Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک شریف آدمی

اقبال انصاری

ایک شریف آدمی

اقبال انصاری

MORE BYاقبال انصاری

    ’’میں تو آپ کو بڑا شریف آدمی سمجھتی تھی پروفیسر صاحب!‘‘ نوشابہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ اس کے بھرے بھرے متناسب جسم پر آسمانی رنگ کا شلوار سوٹ تھا جس نے اس کی شخصیت کو مزید جاذب نظر کر دیا تھا۔ سیاہ بال بڑے سلیقے سے شانوں پر ڈھلکے ہوئے تھے۔ تمتمایا ہوا خوب صورت چہرہ طیش ہی طیش تھا۔

    پروفیسر مرتضی نے چونک کر اخبار سے نگاہیں ہٹا کر نوشابہ کے چہرے پر ڈالیں اور بولے: ’’کیا ۔۔ کیا کہا تم نے ؟‘‘

    ’’میں نے کہا کہ میں آپ کو بڑا شریف آدمی سمجھتی تھی پروفیسر صاحب۔‘‘ نوشابہ چبھتے ہوئے لہجے میں صرف اتنا ہی کہہ سکی۔

    پروفیسر مرتضی کے چہرے پر تعجب کے تاثرات ابھر آئے۔ انھوں نے اپنے سامنے پڑی ہوئی کرسی کی طرف اشارہ کیا اور کہا: بیٹھ جاؤ۔۔۔ اور پہلے یہ بتاؤ کہ میں ’’پاپا‘‘ سے ’’پروفیسر صاحب‘‘ کیوں ہو گیا اور پھر اپنے داخلی جملے کی تشریح کرو۔

    نوشابہ نے ایک لمحہ پروفیسر صاحب کو اپنی جلتی نگاہوں سے دیکھا، پھر آگے بڑھ کر بڑے جارحانہ انداز میں اس کرسی پر بیٹھ گئی جس کی طرف پروفیسر مرتضی نے اشارہ کیا تھا، اور تلخ لہجے اور تیز آواز میں بولی: آپ ’’پاپا‘‘ سے ’’پروفیسر صاحب‘‘ اس لیے ہو گئے کہ ’’پاپا‘‘ ایک بڑا خوبصورت، بہت پیارا اور پاکیزہ لفظ ہے جو کسی غیر لڑکی کی زبان سے ادا ہونے کے بعد اور زیادہ خوبصورت، اور زیادہ پیارا اور زیادہ پاکیزہ ہو جاتا ہے۔۔۔ اور آپ پروفیسر صاحب اس پیارے اور پاکیزہ لفظ سے مخاطب کئے جانے کے اہل نہیں ہیں۔

    ’’صبح تک تو تھا‘‘ پروفیسر صاحب دھیرے سے بولے۔ ان کے کلین شیوڈ سنجیدہ چہرے، عینک کے پیچھے کچھ سکڑی ہوئی سی پلکوں اور ذہانت چھلکاتی آنکھوں سے لگ رہا تھا جیسے وہ حالات کو سمجھنے کی بہت تیزی رفتار، ذہنی کوشش میں مصروف ہوں۔

    ’’ہاں صبح تک تھے’‘ نوشابہ کی بڑی بڑی کچھ بھوری سی آنکھوں میں اشتعال کے ساتھ نفرت بھی بڑی واضح تھی ’’لیکن صبح گزر گئی پروفیسر صاحب۔ اب تو ہر طرف بڑی تیز اور جھلسا دینے والی دوپہر پھیل گئی ہے اور اسی دوپہر نے میری آنکھوں پر پڑا آپ کی شرافت کا پردہ تار تار کر دیا ہے۔‘‘

    پروفیسر مرتضی نے کہا تو کچھ نہیں لیکن ان کا چہرہ، نوشابہ کے تمتمائے ہوئے چہرے پر مرکوز ان کی نگاہ، ان کی کشادہ پیشانی پر ابھری ہوئی شکنیں، ان کے نیم وا خشک سے لب۔۔ ہر شئے مجسم استفسار نظر آ رہی تھی۔ چند لمحے انھوں نے نوشابہ کے کچھ اور بولنے کا انتظار کیا، پھر بڑے پرسکون لہجے میں بولے ’’بالکل سیدھے سادے الفاظ میں بتاؤ کہ میری شرافت کو کیا ہو گیا ہے۔‘‘

    ’’کہا نہ، تار تار ہو گئی ہے’‘ نوشابہ کی آواز میں طیش، طنز، تنفر۔۔۔ سبھی کچھ تھا۔ دھجیاں بکھر گئی ہیں آپ کی شرافت کی۔ آپ کو معلوم تھا کہ آپ کے لائق و فائق فرزند منصور صاحب ایک سزا یافتہ مجرم ہیں، اور مجرم بھی دفعہ ۳۰۷ کے۔۔۔ ارادہ قتل۔۔ سات سال کی سزا کاٹ چکے ہیں۔۔۔ سزا کاٹ کر جب جیل سے تشریف لائے تو آپ نے انھیں بھوپال سے ہٹا لیا، یہاں گوالیار میں موٹر سائیکل کی ایجنسی کھلوا دی، اور منصور مرتضی صاحب شریف بھی ہو گئے اور بزنس مین بھی۔ میں جب لکچرر کی حیثیت سے مہارانی کالج میں آئی تو آپ نے مجھے دیکھا، پھر آپ کے ایما پر منصور نے مجھے دیکھا اور دیکھتے ہی مجھ پر اس درجہ فریفتہ ہوئے کہ مجھ سے شادی کرنے کی ٹھان لی۔ آپ اپنے لائق بیٹے کا رشتہ لے کر میرے گھر گئے، میرے والد کو شیشے میں اتار لیا اور کچھ عرصے کے بعد میں آپ کے گھر آ گئی۔۔ آپ کو ’’پاپا‘‘ کہنے لگی۔ ’’وہ تو آج مجھے معلوم ہوا کہ منصور صاحب اپنے پرانے شہر بھوپال میں سات سال کی قید کاٹ چکے ہیں۔۔۔’‘

    پروفیسر مرتضی بڑے سکون سے نوشابہ کی باتیں سن رہے تھے۔ ان کے سرخ و سپید چہرے پر گھبراہٹ، پریشانی، تشویش، شرمندگی۔ کچھ بھی نہیں تھا۔ ان کی نگاہ نوشابہ کے چہرے پرتھی۔ ایک لمحے کی خاموشی کے بعد نوشابہ نے پھر کہنا شروع کیا ’’آپ نے اپنے بیٹے کے جرم، مجرمانہ کارکردگی، سزا۔۔۔ کسی بات کی کوئی ہوا نہیں دی۔ جان بوجھ کر آپ ہر بات کو چھپا گئے۔ ظاہر ہے کہ نہ چھپاتے تو ایک کالج لکچر ر آپ کونہ ملتی۔۔ آج تو یہاں صرف مجھے علم ہوا ہے۔ کل کو ممکن ہے سارے گوالیار کو علم ہو جائے کہ مہارانی کالج کی لکچرر نوشابہ خان ایک سزا یافتہ مجرم کی بیوی ہے۔ آپ نے۔۔۔’‘ دم بہ دم بڑھتے ہوئے اشتعال نے نوشابہ کا تنفس اتنا تیز کر دیا کہ وہ جملہ بھی پورا نہ کر سکی۔

    پروفیسر مرتضی نے اخبار نزدیک پڑی چھوٹی میز پر رکھ دیا، عینک اتاری، کرتے کی جیب سے رومال نکال کر عینک کے شیشے صاف کئے، عینک کو پھر آنکھوں پر جمایا اور اپنی ٹھہری ہوئی آواز اور متین لہجے میں بولے ’’نوشابہ، تم نے ابھی’’ پروفیسر صاحب ‘‘کہہ کر مجھے مخاطب کیا ہے، اس لیے پہلی بار’’ بیٹی ‘‘کہہ کر تمہیں مخاطب نہیں کر رہا ہوں کہ میرے منھ سے ’’بیٹی ‘‘سن کر کہیں تم اور نہ بھڑک جاؤ۔ ابھی کچھ تہذیب کے ساتھ تو بول رہی ہو، کہیں اتنی مشتعل نہ ہو جاؤ کہ تہذیب ہی کھو بیٹھو۔ اشتعال کی آگ تہذیب کو آن کی آن میں جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ خیر! دیکھو، میں کسی فلاسفر، کسی رشی، کسی سنیاسی یا یوگی کی بات نہیں کر رہا ہوں، اپنی بات کر رہا ہوں۔۔۔ میرا تجربہ بھی یہ ہے اور مشاہدہ بھی کہ انسانوں کی دنیا بہر حال انسانوں کی دنیا ہے۔۔۔ یہ نہ فرشتوں کی بستی، نہ شیطانوں کا جہاں۔ انسانوں کی دنیا میں بہت برائی ہے، یہ بات سچ ہے، لیکن انسانوں کی دنیا میں اچھائی ہے ہی نہیں، یہ بات سچ نہیں ہے۔۔۔ نہ سچ ہو سکتی ہے ۔۔ اصلاح کا دری ہاں ہمیشہ کھلا رہتا ہے، بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ ہر گمراہ کو سنبھلنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے اور اسے اس کا موقع بھی ملنا چاہئے۔تاریخ گواہ ہے کہ اصلاح نے انسانوں کی اس زمین پر بڑے بڑے معجزے کر دکھائے ہیں۔ یہاں ایک ڈاکو بالمیکی ہو جاتا ہے، ایک کند ذہن کالی داس ہو جاتا ہے، ایک عمر حضرت عمر فاروق ہو جاتے ہیں۔ ایک برا کام کرنے والا ہمیشہ برے کام کاہی مرتکب ہوتا رہے گا،ایک مجرم ہمیشہ جرم ہی کرتا رہےگا، یہ ایک بڑی بے ہودی سوچ ہے۔ کلنگ کا ایک جابر و ظالم فاتح اشوک اعظم بھی بن سکتا ہے۔ میں نے کہا نہ کہ انسانوں کی بستی میں اصلاح کا در کھلا ہے، کھلا رہنا بھی چاہئے۔‘‘

    نوشابہ نے کچھ کہنا چاہا، مگر پروفیسر مرتضی نے ہاتھ اٹھا کر کہا ’’میری بات سنو۔۔ ماضی کے ایک جرم کے لیے کسی کو ایک مسلسل سولی پر نہیں لٹکایا جا سکتا، نہ ہی لٹکایا جانا چاہئے۔ انسان اگر ماضی کو لیے بیٹھا رہےگا تو حال کو بھی کھودےگا اور مستقبل کو بھی۔ ماضی کے مشاہدات کو زندگی کا معاون تو بنا لینا چاہئے، لیکن ماضی کو زندگی کر لینا بہت بڑی حماقت ہے ۔۔ منصور طیش میں آ کر ہوش کھو بیٹھا تھا۔۔۔ سیب کاٹنے والا چاقو اٹھا کر اس نے غلیظ گالی دینے والے پر حملہ کر دیا تھا۔۔ اسے اس کی سزا بھی عدالت نے دی۔۔۔ اگر کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ آپ کو غلیظ گالی دے، تو آپ کو بھی یہ حق نہیں کہ آپ گالی دینے والے کو چاقو مار دیں۔۔۔ لیکن طیش میں بے ارادہ ایسا ہو جاتا ہے۔ غلطی ہو جاتی ہے۔ منصور سے بھی ہو گئی۔ وہ گرفتار کیا گیا، اس پر مقدمہ چلا اور عدالت نے اسے سزا دے دی۔ اس نے سزا کاٹی، لیکن وہ بہرحال کوئی عادی مجرم نہیں تھا۔ جیل میں اچھے چال چلن کی وجہ سے اسے سزا پوری ہونے سے قبل ہی رہا کر دیا گیا۔ جیل سے نکل کراس نے ایک قاعدے کے انسان کی طرح زندہ رہنا شروع کیا اور ایک۔۔۔ معقول زندگی میں قائم ہو گیا۔ آج وہ ایک شائستہ انسان، ایک کامیاب بزنس مین، ایک محبت کرنے والا شوہر اور اپنے دونوں بچوں کا شفیق اور ذمے دار باپ ہے۔ اس کا جرم اور اس جرم کی سزا اس کا ماضی ہے، بھولا بسرا ماضی۔۔۔ اسے بھولا بسرا ماضی ہی رہنے دو۔ اس کے ماضی کی اس تاریکی سے اپنے اور اس کے روشن تعلقات کو داغدار نہ کرو، ورنہ ان داغدار تعلقات کا اثر تم دونوں کے بچوں پربھی پڑےگا اور ان کی نفسیات گڑبڑا جائے گی۔۔ تمہارا رویہ قطعی نارمل رہنا چاہئے۔‘‘

    ’’کیا یہ ممکن ہے؟‘‘ نوشابہ کا ہر انداز اب بھی جارحانہ تھا ’’اب جب کہ یہ بات مجھے معلوم ہو چکی ہے کہ منصور ایک سزا یافتہ مجرم ہیں اور۔۔۔’‘

    ’’میں نے کہا نہ کہ ماضی کو حال میں نہ گھسیٹو۔۔۔ سب کی بھلائی اسی میں ہے’‘ پروفیسر مرتضی اب بھی مجسم متانت تھے۔

    ’’ہاں آپ کو یہ کہنا ہی چاہئے ۔۔ بیٹے کا معاملہ ٹھیرا‘‘ نوشابہ کے لہجے میں ناگواری بھی تھی اور طنز بھی۔ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور بولی ’’ٹھیک ہے، زندگی تو کاٹنی ہی ہے، لیکن میں یہ بات کبھی بھول نہیں سکوں گی کہ آپ نے اپنے بیٹے کی زندگی کو روشن کرنے کے لیے مجھے تاریکی میں رکھا، میری زندگی کو یوں داغدار کیا۔ میں تو آپ کو بہت نیک اور بڑا شریف انسان سمجھتی تھی، لیکن بہرحال شرافت کاجو ملمع آپ نے اپنے اوپر چڑھا رکھا تھا آخر آج اتر ہی گیا۔‘‘

    ’’میں نے اپنے اوپر شرافت کا ملمع نہیں چڑھا رکھا تھا میڈم نوشابہ‘‘ پروفیسر مرتضی کی آواز اونچی تو نہیں ہوئی، لیکن اس میں سے متانت بہرحال ختم ہو گئی۔ ’’کبھی کبھی کسی کالی حقیقت کی پردہ پوشی شرافت کا تقاضہ تو بن ہی جاتی ہے، زندگی کی ضرورت بھی بن جاتی ہے۔ وہ سچ جو زندگیاں تباہ کر دے ہزار ہا جھوٹ سے بھی برا ہے، اس لیے ایسا سچ کو زبان پرنہ لانا سعادت بھی ہے، شرافت بھی۔ میں واقعی شریف آدمی ہوں۔ اگر میں نے تم سے یہ چھپایا کہ منصور ایک سزا یافتہ مجرم ہے، تو منصور سے میں نے یہ چھپایا ہے کہ شادی سے پہلے کان پور میں تم اپنا ایک ابارشن کروا چکی ہو۔ تمہارا یہ راز ابھی پچھلے سال مجھے معلوم ہوا، لیکن میں نے اپنی زبان بند رکھی، اور بند ہی رکھوں گا تاکہ تم زندگی کی شادابی جیتی رہو۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے