aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالیچہ

کرشن چندر

غالیچہ

کرشن چندر

MORE BYکرشن چندر

    کہانی کی کہانی

    یہ تکنیک کے تجربے کے طور پر لکھی گئی کہانی ہے۔ مختلف مناظر کو جمع کر کے ایک غالیچہ کو مجسم مان کر کہانی بنی گئی ہے۔ روپ وتی خوبصورت ترین، اٹلی کی تعلیم یافتہ عورت ہے جو ایک مقامی کالج میں پرنسپل ہے۔ آرٹسٹ کی ملاقات غالیچہ خریدتے وقت ہوتی ہے اور آرٹسٹ اس کے حسن کی حشر سامانیوں کا قتیل ہو جاتا ہے، لیکن روپ وتی پہلے تو اٹلی کے شاعر جو سے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے جو تپ دق میں مبتلا ہو کر مر گیا تھا اور بعد میں آرٹسٹ کے دوست مجہول قسم کے شاعر سے محبت کا انکشاف کرتی ہے اور اس سے شادی کرکے دوسرے شہر منتقل ہو جاتی ہے۔ غالیچہ مختلف واقعات و مناظر کا گواہ رہتا ہے اسی لئے آرٹسٹ اکثر اس سے سوال و جواب کرتا ہے۔ آرٹسٹ دوسری لڑکیوں میں وقتاً فوقتاً دلچسپی لیتا ہے لیکن روپ وتی اس کے حواس پر چھائی رہتی ہے۔ ایک دن اسٹیشن پر اسے روپ وتی مل جاتی ہے اور اسے پتہ چلتا ہے کہ روپ وتی تپ دق میں مبتلا ہے، اس کے شاعر شوہر نے اسے چھوڑ دیا ہے۔

    اب تویہ غالیچہ پرانا ہو چکا، لیکن آج سے دو سال پہلے جب میں نے اسے حضرت گنج میں ایک دکان سے خریدا تھا، اس وقت یہ غالیچہ بالکل معصوم تھا، اس کی جلد معصوم تھی۔ اس کی مسکراہٹ معصوم تھی، اس کا ہر رنگ معصوم تھا۔ اب نہیں، دو سال پہلے، اب تو اس میں زہر گھل گیا ہے، اس کا ایک ایک تار مسموم اور متعفن ہو چکا ہے، رنگ ماند پڑ گیا ہے، تبسم میں آنسوؤں کی جھلک ہے اور جلد میں کسی آتشک زدہ مریض کی طرح جابجا گڑھے پڑ گئے ہیں۔ پہلے یہ غالیچہ معصوم تھا۔ اب قنوطی ہے، زہریلی ہنسی ہنستا ہے اور اس طرح سانس لیتا ہے جیسے کائنات کا سارا کوڑا کرکٹ اس نے اپنے سینے میں چھپا لیا ہو۔

    اس غالیچے کا قد نوفٹ ہے، چوڑائی میں پانچ فٹ، بس جتنی ایک اوسط درجے کے پلنگ کی چوڑائی ہوتی ہے، کنارہ چوکور بادامی ہے، اور ڈیڑھ انچ تک گہرا ہے، اس کے بعد اصل غالیچہ شروع ہوتا ہے اور گہرے سرخ رنگ سے شروع ہوتا ہے، یہ رنگ غالیچے کی پوری چوڑائی میں پھیلا ہوا ہے اور دو فٹ کی لمبائی میں ہے گویا 5x2 فٹ کی مستطیل ہے، سرخ رنگ کی اک جھیل بن گئی ہے، لیکن اس جھیل میں بھی سرخ رنگ کی جھلکیاں کئی رنگوں کے تماشے دکھاتی ہیں، گہرا سرخ، ہلکا سرخ، گلابی، ہلکا قرمزی اورسرخ جیسے گندہ خون ہوتا ہے۔ لیٹتے وقت غالیچہ کے اس حصے پر میں ہمیشہ اپنا سر رکھتا ہوں اور مجھے ہر بار یہ احساس ہوتا ہے کہ میرے سرمیں جونکیں لگی ہیں اور میرا گندہ خون چوس رہی ہیں۔

    پھر اس خونی مستطیل کے نیچے پانچ اور مستطیلیں ہیں، جن کے الگ الگ رنگ ہیں، یہ مستطیلیں غالیچے کی پوری چوڑائی میں پھیلی ہوئی ہیں، اس طرح کہ آخری مستطیل پر غالیچے کی لمبائی بھی ختم ہو جاتی ہے اور دری کی کور شروع ہوتی ہے۔۔۔ خونی مستطیل کے بالکل نیچے تین چھوٹی چھوٹی مستطیلیں ہیں، پہلی سپید اور سیاہ رنگ کی شطرنجی ہے۔ دوسری سپید اور نیلے رنگ کی، تیسری بلوبلیک اور خاکی رنگ کی۔ یہ شطرنجیاں دور سے بالکل چیچک کے داغوں کی طرح دکھائی دیتی ہیں اور قریب سے دیکھنے پر بھی ان کے حسن میں زیادہ اضافہ نہیں ہوتا۔ بلکہ نیلام شدہ پرانے گرم کوٹوں کی جلد کی طرح میلی میلی اور بدنما نظر آتی ہیں۔ پہلی مستطیل اگر خون کی جھیل ہے تو یہ تین چھوٹی چھوٹی مستطیلیں مجموعی طور پر پیپ کی جھیل کا تاثر پیدا کرتی ہیں۔ ان کے سپید، کالے، پیلے، بلوبلیک رنگ پیپ کی جھیل میں گڈمڈ ہوتے نظر آتے ہیں، اس جھیل میں میرے شانے، میرا دل اور میرے پھیپھڑے، پسلیوں کے بکس میں دھرے رہتے ہیں۔

    چوتھی مستطیل کا رنگ پیلا ہے، اور پانچویں کا سبز ہے، لیکن ایسا سبز جیسا گہرے سمندر کا ہوتا ہے۔ ایسا سبز نہیں جس طرح موسم بہار کا ہوتا ہے۔ یہ ایک خطرناک رنگ ہے، اسے دیکھ کر شارک مچھلیوں کی یاد تازہ ہوتی ہے اور ڈوبتے ہوئے جہاز رانوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں اور اچھلتی ہوئی طوفانی، ویوہیکل لہروں کی گونج اور گرج رعشہ پیدا کرتی ہے اور یہ پیلا، مٹیالا رنگ تو منحوس ہوئی، یہ رنگ زعفران کی طرح، بسنت کی طرح پیلا نہیں، یہ رنگ مٹی کی طرح پیلا ہے، تپ دق کے مریض کی طرح پیلا ہے۔ پیلے گناہ کی طرح زرد ہے، اک ایسا زرد رنگ جس میں شاید اک ہلکا سا احساس ندامت بھی شامل ہے۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے، جیسے یہ مستطیل بار بار کہہ رہی ہو۔ میں کیوں ہوں، میں کیوں ہوں۔۔۔!

    جہاں میں اپنا سر رکھتا ہوں، اس کے دائیں کونے میں نیلے اور پیلے رنگ کے دس خطوط وحدانی بنے ہوئے ہیں اور جہاں میں اپنے پاؤں پسار کے سوتا ہوں، وہاں گیارہ خطوط وحدانی ہیں، یہ پیلے اور فیروزی رنگ کے ہیں، غالیچے کے وسط میں چھ خطوط وحدانی سرخ وسپید رنگ میں ہیں اور ان کے بیچ میں ایک گہرا سیاہ نقطہ ہے۔ جب میں غالیچے پر لیٹ جاتا ہوں تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا سرسے پاؤں تک کسی نے مجھے ان خطوط وحدانی کے ہکوں میں جکڑ لیا ہے۔ مجھے صلیب پر لٹکا کر میرے دل میں اک گہرے سیاہ رنگ کی میخ ٹھونک دی ہے، چاروں طرف گندہ خون ہے، پیپ ہے، اور سبز رنگ کا سمندر ہے۔ جو شارک مچھلیوں اور سمندری ہزار پایوں سے معمور ہے۔

    شاید مسیح کو بھی صلیب پر اتنی ایذا نہ پہنچی ہوگی، جتنی مجھے اس غالیچے پر لیٹتے وقت حاصل ہوتی ہے، لیکن ایذا پرستی تو انسان کا شیوہ ہے، اسی لئے تو یہ غالیچہ میں اپنے آپ سے جدا نہیں کر سکتا۔ نہ اس کی موجودگی میں مجھے کوئی اور غالیچہ خریدنے کی جرأت ہوتی ہے، میرے پاس یہی ایک غالیچہ ہے اور میرا خیال ہے کہ مرتے دم تک یہی ایک غالیچہ رہےگا۔ اس غالیچے کو در اصل ایک خاتون خریدنا چاہتی تھی، حضرت گنج میں ایک دکان کے اندروہ اسے کھلوا کر دیکھ رہی تھی کہ میری نگاہوں نے اسے پسند کر لیا اور وہ خاتون کچھ فیصلہ نہ کر سکی اور اسے وہیں چھوڑ کر اپنے بلاؤز کے لئے ریشمی کپڑے دیکھنے لگی۔

    میں نے منیجر سے کہا، ’’یہ غالیچہ میں خریدنا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا، ’’مس روپ وتی۔۔۔ شاید۔۔۔ اسے پسند کر چکی ہیں۔ شاید۔۔۔ ٹھہریئے میں ان سے پوچھتا ہوں۔‘‘ روپ وتی بولی، ’’غالیچہ۔۔۔ برا نہیں!‘‘

    ’’برا نہیں؟ کیا مطلب ہے آپ کا۔‘‘ میں نے بھڑک کر کہا، ’’ایسا غالیچہ دنیا میں اور کہیں نہیں ہوگا۔ دانتے کے تخیل نے بھی ایسا جہنمی نقشہ تیار نہ کیا ہوگا، یہ غالیچہ ہسپتال کی گندی بالٹی کی طرح حسین ہے۔ امراض خبیثہ کی طرح روح پرور ہے، یہ آگ اور پیپ کا دریا حاتم طائی کے سفر کی یاد دلاتا ہے، قدیم اطالوی راہب مصوروں کے شاہکاروں کی یاد تازہ کرتا ہے، یہ غالیچہ نہیں ہے تاریخ ہے انسان کی، انسان کی روح کی!‘‘

    وہ مسکرائی، دانت بےحد سپید تھے، لیکن ذرا ٹیڑھے میڑھے اور ایک دوسرے سے بہت قریب، پھر بھی وہ مسکراہٹ اچھی طرح معلوم ہوئی، کہنے لگی، ’’کیا آپ کبھی اٹلی گئے ہیں؟‘‘ میں نے کہا، ’’اٹلی کہاں! میں تو کبھی حضرت گنج کے اس پار نہیں گیا، عمر گزری ہے اسی ویرانے میں، یہ پان کی دکان اور سامنے وہ کافی ہاؤس۔‘‘ منیجر نے اب تعارف کرانا مناسب سمجھا۔ بولا، ’’آپ آرٹسٹ ہیں۔ کاغذ پر تصویر کھینچتے ہیں، یہ مس روپ وتی ہیں۔ یہاں لڑکیوں کے کالج میں پرنسپل ہو کر آئی ہیں۔ ابھی ابھی انگلینڈ سے تعلیم حاصل کر کے یہاں۔۔۔‘‘ وہ بولی، ’’چلیے تو یہ غالیچہ آپ ہی لیجئے۔ مجھے تو خاص پسند نہیں۔‘‘

    ’’آپ کا بڑا احسان ہے۔‘‘ میں نے غالیچے کی قیمت ادا کرتے ہوئے کہا، ’’کیا آپ میرے ساتھ۔۔۔ کافی پینا گوارا کریں گی، چلیے نا ذرا کافی ہاؤس تک، اگر ناگوار خاطر یعنی۔۔۔‘‘

    ’’شکریہ۔ مگر میں ذرا یہ بلاؤز دیکھ لوں۔‘‘ وہ پھر مسکرائی۔ مسکراہٹ بھلی معلوم ہوئی۔ ذہین بیضوی چہرے کا رنگ زرد تھا۔ صندلی رنگ پر لبوں کی ہلکی سی سرخی اک عجب رسیلا تموج سا پیدا کر رہی تھی۔ بلاؤز کا کپڑا خرید کر جب وہ میرے ساتھ چلنے لگی تو لڑکھڑا گئی۔ میں نے بانہہ سے پکڑ کر سہارا دیا اور پوچھا، ’’کیا بات ہے۔ کیا آپ ہمیشہ لڑکھڑا کر چلتی ہیں۔‘‘ وہ بولی، ’’نہیں تو۔۔۔‘‘ میں نے غور سے دیکھا، پاؤں پرپٹی بندھی ہوئی تھی۔

    ’’زخم ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’ہاں۔ انگوٹھے کا ناخن بڑھ گیا تھا، جلد کے اندر۔۔۔ جہاز کا سرجن بالکل گدھا تھا۔‘‘ اس نے ماتھے پر ساڑھی کا پلو سرکایا اور جب وہ پہلی بار مڑی تو میں نے اس کے بالوں میں گردن کے قریب دائیں طرف گلاب کے زرد پھول ٹکے ہوئے دیکھے، پھر جب وہ مڑی تو ماتھے کا قم قم درخشاں نظر آیا۔ اس سے پہلے کیوں یہ قم قم اس قدرخوبصورت نہ تھا؟ کافی ہاؤس میں بیٹھ کر معلوم ہوا کہ وہ خوبصورت تھی، کچھ تو کافی ہاؤس میں روشنی کا انتظام ایسا ہے کہ مرد بدصورت نظر آتے ہیں، عورتیں حسین تر، پھر۔۔۔ ہاں۔۔۔ کچھ تو تھا، ورنہ یہ لوگ بار بار مڑ کر کیوں دیکھتے تھے، عورتیں تیز نگاہ سے کیوں گھورتی تھیں، بیرے اتنی جلدی میز پرکیوں آجاتے تھے۔

    وہ مسکراکر کہنے لگی، ’’دیکھو بیرا، تھوڑا سا گرم دودھ اور گرم پانی ایک الگ پیالے میں۔‘‘

    ’’گرم پانی تو۔۔۔‘‘ بیرے نے رک کر کہا۔

    ’’تھوڑا سا گرم پانی۔ بس!‘‘ وہ پھر مسکرائی اور بیرا سر سے لے کر پاؤں تک پگھل گیا۔ جیسے اس کا سارا جسم شیشے کا بنا ہو، میں اسے پگھلتے ہوئے دیکھ رہا تھا، اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی اور اس کے سارے جسم کو پگھلاتی ہوئی چلی گئی۔ یہ نگاہ کیا ہے؟ یہ تجلی کیسی ہے؟ کیا یہ کافی ہاؤس کی بجلیوں کا شعبدہ تو نہیں؟

    ’’اور بیرا۔۔۔ انڈے کے سینڈوچ۔‘‘ وہ پھر بولی۔ بیرے نے واپس آ کرکہا، ’’جی انڈے کے سینڈوچ تو ختم ہو گئے۔‘‘

    ’’تھوڑے سے بھی نہیں ہیں؟ اس کی بڑی بڑی معصوم زخمی سی آنکھیں اور بھی کھلتی ہوئی معلوم ہوئیں، ’’بس دو چار! ایک پلیٹ بھی نہیں؟‘‘ سینڈوچ بھی مل گئے۔

    ’’نہیں بل میں ادا کروں گی۔‘‘

    ’’نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں مرد ہوں۔‘‘

    وہ ہنسی، ’’بہت پرانی بات ہے۔‘‘ اور اس نے بل ادا کر دیا۔

    گھر پر نوکر کو غالیچہ پسندنہ آیا، ان دنوں ایک تنک مزاج شاعر مہمان تھا اور جو آزاد بحرمیں نظمیں لکھا کرتا تھا۔ شراب پیتا تھا اور پانچ وقت نماز ادا کرتا تھا، اسے بھی یہ غالیچہ پسند نہ آیا۔ میں نے پوچھا تو بس ’’ہوں‘‘ کر کے رہ گیا، وہ نظمیں جتنی لمبی لکھتا تھا، باتیں اسی نسبت سے کم کرتا تھا۔

    ’’ہوں کا کیا مطلب ہے۔‘‘ میں نے چڑ کر کہا، ’’کچھ تو کہو۔ ان رنگوں کا تناسب۔‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    روپ اسے بڑے غور سے دیکھ رہی تھی، اب کھلکھلا کر ہنس پڑی، اس سڑے بسے شاعر سے کہنے لگی، اپنی تازہ نظم سناؤ۔۔۔ تمہیں معلوم ہے آج کل اسپنڈر اور رو ڈن اغلامیت کے حق میں نظمیں لکھ رہے ہیں۔

    ’’ہوں۔‘‘ وہ اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر غرایا۔ میں نے روپ سے پوچھا، ’’تمہیں کیسے معلوم ہے؟ کیا ان لوگوں نے تمہیں اپنی نظمیں سنائی تھیں۔‘‘

    ’’نہیں۔ لیکن مجھے جونے بتایا تھا۔‘‘

    ’’کون؟ جو؟‘‘

    ’’جو براؤن، نام نہیں سنا ہے کیا؟ آج کل آکسفورڈ کا محبوب ترین شاعر ہے، ہندوستان میں ابھی اس کا کلام نہیں پہنچا، لندن میں مجھ پرعاشق ہو گیا تھا۔‘‘ وہ کچھ عجب، کچھ بےباک، کچھ شرمیلی سی ہنسی کے ساتھ کہنے لگی اور ماتھے کا قم قم یاقوت کی طرح دمکنے لگا۔ میں نے پوچھا، ’’تمہاری زندگی فتوحات سے پر معلوم ہوتی ہے۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ اس نے آہ بھر کر کہا۔ اس طرح کہ میرا جی چاہا اسے گلے سے لگا لوں۔

    ’’ہوں۔‘‘ شاعر بولا۔ روپ مسکرا کر کہنے لگی، ’’تمہارا شاعر بہت باتونی ہے۔۔۔ سنو۔۔۔ تمہیں ایک نظم سناتی ہوں۔‘‘ میری حیرت بڑھتی جا رہی تھی، میں نے پوچھا، ’’تم شاعر بھی ہو۔‘‘

    ’’نہیں۔ یہ نظم میری والدہ نے کہی تھی۔‘‘

    ’’ٹھہرو۔ مجھے یہ غالیچہ بچھا لینے دو۔‘‘

    غالیچہ بچھ گیا۔ اور نظم روپ نے گا کر سنائی۔ بنگالی نظم تھی، اداس، محزوں، شب فراق کی جلی ہوئی، لے شمع کی طرح خوبصورت تھی، آواز شعلے کی طرح لرزاں، تاثر شراب کی طرح خمار آگیں، بنگالی دو شیزائیں قطار اندر۔۔۔ گھڑے اٹھائے ہوئے گھاٹ کی طرف جا رہی تھیں۔ سمندر کی سبز لہریں اچھل رہی تھیں۔ شیوجی کا ڈمرو بج رہا تھا، پاربتی رقص کر رہی تھیں، برف گر رہی تھی۔۔۔ اب فضا خاموش تھی اور روپ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ آنسو رخساروں سے ڈھلک کر غالیچے پر گر پڑے اور وہ سرخ مستطیل، جیسے آگ کا شعلہ بن گئی۔۔۔!

    ’’تمہیں جوبراؤن سے عشق نہیں ہوا۔‘‘ میں نے پوچھا۔ روپ نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے۔ بولی، ’’مجھے جس لڑکے سے عشق تھا، اسے لندن ہی میں تپ دق ہو گیا تھا۔ وہ جہاز پر میرے ساتھ آ رہا تھا، لیکن راستے ہی میں اس کی موت ہو گئی، عدن سے پرے بحیرہ سرخ میں!‘‘

    ’’بحیرہ سرخ۔‘‘ میں نے سوچا اور غالیچے کی سرخ مستطیل بحیرہ سرخ بن گئی اور اس کے گہرے پانیوں میں مجھے اک زرد روکھا نستا ہوا چہرہ نظر آیا اور پھر بھنور میں غائب ہو گیا، محو خواب ہے روپ کا محبوب، سرخ سمندر کے پانیوں میں اور روپ کے آنسو میرے غالیچے پر گر رہے ہیں۔۔۔

    ’’ہوں۔‘‘ شاعر نے کہا۔ اور میں نے ایک کتاب اس کے سر پردے ماری۔ روپ آنسوؤں میں مسکرا دی، بعض اوقات آنسو رونے سے آنسو پینا زیادہ اندوہناک معلوم ہوتا ہے!

    روپ! کیسی عجیب سی لڑکی تھی وہ۔ لندن میں شاعر جو براؤن اسے محبت کرتا تھا اور لکھنؤ میں حضرت گنج کا یہ آوارہ مزاج غریب اور آرٹسٹ اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ زہر ہے، وہ کس طرح اس پیالے کو پی گیا، یاسیت، نامرادی، بے بسی، عشق کا جواب ہمیشہ عشق کیوں نہیں ہوتا؟ یہ کیسی آگ ہے جو ایک کو جلاتی ہے اور دوسرے کے دل میں برف کی سل بن جاتی ہے، جو محروم تمنا کو آنسو رلاتی ہے اور جان تمنا کے لبوں پر تبسم ریز سایہ بھی نہیں لا سکتی۔ میں نے غالیچے سے تھپکتے ہوئے پوچھا۔ غالیچے نے کہا، ’’میں صلیب ہوں، میں دکھ اور درد جانتا ہوں، دکھ اور درد کی دوا نہیں جانتا!‘‘

    اور روپ نے کہا، ’’یہ قسمت ہے، قسمت تمہیں غالیچہ خریدنے کے لئے وہاں لے گئی۔ قسمت نے تمہیں مجھ سے روشناس ہونے کا موقع دیا، اب یہ تمہاری قسمت ہے کہ مجھے تم سے وہ محبت نہ ہو سکی۔ ہزار کوشش کرنے پربھی یہ رفاقت، محبت میں مبدل نہیں ہو سکتی۔ یہ قسمت نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ پھر کہنے لگی، ’’شاعر اپنے شعر سناؤ۔‘‘ چند روز کے بعد اس نے یکایک مجھ سے کہا، ’’مجھے تمہارے شاعر سے محبت ہو گئی ہے۔‘‘

    ’’جھوٹ۔۔۔ اس چغد سے۔۔۔‘‘

    ’’اس کی آنکھیں دیکھیں تم نے۔‘‘ وہ آہ بھر کر بولی، ’’جیسے مسیح دار پر لٹکا ہو۔ کتنا اندوہ ہے ان میں!‘‘ میں نے کہا، ’’اگر تم کہو تو میں اپنی آنکھیں اندھی کر لوں۔‘‘ شاید میری تلخی اسے ناگوار گزری۔ سنجیدہ ہو کر بولی، ’’کیا کروں؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ دل ہی تو ہے!‘‘ میں نے طنزاً کہا۔

    ’’ہوں۔‘‘ شاعر بولا۔

    جس روزہ دونوں رخصت ہوئے، میں نے گھر پر اک چھوٹی سی دعوت کی، روپ نے ڈھاکے کی سیاہ ساری پہنی ہوئی تھی۔ آنکھوں میں کاجل گہرا تھا۔ ریشمی چوڑیوں کا رنگ بھی سیاہ تھا۔ ہر روز اسے دیکھ کر اجیالے کا، سورج کا، چاند کی کرن کا، روشنی کا احساس ہوتا تھا۔ جانے آج اسے دیکھ دیکھ کر کیوں تاریکی کا احساس ہو رہا تھا۔ کیوں وہ اس اپنی مکمل کامرانی کے لمحوں میں بھی مجسم یاس وغم کی تصویر دکھائی دیتی تھی، کیا یہ غریب آرٹسٹ کے دل کا اندھیرا تو نہیں تھا۔ کیا یہ اس کے برش کی تاریکی تو نہ تھی! آج میں نے اس سے وہی گیت سننے کی تمنا کی تھی جو اس نے پہلے روز گایا تھا۔ مجھے یاد ہے، گانے کے بعد وہ ناچی بھی تھی، میں نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا، میں اس کے پاؤں دیکھتا رہا، دھندلے دھندلے تاریک سے پاؤں جن میں حنا کی سرخ لکیر بجلی کی طرح چمک چمک جاتی تھی، اس تاریکی میں صرف یہاں روشنی تھی، وہ ناچتی رہی اور میں اس تاریکی میں حنائی لکیر کا ناچ دیکھتا رہا، اور جب ناچ بھی بند ہو گیا، تو میں نے وہ پاؤں اٹھا کر اپنے سینے میں رکھ لئے، کیوں یہ پاؤں آج تک اس سینے میں محفوظ ہیں۔۔۔ کیا اس اہرام میں ممیوں کے سوائے اور کسی کے لئے جگہ نہیں؟

    جب وہ چلی گئی تو میں پھر غالیچے پر آ بیٹھا۔ زرد گلاب کی اک کلی اس کے جوڑے سے نکل کر غالیچے پر پڑی رہ گئی تھی۔ میرے دل میں شاید اب روپ کی کوئی یاد باقی نہیں، صرف یہ دو پاؤں ہیں اور اک یہ گلاب کی زرد کلی۔۔۔ کیسی تصویر ہے یہ؟ مصور ہو کر بھی میں نے شاید ایسی عجیب تصویر اس سے پہلے کبھی نہ بنائی تھی۔۔۔ پھر؟

    میں غالیچے سے پوچھتا ہوں۔ غالیچہ کہتا ہے، ’’میں تو صلیب ہوں، صلیب موت بخشتی ہے، اسے زندگی کی ترتیب، مناسب تواتر سے آگاہی نہیں۔۔۔‘‘

    اچھا اسے بھی جانے دو۔ جو ہوا سو ہوا۔ اگر زندگی میں قبر ہی کا مزا لینا ہے تو کیوں نہ اسے آرام سے حاصل کیا جائے، اگر شہد میں زہرہی ملا کر پینا ہے، تو کیوں نہ خالص زہر پیا جائے۔ اگر معصومیت برقرار نہیں رہ سکتی تو کیوں نہ گہری معصیت کی آغوش میں پناہ لی جائے، آؤ، اپنے دل میں ضمیر کی جو ہلکی سی شمع رہ گئی ہے اسے بھی خموش کر دیں اور بڑھتی ہوئی تاریکی میں گناہ پھیلتے ہوئے دود کو دیکھیں اور زندگی کا منہ چڑائیں اور قہقہے لگائیں۔ محبت نہ سہی، بوالہوسی سہی!

    آرٹسٹ نے ایک اور لڑکی سے آشنائی پیدا کرلی، جو ویک میں ملازم تھی، اس کا نام تھا آشا لیکن صورت پر بالکل نراشا برستی تھی، ایسی بھوکی لڑکی تھی وہ، کبھی مرد دیکھا ہی نہ تھا، کتیا کی طرح ساتھ ساتھ لگی پھرتی تھی، بے چاری آرٹسٹ کو شاید اس پر رحم آنے لگا تھا، وہ اس کے ساتھ شفقت برتنے لگا۔ اک مربیانہ، پدرانہ انداز کے ساتھ اب وہ اسے ہر جگہ لئے پھرتا، لوگ طنزا ًاس کے حسن انتخاب کی داد دیتے اور وہ بڑے خلوص سے داد قبول کرتا، کوئی کہتا، ’’بھئی، بڑی بدصورت ہے۔ تم نے کیا سوچ کر۔۔۔‘‘ تو وہ لڑنے پر آمادہ ہو جاتا، گھنٹوں اس کی خوبصورتی کا تجزیہ کرتا، کوئلے سے اس نے آشا کی تصویر بنائی تھی اور اپنے اسٹوڈیو میں ہر کس و ناکس کو وہ یہ تصویر دکھاتا تھا۔ وہ اپنے زخم دکھا رہا تھا۔ دیکھو۔۔۔ دیکھو۔۔۔ مجھے تمہاری کیا پروا ہے۔۔۔ میں اپنی روح کا آپ مالک ہوں۔۔۔ زہر خند۔۔۔ کوئلے!

    لیکن وہ کبھی حضرت گنج کے اس پار نہ گیا تھا۔ اب وہاں سے بھاگنے کا ارادہ کرنے لگا۔ فٹ پاتھ پر چلتے چلتے وہ ہزاروں الٹے سیدھے خواب دیکھنے لگا، رہ گذر کے ہر پتھر پر اسے کسی کے پیروں کے دھندلے دھندلے سائے کانپتے ہوئے معلوم ہوتے، کافی کی پیالی کے ہر سانس میں قم قم تیرتے ہوئے دکھائی دیتے، یہ ہنسی؟ وہ مڑکر دیکھتا کہاں سے آئی تھی لیکن یہ تو وہی کشمیری پالتومینا اپنے پنجرے میں چہک رہی تھی، بلبل قفس کی تیلیاں توڑ کر پرواز کر گئی تھی اور وہ ابھی تک کیوں حضرت گنج کے ویرانے میں مقید تھا۔۔۔ کیوں؟ کیوں؟ وہ حنائی لکیر بار بار بجلی کی طرح چمک کر اس سے بار بار پوچھ رہی تھی!

    اب جبکہ وہ شہر چھوڑ کر جا رہا تھا، اس نے اپنے سب دوستوں کو، اس ویک لڑکی کو اور اس کی سب سہیلیوں کو آخری دعوت دی تھی اور جب دعوت کے بعد سب لوگ چلے گئے تھے تو ویک لڑکی حیران و پریشان اس غالیچے پر بیٹھی رہی تھی اور پھر یکایک اس کے سینے سے لگ کر رو پڑی تھی، یہ گرم گرم آنسو جو اس کے سینے میں برف کے پھول بنتے جا رہے تھے۔ عشق کا جواب عشق کیوں نہیں ہوتا، یہ کیسی آگ ہے جو ایک کو جلاتی ہے اور دوسروں کے دل میں برف کی سل بن جاتی ہے۔ ویک لڑکی غالیچے پر لیٹی تھی، بازو اوپر کے خطوط وحدانی کے ہک میں تھے۔ پاؤں نیچے کے خطوط وحدانی میں۔ غالیچے نے چپکے سے اس کے دل میں ایک سیاہ میخ ٹھونک دی، اہرام کے لئے ایک اور ممی تیار ہو گئی، لیکن وہاں جگہ کہاں تھی، سینے میں اب بھی وہی دو پاؤں ناچ رہے تھے۔۔۔ اور وہی گلاب کی اک زرد کلی!

    میں نے غالیچے سے پوچھا، ’’یہ کیسا کھیل ہے؟ میں کس کا منہ چڑا رہا ہوں، یہ زخم کس کے ہیں؟ یہ لڑکی کیوں رو رہی ہے، اگر یہ سب قسمت ہے تو پھر یہ کاوش پیہم کیا ہے جو ممی کو بھی زندہ کر دینے پر تلی ہوئی ہے۔‘‘ غالیچے نے جواب دیا، ’’مجھے معلوم نہیں۔ میں تو ایک صلیب ہوں، جو دل میں سیاہ کیل ٹھونکتی ہے، سپید روشنی نہیں لاتی، جو قسمت کا انجام دکھاتی ہے، اس کا آغاز و شباب نہیں!‘‘

    تجھے جلا کرخاک نہ کر ڈالوں!

    اس نئے شہر میں!

    چار آدمی غالیچے پر تاش کھیل رہے ہیں۔

    دو ایکٹر

    دو تجار

    اور جو تماشہ دیکھ رہا ہے وہ آرٹسٹ ہے!

    تاش کھیلتے کھیلتے ایکٹر اور تجار لڑنا شروع کرتے ہیں، ہاتھا پائی کی نوبت آتی ہے، غالیچہ نوچا جاتا ہے، کیونکہ ایک چال میں ایک تجار غلطی سے یاجان بوجھ کر آٹھ آنے زیادہ لے گیا تھا۔ میرا گریبان تار تار ہو چکا ہے، کیونکہ جو آدمی لڑائی رفع کرنا چاہتا ہے، وہی سب سے زیادہ پٹتا ہے۔ پھر میں سوچتا ہوں، اس بدمزگی کو دور کرنے کا کیا طریقہ ہے، بذلہ سنجی ناممکن۔ گراموفون بڑا واہیات! چائے لعنت! شراب؟ سبحان اللہ!

    سب لوگ شراب پی رہے ہیں، آرٹسٹ کی آنکھیں سرخ ہیں، ہمیشہ ہنسنے اور خوش رہنے والا خوش شکل ایکٹر ہمیشہ چپ رہنے والے قبول صورت ایکٹر سے کہہ رہا ہے، محبت؟ محبت؟ سالا تو محبت کیا جانے، ابھی کالج کا لونڈا ہے تو۔۔۔ ایں۔۔۔ محبت کا نشہ مجھ سے پوچھ۔۔۔ سالی یہ شراب بھی بالکل تلخ نہیں ہے۔۔۔ رانی کو تو دیکھا ہے تو نے؟

    ’’رانی ۱۹۴۴ء کی بہترین ایکٹرس ہے نا۔‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’جی ہاں، وہ۔۔۔ وہی۔۔۔ سالا تو کیا جانے۔۔۔ وہ میری محبوبہ ہے۔۔۔ سمجھے۔۔۔؟ ایں! میں نے اس کے لئے اپنے ماں باپ کی گالیاں کھائیں۔۔ کئی لڑائیاں لڑیں رقیبوں سے۔۔۔ اپنا گھر بار چھوڑ دیا۔۔۔ یہ انگوٹھی شالے دیکھتے ہو، یہ قمیص کے بٹن، یہ کف بٹن، یہ سب سونے کے ہیں، شالے تو کیا جانے۔۔۔ یہ سب اس نے دیے ہیں۔۔۔ تحفے۔۔۔ مگرمیں اس سے شادی نہیں کروں گا۔ کبھی نہیں کروں گا۔‘‘ اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’وہ مجھے چاہتی ہے۔ پر وہ مجھ سے بہت امیر ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ مجھ سے شادی کر لے، پر میں مر جاؤں گا، اس سے بیاہ نہیں کروں گا۔‘‘

    ’’تمہیں اس سے محبت نہیں!‘‘ ایک تجار نے پوچھا۔

    ’’لیکن بھئی گھر آئی دولت کیوں چھوڑتے ہو۔‘‘ دوسرے تجار نے پوچھا۔

    ایکٹر نے مٹھیاں بھینچ کر کہا، ’’میں جو ہوں وہی رہوں گا۔ میں اس سے محبت کرتا ہوں، لیکن اس کا غلام بن کر نہیں رہ سکتا، میں اس کی محبت چاہتا ہوں، دولت نہیں، اوخ! ایکٹر نے زور سے غالیچے پر ہات مار کر کہا اور پھر قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا!

    غالیچہ کانپ اٹھا۔ اس کا رنگ عجیب سا ہو گیا۔ اور شراب دے حرام زادے! وہ اپنے خالی گلاس کو ٹٹول رہا تھا۔ میں نے کہا، ’’رانی؟ ارے بھئی۔ آج ہی تو میں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ رانی نے ایک امریکن سے شادی کر لی۔‘‘ ایکٹر نے آہستہ سے شراب کا گلاس غالیچے پر لنڈھا دیا۔ اس کی انگلیاں کانچ کی سطح پر سختی سے جم گئیں۔ کانچ اس کی انگلیوں کو زخمی کرتا ہوا ریزہ ریزہ ہو گیا۔ وہ رندھے ہوئے گلے سے کہنے لگا، ’’یہ غلط ہے، بالکل غلط ہے!‘‘

    آرٹسٹ نے میز پرسے اخبار اٹھا کر پڑھا۔ ایکٹر کا چہرہ۔۔۔۔! وہ غالیچے پر دونوں کہنیاں ٹیکے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے رنگ کا بدلنے لگا۔۔۔ اس کا چہرہ ستا جا رہا تھا۔ ممی کے خد و خال ابھر رہے تھے۔

    ’’یہ غلط ہے۔ بالکل غلط ہے۔‘‘ وہ پھر چیخا۔ پھر ایک دم خاموش ہو گیا۔ دوسرا ایکٹر اس کے گلاس میں شراب انڈیلنے لگا۔ وہ اب بھی خاموش تھا، لیکن پہلا ایکٹر غالیچے سے لگ کر سسکیاں لے رہا تھا۔ پھر اس نے غالیچے پر قے کر دی۔۔۔ مجھے غالیچے کا رنگ اڑتا ہوا معلوم ہوا۔ سرخ سے سپیدوزرد۔۔۔ جیسے یہ غالیچہ نہ ہو، زندگی کا کفن ہو۔

    رانی! رانی! رانی!

    صبح میں نے غالیچہ دھلوایا اور صاف کرا کے پھر کمرے میں رکھا، کہ میری محبوبہ کمرے میں داخل ہوئی، یہ میری نئے شہر کی محبوبہ تھی، یہاں آکر آرٹسٹ نے پھر عشق کر لیا تھا۔ عشق کرنا کس قدر مشکل ہے لیکن جب عشق مر جائے، اس کے بعد عشق کرنا کس قدر آسان ہو جاتا ہے! ہے نا، مردود بولتے کیوں نہیں؟ جواب دو! میری محبوبہ کے ہونٹ موٹے تھے، رخسار بھی موٹے۔ جسم بھی موٹا، ہنسی بھی موٹی، عقل بھی موٹی، وہ عورت نہ تھی، اک دہرا تہرا غالیچہ تھی۔ آج اس نے اپنے بالوں کی دو چوٹیاں بنا ڈالی تھیں اور ان میں چنبیلی کے پھول سجائے تھے۔

    وہ غالیچے پر آکر بیٹھ گئی۔ میں نے اس کی بلائیں لے کر کہا، ’’آج تو تم قلو پطرہ کو بھی مات کرتی ہو۔‘‘

    ’’کلو پترا کیا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’مصر کی ملکہ تھی۔‘‘

    ’’مسر؟‘‘

    ’’ہاں مصر! وہ ملک جہاں مرنے کے بعد اہرام تیار ہوتے ہیں اور مردوں کی ممیاں تیار کی جاتی ہیں۔۔۔ خدا کرے تمہاری موت بھی قلوپطرہ کی طرح ہو!‘‘

    ’’ہائے کیسی باتیں کرتے ہو؟ کیا ہوا تھا اسے؟‘‘

    ’’سانپ سے ڈسوا کر مر گئی تھی۔‘‘

    وہ اک ہلکی سی چیخ مار کر میرے قریب آ گئی، ’’ڈراتے ہو مجھے؟‘‘ اس نے میرا بازو پکڑ کر کہا۔ پھر وہ ہنسی، اپنی موٹی بھدی ہنسی، جیسے بھینس جگالی کر رہی ہو۔ پھر اس نے اپنے ہونٹ میرے آگے بڑھا دیے۔ جیسے کوئی فیاض جاٹ کسی اجنبی شہری کو گنا چوسنے کو دے دے۔ میں نے گنا چوستے ہوئے کہا، ’’یہ غالیچہ جیتا ایک بار ہے لیکن مرتا بار بار ہے۔۔۔ تو، یہ موت بار بار کیوں آتی ہے۔۔۔ اب آبھی جائے آخری موت!

    ’’آج یہ تم کیوں بار بار موت کا ذکر رہے ہو۔‘‘ وہ منمنائی۔

    ’’کچھ نہیں۔ تم نہیں سمجھوگی۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں یہ تو بتاؤ، آج تمہارے تازہ لبوں سے، رخساروں سے، آنکھوں سے، بالوں سے، یہ کیسی لطیف خوشبو نکل رہی ہے۔‘‘

    ’’کچھ نہیں!‘‘ وہ ہنس کر بولی، ’’آج کھوپرے کا خوشبودار تیل لگایا ہے۔‘‘ میں نے غالیچے کی طرف کنکھیوں سے دیکھا، اس کا رنگ اڑتا جا رہا تھا۔ بیچارہ ایک بار پھر مر رہا تھا، اس کی جانکنی مجھ سے دیکھی نہ جاتی تھی۔ میں گھبرا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ سیدھا اسٹیشن پہنچ گیا، ارادہ تھا، جی بھرکر پیوں گا۔ بیر پیوں گا۔ نہ صرف اپنے گردوں کو بلکہ اپنی روح کو بھی جلاب دوں گا تاکہ یہ سارا کوڑا کرکٹ بہہ جائے۔ نکل جائے۔ طبیعت ہلکی ہو جائے!

    اسٹیشن پر بیئر سے پہلے روپ مل گئی۔

    ’’ارے؟ تم کہاں؟‘‘

    ’’جونا گڑھ گئی تھی پہاڑ پر۔‘‘

    ’’اور شاعر؟‘‘

    وہ کھانس کر کہنے لگی، ’’اس نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔‘‘

    ’’چھوڑ دیا؟ کیوں؟‘‘

    ’’مجھے تپ دق ہے، جوناگڑھ سینی ٹوریم میں گئی تھی نا!‘‘

    اس کی نگاہوں میں سبز رنگ کا سمندر تھا اور اک زرد و نحیف چہرہ بھنور میں غوطے کھا رہا تھا، پھر وہ چہرہ بھی غائب ہو گیا، اب شاعر کا سڑابسابشرہ لہروں پر تیرنے لگا، شاعر کا چہرہ سر ہلا کر کہہ رہا تھا، ’’ہوں۔‘‘

    میں نے کہا، ’’کہاں ہے وہ حرام زادہ!‘‘

    ’’جانے دو۔‘‘ وہ محزوں انداز میں کہنے لگی، ’’اسے گالی نہ دو۔۔۔ مجھے اس سے ابھی تک محبت ہے!‘‘

    ’’لیکن۔۔۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ وہ بولی، ’’اس لیکن کے بعد بھی۔۔۔ اب میں اپنے گھر جا رہی ہوں، میکے، آرام سے مروں گی۔‘‘

    ’’نہیں، نہیں۔‘‘ میں نے سختی سے کہا، ’’اب میں تمہیں نہیں جانے دوں گا، زندگی نے تمہیں مجھ سے چھین لیا، اب موت کے دروازے تک ہم دونوں اکٹھے چلیں گے اور اگر اس دنیا کے بعد کوئی دوسری دنیا ہے تو شاید۔۔۔‘‘

    وہ ہنسی، وہی اجیالی ہنسی، وہی صندلی چہرہ، وہی دمکتا ہوا قم قم۔ میں نے اس کی بانہہ پکڑ کر کہا گھر چلو۔۔۔ روپ! جیتے جی تم نے مجھے اپنے ساتھ نہ رہنے دیا۔ اب موت کے چند لمحے تو بخش دو۔ وہ مسکرائی۔ بولی، ’’تم نہیں جانتے؟ محبت زندگی میں اور موت میں بھی یکساں سلوک کرتی ہے!‘‘

    گاڑی نے سیٹی دی۔ وہ بولی، ’’مجھے امید نہ تھی تم کبھی ملوگے۔ افسوس ہے کہ میں یہاں رک نہیں سکتی، ہاں یہ کتاب تمہیں دے سکتی ہوں، رلکے کی نظمیں۔‘‘

    گارڈ نے جھنڈی دکھائی۔ وہ اپنے ڈبے کی طرف چل دی، میں اس کے چہرے کی طرف نہ دیکھ سکا۔ میری آنکھیں پھر اس کے پاؤں پر گڑ گئیں، وہ پاؤں چلتے گئے، چلتے گئے، دور جاتے ہوئے بھی گویا قریب آتے گئے، بالکل میرے سینے پر آگئے اور میں نے انہیں اٹھا کر اپنے سینے کے اندر چھپا لیا۔

    میں نے نگاہ اٹھائی۔ گاڑی جا چکی تھی! محبوبہ ابھی تک میری راہ دیکھ رہی تھی۔ بولی، کہاں چلے گئے تھے۔ میں چپ ہو رہا۔

    ’’یہ کون سی کتاب ہے۔‘‘

    ’’رلکے کی۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’ایک شاعر کی نظمیں ہیں۔‘‘

    ’’مجھے سناؤ۔ کیا کہتا ہےیہ؟‘‘

    میں نے کتاب کھولی۔ پندرھواں صفحہ آنکھوں کے سامنے آیا۔ آہستہ سے پڑھنا شروع کیا، ’’اے خدا تو نے زندگی اپنی مرضی کے مطابق دی، اب موت تو میری مرضی کے مطابق بخش دے۔ تجھ سے اور کچھ نہیں چاہتا ہوں خداوند!‘‘

    ’’پھر موت!‘‘ وہ بولی، ’’برا شگون ہے۔‘‘ اس نے کتاب میرے ہاتھ سے چھین کر الگ کر دی اور اپنے لب میری طرف بڑھا دیے۔ غالیچہ ابل رہا تھا۔ بالکل آگ۔۔۔ شعلوں کا دریا۔ پیپ کا سمندر، زہر کا کھولتا ہوا گرم چشمہ، میں نے اس سے پوچھا، تم صلیب ہو، تم نے آدمی کے بیٹے کو مسیحا بنا دیا۔ بتاؤ مجھے کیا بناؤگے۔ غالیچے نے کہا، ’’جو تم خود بن چکے ہو۔ اک اہرام۔۔۔ اک کھوکھلا اہرام جس کے سینے میں ممیاں دفن ہیں!‘‘ میں نے اپنی محبوبہ سے کہا، ’’میرا جی چاہتا ہے۔ اس غالیچے کو جلا کر خاک کر ڈالوں۔‘‘

    وہ بولی، ’’ہاں! پرانا تو ہو گیا ہے۔‘‘

    ’’لیکن۔۔۔‘‘ میں نے رک کر افسردہ لہجے میں کہا، ’’میرے پاس تو یہی ایک غالیچہ ہے اور یہی ایک زندگی ہے۔ نہ اسے بدل سکتا ہوں۔ نہ اسے۔

    یہ کہہ کر آرٹسٹ گنا چوسنے لگا۔

    مأخذ:

    کرشن چندر کے بہترین افسانے (Pg. 94)

      • ناشر: ایشیا پبلیشرز، دلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے