Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک رات

اے۔ حمید

ایک رات

اے۔ حمید

MORE BYاے۔ حمید

    کہانی کی کہانی

    بے یار و مددگار سرد ٹھنڈی رات میں سر چھپانے کے لیے جگہ تلاش کرتے ایک ایسے شخص کی کہانی، جسے مسجد سے نکالے جانے پر راستے میں ایک دوسرا شخص مل جاتا ہے۔ اس سے مل کر وہ سوچتا ہے کہ اس کے مسئلے کا حل ہو گیا مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی اسی کی طرح پناہ کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔ وہ اسے ساتھ لیکر ایک چائے خانے میں چلا جاتا ہے اور وہاں اپنی کہانی سناتا ہے۔ اس کی کہانی سے وہ اتنا متاثر ہوتا ہے کہ اپنے حالات بدلنے کے لیے بھوکا اور تنہا ہی بےرحم دنیا سے ٹکرانے کے لیے نکل پڑتا ہے۔

    رات سر پر آئی تھی اور میں شہر کی سڑکوں پر بےیار و مددگار پھر رہا تھا۔ پچھلی رات سے میرے پیٹ میں سوائے پانی اور چائے کی پیالی کے کچھ نہ گیا تھا۔ علاوہ ازیں میری جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہ تھی اور آخری سگریٹ میری انگلیوں میں سلگ رہا تھا۔ امید کی آخری کرن بھی بجھ رہی تھی۔

    اتنے بڑے شہر میں میرے پاس کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں نومبر کی سرد رات بسر کی جا سکے۔ اس سے پیشتر جبکہ راتیں خوشگوار تھیں، میں ایک باغ میں سویا کرتا۔ پھر نومبر شروع ہو گیا اور میں ریلوے ویٹنگ روم میں آ گیا۔ یہاں بوڑھے چوکیدار سے واقفیت ہو گئی۔ میں اس کے بیٹے کو انگریزی پڑھا دیا کرتا اور وہ مجھے آرام سے لمبے بنچ پر ٹھنڈے گدے پر سونے کی اجازت دے دیتا۔ مگر وہ بچہ اس قدر نکما اور ضدی تھا کہ مجھے مجبوراً ویٹنگ روم کو خیر باد کہنا پڑا۔ وہاں سے میں نے سیدھا خدا کے گھر کا رخ کیا جہاں تین دن تک تو مولوی صاحب لحاظ ہی کرتے رہے لیکن چوتھے روز انہوں نے بھی لمبی داڑھی میں انگلیاں پھیرتے ہوئے فرما دیا، ’’برخوردار۔ ماں باپ کا دل دکھانا گناہ ہے۔ اپنے گھر جاؤ۔‘‘ اور میں چپکے سے اپنے گھر چلا آیا۔ یعنی پھر انہی لمبی چوڑی سڑکوں پر جو مجھ غریب کی راہ میں ہر قدم پر بچھی جاتی تھیں اور جن کی اڑتی ہوئی گرد میں دوماہ سے پھانک رہا تھا۔

    جس سڑک پر میں چل رہا تھا وہ کافی کھلی اور بارونق تھی۔ کنارے کنارے سبز قمقموں کی قطار دور تک چلی گئی تھی۔ جن کی پھیکی روشنی میں گذرنے والوں کے چہرے مدقوق دکھائی دے رہے تھے۔ لوگ گرم کپڑے پہنے جگمگاتی ہوئی دوکانوں میں خرید و فروخت میں مشغول تھے۔ کافی دیر ادھر ادھر آوارہ گردی کرنے کے بعد جب سردی، تھکن اور بھوک نے میرے اعضاء پر مردنی سی طاری کر دی تو میں نے پھر خدا کے گھر کا رخ کیا۔ مسجد کے بڑے دروازے میں کھڑے ہو کر میں نے دیکھا کہ صحن بالکل خالی تھا اور بڑے کمرے کے محرابی دروازے پھولے ہوئے نمدوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ جوتا باہر اتار کر، صحن کا ٹھنڈا فرش عبور کرکے میں نمدہ اٹھا بڑے کمرے میں داخل ہو گیا۔

    گرم اور پرسکون فضا کے نرم لمس نے لپک کر میرے تھکے ہارے سرد جسم کو اپنی آغوش میں لے لیا اور میں گرتے گرتے سنبھلا۔ کمرہ بالکل گرم حمام بنا تھا۔ زمین پر بھورے رنگ کی چٹائیاں قرینے سے بچھی ہوئی تھیں۔ منقش چھت سے قیمتی جھاڑ فانوس لٹک رہے تھے اور سنگ مرمر کے منبر پر مٹی کے آبخورے میں گلاب کے پھول رکھے تھے۔ جن کی دھیمی دھیمی خوشبو فضا میں تیر رہی تھی۔ ایک کمزور لیمپ کی گدلی گدلی روشنی میں مسجد کا یہ کمرہ اس کے صحن کی طرح بالکل خالی پڑا تھا۔ جس جگہ میں گھٹنے چھاتی سے لگائے، اپنا سر بازوؤں کے حلقے میں چھپائے، سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے قریب ہی جوتے رکھنے کا ڈبہ تھا۔ میرا ذہن شاں شاں کر رہا تھا اور نیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔

    اپنا سب کچھ ہندوستان میں چھوڑ آنے کے بعد اس اجنبی شہر میں، میں دو ماہ سے دربدر پھر رہا تھا اور میرا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ ایک بار پھر اپنے آپ کو خدا کے گھر میں پاکر میرا دل چاہا کہ ہاتھ باندھ کر بصد عجز و نیاز اس کے حضور میں ایک عرض کروں۔ میں پوچھوں کہ میں نے اس کے کس پیغمبر کی توہین کی تھی، جس کی پاداش میں مجھے بھوک، سردی اور ذلت کے سنگلاخ میدانوں میں جلا وطن کر دیا گیا تھا۔

    میں نے نظریں اٹھا کر منبر کی طرف دیکھا، جہاں مٹی کے آبخورے میں سجے ہوئے پھول مجھے بے زبان قیدیوں کی مانند دیکھنے لگے۔ میری نظریں خود بخود جھک گئیں۔ لیکن میرا جسم دکھ رہا تھا اور بھوک کی وجہ سے انتڑیاں پیٹ میں کانٹے دار تاریں بن کر چبھ رہی تھیں۔ میں نے سوچا کاش میں اتنا چھوٹا بن جاؤں کے جوتے رکھنے والے ڈبے میں دبک کر سمٹ جاؤں اور ساری عمر وہیں پڑا رہوں اور کبھی باہر نہ نکلوں۔ میں نے بازوؤں کے حلقے میں سے ایک آنکھ کھول کر ڈبے کو دیکھا۔ اس میں