Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک معمولی خط

محمد حسن عسکری

ایک معمولی خط

محمد حسن عسکری

MORE BYمحمد حسن عسکری

    آپ کے اور میرے لیے تو یہ صرف ایک بے ضرر، بلکہ مزیدار، حماقت ہوتی جس پر اکیلے میں کیا دوسروں کوبھی سنا کر ہنسا جاسکتا ہے، مگر اس کا ذکر کرتے ہوئے اِسے ان اضطراری کمزوریوں میں شمار کرنا پڑے گا جن کی یاد ہمیشہ آنکھوں کے نیچے پسینہ لے آتی ہے، کیونکہ اس کی زندگی میں کمزوریوں کی تعداد اتنی معمولی تھی کہ وزن اور سنجیدگی کے لحاظ سے ان کو مختلف درجوں میں ترتیب نہ دیا جاسکتا تھا۔ کمزوریوں کو چھوڑکے، زرد آوری ہی کون سی تھی۔ اس کی زندگی ہر قسم کے غیرمعمولی اور دوراز راہ واقعات سے ایسے ہی خالی تھی جیسے اس کے حسب حال میں کوئی تشبیہ تک نہیں سوچ سکتا۔ ممکن ہے کہ تشبیہ برائے تشبیہ کی غرص سے میں بجلی کے کھمبے کا نام لے دوں، مگر پھر مجھے خیال آتا ہے کہ شریر بچے اسےاینٹ سے بجاتے ہوئے چلتے ہیں، صبح شام ایک فاختہ اس پر بیٹھ کر کو کو کرتی ہے، کبھی کبھی گاڑیاں اس سے ٹکراجاتی ہیں۔ بس یوں سمجھیے کہ اس کی زندگی بالکل ایک شریف آدمی کےکپڑوں کی طرح تھی جن کی مشہور تعریف یہ ہے کہ آپ انہیں یاد نہیں رکھ سکتے۔ وہ اس مسکین اور مطمئن اقلیت کا ایک فرد تھا جو اگر کبھی اچھے نمبر نہیں حاصل کرتی تو کبھی فیل بھی نہیں ہوتی، جو ایسی ویسی باتوں میں بالکل نہیں پڑتی اور جس سے ہمیشہ نہایت خوش اخلاقی اور تہذیب سے پیش آیا جاتا ہے۔ مگر ربط و ضبط بڑھانے کی کبھی خواہش نہیں کی جاتی۔ اپنے استادوں کی نظر میں وہ ایسا کند ذہن مگر خاموش، محنتی اور سیدھا سادا طالب علم تھا جس کا ہر فعل اتنا قابل اعتماد اور نپا تلا ہوتا ہے کہ اس کے وجود کو ذہن میں رکھنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس کے ساتھیوں کےنزدیک اس کی متانت اتنی بوجھل اور ٹھس تھی کہ وہ اسےایک بناوٹی مسکراہٹ سے زیادہ کچھ نہ دے سکتے تھے اور محلے کے والدین کے لیے وہ اولاد کی نیک سیرتی اور خوش کرداری کاایک مثالی نمونہ تھا۔ کسی کے خوابوں میں اترنے کی کوشش کرنا تو فانی انسان کے لیےایک خطرناک مہم ہے، مگر جہاں تک وثوق سے کہا جاسکتاہے اس کے دن کتابوں، امتحانوں اور چھٹیوں کے درمیان نہایت آسانی سے گزر رہے تھے اور اپنے طرزِزندگی میں عیب نکالنے کی کوئی وجہ اسے اب تک نہ ملی تھی۔

    لیکن اس کی آزمائش کا لمحہ اس وقت آیا جب وہ بی-اے کا امتحان دے کر گھر آگیا۔ پہلے تو اس کی چھٹیاں اگلی کلاس کے لیے تیاری کرنےمیں کٹ جایا کرتی تھیں، مگر اس مرتبہ اسے اپنے وقت کا ایسا کوئی مصرف نظر نہ آرہا تھا۔ اب تک اس کی زندگی ایک نہایت صحیح پیمانے سے کھنچی ہوئی گہری اور واضح لکیروں کے درمیان بٹی رہی تھی، اپنے سفر میں وہ اب ایک ایسے نقطے پر آپہنچا تھا جس کے آگے کوئی لکیر نہ تھی۔ وہ رسم و رواج کے مقرر کیے ہوئے راستے پر سرجھکائے ہوئے چلتا رہا تھا۔ مگر فرصت کے ریگستان میں پہنچ کر وہ پگڈنڈی خود گم ہوجاتی تھی۔ شروع میں اس نے چاہا کہ اپنے کورس کو ہی دوبارہ پڑھے، مگر امتحان کی چٹنی کے بغیر وہ اتنا پھیکا پھس پھسا ہوگیا تھا کہ اس سے چل نہ سکا۔ اس نے ایک کے بعد دوسری چیز میں دلچسپی لینے کی متعدد کوشش کیں، مگر شاید مسرت دن اور رات کی سرحدوں کے باہر پرواز کر گئی تھی۔ ہر چیز پر سے طمعّ اتر گیا تھا، ہر چیز بھوری اور بے رنگ ہوگئی تھی اور اس کے لیے اب اس کے سوا اور کچھ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ اکتاہٹ اور بیزاری کے سمندر میں بے دست و پا غوطے لگایا کرے۔ عموماً لوگوں کو پیچھے چھوڑے ہوئے دنوں کی یاد عرصے تک بے چین رکھتی ہے، مگر یقین مانیے کہ اس کاایک دن خود اس کی نظروں میں دوسرے دن سے اتنا بے امتاھز تھا کہ وہ سب بجھتے ہوئے کوئلوں کی طرح راکھ ہوئے جارہے تھے۔

    نہ معلوم اس کے کتنے دن اور اسی طرح جباہیاں لیتے ہوئے گزرتے، مگر ایک دن بازار سے لوٹتے ہوئے اس نے جو کچھ دیکھا اس نے خوشی نہ سہی، اس کے ویران دنوں اور راتوں کے لیے کم سے کم ایک رنج تو مہیا کردیا۔ وہ اتنا معصوم نہ تھا کہ اس کے لیے ایک لڑکی کا کھڑکی سے جھانک کر گلی میں کھڑے ہوئے لڑکے کی طرف مسکرادینا عجوبۂ روزگا ہوتا۔ مگر اس معمولی سے واقعے کی ندرت اس کے اندر یہ تلخ اور ہمت شکن احساس پیدا کردینے میں تھی کہ اس نے برساتی دنوں کے لیے کچھ جمع نہیں کیا تھا۔ اپنے پڑھے ہوئے معدودے چند عشقیہ افسانوں کو اس نے ہمیشہ کاغذی باتیں اور زندگی سے بے تعلق سمجھا تھا اور اس حقیقت سے غافل رہا تھا کہ رومان مکڑی کے جالے سہی، مگر ہماری زندگی کی رگوں سے یک جان ہوکر وہ انہیں کتنا مضبوط بنادیتے ہیں۔ اور عشق پیچہ کی یہ ننھی ننھی بیلیں کیسے کیسے گرتے ہوئے ستونوں کو تھامے رہتی ہیں۔ طالب علمی ہی وہ زمانہ ہوتا ہے جب زیادہ خطرہ مول لیے بغیر زندگی بھر کے سہارے کے لیے دوچار نگاہوں، ایک آدھ مسکراہٹوں کااندوختہ جمع کیا جاسکتا ہے، مگر اس کے نادان ہاتھوں نے موقع کا زرّیں و امن انتہائی بے پروائی سے پھسل جانے دیا تھا۔ لفظوں کے معنی لکھ لینے کی بیتابی میں اس نےاپنی آنکھوں کو کتاب پر گاڑے رکھا تھا، حالانکہ وہ ان سے بہتر کام بھی لے سکتا تھا۔ جو کچھ اس نے اندھابن کر کھودیا تھا اب اسے دوبارہ پالینا محال تھا۔ اپنی پیش قدمی کاجواب پاسکنے کی توقع تو کجا اس کی سمجھ میں کوئی ایسی لڑکی بھی نہ آتی تھی جس کی طرف وہ پیش قدمی کرسکے۔ کالج کی چھ لڑکیوں میں سے ایک نہ ایک تو ضرور اس کی طرف توجہ کرتی ہے۔ اسے کسی اونچی اڑان کی خواہش نہ تھی۔ ہرلڑکی کے امکانات پر غور کرتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اور وکئی نہیں تو اس کی ساتھی اینجلا کو کس ضرور نرم پڑجاتی۔ لڑکے اس کی سیاہ رنگت، بھاری بدن اور ڈھلی ہوئی عمر کا مذاق اڑاتے تھے، مگر اس کی آنکھیں تو چمکدرا، اداس اور گہری گہری سی تھیں اور یہ بہت کافی تھا۔ اور پھر وہ سب لڑکیوں سے زیادہ سلیم الطبع اور خاموش تھی۔ کاش کہ اس نے یہ سب پہلے سوچا ہوتا! اسے اینجلا کے ردعمل کا اتنا یقین تھا کہ اس پر ایک دو دن تک غور کرتے کرتے اس کی شکستگی، مایوسی اور جھنجلاہٹ اس حدتک بڑھ گئی جیسے ملاقات کا وقت تک مقرر ہوچکا ہو، مگر وہ پہنچ نہ سکاہو۔ وہ واقعی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہا تھا جیسے اس نےاینجلا سے وعدہ خلافی کی ہواور اسے دھوکا دیا ہو۔ اس کا رنج اس وجہ سے اور بھی بڑھ گیا تھا کہ اب اس کے ملنے کی کوئی امید نہیں رہی تھی۔

    لیکن اسے یہ جان کر بڑا خوشگوار تعجب ہوا کہ حالات اتنے مایوس کن نہیں تھے، جتنا وہ سمجھ رہا تھا۔ ابھی سہارے کے لیے ایک تنکا باقی تھا،یعنی وہ اینجلاکو خط لکھ رکھا تھا۔ کلاس کی دونوں لڑکیوں کے پتے مسرت بخش معلومات کے طور پر لڑکے ا کثر دہرایا کرتے تھے اور وہ تقریباً سبھی کو یاد ہوگئے تھے، یہاں تک کہ اسے بھی۔ چنانچہ اینجلا کو خط لکھ دینا کوئی بڑا مشکل مرحلہ نہ تھا۔ اس کے علاوہ بہت سی ایسی باتیں تھیں جو آنکھوں کے پیغامات میں نہ سماسکتی تھیں مگر انہیں خط میں لکھا جاسکتا تھا۔ شاید اس کی اناڑی آنکھیں اس کے دل کی لگن کو ذرا بھی ظاہر نہ کرسکتیں، شاید وہ جرأت نہ کرسکتا۔ مگر خط کو وہ زیادہ سے زیادہ مؤثر بناسکتا تھا۔ ممکن تھا کہ وہ اس کی نگاہوں کی بیتابی دیکھ کر ہنس دیتی اور اینجلا کااستہزا نشتر کی طرح اس کی روح میں اترجاتا۔ لیکن اگر خط پڑھ کر وہ ہنسی بھی تو اسے معلوم نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ نہ سمجھیے کہ اس نے صرف روشن پہلوؤں پر ہی نظر ڈالی۔ اس کے سامنے نامرادی اور مایوسی بھی آئی، وہ اینجلا کی برہمی کے خیال سے بھی کانپا، اس کی تصور نےاسے ہولناک نتائج بھی دکھائے اور اس کے حق میں یہ کہنا پڑے گا کہ اسے یہ بھی شبہ ہوا کہ وہ اسے پہچان نہ سکے گی۔ وہ کسی جلسے میں شریک نہ ہوا تھا، اتنی بڑی کلاس میں سب سے آخر میں بیٹھتا تھا اور مضمون سنانا تو درکنا ر اسے کسی سوال کا جواب دینے کے لیے بھی اٹھنا نہ پڑا تھا۔ غرض کہ اینجلا کے اس سے واقف ہونے کی کوئی بھی شہادت نہ ملتی تھی۔ لیکن جس چیز نے اسے آخری فیصلہ کرنے میں مدد دی وہ اس کی پتلی ناک تھی جس کی تعریف اس نے بچپن میں اپنی ماں کے ملنے والیوں سے سنی تھی اور جسے اس کے خیال میں کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا تھا ، اینجلا بھی نہیں۔ بلکہ اسے چند ایسے موقعے یاد آتے معلوم ہورہے تھے کہ جب اینجلا نے اس کی طرف غور سے دیکھا تھا۔

    اس نے دوصفحے کاخط لکھنے میں دو دن لگائے۔ پہلے تو اس کاارادہ تھا کہ ایک محبت نامہ لکھے۔ لیکن وہ اس فن میں اتنا بے ہنر تھا کہ اسے اپنا سارا سوچاہوا مضمون اکھڑا اکھڑا سامعلوم ہوتا تھا۔ دوسرے اس کا ذہن اس قسم کے خط کو سنگین ترین جرائم سے کسی طرح متعلق سمجھتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنے خط کو حتی الامکان پاکیزہ بنانے کی کوشش کی، حالانکہ یہ خط بھی، جیسا کہ آپ اس سے توقع کرسکتے ہیں، اتنا ہی اَن گھڑ اور ناقابل یقین تھا۔ شروع میں اس نے اس جرأت کی معافی مانگی تھی اور آخر تک اسے اتنی مرتبہ دہرایا تھا کہ اس کی انکساری مشکوک معلوم ہونے لگی تھی۔ اس نے سن رکھا تھا کہ لوگ اپنی اپنی پسند سے دور دور ملکوں میں خطوں کےذریعے دوست بناتے ہیں۔ اس نے بھی اسی نسخے کو استعمال کیا۔ حالانکہ اس کا ضلع اینجلا کے ضلع سے ایسا دور نہ تھا، مگر اس نے لکھا کہ اسے اس حصۂ زمین سے بہت دلچسپی ہے اور وہ وہاں کوئی دوست بنانا چاہتا ہے اور چونکہ وہ اس کی ساتھی ہے، اس لیے اس کو ایسی دوستی میں زیادہ آسانی نظر آتی ہے۔ یہ دو دن اس نے انتہائی ہیجان کے ساتھ گزارے تھے اور اپنے ارادے اور خط کے مضمون بیسیوں مرتبہ بدلے تھے۔ خط ڈالنے جاتے ہوئے بھی اس کا دماغ لفافہ پھاڑ پھینکنے اور اسے ڈال دینے کے درمیان بٹا ہوا تھا۔ وہ کھڑا چوروں کی طرح اِدھر ادھر تاکتا اور لفافے کو ہلاتا رہا، لیکن یکایک اس کے اندر ایک لہروحشیانہ تیزی سے اٹھی، اور وہ لفافے کو لیٹر بکس میں ٹھونس کر ایسے مڑا جیسے واقعی چوری کرکےبھاگ رہاہو۔ مگر اس عمل کے ساتھ ہی اسے ایسا معلوم ہوا جیسے اس کے اندر کوئی بجلی کا بٹن بند کردیا گیا ہو۔ اس کا سارا ہیجان اور اشتعال یک لخت غائب ہوگیا، اور وہ گھر تک آتے آتے اپنی اس وقتی حماقت پر ہنس پڑا۔ اس کے سر سے ایک بوجھ سا اترگیا تھا اور وہاب زیادہ آزادی سے سانس لے رہا تھا۔ یہ سارا واقعہ ایسا ماند پڑتا جارہا تھا کہ ایک آدھ دن ہی میں وہ ا ِسے بھولنے سا لگا۔ جواب کی تو اسے پہلے بھی زیادہ امید نہ تھی، مگر اپنا توازن پالنے کے بعد وہ اس سے بالکل بے پروا ہوگیا۔ ممکن ہے کہ یہ اس سب کو بھول جانے کی غیرشعوری کوشش ہو، مگر اب اسے بہت سی دلچسپیاں مل گئی تھیں۔ وہ گھر کاسودا خود لانے لگاتھا، سب کے بستر بھی اپنے آپ بچھاتا تھا اور محلے والوں سے بھی زیادہ ملنا جلنا شروع کردیا تھا۔

    ابھی کالجوں کی چھٹیاں ختم بھی نہ ہوئی تھیں کہ اسے گھر کے قریب ہی ایک چھوٹے سے شہر میں ملازمت مل گئی۔ اس کے باپ کے ایک دوست نے اسے جگہ دلوانے کا وعدہ کرلیا تھا اور وہ ملتی ہوئی آدھی کو چھوڑ کر پوری کے پیچھے بھاگ دوڑ کرنے والوں میں نہ تھا اور یوں بھی پچاس سے تنخواہ شروع تھی، چار روپے سالانہ ترقی اور پھر موقع آنے پر ہیڈ کلرکی مل جانے کا وعدہ۔ اس کو ایک تسلی یہ بھی تھی کہ وہ صرف تیسرے درجے ہی میں تو پاس ہوا تھا۔ ملازمت کے چھ مہینے بعد ہی اس کی شادی بھی ہوگئی۔ ہری ہری گھاس دیکھ کر گدھا زیادہ سے زیادہ کان ہلانے لگتا ہے۔ نوکری اور بیوی پاکر شاید اس نے بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ مگر بہرحال اب وہ ریگستان سے نکل کر پھر مقررہ راستوں کے درمیان پہنچ گیا تھا جن پر وہ سرجھکائے چل سکتا تھا، اب اس کی زندگی پھر گہری اور واضح لکیروں کے درمیان بانٹ دی گئی تھی۔ اس کے سامنے مستقبل میں ہیڈکلرکی کے وعدے کا روشن مینار تھا جس سے چندھیا کر اس کی آنکھیں آگے دیکھتی ہی نہ تھیں۔ اس کا ماضی وہ اندھا کنواں بن چکا تھا جس میں جھانکنے کی اسے کوئی خواہش نہ تھی اور ہوتی بھی تو وہاں مشکل ہی سے کچھ نظر آتا۔ حال کی بھول بھلیاں میں بغیر کسی احساس کے گھومتے رہنا ، بس یہ تھی اس کی زندگی!

    حال کی بھول بھلیاں بھی بڑی پرفریب چیز ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اسی جگہ گھوم رہے ہیں، مگر وہ خودسرکتی رہتی ہے اور آپ کو کہیں سے کہیں لاکر چھوڑتی ہے۔ اسے اس عمل کا پتہ اس وقت چلا تھا جب وہ پانچ سال آگے نکل آیا تھا۔ اس دوران میں اس کےدو بچے ہوچکے تھے اور دوسرا قابل ذکر واقعہ یہ ہوا تھا کہ اس کی حق تلفی کرکے ایک ایسے شخص کو ہیڈ کلرک بنادیا گیا تھا جو بی-اے فیل تھا اور اس کے بعد ملازم ہوا تھا۔ پانچ چھ مہینے سےاس کی خود اطمینانی رخصت ہوچکی تھی۔ اس کے اعضامیں اضمحلال آگیا تھا، اور وہ اپنےآپ کو ادھیڑ اور شکستہ تصور کرنےلگا تھا۔ روشنی کا مینار ڈھ جانے سے اس کے مستقبل پر دھندلکا چھا گیا تھا جس میں بچوں سےمتعلق ذمہ داریاں، دوسرے دنیاوی فرائض اور ان سب کےپورا کرنےمیں دشواریاں اسے حقیقت سے کئی گنا بڑی دکھائی دینے لگی تھیں اور اس کا سر ان باتوں سے بھرا رہتا تھا۔ اپنے بچوں سے بھی اسے دلبستگی باقی نہ رہی تھی اور وہ بیوی کو بھی فو ل خرچی کاالزام دینے لگا تھا۔ باتونی بھی وہ بلاکا ہوگیا تھا اور محلے والوں میں بیٹھ کر گھنٹوں اپنی حق تلفی ، ہیڈکلرک کی بے ایمانی اور رشوت ستانی کی شکایتیں کیا کرتا تھا۔ مستقبل سے خوف زدہ اور حال سے بیزار ہوکر وہ ماضی کی تاریکیوں میں بھی جھانکنے لگا تھا اور اسے پہلے تو دھندلی پرچھائیاں اور پھر کبھی کبھی نیم روشن تصویریں نظر آنےلگی تھیں۔ بیتے ہوئے دنوں کے لیے اس کےدل میں کوئی ٹیس نہ اٹھتی تھی، بس متفرق اور بے جوڑ تصویریں کوئی جذبہ پیدا کیے بغیر اس کے سامنے سےگزرتی رہتی تھیں۔ آخر خزاں کے پتوں کی طرح ہوا پر بھٹکتی رہنے والی ان ہی تصویروں کے ساتھ ایک مرتبہ یہ یاد بھی آئی کہ اس نےملازمت سے پہلے ایک لڑکی کو خط لکھا تھا۔ پہلے تو وہ اسےایک ناتجربہ کارانہ حماقت سمجھ کر ہنسا، مگر آہستہ آہستہ اس کے جسم میں سنسنی پھیلتی گئی اور وہ اتنا ہی مشتعل ہوگیا جتنا کہ وہ خط لکھتے وقت تھا۔ تعجب، مایوسی اور امید کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس کے دل میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہو رہے تھے۔ اینجلاکو اس کاخط ملا تھا یا نہیں؟ اس نے خط سے کیا اثر لیا؟ اس کے گھروالوں کو تو پتہ نہیں چل گیا؟ کہیں اینجلا کا خط ڈاک میں تو نہیں کھویا گیا؟اس کی عقل جتنا زیادہ شک کرتی تھی اس کادل اتنا ہی زیادہ اپنی نسیں اس خط کے گرد لپیٹتا جاتا تھا اور اب اتنی مدت کے بعد جواب پالینا اسے بالکل یقینی نظر آرہا تھا۔ شاید اینجلا کی شادی نہ ہوئی ہو، یا اس کی اپنے شوہر سے نہ بنتی ہو اور وہ اسی کی طرح شکستگی اور کسی ہمدم کی ضرورت محسوس کر رہی ہو۔ شاید پرانے دنوں کی یاد اسے ستارہی ہو اور وہ اپنے کسی پرانےساتھی کی تلاش میں ہو اور وہ اپنے گزشتہ طرز عمل کی معافی مانگتے ہوئے اسے خط لکھے۔ غرض کہ سینکڑوں امکانات تھے، اور اسے یہ سب اتنا منطقی معلوم ہو رہا تھا کہ اس نے گھر بھی لکھ دیا کہ اگر اس کا کوئی خط آئے تو فوراً اس کے پاس بھیج دیا جائے اور اس نے بے چینی سے ڈاکیے کی راہ تکنی شروع کردی۔ اسےخط لکھنے والا ہی کون تھا، بس کبھی کبھار کسی عزیز کے یہاں سے خوشی یا غمی کی اطلاع یا اور ایسی ہی معاملاتی چیزیں۔ لیکن اس سے اس کی امید نہیں مرجھائی۔ اس کے لیے ہر آنے والا کل گزرتے ہوئے دن سے زیادہ روشن ہوگیا تھا۔ اب جب کہ اس کے سامنے ایک معین چیز تھی، وہ انتظار کر سکتا تھا۔ وہ اپنے کپڑوں میں، اپنے گھر اور اس کے سازوسامان میں ترمیمیں سوچا کرتا تھا تاکہ انہیں اینجلا کے سامنے پیش کرنے کے قابل بناسکے۔ ڈاڑھی بنانے سے وحشت کی وجہ سے پہلے اس نے ڈاڑھی رکھ لینے کا تہیہ کرلیا تھا، مگر اب اس نے یہ خیال چھوڑ دیا۔ وہ اینجلا سے بہت ہی پاکیزہ تعلقات قائم کرناچاہتا تھا، مگر ڈاڑھی پھر بھی کوئی قابل نمائش چیز نہ تھی۔ وہ صرف اینجلا کے ساتھ بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کرنا چاہتا تھا، خواہ وہ ادب اور سیاست پر ہی سہی۔ اسے اپنی کم علمی کا اعتراف تھا اور اس نے بارہا اس کمی کو دور کرنے کاارادہ کیا، گو اس کی مصروفیت اسے پورا نہ ہونے دیتی تھی۔ اینجلا کے جواب پر غور کرنا اور اس کی بنیاد پر رنگین محل تعمیر کرتے رہنا اس کا محبوب ترین مشغلہ بن گیا تھا۔ اگر اسے کبھی دفتر میں اس کا خیال آجاتا تو خوشی اور مسکراہٹ اس کے چہرے سے امنڈنے لگتی، وہ رجسٹر پر جھک کر اسے زور سے دبالیتا اور عمدہ سےعمدہ کام کرنےکے جوش میں اسے بار بار لکھنا اور کاٹنا پڑتا۔ اس کے چہرے کی سرخی ہیڈ کلرک کی نظروں سے چھپی نہ رہتی اور وہ طنز سے مسکراکر پوچھتا: ’’کیوں مولانا، کیوں کھلکھلائے پڑ رہے ہو؟ لڑکا ہوا ہے کیا آج؟‘‘ اور وہ جھینپ کر جلدی سے جواب دیتا: ’’نہیں تو کچھ بھی نہیں۔‘‘ اور پھر یہ سوچے بغیر کہ اس کا یہ فعل اس کے قول کی تردید کرے گا، کوٹ کی جیب سے ڈبیہ نکالتے ہوئے کہتا: ’’لوپان کھاؤ۔‘‘ اس دن وہ ہیڈ کلرک تک سے خوش مزاجی سے پیش آتا اور گھر لوٹتے ہوئے بچوں کے لیے مٹھائی لے جانانہ بھولتا۔ اینجلا کے چاروں طرف سے ماضی کا کہرا چھٹنے لگا تھا اور وہ اینجلا کی شکل و صورت، چال، بولتے ہوئے ہونٹوں، کپڑوں، چوڑیوں، اس کی ذرا ذرا سی حرکت، یہاں تک کہ ہر اس دن کو جب وہ اس کے سامنے آئی تھی، اتنی صفائی سےدیکھ سکتا تھا جیسے یہ سب کچھ اس کے سامنے موجود ہو۔ اینجلا کی ہستی اس کے لیے اتنی گہری اور حقیقی ہوگئی تھی گویا وہ دونوں برسوں ساتھ رہے تھے۔ اب اس کی زندگی میں اس سڑک پر قدم گونج رہے تھے جس پر وہ کبھی چلا ہی نہ تھا اور یہ گونج اتنی مدہوش کن تھی کہ اس میں اس کی ساری پریشانیاں اور شکایتیں یہاں تک کہ وقت کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ بھی ڈوب گئی تھی۔ چھ بھاری بھرکم سال اسے روندتے کھوندتے گزر گئے تھے، مگر وہ اپنے اوپر ان کا کوئی اثر نہ دیکھ رہا تھا۔ خوابوں کی نمی اور طراوت اسے ہرا بھرا بنائے ہوئے تھی۔

    یہ نہیں کہ اس کی زندگی میں تلخی کاگزر ہی نہ ہوتا ہو۔ کبھی کبھی ایسے دن بھی آتے تھے، جیسے کہ آج۔ تمام دن ہیڈ کلرک اپنے طنزیہ جملوں سے اسے پھنکاتا رہا تھا اور اتفاق سے کام بھی اس کے سر بہت آپڑا تھا۔ وہ دیر سے گھر لوٹ رہا تھا اور بہت جھنجھلایا ہوا تھا۔ ہرتھکے ہوئے قدم کے ساتھ اس کاملازمت چھوڑدینے کاعزم بڑھتا جاتا تھا۔ وہ بازار میں سے گزر رہاتھا کہ کسی نے پیچھے سے کندھا پکڑ کر اسے روکا۔ وہ ایک قیمتی سوٹ میں ملبوس دہری ٹھوڑی والے گورے آدمی کی شکل میں اپنے کلاس کےساتھی مقبول کو اس وقت تک نہ پہچان سکا جب تک کہ اس نے مسکراکر ’’کہو، کیسے رہے؟‘‘ نہ کہا۔ معلوم ہوتا تھا کہ مقبول پر قسمت کی دیوی زیادہ مہربان رہی ہے اور محض ایک شناسا کو اتنی بے تکلفی سے مخاطب کرنےکے معنی تھے کہ وہ یہی جتانا چاہتا ہے۔ بہرحال اس نےاپنے حواس جمع کیے اور گرم جوشی ظاہر کرتے ہوئے جواب دیا: ’’آخّاہ، آپ ہیں! یہاں کیسے؟‘‘

    ایک فیشن ایبل مصافحے کے بعد مقبول نےبتایا کہ وہ بیمے کاایجنٹ تھا اور اسی سلسلے میں یہاں آیا تھا۔ مقبول سےرسمی معلومات تبدیل کرنے کے دوران میں وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے گھر لے جائے یا نہ لےجائے کہ مقبول نے خود ہی تجویز کیا کہ وہ کسی ریسٹوراں میں چلیں تاکہ کچھ دیر باتیں کرسکیں۔ یہاں کےاکیلے ریسٹوراں ’’رائل ہوٹل‘‘ کے اخراجات کے بارے میں، جسے انٹرکالج کے طلبا کی سرپرستی حاصل کرنےکے لیے سامنے پردے ڈال کر یہ نام دے دیا گیا تھا،اس کے خیالات بڑے دل دہلادینے والے تھے۔ وہ صرف ٹوٹی ہوئی کرسیوں والی معمولی سوڈاواٹر کی دکان تک ہمت کرسکا اور وہ بھی معذرت کےساتھ۔ مگر مقبول اسے نواز نے پر تلا ہوا تھا۔

    اس کے پاس باتیں کرنےکے لیے کیا تھا، اپنا وہی معمولی رونا گانا اور اسے بھی مقبول کی کپڑوں کی چمک نےغیرمناسب بنادیا تھا۔ مقبول البتہ بھرے ہوئے گلاس سے جسے اس نے ابھی تک اپنے ہونٹوں سے نہ چھوا تھا، کھیل کھیل کر ان پرانے ساتھیوں کے بارےمیں باتیں کر رہاتھا جن سے وہ اس عرصے میں ملاتھا۔

    باتیں سنتے سنتے دفعتاً اس کی آنکھوں میں بجلی سی کوندگئی اور اس نےمقبول کی بات کاٹ کر لفظ چباتے ہوئے پوچھا: ’’اور ہمارےساتھ ایک لڑکی بھی تو تھی، کیانام تھا اس کا؟ اینجلا، اور آگے نہ معلوم کیا؟‘‘

    ’’اوہ، وہ اینجلا کو کس!‘‘ مقبول نے کہا: ’’سب سے پہلا بیمہ میں نے اسی کے شوہر کاتو کیا تھا۔ اس کی شادی ایک بڑے امیر ڈاکٹر سے ہوگئی تھی۔ مگر کالج سے نکل کر بچاری ایک سال بھی تو زندہ نہ رہ سکی۔ بچہ ہوا تھااس کے، اسی میں مرگئی۔ کیا اعتبار ہے زندگی کا! اب آفتاب ہی کو لو۔ کیسا چلبلا تھا،ساری کلاس کو لُٹا لُٹا دیتا تھا مارے ہنسی کے۔۔۔ خوب دن تھے وہ بھی!‘‘

    مأخذ:

    جزیرے

    • مصنف: محمد حسن عسکری
      • ناشر: محبوب المطابع، دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے