Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فرانسیسی قیدی

صادق ہدایت

فرانسیسی قیدی

صادق ہدایت

MORE BYصادق ہدایت

    میرا قیام بیزانسن میں تھا۔ ایک دن میں اپنے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ میرا ملازم ملگجا نیلا ایپرن باندھے جھاڑو لگا رہا ہے۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے میز پر سے ایک کتاب اٹھائی جو جنگ کے بارے میں تھی اور حال ہی میں جرمن سے ترجمہ ہوئی تھی۔ کہنے لگا، ’’صاحب، آپ یہ کتاب مجھے پڑھنے کو دیں گے؟‘‘

    میں نے تعجب کے ساتھ پوچھا، ’’یہ بھلا تمھارے کس کام کی؟ کوئی قصہ کہانی تھوڑی ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا، ’’مجھے پتا ہے صاحب، لیکن آخر میں بھی تو لڑائی پر گیا تھا۔ مجھ کو بشوں نے پکڑ لیا تھا۔‘‘

    فرانسیسی میں جرمنوں کو حقارت کے طور پر ’بش‘ کہتے ہیں۔ میں نے جرمن فوجیوں کی بدسلوکیوں کی بہت سی جھوٹ سچ داستانیں سن رکھی تھیں، اس لیے مجھے کرید ہوئی۔ سوچا اس سے کچھ اگلوایا جائے، پھر سوچا کہ یہ بھی چھوٹتے ہی جرمنوں کو لاکھوں مغلظات سناکر رکھ دے گا۔ مگر خیر، میں نے پوچھا، ’’کیا واقعی بشوں نے تم لوگوں کے ساتھ بہت برا برتاؤ کیا تھا؟ ذرا اپنے قید ہونے کا حال سناؤ۔‘‘

    میری پرسش نے اس کے زخموں کو چھیڑ دیا اور اس نے مجھے اپنی داستان سنائی۔

    *

    ’’میں دو برس جرمنی میں قید رہا۔ مجھے فوج میں بھرتی ہوئے بہت دن نہیں ہوئے تھے کہ نینسی کے نزدیک جھڑپ ہوگئی۔ ہم کوئی تین سو آدمی رہے ہوں گے۔ جرمنوں نے ہمیں گھیر لیا اورلگے ہوائی فائر کرنے۔ ہم سے کچھ بنائے نہیں بنی۔ مقابلہ تو کر نہیں سکتے تھے، آخر سب نے بندوقیں پھینک پھینک کر ہاتھ اوپر اٹھا دیے۔ کچھ جرمن سپاہی بڑھ کر آگے آئے اور ان میں کا ایک فرانسیسی میں کہنے لگا، ’’تم لوگ قسمت کے اچھے رہے کہ تمھارے لیے تو لڑائی ختم ہوگئی، ہمارا بھی بہت جی چاہتا ہے کہ تمھاری جگہ ہم ہوتے۔‘‘

    اس کے بعد انہوں نے ہماری تلاشی لے کر سارے ہتھیار رکھوا لیے اورہمیں الگ الگ ٹولیوں میں پہرے داروں کے ساتھ روانہ کردیا۔ ہم میں کچھ زخمی بھی تھے۔ ان کو ہسپتال بھیجا گیا۔ دو دن کے سفر کے بعد مجھے اور ایک اور فرانسیسی قیدی کو بیمار روسی قیدیوں کے وارڈ میں سنتری بنا دیا گیا۔ لیکن یہ کام بڑا گھناؤنا تھا، بیمار لوگ زمین پر تھوکتے تھاکتے بہت تھے۔ مجھ سے وہاں زیادہ دن نہیں رہا گیا۔ میں نے کہا، مجھے کوئی اورکام دیا جائے۔ اورانھوں نے منظور بھی کرلیا۔ اب مجھے کولون کے پاس کے ایک گاؤں میں کھیتی باڑی پرلگایا گیا۔ میرا وہ ساتھی بھی وہیں بھیج دیا گیا۔ ہم روز صبح چھ بجے اٹھ کر گھڑ سال میں کام کرتے۔ گھوڑوں پر کھریرا پھیرتے، پھرآلو کے کھیتوں میں لگ جاتے۔ ہمارا اصل کام کھیتی باڑی ہی کا تھا۔

    وہیں میں نے اور میرے دوست نے بھاگنے کی سوچی۔ دو رات دو دن پیدل یہاں سے وہاں مارے مارے پھرتے رہے۔ سوچا ہالینڈ ہوتے ہوئے فرانس نکل جائیں گے۔ زیادہ تر رات ہی رات چلتے تھے۔ بدقسمتی سے جرمن زبان بھی نہیں آتی تھی۔ میرے کان ٹھس تھے، سو میں تو کچھ لفظوں کے آگے جانتا ہی نہ تھا، البتہ میرے دوست کو مجھ سے اچھی آتی تھی۔ غرض یہ کہ ہم دھر لیے گئے۔ اب بدلی کر کے ہم کو جرمنی بھیج دیا گیا۔

    ’’اور سزانہیں دی گئی؟‘‘

    ’’کہیں بھی نہیں۔ بس دھمکا دیا گیا کہ اگر پھر یہ حرکت کی توباہر نکلنا بند کر کے ٹیڑھے کاموں پرلگا دیے جاؤگے۔ لیکن کام ہمارا وہی کھیتی باڑی کا رہا۔ جگہ بھی پہلے سے اچھی ہی ملی۔

    وہاں ہم چھوکریوں کے ساتھ موج کرتے تھے۔ دن کے وقت جب ہم کھیت میں کام کرتے تب تو تھوڑی تھوڑی دور پر سنتری کھڑے رہتے تھے کہ کوئی قیدی بھاگ نہ نکلے، لیکن رات کو ہم چپکے سے باہر کھسک لیتے تھے۔ میرے دوست نے تو ایک کو گابھن بھی کردیا۔ ہمارے سینوں پر نمبر کڑھے ہوئے تھے، ان پر ہم سفید رومال ٹانگ لیتے اور ہر رات آٹھ بجے کھیتوں سے باہر نکل آتے۔ ملاقاتوں کا ٹھکانہ ریلوے اسٹیشن کے پاس بنا رکھا تھا۔ مزے کی بات یہ کہ ہم کو ان لڑکیوں کی زبان نہیں آتی تھی۔ میری والی کے بال سنہرے تھے۔ میں اس کو بہت پیار کرنے لگا اور کسی بھی وقت وہ میرے دھیان سے نہیں اترتی تھی۔ آخر یاروں نے تاڑ لیا اورہماری شکایت جڑ دی۔ ہم بھی ایک دو رات باہر نہیں نکلے۔ پھر ہم نے ملاقاتوں کی جگہ بدل دی۔‘‘

    ’’تو آخر جرمنوں نے تمھارے ساتھ برائی کیا کی؟‘‘

    ’’کچھ بھی نہیں۔ ہم اپنا کام پکا کرتے تھے، اس لیے وہ بھی ہم سے راضی تھے اور ہمارے مطلب سے مطلب نہیں رکھتے تھے۔ ہاں، دو یا تین بار اتنا ضرور ہوا کہ انھو ں نے ہمارے خط نہیں پہنچائے۔‘‘

    ’’کیسے خط؟‘‘

    ’’خطوں کی ادلا بدلی ہوئے جارہی تھی نا۔ جرمن قیدیوں کے ناتیوں کے خط فرانسیسی وصول کرتے تھے، اسی طرح فرانسیسیوں کے خط جرمن وصول کرتے اور ایک دوسرے کو پہنچا دیتے تھے۔‘‘

    ’’پھر کیا بات ہوگئی؟ انھوں نے تمہارے خط کیوں روک لیے؟‘‘

    ’’ان کا کہنا تھا کہ فرانس میں جو جرمن افسر گرفتار ہوئے ہیں، ان کو فرانسیسیوں نے الجیریا بھیج دیا ہے اور وہاں ان سے کڑی محنت لی جاتی ہے اور دوسرے جرمن قیدیوں کے ساتھ بھی برا بیوہار ہورہا ہے، اس لیے جرمنوں نے ہمارے خط روک لیے۔ مگر خیر، جب ہم نے سنا کہ جرمنی کی ہار ہوگئی اور ہماری فرانس کی واپسی پکی ہے توخوب خوب فیل مچائے۔ اب کس کی مجال تھی کہ ہم سے بولتا۔ جو ریل گاڑی ہم کو فرانس لارہی تھی اس کے ڈبے پر ہم نے قیصر ولیم کی تصویر بنادی تھی۔ اس کا بدن سور کا بنایا تھا اورنیچے لکھا تھا، ’’جرمنی مردہ باد۔‘‘ اس پر ان لوگوں نے ریل روک لی اور۔۔۔ بس بلوا ہوتے ہوتے رہ گیا۔

    *

    قریب آدھے گھنٹے تک اپنی اسیری کی روداد بیان کرنے کے بعد اس نے ایک آہ بھری اوربولا، ’’میری زندگی کے سب سے اچھے دن وہی تھے جب میں جرمنی میں قید تھا۔‘‘ پھر اس نے جھاڑو اٹھائی اورکمرے سے باہرنکل گیا۔

    (فارسی عنوان، ’’اسیر فرانسوی‘‘)

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    મધ્યકાલથી લઈ સાંપ્રત સમય સુધીની ચૂંટેલી કવિતાનો ખજાનો હવે છે માત્ર એક ક્લિક પર. સાથે સાથે સાહિત્યિક વીડિયો અને શબ્દકોશની સગવડ પણ છે. સંતસાહિત્ય, ડાયસ્પોરા સાહિત્ય, પ્રતિબદ્ધ સાહિત્ય અને ગુજરાતના અનેક ઐતિહાસિક પુસ્તકાલયોના દુર્લભ પુસ્તકો પણ તમે રેખ્તા ગુજરાતી પર વાંચી શકશો

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے