Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گوری ہو گوری

رفیق حسین

گوری ہو گوری

رفیق حسین

MORE BYرفیق حسین

    کہانی کی کہانی

    یہ انسان اور جانوروں کے درمیان ایک محبت بھرے رشتہ کی کہانی ہے۔ گوری نام کی گائے شور سے اپنی گاؤں لوٹتی ہے اور سیلاب میں پھنسی اپنی مالک کی بیٹی کو بچاتی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے بچھڑے کے پاس جاتی ہے اور گوری کی پیٹھ پر بیٹھی لڑکی بچھڑے کا رسا کھول کر اسے بھی بچا لیتی ہے۔

    چوماسہ کی اندھیاری رات تھی۔ بھیگی بھیگی ٹھنڈی ہوا چلتی تھی۔ جھینگروں نے جھنکار مچارکھی تھی۔ مینڈک بول رہے تھے۔ ٹر، ٹر، ٹر، پیپل کے سوکھے ڈگالے پر الو کہتاتھا۔ ہک ہو۔ ہک ہو۔۔۔

    بسنتی نے کروٹ لی۔ پھر منہ پر تھپڑ مارا۔ بولی، ’’ہائے رے۔ ارے رام کیسے ڈانس لاگیں۔‘‘

    پیپل پر اُلو بولا۔ ہک ہو۔ ہک ہو۔۔۔

    چھ مہینے کا بچہ پاس لیٹا تھا۔ اس پر ہاتھ رکھ لیا اور بسنتی بولی، ’’مری جائے۔ پھر آئے بیٹھا۔ بولت کیسے ناس پیٹا۔‘‘

    ہک ہو، ہک ہو۔۔۔

    ’’اجی اوجی۔ اجی اوجی۔ اٹھو نا۔ گھگو بولے۔ سوہے ڈر لاگے۔‘‘

    مادھو نے اس کا ہاتھ جھٹکا، بولا، ’’سون دے ری، اری نا کھائے لے توہے۔‘‘

    ’’اٹھو جی اٹھو۔ موہے ڈر لاگے۔ تنی اڑائے دے۔ اوانھو۔‘‘

    مادھو ’’ادھ سے تو را ڈر‘‘ کہتا ہوا آنکھیں ملتا ہوا اٹھا۔ کھٹیا سے نیچے پیر لٹکایا۔ جلدی سے پھر اوپر کھینچ لیا۔ گھبرا کر پھر نیچے دیکھا۔ پھر ادھر ادھر دیکھا۔ چھوٹا سا کچا گھر تھا۔ پھوٹی چمنی کی دھوئیں سے کالی لالٹین تھی۔ دھیمی روشنی میں آنگن بھر جھل جھلارہا تھا۔ گھر بھر میں پانی بھرا تھا۔

    مادھو بولا، ’’جوا ہوا رے!‘‘

    بسنتی گھبراکر اٹھی۔ بولی، ’’اجی دیکھت کاہو۔ ہرے رام۔ بھیکا کو جگالو! ارے رمکلیا کو جگالو۔ اری او ر مکلیا۔۔۔ سوئے جات رے۔ ارے اٹھ اٹھ او بھیکا۔‘‘

    آٹھ برس کی دبلی پتلی رمکلیا جاگی۔ چھ برس کا بھیکا جاگا۔ دودھ پیتا پاس لیٹا بچہ جاگا۔ یہ رویا، وہ چلائے، ’’اری مئیا ری‘‘ موہے لیے لے باپورے۔ اری مئیاری۔‘‘

    ’’چی کرو چپ۔‘‘ مادھو نے ڈانٹا۔ خاموشی میں مادھو نے کان لگائے۔ بسنتی دھیان دیا۔ دور کہیں سے آواز آرہی تھی۔ گڑپ شل شل شل۔ گڑپ۔ شل شل شل۔

    گھگو بولا، ہک ہو۔

    ’’بسنتی روتی ہوئی چلائی۔ ارے پریتم بھیا آئی گئی۔ ارے مورے بچے کی جورے۔‘‘

    کھٹولے سے کود۔ پانی میں چھپ چھپاتے بچے ماں سے چمٹے۔ مادھو اٹھا، دیکھنے کو دروازے کی طرف چلا۔ بسنتی روئی، ’’اجی جاوت کہاں ہو جی۔‘‘

    باہر سے آواز آئی، ’’مادھو بھیا ہو۔ او مادھو۔ ارے باڑھ آئی۔ اٹھ رے اٹھ۔‘‘

    شڑپ، گڑپ، شل شل شل۔ پانی کے بہنے کی آواز تیزی سے بڑھ رہی تھی۔

    ’’مم مم۔ میں‘‘ بکری بولی۔ ’’ماں۔ ہاں آں‘‘ کہیں گئیاں چلارہی تھیں۔ بارہ گھر کے گوجر پڑوے میں ہلچل مچ گئی۔ سب جاگ اٹھے۔ سب بھاگنے لگے۔ کوئی پکارتا تھا۔ کوئی چلاتا تھا۔ کوئی روتا تھا۔

    مادھو نے رمکلیا کو کوٹھے کی سیڑھیاں پر کھڑا کردیا۔ بھیکا کو گود میں لیا اور سامان رکھنے اور اٹھانے میں لگ گیا۔ بسنتی نے گود والی لڑکی کو دبائے دبائے چون کی مکی اٹھائی۔ تیرتی ہنڈیا پکڑی۔ مٹکا کترایا ہوا پرے سے نکلا جاتا تھا۔ اسے پیر سے روکا۔ کھٹیا نے سرہلایا۔ پھر وہ بھی گھومی، دری، پچھورا، کھتری سب کچھ اس پر تھا۔ لو وہ بھی چلی۔

    گھر کے باہر آدمی اور جانور چلا رہے تھے۔ گھر کے اندر رمکلیا اور بھیکا رو رہے تھے۔ پانی کا شور اندر اور باہر سب جگہ تھا۔ بسنتی اور مادھو گھر کے سامان میں لگے تھے۔ شور ہوا، ’’بھاگو بھاگو۔ او بسنتی نکل، ارے مادھو بھاگ۔‘‘

    پانی نے ہچکولا لیا۔ پنڈلی سے اچکا۔ رانوں تک آیا۔

    ’’بھاگو بھاگو۔ مادھو بھیا بھاگو رے۔ ارے کاہو ئے گیا۔ نکلت کا ہے ناہیں۔‘‘ باہر سے آوازیں آئیں۔ پانی پھر ہچکولا لیا۔ آگے بڑھا۔ پیچھے ہٹا اور ران سے کمر تک آیا۔

    بسنتی روئی، ’’ارے مورے گڑوے۔ ارے موری ہنسلی تو نکال لے رے۔‘‘

    ’’چل چل تو چل نکل۔ میں لایا۔ ارے نون چون تو لیے لوں۔ اڑہنا پچھورا تو دبائے لوں۔‘‘

    پانی کا شور تھا۔ چار آدمیوں کا چلانا تھا، دروازے پر دھکے تھے۔ وہ کھل گیا۔ آدمی گھر میں آگئے۔ مادھو اور بسنتی کو پکڑ کر گھسیٹا، ’’چالو۔ چالو۔ سب چھوڑدو جان ہی بچائے لو۔ چالو۔ چالو۔‘‘

    اس گڑ بڑمیں، جلدی میں، گھبراہٹ میں، اندھیرے میں دری، پچھورے کپڑوں کے لیے پکارتی، ناچ اور ناج کی کٹھیوں کے لیے پکارتی۔ برتنوں اور زیوروں کے لیے پھڑکتی بسنتی نے یہ بھی کہا، ’’بھیا رے رمکلیا کوکو لؤ لے لے رے۔‘‘ لالٹین ڈوب چکی تھی۔ اندھیرے میں کسی نے جواب دیا، ’’موں اٹھائے لوں۔ توتو چل۔ اری نکس باہرے۔‘‘

    پانی کی شل شل، رات اندھیری۔ بادل کی گرج، بجلی کی چمک، کمر کمر، سینے سینے پانی میں بیس تیس آدمی، پچاس ساٹھ مویشی چلے۔ ہر آدمی بول رہا تھا۔ ہر جانور چلا رہا تھا۔ کوئی گرتا تھا۔ دوسرا سنبھالتا تھا۔ کوئی ڈوبتا تھا۔ دوسرا ا بھارتا تھا، شروع میں توسب جتھا بنائے ایک دوسرے کو سنبھالتے پُڑوے سے باہر چلے۔ آموں کے باغ کے اندر سے ہو کر پون میل کے فاصلے پر دور ریل کی اونچی پٹری کا رخ کیا تھا۔ لیکن جوں جوں آگے بڑھتے گئے اندھیرے میں ایک دوسرے سے الگ ہوتے گئے۔

    مادھو اور بسنتی ایک دوسرے کو پکڑے ہوئے تھے۔ دودھ پیتی لڑکی اور بھیکا ان کے ساتھ تھے۔ رمکلیا کو بھی کسی نے کوٹھے کے زینے پر سے اٹھا لیا تھا ان کو اس کا اطمینان تھا۔ مگر مادھو کو اپنی گائے اور چار بیلوں کی فکر تھی۔ جو کہ گاؤں سے باہر کنوئیں کے پاس بنگلیہ پر اس کے سالے کے ساتھ رہتے تھے۔ بسنتی کو ڈھوروں کی اتنی فکر نہ تھی۔ اب وہ اپنے بھائی کے لیے بیتاب تھی۔ ادھر تو وہ اِکلّا ہی رہتا ہے۔ نہ جانے جاگا کہ ناہیں۔ کا جانے آیا کہ ناہیں۔ مادھو نے گرتی ہوئی جورو کو سنبھالتے ہوئے دہرایا، ’’کوؤ جانے جاگا کہ ناہیں۔ کا جانے بروے کھولے کہ ناہیں۔‘‘

    اندھیری رات تھی۔ ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ پانی کمر اور کمر سے اونچا تھا۔ ساتھی سب بچھڑ کر الگ ہو گئے تھے۔ ادھر ادھر دور اور نزدیک آوازیں ان کی آرہی تھیں۔

    ’’جانکی ہو جانکی‘‘

    ’’آٹے رہوں دادا‘‘

    ’’مرلی رے مرلی‘‘

    ’’بھلارے بھلا۔ چالے چالو‘‘

    مادھو بھی بار بار سالے کو پکارتا تھا، ’’ناگا اور ناگا‘‘ اور جواب نہ آتا تھا۔ اب پانی میں شور کے ساتھ زور بھی بڑھا۔ کسی نے اندھیرے میں پکار کر کہا، ’’لین کے لگے نریا ہے نریا‘‘ کوئی بولا، ’’سنبھلے سنبھلے نکلے چالو‘‘ کسی نے کہا، ’’ڈرتے رہو بھیا ڈٹے رہنا بھیا۔ آگئی لین‘‘

    ایک دفعہ اندھیرے میں ناگا کی آواز آئی، ’’مادھو بھیا ہو۔ کوؤ مادھو بھیا۔ دیکھو؟‘‘ کسی نے جواب دیا، ’’بڑا دکھوئی یا۔ ہاتھ لو تو لوکت ناہیں۔‘‘

    مادھو نے جلدی سے پکار کر جواب دیا، ’’بھلی ہے بھلی۔ آت ہوں۔ بروے لے آیا رے؟‘‘

    ناگا چلایا، ’’بسنتی کتے بولت نا ہیں!‘‘

    ’’ارے ہے رے مورے ساتھ، بروے کتے چھوڑے؟ لے آیا رے؟‘‘

    ’’آئے جاؤ، آئے جاؤ‘‘ آر۔ کے۔ آر کی لائن پاس آگئی تھی۔ ناگا دوگز پانی کے باہر کھڑا تھا۔

    ڈکراتی بھینسیں، چلاتی گائیں، ممیاتی بکریاں، روتے بچے، سہمی عورتیں، پکارتے مرد، سب بھیگے، سب پانی ٹپ ٹپاتے ریل کی پٹری پر چڑھے۔ اندھیری رات میں سونی پٹری آباد ہو گئی۔ لوگوں نے گلے پھاڑ پھاڑ کر پوچھنا شروع کر دیا کہ کون کون آگیا ہے۔ اور کون کون رہ گیا۔ ہر کسی کو کسی نہ کسی کی فکر تھی۔ چھوٹے سے پُروے کی پوری آبادی کی مردم شماری کی گئی۔ آدمیوں اور جانوروں دونوں کی گنتی ہوئی۔ جانور سب موجود تھے۔ آدمیوں میں ایک چمار کا لڑکا اور دو سگے بھائی کرمی کم تھے۔ بچوں میں رمکلیا کم تھی۔

    بسنتی نے رمکلیا کے واسطے اور چمار چمارن نے لڑکے کے واسطے بلک بلک کر رونا شروع کردیا۔ دونوں کرمی بھائیوں کے رشتے داروں کو اطمینان تھا کیونکہ ایک تو دونوں تیراک تھے۔ دوسرے کافی اونچے مکّا کے کھیت میں بہت مضبوط اور اونچے مچان پر وہ سوئے ہوئے تھے۔

    رمکلیا کی ماں تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی۔ سب دلاسہ دیتے تھے۔ ہر کوئی سمجھاتا تھا۔ رو دھو نا، صبر کرو۔ شاید دونوں کرمیوں میں سے ہی کوئی آگیا ہوگا کسی درخت پر ہی لیکر بیٹھ گیا ہو۔ چمار کا لڑکا بھی وہیں تھا۔ اس نے ہی تو کہا تھا گودی لے لے گا۔ وہی اس کو لے کر کسی درخت پر چڑھ گیا ہوگا۔ پر مامتا کی ماری دکھیاری چپ کیسے ہوتی۔ اس کا تو دل ہی ٹوٹا جاتا تھا۔ مادھو بھی چپکا کھڑا روتا تھا۔ ناگا ہچکیاں لیتا تھا۔ اور وہیں پر ان کی گوری گائے کھڑی اتراتی تھی، ’’توکاں آں ھ، توکا ں آں ھ‘‘ یہ بھی دکھ پیٹی ماں ہے۔ ارے کوئی جانے نا جانے۔ بچھڑا اس کا بھی نہیں ملتا ہے۔ دکھیا روتی ہے،‘‘توکاں آں ھ۔‘‘

    روتی ہچکیاں لیتے ہوئی، بسنتی کے پاس بولتی ہوئی گائے آئی۔ بسنتی نے اس کی گردن میں بانہیں ڈال دیں اور روئی۔

    ’’گوری رے۔ موری رمکلیا۔۔۔ ایھ ایھ ایھ ایھ

    گوری رے اب توہے کون چرائے۔۔۔ ایھ ایھ ایھ ایھ

    گوری رے اب توہے کون کھلائے۔۔۔ ادھ ادھ ادھ ادھ

    گوری رمکلیا تو گئی رے۔۔۔ ادھ ادھ ادھ ادھ

    گوری توری رمکلیا۔۔۔ ایھ ایھ ایھ ایھ‘‘

    گائے نے وہی لمبی آواز نکالی، ’’توکا ں آں ھ‘‘

    کوئی جانے نہ جانے دل کی لگی رام جانے۔ گائے نے چلا چلا کر اور بسنتی نے سسکیاں لے کر آخری صبح ہی کردی۔ نکلتے دن کی پہلی روشنی میں سب کی آنکھیں گوجر پروے کی طرف اٹھ گئیں۔ سامنے چھوٹا سا آموں کا باغ تھا۔ اس ہی کے برابر اور کچھ اس کی آڑ میں گوجر پروا آباد تھا۔ لیکن اب وہاں کچھ نہ تھا۔ آموں کے درخت تو تھے۔ مکان بہہ چکے تھے۔ اور اگر کوئی بچا کھچا مکان ہوگا بھی تو درختوں کی آڑ میں ہوگا۔

    سامنے تو باغ ہی باغ تھا۔ جس کے درخت اپنے ہرے ہرے ہاتھ پانی پر پھیلائے مل رہے تھے۔ اور پھر ان کے پار۔ میلوں میلوں جہاں جہاں تک نظر جاتی پانی ہی پانی تھا۔ ریل کی لائن کے قریب ہی جہاں پر چھوٹا نالہ تھا پانی کا تیز دھارا تھا تیزی سے چل رہا تھا۔ لیکن پھر بھی چار نوجوانوں نے ہمت کی لنگوٹی کس پانی میں کود پڑے۔ تیرتے ہوئے آموں کے باغ تک گئے۔ وہاں چمار اور دونوں کرمی بھائی موجود تھے، رمکلیا نہ تھی۔ چمار کو تیرنا نہ آتا تھا اور پھر ڈرتا بہت تھا۔ ان لوگوں نے ایک پٹیلا ڈھونڈھ لیا تھا جو کہ درختوں میں الجھ کر تیرتا ہوا رہ گیا تھا۔ سب نے چمار سے بہت کہا کہ اس پٹیلے پر دونوں ہاتھ کا سہارا لے اور یہ لوگ کھیتے ہوئے اسے لے جائیں مگر اس کی عقل میں ہی نہ آئے۔ ڈر کے مارے مرا جائے پانی میں اترے ہی نہیں۔ بہت سمجھایا خوشامد کی، لیکن راضی نہ ہوا۔ اور جب یہ لوگ اسے درخت پر چھوڑ کر چلنے کو تیار ہوں تو پھر بری طرح سے دھاڑیں ما رمار کر روئے۔

    ایک دفعہ ان میں سے ایک کی سمجھ میں آگیا۔ چمار کے درخت پر چڑھ کر اور اس کی گردن پکڑ، مارے کس کس کے جو ہاتھ تو راضی ہوگیا۔ پٹیلے کے تختے پر دونوں ہاتھ رکھ کر تیرتا ہوا سب کے بیچوں بیچ ساتھ ہو لیا۔ اور سب باری باری پٹیلے کو ڈھکیلتے ہوئے لے چلے۔ رستے میں کسی نے کہا، ’’لے اب بہائے رے۔ سانچی سانچی ناہیں ڈبوئیں دیں توہے اتے ہی۔‘‘ بیچارے نے سب اگل دیا کہ ہاں وہ ڈر کے مارا ان چار آدمیوں کے ساتھ ساتھ تھا جو کہ مادھو اور اس کی بیوی بچوں کو نکالنے گئے تھے اور بسنتی کے چلانے پر اسی نے کہا تھا کہ وہ رمکلیا کو گودی لے لے گا۔ لیکن سب کے سب تو جلدی سے گھر میں سے نکل گئے اور وہ اکیلا جو رہ گیا تو ڈر کے مارے سیڑھیوں کے پاس ہی سے لوٹ آیا، باہر آیا تو وہ لوگ نہ ملے۔ پانی اور بڑھ گیا تھا۔ آخر جب باغ میں پہنچا تو اکیلے چلنے کی ہمت نہ پڑی۔ درخت پر چڑھ گیا۔ یہ سن کر سب نے کہا، ’’ڈبورے دو ایسے پاپی کو۔ کیا کرنا لے جا کر ایسے ڈُشٹ کو۔‘‘

    لیکن ڈبویا نہیں بلکہ ریل کی پٹری پر اتار ہی دیا۔

    وہاں سیوا سمیتی کے سچے خدمت گار۔ کانگریس کے ذرا بڑے اور ذرا مغرور، تھوڑا کام اور بہت باتیں کرنے والے لیڈر، لال صافے والے پولس کے اینٹھتے اکڑتے سپاہی موجود تھے۔ مدد ان کی سب ہی اپنی طرح کررہے تھے۔ تیل، گھی، آٹا، لکڑی، دال، سیوا سمیتی والے لائے تھے۔ امن انتظامات پولیس والوں کی طرف سے تھے۔ چھوٹی چھوٹی چھولداریاں اور مرہم پٹی کا سامان کانگریس والوں کی طرف سے تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہنسی خوشی کھانے پکنے لگے۔ کڑھائیاں چڑھ گئیں۔ پوریاں تلی جانے لگیں۔ دو چار جن کے اندھیرے میں پانی میں گرتے پڑتے چلنے سے چوٹیں آئی تھیں ان کی مرہم پٹی ہوئی لیکن بسنتی کے زخمی دل کی مرہم پٹی کون کرتا۔ مادھو اور ناگا خود ہی پریشان تھے۔ ایک ہمدرد گوری تھی جو رات بھر اس کے ساتھ روئی تھی۔ اب وہ بھی نہ تھی۔ کا جانے بھار بھئے کیے چال گئی۔

    جب تک اندھیرا رہا۔ ہڑپ، گڑپ، گڑاپ کرتے پانی نے رمکلیا کو خوب ہی ڈرایا۔ اور روتے روتے بے دم گز بھر کی لڑکی کا آنے والے دن نے اپنی بھینی بھینی روشنی پھیلا کر دل ہی دہلا دیا۔ ایک دفعہ ہی چونک کر دیکھتی ہے تو نہ مکان ہیں، نہ گاؤں ہے۔ آدھے سے زیادہ کوٹھا بہہ چکا ہے۔ ایک کونے پرخود بیٹھی، دوسرے کونے پر کالا سانپ کنڈلی مارے بل کھایا بیٹھا دوہری زبان نکال رہا ہے۔ سامنے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے۔ جس میں سے اِکّا دکّا پیڑ کہیں کہیں جھانک رہے ہیں۔ پیچھے آم کا باغ آدھا ڈوبا آدھا نکلا طرح طرح کی لہریں اپنے درختوں میں سے نکال رہا ہے۔

    ہراس اور خوف سے رمکلیا چلائی اور پھر چلائی۔ ڈری، سہمی اور چاروں طرف اس نے گھبرا کر دیکھا۔ نہ آدم نہ آدم زاد۔ ایک وہ تھی اور دوسرا کالا ناگ تھا۔ اور پانی ہی پانی تھا۔ جس میں پھرکی ایسے گھومتے کٹورے بنتے تھے اور ہڑپ ہڑپ کر کے غائب ہو جاتے ہیں۔

    رمکلیانے دونوں ہاتھوں سے آنکھیں موند لی تھیں اور ’’اری مئیاری، اومیری مئیا‘‘ کہہ کر بلک رہی تھی کہ اس کے کان میں آواز آئی، ’’تو کاں آں ھ‘‘

    رمکلیا چونکی۔ ہاتھ آنکھوں پر سے ہٹے۔ آنسو بہتے مردہ چہرے پر ہلکی مسکراہٹ آئی۔

    ’’توکاں آں ھ‘‘ آواز پھر آئی۔

    رمکلیا نے ’’ہرے رام گوری بولے‘‘ کہتے ہوئے چاروں طرف دیکھا۔ گائے دکھائی تو دی نہیں لیکن رمکلیا نے اپنی پوری طاقت سے پکارا، ’’گوری ہو گوری‘‘

    جواب آیا، ’’توکاں آں ھ‘‘

    اور پھر باغ میں سے تیرتی ہوئی گائے نکلی۔ رمکلیا نے پھر پکارا وہ اس کی طرف بولتی ہوئی بڑھی۔ لیکن دور سے ایک اور آواز آئی، ’’او ماں آں ھ‘‘

    باغ کی آڑھ سے بچھڑے کی آواز تھی۔ گائے اس آواز کی طرف گھوم پڑی۔ رمکلیا کا ننھا سا دل بیٹھنے لگا۔ وہ رات بھر رونے اور ہچکیاں لینے سے تھک چکی تھی۔ پھر بھی اپنی سکت بھر چلائی،

    ’’گوری ہو گوری۔

    گوری ہو گوری۔

    ارے گوری رے آئے جا۔

    ہائے رے مئیا ناہیں آوت۔

    گوری ہو گوری۔

    گوری مئیاآئے جاری‘‘

    لیکن گوری نے رخ نہ بدلا۔ البتہ دو چار دفعہ سر گھما کر رمکلیا کی طرف دیکھا۔ ارّا کر بولی اور پھر ادھرہی تیرتی چلی گئی جدھر سے بچھڑے کی آواز آرہی تھی۔

    باغ کی آڑ سے نکلتے ہی گائے کو بچھڑا اسی جگہ تیرتا ہوا نظر آگیا۔ جہاں سرشام وہ اس کا بچھڑا اور بیل باندھے گئے تھے۔ اب وہاں نہ کھیت تھا نہ جھونپڑی۔ جگہ وہی تھی لیکن اب سوائے پانی کے کچھ نظر نہ آتا تھا۔ ماں بچے کی آواز کا جواب دیتی تیرتی ہوئی اس کے پاس گئی۔ چاروں طرف گھومی، اسے سونگھا۔ ایک دفعہ اس کی تھوتھنی بھی چاٹ لی اور پھر ایک طرف کو تیرتی چلی۔ مگر بچہ نہ چلا۔ وہیں تیرتا رہا۔ گائے پھر لوٹ آئی۔ چاروں طرف گھومی۔ برابر آکر اپنی کمراور پیٹ سے اسے ڈھکیلا۔ ایک طرف چلی۔ بچہ ساتھ نہ آیا تو پھر لوٹ آئی۔ اب وہ سمجھ گئی۔ بچہ چھ فٹ زمین میں گڑے ہوئے کھونٹے میں رسی سے بندھا ہوا تھا اور رسی بس اس قدر لمبی تھی کہ اب تک تو کسی نہ کسی طرح بچھڑے کی ناک پانی سے باہر تھی۔ لیکن اگر پانی ایک انچ بھی اور بڑھ جائے تو رسی کی وجہ سے ناک ڈوب ہی جائے۔ گائے نے مایوس ہو کر چلاتے بچہ کو وہیں چھوڑا اور پھر رمکلیا کی طرف رخ کیا۔

    رمکلیا رونے چلانے کی تھکن، ڈر اور خوف اور آخر میں انتہائی نا امیدی کا اب تک مقابلہ کرتی رہی تھی۔ لیکن آخر آٹھ برس کی ننھی جان ہی تو تھی۔ گائے جب اس کے پاس آئی تو وہ گرتی ہوئی چھت کے کنارے بے ہوش پڑی تھی۔ گوری نے آکر کئی آوازیں دیں اور جب بھی رمکلیا کو ہوش نہ آیا تو پھر لمبی دم، کھردری گرم گرم زبان سے اس کا منہ چاٹا۔ لڑکی کو ہوش آگیا۔ پہلے تو ڈری، پھر گوری کو دیکھا، ’’گوری مئیا، گوری مئیا‘‘ کہتی ہوئی اس کے گلے میں چمٹی۔ گوری نے دو پیر مارے، آگے بڑھی۔ رمکلیا چھت سے گھسٹ پانی میں آگئی۔ اس نے ڈر کے مارے پیر چلائے اور چمٹ چمٹا کر گوری کی پیٹھ پر آگئی اور وہیں چھپکلی کی طرح لیٹی لیٹی چمٹ گئی۔ گوری پھر بچھڑے کے پاس آگئی۔ وہی حرکتیں پھر کیں۔ کئی دفعہ اس کے گرد چکر لگائے اور چلی۔ جب بچھڑا ساتھ نہ چلا تو پھر لوٹ آئی۔ اب رمکلیا کی بھی سمجھ میں آگیا کہ کیا بات ہے۔ جیسے ہی ایک دفعہ گائے تیرتی ہوئی بچھڑے کے پاس گئی۔ رمکلیا نے اوندھے لیٹے ہی لیٹے ایک ہاتھ بڑھا کر بچھڑے کے گلے سے رسی کی گانٹھ نکال دی۔ بچھڑا آزاد ہو گیا۔ گائے اور بچھڑا دونوں تیرتے ہوئے چلے۔ رمکلیا گائے پر چمٹی ہوئی تھی۔ باغ اور ریل کی پٹری کی طرف سے دھارچل رہی تھی۔ اس لیے یہ دونوں بہاؤ ہی کی طرف تیرتے چل دئیے اور ڈھائی گھنٹے کے بعد بہت چکر کھا کر پھر اسی ریل کی پٹری پر چڑھ آئے۔ لیکن جہاں گاؤں والے تھے تین میل دور یہ نکلے تھے۔ یہ سب بہت سویرے ہی چل دئیے تھے۔ اور جب گاؤں کے بہادر تیراک تیرتے ہوئے باغ میں آئے تو وہاں نہ بچھڑا تھا نہ رمکلیا تھی۔ بلکہ مادھو کے مکان کا بچا کچھا حصہ بھی بہہ چکا تھا۔ دن کے بارہ بجے جس وقت آگے آگے گوری، پیٹھ پر رمکلیا، پیچھے بچھڑا۔ ’’او ماں آں ھ‘‘ کے سوال جواب کرتے گاؤں والوں میں پہنچے تو ہلچل مچ گئی۔ لوگ مارے خوشی کے کودتے تھے۔

    بسنتی خوشی کے مارے دھاروں دھار روتی ہوئی کبھی رمکلیا کو گلے لگاتی تھی، کبھی بچھڑے کو اور کبھی گوری کے چمٹتی تھی۔ اور گائے کہتی تھی، ’’تم، ماں آں ھ۔ ہم۔ ماں آں ھ‘‘

    آواز آئی، ’’بول گوری مئیاکی جے‘‘

    پچاس آوازوں نے جے پکاری۔

    پھر آواز آئی۔ ’’بول گؤ ماتا کی جے‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے