Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

احساس سے عاری شہر

محمد امین الدین

احساس سے عاری شہر

محمد امین الدین

MORE BYمحمد امین الدین

    مردہ لوگوں سے بھرا ہوا شہر، یہاں کفن ہی کفن ملتے ہیں۔ حد نگاہ کتبے ہی کتبے ہیں۔ ڈھانچے ہی ڈھانچے۔ جیسے شہر نہ ہو ایک بہت بڑا قبرستان ہو۔ ہر قبر ایک دوسرے سے نزدیک مگر ایک دوسرے سے غافل۔ برابر میں کون ہے، نہیں معلوم۔ اوپر نیچے کتنے ہی دفن ہیں، کسی کو کسی کی خبر نہیں۔ بے ہنگم شور۔ ہر مردہ اپنی میں مگن ہے۔ کسی کے قدم نہیں رکتے۔ پھر سلام دعا کیسی۔ خیریت کس سے معلوم کریں۔ اسے بھی یاد نہیں رہا تھا کہ سامنے کوئی آیا تھا جو اس کا اپنا تھا۔ بہت پرانا ساتھ پڑھا ساتھ کھیلا۔ بڑے میدان میں کبھی کرکٹ، کبھی ہاکی اور کبھی کبھی رات گئے تک میدان کے کنارے بنے ہوئے مختصر سے گھاس کے قطعے پر بیٹھ کر بحث و مباحثہ، سب بھول گئے کچھ یاد نہیں۔ اسے بھی اور اسے بھی۔ پھر کیسی شناسائی، کیسی رفاقت، وہ بھی بھول گیا، یہ بھی۔

    سب دوڑ رہے ہیں جیسے سب سے آگے جانے والے کو بہت بڑا انعام ملےگا۔ کیسا انعام! کسی کو خبر نہیں مگرتیزی میں اور تیزی آتی جا رہی ہے۔ روڈ پر ٹریفک کا اژدھام ہے۔

    اچانک شور اٹھا۔ دو گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئی تھیں۔ درمیان میں ایک غریب سائیکل سوار آ گیا۔ پتا چلا مر گیا ہے۔ کسی کو اس کا خیال نہیں۔ اب وہ ایک لاش ہے۔ کفن پہناؤ اور ورثاء کے حوالے کر دو مگر جو کار کا نقصان ہوا ہے وہ بہت زیادہ ہے لہذا کفن نہیں پہنایا جا سکتا۔ تیزی میں کوئی کسی کو نہیں پکڑ سکتا۔

    سڑک کے درمیان میں پڑی لاش ٹریفک کی روانی میں مخل ہو رہی ہے۔ ایک بےیارومددگار لاش۔

    ایک خدا ترس آگے بڑھا۔ فٹ پاتھ کی طرف لاش گھسیٹی، یہ دیکھنے کے لیے کہ کہاں رہتا تھا، ایک پرچہ کسی ڈاکٹر کا لکھا ہوا نکلا۔ کچھ پیسے بھی تھے۔ خدا ترس نے چاروں طرف ہجوم کو دیکھا۔ چور نگاہوں سے جائزہ لیا۔ پیسے مٹھی میں دبا لیے۔ لوگوں کو صرف پرچے کا علم ہوا۔ پیسے غائب ہو گئے۔

    پولیس آ گئی اور انتظام ہو گیا۔ ہجوم چھٹ گیا۔ سب اپنے اپنے کاموں میں مگن ہو گئے۔ بھول گئے کہ ہمارے درمیان کسی کی لاش پڑی تھی جس کی جیب میں ایک دواؤں کا پرچہ تھا مگر وہ دوائیں کس کے لیے لینے جا رہا تھا؟ خود تو بیمار نہیں لگتا تھا شاید روایتی فلموں کی طرح ماں بیمار تھی، نہیں بہن ہوگی، کیا پتا باپ بیمار پڑا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیمار بیوی ہو اور شاید اب بیوہ بھی۔ جوان ہے، شادی شدہ لگتا ہے۔ بچے ہوں گے، وہ بھی یتیم ہو گئے۔

    ’’اف چھوڑو جانے دو۔۔۔اپنا کیا لگتا ہے۔ ہاں بھائی آپ کو کیا چاہیے؟ جی ہاں موجود ہے۔۔۔صرف ستر روپے کی۔۔۔نہیں جی زیادہ نہیں بتائیے اتنے ہی ہوں گے، آپ کی مرضی، مجھے تو کچھ نہیں بچ رہا پھر بھی دے رہا ہوں۔ شکریہ! اے لڑکے! اسے لفافے میں بند کرکے صاحب کو دے دو اور ہاں۔۔۔ذرا ایئر کنڈیشنر کی رفتار بھی تیز کر دو۔۔۔بہت گرمی لگ رہی ہے‘‘۔

    لاش اب بھی پڑی ہے۔ دور سے ایک سائیکل سوار ہاکر اخبار بیچتا آ رہا ہے۔ زور زور سے آواز دیتا جا رہا ہے۔ آج کی اہم خبر شہر کے سب سے بڑے سیٹھ نے خود کو گولی مارکر خودکشی کر لی۔ لوگ دھڑا دھڑ اخبار خرید رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں۔ کیوں گولی ماری؟ اسے کس چیز کی کمی تھی، کیا مجبوری تھی؟ میرے خیال میں اس بار گھاٹا ہو گیا ہوگا۔ نہیں دوسری بیوی نے طلاق لے لی تھی۔ یہ بات بھی نہیں بلکہ ایک لڑکی نے عدالت میں دعویٰ کر دیا تھا کہ سیٹھ اس کے ہونے والے بچے کا باپ ہے۔ حیرت ہے۔ اس قدر دولت اور یہ کرتوت۔ توبہ ہے، بیٹی کے برابر تھی بلکہ اور چھوٹی۔ عزت چلی گئی، اب خودکشی نہ کرے تو کیا کرے۔ لو ایک اور خبر ہے۔ لکھا ہے کہ اپنی وصیت میں سیٹھ نے بےسہارا مرکز کے لیے ۵ لاکھ روپے وقف کیے ہیں۔ چلو ایک نیک کام بھی ہوا۔ گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا۔ مگر وہ بچہ۔۔۔اجی توبہ توبہ۔

    سب اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ دھوپ بہت تیز ہے۔ خوانچہ فروش اپنا ٹھیلہ پیچھے ہٹا رہا ہے۔ دکان کے سائے میں مگر دکاندار نے جھاڑ دیا۔ ’’کہیں اور لگاؤ اپنا ٹھیلا۔۔۔جاؤ‘‘۔ خوانچہ فروش کا منہ اتر گیا۔ واپس دھوپ میں آکر کھڑا ہو گیا۔ اچانک دھوپ میں بھی شدت پیدا ہو گئی۔

    (۱۹۸۲ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے