Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گہن

MORE BYنگار عظیم

    ستارہ چلی گئی اور نازش کا جیسے سارا سکون لے گئی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ اسے نہ صرف ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا بلکہ ذلیل بھی ہوئی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا وجود دھنی ہوئی روئی کی طرح ریزہ ریزہ ہوکر اڑ رہا ہے۔ ستارہ ایک رنڈی کی اولاد اسے نہ صرف بہت موٹی اور غلیظ گالی دے گئی ہے بلکہ محبت سے لبریز اس کے تمام وجود پر تیز اب انڈیل گئی ہے۔ اپنی اتنی بڑی ہتک سے وہ تڑپ اٹھی۔

    جب سے ماڈرن فیشن ہاؤس کا ایک گوشہ خواتین کے لیے مخصوص ہوا تھا فیشن ہاؤس کی رونق دوگنی ہو گئی تھی۔ نئی طرز کے لباس نے عورتوں کے دل موہ لیے تھے۔ بھاری زری، زردوزی، لکھنوی چکن، خوبصورت کڑھائی، جدید فیشن اور مناسب قیمت نے ماڈرن فیشن ہاؤس کی شہرت میں چار چاند لگا دئیے تھے۔ لباس کے جدید اور خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ کپڑوں کی تراش خراش نے کئی معمولی جسموں کو داد طلب بنا دیا تھا۔ ان تمام کاموں کی انچارج نازش تھی۔ جو پچھلے آٹھ دس برس سے یہی کام گھر کے ایک حصہ میں بہ حسن و خوبی کر رہی تھی۔

    یوں تو نازش بہت معمولی صورت شکل کی مالک تھی لیکن اپنے حسن اخلاق سے وہ ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا لیتی تھی۔ گھر کی پرانی شاگردائیں اور سہیلیاں تو ایک طرف ان دو برسوں میں جس تیزی سے نازش کی نئی شاگردوں اور سہیلیوں کا اضافہ ہوا تھا اس نے نازش کو بھرپور اعتماد بخشا تھا۔ نازش کے کام سے نہ صرف فیشن ہاؤس بلکہ نازش کا نام بھی خواتین کی زبان پر آنے لگا تھا۔

    نازش چار بہن بھائی تھے۔ بڑی دونوں بہنوں اور بھائی کی شادی ہونے میں قطعاً دیر نہیں لگی۔ نازش کے بھی رشتے آئے لیکن جب بھی کوئی دیکھنے آیا کبھی اس کا چھوٹا قد آڑے آ جاتا تو کبھی سانولا رنگ۔ خود کو کئی مرتبہ دکھانے کی پیریڈ سے وہ اوب گئی تھی۔ شاید اسی لیے اس نے شادی کا ارادہ ترک کرکے اپنے کام کی طرف توجہ بڑھا دی تھی۔ اب وہ کسی رشتہ پر کان ہی نہیں دھرتی تھی۔

    نازش کے محنتی اور خوش مزاج ہونے کا چرچا گھر سے باہر جتنا زیادہ تھا گھر کے اندر معاملہ بالکل برعکس تھا۔ گھر والے اس کی شہرت سے بے نیاز اس بات پر نالاں تھے کہ وہ عمر کس کے لیے بتا رہی ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں، اصل وجہ تو بس نازش ہی جانے۔

    ادھر کچھ دنوں سے نازش کی سہیلیوں میں ایک نئی سہیلی ستارہ کا اضافہ ہوا تھا۔ کیا حسین تھی، جب بھی ماڈرن فیشن ہاؤس میں اس کے قدم آتے چاروں طرف رونق ہی رونق بکھر جاتی۔ نازش گرم گرم پکوڑے چائے اور سموسے منگاتی اور خوب اس کی خاطر مدارات کرتی۔ کام کے ساتھ ساتھ بڑی خاموش سرگوشیاں ہوتیں۔ نہ جانے کتنی آنکھیں ستارہ کے دیدار کے لیے بے چین رہتیں۔ خود فیشن ہاؤس کا مالک احتشام اپنی عمر کا خیال کیے بغیر کنکھیوں سے ستارہ کا دیدار کرتا اور مسکراتا۔ باتوں باتوں میں نازش کو معلوم ہوا کہ ستارہ اپنے زمانے کی مشہور طوائف چاندنی بائی کی بیٹی ہے۔ ستارہ کی بول چال انداز بیان حسن و اداؤں میں اپنے ماحول کا عکس صاف جھلکتا تھا اور نازش کو مزاجاً ان سب باتوں سے گہری دلچسپی تھی۔ آہستہ آہستہ دونوں کی دوستی گہری ہوتی چلی گئی۔

    ستارہ نازش کے گھر آئی تھی۔ گرم گرم پکوڑے خوب چٹنی لگا لگاکر کھائے گئے تھے۔ خوب گپ شپ ہوئی تھی۔ باتوں باتوں میں باتوں کا رخ بھی موڑا گیا۔ نازش نے ایک بہت خوبصورت ستاروں اور موتیوں سے جڑا کامدار بلاؤز ستارہ کو تحفے میں دیا۔

    اتنا خوبصورت... خوشی اور حیرت کے ملے جلے اثرات سے ستارہ کی آنکھیں پھیل گئیں۔

    میرے لیے؟؟ تم کتنی اچھی ہو نازش... ہائے... دل چاہتا ہے تمہیں چوم لوں... اور ستارہ نے سچ مچ نازش کی کولی بھر کر اس کا گال چوم لیا... بلاؤز کو ہاتھوں میں نچا نچا کر ستارہ اس کی خوبصورتی کی تعریف کر رہی تھی۔

    کم ازکم پہن کر تو دکھاؤ۔

    سچ... ابھی لو... پہلے اپنا منہ ادھر کرو...

    پیٹھ پھیر کر ستارہ نے قمیض اتاری... بلاؤز پہنا... ہک لگائے... اس کے جسم کی خوبصورتی ایک دم نمایاں ہو گئی تھی۔ بلاؤز کی فٹنگ نے اس کے حسن کو دوبالا کر دیا تھا۔ اس نے کئی زاویوں سے خود کو آئینہ میں دیکھا۔ نازش کی پسند کی داد دی اور خود نازش کو داد طلب نظروں سے دیکھا۔ نازش مسکرا رہی تھی۔

    ستارہ نے پیٹھ پھیر کر پھر اسی طرح بلاؤز اتار کر ایک طرف رکھا اور قمیض پہننے لگی... یکایک... اوئی... کہہ کر ستارہ اچھل پڑی۔ اچھل کر بے خیالی میں پلٹی تو وہ پوری کی پوری نازش کے سامنے تھی۔ یہ کیا بےہودہ مذاق ہے...؟؟ تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا...؟؟ نازش پر مدہوشی طاری تھی اور ستارہ کسمسا رہی تھی۔ اپنے جسم کو چھپاتے ہوئے ستارہ نے خود کو نازش سے آزاد کرانے کی کوشش کی۔ ستارہ نے اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا۔ نازش کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح ایک طرف بیٹھ گئی اور ستارہ جلدی جلدی قمیض پہننے لگی۔ مارے غصہ کے جو اس کے منہ میں آیا بڑبڑاتی چلی گئی۔ کمبخت، مردار، تیری ہمت کیسے ہوئی؟ کیا سمجھا تونے مجھے؟ یہ آگ میں نہیں کوئی اور ٹھنڈی کرےگا— سمجھی... کسی مرد کو پکڑ— مرد کو— زنّاخی کہیں کی— قدرت کے اصولوں سے لڑے گی تو بےموت ماری جائےگی— یہ لے اپنا بلاؤز— کسی اور کو دینا— بلاؤز نازش کے منہ پر پٹخ کر ستارہ کھٹ کھٹ سیڑھیاں اترتی ہوئی یہ جا اور وہ جا—

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے