Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فساد

MORE BYشری لال شکل

    کئی دن کی کڑاکے دار سردی اور بارش کے بعد دھوپ کھل کر نکلی تھی اور ہوا میں اچانک بسنت کا سلوناپن آ گیا تھا۔ اتوار نہ ہوتا تب بھی دن کچھ ایسا تھا جس میں کچھ کام نہیں ہوسکتا تھا۔ انہوں نے بیوی سے کہا کہ کچھ پینے کی اور کچھ کھانے کی چیزیں جلدی سے باندھ لی جائیں اور اتوار کو برباد کرنے والے لوگ آنا شروع کر دیں، اس سے پہلے ہی ہم لوگ کہیں پکنک پر نکل چلیں۔ تبھی خبر ملی کہ پڑوس کے ضلعے کے ایک گاؤں میں فساد ہو گیا ہے اور دو آدمی مارے گئے ہیں۔

    خبر وائرلیس سے آئی تھی۔ فساد فرقہ وارانہ تھا، پر ضلعے کے پولیس کپتان نے بھارتی پریس کی نقل کرتے ہوئے صرف ’’دوفرقوں کی جھڑپ‘‘ کی بات کہی تھی، ان کے نام نہیں کھولے تھے۔ اس علاقے کے ڈی آئی جی پولیس کی حیثیت سے انہوں نے اس پولیس کپتان کو ہمیشہ ’’کام چلاؤ‘‘ اور ’’خراب‘‘ کی درمیانی لکیر پر لڑکھڑاتا پایا تھا۔ تب انہوں نے پکے طور سے اسے ’’خراب‘‘ کے خانے میں ڈال دیا۔ بیوی سے کہا، ’’لگتا ہے پوری خبر جاننے کے لیے اب مجھے بھی بی بی سی سننا پڑےگا۔‘‘

    پکنک کی بات وہیں رہ گئی۔ بولے، ’’پسورام کا بھی میسج آ رہا ہوگا۔ شاید مجھے بھی موقعے پر جانا پڑے۔‘‘

    ایسا ہی ہوا۔ ان کا نام لیتے ہی ایک سپاہی نے، جو گھر کا باورچی بھی تھا، اندر آکر ان کے سامنے ایک وائرلیس کا پیغام پیش کر دیا۔ یہ ان پسورام کی طرف سے تھا جن کا سرکاری نام پنیت رام چودھری تھا اور جو صوبے کے آئی جی پولیس تھے۔ انہوں نے امید کی تھی کہ یہ میسیج شاید وہاں پر ان کی غیرموجودگی میں پہنچےگا، کہ وہ تب تک شاید موقعے پر پہنچ چکے ہوں گے۔ ہدایت کی گئی تھی کہ وہاں سے لوٹتے ہی وہ پورے حالات کی رپورٹ دیں۔ فساد پر قابو پانے اور ترنت امن و امان قائم کرنے کے بارے میں کوئی ہدایت نہ تھی۔ اتنے اونچے عہدے دار کے لیے اس کی ضرورت نہیں سمجھی گئی تھی۔

    دو آدمیوں کے مرجانے اور کئیوں کے زخمی ہونے کی خبر کے ساتھ ہی پولیس کپتان کے پیغام میں تھا کہ حالات پوری طرح قابو میں ہیں۔ انہوں نے بیوی سے کہا، ’’جلدی سے ناشتہ لگوا دو۔‘‘

    تھوڑی ہی دیر میں ناشتے کی میز پر وہ، ان کی بیوی اور دونوں بچے بیٹھ گئے۔ ایک بچے کو چھوڑ کر، جو دوردرشن کے کسی اشتہار کی لپیٹ میں صرف چاکلیٹ کا ٹکڑا چاٹتا رہا، سب نے قاعدے سے ناشتہ کیا اور بات چیت لڑکے کو چاکلیٹ کی جگہ معمول کے ناشتے کے فوائد سمجھانے پر مرکوز رہی۔ بعد میں بیوی نے کوئی بھلی سی بات یاد کرتے ہوئے کہا، ’’بہت جلدی نہ ہو تو پندرہ منٹ رک جائیے۔ سوچتی ہوں، ہم لوگ بھی پاپا کے یہاں چلے چلیں۔ راستے میں ہمیں اتار دیجیےگا۔‘‘

    انہیں جلدی تھی، پر وہ انتظار کرنے کو راضی ہو گئے۔ لگ بھگ ڈھائی گھنٹے بعد پورا کنبہ موٹر پر لد لداکر فسادزدہ گاؤں کی سمت بڑھا۔

    جس ضلعے میں فساد ہوا تھا اس میں بیوی کی خاص دل چسپی تھی۔ اس لیے نہیں کہ وہاں کی امرتیاں مشہور تھیں۔۔۔ وہ تو تھیں ہی۔۔۔ بلکہ اس لیے کہ اس ضلع میں ان کے پتا کا ایک فارم تھا۔ بیوی کے نہ رہنے اور شادی شدہ لڑکے لڑکیوں کے الگ الگ ہوجانے کے بعد سے وہ فارم پر ’’جنٹلمین فارمر‘‘ کی حیثیت سے اکیلے رہتے تھے۔ وہ اونچے سرکاری افسر رہ چکے تھے اور یہاں گاؤں میں کھیتی ہروں کے بیچ رہتے ہوئے ان کی آتما کو، جو اتنی لمبی سرکاری نوکری کے باوجود مناسب طور سے محفوظ تھی، شانتی ملتی تھی۔ فارم بڑی سڑک سے، جس سے انہیں فساد زدہ گاؤں تک پہنچنا تھا، چار کلو میٹر اندر پڑتا تھا۔ بیوی کو وہاں چھوڑنے کے بعد انہیں لوٹ کر پھر سڑک تک آنا تھا اور آگے پینسٹھ کلومیٹر جانا تھا۔

    ’’تمہیں میں نے دقت میں ڈال دیا۔ پر کیا کروں، پاپا بڑا اکیلاپن محسوس کرتے ہیں۔ آج نہیں تو دو چار دن بعد مجھے آنا ہی پڑتا۔‘‘ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر کچھ دیر سوچ کر کار کی کھڑکی سے بولے، ’’پاپا کو وہ لیفٹیننٹ گورنری لے لینی چاہیے تھی۔‘‘

    ’’تم نہیں سمجھ پاؤگے۔ ماں کے نہ رہنے سے۔۔۔‘‘

    ’’میں سمجھتا ہوں۔‘‘ انہوں نے بیچ ہی میں کہا اور بیوی نے انھیں تیکھے پن سے دیکھا۔ اسے بھروسا نہیں تھا کہ شوہر کے یہ الفاظ پاپا کے وقار کے ساتھ پورا پورا انصاف کرتے ہیں۔ پر وہ ان کا چہرہ نہیں دیکھ پائی، وہ کار کی کھڑکی سے سمت دیکھ رہے تھے۔

    راستے میں ایک تھانہ پڑتا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’میں تب تک یہیں رک کر کام کروں گا۔‘‘ ڈرائیور سے بولے، ’’میم صاحب کو فارم پو چھوڑ کر بیس منٹ میں آ جاؤ۔‘‘

    بیوی کو دلاسا دینے کے لیے انہوں نے اس کی بانہہ پر ہاتھ رکھا۔ کہا، ’’وہاں سب ٹھیک رہا تو شام کا کھانا پاپا کے ساتھ کھائیں گے اور آج ہی رات واپس لوٹ چلیں گے۔‘‘

    اس کے بعد انگریزی اسکول کے بچوں میں رائج وداعی موقعے کے ٹاٹا وغیرہ کے ساتھ سارے رسمی لفظوں اور اشاروں کو سمیٹے ہوئے موٹر فارم کی طرف جانے والے راستے پر تیزی سے چل دی اور وہ داروغاؤں اور سپاہیوں کے بیچ قتل، ڈکیتی، دنگا فساد کی اپنی خاص دنیا میں اکیلے رہ گئے۔

    بیوی کے فارم پر بتائے گئے دن کا وہ ٹکڑا، اس کے ماضی اور حال کی ساری رومانیت کے ریشمی تانے بانے سے تیار ہوا تھا۔ اپنے پاپا کے ساتھ وہ اپنے ماضی کے سہانے خوابوں اور حال کے اس سے بھی زیادہ لبھاونے سپنوں میں کھوئی رہی۔ یہ دوسری ہی دنیا تھی۔

    پیڑ پودے اور طرح طرح کے سبزے کی جھلملاتی ہریالی کے بیچ بنی چھوٹی سی کاٹیج کے برآمدے میں پیر رکھتے ہی اسے خوشی ہوئی تھی۔ پاپا پہلے سے دو چار سال کم ہی دکھ رہے تھے۔ گالوں پر پہلے سے زیادہ دمک تھی۔ وہ جب بچوں کو پیار سے اپنی طرف کھینچنے میں لگے تھے تبھی ان میں سے ایک نے کافی ٹیبل پر رکھی ایک کتاب کی طرف اشارہ کرکے کہا، ’’وہ کیا ہے؟‘‘

    ’’تمہارے کومکس!‘‘

    پر کتاب کے پنے پلٹتے ہی بچے کے چہرے پر پریشانی جھلکنے لگی۔ بولا، ’’ناناجی، آپ چیٹ کر رہے ہیں۔‘‘ کتاب کا عنوان اس کی جانی پہچانی انگریزی میں ہونے کے باوجود اسے پڑھنے میں وقت ہوئی۔ دھیرے دھیرے اس نے پڑھا، ’’یوگا واسی شٹھی۔‘‘ پوچھا، ’’یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے کتاب اس کے ہاتھ سے لے لی۔ کہا، ’’یہ ہم بڈھوں کی کومکس ہے۔‘‘

    ادھر ان کی بیٹی نے انہیں ٹوکا، ’’پاپا، آپ کو بڈھا کون کہتا ہے؟‘‘ ادھر انہوں نے بچوں کو دونوں ہاتھ سے کمرے کے اندر ٹھیلا۔ بولے، ’’اندر جاکر میز پر دیکھ لو۔ تمہارے نئے کومکس کا پیکٹ ایک کونے میں رکھا ہے۔۔۔ اور ہاں، الماری میں بھی دیکھنا۔‘‘

    الماری میں چاکلیٹ تھے۔

    ’’آج کا اتوار تو پاپا، روی کے لیے برباد ہو گیا۔ سویرے آٹھ بجے ہی فساد کی خبر آ گئی۔ دولوگ مارے گئے ہیں۔ پتا نہیں ہندو ہیں یا مسلمان۔‘‘

    انہوں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ اچانک ان میں پرانا فرض کا احساس جاگا۔ بولے، ’’اب تک روی کیا کرتا رہا؟ اسے وہاں بہت پہلے پہنچ جانا چاہیے تھا۔‘‘

    ’’میری وجہ سے ہی۔۔۔‘‘

    ’’نہیں نہیں، تم سے کیا مطلب؟ شاید آج کل طریقہ ہی یہی ہے۔‘‘ پھر، ’’تمہاری سائنو سائٹس اب کیسی ہے؟‘‘

    دھیرے دھیرے دن بیتا، سورج ڈوبا۔ ان دنوں جھٹ پٹے کا وقفہ زیادہ لمبا ہونے لگا تھا۔ آسمان صاف تھا، پرافق پر ہلکی لالی کا دائرہ تھا اور اس کے نچلے حصے میں کالک کی ایک پٹی پھیل کر گہراتی جا رہی تھی۔ پچھوا ہوا میں ٹھنڈک تھی، پر اس میں ابھی نوکیلاپن نہیں آیا تھا۔ دور دور تک لہلہاتی فصل کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے پاپا سے بات کرتی رہی۔

    بچپن کے دنوں میں پاپا کے ساتھ تمبوؤں، ڈاک بنگلوں اور سرکٹ ہاؤسوں میں بتائے ہوئے دن، شکار، رئیسوں اور افسروں کے جمگھٹ، پارٹیاں اور دعوتیں، پھر دلی کو تبادلہ، پھر وہیں بس جانا۔۔۔ جہاں پورا کنبہ چھوٹے شہروں کی زندگی سے پلٹ کر دیس بدیس کی اہم ہستیوں کی سلیقے دار بھیڑ میں سہجتا سے سرک کر گھل گیا۔ ماں کی لندن میں موت، ماتم پرسی کا ماحول، خود وزیراعظم کانجی پیغام افسوس۔

    پاپا سے بچھڑنا، پولیس افسر کی میم صاحب کا رتبہ، پاپا کی ریٹائرمنٹ، ان کا چمک دمک سے سنیاس، یہ فارم، یہ فصل، یہ سنسان، یہ کاٹیج، یہ ہریالی۔۔۔

    ’’پاپا، اس پسورام کو سچے، ایمان دار اور محنتی افسر اچھے نہیں لگتے۔‘‘

    ’’پاپا، اس بار آپ کی کاٹیج بہت پیاری لگ رہی ہے، یہ پھول کس نے سجائے ہیں اندر کے کمروں میں؟ کچن میں بھی۔۔۔‘‘

    ’’ایک آدی واسی لڑکی مل گئی ہے۔ عیسائی ہے۔۔۔ جین۔ آج میں نے اسے چھٹی دے رکھی ہے۔ بہت اچھی لڑکی ہے۔ دکھی ہے، اس کا مرد فاریسٹ ڈپارٹمنٹ میں چوکیدار تھا۔ ایک حادثے میں دو سال ہوئے۔۔۔‘‘

    ’’کھانا بھی بنا لیتی ہے؟‘‘

    ’’سیکھ رہی ہے۔ سوپ بہت اچھا تیار کرتی ہے۔‘‘

    پاپا کے وسکی سوڈا کاوقت ہو رہا تھا۔

    ’’پاپا، آپ کچھ دن ہم لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں رہتے؟‘‘

    ’’تم خود کچھ دن میرے ساتھ کیوں نہیں رہتیں؟‘‘

    وہ ڈرامائی انداز سے چپ ہو گئے۔ ایک چسکی لے کر پھر ڈرامائی انداز ہی سے بولے، ’’فکر نہ کرو بیٹی، میں بہت خوش ہوں۔‘‘

    ’’کچھ دن کے لیے انل کے پاس امریکا کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘

    ’’تمہیں کیوں نہیں گھوم آتیں؟ میں کرایے میں مدد کر سکتا ہوں۔‘‘

    کوئی کھمبے کے پاس کھڑا تھا۔

    ’’کیا ہوا منیجر صاحب؟‘‘

    منیجر صاحب پتلون اور پل اوور میں کسا ہوا چست آدمی نکلا۔ سامنے آکر بولا، ’’وہی بیج والا مسئلہ تھا۔‘‘

    ’’اس کی بات اس وقت کروگے؟‘‘

    ’’کنور جی آئیں گے نا ابھی؟ آپ مناسب سمجھیں تو ان سے بات کر لیں۔‘‘

    وہ کچھ سوچ کر بولے، ’’کر لوں گا۔‘‘

    اس کے جانے کے بعد بیٹی نے ان کی طرف سوالیہ نگاہ اٹھائی۔ کنور جی، یعنی اس کے اپنے روی، جناب ڈی آئی جی صاحب! پاپا کے لیے کوئی نیا جھنجھٹ ہوگا، یعنی خود اس کے لیے کوئی نیا تحفہ رنگین ٹی وی؟ یا شاید ہیرے کے ٹاپس؟

    ’’پانچ ایکڑ میں۔۔۔ ایگریکلچر ڈپارٹمنٹ سے طے کرکے۔۔۔ گیہوں کا ایک نیا بیج بڑھا رہا ہوں۔ اب اس ضلعے کا افسر اسے بیج کی حیثیت سے سمن دینے کو تیار نہیں ہے۔ ہمارے طریقے میں اسے کچھ کمیاں نظر آ رہی ہیں۔ کسی منسٹر کا بھانجا ہے وہ، سوچتا ہے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اب دوہی راستے ہیں۔ یا تو فصل کٹنے پر اس گیہوں کو معمولی گیہوں کی طرح بیچ دیا جائے یا محکمے سے جھگڑا کیا جائے۔ اتنا طے ہے کہ میں ان لوگوں کو رشوت نہیں کھانے دوں گا اور خود ان سے بات بھی نہیں کروں گا۔‘‘

    ’’روی۔۔۔ روی سے بات کر لیجیے۔‘‘

    ’’وہی تو ہمارے منیجر صاحب کہنے آئے تھے۔‘‘

    اب چاند نکل آیا تھا۔ بجلی کی روشنی کے دائرے کے باہر ٹھنڈی چاندنی میں پیڑوں کی اندھیری شاخیں ہوا میں ہل رہی تھیں۔ بیٹی نے کہا، ’’روی اپنے یہاں کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایگریکلچر سے بات کر لیں گے۔ ایک دیکشت صاحب ہیں۔ ہمارے یہاں آیا کرتے ہیں۔ پنڈت ٹائپ کے آدمی ہیں۔ پیاز تک نہیں کھاتے۔‘‘

    ’’اور رشوت؟‘‘

    ’’شاید وہ بھی نہیں کھاتے۔‘‘

    شاخوں میں ہوا کا بہاؤ کچھ زور پکڑ رہا تھا۔ وہ ان کے سایوں کا رقص ایک ٹک دیکھتی رہی۔ کمرے کی طرف منھ کرکے اس نے پکارا، ’’بچو! ٹی وی سے کب تک چپکے رہوگے؟ کیا ایک منٹ کے لیے بھی برآمدے میں نہیں نکلوگے؟‘‘

    فساد کی یاد، جو کسی قدیم چٹان کے نیچے دبی پڑی تھی، انہیں تب آئی جب دور سے آتی موٹروں کی روشنی سامنے پیڑوں پر پڑی۔ دو موٹروں میں آگے روی کی کار تھی، پیچھے ایک جیپ میں باوردی پولیس تھی۔ انہیں کاٹیج کے سامنے اتار کر گاڑیاں کچھ دوری پر پیڑوں کے پیچھے جاکر کھڑی ہو گئیں۔

    ’’کیسا رہا؟‘‘ کاروی نے فوراً کوئی جواب نہیں دیا۔ ایک گلاس میں بہت تھوڑی سی وسکی ڈال کر، اس میں اوپر تک سوڈا بھر کر وہ ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھ گئے۔ پھر زور کی سانس کھینچ کر کہنے لگے، ’’حالات تو خراب ہیں، پر شکر ہے خدا کا کہ یہ ہندو مسلم فساد نہیں ہے۔‘‘

    تب تک پاپا نے باورچی کو بلا لیا تھا۔ کہا، ’’ان لوگوں کو چائے پہنچا دو۔ کچھ بسکٹ وغیرہ بھی۔‘‘

    بچے بھی برآمدے میں آ گئے تھے۔ وہ بولے، ’’پانچ مکان جلے ہیں۔ ان میں چار مسلمانوں کے ہیں اور اتفاق ہے کہ ان کے بیچ پانچواں ایک ہندو کا ہے۔ دراصل وہاں کے ٹھاکروں کی ان لوگوں سے کافی عرصے سے مقدمے بازی چلی آ رہی تھی۔ زمین کا جھگڑا تھا۔ غنیمت ہے کہ پولیس نے دونوں طرف سے ایک سو سات کی کاروائی بھی کر رکھی تھی۔ پر کل شام معاملہ اچانک بگڑ گیا۔ ٹھاکروں کے ایک غول نے دوسرے فریق پر ہلابول دیا۔ ایک آدمی گولی لگنے سے مر گیا۔ تین کو معمولی چوٹیں آئی ہیں۔ ایک آدمی آگ میں جل کر مر گیا۔ کل ملاکر قتل اور آتش زنی کا معاملہ ہے۔ قانون کے حساب سے فساد بھی لیکن فرقہ وارانہ فساد تو ہرگز نہیں۔‘‘

    ’’پی اے سی لگا دی ہوگی؟‘‘

    ’’کم سے کم اس معاملے میں ہمارے پولیس کپتان صاحب مستعد نکلے۔ وہ اور ڈی ایم کل رات ہی وہاں پہنچ گئے تھے۔ آج سویرے نوبجے تک قاتلوں میں سے بہتوں کو پکڑ بھی لیا گیا ہے۔ ادھر کے بھی دوتین لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔‘‘

    بیوی بےچینی سے کرسی پر ہلی۔

    ’’گاؤں؟ وہ تو اجاڑ ہو رہا ہوگا! جلے ہوئے مکان، جلی ہوئی لاش، گولیوں سے مرے اور زخمی لوگ۔۔۔ پتا نہیں تم یہ سب کیسے دیکھ پاتے ہو!‘‘

    ’’ڈیڈی، ابھی ٹی وی پر فلم آئی تھی نا، دامل؟ اس میں بھی ایسا ہی تھا نا؟ خوب گولیاں چلی تھیں، جھونپڑیاں جل رہی تھیں۔۔۔‘‘

    ’’بیٹے، تم لوگ اندر جاکر کھانا شروع کرو۔ ہمیں گھنٹے بھر ہی میں واپس لوٹنا ہے۔‘‘

    ’’دامل میں جو ولین ہے ناڈیڈی۔۔۔‘‘

    پاپا دونوں نواسوں کو پکڑ کر اندر لے گئے۔ جب وہ باہر آئے تو اپنے داماد کو کہتے سنا، ’’ایک بڑی ٹریجک بات لگی، جو آدمی ان جھونپڑیوں میں جل کر مرا تھا، وہ اپنی اکیلی لڑکی کے ساتھ رہتا تھا۔ بےچاری سترہ اٹھارہ سال کی معصوم لڑکی ہے۔ وہ روتک نہیں پا رہی تھی۔ وہ میرے سامنے آکر کھڑی ہو گئی اور بس، کھڑی رہی۔ عجیب حالت تھی۔ بیٹھیے نا پاپا! پیچھے کچھ دوری پر کئی عورتیں رو رہی تھیں۔ پر وہ میرے آگے خاموش کھڑی تھی اور مجھے صرف دیکھ رہی تھی۔ مجھے بھی نہیں، صرف میرے کندھے پر لگے بلے کو۔۔۔‘‘

    پاپا نے بھنویں سکیڑیں، پتا نہیں ہمدردی سے یا ایک پولیس افسر کے جذباتی ہونے پر حقارت سے۔۔۔

    ’’پھر جب وہ بولی تو بولتی ہی رہی، پر صرف ایک بات۔ کہ میں اب کہاں جاؤں، بولو، میں اب کہاں جاؤں۔۔۔‘‘

    ’’تم نے کیا کیا؟‘‘

    ’’اسے کچھ دنوں کے لیے شہر میں عورتوں کے پروٹیکٹو ہوم میں بھیجنے کو کہہ دیا ہے۔ کل سویرے اس کی برادری کا ایک آدمی پولیس کے ساتھ اسے وہاں لے جائےگا۔‘‘

    ’’کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا؟‘‘

    ’’ہمارے اسٹاف میں ایک سب انسپکٹر ہے، اسی طبقے کا ہے۔ وہ اسے اپنے گھر میں رکھنے کو تیار تھا۔ اس کی بیمار ماں کے لیے کوئی چاہیے۔ پر اس سے پولیس کی نیت پر شبہ کیا جا سکتا تھا۔‘‘

    ’’تم جانتے ہو روی، وہ پروٹیکٹو ہومز، بس یوں ہی ہیں۔ ان کا بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

    ’’میں جانتا ہوں پاپا، پھر بھی یہ سرکاری ادارے ہیں۔ کوئی دوسرا انتظام کرنا ہم لوگوں کے لیے شاید اور بھی جوکھم کی بات ہوتی۔ ہم لوگ تو گلاس ہاؤس میں بیٹھے ہیں۔ کوئی بھی پتھر پھینک سکتا ہے۔‘‘

    پاپا تیسرا گلاس بھرنے لگے۔ اَن منے پن سے بولے، ’’کیسا وقت آ گیا ہے۔ اتنی بڑی حکومت ایک یتیم لڑکی کو قاعدے کی چھت تک نہیں دے سکتی۔‘‘ وہ اپنے داماد سے بولے، ’’ایسا ہی تھا تو میں ہی یہاں فارم پر کچھ دنوں کے لیے اس کی سرپرستی لے سکتا تھا۔‘‘

    داماد نے تیکھی نگاہ سے سسر کو دیکھا۔ کہا، ’’وہ تو بالکل ہی غلط ہوتا پایا۔۔۔ آپ خود جانتے ہیں۔ آپ سے میرا اتنا سیدھا رشتہ ہے۔۔۔‘‘

    ’’پھر پاپا، ‘‘ ان کی بیٹی نے کہا، ’’ایک نوکرانی آپ کو گھر کے لیے مل بھی گئی ہے۔‘‘

    وہ کچھ نہیں بولے۔ بیٹی نے اٹھ کر کہا، ’’میں کھانے کا دیکھ لوں۔‘‘

    اس کے جانے کے بعد وہ داماد کے پاس کھسک آئے اور بولے، ’’تم جا رہے ہو روی، پر یہاں فارم کا ایک مسئلہ ہے، تمہارے بھی کان میں ڈال دے رہا ہوں۔ منیجر پوری بات تم سے وہیں آکر بتائےگا۔‘‘

    اصلی فساد، جسے سبھی نے بغیر لاگ لپیٹ کے فساد مانا، تین دن بعد ہوا۔ یہ فساد شہر میں، ہو بہو پاپا کے اندیشوں کے مطابق، اس واقعے کے بعد ہوا جب وہاں کے پروٹیکٹو ہوم میں دو دن پہلے بھرتی ہونے والی ایک لڑکی، بقول اخباروں کے، پراسرار حالات میں غائب کر دی گئی۔

    وہ اپنی رینج کے ہیڈ کوارٹر سے ترنت اس شہر میں آئے اور پوری مستعدی سے فساد کو دبانے میں لگ گئے۔ جب تک پی اے سی، بی ایس ایف، فوج وغیرہ کی مدد سے فساد پر قابو پایا گیا، پورا واقعہ آل انڈیا نشریات میں شامل ہو گیا تھا اور صوبے کے چیف منسٹر کے آنے سے پہلے مرکزی ہوم منسٹر کے آنے کا پروگرام وہاں پہنچ چکا تھا۔

    ایک قابل اور چست پولیس افسرکی حیثیت سے انہیں کوئی الجھن نہیں تھی۔ درحقیقت ان کے ماتحتوں میں مرکزی ہوم منسٹر کی آمد پر جتنی پریشانی تھی، ان کے دل میں اس کے لیے شاید اتنا ہی اشتیاق تھا۔ اپنی صاف ستھری انگریزی میں اعلیٰ سطح کی میٹنگوں میں پورے حالات کی وضاحت کرنے، ان کا تجزیہ کرکے فیصلے کے لیے سبھی ممکنہ حل پیش کرنے اور ان میں سب سے زیادہ موزوں حل کو منظور کرانے کے لیے وہ پوری پولیس فورس میں مشہور تھے۔ جلی ہوئی جھونپڑیوں کے موقعے کا معائنہ کرنے کے مقابلے میں یہ سارا کام زیادہ دور اندیشی اور مہارت کا تقاضا کرتا تھا جس کی وہ اپنے میں کمی نہیں محسوس کر رہے تھے۔ ایک یتیم لڑکی کو بے حفاظت چھوڑ دینے کے الزام کا وہ پولیس کی طرف سے پریس کو جو منھ توڑ جواب دے چکے تھے، اس کی پریس تک میں تعریف ہو رہی تھی۔

    ایک حوصلہ مند اور تجربہ کار پائلٹ کوکل اپنی من پسند مشین پر چڑھ کر کھلے آکاش میں پرواز کرنے کا موقع ملنے والا تھا۔

    مأخذ:

    ہندی کہانیاں (Pg. 229)

      • ناشر: آج کی کتابیں، کراچی
      • سن اشاعت: 2002

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے