Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک بچی

ہاجرہ  مسرور

ایک بچی

ہاجرہ مسرور

MORE BYہاجرہ مسرور

    کہانی کی کہانی

    چھ تعلیم یافتہ بہنوں اور ایک ماں پر مشتمل کنبہ کی کہانی ہے جس کی سرپرستی ان کے چچا کرتے ہیں۔ بڑی بہن ایک اسکول میں معلمہ ہے اور باقی پانچوں بہنیں ابھی زیر تعلیم ہیں۔ بہنوں میں آپس میں کبھی اتفاق رائے نہیں ہو پاتا اور وقتاً فوقتاً ایک دوسرے پر چوٹیں کرتی رہتی ہیں۔ بڑی بیٹی کی عمر کافی ہو چکی ہے۔ ایک رات وہ ہیڈ مسٹریس بننے کے خواب دیکھتے ہوئے اپنے روشن مستقبل کے تانے بانے بن رہی ہوتی ہے کہ چچا ایک بچی کو گود لینے کے سلسلہ میں دریافت کرتے ہیں جس کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس کی ممتا جوش میں آ جاتی ہے اور وہ بچی کو گود لینے کا عندیہ ظاہر کرتی ہے۔ وہ اس بچی کے تصور میں گم ہو کر مستقبل کی پلاننگ کر رہی ہوتی ہے کہ اس کی ماں یہ کہہ کر اس کے سارے ارمانوں پر پانی پھیر دیتی ہے کہ ’’پروا کیسے نہیں کروگی جب دنیا کہے گی کہ تمہاری حرامی بچی ہے، پڑھی لکھی لڑکیوں کا نام ویسے بھی بدنام ہے۔‘‘

    اس دن شام ہی سے پھوار پڑ رہی تھی اور مجھے بس خواہ مخواہ ہی تو الجھن ہو رہی تھی۔ ادھر چند سال سے اکثر میری یہی کیفیت رہتی۔ گھٹی گھٹی، دبی دبی بیزاری اور الجھن سی۔۔۔ اس پر شام ہی سے وہ ہلکی ہلکی پھوار۔۔۔ مجھے جانے کیو ں ہلکی ہلکی، دبی دبی کیفیتوں سے نفرت سی ہونے لگتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جھماجھم بارش ہو تو سارا پانی مکانوں کی چھتوں سے ندی نالے کی طرح بہہ کر نکل جاتا ہے۔ لیکن یہ ہلکی ہلکی پھوار تو ایسے غضب کی ہوتی ہے کہ نئے نئے مکان بھی ڈھے جاتے ہیں اس سے۔۔۔ لاکھ کوشش کرنے کے باوجود میں الجھتی ہی چلی جارہی تھی۔۔۔ جتنی لمبی عمر ہو اتنی ہی لمبی الجھنیں۔ سوئی میں لمبا تاگا ڈال کر سینے بیٹھو تو بار بار گتھیاں پڑ جاتی ہیں۔ میری عمربھی تو اب پینتیس سال کے لگ بھگ ہو رہی تھی۔ ہے رے! میرے سرہانے کی کھلی ہوئی کھڑکی سے سرد اور یخ ہوا خاموشی سے داخل ہو رہی تھی۔ اس پر بھی دماغ میں گویا انگیٹھی سی دہک رہی تھی۔

    رات کا ابتدائی حصہ تھا۔ لیکن میری گلی میں انسان تو انسان کتے گم سم ہو چکے تھے اور مجھے اس وقت یہ سکوت ہمیشہ سے کہیں زیادہ کھل رہا تھا۔ گلی کے اس مکان میں رہ کر تو یوں معلوم ہوتا کہ میں بھی وہی کہانیوں والی شہزادی ہوں جسے اس کے باپ نے ناراض ہو کر جنگل کے قلعے میں قید کروا دیا تھا۔ لمبے چوڑے کمرے میں برابر برابر سلیقے سے بچھے ہوئے پلنگوں پر میری ماں اور پانچوں بہنیں لحافوں میں گھسی گٹھریاں بنی پڑی تھیں، چپ چاپ، لحافوں کے ڈھیر تلے ڈھیر، جیسے میری طرح انہیں بھی کوئی الجھن گھیرے ہوئے ہو۔۔۔ ایک کمرے میں برابر برابر پڑے ہوئے پلنگ۔۔۔ جیسے ہم سب قیدی ہوں۔۔۔ یا جنرل وارڈ کے مریض، یا کسی یتیم خانےکے یتیم۔۔۔

    بھئی اللہ! بھئی اللہ۔۔۔! میرے سر میں دھمک سی ہونے لگی، اور جیسے میرے اندر ہی اندر کوئی الجھ کر ٹھنکنےلگا۔ بھئی اللہ! سب سوگئے، سب لحافوں تلے دفن ہوگئے۔۔۔ کوئی بھی نہیں بولتا، کیا سب کے سب حلق تک روٹیاں ٹھونس کر لیٹے یں۔ جو ہوں ہاں تک کرنےکی سکت نہیں رہی۔۔۔ ہاں کھائیں گے نہیں تو اور کیا کریں گے یہ لوگ؟ گویا میری کمائی ہے بھی تو حرام کی۔۔۔ دن بھر ڈیڑھ سو روپلی کے لیے میں اپنا بھیجا کوڑھ مغز لڑکیوں سے پچی کروں اور یہ سب اونگھیں مزے سے حلق تک بھر کے۔۔۔ اور وہ چچا جان بھی تو نہیں آئے اب تک باہر سے! یہ حضرت بھی تو کچھ کم خودغرض نہیں ہیں۔۔۔ بے چارے اپنے بڑے بھائی کے مرنے کے بعد ان کی بیوہ اور بچیوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ کم بخت باتوں کے چکنے، کاموں کے خوار۔ آئیں گے گیارہ بجے باہر سے۔ کون اٹھ کر دروازہ کھولے گا۔ جیسے سب ان کے نوکر ہی تو ہیں۔ بڑے آئے چچا جان کی دم۔

    یقیناً یہ ہماری برائے نام جائداد کے حساب کتاب میں بھی گڑبڑ کرتے ہوں گے، جبھی تو راتوں کو باہر رہتے ہیں۔ بڑھاپے میں جانے کہاں چھچھوندروں کی طرح چھچھیاتے پھرتے ہیں۔۔۔ چچی جان کو مرے ہوئے تیس سال ہوگئے، جبھی سے رنڈوے ہیں۔ کہتے ہیں کہ انہیں ’’مرحومہ‘‘ سے عشق ہے ہاں بھئی ہوگا مرحومہ سےعشق۔۔۔ ورنہ روایت ہے کہ چچی جان زندگی بھر ان کے عشق کی لگام موڑنے کی کوشش کرتی رہیں۔ ٹوکریوں تعویذیں لکھوائیں، سینکڑوں عمل پڑھے، پھر بھی چوکنی کی چوکنی رہیں۔

    ایک دن بھی یوں نہ بیٹھیں جیسے اپنی گرہ سےخریدے ہوئے تخت پر کوئی بیٹھے۔۔۔ مگر بھئی ہندوستانی تو اپنی مردہ پرستی کے لیے مشہور ہی ہیں۔ مرحومہ سے چچا جان کا عشق ہو جانا کچھ عجب تو نہیں، جبھی تو اس سوگ میں راتوں کو باہر رہتے ہیں۔۔۔ میں بھی مرجاؤں گی تو سب مجھے بھی چاہنے لگیں گے۔ ہائے کیا لڑکی تھی کہ عمر بھر شادی نہ کی اور باپ کے بعد ماں بہنوں کو مردانہ وار سنبھال لیا۔۔۔ بھئی اللہ! اس زندگی سے تو بہتر ہے کہ مر جاؤں جلدی سے۔۔۔ مگر ابھی تو اٹھ کر دروازہ کھولنا ہے، کیونکہ بوڑھا فیضو مارے الکسی کے مسٹ مار جاتا ہے۔۔۔ اللہ کرے مرجائیں چچا جان۔۔۔

    اورمیری الجھن بڑھتی ہی گئی۔ روزانہ کی یک رنگی اور بے کیفی کا احساس جیسے نس نس میں چبھنے لگا۔ یہی برابر برابر پڑے ہوئے پلنگ اور میری جوان جوان بہنیں اور بوڑھی ماں۔۔۔ جی میں آیا کہ سب کے پلنگ گھسیٹ گھسیٹ کر گڈمڈ کردوں، میز پر رکھے ہوئے لیمپ پر اپنا تکیہ کھینچ ماروں، اور میز کے نیچے بیٹھی ہوئی پالتو بلی کو اٹھاکر کھڑکی سےنیچے گلی کے سرخ سرخ فرش پر دے ماروں۔ تاکہ وہ اتنے زور سے چیختی ہوئی بھاگے کہ دور تک گلی کا سناٹا درہم برہم ہو جائے۔ میری بہنیں مجھے دیوانہ سمجھ کر چیخیں مارنے لگیں اور میری اماں، اپنی بیٹا صفت بیٹی کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر اپنا سینہ کوٹ لیں۔ مگرمیں نے سوچا، یہ تو ایک فضول سی حرکت ہوگی، کیونکہ اس کے بعد پھر یہی گھر ہوگا اور یہی سب کچھ۔ بس ایک ذرا سا ہنگامہ، جیسے ۱۹۴۲ء کی تحریک آزادی کا مذاق۔ جیسے الیکشن کے کرتب، جیسے نٹوں کا کھیل! جیسے۔۔۔

    ’’بھئی اللہ۔۔۔‘‘ میرے اندر پھر کوئی پاؤں پٹخ کر ٹھنکا۔ میں نے بیزار ہوکر کروٹ بدلی تو میرے سر کے نیچے صبح کا اخبار کھڑکھڑایا۔ میں نے اسے کھسوٹ کر پلنگ کے نیچے پھینک دیا، اخبار پڑھتے پڑھتے بھی تھک گئی۔ ’’پاکستان۔ اکھنڈ ہندوستان۔۔۔ برطانوی ہندوستان۔‘‘ میری الجھن نے ایک نئی راہ سجھائی۔ جی میں آیا کہ بے تحاشہ برطانوی ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگاؤں۔ تاکہ میرے پڑوس میں بسے ہوئے مختلف سیاسی عقائد کے لوگ اک دم چونک پڑیں اور مجھے منہ بھر بھر کر گالیاں دینے لگیں۔ کتنی خوشی کی بات ہوگی کہ ایک بار تو سب کے دل پر ایک سی چوٹ پڑے، ایک ہی درد اٹھے، ایک ہی جذبہ پیدا ہو۔۔۔! میں اپنا نعرہ بلند اور بلند کرتی جاؤں سڑکوں پر، گلیوں میں، شہروں شہروں۔۔۔ یہاں تک کہ گاندھی جی کو اپنے اکھنڈ ہندستان اور مسٹر جناح کو اپنے پاکستان کی ایک حقیقی اور ٹھو س شکل نظر آجائے۔ ’’یعنی برطانوی ہندوستان زندہ باد!‘‘

    مگر میری توبہ! میں کر ہی کیا سکتی ہوں سوائے بستر میں لیٹ کر رات گئے تک الجھنے کے؟ میری زندگی میں کوئی انقلاب نہیں ہوگا۔۔۔ خارجی نہ داخلی۔۔۔ دن بھر لڑکیوں کو پڑھاؤ۔۔۔ ہندوستانیوں کے متعصبانہ غمزے سہو۔ میری ہیڈ مسٹریس سیاست کی ابجد سے ناواقف ہونے کے باوجود خالص اکھنڈ ہندوستانی ہیں۔۔۔ مسلمان استانیوں کی خفیہ پاکستانی میٹنگوں میں شرکت کرو، جن میں ہندوؤں کے کفر سے نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے اور وہ میٹنگیں جو پانی پلانے والی کہاری تک کو دیکھ کر خندہ پیشانی سے منتشر کردی جاتی ہیں۔۔۔ گھر آؤ تو ایک ایک کی سنو، ایک ایک کو سناؤ۔ رات کو پڑے پڑے بھول بھلیوں میں بھٹکو۔۔۔ مہینے کی پہلی کو مٹھی بھر تنخواہ، نون، مرچ اور آٹا، دال کے حسابات کی نذر کرتے ہوئے نئے گرم کوٹ کی تمنا اگلے مہینے پر ملتوی کرتے جاؤ۔۔۔ لعنت ہے۔

    گیارہ بجے چچا جان آئیں گے اپنے پلنگ پر اینڈ اینڈ کر ہماری سرپرستی کرنے کو، تو اس لیے اٹھ کر دروازہ کھو لو۔ چچا جان بقول خود خدا سے ڈرتے ہیں۔ اس لیے ہماری سرپرستی کے لیے حاضر ہوتے ہیں اور حکومت برطانیہ کو مہذب ملکوں کے طعنوں کا ڈر ہے، اس لیے نیم وحشی ہندوستان کو نہیں چھوڑ سکتی کہ کہیں یہ ملک پتھر کے زمانے کی طرف نہ لوٹ جائے۔ کانگریس اور مسلم لیگ الیکشن کے دانے پر چونچیں لڑائے ہوئے ہیں اور میں اور میری بہن ناظمہ خواہ مخواہ ایک چغد سے چھوکرے کے لیے سوچ سوچ کر مری جا رہی ہیں۔ وہ چغد سا چھوکرا جسے محبت تک کرنا نہیں آتی۔ اور جس کی منگنی میرے رشتے کے خان بہادر ماموں کی ادھیڑ عمر صاحب زادی سے ہوچکی ہے۔۔۔

    میں نے دل شکستہ ہوکر بنگال کے ایک ہائی اسکول میں ہیڈ معلمہ کی جگہ کے لیے عرضی دے دی ہے۔ اور ناظمہ نے خودکشی کا ارادہ ترک کرکے ایک مقامی اسکول میں معلمہ بننا گوارا کرلیا ہے۔ حالانکہ وہ ملازمت کو عورت کی توہین تصور کرتی ہے۔ عجیب مذاق ہے یہ دنیا۔۔۔ اللہ کرے ساری دنیا میں ایسی بارش ہو جس میں ایٹم بموں کی جھڑیاں لگ جائیں۔۔۔ مگر بھئی نہ جانے امریکہ اور برطانیہ نے ایٹم بم کے راز سے اللہ میاں کو واقف بھی ہونے دیا ہوگا؟ میرے سر کے اندر دھک دھک سی ہونے لگی۔ نہ جانے یہ دھک دھک اتنی پاؤں چلی کیوں ہے؟ کبھی کہیں کبھی کہیں۔ کم بخت سارا جسم دھڑکن بن کر رہ جاتا ہے۔ میں نے اپنا سر اٹھا کر تکیوں پر دے مارا۔

    ’’پھنیاں بھرت بھرت میں ہاری، ہو موری بہنیاں پرانی۔‘‘ گلی سے جیسے کوئی نشے میں لہکتا ہوا گزرا۔ مست اور بے پروا۔ اور مجھے جیسے ایک دم احساس ہوا کہ میری بانہیں بھی تھک گئی ہیں۔ پانی بھرتے بھرتے تو نہیں، ہاں سینے پر بے کار پڑے پڑے۔ پہلو میں بے قدری سے رکھے رکھے، اور سر پر ہالہ بناتے بناتے۔۔۔ اف بھئی چولھے میں جائیں یہ بے ہودہ خیالات۔ ہاں تو پھر اے اللہ میاں! میری عرضی بنگال میں منظور کروا دو۔ بس وہاں پہنچ کر اپنی موجودہ ماتحتی کا رد عمل خوب دل لگا کر کیا کروں گی۔ مچھلی اور چاول ملا کر معتدل بنائی ہوئی غذا کا استعمال کیا کروں گی اور فرصت کےاوقات میں صرف روحانیات پر کتابیں پڑھاکروں گی۔۔۔ اللہ کرے میری عرضی منظور ہو جائے۔ کھٹ کھٹ۔۔۔ دروازے کی زنجیر کھڑکائی جانے لگی۔

    ’’کنڈی ہولے ہولے کھڑکانا، اور راجہ دھیرے دھیرے آنا۔‘‘ میرے دل میں میرا درد پھر تلملایا۔ مگر دروازہ تو چچا جان کھٹکھٹا رہے ہیں۔۔۔ کمبخت! اللہ کرے کسی دن ہمارے ہاں ڈاکہ پڑے اور لمبے تڑنگے ڈاکو اس گھر کی سب عورتوں کو زبردستی اٹھا کر لے جائیں۔

    کھٹ کھٹ۔۔۔

    نوجوانی کی نیند آگئی بڈھے فیضو کو۔ اور کوئی بھی نہیں اٹھتا۔ نہ اٹھے۔ میں نہیں اٹھنےکی۔ چاہے سردی سے اکڑ کر دم نکل جائے ان کا۔ میری جوتی کی نوک سے۔۔۔ اور گھر میں آدھی آدھی رات تک۔ کھٹ کھٹ۔۔۔ شرم نہیں آتی کنواری بھتیجیوں کا آدھا درجن رکھتے ہوئے۔ ’’ارے کہاں بتائی اتنی رین؟‘‘ فیضو کو شاید رحم آگیا۔ چچا جان زینہ چڑھنے لگے۔ اور مجھے غصہ آنے لگا۔

    ’’جاگ رہی ہو زاہدہ؟ ہاں ابھی رات بھی کتنی گئی ہے۔‘‘ چچا جان نے میرے پلنگ کے قریب رک کر کہا۔

    ’’ہوں۔۔۔!‘‘ میں نے جواب دیا۔

    ’’لو یہ مٹھائی۔۔۔‘‘ انہوں نے رومال کی پوٹلی میرے لحاف پر پھینک دی اور سب لحافوں میں ایک دم کھلبلی مچ گئی۔ ’’بچیوں میں بانٹ دو۔ تبرک ہے۔‘‘ وہ اوور کوٹ اتارتے ہوئے بولے۔ بستروں سے سر بلند ہوئے۔ جیسے واقعی سب بچیاں ہی تو ہوں۔

    ’’ادھر لاؤ! کیا ہے حضرت آپا جانی۔۔۔؟‘‘ تقاضا ہوا تو مجھے غصہ آگیا اس چھچھورے پن پر۔ میں نے پوٹلی اماں کے لحاف پر اچھال دی۔

    ’’کیا بخارات دماغ کو چڑھ گئے آپا جانی؟‘‘ ساجدہ نے حسب عادت ایک بے تکا سا قہقہہ لگایا۔

    ’’نہیں تو۔۔۔ کوئی بات نہیں۔‘‘ میں نے اپنی تلخی کو دبا کر کہا۔ میں کبھی کبھی ان سب سے خواہ مخواہ دبنے لگتی ہوں۔ مٹھائی کے حصے بخرے ہونے لگے اور میں نے لحاف منہ پر ڈال لیا۔ میری الجھن اس چاؤں بھاؤں میں اور بھی بڑھ گئی۔ اور میں نے طے کر لیا کہ بنگال ضرور جاؤں گی۔ بنگال کا جادو مجھ پر چلنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور سنا ہے کہ بنگال کے مرد تو اتنے بزدل ہوتے ہیں کہ اپنے ہاں کی مشہور اور مقبول پیداوار ’’بنگال کے جادو‘‘ پر بڑی آسانی سے غیر بنگالیوں کا قبضہ گوارا کر لیتے ہیں۔ ہونہہ! اپنی چوٹی تو بہت چھوٹی ہے۔ پھر ڈر کیا ہے۔ بس اطمینان سے مچھلی بھات کھاؤں گی۔۔۔ اور۔۔۔ بنگال کا غذائی قحط تو ختم بھی ہو چکا۔

    ’’ایک بچی لوگی۔۔۔ تم میں سے کوئی؟‘‘ چچا جان نے کرسی میں پھنس کر پوچھا۔ اور میں ایک دم بستر سے اچھل پڑی اور میری طرح میری سب بہنیں۔ مگر اماں کو تو جیسے مٹھائی کھاتےکھاتے اونگھ سی آگئی۔

    ’’دہی لوگی دہی!‘‘ گوری سی گھوسن ہر روز ہمارے گھر میں پوچھ جاتی۔

    ’’جی۔۔۔! جی!‘‘ ہم سب یک زبان ہوکر بولے۔

    ’’کسی کال کے مارے بنگالی کی اولاد؟‘‘ اماں نے برا مانتے ہوئے سوال کیا۔

    ’’ارے نہیں بھابی جان۔ ان کنگلوں کی اولاد لے کر کیا کرنا ہے؟‘‘ چچا جان کی عزت پر جیسے حرف آگیا۔

    ’’واہ آپ قحط کی وجہ سے بنگالیوں کو نیچ سمجھتے ہیں۔ قحط جو سرمایہ داروں کا لایا ہوا ہے۔‘‘ زہرا بالکل پنڈت نہرو کے انداز میں گرجی۔

    ’’مگر جناب کال کے مارے لوگوں کی بے بسی سے فائدہ اٹھا کر ان کے لال چھین لینا بھی تو انسانیت کی توہین ہے۔‘‘ فاطمہ بھن بھنائی جسے گدھوں جیسی سنجیدگی کے ساتھ ہائی اسکول کی طالبہ ہونے کا فخر حاصل ہے۔

    ’’اور بھوکے ماں باپ کی گود میں ایک بوند دودھ کے لیے دم توڑتے ہوئے بچے دیکھتے رہنا عین انسانیت ہے۔‘‘ ساجدہ بے تکے پن سے ہنستے ہوئے چلائی۔ بیچاری کو اپنے پھیلے ہوئے دہانے کی ہنسی بہت عزیز ہے۔

    سب کی سب زور سے ہنس پڑیں۔ جیسے کولی لطیفہ ہی تو ہوگیا ہو۔

    ’’لاحول ولا۔۔۔!‘‘ چچا جان کی بیٹھی ہوئی آواز نے سب کو خاموش کردیا۔ ’’تم لوگ تو ہر موقعے پر اپنا اپنا تصنیف کردہ فلسفہ جھاڑنے لگتی ہو۔‘‘ ساجدہ ہنسنےلگی۔ ناظمہ نےگھٹنے پر ٹھوڑی ٹکا کر جھومنا مناسب سمجھا، اور فاطمہ کو اپنے بکھرے ہوئے بالوں میں گرہ دینا یاد آگیا۔ باقیوں نےمحض مسکرانے پراکتفا کی۔ اورمیں جانے کیسے یہ سوچنے پرمجبور ہوگئی، ’’ایک بچہ۔۔۔ ایک بچہ۔۔۔ ایک مجھے مل جائے تو۔‘‘ میری نسائیت کی گود میں مامتا ہمکنے لگی۔

    ’’ارے!‘‘ میں جھینپ سی گئی۔ ’’دھت!‘‘ خان بہادر کا داماد بن کر مست ہے چغد کہیں کا۔ میں تجھ سے کہیں بلند ہوں۔ میں غیر کی اولاد کو بھی اپنا سکتی ہوں۔‘‘ کھسیانی بلی کھمبے پر جھپٹی۔

    باہر بارش کی ہلکی ہلکی پھواریں ننھی ننھی بوندیوں میں تبدیل ہوگئیں اور سائبان پر جیسے کوئی گت بجنے لگی۔

    ’’وہ بچی شریف کی اولاد ہے۔ سمجھیں تم لوگ۔‘‘ چچا جان نے زور دارسفارش کی، ’’تمہاری ہی شرافت کا نتیجہ تو نہیں میاں۔‘‘ اماں نے ہنس کر چھیڑا تو بھتیجیاں کھلکھلا اٹھیں۔ اور میرے دل میں جیسے سمندر کے کھاری پانی کی ایک لہر سر اٹھا کر لپکی کہ کہیں وہ سچ مچ چچا جان ہی کی ریاضتوں کا پھل نہ ہو۔ لعنت۔۔۔ تب تو میں گلا گھونٹ دوں کم بخت کا۔۔۔ ہاں۔۔۔!‘‘

    چچا جان بوکھلا کر بستر پر بیٹھ گئے۔ ’’خدا کی قسم آپ تو مذاق کرتی ہیں بھابی جان۔‘‘ وہ اپنا سفید بالوں سے ڈھکا ہوا سر جھکا کر شرمائے اور مجھے اس قدر بے تکے لگے کہ میں بھی شرما گئی۔

    ’’کس کی بچی ہے وہ۔ کیوں چچا جان؟‘‘ ناظمہ نے پوچھا۔

    ’’ایک غریب آدمی کی۔ اس کی بیوی کا انتقال پرسوں ہی ہوا ہے۔ دو لڑکیاں اور ایک لڑکا چھوڑا ہے اس نے۔ دودھ پیتی بچی چھ مہینے کی ہے۔ وہی مل جائے گی۔ کوئی پرورش کرنے والا نہیں۔ باپ بیچارہ بنئے کا ملازم۔ کہاں بیٹی کو سنبھالتا پھرے۔ بڑی لڑکی ہے سو پانچ برس کی، اور لڑکا تین برس کا۔۔۔‘‘

    ’’لڑکا مل جائے مجھے تو۔۔۔‘‘ اماں کی حسرت زبان پر آگئی۔ حد ہے آدھی درجن لڑکیاں اور لڑکا ایک بھی نہیں۔

    ’’لڑکا تو نہیں دے گا وہ۔۔۔ اس کی نسل چلے گی اس سے۔‘‘ انہوں نے کاروباری انداز میں ٹکاسا جواب دے دیا اور میں سوچنے لگی کہ پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کے جھگڑوں میں پڑنے کی بجائے ہمارے لیڈر اس معمے کا حل کیوں نہیں تلاش کرتے کہ نسل لڑکی چلاتی ہے یا لڑکا؟ کیوں کہ پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کا بنیادی تعلق براہ راست اسی معمے سے ہے۔

    ’’تو پھر لڑکی لے کر کیا کرنی ہے۔ اور پھر دودھ پیتی بچی۔۔۔‘‘ اماں کی دلچسپی ختم سی ہوگئی۔

    ’’بڑی لڑکی بھی ملے گی اس کے ساتھ؟‘‘ ناظمہ نے بقول خود غوریاتے یعنی غور کرتے ہوئے سوال کیا۔

    ’’نہیں پلی پلائی بچی نہیں دے گا وہ۔ چار دن بعد اسے گھر میں پکے پکائے کھانے کی امید ہوگی۔‘‘ انہوں نے جواب دیا۔

    ’’تو پھر کیا فائدہ، جب تک بچی کے ساتھ بڑی لڑکی نہ ملے، جو کم از کم بچی کا گوموت تو کرہی لے گی۔ چند دن بعد اور کچھ نہیں تو گود میں ٹانگے ٹانگے پھرے گی اسے۔ ۔ ۔ لوبھلاصرف چھیچھڑا لے کر کون برسوں کی مصیبت مول لے۔۔۔‘‘ ناظمہ کی دوراندیشی نےاسےلیٹ کر لحاف گردن تک اوڑھ لینے کا مشورہ دیا۔

    ’’میں لوں گی۔۔۔‘‘ ناظمہ کے مقابلے میں مجھے اپنی آواز کتنی بھلی لگی اور ناظمہ نےگردن اٹھاکر مجھےایسی نظروں سےدیکھا جیسے اسے یقین نہ آرہا ہوں کہ وہی زاہدہ ذراسی بچی کو پالنے کے لیےتیار ہے جس نےکبھی اپنی چھوٹی بہنوں کو گودمیں اٹھانے کی زحمت بھی نہ کی تھی۔

    ’’میں بھی لے سکتی ہوں۔ کیا قیمت ہوگی؟‘‘ ناظمہ پر میرے مقابلے میں ضد سوار ہوگئی اور میرے دل پر گھونسہ لگا۔ یہ بہن نہیں سوت ہے میری۔ یہ نہ بیچ میں آتی تو خان بہادر ماموں کو اتنا جوان داماد نہ ملتا۔ کمینی! کاہل دوسرے کے ہونٹوں سے لگا ہوا پانی کا گلاس جھپٹتی ہے۔

    ’’تھو ہے۔۔۔ انسان کی قیمت ادا کریں گی امیر زادی۔‘‘ میں نے جل کر کہا گویا دہکتے ہوئے انگاروں پر تو اڈھک دیا۔

    ’’چپ رہو ناظمہ باجی! آپا جانی کے نزیک انسان کی کوئی قیمت نہیں۔‘‘ ساجدہ نے اپنے مخصوص بے تکے پن سے ہنستے ہوئے بیچ میں پھلجھڑی چھوڑ دی اور میرے مرچیں لگ گئیں۔ جی میں آئی کہ اٹھ کر لگا دوں دو دو تھپڑ ان لڑکیوں کے۔۔۔ چھوٹی ہوکر۔۔۔! میری ساری آزاد خیالی اور ترقی پسندی بے جان سی ہونے لگی۔

    ’’تو بتائیے چچا جان، ورنہ باجی اور آپا جانی بچی کو نیلام پر چڑھا دیں گی‘‘ آمنہ لحاف کے اندر سے چلائی۔

    ’’اس بچی کو پال لو، بس یہی قیمت مقرر کی ہے اس کے باپ نے۔‘‘ چچا جان نے آواز میں رقت پیدا کرکے دلالی کا حق ادا کردیا۔

    ’’اے اللہ ہمارا ملک۔۔۔ !اللہ کرے یہاں بھی اشتراکی انقلاب ہو جائے جلدی سے۔‘‘ فاطمہ کی آواز بھرا گئی۔ ’’بے چارے بچے اور ان کے والدین۔ ہائے اللہ!‘‘ اسے اشتراکیت پر عبور رکھنے کا دعویٰ ہر وقت اکسایا کرتا۔

    ’’اور تمہارا سر۔۔۔‘‘ زہرہ کی قنوطیت گویا ہوئی۔ ’’ہندوستان میں کچھ بھی نہیں ہوگا، کچھ بھی نہیں۔ بس پڑی پڑی سوکھو اور اپنے اندر ایک ناکارہ کمیونسٹ موٹا کیے جاؤ۔۔۔‘‘

    ’’آپ کل صبح بچی کو مجھے دکھا دیجیے۔۔۔ میں اس کی پرورش کروں گی۔‘‘ میں نے فیصلہ کن انداز میں اعلان کیا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ بنگال جا رہی ہوں۔ پینتیس کے لگ بھگ ہوں، صورت بھی ذرا ویسی ہی سی ہے۔ شادی کرنا نہیں یا یوں کہو کہ کرے گا کون مجھ سے شادی۔ یہ بچی مل جائے تو مستقل کنواری رہنے کی شاندار وجہ پیش کردیا کروں گی اور پھر میرے لیے بھی زندہ رہنے کا کوئی مقصد ہو جائے گا۔

    باہر بارش تیز ہو رہی تھی۔

    ’’کیا کروگی بچی لے کر؟ تمہارے پالنے کے لیے اتنی بہت سی بہنیں کیا کم ہیں؟‘‘ اماں نے میری دوڑتی ہوئی گاڑی کے آگے پتھر لڑھکایا۔

    ’’جی!‘‘ مجھے رونا سا آگیا۔ ’’میری بہنیں۔ میں انہیں پالتی رہوں۔ چاہے یہ سب مجھے جوتی کی نوک پر بھی نہ رکھیں۔ میں کسی سے کوئی گلہ نہیں کرتی۔ مگر یہ ضرور چاہتی ہوں کہ میرا بھی کوئی ہو۔ میرا اپنا۔ مجھے اس پر بالکل اختیار ہو۔۔۔ میں چاہتی ہوں۔۔۔ میں چاہتی ہوں۔۔۔‘‘ میری آواز بھرانے لگی۔ آنکھیں جل اٹھیں اور کنپٹیاں دل کی طرح دھک دھک کرنے لگیں۔

    ’’ذاتی ملکیت کا جنون انسانیت کو تباہی کے غار میں دھکیل کر رہے گا۔‘‘ فاطمہ جوش کے ساتھ بولی۔ ’’آپ اس غریب بچی کو اس لیے پالیں گی کہ اس پر آپ کو پورا اختیار ہو۔۔۔ کارل مارکس کہتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’چپ رہو مارکس کی نانی۔‘‘ زہرہ بڑبڑائی۔ ’’آپاجانی ہمیں روپیہ دیتی ہیں۔ اس لیے ہمیں یوں ذلیل کرتی رہتی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں ہماری بدنصیبی، اس سے پہلے کہ ہم کسی لائق ہوتے ابا مرگئے۔ خیر اطمینان رکھیے ہم زیادہ دن اپنا بوجھ آپ پر نہیں رہنےدیں گے۔‘‘ آمنہ نے لحاف کے اندر سے زہرہ کے محاذ پر کمک پہنچائی۔

    ’’اپنی چونچ بند کیجیے مستقل کی استانی جی۔‘‘ فاطمہ جھلا کر بولی۔

    ’’بھئی اللہ! میرا جی چاہتا ہے اپنا سر پھوڑ لوں۔ میری حالت کا کسی کو اندازہ نہیں۔ مجھ سے کسی کو ہمدردی نہیں۔ میں کسی سے اپنا دکھ درد نہیں کہہ سکتی اور اگر کہوں تو سب مجھ نکو بنا لیتے ہیں۔۔۔ یہ ہے میری وقعت۔۔۔‘‘ میں پوری یکسوئی سے رونا چاہتی تھی۔

    ’’چچ چچ۔۔۔‘‘ ناظمہ نےکروٹ بدل لی۔ اور میرا جی چاہا اسی وقت خودکشی کر لوں۔

    ’’تو پھر وہ بچی۔۔۔‘‘ فاطمہ نےاصل موضوع پکڑا۔ ’’آپ کل ضرور اسے دیکھ لیجیے آپا جانی۔‘‘

    ’’ہاں کل اسے لے آؤں گا۔ زاہدہ تم اسے پال لو بڑا ثواب ہوگا۔ دستوں کی بیماری میں مبتلا ہے۔ علاج ہو گیا تو ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘ چچا جان بولے۔

    ’’عذاب ہو جائے گی نگوڑی۔ جو بھی لے اپنے ذمے داری پر لے۔ مجھ سے اب بچوں کی چھیچھا لیدر نہیں ہوگی۔ صاف بات ہے۔‘‘ اماں نے پھر ایک پہاڑ لڑھکانے کی کوشش کی۔ ’’میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تم میں سے کوئی اسے نہیں پال سکے گا۔ بڑے دل گردے کا کام ہے بچے پالنا۔ ابھی تم لوگوں کو شعور ہی کہاں ہے۔‘‘

    ’’اماں جان! آپ کے ہاں آپا جانی کوئی چودہ سال کی عمر میں پیدا ہوئی تھیں نا؟‘‘ فاطمہ ایسے موقعوں پر ہمیشہ زہر چھڑکتی۔ اماں تپ کر چپ ہوگئیں۔

    ’’اگر وہ خوبصورت ہو تو آپ ضرور لے لیجیے۔‘‘ ہنسی کے جھٹکوں میں ساجدہ بولی، ’’گھر بھلا لگے گا بچے سے۔ میں اس کے لیے اچھی اچھی فراکیں سیوں گی۔‘‘

    ’’اس کے باپ سے پکے اسٹامپ پر لکھوا لیجئے گا کہ اس نے ہمیشہ کے لیے بچی ہمیں دی۔ اب اس کا کوئی اختیار نہیں رہا۔‘‘ آمنہ کہنے لگی۔

    ’’اچھا اچھا آ تو جانے دو۔ لڑکی ذات ہے چار دن میں بڑھ کر اس لائق ہو جائے گی کہ گھر کے چار کام کاج کر دیا کرے گی۔ آپا جانی کے پاؤں دبا دیا کرے گی۔‘‘ زہرہ نے کہا۔

    ’’ہاں بڑھاپے میں کچھ تو سہارا ہوگا ان کو۔‘‘ ناظمہ اپنے سر پر دندناتے ہوئے بڑھاپے کو بھول رہی تھی۔

    ’’لعنت ہے سب پر۔ ایک معصوم بچی کے لیے بیٹھی غلامی کا جال بن رہی ہیں۔ اس سے تو مر جائے وہ۔‘‘ فاطمہ چلائی۔

    ’’اپنی اپنی رائیں محفوظ رکھیے آپ لوگ۔‘‘ مجھے ایک دم تاؤ آنے لگا۔ ’’تمیز بھی ہے بات کرنے کی۔۔۔ چچا جان صبح بچی کو ضرور لے آئیے۔‘‘ میں نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

    ’’اچھی بات ہے بابا۔۔۔ اب سب سو جاؤ۔ رات کافی آگئی۔‘‘ چچا جان سونے چلے گئے۔

    باہر بارش کا شور بڑھ رہا تھا۔

    ’’میاؤں۔۔۔ میاؤں۔‘‘ پالتو بلی میرے پلنگ کے نیچے گھوم گھوم کر گویا چچا جان سے نافرمانی کرنے لگی۔۔۔ میں نے اپنا جسم ملائم تکیوں پر گرا دیا۔ ٹھنڈ کی ایک لہر سی میرے جسم میں دوڑ گئی۔ ایک ننھی سی، ہنستی کھیلتی، ہاتھ پاؤں مارتی بچی میرے احساسات پر چھانے لگی۔ زندگی کی تمام محرومیاں اور ناکامیاں جو کانٹوں کی طرح مسلسل کھٹکتی تھیں، اس وقت ذہن میں یوں دب گئیں جیسے تھیں ہی نہیں۔ میری ہنڈیا کھدبد کھدبد پکنے لگی۔ اور میں فاقہ زدوں کی طرح اس کے گرد ناچنے لگی۔

    میں اسے لے کر بنگال چلی جاؤں گی۔ ان سب سے دور۔ یہ بہنیں جو جونکوں کی طرح مجھ سے چمٹی ہوئی ہیں، انہیں نوچ پھینکوں گی۔ اس ماں سے دور جسے مجھ سے زیادہ میری کمائی سے محبت ہے، اسے یہیں منہ پھیلائے چھوڑ جاؤں گی۔۔۔ چغد خان بہادر کے داماد پر تو لعنت۔۔۔ میں بنگال پہنچ کر ایک آیا رکھ لوں گی جو خاص طور پر میری بچی کو لیے اسکول میں میرے سامنے رہے گی۔ میں ٹھاٹ سے ہیڈ معلمہ کی کرسی پر بیٹھ کر تمام استانیوں اور لڑکیوں پر حکومت کروں گی۔ اور بچی آیا کی گود میں لیٹی مجھے دیکھ دیکھ کر کلکاریاں مارا کرے گی۔ اسکول سے واپس آکر میں تو بس بچی ہی کے کام میں لگ جایا کروں گی۔ اسے اچھی طرح نہلا دھلا کر خوبصورت سلے ہوئے کپڑے پہناؤں گی، کنگھی کروں گی اور پھر صفائی سے دودھ بنا کر اپنے ہاتھ سے پلاؤں گی۔۔۔

    میں خود بنگالی عورتوں کی طرح ایک ہلکی سی دھوتی میں اپنا پورا جسم لپیٹ کر، بال کھول کر، ٹھنڈی ٹھنڈی زمین پہ بیٹھی اس کا پالنا جھلایا کروں گی۔۔۔ چندا کا پالنا، کرنوں کی ڈور۔۔۔ آہا! بیٹا موسیقی کی لہروں میں بہتی پر سکون نیند کے خوبصورت جزیرے میں پہنچ جایا کرے گی۔ اور میں اس کے ننھے ننھے ہونٹوں پر مچلی ہوئی معصوم مسکراہٹ دیکھ کر مسکرانے لگا کروں گی۔ سچی اور مامتا سے مملو مسکراہٹ۔۔۔ آہ! رات کو میں اسے اپنے پہلو میں لٹا کر لوری دیا کروں گی، آجا ری نندیا تو آجا ذرا، بیٹا کو میری سلا جا ذرا۔۔۔ وہ میرے سینے سے لپٹی آنکھیں جھپکا جھپکا کر مسکراتی ہوئی سو جایا کرے گی۔۔۔ زلف بنگال کی سی سیاہ راتوں میں جب میں کوئی خواب دیکھ کر چونکوں گی تو میں تنہا نہیں ہوں گی بلکہ وہ میرے سینے سے لگی ننھی ننھی سانسیں لے رہی ہوگی. آہ میرے میرے اللہ!

    اور پھر میری ننھی تھوڑے دن بعد بولنے لگے گی۔ میری باتیں سمجھنے لگے گی۔ میں ہنسوں گی تو وہ قہقہے لگائے گی۔ میں روؤں گی تو وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے میرے آنسو پونچھے گی۔ جب کبھی میں کچھ سوچ کر چپ ہو جایا کروں گی تو وہ میرے چہرے کو اپنے نرم نرم ہاتھوں میں دبا کر اپنی فکرمند آنکھیں میری آنکھوں میں ڈال کر وجہ پوچھا کرے گی اور میں اسے اپنے سینے سے بھینچ لیا کروں گی۔ ’’میری ننھی! میری بچی! کوئی بات نہیں۔ کوئی بھی بات نہیں۔ کتاب اٹھا لاؤ میں تمہیں پڑھاؤں۔‘‘ اور میری ننھی نہایت ذہانت سے فرفر اپنا سبق پڑھ ڈالا کرے گی۔۔۔ اللہ! میری ننھی مجھے مل جائے اللہ! میرا دل مارے خوشی کے زور زور سے دھڑکنے لگا۔

    ’’سنو جی تم لوگ!‘‘میں نے سر اٹھا کر مارے خوشی کے سب کو اپنا اونچا مکان دکھانا چاہا۔ ’’میں بچی کو صرف اس لیے لے رہی ہوں کہ اسے اپنی بچی سمجھوں۔ سمجھیں تم لوگ؟ خواہ وہ کالی کلوٹی ہو۔ خواہ اس کا نقشہ باورچی خانے میں بکھرے ہوئے جوٹھے برتنوں کی طرح ہو۔ میں اسے ماں بن کر پالوں گی, میں اسے اپنے ساتھ بنگال لے جاؤں گی۔ میری زندگی اب اس کے لیے وقف ہے۔‘‘ میرے مکان کے کنگرے آسمان کو چھونے لگے۔

    ’’ہوں۔۔۔! ہوں!‘‘میری بہنیں اس طرح ’’ہوں ہوں‘‘ کرنے لگیں جیسے کہانی سن رہی ہوں۔

    ’’تم لوگ مجھے کیا سمجھتی ہو؟ کیا میں اتنی قربانی نہیں کر سکتی اس بچی کے لیے؟‘‘ مجھے غصہ آگیا۔

    ’’ہیئر۔۔۔ ہیئر۔‘‘ ساجدہ نے تالیاں بجائیں۔

    ’’بدتمیز کہیں کی۔۔۔ کمینی۔‘‘ میری زبان مارے تاؤ کے اینٹھ کے رہ گئی۔

    ’’زاہدہ!‘‘ اماں نے پکارا۔

    ’’کہیے؟‘‘ میں نے جیسے پھٹ کر پوچھا۔

    ’’بچی سے محبت کرو گی۔ اس کے لیے زندگی وقف کر دوگی تو دنیا کیا کہے گی؟‘‘ اماں کے لہجہ میں بزرگانہ سختی تھی۔

    ’’کیا کہے گی دنیا۔۔۔ میں پروا نہیں کرتی۔ ہاں۔‘‘ میں نے ساری دنیا کو جوتی کی نوک پر رکھ لیا۔

    ’’پروا کیسے نہیں کروگی جب دنیا کہے گی کہ تمہاری حرامی بچی ہے، پڑھی لکھی لڑکیوں کا نام ویسے ہی بدنام ہے۔‘‘ وہ کہنے لگیں۔

    اڑڑادھم۔۔۔ میرا مکان ڈھے گیا۔

    ریل چھوٹ گئی۔ میں خالی پلیٹ فارم پر کھڑی تھی۔ اور کانوں میں انجن سنسنا رہا تھا۔

    میں چپ ہوگئی۔ میں اسے اپنی بچی سمجھوں گی اور کہوں گی۔ لیکن کوئی اور کہہ دے گا تو۔۔۔ کوئی اور یہی سمجھے گا تو۔۔۔ میں تو ڈوب مروں گی میرے کنوار پنے پر تو خواہ مخواہ کلنک لگ جائے گا۔ ممکن ہے بنگال میں کوئی میرا منتظر ہو۔۔۔ ممکن ہے۔۔۔ مگر یہ حرامی بچی کا ٹیکہ دیکھ کر کس میں ہمت ہے کہ مجھ سے شادی کرے؟ شادی کی دبی ہوئی خواہش نے بھرپور وار کیا۔

    بھئی اللہ۔۔۔! بھئی اللہ۔۔۔ میں پھر الجھنے لگی۔

    باہر پھوار گر رہی تھی۔۔۔

    مأخذ:

    سب افسانے میرے (Pg. 512)

    • مصنف: ہاجرہ مسرور
      • ناشر: مقبول اکیڈمی، لاہور
      • سن اشاعت: 1991

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے