Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فرد جرم کا جواب

ایم سکمارن

فرد جرم کا جواب

ایم سکمارن

MORE BYایم سکمارن

    میں کہ ستیہ روپ گزشتہ پندرہ سالوں سے آپ کے دفترمیں ایک چپراسی ہوں۔ میرا دل گواہ ہے کہ اس عرصے میں جوبھی کام دیاگیا، اسے میں نے پوری وفاداری اور لگن سے کیا۔ چالیس سال کی اس ملازمت میں میری جوبری حالت ہوئی ہے، اس کے لیے میں اپنی بدقسمتی کوہی کوستا ہوں، میں کسی اورکوکیاالزام دوں۔ مجھے جس دن معطل کرکے نوکری سے ہٹایاگیا اس دن سے میری نیندحرام ہوگئی۔

    آپ خودہی اندازہ کرسکتے ہیں کہ صرف ایک سوچون روپے ماہوار تنحواہ پانے والاایک چپراسی معطلی کے ایام میں صرف گذارہ بھتہ سے اس شہر میں زندگی کیسے گذارسکتاہے۔ میں نے خواب میں بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ آپ جیسے خوش قسمت اعلیٰ عہدے پرفائز جوان میرے ساتھ ایساسلوک کریں گے۔ حصول تعلیم کے دنوں میں آپ ترقی پسند اسٹوڈنٹ یونین کے رہنماتھے اوراب بھی محنت کشوں کے خیراندیش ہیں، اس لیے مجھے ان خیالات سے بڑی تکلیف پہنچی ہے۔

    جس دن مجھے چارج شیٹ دیاگیاتھا، اس دن آپ سے ملاقات کی میں نے کوشش کی، تو بڑی دیرتک انتظار کرنے کے بعد آپ سے ملاقات کاموقع ملا۔ آپ گھومنے والی کرسی پربیٹھے انگریزی اخبارپڑھ رہے تھے۔ مجھے دیکھ کرغصہ اورنفرت سے آپ نے اخبارمیزپرپٹخ دیا۔ اس دن آپ نے مجھے جوکچھ کہا، شاید آپ کویاد نہ ہوگا مگرصاحب میں ان الفاظ کو بھول نہیں سکتا کیونکہ وہ تیرکی طرح میرے تن بدن میں گھس گئے تھے۔

    مجھے جوکچھ درخواست کرناتھی، وہ درخواست سننے کی نہ آپ کی خواہش تھی نہ وقت تھا۔ آٖپ نے کہا تھا، ’’کمرے سے فورا نکل جاؤ، ورنہ تمہیں ابھی باہر نکالنے کے لیے مجبوراً مجھے کوئی کارروائی کرنی پڑے گی۔‘‘ میں دست بستہ کھڑا رہ گیاتھا۔ آپ کے چپراسی نے آپ کے دستخط کیے ہوئے فائل باہرلے جاتے وقت جوتے سے میرے انگوٹھے کوکچل ڈالا۔ میں بھی ایک چپراسی ہوں، ایک جوتاتک خریدنے سے قاصرچپراسی۔ پھربھی میں نے اس آدمی کوگھورکردیکھاتک نہیں کیونکہ میں اس وقت معطلی کے کٹہرے میں کھڑا تھا اور اس سے بچ کرجانے کی فکر میں ڈوباہواتھا۔

    جب میں نے آپ سے درخواست کی کہ مجھے بچالیجیے تب آپ میزپرہاتھ پٹخ کر چلااٹھے، ’’گیٹ آؤٹ۔‘‘

    اسی لمحہ میں باہرآیااور کمرے کے باہراس پائیدان پرچارج شیٹ لیے کھڑا ہوگیا جس پر ’’گوڈازٹروتھ‘‘ نقش ہے۔ تبھی آپ کے چپراسی نے آکرمجھے اطلاع دی کہ آپ مجھے بلارہے ہیں۔ یہ سنتے ہی میرے دل میں حوصلے کے پھول کھل اٹھے۔

    آپ کاچہرہ تمتمارہاتھا۔ آپ نے اپنے لمبے بالوں پر ہاتھ پھیراتے ہوئے سخت الفاظ میں کہا، ’’دس دن کے اندر جواب دیناہے۔ یہ مدت بڑھائی نہیں جائے گی۔ جواب نہ دیاگیا توایک طرفہ فیصلہ ہوجائے گا۔ ایک بات پر مخصوص خیال دینامفیدرہے گا۔ چارج شیٹ قبول کرنے سے انکار کروگے توہم ثبوت کوکام میں لائیں گے اورتم سروس سے نکال دیے جاؤگے، الزام قبول کرنے پرسزامیں کمی ہوجائے گی۔ تم اب جاسکتے ہو۔‘‘

    میں سلام کرکے باہرچلا آیا۔ زینوں سے اترکرباہربرآمدہ عبورکیاجہاں میں نے اتنے دن تک کام کیاتھا۔ ڈسپیچ سیکشن کودور سے دیکھ کردل میں ایک ہوک سی اٹھی۔ گوندلگانے کی بواورلاکھ پگھلنے کی تیزبو کے ماحول میں کیامیں پھرسانس لے سکوں گا۔ اس کمرے میں جہاں ہاتھ لگانے پرچپک ہی چپک ہوتی ہے، گھسنے کی خوش قسمتی کیاپھرسے حاصل ہوگی۔ چارج شیٹ ابھی ہاتھ میں تھا۔ مجھے بڑی جھنجھلاہٹ ہورہی تھی۔ میرانام ستیہ روپ ہے۔ کس نے مجھے یہ نام دیا۔ سچائی کاپیکر۔ کیاتماشاہے۔ ماں نے ہی یہ نام رکھاہوگا۔ والد نام رکھ ہی نہیں سکتے تھے، کیونکہ وہ میری پیدائش کے چھ مہینے پہلے ہی جیل جاچکے تھے اور ڈیڑھ سال بعدواپس ہوئے تب تک میں ایک سال کاہوچکا تھا۔

    سرکار!میرے والد نے جوجرم کیاتھا، اس کے بارے میں بھی توآپ کوجانناچاہئے نا۔ انہوں نے لوہے کی چھڑسے مکہ بازرامن پلے نام کے سب انسپکٹر کے کندھے کی ہڈی ٹکڑے ٹکڑے کرڈالی۔ اس جرم کے لیے انہیں سزابھگتنی پڑی۔ مگربیٹا قصوروارنہ ہونے پربھی سزابھگتنے جارہاہے۔ ہائے رے انصاف۔

    پورٹیکو میں کھڑے ہوکر میں چارج شیٹ پڑھنے لگا۔ اسے پڑھ کر میں حیران رہ گیا۔ دل بیٹھنے لگا۔ آنکھوں کے سامنے تاریکی چھاگئی۔ مجھ پرلگائے گئے الزام عجیب تھے۔ ان میں سے ایک بھی توصحیح نہیں تھا۔ ان الزامات کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔ مجھ پرالزام تھاکہ میں نے رشوت لی ہے۔۔۔ ناقابل برداشت الزام۔ میراتوکوئی دشمن بھی نہیں، جس نے یہ آگ لگائی ہو اورافسروں کوبھڑکایاہو۔

    الزامات یہ ہیں،

    (۱) ہیڈکانسٹبل شری بی کے کنجوموئدین نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے پراویڈنٹ فنڈ سے نان ریفنڈ کی صورت میں ایک ہزارروپے پیشگی لینے کی عرضی دی تھی۔ اس سے دس روپے رشوت کی صورت میں لے کرمحکمہ کے کلرک کی مددسے جلدی سے کام کردیاگیا۔

    (۲) تعلقہ آفس سے پنشن یافتہ شری بی کنجورامن سے پندرہ روپے رشوت لے کرمتعلقہ شعبہ کے کلرک کی مدد سے پنشن اورگریجویٹی ایک ہفتہ کے اندرمنظور کرادی۔

    (۳) میڈیک کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرکنجوننی نایر کو ’’سرینڈر لیوسیلری‘‘اوردومہینے کی تنخواہ یعنی ایک ہزارتین سوسے زیادہ کاروپے کی پے سلپ دلاکر ٹریزری کاپی جلدی سے پہنچانے کاوعدہ کیا، جس کے لیے ان سے پانچ روپے رشوت لی۔

    میری آنکھیں امنڈپڑیں۔ باہرسخت دھوپ تھی۔ میراگلاخشک ہونے لگا۔ پانی کا کولرخراب پڑا تھا، ورنہ ایک گلاس ٹھنڈا پانی پی لیتا۔

    سرکار!میں نے اپنے آپ جواب جمع کرنے کی کوشش کی اور کشمکش میں مبتلادل کومطمئن رکھنے کی بے کار کوشش کی۔ میں نے خود اپنے آپ سے کہا، ’’اے ستیہ روپ بیوقوف مت بن۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ تواتنا گھبرارہاہے۔ توبے قصور ہے تجھے سزا نہیں ملے گی۔ انصاف تجھے مل کررہے گا۔ ہمت کوہاتھ سے جانے نہ دے۔ تیرے نوجوان افسرمحنت کشوں کے ہی توخیرخواہ ہیں، تجھے کوئی نقصان نہ پہنچنے دیں گے۔‘‘

    میں دفترکے دروازے کے باہرنکلا۔ گاڑیاں ہارن بجارہی تھیں گویامیں ان کادشمن ہوں۔ کافی ہاؤس سے باہر آتے ہوئے گوبندتومس اور اچیرت نے مجھے دیکھا اورمیرے پاس آئے۔ ان کلرکوں کومیرے متعلق بہت مہربانی تھی کیونکہ میں ان کابجلی کابل جمع کردیاکرتاتھا، ان کے لیے ڈیری سے دودھ کا کوپن لادیتا، خزانے میں چالان جمع کرادیاکرتا، سب مجھے پہلی تاریخ کوایک روپیہ دے دیاکرتے اورکہتے تھے، ’’ستیہ روپ، کافی پی لینا۔‘‘ مگر اس دفعہ انہوں نے تین تین روپے میری جیب میں ڈال دیے۔ شاید یہ سوچا کہ آج کل مجھے برے دنوں کاسامنا کرناپڑرہاہے۔ ان کے چہرے سے ہمدردی ظاہرہوتی تھی، اس لیے میں کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ ان دونوں کے سامنے میرا گلاروندھ گیا۔ میں سرجھکاکرآگے بڑھا۔

    سکریٹریٹ کے سامنے غیرمعمولی بھیڑتھی۔ ہوا میں لال جھنڈے لہرارہے تھے۔ میں سایہ میں کھڑا چاروں طرف دیکھتارہا۔ تب ایک پولس کانسٹبل میرے پاس دوڑا آیا۔ میرے کندھے پرہاتھ رکھ کرحکم دیا، ’’یہاں سے چلے جاؤ۔ یہ بدمعاش لوگ جان بوجھ کر جھگڑا کریں گے۔ کیا تم نے یہ جھنڈا نہیں دیکھا۔ لاٹھی جب چلتی ہے تودوستوں اورشناساؤں کونہیں دیکھتی۔ تمہارا یہاں سے فورا چلاجاناہی مناسب ہے۔‘‘

    پولیس والے کے کہنے پرہی میں وہاں سے بھاگا تونہیں مگرخوفزدہ ضرورہوا۔ میں نے اس خوف کوظاہرہونے نہ دیا اورآہستہ آہستہ چل پڑا۔ کچھ دورتک پولیس والا میرے ساتھ چلا۔ اس نے کہا، ’’یہ میری کمزوری ہے کہ میں احسان کرنے والے لوگوں کوبھول نہیں سکتا۔ جوکچھ آپ کے ساتھ ہوا مجھے اس کے لیے صدمہ ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر کانسٹبل الوداع کہہ کرچلاگیا۔ اچانک شوروغل سنائی پڑا۔ لاٹھی چارج شروع ہوا۔ لوگ منتشر ہوگئے۔ جوتوں کی کھٹکھٹاہٹ اورہے ہو، چیخ پکار بڑھتی رہی۔ میں بائیں طرف کے راستے سے بھاگ گیا۔

    اپنے کرایہ والے کمرے میں پہنچنے پربھی میں ہانپتا رہا۔ وہ پولیس والا صلاح نہ دیتا تو اس وقت میں اسپتال میں ہوتا۔ دیکھیے صاحب! کم آمدنی والے کے تئیں ان کا کتنا اچھا اخلاق تھا۔ احسان کرنے والے کوکبھی بھول نہیں سکا۔ پولیس والے نے جوکچھ کہا وہ کیاہے، میں نے اس پرسرنہیں کھپایا۔ مگرایک ہی شعبہ باقی رہتا ہے۔ غالبا پولیس والے کوبھول ہوئی ہوگی۔ اس نے مجھے نہ پہچانا ہو۔ پولیس والوں میں بھی ایسے مشفق آدمی ہوتے ہیں۔

    آپ نے میراکرایہ کاکمرہ نہیں دیکھا۔ دیکھتے تواس بیچارے کوتنگ کرنے کا خیال آپ کے دل میں پیدانہ ہوتا۔ صرف ایک کھڑکی ہے۔ اس کے سامنے پاس والے مکان کی دیوار کھڑی ہے، جس کی وجہ سے میرے کمرے میں ہوا اور روشنی تک نہیں پہنچتی۔ وہ دیوار بھوت جیسی کھڑی ہے۔ ایک مشہور شہری کادومنزلہ مکان ہے۔ خیرمیرے کمرے کی طرف دیکھیے۔ ایک اسٹول، المونیم کے دوتین برتن، ایک ٹنگنا اوراس پرکچھ میلے کپڑے، بس صرف اتناہی ہے۔

    سرکار! میں نے ایک راشن کارڈ حاصل کرنے کے لیے کتنی ہی زحمت اٹھائی۔ سویرے مانڈپی کردوپہر کے لیے چاول کی پوٹلی لیے میں دفترجاتا۔ طاقت بخش غذا کی کمی کی وجہ سے مرض چرم میں مبتلا ہوگیا۔

    اخبار کاخریداربن کراخبارپڑھنے کی زیادہ اہلیت نہیں، اس لیے ایک دن چوک ہوگئی، جس سے راشن کارڈ بدلوانے کے دن کی اطلاع نہ پڑھ سکا۔ پچھلے ہفتے میں مجھے راشن نہیں ملا۔ انہوں نے مجھے ڈرایادھمکایابھی اورکہا، ’’راشن کارڈ کی ضرورت نہ ہوگی۔ ضرورت ہوتی تو اسے بدلو انے کی تاریخ یادرکھتے۔ جوبھی ہو کچھ دن ضرورلگیں گے۔ دوتین ہفتے تک ہوٹل میں کھاناہی ہوگا۔‘‘

    میرے ہوش اڑگئے۔ جب تنخواہ پوری ملتی تھی تب بھی گذرکے لیے زحمت اٹھانی پڑتی تھی۔ معطلی کے دوران ملنے والی رقم سے کیسے زندگی کا نباہ کروں۔ میں مایوس ہوکر راشن کے آفس کے برآمدے میں کھڑا رہا۔

    ایک آدمی نے میری پیٹھ تھپتھپائی۔ تب ہی میں چونک اٹھا۔ وہ سفید بالوں والا آدمی مجھے دیکھ کرہنسا۔ میں نے اسے پہچانانہیں پھربھی وہ ہنس دیا، ’’کہو، یہاں کیسے؟‘‘ اس کے پوچھنے پرمیں نے اپنے غم کوہلکا کرنے کے لیے دل کھول کرسب کچھ کہہ سنایا۔ بہت ہی آسان کام ہے۔ وہ آدمی میرے ہاتھ سے راشن کارڈ لے کراندرچلاگیا۔ میں اب بھی اپنی یادوں کی الجھنوں کوسلجھارہاتھا۔ اس آدمی سے کہاں ہمارا تعارف ہوا۔ اس سے پوچھنا مناسب نہیں۔ میں اکثربھول جایاکرتاہوں۔

    صاحب میں اختصارسے بتاؤں گا۔ آدھے گھنٹے کے اندرنیاراشن کارڈ مل گیا۔ اس آدمی نے مجھ سے کہا کہ میرے پنشن حاصل کرلینے پربھی وہ افسر مجھ پربڑا مہربان ہے۔ راستے میں ایک دوسرے آدمی کودیکھتے ہی ’’جاؤں‘‘ کہتے ہوئے اس نے الوداع کہا اوروہ بوڑھا چلاگیا۔

    آپ شاید سوچتے ہوں گے چارج شیٹ کے جواب میں یہ سب باتیں کیوں بتائی جارہی ہیں۔

    آپ نوجوان ہیں۔ صاحب آپ کودنیاوی تجربہ نہیں، اس دنیا میں صرف آپ اورمیں ہی تونہیں۔ کروڑوں انسان ہیں۔ ان میں ایک یادوبڑے دل اوربھلے مانس لوگوں کاتعارف کراتاہوں۔ بس اتناکہنے کی معافی دیجیے۔

    جواب دینے کے لیے دس دن ہی دیے گیے۔ پانچ دن گذرگئے۔ دن کے وقت سونے کی وجہ سے رات کونیندنہیں آئی۔ رات میں نیند نہ آنے کی وجہ سے برے خواب دیکھ کرچونکتانہیں۔

    سارے بدن پربری طرح سے خارش ہوتی ہے۔ مانڈاورمو نگ لگاتارہا ہوں۔ ہفتہ میں صرف ایک بارسرپرتھوڑا تیل لگاتاہوں پھرکیونکر کھجلی نہ ہو، رات بھرکھجلاتا رہا۔ سارے بدن پر کھرونچ پڑگئی۔ ناقابل برداشت ہونے پرمیں نے میڈیکل کالج کے اسپتال میں جانے کافیصلہ کرلیا۔

    لمبی قطار میں بہت دیرتک انتظار میں کھڑا رہا۔ آخرمیں قطار میرے پیچھے بھی ہوگئی۔ دروازہ کھول کرمیں نے ڈاکٹر کو ہاتھ جوڑکرسلام کیا۔ ڈاکٹر اپنائیت سے ہنسے۔ مجھے اسٹول پربٹھایا۔ میری بیماری کی پوچھ تاچھ کی۔ میرے بدن کی اچھی طرح جانچ کی اور انہوں نے کوئی پیٹنٹ گولی تجویز کی۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ، ’’یہ گولی یہاں نہیں ہے، تمہیں بازار سے خریدنی ہوگی۔ یہ مہنگی ہے۔ مذکورہ گولی پینسٹھ پیسے کی ہوگی۔ تمہیں خریدنے میں زحمت ہوگی۔ ڈاکٹر نے درازکھولی۔ یہ لونمونہ کے طورپر کمپنی والے کی دی ہوئی ہے۔‘‘ میں حیران رہ گیا۔ سرکاری اسپتال کے ڈاکٹربھی اتنے بھلے ہوتے ہیں۔ میں نے اٹھتے ہوئے سلام کیا۔

    تب انہوں نے کہا، ’’انہیں کھانے سے پوری طرح صحت مند ہوجاؤگے۔ اگرنہیں توپھر آجانا۔ فکرنہ کرو۔ تم میرے لیے ٹریزری اوردوسرے مقام پرجاتے تھے نا؟‘‘ اپنے شک کودورکرنے کے لیے کچھ کہناہی چاہتاتھا کہ دوسرا بیمار اسٹول پرآبیٹھا اورمیں باہر نکل گیا۔

    شاید بھرم ہوا ہو، ہم شکل بہت سے لوگ ہوتے ہیں۔ مجھے ایک شرارت سوجھی۔ میں نے سوچا خواہ جوبھی ہو، مفت میں دوا حاصل ہوئی۔ فوراً یہاں سے چلے جاناچاہئے۔ بھول ہوئی پہچان نہ سکا۔ ایسا کہہ کر اگر ڈاکٹر بلالے تو۔ محترم افسر!اس ڈاکٹر سے کچھ سیکھ لیجیے۔ وہ میری تنخواہ سے چارگناتنخواہ پاتا ہے۔ اس کا سلوک دیکھا نا۔ دواپئے بغیر ہی بیماری آدھی رہ گئی۔ ایسی ہمدردی تھی اس کی۔

    وقت گذررہاہے۔ دی گئی مدت پوری ہوچکی۔ تحریری قانون آپ کے ہاتھ میں ربڑکی طرح ہیں۔ میرے لیے ایک دم فولاد۔ کتنے حیرت کی بات ہے۔

    دسواں دن آج پانچ بجے پوراہوجائے گا۔ آج سویرے بھی میں نے آپ سے ملنے کی خواہش کی۔ آپ نے پہلی بار ملنے سے انکارکردیا۔ آپ کچھ بڑے بڑے لوگوں سے باتوں میں مشغول تھے۔ ایک گھنٹے کے بعدمیں پھرآیا۔ آپ کے چپراسی نے نفرت سے دروازہ کھول دیا۔

    جب میں آپ کے سامنے پہنچاتب آنکھیں بھرآئیں، میں نے گذارش کی، ’’سرکار میری حفاظت کیجئے، آپ کے علاوہ مجھے کوئی بھی بچانہیں سکتا۔‘‘

    آپ جوفائل دیکھ رہے تھے، بھوئیں چڑھاکر آپ نے اسے ایک دم الٹ دیا۔

    ’’جواب لائے ہو؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ میں نے نرمی سے کہا۔

    ’’آج پانچ بجنے سے پہلے جواب آجاناچاہئے، ورنہ مجھے خودنہیں معلوم کہ کیا ہوگا۔ رشوت لینے کی بات ہے، قصورقبول کرناہی اچھا ہے، پلیزگٹ آؤٹ۔‘‘

    میرے جسم میں سوئیاں سی چبھنے لگیں، دالان میں میرے ساتھی اپنے اپنے کام میں مشغول تھے، میرابدن پسینے میں ترہوگیا۔ دفتر کے اس بڑے برگد کے درخت کے نیچے میں جاکر کھڑاہوگیا۔ مجھے لگاکہ میراسینہ کبھی نہیں سوکھے گا۔

    میں نے سراٹھاکردیکھا تویہی آفس سامنے تھا۔ تاریکی میں امید کی کرن!سکریٹری پوچھے گا، ’’تم اتنے دن کیاکرتے رہے تھے؟‘‘تب میں کیاجواب دوں گا۔ اتنے دنوں سے میں یہی سوچ رہاتھا۔

    میں سیڑھیوں پرچڑھا، سکریٹری کچھ لکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیرتک میں کھڑا رہا۔ میرے کھانسنے پرسکریٹری نے سراٹھاکردیکھا۔

    ’’ہلوستیہ روپ مجھے پتہ چل گیاہے چیف سے مل کرسب باتیں کرلی ہیں نا؟‘‘

    ’’ہاں صاحب، کوئی امیدنہیں۔‘‘

    ’’کیاگھر پربھی ملے تھے؟‘‘ جواب نہ بن پڑا، دل توغمگین تھا۔ میں نے کہا، ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’اچھا’’کہتے ہی سکریٹری پھرلکھنے میں مشغول ہوگیا۔ کچھ دیرکے بعد کہا، ’’یہ نوٹس لکھنے کے بعد میں چیف سے ملوں گا۔ ٹھہرو۔‘‘

    میں سکریٹری کی میز کے پاس کھڑارہا۔ سکریٹری لکھتا ہی رہا۔

    ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ کچھ لوگ دوسروں کامنھ بندکرکے اس تنظیم کواپنی ننگ وذلیل سیاسی مقصد کے لیے ایک اسٹیج بناناچاہتے ہیں۔ ان لوگوں سے ہمیں مقابلہ کرناہے۔ ہم ان نئے جمہوریت پسندوں کوایسے ہی الگ الگ کردیں گے جیسے ان کودوسری جگہوں پرشکست دی ہے، اس طرح کامیرامضبوط یقین ہے۔۔۔ تنظیم کے ساتھ۔۔۔ آؤ۔

    سکریٹری نے چارج شیٹ ہاتھ میں لیا۔ میں سکریٹری کے پیچھے پیچھے چلا۔ میں پرامید ہونے لگا۔ بچنے کی کی توقع کی۔

    سکریٹری چیف کے کمرے میں پہنچا۔ میں ایک کونے میں دیوارپرناخن کا نشان بنائے بغیر ہی خاموش کھڑا رہا۔ میرے ہاتھ پیرسخت سردی میں ٹھٹھرتے رہے۔

    سکریٹری اچانک خلاف امیدزور سے دروازہ کھولتے ہوئے باہرآئے۔ چارج شیٹ لاپروائی سے میری طرف پھینک دیا۔ سکریٹری کی آنکھیں سرخ ہواٹھیں، وہ گرج دار آوازمیں بولا، ’’رشوت لینے والوں کوبچانے کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔ رشوت لینے کے وقت سوچناچاہئے تھا۔ پولیس، ڈاکٹر، پنشن والے ان سب کی تحریری شکایتیں مجھے دکھائی دی گئی ہیں۔‘‘ میں بے عزتی اورشرم سے پانی پانی ہوگیا۔

    ’’سرکار! میں نے کوئی جرم جان بوجھ کرنہیں کیا۔ مجھے ان میں سے کسی بھی الزام کاپتہ تک نہیں۔‘‘

    ’’نہیں مجھے کچھ نہیں سننا، صرف اس کی ہی شکایت ہوتی توبچاسکتاتھا۔ مگرمتعلقہ سیکشن کے کلرک نے لکھ دیا ہے کہ انہیں نے تم کورشوت لیتے دیکھا۔‘‘

    ’’جھوٹ، سراسرجھوٹ ہے۔ گووندتھومس اوراچوت نے اپنے ہاتھ سے جوکچھ لکھا ہے سب کچھ جھوٹ ہے۔ بس۔۔۔ بس‘‘

    ’’رشوت خوروں کاہمدردرہنابھی میرے لیے بے عزتی کی بات ہے، تم جہنم میں جاؤتم سے کچھ مطلب نہیں۔‘‘

    سکریٹری سیڑھیاں اترکرچلاآیا تومیرا دل چاہا کہ ایک چھوٹے بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کرروؤں۔

    ’’میرے قابل محترم صدرشعبہ!اب میں کیا کروں۔ کب تک میں اپنی آنکھیں پونچھتا کھڑ ارہوں۔ آپ تومحنت کشوں کے خیراندیش تھے لیکن آپ نے ان کی فلاح اوربہبودی کے تمام جذبات کواپنے دل سے نکال کرانہیں بے مروتی کے تاریک کمر ے میں بندکرکے تالاڈال دیاہے اوراس تالے کی کنجی کوکسی کنویں میں پھینک دیا اور اب آپ من مانی کررہے ہیں۔ من مانی کرنے پرتلے ہیں۔ اتناہی نہیں سکریٹری نے بھی میری تحقیر کی اور اس طرح محنت کشوں کے نمائندوں نے میری امید پر پانی پھیردیا۔ میں ایسی مشکل صورت حال میں کیاکروں۔‘‘

    شیرکابچہ شیرہی ہوناچاہئے، اس مثال کی یاد آتے ہی دل چاہتاہے کہ آپ کا دروازہ دھکامارکرکھول ڈالوں اوراندرگھس کرکرسی یالکڑی سے آپ کوماروں۔ آپ کوقابو میں کرنے کے بعد میں سیدھاپولیس اسٹیشن میں حاضرہوجاؤں۔ خاکی پوشاک والے مجھے بری طرح ماریں۔ میری ہڈی پسلی الگ ہوجائے۔ میں جیل خانے میں بند ہوجاؤں۔

    میں صرف تصور ہی کرسکتاہوں۔ عمل میں لانے سے قاصرہوں۔ مجھے زندہ رہنا ہے۔ اس بڑی دنیامیں بھوکوں مرکربھی زندہ رہناہے۔ اس آخری گھونٹ کوبھی مجھے پیناہے۔

    مجھے معاف کردیجیے۔ آپ کے ذریعہ دیے گئے چارج شیٹ میں جوجوالزامات لگائے گئے ہیں سب صحیح ہے۔ کم آمدنی والے ایک چپراسی کا رشوت خوری کے علاوہ اورکوئی سہارا بھی تونہیں۔

    پولیس والے سے لیے ہوئے دس روپے سے میں نے اپنی بیٹی کوہاف ساری خریددی تھی۔ پنشن والے سے لیے ہوئے پندرہ روپے سے اپنے بوڑھے اوربیمارباپ کے لیے ان کاکپڑااورڈاکٹر سے لیے ہوئے پانچ روپے سے صفرا میں مبتلااپنی بیوی کے لیے آئرن ٹیبلٹ خریدی تھی۔

    مستقبل میں ایسا کبھی نہ ہوگا۔ غربت سے تنگ آگیاہوں۔ مجھے معاف فرمادیجیے، زندہ رہنے کے لیے خواہش مند اس بیچارے کومعاف کردیجیے۔

    سرکارساڑھے چاربج رہے ہیں۔ میرے قلم میں کبھی سیاہی ہوتی ہے کبھی نہیں۔ اس ناکارہ سے میں نے اتنا لکھا ہے۔ درجہ ہفتم تک ہی میری تعلیم ہوئی ہے۔ اس وجہ سے قواعد کی کئی غلطیاں ہوں گی۔ معاف فرمائیں۔

    میرامستقبل پوری طرح آپ کے قلم کی نوک پرہے۔ اس وجہ سے متعلقین کی خاطر آپ سے معافی کی التجا کرتاہوں۔ صرف ایک اورالتجا۔

    یہ جواب آپ کے ہاتھوں سونپنے کے بعدمیں سیدھااپنے کرایہ والے کمرے میں جارہاہوں۔ میرا غم اتنا بڑھ گیا ہے کہ میرے دل کی چہاردیواری کوہی چکناچورکیے دے رہا ہے۔ اس کمرے میں پڑے پڑے میں اپنے باپ کویادکروں گا۔ کم از کم اس موقع پر میں بزدل اپنے باہمت والد کویادکرکے فخر توکرسکوں۔ مجھے ایسامعلوم ہوتاہے کہ سن باون کی ایک کسان تحریک میں آلپوشاجیل میں پڑے میرے باپ نے آخری سانس لی۔ سیری ورن تھرامبوسس یاکس مرض کوبتانے والابھی کوئی وہاں نہ تھا۔ اسپتال کے جیسے جیل میں بھی موت ممکن تھی۔ آلپٹن کی صورت میں کسی پتلی کی صورت میں موٹی لکڑی کی صورت اختیارکیے اورکبھی مرچ کا سفوف بنے موت وہاں ظاہر ہوکر مرگ کاسبب بناکرتی تھی۔ باپ کویاد کرتے ہی مجھے روناآتاہے۔ روروکر ہی تسلی پالیتا ہوں تب میں خوداپنے بارے میں سوچتا ہوں۔

    اس شہرمیں انتالیس سال کی عمرتک بھی غیرشادی شدہ رہا۔ میرامستقبل کیا ہے۔۔۔؟

    سرکارمیری ایک درخواست قبول کیجئے۔

    مجھے رونے دیں۔

    میں روروکراپنا دل دھوڈالوں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے