Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گنجفہ

نیر مسعود

گنجفہ

نیر مسعود

MORE BYنیر مسعود

    کہانی کی کہانی

    یہ ماں بیٹے کی کہانی ہے، جس میں ماں کے لاڈ نے بیٹے کو اس کی زندگی میں کبھی کچھ کرنے نہ دیا۔ اسی ضمن میں ایک اور قصہ لاڈلے اور حسنی کا چلتا ہے۔ ماں اپنی بینائی کمزور ہونے اور مسلسل کھانسی کے باوجود آخر دم تک چکن کے کرتوں کی کڑھائی کرتی رہتی ہے، اس کی کڑھائی کی دھوم ولایت تک ہے، وہی ولایت جہاں اس کا مرحوم شوہر اپنے اکلوتے بیٹے کو تعلیم کے لئے بھیجنا چاہتا تھا، اسی لئے ماں کو اپنے بیٹے کے حساب سے ہر کام چھوٹا معلوم ہوتا تھا اور وہ اسے نوکری سے باز رکھتی ہے۔ حسنی منجن بیچنے والے لاڈلے کی بیٹی ہے، جس نے کڑھائی کا کام راوی کی ماں سے سیکھا ہے۔ ماں کے آخری وقت میں حسنی انتہائی اپنائیت اور دلجمعی سے گھر کا سارا کام کرتی ہے۔ ایک دن راوی حسنی کے گھر کی جانب نکلتا ہے تو وہاں اپاہج لاڈلے بیٹھا ہوا ملتا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ حسنی کا انتقال ہو گیا۔ لاڈلے ایک صندوق رکھنے کے لئے اسے دیتا ہے جس میں منجن کی شیشیاں اور کترنیں وغیرہ ہوتی ہیں اور پھر ایک دن لاڈلے کہیں غائب ہو جاتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہانی زندگی کے جبر اور رائگانی کے احساس سے عبارت ہے۔

    اپنی زندگی مجھ کو بلوے والی رات سے بری لگنا شروع ہوئی۔ اس رات جب میں قبرستان سے گھر واپس آ رہا تھا تو راستے میں کئی جگہ مجھ کو روک کر پوچھ گچھ کی گئی۔ پوچھ گچھ کیا، صرف تین سوال کئے جاتے تھے، ’’کیا نام ہے؟‘‘

    ’’کہاں رہتے ہو؟‘‘ اور ’’کیا کرتے ہو؟‘‘

    پہلے اور دوسرے سوال کا جواب میں فورا ًدے دیتا تھا لیکن تیسرے سوال پر اٹک جاتا تھا۔ میں سوچتا رہ جاتا اور پوچھنے والے مجھے ڈپٹ کر فوراً گھر جانے کی تاکید کرتے، پھر کسی اور راہ چلتے کو روک کر اس سے یہی سوال کرنے لگتے۔ اس میں دو ایک کی پٹائی بھی ہو گئی۔ شروع شروع میں تو میں بہت ڈرا ہوا تھا کہ یہ تیسرا سوال کہیں مجھ پر بھی نہ ہاتھ اٹھوا دے، اس لئے اس کا جواب دیتے ہوئے میں بو کھلا جاتا تھا، لیکن اپنا گھر قریب آتے آتے مجھ کواس سوال پر کچھ کچھ غصہ آنے لگا اور جب آخری بار مجھ سے پوچھا گیا، ’’کیا کرتے ہو؟‘‘ تو میں نے دل ہی دل میں جواب دیا، ’’اماں کی کمائی کھاتا ہوں۔‘‘

    اماں کی کمائی میرے ابا بھی کھاتے تھے۔ دمے کی بیماری اور لاٹری کے شوق نے انہیں کسی کام کانہ رکھا تھا۔ میں نے انہیں پڑے پڑے کھانسنے یا لاٹری کے ٹکٹ پھاڑ پھاڑ کر پھینکنے کے سوا کچھ کرتے نہیں دیکھا تھا۔ گھر کا خرچ اماں چکن کی کڑھائی کر کے چلاتی تھیں۔ اماں ہی نے مجھے تعلیم بھی دلوائی جس کے دوران ان کو شاید یہ خیال ستانے لگا کہ کہیں ابا کا روگ مجھے بھی نہ لگ جائے، اس لئے انہوں نے مجھ کو آگے پڑھنے کے لئے اپنی ایک منہ بولی بہن کے یہاں الہ آباد بھیج دیا۔ مجھ کو یقین ہے کہ وہ ان بہن کو ہر مہینے میرے خرچ کے علاوہ اوپر سے بھی کچھ بھیجتی تھیں۔ میرے الہ آباد جانے کے دوسرے تیسرے سال ابا کی وفات ہو گئی تھی لیکن میری تعلیم الہ آباد میں پوری ہوئی، جس کے بعد میں لکھنؤ واپس آ گیا تھا اور اب کئی سال سے آوارہ گردی کر رہا تھا اور اپنے مرحوم باپ کی طرح اماں کی کمائی کھا رہا تھا۔ کام اگر کچھ کرتا تھا توبس اتنا کہ جمعرات جمعرات ابا کی قبر پر شمع جلا آتا تھا۔ لیکن میں اپنی زندگی سے خوش تھا۔

    بلوے کی اس رات اس تیسرے سوال کا جواب دیتے دیتے میں نے اپنی اس زندگی کو، جس سے میں خوش تھا، بار بار، لیکن ہر بار ایک ہی طرح سے، گزرتے ہوئے دیکھا اور آخر مجھ کو اپنے آپ پر غصہ اور اپنی اماں پر ترس آنے لگا جو اس وقت اور بڑھ گیا، غصہ بھی اور ترس بھی، جب گھر کے دروازے پر پہنچ کر پڑوسیوں سے مجھ کو معلوم ہوا کہ اماں بلوے کی خبر ملتے ہی برقع اوڑھ کر مجھے ڈھونڈھنے نکل گئی تھیں اور ابھی تک واپس نہیں آئی ہیں۔ انہیں روکنے کی بہت کوشش کی گئی تھی لیکن انہوں نے کسی کی نہیں سنی۔ مجھے خیال آیا کہ ان سے بھی پوچھا جا رہا ہوگا، ’’کیا نام ہے؟‘‘

    ’’کہاں رہتی ہو؟‘‘

    ’’کیا کرتی ہو؟‘‘ میں اسی وقت ان کی تلاش میں جا رہا تھا لیکن پڑوسیوں نے مجھے زبردستی روک لیا۔ اماں سب کو قسم دے گئی تھیں کہ اگر میں ان کی واپسی سے پہلے گھر پہنچ جاؤں اور ان کو ڈھونڈھنے کے لئے پھر نکلنے لگوں تو مجھے جانے نہ دیا جائے۔ پڑوسی مجھ سے بلوے کا حال پوچھ رہے تھے لیکن میں نے یہ کہہ کر انہیں ٹال دیا کہ مجھے کچھ نہیں معلوم۔ اور سچی بات بھی یہی تھی۔ مجھ کو اماں کی فکرلگ گئی تھی اور میں پڑوسیوں کے روکنے سے رکنے والا نہیں تھا لیکن صرف یہ سوچ کر رک گیا کہ اگر میرے چلے جانے کے بعد اماں واپس آئیں گی تو پھر میری تلاش میں نکل کھڑی ہوں گی، اس لئے میں گھر کے اندر آ گیا۔

    دالان میں چوکی پر میرا کھانا سینی سے ڈھکا رکھا تھا اور ایک پڑوسن اس کے پاس بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھیں۔ اماں ان کو بھی قسم دے کر گئی تھیں کہ میرے آتے ہی مجھ کو کھانا کھلا دیں۔ میں نے پڑوسن کو رخصت کر دیا۔ کھانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن بھوک بھی بہت لگ رہی تھی۔ ہاتھ منہ دھو کر سینی کے پاس بیٹھ گیا۔ اسی وقت اماں آ گئیں۔ ان کو باہر ہی پڑوسیوں سے معلوم ہو گیا تھا کہ میں صحیح سلامت گھر پہنچ گیا ہوں، پھر بھی وہ گھر کے اندر اس طرح بین کرتی ہوئی داخل ہوئیں جیسے میری لاش دیکھنے کے لئے لائی جا رہی ہوں۔ اور میرے پاس پہنچ کر انہوں نے وہ سب کیا جو کوئی اماں اپنے کھوئے ہوئے بیٹے کو پانے کے بعد کر سکتی ہے۔ اس وقت مجھ کو اندازہ ہوا کہ وہ اب تک مجھ کو چھوٹا سا بچہ سمجھتی ہیں، جو ماں کی انگلی پکڑ کر چلنے کا عادی ہو۔ اسی وقت مجھ کو یہ بھی احساس ہوا کہ میں بہت بڑا ہو چکا ہوں اور’’کیا کرتے ہو؟‘‘ کا میرے پاس ایک ہی جواب ہے۔

    مجھے کھانا کھلانے سے لے کر بستر پر لٹا کر تھپکنا شروع کرنے تک وہ بار بارمجھ کو اس طرح چھو کر دیکھتی رہیں جیسے انہیں یقین نہ آ رہا ہو کہ میں پورے ہاتھ پیر لے کر گھر واپس آیا ہوں۔ اب میں چپ چاپ لیٹا ہوا تھا، نیند آچلی تھی اور ماں قریب بیٹھی مجھے دیکھے جا رہی تھیں۔ دیر کے بعد انہوں نے پوچھا، ’’کیا ہوا؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا، ’’کیوں؟‘‘

    ’’راستے میں کچھ ہوا تو نہیں؟‘‘

    ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’کیوں پوچھ رہی ہو؟‘‘

    ’’کسی نے کچھ کہا؟‘‘

    ’’نہیں تو۔‘‘ وہ اسی طرح مجھے دیکھتی رہیں۔ پھر بولیں، ’’اب سے ہم تمہیں باہرنہیں نکلنے دیں گے۔‘‘ تب میں نے کہا، ’’اماں، اب سے میں تمہاری کمائی نہیں کھاؤں گا۔‘‘ اسی رات اماں پر کھانسی کا پہلا دورہ پڑا۔

    میں نے اماں کو بتائے بغیر کام کی تلاش میں نکلنا شروع کر دیا، لیکن مجھ کو یہی خبر نہیں تھی کہ کام کس طرح تلاش کیا جاتا ہے، اس لئے پہلے کی طرح آوارہ گردی کر کے واپس آ جاتا تھا اور کچھ دن بعد گھر سے نکلتے وقت مجھے یہ بھی یاد نہیں رہتا تھا کہ کام ڈھونڈھنے نکل رہا ہوں۔ لیکن اب آوارہ گردی میں بھی میرا دل نہیں لگتا تھا۔ رفتہ رفتہ گھرسے میرا نکلنا کم ہو گیا، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ بڑھ گیا، اس لئے کہ اب میں دن میں کئی کئی بار باہر نکلتا تھا، لیکن تھوڑی ہی دیربعد گھر واپس آ جاتا تھا، پھر نکلتا، پھر واپس آجاتا۔ اسی زمانے میں ایک دن میں نے اماں کو دیکھا کہ بہت باریک سفید کپڑے کا ایک پارچہ آنکھوں سے قریب قریب لگائے ہوئے اس پر سفید دھاگے سے ایک نازک سی بیل کاڑھ رہی ہیں۔ میں ان کے پاس چوکی پر بیٹھ گیا اور بولا، ’’اماں، کپڑا آنکھوں کے اتنے قریب کر کے نہ کاڑھا کرو۔ نگاہ کمزور ہو جائے گی۔‘‘

    ’’وہ تو کمزور ہی ہو گئی ہے، بیٹے۔‘‘ انہوں نے کہا، پھر ان پر کھانسی کا ہلکا سا دورہ پڑا۔

    ’’کھانسنے بھی بہت لگی ہو۔‘‘

    ’’کھانسی تو آتی جاتی رہتی ہے۔‘‘ وہ بولیں، ’’مگر رات کو سانس جو پھولتی ہے۔‘‘

    ’’تو کوئی دوا۔۔۔‘‘

    ’’دوا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’کھاتے ہیں۔ فائدہ بھی ہے۔‘‘ لیکن انہیں فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔ یا شاید وہ دوا کھاتی ہی نہیں تھیں۔ میں نے ایک دن ان کو پھر ٹوکا، ’’اماں تمہاری کھانسی کم نہیں ہو رہی ہے۔‘‘

    ’’کم تو ہو گئی ہے۔ بس رات کو زیادہ آتی ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا، پھر کچھ رک کر پوچھا، ’’تمہاری نیند تو نہیں خراب ہوتی؟‘‘

    میری نیند خراب نہیں ہوتی تھی، لیکن ایک رات کوئی خواب دیکھ کر میری آنکھ کھل گئی۔ اندھیرا تھا اور میں اس خواب کو بھول گیا تھا۔ میں نے اسے یاد کرنے کی کوشش کی۔ نہیں یاد آیا۔ میں نے کروٹ بدلی اور دوبارہ سونے کو تھا کہ مجھے اماں کے کھانسنے کی دبی دبی آواز سنائی دی۔ مجھ کو نیند کا ایک جھونکا آیا، پھر ایک اور لیکن کھانسنے کی آواز مسلسل سنائی دے رہی تھی۔ میں نے آنکھیں پوری کھول دیں اور کانوں پر زور دیا۔ آواز باہر صحن کی طرف سے آ رہی تھی۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ صحن میں تاروں کی ہلکی روشنی تھی لیکن اماں مجھے نظر نہیں آ رہی تھیں۔

    ’’اماں!‘‘ میں نے پکارا، ’’انگنائی میں کیا کر رہی ہو؟‘‘ جواب میں صرف کھانسی کی آواز سنائی دی۔ میں اٹھ کر صحن میں آگیا۔ اماں کنویں کے پاس زمین پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں نے قریب جا کر انہیں پکارا۔ پھر جھک کر دیکھا۔ وہ اپنے دوپٹے کے ایک پلو کا گولا سا بنا کرمنھ پر رکھے کھانس رہی تھیں اور ان کا بدن بار بار جھٹکے کھا رہا تھا۔ میں ان کے قریب بیٹھ گیا۔

    ’’اتنی دیر سے کھانس رہی ہو۔‘‘ میں نے کہا، ’’مجھے جگایا بھی نہیں؟‘‘ وہ جواب دینے کی حالت میں نہیں تھیں۔ میں انہیں پکڑا کر دالان میں لے آیا اور بستر پر بٹھا کر ان کی پیٹھ سہلانے لگا۔ دیر میں ان کی سانس ٹھہری۔ انہوں نے پانی مانگ کر پیا، پھر بولیں، ’’تم کیوں اٹھ گئے؟‘‘

    ’’خواب دیکھا تھا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ پھر وہ خواب مجھے کچھ کچھ یاد آنے لگا۔

    ’’سو جاؤ۔‘‘ وہ بولیں، ’’ہم بھی سو جائیں گے۔‘‘

    ’’میں نے دیکھا تھا کہ میں کھانا کھا رہا ہوں اور تم سامنے بیٹھی مجھے پنکھا جھل رہی ہو۔‘‘ انہیں ہنسی آ گئی۔

    ’’یہ بھی کوئی خواب ہے؟‘‘ انہوں نے کہا، اور ان کے ساتھ ہی میں نے کہا، ’’اماں، مجھے چکن کاڑھنا سکھا دو۔‘‘ انہوں نے کچھ پریشان ہو کر میری طرف دیکھا اور کہا، ’’نہیں بیٹے، آنکھیں خراب ہو جائیں گی۔‘‘

    ’’تو کوئی اور کام سکھوا دو۔‘‘ میں نے کہا، ’’یا کہیں نوکری دلواؤ۔ آخر کب تک ابا کی طرح تمہاری کمائی کھاؤں گا؟‘‘ وہ کچھ دیرخاموش بیٹھی رہیں، پھر بولیں، ’’اچھا ابھی تو سو جاؤ۔ ہمیں بھی نیند آ رہی ہے۔‘‘ پھر انہوں نے لیٹ کر دوپٹے سے چہرہ ڈھانپ لیا۔ صبح اٹھتے ہی میں نے اماں کو پریشان کرنا شروع کر دیا اور یہ خیال نہیں کیا کہ میں خود ایسا بچہ ہو رہا ہوں جو ماں کی انگلی پکڑ کر چلنا چاہ رہا ہو۔ میرے بار بار کے تقاضوں کو اماں خاموشی سے سن رہی تھیں، لیکن جب میں نے ایک بار پھر کہا، ’’آخر کب تک ابا کی طرح۔۔۔‘‘ تو ان کا چہرہ لال ہو گیا، لیکن انہوں نے میرا گال تھپتھپا کر بہت نرم لہجے میں کہا، ’’یہ ایک دم سے اپنے باپ کا کیوں بیری ہوگیا ہے، لڑکے؟‘‘

    ’’بیری نہیں، اماں۔‘‘ میں بولا، ’’لیکن ان کی ذات سے تم نے کتنے دکھ سہے ہیں۔‘‘

    ’’ہم نے کون سے دکھ سہے ہیں؟ دکھ تو انہوں نے سہے۔ مرد کو اچھا لگتا ہے کہ اس کی عورت اسے کما کر کھلائے؟ ان کا زمانہ تھا تو انہوں نے ہمیں کما کر کھلایا، جب کسی کام کے نہ رہے۔۔۔‘‘

    ’’میں نے تو انہیں کبھی کماتے نہیں دیکھا۔‘‘

    ’’تم نے دیکھا ہی کیا ہے، بیٹے۔‘‘ وہ بولیں اور اچانک روہانسی ہو گئیں، ’’کون سا سکھ تھا جو مرنے والے نے ہمیں نہیں دیا۔ اور تمہارے لئے بھی کیا کچھ نہیں کیا۔‘‘

    ’’میرے لئے؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’میرے لئے انہوں نے کیا کیا؟‘‘

    ’’وہ تمہیں ولایت بھیج رہے تھے۔‘‘

    ’’ولایت؟‘‘

    ’’پڑھنے کے لئے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’نہیں بھیج سکے، تو اب جو چاہے کہہ لو۔‘‘ پھر وہ روہانسی ہو گئیں اور کچھ دیر تک خاموش رہیں۔

    ’’ولایت۔۔۔‘‘

    ’’تمہارے پیدا ہونے سے پہلے ہی انہوں نے کہہ دیا تھا اگر بیٹا ہواتو اسے ولایت میں پڑھوائیں گے۔‘‘

    ’’ولایت۔۔۔ تمہیں پتہ ہے ولایت کہاں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’مجھے کیا خبر۔‘‘ وہ بولیں، ’’وہی بتاتے تھے سات سمندر پار کوئی کالج والج ہے۔‘‘

    ’’انہیں پتا بھی تھا ولایت جا کر پڑھنے میں کتنا خرچ بیٹھتا ہے؟‘‘

    ’’پتا کیوں نہیں تھا۔ کتنوں سے پوچھ پوچھ کر تو حساب لگایا تھا۔‘‘

    ’’کتنا نکلا؟‘‘

    ’’مجھے کیا خبر کتنا نکلا، مگر بہت تھا۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’پھر کیا، اللہ کے بندے نے ہمت نہیں ہاری۔ پہلے تو رستم نگر اور شاہ گنج والے مکان بیچے۔‘‘

    ’’دو دو مکان بیچ ڈالے؟‘‘

    ’’مکان کاہے کو، کھنڈر تھے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’پھر دفتر سے جتنا ادھار مل سکتا تھا وہ لیا۔ کچھ پیسہ ہمارے زیوروں سے آیا۔‘‘

    ’’تمہارے زیور بھی بکوا دیے؟‘‘

    ’’ان کے دل کو لگی ہوئی تھی۔‘‘

    ’’اور تمہارے دل کو؟‘‘

    ’’جوان کا دل وہ ہمارا دل۔ مگر ہم یہ انتظام دیکھ دیکھ کے کڑھتے بھی تھے کہ اکیلی اولاد اور سات سمندر کا سفر۔۔۔‘‘

    ’’اچھا، پھریہ سب روپیہ گیا کہاں؟‘‘

    اماں چپ رہیں۔ دیر تک نہیں بولیں تو میں نے پوچھا، ’’سب لاٹری میں اڑا دیا؟‘‘

    ’’نہیں۔ لاٹری تو جب ان کا ہاتھ خالی ہو گیا۔۔۔ اس کے پیسے ہم دیتے تھے۔‘‘

    ’’پھر اپنا روپیہ کہاں اڑایا؟‘‘

    ’’نہ انہوں نے بتایا نہ ہم نے پوچھا۔ لیکن اتنی بات ہم جانتے ہیں، وہ کسی برے فعل میں نہیں تھے۔‘‘

    اس کے بعد وہ اس طرح خاموش ہوئیں کہ ان سے کچھ پوچھنا مجھے اچھا نہیں معلوم ہوا، اس لئے میں بھی خاموش رہا، لیکن جب وہ اٹھ کر باورچی خانے کی طرف جانے لگیں تو میں نے انہیں روک لیا۔

    ’’اچھا، اس کے بعد؟‘‘

    ’’اس کے بعد کیا۔ سانس نے انہیں کسی کام کا نہ رکھا تھا۔ کھانسی اٹھتی تو معلوم ہوتا تھا دم اکھڑ جائےگا۔ نوکری پوری ہونے سے پہلے ہی دفتر والوں نے پنشن دے دی۔‘‘

    ’’کتنی پنشن ملتی تھی؟‘‘

    ’’اللہ جانے۔ ہمیں تو اس کی صورت دیکھنے کو ملی نہیں۔‘‘

    ’’پنشن بھی اڑا ڈالتے تھے؟‘‘ اس پر ان کا چہرہ پھر لال ہو گیا۔

    ’’اڑانا اڑانا کیا کر رہے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا، ’’وہ اڑانے والے آدمی نہیں تھے۔‘‘

    ’’تو پھر پنشن۔۔۔‘‘

    ’’دفتر کا قرضہ بھگتانے کے لئے بیچ دی۔ اب اسے تم اڑانا کہہ لو۔‘‘

    مجھے اپنے سوالوں پر شرمندگی محسوس ہوئی۔ یہ بھی محسوس ہوا کہ میں نے اماں کو تکلیف پہنچائی ہے اور یہ بھی کہ میں اپنے باپ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کس دفتر میں کام کرتے تھے۔

    ’’ابا کس دفترمیں کام کرتے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’لمبا سا انگریزی نام تھا، ہمیں یاد ہی نہیں ہو سکا۔‘‘

    ’’دفتر میں وہ کیا تھے؟‘‘

    ’’وہ بھی کوئی انگریزی نام تھا۔‘‘

    اس کے بعد پھر وہ دیرتک خاموش رہیں۔ آخر میں نے کہا، ’’اچھا، ابا کی اور باتیں بتاؤ۔‘‘

    ’’کیا بتائیں۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’پنشن بیچ کر آئے تو دو دن تک کھائے پیے بغیر پڑے رہے۔ جان دے دینے پر مستعد تھے۔ ہم نے تمہاری جان کی قسم دی تو آپے میں آئے۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’پھر کیا، دوسرے دن سے ہم نے سوئی سنبھال لی۔‘‘

    ’’تمہیں چکن کاڑھنا آتا تھا؟‘‘

    ’’چھٹ پنے ہی سے۔‘‘

    ’’کس نے سکھایا تھا؟‘‘ میں نے پوچھا اورمجھے احساس ہوا کہ میں اپنی ماں کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتا۔

    ’’پھوپھی اماں نے۔‘‘ وہ بولیں، ’’شوقیہ کاڑھتی تھیں۔ کھیل ہی کھیل میں ہم نے بھی سیکھ لیا۔ لیکن ہاتھ میں ایک ہنر آ گیا۔ نہیں تو آج تیرے میرے گھرمیں جھاڑو برتن کر رہے ہوتے۔‘‘ پھر اماں نے بتایا کہ انہوں نے کئی غریب لڑکیوں کو چکن کا کام سکھایا تھا اوریہ لڑکیاں اجرت پر کڑھائی کرنے لگی تھیں۔ جب ابا کے ہاتھ خالی ہو گئے تویہی لڑکیاں کام آئیں اور ان کے ذریعے گول دروازے میں چکن کے ایک تھوک بیوپاری کے یہاں سے اماں کو بھی کام ملنے لگا تھا۔ اماں نے بیوپاری کی تعریف کی: ’’لالہ بھلے مانس ہیں۔ اچھے کام کی پہچان ہے۔ کوئی کام بہت پسند آ جاتا ہے تو اپنی طرف سے بڑھاکر مزدوری دیتے ہیں۔‘‘

    پھر انہوں نے کوئی اور ذکر چھیڑ دیا اور بہت دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہیں۔ اس دن سے پہلے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اماں اتنی اچھی گفتگو کر لیتی ہیں۔ ان کی باتوں میں کھو کر میں بھول ہی گیا تھا کہ ہماری گفتگو کہاں سے شروع ہوئی تھی۔ لیکن اماں نہیں بھولی تھیں، اس کا مجھے یقین ہے۔

    ۲

    میں نے گھر سے نکلنا اور بھی کم کر دیا، زیادہ تر خالی بیٹھا بے دھیانی کے ساتھ دیکھا کرتا کہ اماں چوکی پر بیٹھی کڑھائی کر رہی ہیں اور کچھ کچھ دیر بعد کھانسنے لگتی ہیں۔ کبھی کبھی ان پر کھانسی کا دورہ سا پڑ جاتا تو میں دوڑ کر انہیں پانی پلا دیتا، یاان کی پیٹھ سہلانے لگتا۔ تھوڑی دیر میں وہ ٹھیک ہو جاتیں اور پھر سوئی سنبھال لیتیں۔ ایک دن ان کی پیٹھ سہلاتے سہلاتے میری نظر ان کے پہلو میں رکھے ہوئے پارچوں کے ڈھیر پر پڑی اور میں نے کہا، ’’اماں، اتنا کام نہ کیا کرو۔‘‘

    ’’موٹا کام ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’اس میں دیر ہی کیا لگتی ہے۔‘‘ میں نے ایک بارپھر کھردرے رنگین کپڑے کے پارچوں کو دیکھا۔ یہ بھی دیکھا کہ اماں نے ان پر رنگین دھاگوں سے بڑے بڑے پھول کاڑھے ہیں۔ میں ان کو بہت ملائم اور باریک کپڑے پر سفید دھاگے سے کڑھائی کرتے دیکھتا آیا تھا۔ میں نے ایک گیروے رنگ کا کڑھا ہوا پارچہ اٹھا کر کہا، ’’یہ کیسی کڑھائی ہے؟ پہلے تو تم۔۔۔‘‘

    ’’مہین کام اب ہم سے نہیں ہوتا۔ ہاتھ کانپنے لگا ہے۔ آنکھ بھی وہ نہیں رہی۔‘‘ انہوں نے گہری سانس کھینچ کر کہا، ’’پہلے ہمارا کام ولایت جاتا تھا۔‘‘

    ’’ولایت؟‘‘

    ’’وہاں ہمارے نام کی تو نہیں، کام کی بڑی دھوم تھی۔ لالہ بتاتے ہیں وہاں سے ان کے پاس ہماری کڑھائی کے پرانے نمونے آتے ہیں کہ ایسا کام بھیجو۔‘‘

    ’’مگر یہ۔۔۔‘‘ میں نے اڑے اڑے سے رنگ کا ایک اور پارچہ اٹھا کر کڑھے ہوئے پھولوں کو دیکھا۔

    ’’بازارو ہے۔‘‘ اماں نے کہا، ’’جس چیز کا چلن ہو جائے۔‘‘

    ’’یہ کون پہنتا ہوگا؟‘‘

    ’خوب پہنتے ہیں، مرد بھی عورتیں بھی۔‘‘

    ’’میں نے تو نہیں دیکھا۔‘‘

    ’’تم نے دیکھا ہی کیا ہے۔ اب کی باہر نکلنا تو خیال کر کے دیکھنا۔‘‘

    انہوں نے اپنی پیٹھ پر سے میرا ہاتھ ہٹایا اور ایک پارچہ اٹھا کر سوئی سنبھال لی۔ پارچے پر چھپی ہوئی وضع کو آنکھوں کے قریب کر کے کچھ دیر تک دیکھتی رہیں، پھر ان کی سوئی چھپائی پر چلنے لگی۔ میں نے دیکھا کہ پارچے پر رنگین دھاگے سے وہی چھپائی ابھر رہی ہے۔ میں نے اماں کو دیکھا۔ وہ میری طرف دیکھ رہی تھیں اور ان کی سوئی چھپی ہوئی وضع پر چل رہی تھی۔ میں نے پھر ان کو دیکھا۔ وہ اب بھی میری طرف دیکھ رہی تھیں۔

    ’’اماں، بغیر دیکھے کاڑھ رہی ہو؟‘‘

    ’’دیکھ تو لیا۔‘‘

    ’’ایک ہی بار تو دیکھا ہے۔‘‘

    ’’بار بار کیا دیکھیں۔‘‘ انہوں نے کہا اور پھر کہا، ’’موٹا کام ہے۔‘‘ اس کے بعد میں خاموش بیٹھا انہیں کام کرتے دیکھتا رہا۔ وہ واقعی بڑی تیزی سے کڑھائی کر رہی تھیں۔ ایک پارچہ پورا کر کے دوسرا اٹھاتیں، اس پر چھپی ہوئی وضع کو آنکھوں کے قریب کر کے دیکھتیں، پھر ان کی سوئی وضع پر چلنے لگتی۔ وہ اسی طرح کڑھائی کرتی رہیں یہاں تک کہ رات زیادہ آ گئی۔ انہوں نے کڑھے ہوئے پارچوں کو اٹھایا، دو تین بار گنا اور قاعدے سے تہہ کر کے رکھ دیا۔ پھر بغیر کڑھے ہوئے پارچوں کو اٹھا کر گنا اور کچھ دیر تک میری طرف دیکھتی رہیں، پھر بولیں، ’’نیند نہیں آ رہی ہے؟‘‘

    ’’آ رہی ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’تم بھی سو جاؤ۔ بہت رات ہو گئی ہے۔‘‘

    ’’تھوڑے ٹکڑے رہ گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’پورے کر لیں، پھر سوتے ہیں۔‘‘

    ’’یہ تو بہت ہیں۔ انہیں چھوڑو، کل کر لینا۔‘‘

    ’’بہت نہیں ہیں، ابھی ہوے جاتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا، اور پھر وہی کہا، ’’موٹا کام ہے۔‘‘ ان کی سوئی پھر چلنے لگی۔ میں کچھ دیر تک پارچے پر عنابی رنگ کے دھاگے سے ابھرتے ہوئے پانچ چھ پنکھڑیوں والے بڑے سے پھول کو دیکھتا رہا۔ پھر اپنے بستر پر دیوار کی طرف منہ کر کے لیٹ رہا اور شاید فوراً ہی سو گیا۔ دوتین باراماں کے کھانسنے کی آواز سے میری آنکھ ذرا ذرا دیر کو کھلی، جس کا مطلب میں نے یہی سمجھا کہ وہ جاگ رہی ہیں اور کام کر رہی ہیں اورصبح ہونے میں ابھی دیر ہے۔

    دن چڑھے میری آنکھ کھلی تو دیکھا اماں چوکی ہی پر سو گئی ہیں۔ ان کا ایک ہاتھ بغیر کڑھے ہوے پارچوں پررکھا ہوا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ ان پارچوں کی تعداد قریب قریب اتنی ہی ہے جتنی میرے سوتے وقت تھی۔ میں نے قریب جا کر دیکھا۔ سب سے اوپر والے پارچوں کے عنابی پھول کی چوتھی پنکھڑی میں اماں کی سوئی لگی ہوئی تھی۔ میں نے اماں کا شانہ پکڑ کر آہستہ سے ہلایا، پھر ذرا زور سے ہلایا اور ان کو دھیرے سے پکارا، پھر زور سے پکارا۔ وہ ہلکی سے آہٹ پر جاگ جایا کرتی تھیں، اس لئے میں نے ان کو غور سے دیکھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ سو رہی ہیں یا بے ہوش ہیں۔ میں زور زور سے ان کا شانہ ہلانے لگا تو انہوں نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔

    ’’اماں، کیسی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’ٹھیک ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’ہم ٹھیک ہیں، گھبراؤ نہیں۔‘‘

    ’’رات کو طبیعت خراب ہو گئی تھی؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ ہاں، کچھ۔۔۔‘‘ پھر ان پر کھانسی کا دورہ پڑا۔ میں دوڑ کر پانی لے آیا۔ ان کو دینے لگا تو دیکھا ان کا ہاتھ بری طرح کانپ رہا ہے۔

    ’’ہم پلائے دے رہے ہیں۔‘‘ میں نے کہا اوران کو پانی پلا دیا، پھرانہیں سہارا دے کر بستر پر لٹایا اور ان کے سرہانے بیٹھ گیا۔ ذرا دیر بعد ان کی سانس پھولنا شروع ہوئی اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئیں۔ میں نے انہیں پھر لٹانا چاہا تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا۔ دوپہر کے قریب ان کی حالت کچھ سنبھلی۔ میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد ان کی طبیعت کو پوچھتا تھا لیکن انہیں چپ سی لگ گئی تھی۔ صرف ہاں یا نہیں میں جواب دے رہی تھیں۔ ایک بار میں نے پوچھا، ’’اماں، کچھ کھاؤگی؟‘‘ تو انہوں نے سر ہلا کر انکار کر دیا۔ میں نے بھی سویرے سے کچھ نہیں کھایا تھا اور اب مجھے بھوک لگ رہی تھی۔

    ’’کچھ کھا لو۔‘‘ میں نے اماں سے کہا۔ انہوں نے پھر سر ہلا کر انکار کیا اور دیرتک چپ رہیں۔ پھر اچانک زور سے بولیں، ’’حسنی کو بلاؤ۔‘‘

    ’’حسنیٰ؟‘‘

    ’’مکان جانتے ہو؟‘‘

    میں حسنی ہی کو نہیں جانتا تھا۔ پہلی بار اماں سے یہ نام سن رہا تھا۔ اتنے میں ان پر پھر کھانسی کا دورہ پڑا۔ میں نے ان کی پیٹھ سہلانا شروع کی لیکن انہوں نے میرا ہاتھ ہٹا دیا اور کھانسی کے جھٹکوں کے بیچ میں اٹک اٹک کر کہا، ’’حسنیٰ۔۔۔ مکان نہیں جانتے۔۔۔؟ پیپل والا مکان۔۔۔ آتش بازی اور اگربتی کے بیچ میں۔۔۔‘‘ پھر وہ گھٹنوں میں سردے کر کھانسنے لگیں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان کو اس حالت میں چھوڑ کر کس طرح جاؤں۔ لیکن جب انہوں نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور پہلے سے بھی زیادہ زور سے بولیں، ’’تم گئے نہیں؟‘‘ تو مجھے ان کے لہجے میں کچھ ایسی وحشت محسوس ہوئی کہ میں گھبرا کر گھر سے نکل آیا۔

    چوک میں آتش بازی کی دکان مجھے معلوم تھی۔ لڑکپن سے اسے دیکھتا آ رہا تھا، لیکن یہ مجھ کو نہیں معلوم تھا کہ اس کے پاس اگربتی کی دکان اور دونوں دکانوں کے بیچ میں کوئی گلی بھی ہے۔ خاصی چوڑی گلی تھی اور دور تک ادھر ادھر مڑتی چلی گئی تھی۔ دونوں طرف مکا ن بہت تھے۔ لیکن سب کے سب کھنڈر ہو رہے تھے، گلی شاید ان گرے پڑے مکانو ں ہی کی وجہ سے چوڑی معلوم ہونے لگی تھی۔ درخت کوئی نظرنہیں آتا تھا۔ میں گلی کے موڑوں کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔ آخر دو مکانوں کے پیچھے سے پیپل کی پھنگی جھانکتی دکھائی دی۔ کچھ دیر بعد میں ڈھیلی ڈھیلی اینٹوں والی ایک چوڑی دیوار کے سامنے کھڑا تھا۔ درخت اسی دیوار میں سے اگا تھا اور اس کی جڑوں نے دور دور تک پھیل کر دیوار کو جکڑ رکھا تھا۔ جڑوں سے کچھ ہٹ کر مکان کا ادھ کھلا دروازہ تھا۔ میں نے دروازے کے کڑے کو دو تین مرتبہ کھڑکایا۔ اندر سے کسی مرد کی آواز آئی، ’’آ رہے ہیں۔‘‘

    آواز کچھ پہچانی ہوئی سی تھی۔ میں نے اسے یاد کرنے کی کوشش کی، لیکن اسی وقت مجھے اماں کا خیال آگیا کہ گھر پر معلوم نہیں ان کی کیا حالت ہوگی۔ دروازے پر کھڑے کھڑے مجھے یہ بھی خیال آیا کہ میں ان کے پاس پڑوس کی کسی عورت کو بٹھا کر نہیں آیا ہوں۔ مجھے ان کی پھولتی ہوئی سانس اور کھانسی کے جھٹکے اور کپکپاتے ہوئے ہاتھ یاد آئے۔ قریب تھا کہ میں گھر کی طرف بھاگنا شروع کر دوں، لیکن اسی وقت میں نے دیکھا کہ ادھ کھلے دروازے کے پیچھے اندھیری اندھیری ڈیوڑھی میں ایک عورت کھڑی مجھ کو دیکھ رہی ہے۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور اس نے بڑھ کر دروازے کا ایک پٹ تھوڑا اور بھیڑ دیا۔ پھر مجھے اس کی آواز سنائی دی، ’’کون صاحب ہیں؟‘‘

    ’’حسنیٰ صاحبہ یہیں رہتی ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’جی، یہی مکان ہے۔‘‘

    ’’آپ ہی ہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں، کہئے۔‘‘

    ’’اماں کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔ آپ کو بلوایا ہے۔‘‘ وہ کچھ دیر تک دروازے کی اوٹ سے مجھے دیکھتی رہی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میری بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی ہے۔ میں نے کہا، ’’ان کی سانس بہت پھول رہی ہے اور کھانسی۔۔۔ کانپ بھی رہی ہیں۔ آپ کو جلدی بلایا ہے۔ شاید۔۔۔‘‘ میں رک گیا۔ وہ کچھ نہیں بولی اور مجھے پھر شبہ ہوا کہ میری بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی ہے۔ میں نے کہا، ’’میں ان کو اکیلا چھوڑ کر آ رہا ہوں۔‘‘ اس نے کچھ رک رک کر کہا، ’’ہم ابا کو کھانا کھلا رہے تھے۔ آپ چلئے۔ ہم ابھی آتے ہیں۔‘‘ اس کے مڑنے کا انتظار کئے بغیر ہی میں تیزی سے واپس ہوا۔ اماں اسی طرح گھٹنوں میں سردیے بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کی سانس اب بھی کچھ پھول رہی تھی لیکن کھانسی رک گئی تھی۔ آہٹ پاکر انہوں نے سر اٹھایا۔

    ’’کہہ دیا۔‘‘ میں نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا، ’’ابھی آ رہی ہیں۔‘‘

    ’’پریشان ہو گئی ہوگی بچاری۔‘‘ اماں نے اپنے آپ سے کہا، پھر مجھ سے پوچھا، ’’تمہارے ساتھ ہی نہیں چلی آئی؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’اپنے ابا کو کھانا کھلا رہی تھیں۔‘‘

    ’’کیا کرے غریب۔‘‘ اماں بولیں، ’’اپاہج باپ ہے۔‘‘

    ’’اماں، یہ حسنیٰ کون ہیں؟‘‘

    ’’بھلی لڑکی ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا، ’’چکن کاڑھتی ہے۔ ہم سے کام سیکھنے آتی تھی۔‘‘

    ’’تم سے؟‘‘ مجھے خواہ مخواہ کچھ حیرت ہوئی، ’’میں نے تو نہیں دیکھا۔‘‘ اماں کچھ کہتے کہتے رکیں۔ شاید ’’تم نے دیکھا ہی کیا ہے‘‘ کہنے جا رہی تھیں۔ پھر بولیں، ’’تم اس وقت الہ آباد میں تھے۔‘‘

    ’’اور ان کے باپ کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘

    ’’پیر رہ گئے ہیں دکھیارے کے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’تم تو اس کا منجن بہت لایا کرتے تھے۔‘‘

    ’’منجن؟‘‘

    ’’ہاں۔ وہی لاڈلے کا بادشاہی منجن۔‘‘

    ’’لاڈلے؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا، ’’وہ ابھی زندہ ہے؟‘‘

    ’’مردے سے بدتر۔ دونوں ٹانگیں سوکھتی چلی جا رہی ہیں۔‘‘

    اسی وقت دروازے پر آہٹ ہوئی اور حسنی اندر داخل ہوئی۔ وہ برقعے کی نقاب الٹے ہوئے تھی۔ اس لئے میں نے اسے پہچان لیا۔ مجھ کو حیرت ہوئی کہ وہ اتنی جلدی پہنچ گئی۔ اماں اسے دیکھتے ہی بشاش ہو گئیں۔

    ’’آؤ بیٹی، آؤ۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’ہم کو معلوم تھا تم اڑ کر پہنچوگی۔‘‘ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی دالان کی طرف بڑھنے لگی اور میں زینہ چڑھ کر مکان کی چھت پر آ گیا۔ ختم ہوتی ہوئی دوپہر کی دھوپ میں سستی کے ساتھ اڑتی ہوئی چیلوں کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ میں نے شاید برسوں سے سر اٹھا کر اوپر نہیں دیکھا ہے۔ اس وقت ہر طرف پھیلے ہوئے شفاف نیلے آسمان اور لاڈلے کے نام نے مجھے بچپن کے زمانے میں پہنچا دیا۔ اس زمانے میں نخاس کا اتواری بازار جن لوگوں کی وجہ سے مجھے اپنی طرف کھینچتا تھا ان میں نٹوں، جادوگروں اور انوکھے جانور پکڑ کر لانے والے ایک آدمی کے علاوہ لاڈلے بھی تھا۔

    وہ سڑک کے کنارے ایک چادر بچھا کر کھڑا ہوتا تھا۔ چادر پرچھوٹی چھوٹی کھلی ہوئی تھیلیوں میں پچاس ساٹھ قسم کی جڑی بوٹیاں ترتیب سے سجی ہوتیں۔ ان کے پیچھے ایک پتلے سے بکس کے بند ڈھکنے پر کئی قطاروں میں بادشاہی منجن کی چھوٹی اور بڑی شیشیاں رکھی رہتیں اور ان کے پیچھے لاڈلے کھڑا ہوتا۔ وہ گٹھے ہوئے بدن اور ہموار سفید دانتوں والا آدمی تھا۔ اس کے سامنے جلدی ہی خریداروں کا مجمع لگ جاتا تھا۔ تب وہ بولنا شروع کرتا۔ بولتے میں اس پر عجب جوش اور جلال سا طاری رہتا تھا لیکن اس کی تقریر ہمیشہ ایک ہی سی ہوتی تھی۔ شروع میں کچھ دیر تک وہ انگریزی بولتا تھا، یا شاید وہ اس کی اپنی گڑھی ہوئی کوئی بولی تھی جوا نگریزی نہ جاننے والوں کو انگریزی معلوم ہوتی تھی، پھر وہ بتاتا کہ اس نے ولایت میں پڑھا ہے اور اگر چاہے تو آج ہی ڈپٹی کلکٹر ہو جائے لیکن اسے بادشاہی منجن بنانے میں ڈپٹی کلکٹر سے زیادہ مزہ آتا ہے۔

    پھر چادر پر بچھی ہوئی تھیلیوں کو باری باری چھڑی سے چھوکر بڑی روانی کے ساتھ بیان کرتا کہ ان میں کون کون چیزیں ہیں اور ان کی کیا کیا خاصیتیں ہیں اور ان کے جمع کرنے میں کیسے کیسے خطروں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ پھر وہ اپنے بادشاہی منجن کی دوشیشیاں اٹھاتا اور انہیں آپس میں ٹکرا ٹکرا کر بتاتا کہ یہ منجن ان سب چیزوں کا مرکب ہے اور اس کا نسخہ شاہی خزانوں میں بڑی حفاظت کے ساتھ رکھا جاتا تھا۔ اس کی تقریر میں سنجیدگی کے ساتھ مسخراپن اس طرح گھلا ملا ہو تا کہ سننے والوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کہاں پر ہنسیں اور کہاں پر نہ ہنسیں۔ میری بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا، لیکن میں اس کی تقریر کو زیادہ توجہ سے سنتا ہی نہیں تھا۔

    میں اس سے کچھ کچھ ڈرتا بھی تھا لیکن اس وقت کاا نتظار بھی کرتا تھا جب وہ منجن کی فروخت شروع کرنے سے پہلے تانبے کے ایک موٹے سکے کو دانتوں سے دباتا اور انگوٹھے کی مدد سے قریب قریب دہرا کر دیتا۔ پھر وہ اس ٹیڑھے سکے کو خریداروں میں گشت کراتا۔ کچھ خریدارا سے دوبارہ سیدھا کرنے کی ناکام کوشش کرتے اور سکہ پھر لاڈلے کے پاس واپس آ جاتا تھا۔ لاڈلے اسے پہلے کی طرح دانتوں سے دبا کر پھر سیدھا کر دیتا۔ اس کے بعد منجن کی بکری شروع ہو جاتی تھی۔ میں بھی ہر دوسرے تیسرے اتوار کو ایک چھوٹی شیشی خریدتا، پابندی سے استعمال کرتا اور دانتوں سے سکے ٹیڑھے کرنے کی کوشش کرتا۔

    کچھ عرصے بعد بازار میں مجھ کو اتنی دلچسپی نہیں رہی جتنی پہلے تھی۔ بازار بھی ویسا نہیں رہا جیسا پہلے تھا۔ میں نے اس پر بھی دھیان دینا چھوڑ دیا تھا کہ لاڈلے اب بھی وہاں منجن بیچتا ہے یا نہیں۔ پھر مجھ کو الہ آباد بھیج دیا گیا۔ تعلیم ختم کر کے لکھنؤ واپس آنے کے بعد میں دو تین دفعہ اتواری بازار کی سیر کو گیا لیکن اب وہاں بھیڑبھاڑ بہت ہونے لگی تھی۔ آخر میں نے اتوار کے دن نخاس کی طرف سے نکلنا ہی چھوڑ دیا تھا، اس لئے کہ اس کا بازار میری آوارہ گردیوں میں رکاوٹ پیدا کرتا تھا۔

    اپنے بچپن کے اس بازار اور اس کی دوسری دلچسپیوں کے ساتھ ساتھ لاڈلے کو بھی میں کب کا بھول چکا تھا، لیکن اس وقت جب اوپر آسمان کی نیلاہٹ میں بولتی ہوئی چیلیں آہستہ آہستہ چکر لگا رہی تھیں اور نیچے اس کی بیٹی میری اماں سے باتیں کر رہی تھی، مجھے وہ بازار اور اس میں کھڑا ہوا لاڈلے، بلکہ اس کا دانتوں سے ٹیڑھا کیا ہوا سکہ تک نظر آنے لگا تھا۔ سہ پہر ڈھل رہی تھی جب اماں نے نیچے سے مجھے آواز دی اور میں زینہ اتر کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ بستر پر بیٹھی تھیں اور قریب قریب ٹھیک معلوم ہو رہی تھیں۔ چوکی پر سے کڑھے ہوئے پارچے غائب تھے اور ان کی جگہ سینی میں گرم کھانا رکھا ہوا تھا۔

    ’’کھانا کھالو۔‘‘ اماں نے کہا، ’’آج ہم نے اپنے بیٹے کو بھوکا مار دیا۔‘‘

    ’’وہ۔۔۔ حسنیٰ۔۔۔ گئیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’وہی بچاری پکا گئی ہے۔‘‘

    میں نے چوکی پر بیٹھتے ہوئے کہا، ’’تم بھی تو آؤ، یا وہیں دے دوں؟‘‘

    ’’نہیں، ہمیں وہ کھلا کر گئی ہے۔‘‘

    دوہی تین نوالوں کے بعد مجھے محسوس ہونے لگا جیسے اماں کا پکایا ہوا کھا رہا ہوں۔ آخر مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے اماں سے پوچھا، ’’حسنی کو کھانا پکانا بھی تمہیں نے سکھایا ہے؟‘‘

    ’’تم نے خوب پہچانا۔‘‘ اماں خوش ہو کر بولیں، ’’ہاں، جب ہم سے کام سیکھنے آتی تھی۔۔۔ ہم نے کہا بیٹی ہانڈی چولہا کرنا بھی سیکھ لو۔‘‘ اور انہوں نے پھر کہا، ’’مگر تم نے پہچانا خوب۔“

    ’’کیوں؟ اپنی اماں کا ہاتھ میں ہزار کھانوں کے بیچ میں پہچان سکتا ہوں۔‘‘ اماں دھیرے سے ہنسیں، پھر انہیں کچھ یاد آ گیا۔

    ’’ہاں، یہ بتاؤ، حسنی سے تم نے کیا کہا تھا؟‘‘

    ’’بتا دیا تھا تمہاری طبیعت خراب ہے۔‘‘

    ’’اور؟‘‘

    ’’اور؟ یہ بھی بتا دیا تھا کہ تم نے بلایا ہے۔‘‘

    ’’اور اپنا اتا پتا بتائے بغیر بھاگ کھڑے ہوئے؟‘‘ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔

    ’’ہاں، اب تم نے کہا تو یاد آیا۔‘‘ میں بولا، ’’انہوں نے پوچھا ہی نہیں۔ مجھے بھی واپس آنے کی جلدی تھی۔‘‘

    ’’ایسی بھی کیا بدحواسی، لڑکے۔‘‘

    ’’تو پھر وہ کس طرح۔۔۔‘‘

    ’’خود ہی تمہیں پہچانا اور چلی آئی۔‘‘

    ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اماں نے مجھ سے ایک سوال سننے کے لئے یہ بات چھیڑی ہے، اس لئے میں نے وہ سوال کر دیا، ’’مگر انہوں نے کس طرح مجھ کو پہچان لیا؟‘‘

    ’’تمہارے کرتے سے۔‘‘ اماں ذرا فخر کے ساتھ بولیں۔ میں نے اپنے کرتے کو دیکھا۔ وہ پرانا ہو چکا تھا لیکن اماں نے اپنے ہاتھ سے اس پر بہت گنجان بیل کاڑھی تھی جس کا ایک ٹانکا بھی اب تک اپنی جگہ سے نہیں ہلا تھا۔ میں نے بیل پر ہاتھ پھیرا اور کہا، ’’تمہارے ہاتھ کی کڑھائی پہچان لی؟ لیکن انہوں نے یہ کس طرح سمجھ لیا کہ میں۔۔۔‘‘ مگر اپنا سوال پورا کرنے سے پہلے پہلے اس کا جواب میری عقل میں آ گیا۔ میری حیثیت کا آدمی ایسی کڑھائی کا کرتا صرف اس صورت میں پہن سکتا تھا کہ وہ کاڑھنے والی کا بیٹا ہو۔ یہ سب کی سمجھ میں آنے والی بات تھی، حسنی کی سمجھ میں بھی آ گئی۔ اماں نے غور سے میری طرف دیکھا، کچھ کہنے کو ہوئیں، پھر رک گئیں۔ میں نے کھانا ختم کر لیا تو بولیں، ’’برتن کنویں پر رکھ دو۔ ہم دھو دیں گے۔‘‘

    ’’نہیں، ہم دھوئے دیتے ہیں‘‘میں نے اٹھتے ہوئے کہا، ’’تمہارے برتن کہاں ہیں؟‘‘

    ’’وہ دھو کر رکھ گئی ہے۔‘‘ اماں نے بتایا، ’’اور سنو۔۔۔‘‘

    میں کنویں کی طرف جاتے جاتے رکا۔

    ’’کیا کہہ رہی ہو؟‘‘

    ’’کل دوپہر کو وہ آئےگی۔ تم گھر ہی پر رہنا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’اسے تم سے کچھ کام ہے۔‘‘

    ’’مجھ سے؟‘‘

    ’’ہاں۔ کچھ پڑھوانا ہے۔‘‘

    حسنی دوپہر کے کچھ بعد اماں کے پاس آئی۔ میں اٹھ کر کنویں کی طرف چلا گیا۔ وہ دونوں دیر تک دالان میں کچھ باتیں کرتی رہیں۔ پھر اماں نے مجھے آواز دی۔ وہ بستر پر لیٹی ہوئی تھیں۔ حسنی ان کے سرہانے کی طرف بیٹھی تھی۔ میری ہی ہم عمر یا مجھ سے کچھ چھوٹی معلوم ہوتی تھی۔ ناک نقشہ درست تھا، صورت میں ہلکی سی شباہت باپ کی بھی تھی۔ یہ سب میں نے ایک نظرمیں دیکھ لیا، پھرچوکی پر رکھے ہوئے پارچوں کو ایک طرف ہٹا کر بیٹھ گیا۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ کل کے بےکڑھے ہوئے پارچے اماں نے کسی وقت کاڑھ ڈالے ہیں اورچوکی پر کچھ اور بےکڑھے ہوئے پارچے رکھے ہوئے ہیں۔ اسی وقت اماں نے کہا، ’’یہ لو۔‘‘ اور بستر پرلیٹے لیٹے ایک لفافہ میری طرف بڑھایا۔ میں نے بھی چوکی پر بیٹھے بیٹھے ہاتھ بڑھا کر لفافہ لے لیا اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھا۔

    ’’یہ بند ہے۔‘‘ میں نے اماں کو بتایا۔ اماں نے حسنی کی طرف دیکھا۔ حسنی نے کچھ اشارہ کیا اور اماں نے کہا، ’’کھول لو۔ ان کے باپ نے دیا ہے۔‘‘ میں نے لفافہ کھولا۔ اندر کے بادامی کاغذ پر موٹے قلم سے لکھا ہوا تھا، ’’یہ کاغذ ہے منجانب علی محمد عرف لاڈلے ولد علی حسین عرف دلارے نواب ساکن شہر لکھنؤ محلہ چوک پیپل والا مکان، کہ اب میں بوڑھا ہوا۔ صحت میری درست ہے لیکن عمر میری اتنی ہو گئی ہے کہ جتنی عمر ہو جانے کے بعد آدمی کو موت قریب معلوم دینے لگتی ہے۔ بنابریں یہ تحریر لکھ کر چھوڑتا ہوں۔ معلوم ہونا چاہئے کہ میں ہفتہ واری بازاروں میں روزی کماتا تھا۔ تین بازاروں میں بادشاہی منجن بیچتا تھا، دو میں درد، چوٹ اور مردمی کا پہاڑی تیل اور ایک میں جادو دکھاتا تھا۔ ساتویں دن چھٹی مناتا تھا۔

    میرے صرف ایک بیٹی مسمات حسنی ہے کہ جس کی عمر اب کے جاڑوں میں تیس برس کی ہو جائےگی۔ وہ پندرہ برس کی ہو رہی تھی کہ میری ٹانگیں بے کار ہو گئیں اور اب پندرہ برس سے چکن کاڑھ کاڑھ کر وہی مجھ کو کھلا رہی ہے۔ وہ میری اکلوتی اولاد ہے، اس لئے ازروئے قانون میرے بعد میرا سب کچھ اسی کا ہے۔ لیکن یہ جو تحریر میں لکھ کر چھوڑ رہا ہوں اس کا مقصدیہ بتانا نہیں بلکہ یہ اظہار کرنا ہے کہ میرا وہ سامان جو لکڑی والے صندوق میں ہے، اس میں سے میری بیٹی کو کچھ نہ دیا جائے لیکن اس میں کی ایک ایک شئے اس کو اچھی طرح دکھلا دیں تاکہ اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کو کیا کیا نہیں ملا ہے۔ فقط علی محمد عرف لاڈلے بقلم خود۔‘‘

    میں نے یہ تحریر پڑھ کر حسنی کی طرف دیکھا۔

    ’’یہ ان کا وصیت نامہ ہے۔‘‘

    ’’وصیت نامہ؟‘‘ اس نے ذرا سہم کر پوچھا، پھرکچھ سوچ کر حیران ہو گئی۔

    ’’اپنے سامان کے بارے میں۔‘‘

    ’’سامان کے بارے میں؟‘‘ اس نے اماں کی طرف دیکھ کر پوچھا اور کچھ اور حیران ہو گئی۔

    ’’پڑھ کر سناؤ تو ذرا۔‘‘ اماں نے مجھ سے کہا۔ میں نے پڑھ کر سنانا شروع کیا۔ پہاڑی تیل کے ذکرپر آکر میں ذرا رکا، پھر اسے چھوڑ کر آگے پڑھنے لگا۔ تحریر ختم ہوئی تو میں نے کاغذ تہہ کر کے لفافے میں رکھا اور لفافہ اماں کو دے کر صحن میں کنویں کے پاس آ گیا۔ مجھے تعجب ہو رہا تھا کہ یہ تحریر اس آدمی کی ہے جو نخاس میں بادشاہی منجن بیچا کرتا تھا اور میں اس سے کچھ کچھ ڈرتا تھا۔ میرا یہ بھی جی چاہ رہا تھا کہ لکڑی والے صندوق کے اس سامان کو دیکھوں جس میں سے حسنی کو کچھ نہیں ملنے والا تھا اور یہ بھی کہ لاڈلے کو کچھ لکھتے ہوئے دیکھوں۔

    میں نے حسنی کو جاتے ہوئے دیکھا۔ اٹھ کر اماں کے پاس جا رہا تھا کہ پڑوس کی دو تین عورتیں آ گئیں اور میں پھر کنویں کے پاس بیٹھ گیا۔ پڑوس کی عورتیں کچھ دن سے اماں کے پاس زیادہ آنے لگی تھیں۔ وہ گھر کے کاموں میں اماں کا ہاتھ بھی بٹاتی تھیں۔ اماں کی طبیعت اب ٹھیک معلوم ہوتی تھی لیکن ہاتھ بہت کانپنے لگا تھا، پھر بھی جب پڑوسنوں کے جانے کے بعد میں ان کے پاس پہنچا تو وہ بستر پر بیٹھی کڑھائی کر رہی تھیں۔ انہوں نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا، پھر کام میں لگ گئیں۔ میرا خیال تھا وہ لاڈلے کے وصیت نامے کے بارے میں باتیں کریں گی، لیکن وہ کچھ نہیں بولیں اورمیں کپڑے پر ان کی سوئی کو چلتے دیکھتا رہا، پھر بولا، ’’اماں، تمہارا ہاتھ زیادہ کانپ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں ان کے پاس ہی چوکی پر بیٹھ گیا۔ دیر تک ان کے کاڑھے ہوئے پارچوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا، یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کا وقت آ گیا۔ انہوں نے پارچوں کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا، پھر میری طرف دیکھا۔

    ’’آج جمعرات ہے۔‘‘ انہوں نے مجھ کو بتایا۔

    ’’یاد ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’لاؤ شمع ماچس کہاں ہے؟‘‘ قبرستان سے واپسی پر میں ادھرادھر گھومتا ہوا گھر پہنچا تو میں نے دیکھا اماں سو رہی ہیں اور چوکی پر میرا کھانا رکھا ہے۔ کھا کر میں بھی جلدی ہی سو گیا۔

    ۳

    دوسرے دن دھوپ چڑھنے سے پہلے ہی اماں نے سب پارچے پورے کر لئے تھے۔ انہوں نے کھانا پکایا، مجھے کھلایا، پھر کہا، ’’بیٹے، ایک کام کروگے؟‘‘

    ’’بتاؤ۔‘‘

    انہوں نے پارچوں کی گٹھری سی بناکر مجھے دی اور کہا، ’’ذرا حسنی کو دے آؤ۔ وہ لالہ کے یہاں پہنچا دےگی۔‘‘

    ’’میں ہی پہنچائے دیتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا، ’’لالہ کی دکان مجھے معلوم ہے۔‘‘

    ’’نہیں نہیں۔‘‘ اماں نے جلدی سے کہا، ’’اسی کو دے آؤ۔ لالہ سے نیا کام بھی لانا ہے۔‘‘

    ’’نیا کام بھی لا دوں گا۔‘‘

    ’’حساب کتاب بھی کرنا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، پھر کہا، ’’بات مانو۔‘‘ میں نے بات مان لی اور ایک بار پھر پیپل والے مکان کے دروازے پر جا کر دستک دی۔ اندر سے پھر وہی مردانی آواز آئی، ’’آ رہے ہیں۔‘‘ لیکن باہر ایک بہت بوڑھی عورت نکلی اور مجھے اس طرح دیکھنے لگی جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔ میں نے اسے پہچاننے کی کوشش کئے بغیر کہا، ’’یہ سامان لائے تھے۔‘‘

    ’’کیسا سامان؟‘‘

    ’’چکن۔‘‘ میں نے کہا، ’’لالہ کی دکان پر بھجوانا ہے۔‘‘

    ’’اچھا، ٹھہریے۔‘‘ اس نے کہا اور اندر چلی گئی، کچھ دیر بعد پھر نکلی اور بولی، ’’آ جائیے، بلا رہے ہیں۔‘‘

    چھوٹی سی ڈیوڑھی کے بعد کچا صحن تھا۔ ایک طرف کھپریل پڑی تھی، دوسری طرف دالان تھا۔ تیسری طرف مہندی کی چھدری چھدری باڑھ اور اس کے پیچھے زنگ آلود ٹین کے دو چھوٹے چھوٹے سائبان، جن کے آگے پرانے ٹاٹ کے پردے لٹک رہے تھے۔ عورت مجھے دالان میں لے گئی اور وہاں میں نے اتنے برسوں کے بعد لاڈلے کو دیکھا۔ وہ بانس کے ایک پلنگ پر آدھا لیٹا آدھا بیٹھا ہوا تھا۔ مجھ کو اس میں اس کے سوا کوئی خاص فرق نظر نہیں آیا کہ پہلے اس کے بال پورے سیاہ تھے، اب ان میں خضاب کی سرخی تھی۔ میں نے اس کی ٹانگوں کی طرف دیکھا لیکن ان پر ایک پرانا کمبل پڑا ہوا تھا۔

    ’’میاں، بیٹھیے۔‘‘ اس نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا، ’’اسے ادھر رکھ دیجئے۔‘‘ بوڑھی عورت نے گٹھری میرے ہاتھ سے لے کر دالان کے کونے میں رکھے ہوئے لکڑی کے صندوق پر ٹکا دی اور ایک چوکی کی طرف اشارہ کر کے بولی، ’’آرام سے بیٹھ جاؤ بھیا۔‘‘ میں چوکی پربیٹھ کر لاڈلے کی طرف دیکھنے لگا۔

    ’’بٹیا اسپتال گئی ہیں۔‘‘ اس نے کہا، ’’بتا گئی تھیں آپ آئیں گے۔ کچھ کہلوانا تو نہیں ہے؟‘‘

    ’’اماں نے کہلایا تھا لالہ سے نیا کام لانا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’اور حساب کتاب۔۔۔‘‘

    ’’ہم بتا دیں گے، سب ہو جائےگا۔‘‘ اس نے کہا اور بوڑھی عور ت کو بتایا، ’’ان کی اماں نے ہماری بٹیا کو کام سکھایا ہے۔‘‘

    ’’ہم جانتے نہیں کیا؟‘‘ عورت بولی، ’’کتنے دن تو ہمارے ہی ساتھ وہاں گئی ہے۔‘‘

    ’’سچ کہتی ہو۔‘‘ لاڈلے بولا۔ پھرکچھ دیرتک وہ مجھ سے باتیں کرتا رہا جو زیادہ تر چکن کی صنعت اور کچھ میری تعلیم کے بارے میں تھیں۔ وہ بہت نرم اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں بڑی شائستہ گفتگو کر رہا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں اتنے سلیقے سے گفتگو نہیں کر سکتا، آخرمیں اٹھ کھڑا ہوا۔

    ’’بٹیا دیر کی گئی ہوئی ہیں۔‘‘ اس نے کہا، ’’جی چاہے بیٹھیے۔ اب آتی ہوں گی۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’بہت کام ہے۔‘‘ اوراس سے پہلے کہ وہ پوچھتا، ’’میاں آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘ میں اسے سلام کر کے دالان سے باہر نکل آیا۔ مجھے اس کی آواز سنائی دی، ’’بہن سے ہمارا آداب کہہ دیجئےگا۔‘‘

    مجھے خوشی ہو رہی تھی کہ میں نے خود کو لاڈلے کے سوال سے بچا لیا۔ لیکن چوک سے باہر آتے آتے مجھے خیال ہونے لگا کہ یہ سوال اس کو اسی وقت کر لینا چاہئے تھا جب وہ میری تعلیم کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہا تھا۔ کچھ اور آگے بڑھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ اس کو اس سوال کا جواب پہلے ہی معلوم تھا۔ اسے حسنی نے بتایا ہوگا۔ ’حسنی کو کس نے بتایا؟‘ میں نے خود سے پوچھا اور خود ہی جواب دیا، ’ظاہر ہے اماں نے۔ مجھے اپنے اوپر ترس اور اماں پرغصہ آنے لگا۔ گھر پہنچتے پہنچتے میں فیصلہ کر چکا تھا کہ اماں سے خوب لڑوں گا۔ میں نے یہ بھی طے کر لیا کہ لڑائی کی شروعات اس طرح کروں گا، ’’اماں، یہ کون سی بات ہے؟ ایک تو مجھے کچھ کرنے نہیں دیتیں، پھر دنیا بھر میں روتی بھی پھرتی ہو کہ میں کچھ نہیں کرتا۔‘‘ لیکن مجھے اس کا موقع نہیں ملا۔ اماں میرے پہنچنے سے کچھ دیر پہلے ختم ہو گئی تھیں۔ شاید فالج گرا تھا، یا دل کا دورہ ہوگا۔ مرنے سے پہلے وہ ایک پڑوسن کو صرف اتنا بتا سکی تھیں کہ روپے کہاں رکھے ہیں۔

    ۴

    اس کے بعد کا سب کچھ مجھے خواب سا معلوم ہوتا رہا۔ مجھے دھندھلا دھندھلا یاد ہے کہ گھر کے پڑوس کی عورتیں اور باہر مرد جمع تھے اور مجھ سے جو کچھ کہا جا رہا تھا وہ میں کر رہا تھا۔ اماں کے بتائے ہوئے روپے میں نے نکالے تھے اور گنے بغیر مردوں میں سے کسی کو دے دیے تھے۔ میت کے ساتھ قبرستان پہنچ کر میرا ذہن تھوڑی دیر کے لئے کچھ صاف ہوا تو میں نے شکایت کی تھی کہ اماں کو ابا کی قبر کے پہلو میں جگہ نہیں ملی اور مجھے بتایا گیا تھا کہ ابا کی قبر کے آس پاس کوئی جگہ خالی نہیں رہ گئی ہے۔

    دوسرے دن اماں کا پرسا دینے کے لئے عورتوں نے میرے یہاں آنا شروع کیا۔ یہ زیادہ تر چکن بنانے والی برقع پوش عورتیں تھیں۔ میں ان میں سے کسی کو نہیں پہچانتا تھا، اس لئے چوکی پر خاموش بیٹھا رہتا اور پڑوس کی رہنے والیاں ان سے بات کرتی تھیں۔ مجھ کو ان کی باتوں میں دلچسپی نہیں تھی لیکن اس پرکچھ حیرت ضرور ہو رہی تھی کہ اماں کی اتنی بہت سی جاننے والیاں ہیں اور ان کو اماں کے مرنے کی خبر اتنی جلدی ہو گئی۔

    تین دن تک میرے لئے پڑوس کے گھروں سے کھانا آتا رہا۔ چوتھے دن حسنی بھی آئی۔ اس کے ساتھ کئی عورتیں تھیں۔ پڑوس والیوں سے کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد وہ میرے قریب آکر کھڑی ہوگئی۔ میں کچھ دیر تک سر جھکائے بیٹھا رہا، پھر میں نے اس کی طرف دیکھا۔

    ’’لالہ کے یہاں چلے جائیےگا۔‘‘ اس نے کہا، ’’انہوں نے بلوایا ہے۔‘‘

    ’’مجھ کو بلوایا ہے؟‘‘

    ’’کہہ رہے تھے ضروری کام ہے۔ کچھ حساب کتاب بھی کرنا ہے۔‘‘

    ’’وہ دکان پر کس وقت بیٹھتے ہیں؟‘‘

    ’’پورے وقت بیٹھتے ہیں۔‘‘ اس نے بتایا، پھر کچھ دیر خاموش رہ کر بولی، ’’ہم اسی دن آرہے تھے، لیکن۔۔۔‘‘ اس نے جملہ پورا کیے بغیر چہرے پر نقاب ڈال لی اور دوسری عورتوں کے ساتھ واپس چلی گئی۔

    اس رات کسی گھر سے میرے لئے کھانا آیا تو میں نے واپس کر دیا۔ مجھے یاد آیا کہ اماں کے مرنے کے دن میں نے ان کے روپے نکال کر محلے کے کسی آدمی کودے دیے تھے اور قبرستان سے واپسی پر اس نے بچے ہوئے روپے مجھے لوٹا دیے تھے۔ اس نے خرچ کا حساب بھی بتایا تھا جو میں نے سنا نہیں۔ اب کھانا واپس کرنے کے بعد، میں نے تکیے کے نیچے سے وہ روپے نکالے اور انہیں گننا شروع کیا تھا کہ ایک پڑوسن میرا واپس کیا ہوا کھانا لےکر آ گئیں۔ انہوں نے مجھے گودیوں میں کھلایا تھا۔

    میں ان کو خالہ کہتا تھا۔ بلوے والی رات اماں انہیں خالہ کو قسم دے کر گئی تھیں کہ مجھ کو کھانا کھلا دیں۔ ا س وقت خود وہ خالہ مجھ کو قسمیں دے رہی تھیں کہ کھانا کھا لو۔ میں کہہ رہا تھا کہ میں بازار میں کھا لیا کروں گا اور وہ بازار کے کھانے کو زہر بتا رہی تھیں۔ دیر تک میری ان کی بحث ہوتی رہی۔ آخر میں نے تکیے کے نیچے سے نکالے ہوئے روپے ان کے ہاتھ میں دے دیے اور کسی طرح انہیں راضی کر لیا کہ آئندہ میرے کھانے کا انتظام میرے ہی پیسے سے کریں۔ وہ مجھے کھانا کھلا کر واپس گئیں اور اماں کے مرنے کے بعد پہلی مرتبہ میں نے کچھ راحت سی محسوس کی۔ جس کی وجہ سے اماں کا غم بھی مجھے پوری طرح محسوس ہونے لگا۔

    دوسرے دن میں لالہ کے یہاں گیا۔ دو دَر کی بڑی دکان تھی۔ لالہ کے دو جوان لڑکے دکان داری دیکھ رہے تھے۔ گاہکوں اور کاریگر مردوں عورتوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا۔ خود لالہ ان سب سے ذرا ہٹ کر ایک نیچے سے تخت پر بیٹھے تھے۔ پیچھے گاؤ تکیہ لگا ہوا تھا۔ بہت صاف ستھرے بوڑھے آدم تھے۔ بھنویں سفید ہو چلی تھیں۔ ان کے سامنے ایک صندوقچہ اور اس کے اوپر کاغذوں کا پلندہ رکھا ہوا تھا جسے وہ الٹ پلٹ رہے تھے۔ میں ان کے سامنے جاکر کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیربعد انہوں نے سر اٹھاکر مجھے دیکھا۔ میں نے انہیں سلام کیا اور کہا، ’’آپ نے بلوایا تھا۔‘‘

    لالہ نے دو تین بار سرسے پیر تک دیکھا، پھر بڑے تپاک سے بولے، ’’آؤ بھیا، آؤ۔ ادھر نکل آؤ۔‘‘ میں ان کے قریب ہی تخت کے کونے پر بیٹھ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اماں کی خبر ان کو حسنی سے ملی، پھر بولے، ’’کیا بتائیں بھیا، ہمارے تو سمجھو ہاتھ کٹ گئے۔‘‘ اس کے بعد وہ دیر تک اماں کی باتیں اور ان کے کام کی تعریفیں کرتے رہے۔ انہوں نے اماں کی بیماری اور کفن دفن کی تفصیل بھی پوچھی، پھر کاغذوں کی طرف متوجہ ہو گئے۔ کچھ دیر بعد انہوں نے پھر سر اٹھایا اور بولے، ’’ہاں، ہم نے تمہیں بلوایا تھا۔ ایک تو ان کا حساب کتاب کرنا تھا۔‘‘ اور یہ کہتے کہتے انہوں نے کاغذوں کو ہٹا کر صندوقچہ کھولا، کچھ روپے نکال کر میرے قریب تخت پر رکھ دیے اور کہا، ’’یہ تو ان کی اخیر دنوں کی مزدوری باقی تھی۔ پہلے اسے رکھو۔ گن لو بھیا۔‘‘

    کوئی بڑی رقم نہیں تھی۔ میں نے اٹھا کر گن لی۔ لالہ نے مجھے رکے رہنے کا اشارہ کر کے رومال میں بندھی ہوئی ایک اور رقم صندوقچے میں سے نکال کر میری طرف بڑھائی۔

    ’’نہیں لالہ۔‘‘ میں نے اٹھتے ہوئے کہا، ’’پیسے میرے پاس ہیں۔‘‘

    ’’تمہارے ہی پیسے ہیں بھیا۔ کوئی ہم اپنی طرف سے دے رہے ہیں؟‘‘ لالہ نے کہا، ’’وہ ہمارے پاس تمہارے نام سے جمع کراتی تھیں۔ گھر پر تو بچتا بچاتا نہیں تھا۔ مزدوری ہی میں کچھ پیسے کٹوا لیتی تھیں۔‘‘ میں نے رومال کی طرف دیکھا، پھر لالہ کی طرف۔

    ’’لیکن لالہ، یہ زیادہ معلوم ہو رہے ہیں۔‘‘

    ’’تھوڑا تھوڑا بہت ہو جاتا ہے، بھیا۔‘‘ لالہ نے کہا، ’’اچھا اب دھیرج سے سنو ہم کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے رومال کی طرف اشارہ کیا، ’’کچھ دن غم غلط کرو۔ جب یہ تھوڑے پڑنے لگیں تو ہمارے پاس آجانا۔ ہم کام دیں گے۔‘‘

    ’’لالہ مجھے کام نہیں آتا۔‘‘ میں نے کہا، ’’اماں نے سکھایا ہی نہیں۔‘‘

    ’’ہم سکھلوا دیں گے۔‘‘ لالہ بولے، ’’نہیں توکچھ اور کام نکالیں گے۔ اب تمہیں کچھ تو کرنا ہی کرنا ہے۔ بھروسے کا آدمی ہمیں بھی چاہئے ہوتا ہے۔‘‘ پھروہ خیالوں میں کھو گئے۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اٹھوں یا بیٹھا رہوں۔ اتنے میں لالہ نے بولنا شروع کر دیا،

    ’’تماشا رہتا تھا۔ کبھی ہم کہیں بہن صاحب، بیٹے کو کام سے لگوا دیجئے، کب تک آوارہ گردش کرےگا۔ کبھی وہ کہیں لالہ ہمارے بیٹے کو کہیں کام سے لگواؤ، کب تک بےکار گھومےگا۔ ہم جو کام تجویز کرتے انہیں چھوٹا معلوم ہوتا۔ ہم کہتے چھوٹے ہی کام سے آدمی بڑا ہوتا ہے۔ ہم خود کاندھے پرگٹھر لادے، ہاتھ میں گز لیے کتنے دن گلیاں ناپتے پھرے ہیں۔ آواز لگاتے لگاتے گلا پڑ گیا تھا۔ وہ کہیں لالہ، تم ٹھیک کہتے ہو، لیکن لڑکے کو اس کا باپ ولایت بھیج رہا تھا، اب وہ گلیوں میں پھیری لگائے گا تو مرنے والا قبر میں چین سے سو پائےگا؟‘‘

    دیر تک لالہ ایسی ہی گفتگو دہراتے رہے۔ انہیں شاید زیادہ بولنے کی عادت ہو گئی تھی۔ آخر وہ تھک سے گئے اور میں اٹھ کھڑا ہوا۔ انہوں نے رومال اٹھا کر مجھ کو دیا، کچھ اور قریب بلا کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا، پھر میرے کرتے کی کڑھائی پر ہاتھ پھیرا، ’’اب دیکھنے کو نہیں ملےگا یہ کام۔‘‘ انہوں نے کہا اوران کی گردن ادب سے جھک گئی اور دیر تک جھکی رہی۔ میں جانے کے لئے مڑنے لگا تو انہوں نے سر اٹھا کر کہا، ’’اچھا بھیا، جاؤ، غم غلط کرو۔‘‘ لالہ کے یہاں سے آنے کے بعد میں ابا کے ساتھ اماں کی قبر پر بھی جمعرات جمعرات شمع جلانے لگا۔ باقی وقتوں میں آوارہ گردیاں کرتا تھا۔ اس وقت غم غلط کرنے کا یہی ایک طریقہ مجھے آتا تھا۔

    ۵

    لالہ کا دیا ہوا رومال یونہی بندھا کا بندھا میں نے پڑوس والی خالہ کے حوالے کر دیا تھا اور تاکید کر دی تھی کہ پیسے ختم ہونے لگیں تو یاد کرکے مجھے بتا دیں۔ ہر چوتھے پانچویں دن میں ان سے پیسوں کو پوچھتا اور وہ یہی بتاتیں کہ ابھی بہت ہیں۔ کھانے کا کچھ حساب بھی بتاتیں اور آخر میں یہ ضرور کہتی تھیں، ’’چیونٹی کے انڈے بھر تو تم کھاتے ہو۔ تمہارا خرچ ہی کیا۔‘‘ اس پرمیں ہنس پڑتا، پھر گھومنے نکل جاتا۔

    ایک جمعرات کو میں چوک سے ہو کر گھر آ رہا تھا۔ بازار بند ہونے کا دن تھا اور وہاں میرے دیکھنے کی کوئی چیز نہیں تھی۔ لیکن آتش بازی کی دکان کے پاس سے گزرتے ہوئے میرے قدم رکنے لگے۔ بند دکان کے پٹرے پر پیر نیچے لٹکائے ہوئے لاڈلے اکیلا بیٹھا تھا۔ میرا خیال تھا وہ مجھے پہچان نہیں سکے گا، اس لئے آگے بڑھا جا رہا تھا، لیکن اس نے مجھ کو دیکھا تو کچھ اس طرح گردن ہلائی کہ مجھے رک جانا پڑا۔ میں نے اسے سلام کیا اور پوچھا، ’’آپ کیسے ہیں؟‘‘

    ’’بس۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ پھر اپنی ٹانگوں کی طرف اشارہ کیا۔ پٹرے کے اوپر بیٹھا ہوا وہ بھاری بھرکم آدمی معلوم ہوتا تھا لیکن کمر کے نیچے اس کی ٹانگیں سوکھی ہوئی لکڑیوں کی طرح لٹک رہی تھی۔ اماں اس کی حالت مجھے بتا چکی تھیں۔ لیکن پھر بھی اس وقت اس کو دیکھنا ایک تکلیف دہ کام معلوم ہو رہا تھا۔ میری سمجھ میں نہ آیا اس سے کیا کہوں، اس لئے خاموش کھڑا اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ وہ پٹرے کے سہارے کھڑی ہوئی اپنی موٹی سی لاٹھی کو گھور رہا تھا۔

    ’’بہن کا معلوم ہو گیا تھا۔‘‘ کچھ دیربعد اس نے کہا، ’’بہت جی چاہتا تھا ان کو قبر تک تو پہنچا آؤں۔‘‘

    ’’نہیں، ایسی حالت میں آپ کہاں جاتے۔‘‘

    ’’ان کے ہم پر بڑے احسان تھے۔‘‘ اس نے کہا، پھر اچانک وہ سوال کر دیا، ’’میاں، اب آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘

    اب پوچھ رہے ہو، لاڈلے؟ میں نے دل میں کہا اور صفائی کے ساتھ جھوٹ بول دیا، ’’لالہ کے یہاں کام کر رہا ہوں۔‘‘ میں نے یہاں تک سوچ لیا تھا کہ اگر وہ پوچھےگا تو اسے یہ بھی بتا دوں گا کہ کیا کام کر رہا ہوں۔ مگر اس نے پوچھا، ’’گھر میں آٖپ کیا کرتے ہیں؟‘‘

    ’’گھبراتا ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا، ’’اسی لئے دن بھرادھر ادھر گھومتا رہتا ہوں۔‘‘

    ’’ہاں، کچھ توجی بہل جاتا ہوگا۔‘‘ اس نے کہا اور یہ نہیں پوچھا کہ اگر دن بھر گھومتا ہوں تو لالہ کے یہاں کس وقت کام کرتا ہوں۔

    ’’آپ کیسے ہیں؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔

    ’’ہم تو ویسے ہی ہیں، لیکن بٹیا چلی گئیں۔‘‘ اس نے کہا اور گردن جھکا لی۔ اس کی بات فورا ًمیری سمجھ میں نہیں آسکی لیکن میرے کچھ پوچھنے سے پہلے اس نے خود ہی بتا دیا، ’’یرقان ہو گیا تھا۔‘‘ میں اس کے پاس دکان کے پٹرے پر بیٹھ گیا۔

    ’’یہ کب؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’مجھے خبر ہی نہیں ہوئی۔‘‘

    ‘’کون خبر کرتا۔‘‘ اس نے کہا اور چپ ہو گیا۔ میں اس سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیاپ وچھوں، اس لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ کچھ دیر اس کے پاس بیٹھوں، پھر رخصت ہو جاؤں۔ اس نے مجھے اٹھتے دیکھا، کچھ کہنا چاہا، پھر رک گیا، پھر کچھ کہنا چاہا، پھر رک گیا۔ میں بھی جاتے جاتے رک گیا۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ وہ کچھ دیر تک ناخن سے اپنی لاٹھی کی موٹھ کریدتا رہا، پھرجھجھکتے جھجھکتے بولا، ’’میاں ہماری کچھ مدد کر دیجئےگا؟‘‘

    یہ تو ہونا ہی تھا لاڈلے، میں نے دل میں کہا، لیکن اس وقت میری جیب خالی تھی، اس لئے میں بھی جھجھکتے جھجکھتے بولا، ’’ہاں، بتائیے۔‘‘

    ’’ہمارا کچھ سامان ہے، اپنے یہاں رکھ لیں گے؟ بس ایک چھوٹا بکسا ہے۔ جگہ نہیں گھیرےگا۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ پٹرے پر سے پھسل پڑا۔ میں اسے سنبھالنے کے لئے لپکا، لیکن وہ اپنی دونوں کہنیاں پٹرے پر ٹکائے ہوئے تھا۔ اسی طرح کنہیاں ٹیکے ٹیکے اس نے ہاتھوں سے لاٹھی پکڑ لی اور بہت دھیرے دھیرے جھکتا ہوا زمین پر اکڑوں بیٹھ گیا۔ مہندی سے رنگا ہوا سر سوکھے ہوئے گھٹنوں سے کچھ اوپر اٹھا کر اس نے اکڑوں بیٹھے بیٹھے آگے سرکنا شروع کیا۔ میں اس کے پیچھے کھڑا ہوا تھا اور دیکھ رہا تھا کہ اس کا سر اور کندھے بار بار داہنی طرف اور بائیں طرف جھکتے ہیں، جیسے کوئی شرابی نشے میں جھوم رہا ہو۔ اس کواس طرح چلتے دیکھنا اسے پٹرے پر بیٹھے دیکھنے سے بھی زیادہ تکلیف دہ کام تھا۔ یہ شاید اسے بھی معلوم تھا، اس لئے کہ گلی کے دہانے میں داخل ہوکر وہ رکا اور میری طرف گردن موڑ کر بولا، ’’آپ بڑھیے، ہم پہنچ رہے ہیں۔‘‘

    یہ مجھے غنیمت معلوم ہوا اور میں تیز قدموں سے چلتا ہوا پیپل والے مکان کے دروازے پر جاکر ٹھہر گیا۔ دیرکے بعد وہ آتا دکھائی دیا۔ مجھ تک پہنچتے پہنچتے اس کی سانس پھول گئی تھی۔ کچھ دیر تک وہ دہلیز پر بیٹھا رہا، پھر بولا، ’’آپ کو بڑی تکلیف ہوئی میاں۔‘‘

    مکان کا دروازہ بھڑا ہوا تھا۔ اس نے ایک پٹ کو اپنے کندھے سے ٹھیلا۔ دروازہ ہلکے سے چرچرایا اور کھل گیا۔ اس نے لاٹھی ایک طرف رکھی، دونوں ہاتھوں سے اپنی سوکھی ہوئی ٹانگوں کو پکڑ کر اٹھایا اور دہلیز پر رکھ دیا جیسے وہ اس کی نہیں، کسی اورکی ٹانگیں ہوں۔ اور مجھے واقعی ایسا معلوم ہوا کہ وہ دونوں ٹانگیں لاٹھی کے ساتھ دہلیز پر پڑی چھوڑ کر ابھی اٹھ کھڑا ہوگا۔ لیکن اس نے لاٹھی پکڑی اور اسی طرح بیٹھے بیٹھے چلتا ہوا ڈیوڑھی میں داخل ہو گیا۔ اس نے مڑ کر مجھے دیکھا اور کہا، ’’چلے آئیے میاں، زیادہ دیر نہیں بٹھاؤں گا۔‘‘ میں نے اس گھر میں حسنی کو نہیں دیکھا تھا، پھر بھی وہاں مجھے اس کی کمی محسوس ہوئی۔ دالان میں بچھی ہوئی چوکی اس چوکی سے ملتی ہوئی تھی جس پر بیٹھ کر اماں کا م کرتی تھیں۔ لاڈلے اس چوکی پر ایک ہاتھ رکھے زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔

    ’’آپ کو بہت زحمت دے رہا ہوں میاں۔‘‘ اس نے کہا اور دالان کے کونے میں رکھے ہوئے لکڑی کے بڑے صندوق کی طرف سرکنا شروع کیا۔ صندوق کے پاس پہنچ کر اس نے ڈھکنے پر ہاتھ رکھا اور میری طرف دیکھا۔ ڈھکنا اس کے کندھے سے کچھ اونچائی پرتھا۔ میں نے پوچھا، ’’اسے کھولنا ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔ دیکھیے کوشش کرتا ہوں۔‘‘ لیکن پورے قدسے کھڑے ہوئے بغیر اس بھاری ڈھکنے کو اٹھانا ممکن نہیں تھا۔ اس لئے میں نے بڑھ کر صندوق کھول دیا۔

    ’’دیکھئے، داہنے ہاتھ پرشیشیاں رکھی ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔ میں نے صندوق میں جھانکا اور بادشاہی منجن کی چھوٹی بڑی شیشیوں کو فوراً پہچان لیا۔

    ’’ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’نکالوں؟‘‘

    ’’آپ سلامت رہیے۔‘‘

    صندوق میں اور بھی بہت سامان تھا۔ ایک طرف تام چینی کا ایک تسلہ تھا جس میں سیاہی مائل لکڑی کے ترشے ہوئے بھدے بھدے سانپ، بچھو اور گرگٹ کی شکل کے جانور تھے۔ ایک طرف لمبے پھلوں والے چاقو، زنجیریں، ہانڈیاں وغیرہ تھیں۔ اس طرح کا سامان میں نے نخاس کے بازار میں جادو دکھانے والوں کے پاس دیکھا تھا۔ اس سامان کو دیکھ کر مجھے یہ بھی یاد آ گیا کہ اسی بازار میں ایک شخص طلسماتی تیل فروخت کرتا تھا۔ وہ بھی تام چینی کے تسلے میں اسی طرح کے سانپ بچھو وغیرہ رکھتا تھا جو طلسماتی تیل میں تربتر ہوتے تھے۔ البتہ میں اور دوسرے لوگ انہیں اصلی سمجھتے اور خیال کرتے تھے کہ طلسماتی تیل انہیں خطرناک کیڑوں مکوڑوں میں سے نکالا گیا ہے۔ تیل فروخت کرنے والا بھی یہی دعوی کرتا تھا۔

    میں نے بادشاہی منجن کی سب شیشیاں باہر نکال کر لاڈلے کے آگے رکھ دیں۔ ایک ادھ کھلی گٹھری میں جڑی بوٹیوں والی تھیلیاں بھی تھیں۔ میں نے گٹھری کو سنبھال کر باہر نکالا اور شیشیوں کے پاس رکھ دیا۔ لاڈلے نے کچھ حیرت سے میری طرف دیکھا، پھر ’’جیتے رہیے‘‘ کہہ کر گٹھری کھولی، دو تین تھیلیوں کو نکال کر ان کی جڑی بوٹیوں پر لگی ہوئی پھپھوندی کو دیکھا، مایوسی سے سر ہلایا اور تھیلیاں واپس رکھ کر گٹھری مضبوطی کے ساتھ باندھ دی۔ میں نے گٹھری کو اٹھا کر صندوق میں رکھا تومجھے ایک کٹوری میں تانبے کے سکے بھی نظر آئے جن میں سے کچھ کوٹیڑھا کر دیا گیا تھا۔ میں نے سکے نکال کر لاڈلے کو دیے۔ اس نے ایک ٹیڑھا اور ایک سیدھا سکہ اپنی ہتھیلی پر رکھا، کچھ دیر سوچتا رہا، پھر ہتھیلی میری طرف بڑھا کر بولا، ’’رکھ ریجئے میاں، ان کا بھی کام نہیں ہے۔‘‘

    صندوق بند کر کے میں اس کی طرف مڑا۔ اس نے شیشیوں کو تیزی کے ساتھ گنا، پھر مجھ سے بولا، ’’آج آپ کو بہت پریشان کیا۔‘‘

    ’’نہیں، ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے کہا اور پوچھا، ’’بس یہی شیشیاں رکھوانا ہیں؟ اور ان کا بکس؟‘‘

    ’’ان کا بکسا وہ اوپر رکھا ہے۔ ہم کسی سے اتروالیں گے۔‘‘ اس نے کہا اور صندوق کی پشت والی دیوار کی طرف اشارہ کیا۔ صندوق سے کئی ہاتھ اوپر ایک مچان پر رکھے ہوئے پتلے سے بکس کو بھی میں نے بادشاہی منجن کی شیشیوں کی طرح فورا ًپہچان لیا۔

    ’’میں اتارے لیتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔ بیچ میں صندوق حائل تھا، اس لئے مجھے بکس تک دونوں ہاتھ پہنچانے میں دقت ہوئی۔ میں نے ایک ہاتھ سے بکس کو کھینچا، دوسرا ہاتھ نیچے لگا کر اسے اتارا اور لاڈلے کے سامنے رکھ دیا۔ لاڈلے نے اس کو ہاتھ سے پونچھ کر اس کا ڈھکنا ہٹایا۔ اندر کپڑے کی کترنیں سی بھری ہوئی تھیں۔ لاڈلے انہیں کچھ دیر تک خاموشی سے دیکھتا رہا۔ پھران کو نکال کر صندوق کے ڈھکنے پر رکھنے لگا، یہاں تک کہ بکس خالی ہو گیا۔ اب وہ بکس میں ایک ایک کر کے منجن کی شیشیاں رکھ رہا تھا۔ میں نے ایک نظر کترنوں کو دیکھا۔ ان میں سے قریب قریب ہر ایک پر چکن کی کڑھائی تھی۔ میں نے ایک کترن کو اٹھا کر دیکھا۔ سب سے اوپر سفید دھاگے سے ایک نازک سا بوٹا بڑی صفائی کے ساتھ کاڑھا گیا تھا۔ اس کے نیچے کسی اناڑی ہاتھ نے اسی وضع کے آٹھ دس بوٹے کاڑھنے کی کوشش کی تھی۔

    میں نے باری باری کئی کترنوں کو اٹھا کر دیکھا۔ ان پرچکن کی مختلف کڑھائیوں کے نمونے تھے۔ ہرکترن پرسب سے اوپر کسی منجھے ہوئے ہاتھ کا نمونہ اوراس کے نیچے اس کی کچی پکی نقلیں تھیں۔ میں چپ چاپ ان نمونوں کو دیکھتا رہا، پھر مجھے لاڈلے کی موجودگی کا احساس ہوا۔ وہ بکس میں شیشیاں رکھ کر اس کا ڈھکنا بند کر چکا تھا اور اب معلوم نہیں کتنی دیر سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے ایک ہاتھ اوپر اٹھاکر کترنوں کو ٹٹولا، پھر صندوق کے ڈھکنے کو تھپتھپا کر بولا، ’’اب انہیں اسی میں رکھے دیتے ہیں۔‘‘ اور اسی طرح بیٹھے بیٹھے ایک ہاتھ سے زور لگاکر اس نے صندوق کا ڈھکنا تھوڑا اوپر اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے کترنوں کو اٹھانے کی کوشش کی۔

    ’’آپ رہنے دیجئے۔‘‘ میں نے کہا اور ڈھکنے کو تھوڑا اور اوپر اٹھا کر سب کترنیں صندوق کے اس گوشے میں رکھ دیں جوشیشیوں کے ہٹ جانے سے خالی ہوا تھا۔ پھر میں لاڈلے کی طرف مڑا۔ وہ زمین پر کہنیاں ٹیکے، آگے کو پھیلی ہوئی خشک ٹانگوں کے پیچھے کچھ بیٹھا، کچھ لیٹا ہوا تھا اور نیند میں معلوم ہوتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’اور تو کوئی کام نہیں ہے؟‘‘ اس نے بکس کی طرف دیکھا اور بولا، ’’آپ کے گھر سے نخاس قریب پڑتا ہے۔ ہم اتوار اتوار اسے آپ کے یہاں سے اٹھا لیا کریں گے، شام کو پھر رکھ دیں گے۔ لیکن اگرآپ کو تکلیف ہو۔۔۔‘‘

    ’’مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔‘‘

    ’’تو آج شام تک ہم بکسا آپ کے یہاں پہنچا دیں گے۔‘‘

    ’’آپ کہاں تکلیف کریں گے۔‘‘ میں نے کہا، ’’میں اسے لیے جاتا ہوں۔‘‘

    ’’نہیں میاں، ہمارا بوجھ آپ کیوں ڈھویئے۔‘‘

    ’’اس کا وزن ہی کتنا ہے۔‘‘ میں نے بکس اٹھاتے ہوئے کہا، ’’مجھے پتا بھی نہیں چلےگا۔‘‘

    ’’بہت برا لگ رہا ہے، میاں۔‘‘

    ’’اس میں برا لگنے کی کون سی بات ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’اچھا اور تو کوئی کام نہیں ہے؟‘‘

    ’’آج آپ کو ہم نے کتنا ہلکان کیا۔‘‘ اس نے کہا، آگے پھیلی ہوئی ٹانگوں کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹا اور لاٹھی کا سہارا لے کر بیٹھ گیا۔

    ’’اچھا۔‘‘ میں نے صحن کی طرف مڑتے ہوئے کہا، ’’اتوار کو میں گھر ہی پر رہوں گا۔‘‘

    ’’ٹھہریے میاں، ہم بھی آ رہے ہیں۔‘‘

    میں رک گیا۔

    ’’کہاں جانا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’آپ کو دروازے تک پہنچا دیں۔‘‘

    ’’نہیں، آپ یہیں رہیے۔ میں چلا جاؤں گا۔‘‘ باہرنکل کر مجھے خیال آیا کہ میں نے اسے بیٹی کا پرسا نہیں دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ اس نے خود ہی مجھ کو پر سے کا موقع نہیں دیا، اس لئے میں واپس نہیں ہوا۔ گھر پر اماں کی چوکی کے نیچے اس کا بکس رکھ کرمیں سیدھا لالہ کی دکان پرپہنچا لیکن جمعرات کی وجہ سے دکان بند تھی۔ گھر واپس آیا اور اس کے بعد صرف قبرستان جانے کے لئے نکلا۔ دوسرے دن جا کر میں نے لالہ کو بتایا کہ میرا غم غلط ہو گیا ہے۔ لالہ نے اسی دن سے مجھ کو رکھ لیا۔ میں نے کام کو پوچھا تو کہا بعد میں بتائیں گے۔

    اتوارکو وہ نہیں آیا۔ اس کے بعد والے اتوار کو بھی نہیں آیا۔ میں نے دن بھر اس کا راستہ دیکھا۔ شام کو میں اس کے مکان پر پہنچا۔ دروازے کے نیچے والی کنڈی میں قفل پڑا ہوا تھا۔ میں نے اس کے پڑوس والوں سے پوچھا تو معلوم ہوا پچھلے اتوار کو صبح کے وقت وہ گھر سے نکلتے دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد سے واپس نہیں آیا ہے۔ اس کے بارے میں ادھر ادھر کچھ پوچھ گچھ کی گئی تھی لیکن کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اسے کہاں ڈھونڈھا جائے۔ اس کو تلاش کرنے کی بہت کوشش بھی نہیں کی گئی، اس لئے کہ زیادہ تر پڑوسیوں کو قریب قریب یقین تھا کہ وہ کسی دوسرے شہر چلا گیا ہے اور وہاں بھیک مانگ رہا ہوگا۔

    مأخذ:

    گنجفہ (Pg. 5)

    • مصنف: نیر مسعود
      • ناشر: تمثال مسعود
      • سن اشاعت: 2009

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے