aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک ماں کے دو بچے

علی عباس حسینی

ایک ماں کے دو بچے

علی عباس حسینی

MORE BYعلی عباس حسینی

    کہانی کی کہانی

    اس کہانی میں سماجی ہم آہنگی کو بیان کیا گیا ہے۔ شیخ سعید کلکتہ میں پردیسی ہیں، فرقہ وارانہ فساد کی آگ بھڑک رہی ہے، وہ نوزائدہ نواسہ کے لئے دودھ لے کر لوٹ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں ایک ہندو جسونت رائے قتل کرنے کی نیت سے اغوا کر لیتا ہے، جسونت کے جوان بیٹے کو مسلمانوں نے قتل کر دیا تھا، لیکن جب شیخ سعید اسے بتاتے ہیں کہ ان کا جوان بیٹا اور بیٹی اسی جنون کی نذر ہو گئے ہیں اور ان کا تین دن کا نواسہ بھوک سے ہوٹل میں تڑپ رہا ہے تو جسونت کے اندر ایک دم تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ میرا بھائی میرا بھائی کہہ کر شیخ سعید سے لپٹ جاتا ہے اور وہ پھر ان کو اپنے گھر لاتا ہے اور شیخ سعید کے نواسے کو اپنی بیوہ بہو کی گود میں دے دیتا ہے کہ یہ تیرا دوسرا بچہ ہے، جس کے دو بچے ہوں اس کو شوہر کا غم کیوں ہو۔

    کلکتے میں جو وہائٹ وے لیڈلا کی دکان ہے، اس میں ایک شریف مسلمان ترکی ٹوپی پہنے اور ڈھیلی ڈھالی شیروانی زیب تن کئے ایک بنڈل ہاتھ میں لئے دروازے کے پاس کھڑے سڑک پر گھبرائی ہوئی نظریں ڈال رہے تھے۔ اپریل کا مہینہ تھا اور وہ زمانہ، جب ہر جاہل ہندو مسلمان خواہ مخواہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا، موقع کا جویا، خونخوار جانوروں کی طرح گھات میں لگا رہتا تھا۔ سڑکیں ویران تھیں اور کاروبار بند، لوگ گھروں کے اندر بیٹھے ہوتے یا کوٹھوں پر سے جھانکتے اور پتھر مارتے دکھائی دیتے تھے۔

    عجیب طرح کی دیوانگی تھی، کل تک جن سے بھائی چارہ تھا، جو ہمسایہ سے زائد عزیزوں کی طرح ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہتے تھے، آج وہی تلواروں اور چھروں پر سان رکھوا رہے تھے، اورمذہب کی آڑ میں وہ سب کچھ کرنے کے لئے تیار تھے، جو بہایم بھی نہیں کرتے۔ اس لئے کہ خونخوار جانور اگر کسی کو مارتے ہیں تو شکار کے لئے اور اپنا پیٹ بھرنے کے واسطے۔ ان انسان صورت جانوروں کے پاس وہ عذر لنگ بھی نہ تھا! اس پربھی باہمی نفرت و بغض کے دریا کی ایک ایک موج بیسیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی تھی۔

    آج کا ہنگامہ خاص طور پر سخت تھا۔ شیخ سعید نہ معلوم کن دقتوں سے وہائٹ وے کی دکان تک پہنچے تھے۔ اور اب ضرورت کی سب چیزیں خرید چکنے کے بعد فکر میں تھے کہ اپنی قیام گاہ تک کس طرح پہنچ جائیں۔ بارے ایک کرایہ کا موٹر آتا ہوا دکھائی دیا۔ شیخ صاحب نے ہاتھ اٹھا دیا اور موٹر ان کے قریب آ کر رک گیا، ابھی با اطمینان اس میں بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ ایک شخص نے جو اندر ہی بیٹھا ہوا تھا، ان کے منہ میں رومال ٹھونس دیا اور ان کی گردن پرچھرا رکھ کر بولا، ’’اگر تمہارے منہ سے ذرا بھی آواز نکلی تو یہ چھرا تمہاری گردن کے پار ہوگا۔‘‘ پھر سکھ ڈرائیور سے بولا، ’’وکٹوریہ میموریل!‘‘

    موٹر کی رفتار شیخ جی کے دل کی حرکت کی طرح رفتہ رفتہ تیز ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ وکٹوریہ میموریل کے قریب کا میدان آ گیا، موٹر انہیں صاحب کے اشارے سے شاہراہ سے علیحدہ میدان میں موڑ دیا گیا۔ شیخ صاحب نے اتنی دیر میں کنکھیوں سے ڈرتے ڈرتے کئی مرتبہ اپنے صیاد کو دیکھا۔ یہ ایک چھریرے بدن کا معمر شخص تھا اور ان کی طرح پردیسی معلوم ہوتا تھا۔ اس لئے کہ اس کی وضع اور چہرے کی ساخت بنگالی نہ تھی اور کھدر کا کرتا اور سر پر بڑی سی چوٹیا دونوں یوپی کا مارکہ تھے۔

    اس وقت پانچ بج چکے تھے اورمیموریل کے سفید گنبد پر آفتاب کی سنہری کرنیں اس طرح کی خوبصورت نقاب ڈالے ہوئے تھیں جیسے کوئی ’ماہ رو‘ زرد ریشمی دوپٹے کے آنچل کا گھونگھٹ نکال لے۔ گنبد کے نیچے کی عمارت پر سیاہی پھیل چکی تھی۔ سبزے کا رنگ کا ہی سے بھی زیادہ گہرا ہو گیا تھا۔ شیخ صاحب ان باتوں کو نہ دیکھ سکے، آنکھوں میں تو چھرے کی چمک بسی ہوئی تھی، جوان کی شہ رگ سے ملا ہوا تھا اور جس کے ڈر سے کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔ موٹر رکتے ہی انہوں نے ایک مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھا اور اس کے بعد بولے، ’’بھیا تم مجھے یقینی مار ڈالو۔ لیکن خدا کے واسطے میرے دو سوالوں کو پورا کر دو!‘‘ بابو صاحب بولے، ’’اچھا جلدی سے کہو۔ لیکن پورا کرنا نہ کرنا ہمارے اختیار میں ہے۔‘‘ سعید نے کہا، ’’پہلے تو مجھے یہ بتلا دو کہ تمہارے جیسا پڑھا لکھا آدمی میرے خون کا کیوں پیاسا ہو گیا؟ میں نے تمہارا یا کسی اور ہندو کا کیا بگاڑا ہے؟‘‘

    بابو بولے، ’’آج کل تو یہی کافی ہے کہ تم مسلمان ہو! لیکن نہیں میں تمہیں اپنی داستان بھی سناؤں گا۔ میں الہ آباد کا رہنے والا ہوں۔ مجھے یہاں آئے ہوئے صرف ایک ہفتہ ہوا ہے۔ جب میں یہاں آیا تھا تو میرے ساتھ میرا بیٹا۔۔۔ ہائے رام۔۔۔ میرا بیٹا۔ میرا سندر کرشن! نہیں میں تجھے کچھ نہ بتاؤں گا۔ مسلمان کتے ہیں کتے! ان میں نام کو بھی دیا نہیں ہوتی۔ اب تم مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ!‘‘ یہ کہہ کر وہ لال لال دیدے نکالے دانت پیستا سعید کی طرف بڑھا مگر وہ چپکا اسی طرح کھڑا انہیں دیکھا کیا۔ پھر آہستگی اور نرمی سے بولا، ’’بابو جی میں بھاگا نہیں جاتا۔ آپ مجھے ضرور مار ڈالیں۔ لیکن صرف اتنی انسانیت سے کام لیجئے کہ مجھے اپنی دکھ بھری کہانی سنا دیجئے۔ میں بھی اس منحوس شہر میں پردیسی ہوں۔ کم از کم ایک دوسرے کی حالت توسن لیں۔‘‘

    بابوجی نے بڑے جبرے سے کام لیا اور اپنے جوش انتقام کو روک کر بولے، ’’آج تین دن سے ہم لوگ گھر سے باہر نہیں نکلے تھے اورمیری بہو جس کی گود میں چھ مہینے کا بچہ ہے، اس کے منہ میں ایک دانہ بھی اڑ کر نہ پہنچا تھا۔ آج صبح کرشن سے بچے اور بیوی کی حالت نہ دیکھی گئی اور گھر سے کچھ کھانے پینے کا سامان لینے نکلا ہی تھا کہ دو مسلمانوں نے اسے دیکھ لیا اور پاگل کتے کی طرح اس پر جھپٹ پڑے۔ وہ غریب یہ پکارتا ہی رہا کہ ’میں پردیسی ہوں۔ تمہارے جھگڑوں سے مجھے کوئی مطلب نہیں۔‘ لیکن انہوں نے لاٹھیاں برسا دیں اور میری آنکھوں کے سامنے۔۔۔ ہائے انہیں پھوٹی آنکھوں کے سامنے میرے بالک کے سرسے بھیجا بہہ گیا اور میں کھڑا ہاتھ ہی ملتا رہ گیا۔ اب اس ظلم کے بعد تم کیسے امید رکھتے ہو کہ میں اپنے بس میں آنے کے بعد کسی مسلمان کو زندہ چھوڑوں گا؟ میں نے کرشن کی تڑپتی ہوئی لاش پر قسم کھائی ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں گا، ہر مسلمان کے خون کا پیاسا رہوں گا۔ اب تم تیار ہو جاؤ۔ اب دیر نہیں ہو سکتی۔‘‘

    شیخ سعید نے بہت ہی گڑگڑاکر کہا، ’’بھیا ایک اورسوال پورا کر دینے کا وعدہ کرو، اور اس کے بعد چھرا بھونک دو۔ میں نہایت خوشی سے تیار ہوں۔ مجھے زندگی کچھ زیادہ پیاری نہیں۔ میں تو موت کو رحمت سمجھوں گا۔‘‘ بابو جی بھڑک کر بولے، ’’ باتیں نہ بناؤ۔ تم مسلمانوں کو چکنی چپڑی باتیں کرنا خوب آتی ہیں۔ اپنا مطلب کہو۔‘‘

    سعید نے کہا، ’’بابا تم سے صرف اتنی تمنا ہے کہ مجھے مارنے کے بعد جب تم یہاں مجھے بے گور و کفن چھوڑ جانا تو ذرا تکلیف کر کے زکریا اسٹریٹ کے مسلم ہوٹل میں نمبر ۲۸ کے کمرے تک چلے جانا، وہاں تم کو دو لاشیں ملیں گی۔ ایک میرے نوجوان بیٹے کی اور دوسری میری سال بھر کی بیاہی بیٹی کی۔ ہوٹل والے کو یہ میرا بٹوا دے دینا، وہ ان کے کفن کا سامان کر دےگا۔ لیکن بھیا، وہیں میری بیٹی کے پہلو میں اس کا تین دن کا نو نہال سسکتا ملے گا۔ اسے یہ ’تلنس فوڈ‘ پیٹ بھر کے کھلا دینا۔ اس کے بعد اسی چھرے سے جس سے ابھی مجھے ذبح کرنے والے ہو اس کو بھی مار ڈالنا۔۔۔‘‘ بابو صاحب گھبرا کر زمین پر بیٹھ گئے اور سر پکڑ کر بولے، ’’بھگوان تین دن کا بچہ اور چھرا۔‘‘

    سعید نے جوش سے کہا، ’’ہاں چھرا۔ وہ جی کر کیا کرےگا؟ پرسوں جب وہ منحوس پیدا ہوا تو اس کا باپ مارا گیا۔ اوریہ صدمہ اس کی قبل از وقت پیدائش کا باعث ہوا۔ کل شام تک اس کی ماں بےہوش رہی۔ میرا جوان بیٹا بہن کی نازک حالت دیکھ کر ڈاکٹر کو بلانے ہوٹل سے نکلا تھا کہ ایک ہندو’’کالی کالی‘‘ کہتا دوڑتا ہوا آیا اور اس نے میرے حمید کے پیٹ میں اس زور سے چھرا مارا کہ اس کی آنتیں نکل پڑیں اور وہیں دروازے پر گر کر تڑپنے لگا۔ جب تک میں دوڑوں، اس ظالم نے پھر پورا چھرا کلیجہ میں اتار دیا اور بھاگ گیا۔

    خیر خدا کا شکر ہے۔ اس حادثے کے ایک گھنٹہ بعد ہی اس کی بہن نے مجھ ضعیف کو داغ جدائی دیا اور جنت کو سدھاری۔ ہائے سچ ہے۔ ’انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آج اس بچے کی پیدائش کا تیسرا دن ہے۔ مجھ سے اس کی حالت نہ دیکھی گئی۔ جب سے پیدا ہوا ہے، ایک گھونٹ دودھ بھی پیٹ میں نہیں پڑا۔ اس لئے میں وہائٹ وے کی دکان تک آیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ میں خود بھی اب چند ہی منٹ کا مہمان ہوں۔ میرا بھرا پرا گھر اس تین دن کے اندر اس طرح لٹ گیا ہے کہ سوائے اس بچے کے اب ایک متنفس بھی باقی نہیں۔ بس اسے بھی مار ڈالو۔ ممکن ہے کہ میری بچی، اس کی ماں اس کے لئے کڑھے۔ بس بس میں اور کچھ نہ کہوں گا۔ لو یہ ریوالور۔ میں اگر جان لینا چاہتا تو تمہارا کام کبھی کا تمام کر دیتا۔ لیکن میں تو خود ہی جان دینا چاہتا ہوں۔ تم میرے لئے فرشتہ رحمت بن کر آ گئے۔ لو اب میں قبلہ رولیٹ جاتا ہوں۔ میرے پردیسی ہندو بھائی ہاتھ ذراسبک اور تیز چلے تا کہ اس مصیبت بھری خون کی پیاسی دنیا سے مجھے جلد چھٹکارا مل جائے۔‘‘ یہ کہتے کہتے شیخ سعید زمین پر لیٹ گئے۔

    بابو جی اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے شیخ سعید کو دیکھا۔ ان کی آنکھیں بند اورکلمہ طیبہ زبان پر جاری تھا۔ بابو جی نے پھر اس ڈرائیور کو دیکھا جوان کا شریک تھا۔ وہ ان کی طرف سے منہ پھیرے سر جھکائے کھڑا تھا۔ لیکن اس کے شانے ہل رہے تھے اور جسم کانپ رہا تھا۔ انہوں نے پھر اس تیز چھرے کو دیکھا جو ان کے ہاتھ میں تھا۔ پھر ایک بار اس آسمان کی طرف نگاہ کی جس میں جگنو کی طرح چمکتے ستارے اپنی نورانی آنکھوں سے ان کے دلی ہیجان کو دیکھ رہے تھے، اور پھر اس ریوالور کی طرف دیکھا جو سعید نے ان کے پاؤں کے پاس پھینک دیا تھا۔ ایک مرتبہ کانپ کر انہوں نے ایک چیخ ماری اور چھرے کو زور سے گھما کر بہت دور پھینک دیا اور شیخ سعید کے اوپر ہاتھ پھیلا کر گر پڑے اور ’’میرا بھائی! میرا بھائی‘‘ کہہ کر لپٹ گئے!

    تھوڑی دیر کے بعد موٹر پلٹا۔ اور زکریا اسٹریٹ کے موڑ پر رکا۔ اتنی دیر میں ان دونوں کے تعلقات میں اتنا فرق ہو گیا تھا کہ ایک دوسرے کو ’’سعید اور جسونت‘‘ کہہ کر پکارنے لگے تھے اور ایک دوسرے کو تسکین دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ موٹر رکنے پر سعید تنہا ہوٹل تک گئے اور وہاں سے ایک پھول سا بچہ کلیجہ سے لگائے ہوئے لائے۔ پھر موٹر چلا اور مارواڑیوں کے محلے سے ہوتا ہوا (جہاں اس وقت بھی دونوں فرقوں کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ٹولیوں میں ٹہلتے دکھائی دیتے تھے) اس محلے میں پہنچا، جہاں خالص بنگالی رہتے تھے۔

    سعید اور جسونت رائے موٹر سے اترے، آخرالذکر نے ڈرائیور کو چند نوٹ دیے اور وہ سلام کرکے ادھر روانہ ہوا۔ ادھر انہوں نے آگے بڑھ کر ایک مکان کا دروازہ جس میں باہر سے قفل پڑا تھا، کھولنا چاہا۔ پانچ بنگالی نوجوان فوراً دوڑ پڑے اور اپنے ڈنڈے کھڑے کر کے بولے، ’’تم کون ہو اور تمہارے ساتھ یہ مسلمان کون ہے؟‘‘ جسونت رائے نے کہا، ’’ماشا ہم اسی مکان میں رہتے ہیں اور یہ بھی ہماری طرح پردیسی ہیں اور تمہاری سرن چاہتے ہیں۔‘‘ ان میں سے ایک بولا، ’’تم پردیسیوں نے ہی ہمارا شہر میں دنگا فساد کیا۔ ہم کبھی نہیں لڑا۔ اب تم فساد کر کے ہمارا سرن چاہتا ہے!‘‘

    بابو صاحب متانت سے بولے، ’’اچھا بابا تم ہی سچ کہتے ہوگے۔ اب یہ بتاؤ کہ میں اپنے گھر میں جاؤں یا نہیں؟‘‘ دوسرے نے کہا، ’’تم جا سکتے ہو۔ لیکن یہ مسلمان۔۔۔!‘‘ تیسرا بولا، ’’اسے مار کر یہیں ڈال دو!‘‘ چوتھے اور پانچویں نے کہا، ’’ہاں ہاں یہی ٹھیک ہے۔ مارو! مارو!‘‘ ڈنڈے اٹھ گئے مگر ابھی وار نہ ہونے پایا تھا کہ جسونت رائے شیخ سعید کے آگے کھڑے ہو گئے اور جیب سے سعید والا ریوالور نکال کر بولے، ’’ماشا ٹھہرو! اس مسلمان کو میں تم سے پہلے مار ڈالتا۔ لیکن مجھے معلوم ہوا کہ یہ مجھ سے بھی زیادہ دکھی ہے۔ اس لئے میں نے اسے اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔ اب اگر تم اسے مار کر مجھے جھوٹا بناؤگے تو یہ سمجھ لو کہ میں اپنی جان دے دوں گا۔ دیکھو یہ ریوالور دیکھو۔ اس کی گولی ایک سکنڈ میں میرے سینے کے پار ہوگی، اور پھر تم لوگوں پر ایک ہندو کی جان لینے کا پاپ ہوگا!‘‘

    ان بنگالیوں میں سے ایک نوجوان نے، جو بظاہر ان کا لیڈر معلوم ہوتا تھا، سب کو ڈانٹ کر ہٹایا۔ پھر ہاتھ جوڑ کر بابو جی کو سلام کر کے بولا، ’’ماشا ہم کسی ہندو کو اس کے اچھے کاموں میں نہیں روک سکتے۔ جب تم نے اسے پناہ دی ہے تو ہم اس سے نہ بولیں گے۔ جاؤ چین سے اپنا کام کرو اور اس مسلمان کو بھی لے جاؤ۔‘‘ اور وہاں سے چلا گیا۔ شیخ سعید جسونت رائے کے ساتھ مکان میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک غمگین نوجوان عورت ایک مسہری پر نڈھال پڑی ہے، اورایک چھوٹا سا بچہ ایک قریب کے پالنے میں لیٹا ہمک ہمک کر کھیل رہا ہے۔ وہ عورت ان ک ودیکھ کر جلدی سے اٹھ بیٹھی اور آنچل سرکا کر بڑا سا گھونگھٹ نکال لیا۔ جسونت رائے نے شیخ سعید سے ان کا نواسہ لے کر اپنی بہو کی گود میں دے دیا اور بولے، ’’بہو ایک مسلمان نے تیری مانگ کا سیندور چھینا اور تیری چوڑیاں ٹھنڈی کر دیں، دوسرے نے تیرے جلتے ہوئے دل پر پھایا رکھا اور اپنے لخت جگر سے تیری بھری گود اور بھر دی۔ لے یہ تیرا دوسرا بچہ ہے۔ جس کے دو دو بچے ہوں اس کو شوہر کا غم کیوں ہو؟‘‘

    چھ مہینے کا بچہ ماں کو پہچانتا تھا۔ جب اس نے دوسرے کو اپنی جگہ لیتے دیکھا تو ماں کی طرف ہاتھ پھیلا کر رونے لگا۔ عورت نے اسے بھی گود میں سمیٹ لیا۔ تین دن کے بھوکے بچے کی فطرت نے اسے گود میں پہنچتے ہی دودھ ڈھونڈنے پر مجبور کر دیا۔ محبت کی دیوی نے مامتا سے مجبور ہو کر ایک طرف اس کی تسکین کی اوردوسری جانب اپنے بچے کی۔ دو زانوؤں پر دو پھول سے بچے تھے، جو دونوں پہلوؤں سے لپٹے ہوئے تھے۔ ایک محبت کی نوری چادر تھی جو انہیں چھپائے ہوئے تھی، ایک عجیب طرح کی چمک تھی جو اس خاتون کے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی۔

    جسونت نے بڑی محبت سے مسکرا کر سعید سے کہا، ’’دیکھو بھارت ماتا کی گود میں دو بچے ہیں۔ ایک ہندو اور ایک مسلمان!‘‘ سعید نے آنکھوں میں آنسو بھر کے کہا، ’’ہاں ایک گود میں پہلے سے تھا اور ایک تازہ وارد ہے۔ لیکن دونوں سینے سے چپکے ہیں اور دونوں اسی کے خون کا بنا ہوا دودھ پی رہے ہیں!‘‘

    دیوی چپکے سے بولی، ’’یہ میری داہنی اور بائیں آنکھیں ہیں۔ جب ان سے ایک پھوٹی تو میں کانی ٹھہری۔ اور جب دونوں تو بالکل اندھی!‘‘ سعید نے اس دیوی کو بڑی تعظیم سے سلام کیا اور بولے، ’’اچھا رخصت! زندہ بچے کو تو ماں کی گود ملی، اسے آپ کو سونپا۔ اب دو مردہ بچوں کو آغوش لحد میں دینا ہے اور انہیں ’مادر ہند‘ کو سونپنا ہے!‘‘

    مأخذ:

    علی عباس حسینی کی کہانیاں (Pg. 106)

      • ناشر: نند کشور وکرم
      • سن اشاعت: 2015

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے