Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گیس چیمبر

مستنصر حسین تارڑ

گیس چیمبر

مستنصر حسین تارڑ

MORE BYمستنصر حسین تارڑ

    کہانی کی کہانی

    کرفیو کے دوران پیدا ہونے والے بچے کی موت و زیست کی کشمکش کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک نوزائدہ جس کو زندگی کے لئے صرف ہوا، دودھ اور نیند کی ضرورت ہے، وہ کرفیو کی وجہ سے ان تینوں چیزوں سے محروم ہے۔ آنسو گیس کی وجہ سے وہ آنکھیں نہیں کھول پا رہا ہے، کرفیو کی وجہ سے دودھ والا نہیں آ رہا ہے اور وہ ڈبے کے دودھ پر گذارہ کر رہا ہے، دھماکوں کے شور کی وجہ سے وہ سو نہیں پا رہا ہے اور آلودگی کی وجہ سے اس کو صاف ستھری ہوا میسر نہیں، گویا یہ دنیا اس کے لئے ایک گیس چیمبر بن گئی ہے۔

    مجھے زندہ رہنے کے لیے تین چیزیں درکار ہیں۔ ہوا، دودھ اور نیند۔ جب وہ مجھے ہسپتال سے لائے تو ابھی میری آنکھیں بند تھیں۔ پپوٹوں سے پرے مناظر پھیلے ہوں گے جو میں پہلی مرتبہ دیکھوں گا۔ مناظر ہونے چاہئیں۔ اگر نہ ہوئے تو میری کھوپڑی میں ان دوچھیدوں کی کیا ضرورت تھی؟

    سنا ہے یہ منظر، یہ شبیہیں خوبصورت ہیں مگر مجھے تو پچھلے دس روز سے یہ دکھائی نہیں دیے۔ صرف ایک آبی پردہ ہے میرے اور ان کے درمیان۔ اس آبی پردے اور ایک متواتر جلن کے پیچھے کچھ چیزیں حرکت کرتی ہیں۔ جاندار اور بےجان۔ گھٹیا آئینے میں ڈوبتے، ابھرتے، غیرواضح عکس۔ منظر کبھی صاف نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے اس دنیا میں منظر ہمیشہ ایسے ہی ہوتے ہوں۔ بقیہ جسم کی طرح میرے پپوٹے بھی کچا آٹا ہیں، نرم نرم گودا۔ بچے کا جسم کیا ہوتا ہے؟ کچے گوشت اور حیات آور پانیوں کا گندھا ہوا مرکب۔ آہستہ آہستہ غیر ضروری پانی خشک ہوتا ہے تو گوشت سخت ہو کر جڑیں پکڑنے لگتا ہے، مگر ابھی نہیں۔۔۔

    میں جب سے یہاں آیا ہوں میرے پپوٹے جلن کی سلائی مشین کے نیچے آئے ہوئے ہیں۔ انہیں جلن ڈستی رہتی ہے، جلن کی سوئی ان پر کشیدہ کاری کرتی رہتی ہے۔ جلن کے ہاتھ نقش و نگار کریدتے رہتے ہیں۔ نقوش کے یہ چبھتے نیزے پپوٹوں کے گدوں کو چھید کرمیری آنکھوں میں دھنس جاتے ہیں اور ان میں سے پانی رسنے لگتا ہے۔ پانی، آنسو، اشک، ٹیئر۔ مگر میں تو ان پپوٹوں کو کھول کر ان کے سامنے بکھرے مناظر کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ شبیہوں سے دوستی کرنا چاہتا ہوں اور یہ کھلنے سے انکاری ہیں۔ کہیں میں اندھا تو نہیں ہوں؟ یہ بات بھی میں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا، جن آنکھوں کے سامنے پردے پڑے رہیں، کسی شے نے حرکت نہ کی ہو، وہ اندھی تو نہ ہوئیں۔ ہاں حرکت دیکھنے کے بعد ہو جائیں تو!

    بہرحال ایک روز میں نے ہمت کر کے جلن کی یلغار کے باوجود پپوٹے اٹھا دیے۔ ایک آبی پردے کے پیچھے چند شبیہیں حرکت میں تھیں، مگر وہ خوبصورت مناظر کہاں تھے جن کے لیے مجھے اس دنیا میں بھیجا گیا تھا؟ میں ان غیر واضح شبیہوں کے لیے بھی زیادہ دیر تک پپوٹے نہ کھول سکا کہ ہوا میں شامل گیس کی کاٹ میری آنکھوں کو یوں چھید رہی تھی جیسے ایک اناڑی جراح گہرا زخم کھودتا ہے۔ اس لیے میں اب اپنی آنکھیں بند ہی رکھتا ہوں۔ کبھی کبھار کھولتا ہوں۔ میرے گرد کی ہوا میں گیس ہے۔

    ماں کے پیٹ میں بھی میں سانس لینے کے عمل سے ناواقف تھا، اگرچہ لیتا تھا مگر ناواقف تھا کہ یہ اس نرماہٹ سے میرے بدن میں چلتا تھا جیسے اونچے درختوں کی چوٹیوں کو ہوا چھوتی جاتی ہے مگر تنے کو خبر تک نہیں ہوتی۔ میں بدن کے تنے میں کروٹیں بدل کر باہر آنے کی خواہش کا اظہار کرتا تھا اور جب باہر آنے کے بعد پہلی مرتبہ میں نے منہ کھولا، پھیپھڑے بھینچ کر ہوا کو اندر کھینچا تو ہوا کے ساتھ ساتھ دہکتے ہوئے ذرے بھی مجھ میں داخل ہو گئے۔ اب میں اذیت سے بچاؤ کی خاطر صرف اس وقت سانس لیتا ہوں جب میرا منہ کتا پھول کی طرح خود بخود کھل جاتا ہے اور جونہی سانس لینے کی نالی پر گیس کے آرے چلتے ہیں، پھر بند ہو جاتا ہے۔ میں دن رات سانس لینے کا جتن کرتا ہوں۔ میرے گرد تازہ ہوا کیوں نہیں؟

    گلیوں، بازاروں، چوراہوں میں اشک آور گیس چھوڑنے کا مقصد جانے کیا ہے؟ شاید وہ اس دنیا میں آنے والی ہر نئی زندگی، ہر نئے خیال کا دم گھونٹ دینا چاہتے ہیں۔ اس کے سفید دھوئیں میں لپٹا کر دفن کر دینا چاہتے ہیں۔۔۔ کہیں میں دنیا کی بجائے کسی گیس چمبر میں تو پیدا نہیں ہو گیا۔ ایک ایسا گیس چمبر جو کہ میرے گرد، میری آنکھوں سے ناآشنا پورے معاشرے پر محیط ہے، جہاں میری طرح سب لوگ رک رک کر زہر نگلتے سانس لیتے ہیں۔

    دودھ والا بھی کئی روز سے نہیں آیا۔ باہر کرفیو ہے۔ میری ماں کی چھاتیوں میں دودھ خشک ہو چکا ہے مگر گوالوں کی بھینسوں کے تھن اس سے بھرے ہوئے ہیں۔ لیکن دودھ والا تو کئی روز سے نہیں آیا۔ وہ مجھے ڈبے کا دودھ پلاتے ہیں جسے میں پپول پپول کر پیتا رہتا ہوں اور میرے اندر کائی جمتی چلی جاتی ہے۔ میرے گرد ہوا میں گیس ہے۔ دودھ والا کئی روز سے نہیں آیا اور نیند؟

    پہلے پہل میں خفیف سی انسانی آواز سن کر بھی چونک جاتا۔ میرے سرہانے کوئی بلند آواز سے بات کرتا تو میرا جسم یکدم تھرتھرانے لگتا اور میں خوفزدہ ہو کر بازو اور ٹانگیں ہوا میں معلق کر دیتا (اگرچہ اب تو میری خواہش ہے کہ انسانی منہ سے نکلے ہوئے تیز الفاظ بےشک میرے کانوں کے پردے چیر ڈالیں لیکن انسانی ہاتھوں کے تخلیق کردہ دھماکے، وہ میں نہیں چاہتا۔) تو میں کہہ رہا تھا کہ پہلے میں انسانی آوازوں سے بھی کانپ کانپ جاتا تھا مگر اب ان کے ہمراہ میرے نرول جثے کو جھنجھوڑ دینے والی، کاٹ دینے والی، ریزہ ریزہ کر دینے والی آوازیں بھی شامل ہیں۔ کچھ رک رک کر چلتی ہیں مگر ایک تسلسل کے ساتھ۔۔۔ ٹک ٹک، ٹک ٹکاٹک۔۔۔ اور کچھ ایک ہی مرتبہ دھم سے پھٹ پڑتی ہیں۔ کیا وہ انگلی جو لبلبی پر جمی ہے نہیں جانتی کہ بچے کے سرہانے شور نہیں کرنا چاہیے؟

    یہ شور انہیں بھی خوفزدہ کرتا ہے جو میرے سرہانے کھڑے ہوتے ہیں کہ اسے پیدا کرنے والے انہی کے بھائی بند ہیں جو گلیوں، چوراہوں اور بازاروں میں یوں گھومتے ہیں جیسے کسی مفتوحہ علاقے میں گشت کر رہے ہوں۔ ہو سکتا ہے وہ بھی مجبور ہوں، ہو سکتا ہے نہ بھی ہوں۔ یہ توصرف انہیں معلوم ہے کہ وہ ہیں یا نہیں۔ جن سڑکوں پر بچوں کی گیندیں لڑھکتی تھیں وہاں خاردار تار کے گولے حرکت کرتے ہیں، ٹیئر گیس کے گولے پھٹتے ہیں۔ میں اپنے ارد گرد ہونے والی باتیں سمجھتا ہوں۔ چہروں کی پہچان رکھتا ہوں، اگرچہ وہ نہیں جانتے۔

    میرے سرہانے کھڑے لوگ اب تک سنگل فائر سٹین گن کے ریپڈ فائر، شادی والے گولے سے دھماکے اور ٹیئرگیس شیل کے پھٹنے کی آوازوں کا بھید پا چکے ہیں، سنگل فائر! ٹین کی چھت۔ ریپڈ فائر! مکئی کے دانے بھٹی میں پٹاخ پٹاخ اچھل رہے ہیں۔ شادی کا گولا! کانوں کے پردوں تک پہنچتے پہنچتے یک دم ٹھنڈا ہوکر ٹھس ہو جانے والا دھماکہ اور ٹیرگیس شیل، سفید دھواں چھوڑتی تیرتی ہوئی شرلی۔ مگر مجھے ان میں سے کسی دھماکے کی بھی پہچان نہیں ہو سکی۔ میرے لیے تمام دھماکے کی بھی پہچان نہیں ہو سکی۔ میرے لیے تمام دھماکے ایک سے ہیں۔ مجھے سونے نہیں دیتے!

    اکثر اوقات جب شور کے جبڑے مجھے بےرحمی سے چبانے لگتے ہیں۔ چہرہ اور حلق کیس کی سولوں سے چھلنی ہو رہا ہوتا ہے۔ پیٹ میں تہ درتہ جما پاؤڈر چٹکیاں لیتا ہے تو میں احتجاج کرنے کے لیے بازو اور ٹانگیں زور زور سے چلانے لگتا ہوں مگر وہ سمجھتے ہیں کہ میں کھیل رہا ہوں اور خوش ہوتے ہیں۔ مجھے تو احتجاج کا یہی طریقہ آتا ہے میں ابھی اس طریقے سے واقف نہیں ہوا جو باہر سڑکوں پر جاری ہے۔

    وہ ساتھ والے کمرے میں چیختے ٹیلی ویژن پر احکام سنتے رہتے ہیں۔ کرفیو میں نرمی کے اوقات تخریب کی صورت میں پورے محلے کے لیے سزا۔۔۔ کرفیو کھلتا ہے تو وہ سب بھیڑ بکریوں کی طرح گھر سے باہر نکل جاتے ہیں، تازہ ہوا میں سانس لینےکی خاطر۔ جیسے قیدی قید سے چھوٹ جائے، ضمانت پر رہا ہو جائے۔ مگر مجھے فراموش کر دیتے ہیں۔ ساتھ نہیں لے جاتے اور میں اسی زہر آلود ہوا میں سانس لینے کا چارہ کرتا رہتا ہوں۔ گیس ناقابل برداشت ہو جائے تو وہ گیلے رومال سے اپنی آنکھیں تھپتھپانے لگتے ہیں مگر میری جانب کوئی نہیں دیکھتا۔ میں کئی مرتبہ کھانسا بھی، مجھے اس معاشرے میں جلن سے بچنے کے لیے ایک چھوٹا سا گیلا رومال دے دو!

    کرفیو کے دوران جب وہ تاش کھیل کھیل کر تنگ آ جاتے ہیں تو پھر میرے گرد ہو جاتے ہیں۔ شی شی کرتے ہیں اور میرے لبوں کو بار بار چھوتے ہیں۔ مجھ سے مسکراہٹ مانگتے ہیں۔ میں کیسے مسکراؤں کہ لب کھولنے سے گیس اندر جاتی ہے۔ میرا اندر، جس میں ڈبے کے دودھ کا لیپ دبیز ہوتا چلا جا رہا ہے۔ وہ زبردستی میرے لب کھول دیتے ہیں۔ میں کھانسنے لگتا ہوں۔ درد کی شدت سے میرے لب سکڑتے ہیں اور ہلنے لگتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں میں مسکرا رہا ہوں۔ شاید اس دنیا میں اکثر لوگ اسی طور مسکراتے ہیں۔

    ریڈیو پر اعلان ہوا ہے کہ ٹیئر گیس شیل ختم ہو گئے ہیں۔ شاید اب میں آسانی سے سانس لے سکوں۔ مجھے ابھی تک معلوم نہیں کہ تازہ ہوا کیا ہوتی ہے۔ ہوتی ہوگی۔ جب اس میں سانس لوں گا تب مانوں گا۔ سنی سنائی بات کا کیا اعتبار؟ کیونکہ یہاں پر ہر بات سنائی تو دیتی ہے مگر اصل میں ہوتی نہیں۔ مجھے ابھی تک اپنی صنف کا علم نہیں کہ میرا نام نہیں رکھا گیا۔ وہ کہتے ہیں حالات ٹھیک ہو جائیں گے، پھر رکھیں گے۔

    ہر اس بچے کی طرح جو اس دنیا میں آتا ہے، میں بھی پیدائش کے وقت رو رہا تھا، مگر میری وجوہات قدرے مختلف تھیں۔ نوماہ کے سکون کے بعد میں یکدم دھماکوں کی تاب نہ لا سکا۔ اس لیے شاید اس وقت بھی دھماکے ہو رہے ہوں گے، جب میں ماں کے پیٹ میں پرسکون لیٹا تھا مگر وہاں ان کی آواز مجھ تک نہیں پہنچ پائی۔ ویسے کوئی نہ کوئی ایسا سسٹم ضرور ہونا چاہے کہ جس سے باہر کی صورت حال کا پتہ چلتا رہے۔ حالات مناسب ہوں تو بچہ پیدا ہو جائے ورنہ انکار کر دے، وہیں لیٹا رہے مزے سے۔

    یہ شور کبھی ختم نہ ہوگا؟ ہوا گیس سے بوجھل ہی رہےگی؟ دودھ والا کبھی ادھر نہ آئےگا؟ مجھے یہاں رہنے کا بالکل چاؤ نہیں۔ کاش میں واپس اپنی ماں کے بدن میں جا سکتا، وہاں سکون تھا۔ اب میرا کومل کچا جسم اس طویل اذیت کا جسے زندگی کہتے ہیں متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس میں میرا تو قصور نہیں، صرف ان لوگوں کا ہے جنہوں نے مجھے پیدا کیا اور اس سے پیشتر ہوا کو صاف اور تازہ رکھنے کا جتن نہیں کیا۔ شور کا گلا نہیں گھونٹا۔ میرے لیے دودھ کا انتظام نہیں کیا۔

    مجھے زندہ رہنے کے لیے تین چیزیں درکار ہیں۔ ہوا، دودھ اور نیند۔ اگر یہ اس چار چفیرے میں میسر نہیں تو میں کیا کروں گا یہاں رہ کر۔ شاید بڑے ہونے پر ان تین چیزوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی مگر میں بڑا کیسے ہوں گا؟ اور اگر ہو بھی گیا تو کیا کروں گا بڑا ہوکر کہ نرے گیس کے غبارے دیکھ کر ہی میرا دم گھٹ جائےگا۔ میں اس دودھ کو نہیں پیوں گا جو میرے اندر تہیں بچھا رہا ہے۔ سو میں سکتا نہیں۔ ہاں میں اس ہوا میں ضرور لمبے لمبے سانس لوں گا تاکہ جب وہ واپس آئیں تو انہیں میرے دودھ کی فکر نہ ہو۔ لمبے لمبے سانس!

    ایک سگریٹ ایش ٹرے میں دھرا ہے۔ اس میں سے دھواں پھوٹ رہا ہے۔ سڑک پر پڑے ٹیئر گیس کے گولے میں سے اسی طرح آہستہ آہستہ دھواں اٹھتا ہوگا۔

    مأخذ:

    سیاہ آنکھ میں تصویر (Pg. 155)

    • مصنف: مستنصر حسین تارڑ
      • ناشر: نیاز احمد
      • سن اشاعت: 2003

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے