کہ گھر میں اس کی دو بہنیں رہتی ہیں، لیکن ان کی شکل و صورت کیسی ہے، یہ نہ تو باپ کو پتہ تھا اور نہ بھائی کو۔ بڑی لڑکی خدا بخشے بڑی بدنصیب تھی، اس کے نہ تو پھول کھلے اور نہ باپ اور بھائی کی صورت دیکھنی اسے نصیب ہوئے۔

    شیخ صاحب باہر بیٹھے بیٹھے حکیموں اور ڈاکٹروں کا انتظام کرتے رہے اور بیٹی اندر دم توڑتی رہی، اس جنتّی بی بی کا سورج نے سر کھلا دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو اتنا طے ہے کہ مرتے دم تک کسی غیر مرد نے تو کجا باپ اور بھائی نے بھی اس کی صورت نہیں دیکھی۔ احسان منزل کے زنانے میں غیر مرد کا تو شاید ہی کبھی گزر ہوا ہو۔ ہاں بہشتی ضرور آتا تھا، وہ گھنٹوں دروازے پر شور مچاتا اورجب بڑی بوڑھیاں اور بچی بالیاں سب کمروں میں چلی جایا کرتی تھیں تب وہ دبے پاؤں سر جھکائے اندر آتا، گھڑے بھرتا اور نظریں نیچی کئے باہر چلا جاتا۔

    غیر مرد اور ناول اور افسانے کی کتابیں دونوں کو احسان منزل میں ایک ہی حیثیت حاصل تھی، زبانی کہانیوں پر پابندی عائد کرنا تو خیر آدمی کے بس میں نہیں ہے، ویسے ناول اور افسانے کی کتاب کا احسان منزل کے زنان خانے میں کبھی گزر نہیں ہو پایا۔ رہا الف لیلا کا معاملہ تو اس کے گزر کا تو سوال ہی پیدا نہیں تھا پھر بھی وہ اس، زمانے میں ہر گھر میں پر اسرار طور پر موجود رہتی تھی اور کسی وقت بھی کسی بھی تکئے کے نیچے سے برآمد ہو سکتی تھی، البتہ ڈپٹی نذیر احمد کے ناول بے ضرر سمجھے گئے تھے اور زنان خانوں میں پہنچ گئے تھے لیکن شیخ صاحب نے ان پہ بھی روک ٹوک کی۔

    لیکن قدرت بھی بڑی ستم ظریف ہے، بیٹے نے خاندان کی ساری روایات کو خاک میں ملا دیا، بیٹا حضرت نوحؑ کا بھی بہت بدنام ہے لیکن عرفان نے تو کوئی تسمہ ہی نہیں لگا کے رکھا۔ ہر بات میں باپ کی ضد کی، اس نے تو باپ کی زندگی ہی میں ہاتھ پیر نکالنے شروع کر دیے تھے۔ اس نے علی گڑھ کالج میں پڑھنے کے لیے بہت ضد کی لیکن شیخ صاحب نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ بڑھاپے میں مجھے اپنی عاقبت بگاڑنی منظور نہیں ہے۔ مجھے خدا کو منہ دکھانا ہے وہاں کیا جواب دوں گا، لیکن عرفان کے سر پر تو بھوت سوار تھا۔ اس نے ایک روز یہاں تک کہہ ڈالا کہ اصل چیز نیچر ہے، اڑتے اڑتے یہ خبر شیخ صاحب تک پہنچی۔

    انھوں نے سارا گھر سر پر اٹھا لیا، انھیں تو یقین ہو چلا تھا کہ ان کا بیٹا نیچر یہ ہوگیا ہے اور اس بنا پہ وہ اسے عاق کرنے پر بھی آمادہ ہوگئے تھے۔ لیکن خاندان کے بڑے بوڑھوں کے بیچ میں پڑ جانے کی وجہ سے معاملہ رفع دفع ہوگیا، خاندان کے بزرگ نے عرفان کو سمجھایا کہ بیٹا خاندان کی عزّت کا خیال نہیں ہے تو کچھ اپنی عاقبت کا ہی خیال کرو۔ عرفان اس وقت تو چپکا ہو گیا، لیکن دماغ کا کیڑا نہیں نکلا، ایک دفعہ وہ بائیس رجب کے موقع پر نیاز پر بھی اعتراض کر بیٹھا، اس کے بعد اسے وہابی کا خطاب ملا۔

    عرفان کو انگریزی پڑھنی نصیب نہ ہوئی، اس لئے وہ نیچری نہ بن سکا، لیکن شیخ صاحب کے مرنے کے بعد ہی نذر نیاز اور رسم و رواج پہ اس نے اس شدت سے اعتراض کئے کہ لوگوں کو یہ یقین ہو ہی گیا کہ وہ وہابی ہوگیا ہے۔ شیخ صاحب کے مرتے ہی اسے بزرگی کا شرف حاصل ہو گیا تھا اور عرفان سے یکایک وہ شیخ عرفان الحق بن گیا تھا، لیکن جس شخص کے لچھّن یہ ہوں اس کی بزرگی کب تک قائم رہ سکتی تھی۔ چنانچہ تھوڑے ہی دن میں شیخ عرفان الحق، شیخ عرفان الحق کہلانے کی بجائے شیخ عرفان وہابی کہلانے لگے، شیخ عرفان وہابی کا راج کیا آیا احسان منزل کی روایت ہی منقلب ہوگئیں ۔ پہلے بہشتی کا طور یہ تھا کہ دروازہ کھٹکھٹاتا تھا اور جب سب عورتیں اندر کمروں میں چلی جاتی تھیں تو وہ اندر داخل ہوتا تھا۔

    اب وہ منہ پہ تولیہ ڈال بے دھڑک زنان خانے میں چلا آتا تھا، چھوٹی شیخانی دروازے کی اوٹ کھڑے ہو کر خانساماں سے بے محابا باتیں کرتیں تھیں اور اکثر ان کی باتوں کی آواز مردانے میں پہنچ جایا کرتی تھی، شیخانی جی کے زمانے میں یہ عالم تھا کہ۲۲ ِ رجب کی نیاز پرایندھن کی لکڑیوں کو گھنٹوں تڑیڑے دیتیں، تین مرتبہ پاک کرتیں اور پھر ان پہ پوریاں پکاتی تھیں۔ لیکن اب ایندھن تو کجا چمٹا پھنکنی تک کو پاک نہیں کیا جاتا تھا اور پوریاں کمرے سے صحن تک میں آجاتی تھیں، خواہ بیچ میں موری ہی کیوں نہ پڑے۔ محمودہ پندرہ سولہ کے سن میں تھی لیکن باپ کے سامنے بے محابا آتی تھی، اور اب ’’عصمت‘‘ کا پرچہ بھی اس کے نام جاری ہوگیا تھا۔ تھوڑے دن بعد لاہور کا ایک پرچہ ’’تہذیب نسواں‘‘ بھی اس کے نام آنے لگا، اور پھر راشدالخیری کے ناولوں کی وی پیاں اس کے نام موصول ہونے لگیں۔

    ان تمام باتوں کے باوجود احسان منزل میں انقلاب اتنا زبردست نہیں آیا تھا جتنا لوگوں نے سمجھا تھا، بیچارے شیخ عرفان وہابی کچھ ضرورت سے زیادہ بدنام ہوگئے تھے، محمودہ تعلیم ضرور حاصل کر رہی تھی لیکن اسے آزادی کا پروانہ نہیں ملا تھا۔ چھوٹی شیخانی اتنی نا عاقبتِ اندیش نہ تھیں کہ جوان بیٹی کو کھلی چھٹی دہ دیتیں، اگر کبھی اس کا سر بھی ذرا کھل گیا تو چھوٹی شیخانی نے اس پر روک ٹوک کی، ہر جوان لڑکی کا کسی نہ کسی موقع پر الھڑ چال چلنے کو ضرور جی چاہتا ہے لیکن چھوٹی شیخانی تو محمودہ کو فوراً ٹوک دیتی تھیں، ’’بیٹی یہ کیا طور نکالا ہے چلنے کا، سیانی لڑکیاں ایسے نہیں چلا کرتیں۔ کمر جھکا کے چلا کرو۔‘‘ زور سے ہنسنے تک پہ انھیں اعتراض تھا ۔ ہنسی اپنے عروج پر پہنچنے نہیں پاتی تھی کہ وہ بول اٹھتی تھیں، ’’محمودہ یہ کیا ٹھیکرے پھوٹ رہے ہیں ، بیاہ تو ہوجانے دو۔ خوب ہنسنا مگر کنواریت میں ہمیں یہ باتیں اچھی نہیں لگتی ہیں۔‘‘

    محمودہ نے جب ذرا زیادہ بننے سنورنے کی کوشش کی، چھوٹی شیخانی نے اسے یہی تہدید آمیز بشارت دی کہ، ’’بیٹی ماں کے گھر یہ چٹک مٹک اچھی نہیں لگتی، دولہا مل جائے پھر تمہیں آزادی ہی آزادی ہے۔‘‘ محمودہ نے جب اپنی قمیض کا گریبان گردن سے ذرا نیچا کاٹ لیا تھا تو بھی انھیں یہی اعتراض ہوا تھا، محمودہ جب نہا دھوکر یہ قمیض پہن کر نکلی تو چھوٹی شیخانی کا اسے دیکھتے ہی پارہ چڑھ گیا۔ کہنے لگیں، ’’بیٹی کنواریت میں یہ بے حیائی، ماں کا گھر اچھا نہیں لگتا کیا؟ میں تمہیں باندھ کے تو نہیں رکھوں گی، تھوڑے دن کی بات ہے، اپنے گھر میں چلی جاؤ تو پھر جو مزا چاہے کرنا۔‘‘

    اس قسم کے تمام موقعوں پر شیخ عرفان وہابی یا تو غیر جانبدار رہے یا چھوٹی شیخانی کا ساتھ دیا، وہ تعلیم کے قائل تھے آزادی کے قائل نہیں تھے ۔ اگر انہوں نے بیٹی کو انگریزی نہیں پڑھائی تھی تو اس کی وجہ یہی خیال تھا کہ لڑکیاں انگریزی پڑھ کر آزاد ہو جاتی ہیں، وہ روشن خیالی کی انتہا اسی کو سمجھتے تھے کہ لڑکی کو اتنا پڑھا لکھا دیں کہ وہ اصلاحی اور تربیتی کتابیں اور رسالے پڑھ سکے اور محمودہ اتنا پڑھ لکھ گئی تھی۔ عصمت بکڈ پو سے جو کتاب بھی شائع ہوئی، محمودہ نے اسے منگانے کا اشتیاق ضرور ظاہر کیا، شیخ عرفان وہابی کو اس شوق کو پورا کرنے میں اعتراض کبھی نہیں ہوا، لیکن اتنا اہتمام انھوں نے ضرور کیا کہ راشد الخیری کے ناول کم اور تربیتی کتابیں زیادہ منگائی جائیں، راشدا لخیری کے ناول بے ضرر سہی لیکن پھر ناول تھے، نہ معلوم کس ناول میں کیا لکھا ہوا نکل آئے۔ البتہ تربیتی کتابیں منگانے پر وہ خود محمودہ کو مائل کرتے تھے۔

    چنانچہ جب’’عصمتی دستر خوان‘‘ کے لئے اس نے روپئے مانگے تو انھوں نےمطلق ہچر مچر نہیں کی اور پہلی کو تنخواہ ملتے ہی حسب مطالبہ روپئے پکڑا دیے۔ ’’عصمتی دستر خوان‘‘ کی وی۔ پی کے انتظار میں محمودہ نے کئی دن بڑی بے چینی سے کاٹے، ڈاک کے وقت اس بے چینی میں اور اضافہ ہوجاتا تھا، لیکن کم بخت ڈاکیہ آتا اور کوئی خط ڈال کر واپس چلا جاتا، وی پی کی کتابیں محمودہ کے نام پر ہی آتی تھیں۔ اس لئے وی پی براہِ راست محمودہ کے پاس لائی جاتی اور وہ رسید کی چٹ پہ دستخط کرکے کتاب کھولتی، شیخ عرفان وہابی کو وی پی وصول کرنے یا انہیں کھولنے سے کبھی دلچسپی نہیں ہوئی بلکہ الٹی الجھن ہوتی تھی۔ لیکن اس مرتبہ جانے انہیں کیا سوجھی کہ بیٹھک میں جب ڈاکیہ آیا تو انہوں نے خطوط کے ساتھ ساتھ وی پی بھی وصول کرلی، انہیں یہ دیکھ کر کچھ تعجب ساہوا کہ بنڈل پہ عصمت بکڈپو کا نہیں بلکہ کسی دوسرے ناشر کا پتہ درج تھا۔ انہوں نے بنڈل جو کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ’’عصمتی دستر خوان‘‘ کی بجائے پریم چند کا ناول ’’بازارِ حسن‘‘ رکھا ہے۔ شیخ عرفان وہابی سنّاٹے میں آگئے۔

    شیخ عرفان وہابی نے بیٹی سے تو کچھ نہیں کہا لیکن اس دن رات کو شیخ اور شیخانی میں سر گوشیوں میں بہت سی باتیں ہوئیں، محمودہ نے بہت کان لگائے مگر وہ صرف ایک ہی فقرہ سن سکی۔ شیخانی کہہ رہی تھیں، ’’اجی یہ لونڈیا ہمارا منہ کالا کرائے گی، جیسا بھی لونڈا ملے بس اس کے چار بول پڑھا ہی ڈالو۔‘‘ یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ انسان سے زیادہ انسان کی بنائی ہوئی چیزوں کی عمر ہوتی ہے، آدمی میں ہزار عیب سہی لیکن ایک تو وہ اوچھا نہیں ہے، دوسرے اسے اپنی ذات پہ اعتماد ہے، اس لئے وہ ایسی چیزیں بناتا ہے جو اس سے زیادہ عمر پاتی ہیں۔ ’’احسان منزل‘‘ شیخ احسان الحق نے بنوائی تھی، قبر میں ان ہڈیوں کی خاک تک اب سلامت نہ ہوگی لیکن احسان منزل ابھی تک صحیح و سالم کھڑی تھی۔ ’’احسان منزل‘‘ سے زیادہ پرانی ’’احسان منزل‘‘ کی روایات تھیں۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان روایات کی بنیاد کس نے ڈالی تھی اور کس کس کی ذہنی اپج اور نفسیاتی پیچ نے اس کی بنیادوں کو پختہ کیا تھا ۔

    شیخ احسان الحق کا تو اتنا کارنامہ تھا کہ انھوں نے ان کی حفاظت کے لئے ’احسان منزل‘ بنوادی۔ احسان منزل نے کئی دور اپنی آنکھوں سے بنتے بگڑتے دیکھے اور سلامت کھڑی رہی۔ سید احمد نیچری، سے سر سیّد احمد علیہ الرحمہ بنے، ڈپٹی نذیر احمد کافر و مرتد بننے کے بعد مصلح قوم ٹھہرے۔ دیکھتے دیکھتے ان کے ناولوں پہ ایک اور عمارت کھڑی ہوئی اور راشد الخیری کے ناول ہر گھر میں دیکھے جانے لگے۔ پھر اچانک پریم چند کے افسانوں اور ناولوں نے زور باندھا۔ ’احسان منزل‘ اگر اللہ میاں نے بنوائی ہوتی تو اب تک اس کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہوتی۔

    ’احسان منزل‘ کے بزرگ ’احسان منزل‘ سے ہجرت کرکے قبرستان میں چلے گئے تھے، اور کل کے بچوں نے بزرگوں کی حیثیت اختیار کرلی تھی، اب ان کی جگہ بچوں کی ایک نئی کھیپ کمروں اور صحن میں دندناتی نظر آتی تھی، شیخ عرفان وہابی اور چھوٹی شیخانی کی آنکھ بند ہوتے ہی محمودہ نے محمودہ بو کی اور سجا ددولہا نے شیخ سجاد کی حیثیت اختیار کرلی۔ عجلت میں جو بھی شادی ہوتی ہے اس میں کچھ گھپلا ضرور رہ جاتا ہے، سجاد دولہا یوں انٹرنس پاس تھے لیکن تھے نکھٹو اور شادی کے بعد بھی نکھٹو رہے۔

    اس لئے محمودہ کو پرائے گھر جانے کی زحمت اٹھانی نہیں پڑی، احسان منزل میں ہی اس کا گھر بس گیا، نکھٹو پن ہے تو عیب ہی مگر نکھٹو ہوتے ہیں قسمت کے دھنی، بزرگوں کی موجودگی میں ان کی حیثیت کچھ بھی ہو مگر ان کے مرتے ہی وہ خاندان کے مڈھ بن جاتے ہیں۔ بعض نکھٹو دونوں جنم میں مزے اڑاتے ہیں، جوانی میں چھوٹے میاں کہلاتے ہیں، بڑھاپے میں بڑے ابابن جاتے ہیں۔ سجاد جوانی میں چھوٹے میاں اس لئے نہ کہلایا کہ اس نے احسان منزل سے باہر ایک ایسے گھر میں ہوش سنبھالا تھا جس کی مالی حیثیت کچھ ایسی ہی تھی۔ بڑھاپے میں بڑے اباکا مرتبہ اس لئے حاصل نہ ہوا کہ گنتی کے دو بچّے تھے، ایک لڑکا ایک لڑکی۔ ان کی بات قبولِ عام کا شرف کیا حاصل کرتی۔ تو بات صرف اتنی رہی کہ سجاد حسین اپنے گھر سیدھے سادے سجاد رہے۔ ’احسان منزل‘ میں آکر سجاد دولہا بن گئے اور شیخ عرفان وہابی کے مرنے پر شیخ سجاد کی حیثیت اختیار کرلی۔

    بعض خواہشیں نسلوں بعد جاکر پوری ہوتی ہیں، یہ خواہش شیخ عرفان وہابی کی تھی کہ علی گڑھ میں جا کر تعلیم حاصل کریں ۔ وہ علی گڑھ کالج میں تعلیم حاصل نہ کر سکے لیکن ان کا نواسہ بہت دھوم سے علی گڑھ بھیجا گیا، شیخ سجاد نے اسے علی گڑھ بھیجتے وقت گھر میں یہ اعلان کیا تھا کہ، ’’ہم اعجاز کو بی اے تک پڑھائیں گے۔‘‘ اس پہ محمودہ بونے بڑے چاؤ سے کہا، ’’خدا نظر بد سے بچائے، اللہ نے چاہا تو میرا اعجاز خاندان میں پہلا بی اے ہوگا۔‘‘

    اعجاز کی قسمت پہ حمیدہ کو رشک ضرور ہوا تھا لیکن ظاہر ہے کہ اسے علی گڑھ نہیں بھیجا جا سکتا تھا، اول تو یہ کہ علی گڑھ میں ایسا کون سا اپنا بیٹھا تھا جس کے گھر حمیدہ کو چھوڑا جاتا، پھر یوں بھی محمودہ بو اور شیخ سجاد لڑکیوں کو کالج میں تعلیم دلانے کے سخت خلاف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اصل چیز تو تعلیم ہے اور وہ گھر پر بھی حاصل کی جا سکتی ہے، انھوں نے اس خیال کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ اسے عملی جامہ بھی پہنایا۔ چنانچہ انگریزی کا ماسٹر رکھا گیا جو دونوں وقت احسان منزل میں آتا اور پردے کے پیچھے سے حمیدہ کو انگریزی پڑھاتا۔ کہنے والوں نے سب کچھ کہا، ساری برادری میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ محمودہ بو کی بیٹی انگریزی پڑھ رہی ہے۔

    دنیا میں ہر طرح کی طبیعتیں ہوتی ہیں، بعض شریف طبع نیک طینت عورتوں کو اس کا یقین نہیں آیا، سلیمن نانی نے اسے محمودہ بو پہ تہمت قرار دیا۔ لیکن ان کا ایمان کب تک سلامت رہتا، اجّو نے قسمیں کھا کر کہا کہ اس نے اپنی آنکھ سے ’احسان منزل‘ میں انگریزی کی کتاب دیکھی ہے۔ پھر اسی نے یہ روایت بھی سنائی کہ حمیدہ کو ایک ماسٹر پڑھانے آتا ہے، یہ خبر جس نے بھی سنی اس نے کانوں پہ ہاتھ رکھے، سلیمن نانی کو اس واقعہ سے بہت عبرت ہوئی، انہیں بے ساختہ محمودہ بو کی پھوپھی یاد آگئیں، کہنے لگیں، ’’بی بی یہ آج کی سی بات ہے اسی محمودہ بو کی پھوپھی مرتے مر گئی۔ باپ بھیّوں کی صورت نہیں دیکھی اورآج اسی گھر میں ماسٹر پڑھانے آتے ہیں، توبہ توبہ کیا زمانہ آیا ہے۔‘‘ اجّو کا خیال تھا کہ اس واقعہ سے شیخ عرفان وہابی کی روح کو سخت تکلیف پہنچی ہوگی۔

    صرف اس ایک واقعہ پر منحصر نہیں ہے، لوگوں کو ’احسان منزل‘ کے اور بہت سے بدلتے ہوئے طریقوں پہ اعتراض تھے، شیخ عرفان وہابی کے زمانے میں تو بائیس کی نیاز کی پوری صرف صحن میں آسکتی تھیں، اب وہ بیٹھک میں بھی پہنچتی تھیں اور چائے کے ساتھ ناشتہ کا کام دیتی تھیں، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مٹی کے کونڈے بھی غائب ہوتے جا رہے تھے اور ان کی جگہ چینی کے پلیٹ لے رہے تھے۔ خانساماں سے پردہ تو خیر اٹھ ہی گیا تھا۔ کبھی کبھی سقّہ کی آمد کے موقعہ پر بھی یہ ہوتا کہ حمیدہ تو اندر چلی جاتی اور وہ کہتیں، ’’میرے بال سفید ہونے کو آئے، اب میرا کاہے کا پردہ ہے، بھیّا آنکھیں نیچی کرکے آجا۔‘‘ حمیدہ کے لباس اور طور طریقوں میں بھی ایسی تبدیلی آئی تھی جو آج سے پہلے احسان منزل کی کسی کنواری لڑکی میں نہیں دیکھی گئی تھی، حمیدہ نے گریبان کے نئے نئے کٹ سیکھ لئے تھے۔

    محمودہ بو نے کنواریت میں کبھی ڈھیلا پائجامہ نہیں پہنا لیکن حمیدہ تنگ موری کا پائجامہ پہننا اپنی کسرِ شان سمجھتی تھی۔ محمودہ بو نے لوگوں کی باتوں پہ بالکل دھیان نہیں دیا ، ہاں بیٹی پہ کڑی نگاہ رکھی، وہ تعلیم اور آزادی دونوں کی حامی تھیں لیکن بے شرمی کی حامی نہیں تھیں، نیچے گریبان پہ وہ کبھی معترض نہیں ہوئیں لیکن دوپٹہ جب کبھی سینے سے ڈھلکا، محمودہ بو نے سختی سے تنبیہ کی۔ جب ماسٹر پڑھانے آتا تھا تو پردے کے پیچھے وہ بھی بیٹی کے برابر جاکر بیٹھتی تھیں۔

    جب وہ کسی کام میں مصروف ہوتیں تو پھر فوراً گھر کے سارے کام کو چھٹی دے کر اس فرض کو انجام دیتیں، محمودہ بونے یہ بھی صاف کہہ دیا تھا کہ، ’’ہم لونڈیا کو کوئی امتحان نہیں دلائیں گے۔‘‘ ان کا استدلال یہ تھا کہ، ’’ہمیں اپنی بیٹی کو ایف ۔ اے، بی۔ اے کرا کے کوئی نوکری تھوڑا ہی کرانی ہے۔‘‘ محمودہ بو خود پڑھی لکھی تھیں اس لئے اس پہ بھی نظر رکھتی تھیں کہ بیٹی کس قسم کی کتابیں پڑھتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس معاملہ میں زیادہ روک ٹوک نہیں کرتیں تھیں۔ اس وجہ سے ان کی تھوڑی سی بدنامی بھی ہوگئی تھی، یہ بات محلہ بھر میں مشہور تھی کہ محمودہ بو کی لونڈیا ناول پڑھتی ہے اور یہ محض افواہ نہیں تھی۔ حمیدہ نے راشدالخیری ہی کے نہیں بلکہ پریم چند کے بھی ناول پڑھ رکھتے تھے۔ پھر عظیم بیگ چغتائی کی کتابیں پڑھنے کا بھی اسے چسکا ہوگیا تھا، البتہ فحش کتابوں کا احسان منزل میں کبھی گزر نہیں ہوپایا، محمودہ بو یوں محتاط پہلے بھی تھیں لیکن جب ننھی چچی علی گڑھ ہوکر آئیں اور انھوں نے وہاں والوں کی بداطواریوں کا ذکر کیا تو وہ اور بھی چوکنّی ہوگئیں۔

    ننھی چچی کا بیٹا شرافت، علی گڑھ میں تالوں کا کام سیکھتے سیکھتے اب اچھا خاصا مستری بن گیا تھا، ننھی چچی اس کے پاس دو مہینے رہ کر آئیں اور اس کی آمدنی کی طرف سے مطمئن ہوکر واپس آئیں، انھوں نے لڑکے لڑکیوں کا جو واقعہ بھی سنایا وہ حیرت ناک اور عبرت ناک ثابت ہوا، لیکن جس واقعہ کو سن کر واقعی سب عش عش کرنے لگے وہ یہ تھا کہ کالج کی ایک لڑکی نے بے شرمی کے قصّے لکھنے شروع کر دیے ہیں۔ سلیمن نانی کی شرافت طبع پھر ان کے آڑے آئی، انھوں نے اس واقعہ پہ یقین کرنے سے صاف انکار کرد یا، ننھی چچی نے ان کے سر کی بھی قسم کھائی لیکن انھوں نے پھر یہی کہا، ’’نابی بی، میں نہ مانوں گی، ایسا ہوا تو قیامت نہ آجائے گی۔‘‘

    ننھی چچی کو اس پہ اک ذرا غصّہ آگیا، ’’اے لو مجھے جھوٹ بولنے کی ضرورت پڑی تھی، سارے علی گڑھ میں تو اس کا نام روشن ہورہا ہے اور ایسے ویسے گھرانے کی بھی نہیں ہے، سنتی ہوں کہ شریف گھرانے کی لونڈیا ہے، کوئی اغتائی چغتائی والے ہیں، ان کی بیٹی ہے۔‘‘ سلیمن نانی نے بے ساختہ تاؤ میں آکر کہا، ’’خاک پڑے ایسے شریف خاندان پہ جس میں ایسی باتیں ہوویں۔‘‘

    دراصل اس کا سب سے زیادہ اثرمحمودہ بو پہ ہوا، یوں انھوں نے اس کا بالکل اظہار نہیں ہونے دیا، لیکن یہ واقعہ ہےکہ انھیں رہ رہ کر اعجاز کا خیال آرہا تھا۔ اس ذکر نے محمودہ بو کو اچھا خاصا خوفزدہ کر دیا تھا، ان کے دل میں ہولیں اٹھنے لگیں کہ کہیں کوئی لڑکی ان کے اعجاز کو اپنے پھندے میں نہ پھنسا لے۔ ان کا بس چلتا تو وہ فوراً تار بھیج کر اعجاز کو علی گڑھ سے واپس بلا لیتیں۔

    انھوں نے اپنے وسوسوں کا اظہار شیخ سجاد سے خاصی شدت سے کیا تھا، لیکن انھوں نے ہنس کر ٹال دیا، ان کی لاپرواہی رنگ لائی، محمودہ بو کو جس بات کا ڈر تھا وہ ہوکے ہی رہی، شرافت، علی گڑھ سے جب آیا تو اس سنسنی خیز روایت کی امانت ساتھ لایا کہ اعجاز دہریہ ہوگیا ہے، بیٹا مدتوں بعد آیا تھا مگر ننھی چچی کو ہوش کہاں تھا۔ انہیں ایک نیا دکھڑالگ گیا، چادر اوڑھ لپک جھپک احسان منزل پہنچیں، چارپائی پہ بیٹھتے ہی بہہ نکلیں، ’’اجی محمودہ بویہ تمہارے لونڈے نے کیا کیا ہے۔ میرا شرافت آیا ہے، کہوے ہے سارے علی گڑھ میں تھڑی تھڑی ہورہی ہے۔‘‘ محمودہ بو کی جان سَن سے نکل گئی۔

    یہ خبر فوراً مردانے میں پہنچائی گئی اور شیخ سجاد نے شرافت کو بلا بھیجا، شرافت کے پاس اس روایت کے سہارے کے لئے کچھ زیادہ شواہد موجود نہیں تھے، لیکن روایت خود اتنی مضبوط تھی کہ شیخ اعجاز اور محمودہ بو کو اسے قبول کر لینے کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ محمودہ بو خود تو بری ہوگئیں، کچھ الزام انہوں نے قسمت کو دیا اور کچھ شیخ سجاد کو جنھوں نے اسے علی گڑھ پڑھنے بھیجا تھا۔ ان کے ذہن سے یہ بات اتر گئی کہ اس مہم میں شیخ سجاد کو ان کی پوری حمایت و تائید حاصل تھی۔

    اعجاز کو فوراً کھڑکایا گیا اور جب تیسرے دن اعجاز گھر آیا تو شیخ سجاد اور محمودہ بو دونوں کے دل میں شرافت کی روایت کی طرف سے جو تھوڑا بہت شبہ تھا، وہ اس کے حلیہ کو دیکھ کر زائل ہوگیا۔ چوڑے پائینچوں کا گاڑھے کا پائجامہ، گاڑھے کا سفید بنگالی کرتا، سر پہ بالوں کا جھنڈ کا جھنڈ، چہرے پہ عینک، دہریوں کے سر پہ سینگ تو ہوتے نہیں، بس انہیں علامتوں سے پہنچانے جاتے ہیں۔ خیر یہیں تک بات رہتی، لیکن اعجاز نے دلیری یہ کی کہ شیخ سجاد کے منہ پر یہ بات کہی کہ فلسفہ سے خدا کا وجود ثابت نہیں ہوتا۔ شیخ سجاد بہت دونکے دہاڑے اور محمودہ بو خوب روئیں دھوئیں لیکن اعجاز عقیدے کا پکا تھا، ٹس سے مس نہ ہوا۔

    محمودہ بو کی رائے یہ تھی کہ اعجاز کو علی گڑھ واپس بھیجا ہی نہ جائے لیکن شیخ سجاد آخر مرد تھے، انھوں نے سمجھداری سے کام لیا، اعجاز کا انٹر کا دوسرا سال تھا اور امتحان سر پہ کھڑا تھا، انھوں نے کہا، ’’خیر یہ امتحان دے لو، لیکن اب آگے ہم نہیں پڑھائیں گے۔‘‘

    سامانِ سفر سے چیزیں گم ہوتی اکثر دیکھی گئی ہیں اور اعجاز کا سامان یوں بھی عجلت میں بندھا تھا، تنت وقت پہ اسے پتہ چلا کہ اس کی کتابوں میں سے ایک کتاب گم ہے، سارا گھر ڈھونڈا گیا، نورن نے ایک ایک کو نہ چھان مارا لیکن کتاب نہ ملی اور اعجاز اپنی ایک کتاب کھو کر علی گرھ روانہ ہوا، ماں پھر ماں ہوتی ہے، محمودہ کو ہر چند یہ پتہ تھا کہ ان کتابوں نے ہی اعجاز کے دماغ میں فتور پیدا کیا ہے پھر بھی انہیں بیٹے کے جانے کے بعد کئی دن تک اس کتاب کی فکر رہی اور انھوں نے اس سلسلے میں حمیدہ سے لے کر نوکروں تک سب کو تکتکایا کہ، ’’گھر ہے بزار تو نہیں ہے، کتاب جائے گی کہاں یہیں ہوگی ڈھونڈو۔‘‘ یہ سہرا نورن کے سر بندھنا تھا، صبح کو بستر تہہ کرتے کرتے وہ ایک کتاب لے کر محمودہ بو کے پاس پہنچی، ’’بوجی! ذرا دیکھو تو سہی، یہ کتاب تو نہیں ہے اعجاز میاں کی۔‘‘

    محمودہ بو نے کتاب دیکھی تو دم بخود رہ گئیں، کچھ غصہ اور کچھ گھبراہٹ اور حیرت سے بولیں، ’’علی گڑھ والی کی کتاب؟ اری کہاں سے آئی۔‘‘ نورن بولی، ’’بوجی میں حمیدہ بی بی کا بستر جھاڑ رہی تھی، ان کے گدے کے نیچے تھی یہ کتاب۔‘‘ محمودہ بونے اس بات کو پھیلانا مناسب نہ سمجھا، نورن سے وہ کتاب لے لی اور چپکی ہو گئیں، البتہ رات کو جب تخلیہ ہوا تو انھوں نے شیخ سجاد کو یہ واقعہ سنایا اور کہا، ’’نوجوان لونڈیا کا گھر میں بٹھانا ٹھیک نہیں ہے، اچھا برا جیسا لونڈا ملے اسے ٹھکانے لگا دو، اور میں پھر کہتی ہوں کہ امتحان جائے بھاڑ میں اعجاز کو واپس بلا لو۔‘‘

    مأخذ:

    گنی چنی کہانیاں (Pg. 11)

    • مصنف: انتظار حسین
      • ناشر: وکاس پبلیشنگ ہاؤس پرائیویٹ لمیٹڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1992

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے