Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گائے کھائے گڑ

آصف فرخی

گائے کھائے گڑ

آصف فرخی

MORE BYآصف فرخی

    کہانی کی کہانی

    یہ افسانہ حکومتی جبر پر مبنی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی پر پابندی لگانے کی کہانی ہے جسے افسانہ نگار نے بچپن کے ایک واقعہ سے جوڑ کر مبہم پیرایہ میں بیان کیا ہے۔ جس طرح بچپن میں گائے کھائے گڑ کہلواتے ہوئے مضبوط ہاتھ ہونٹ دبا دیتے تھے، اوہ وہ جملہ گائے کھائے گپ ہو جاتا تھا، اسے کبھی اصل جملہ کہنے کی آزادی نہیں دی گئی۔ اسی طرح عملی زندگی میں بھی وہ جب صحیح یا حق بات کہنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے اوپر مسلط مضبوط طاقتیں اس کی زبان بند کر دیتی ہیں۔

    اس کی ایک ایک انگلی پر دعویٰ تھا۔ ایک نہ ایک نام کی پکڑ تھی۔ یہ اماں کی۔ یہ ببا کی۔ یہ بجیا کی۔ یہ بھیو کی اور باقی بچا انگوٹھا، جو لچک لچک سب کے ساتھ سب سے الگ تھرک تھرک ناچتا تھا، جس کی پور پر سیاہی کی بند کی سے آنکھیں، ناک، منہ بناتے تھے۔ بہلانے کے لیے، ابھی سے اسے بہلانے کے لیے۔ تو انگوٹھا ہو گیا گائے کا کھونٹا۔ گائے کے کھونٹے کو دیکھا کہ جڑ مضبوط ہے، اوپر سے ہلتا ہے۔ اسے ہلا جلا کر دیکھنے والی دو انگلیاں پاؤں پاؤں چلتی ہوئی اس کی انگلیوں سے ہتھیلی کی کٹوری میں اتر آئیں، بس پھر شروع ہو جاتا گدگدی کا سفر۔

    ہتھیلی سے بانہہ سے بازو سے مونڈھے سے سینے کی طرف۔ اچھا بچھیا دانہ کھاتی مم مم پیتی یہ چلی وہ چلی یہ آئی یہ آئی، جس کسی نے دیکھا ہو پکڑے پکل لے پکلے۔۔۔ ان پانچوں سے مل کر ایک پنجہ بھرے بھرے نرم نرم گوشت کو کھوجنے کھرونچنے لگتا ہے اور پنجے کے اٹھنے، مچلنے اور یورش کرنے سے پھدکتی ہوئی گدگدیاں ادل بدل کر ہنستی ہوئی کلکاریاں بنتی جاتی ہیں۔ بےکل ہنسی سے لوٹ پوٹ وہ اپنا بدن چھڑانے کی کوشش کرتا ہے مگر ان بہت ساری انگلیوں کے پاؤں سارے میں اچھیا بچھیا کو پکڑنے کے لیے دوڑے دوڑے پھر رہے ہیں، اس کے ہاتھوں سے ہٹائے نہیں ہٹ رہے، اسے ہنسائے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اس ہنسی کے بے بسی پر رونے لگتا ہے۔ تب انہیں بہلا کر چپ کرانے کا ایک موقع اور مل جاتا ہے۔ اس کو ہنسانا ان کے لیے کھیل بنا ہوا ہے۔ اچھا بچھیا اور انگوٹھے کا کھونٹا اور اب آئےگی ہنسی۔ ارے ارے رونے کی کیا بات ہے؟ آؤ پپی کرا لو۔ نئیں کراؤگے؟ اچھا تو چیاؤں میاؤں چیاؤں میاؤں کرتے ہیں۔

    وہ اس کے ہاتھ استعمال کرتے ہیں۔ اپنے ایک ہاتھ سے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لیتے ہیں تا کہ پھر اس سے اپنی مرضی پر چلا سکیں۔ اس کے دونوں ہاتھ اب بندھ گئے ہیں۔ اور وہ گاتی ہوئی آواز میں اسے چیزوں کو پہچاننا اور الگ الگ کرنا سکھا رہے ہیں۔ بولو آٹا چھن چھن چھن، آٹا چھن چھن چھن۔ آٹا یاں رکھو (اس کا ہاتھ جھلا کر ایک طرف) بھوسی واں (وہی ہاتھ جھلا کر دوسری طرف) اس دن وہ خوشی سے تالیاں بجاتے ہیں جس دن اس کے ہاتھ اٹھتے ہیں اور اس سمت اپنے آپ حرکت کرتے ہیں جہاں سکھایا گیا تھا اور اس طرح کہ انہیں اس کے ہاتھ پکڑنے کی ضرورت بھی اب نہیں پڑتی۔

    اب وہ اس سے آگے سبق کے لیے تیار ہے کہ ہاتھوں کے اسی مانوس لمس سے جسم کے باقی ماندہ حصوں کو وابستہ کیا جائے۔ ہاتھ ان کو یوں پہچان جائیں کہ جوں ہی مقررہ لفظ ادا ہو، وہ خود بخود حرکت میں آ جائیں۔ یہ کیا ہے؟ تئی۔ جے کا ہے؟ لپو۔ یہ ہاتھ یوں اٹھاؤ اور سر پر لے جاؤ، اے شاباش۔ جب ہاتھ سرپر لگے تو تئی۔ اور اب ایسے اٹھاؤ، ادھر گھماؤ، پیٹھ پر لگاؤ۔ جب پیٹھ پر لگے تو لپو۔ اب تم خود کرو، تئی لپو تئی لپودھم۔ دیکھا جاں کتا مجا آیا۔ تئی لپو تئی لپو اڑا اڑا دھم۔ واہ واہ، اب ایسے تالی بجاؤ۔ یوں دونوں ہاتھ جوڑ کر تالی بجاتے ہیں۔ تتو تتو۔ واہ بھئی واہ، منا جیتا رہے، بڑا سا ہو جائے، تتو تتو۔

    ایک بار تالی بجانا آ جائے تو زیادہ پیچیدہ ہدایات بھی دی جا سکتی ہیں۔ چلو تیار ہو جاؤ۔ غور سے دیکھنا۔ پھر جو ہم کریں تو بھی اپنے ہاتھوں سے ویسا ہی کرنا۔ اچھا پہلے تالی بجاؤ۔ نہیں، تئی لپو نہیں۔ تالی، تتو تتو، ایسے۔ الفاظ ہم مہیا کریں گے، تم ان لفظوں کی ادائیگی کے ساتھ مقررہ عمل انجام دیتے جانا۔ ہم کہیں گے تاتی تاتی پوریاں، تم دونوں ہاتھوں سے پوریاں دکھاؤ۔ ہم کہیں گے گھیا چپوڑیاں، تم ہاتھ سیدھا کر کے دکھاؤ۔ میں کھاؤں میرا بالا کھائے۔ جلدی جلدی کھا کر دکھاؤ۔ جیسے ہاتھوں سے نوالہ بنا رہے ہو۔ دھرکان مڑوڑیاں۔ نہیں تم اپنے کانوں کو ہاتھ نہ لگاؤ۔ کان مڑوڑ کے ہم دکھائیں گے۔ ٹھیک سے سمجھ گئے؟ چلو پھر کے سے شروع کرتے ہیں۔ تاتی تاتی پوریاں گھیا چپوڑیاں۔ میں کھاؤں میرا بالا کھائے۔ دھرکان مڑوڑیاں۔ اب جلدی سے منہ کھولو، نوالہ کھانے کے لیے جلدی جلدی، نہیں تو جہاز آ جائےگا۔ پھر تم شور سے ڈروگے۔ جہاج آنا تو۔ کو کو ہاتھ لے جائےگی۔ آری کوکو جاری کوکو جنگل پکے بیر۔

    کوکو جہاج کے ڈر سے مارے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے اور وہ ان کی ہر بات ماننے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ بھوک نہ ہوتے ہوئے بھی ان کا دیا ہوا نوالہ نگلنے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے۔ ایک دفعہ چھپنے کا موقع نہیں ملا تھا اور جہاج آ گیا تھا، وہ اوپر کی طرف سے چیختا گرجتا ہوا۔ اتنا ڈر لگا کہ رویا بھی نہیں گیا۔ سنسناتا ہوا ڈر اکیلا اکیلا اندھیرا بن گیا اور وہ گم سم۔ عین اسی لمحے پتہ چلا کہ ہاتھوں میں چڑیاں ہیں۔ یہ والی انگلی چڑیا کی چونچ اور یہ چڑیا کے دو پاؤں۔ اس کا نام چگا اور اس کا نام او جی۔ جہاج آئےگا تو چگا او جی کو بلا لوں گا، ان سے کھیلوں گا۔ جہاج آیا، چیا آنا تو۔

    جس وقت میں نے اپنے ہاتھوں میں چڑیاں دریافت کیں، وہ ہاتھ بڑھانا شروع کر چکا تھا۔ ہاتھ شروع سے ہی بڑھ رہا تھا۔ اس وقت سے، جب دی جانے والی ہدایات پر عمل کرتا تھا۔ فوراً عمل کرتا تھا اور خوشی خوشی۔ یہ معلوم ہو جانے کے باوجود بھی کہ ان کے پورا کرنےمیں دھوکا ہے۔ مجھے سکھلایا گیا تھا اور میں نے سیکھ لیا تھا کہ بار بار دھوکا کھانے کے اس عمل کو دہرائے جانا ہے۔

    کہو گائے

    دائے

    گائے کا بچہ

    دائے تا بتا

    گائے کھائے

    دائے تائے

    گائے کھائے گڑ

    دائے تائے گ گ۔۔۔

    جو لفظ ادا کیا جانا تھا، مجھے معلوم تھا۔ لیکن لفظ کے ادا ہونے سے پہلے وہ ہاتھ بڑھا کر میرے نچلے ہونٹ کو چٹکی سے مسل دیتے۔ ادھورا لفظ ہونٹوں میں اٹکا رہ جاتا۔ ان کو ہنستا دیکھ کر میں بھی ہنس پڑتا۔ اپنی خفت بھول جاتا۔ وہ ہاتھ تاک میں لگا رہتا اور بار بار دہرائے جانے والے اس عمل کے تمام ہوتے ہوتے میں ہر بار اس سے زک اٹھاتا۔ میں کبھی نہیں سیکھ سکا کہ اس ہاتھ سے بچ سکوں۔ اس کے پکڑ میں آنے سے پہلے جملہ پورا کر دوں۔ اس لیے کہ وہ ہاتھ بہت لمبا تھا اور بہت چوکس۔ میں اس کی پہنچ سے باہر نہیں نکل سکا۔ جہاج سے ڈر کر نوالہ حلق میں اتار لینے کے اتنے دنوں بعد بھی۔

    وہ ہاتھ مجھ پر اب تک اٹھا ہوا ہے۔ وہ ہاتھ جس ساعد سے جڑا ہوا ہے وہ بدن بدل جاتا ہے۔ نہیں بدلتا تو ہاتھوں کا یہ تعلق کہ ان کا ہاتھ دینے کے لیے اٹھا ہوا ہے اور میرا ہاتھ مانگنے کے لیے پھیلا ہوا۔ باقی سب کچھ اسی طرح بر قرار ہے۔ میرا خوف۔ مردہ بھوک۔ میری جانب بڑھتا ہوا ہاتھ۔ اس ہاتھ کا نوالہ اور میری بے زبان التجا کہ اس وقت تک نہ پکڑو میرے ہونٹ جب تک کہ میں یہ لفظ ادا نہ کر لوں۔ میری بے بسی پر ان کی ہنسی قائم ہے اور گائے کھائے چلی جا رہی ہے گو۔ ایک دفعہ بھی اسے نہ ملا گڑ۔

    مأخذ:

    چیزیں اور لوگ (Pg. 165)

    • مصنف: آصف فرخی
      • ناشر: احسن مطبوعات، کراچی
      • سن اشاعت: 1991

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے