Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گھڑی بھر کی رفاقت

اسد محمد خاں

گھڑی بھر کی رفاقت

اسد محمد خاں

MORE BYاسد محمد خاں

    کہانی کی کہانی

    افسانہ شیر شاہ سوری اور وطن سےعقیدت و محبت اور جذباتی لگاؤ پر مبنی ہے، عیسی خان ماضی کے رکھ رکھاؤ اور اقدار کی بقا کے لیے کوشاں ہے۔۔۔ شیر شاہ سوری سے وابستہ تعلقات کی یاد یں برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

    مسافرت میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب گھوڑا اپنے سوار کی راسیں سنبھال لیتا ہے۔ (ایک طبع زاد کہاوت)

    مسلسل دودن اور دو راتیں گھوڑے کی پیٹھ پر گزاری تھیں۔ انتہا درجے کی تھکن اور تشویش میں سنبھل کا حاکم عیسی خان ککبور سروانی بنگالے پہنچا تھا کہ سلطان ہند حضرت شیر شاہ سوری بنگالے میں صاحب فراش تھے۔ لکھنوتی کی شہر پناہ کے باہر قلعہ دار چنتامنی گوڑ ایک تازہ دم گھوڑا اور بعض اچھی خبریں لیے موجود تھا۔ سب سے اچھی خبر یہ تھی کہ سلطان شیر شاہ صحت یاب ہو رہے ہیں، انہوں نے بستر سےاٹھ کر دالان میں ٹہلنا شروع کر دیا ہے۔ عیسی خان اس شخص چنتا منی کو دیکھ کر ہمیشہ خوش ہوتا تھا۔ وجہ شاید یہ تھی کہ قلعہ دار چنتا منی بے ضرورت کلام اور سلام نہیں کرتا تھا اور اچھی اور مفید بات پہنچانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا۔

    عیسیٰ خان نے اپنے رفیقوں کو قلعہ دار کی پرتکلف میزبانی کے حوالے کیا اور خود قلعہ دار کے بڑھائے ہوئے خوان سے ایک بڑا سرخ سیب اٹھا کر اسے اپنے مضبوط دانتوں سے کاٹتا، گھوڑے کو ایڑ دیتا شہر میں داخل ہو گیا۔ لکھنوتی آتے ہوئے اس کے ہمراہیوں میں سے کسی نے تجویز پیش کی تھی کہ اقامت گاہ سلطانی کے راستے میں کسی ترک زادے کا حمام ہے، اگر مسند عالی عیسی خان مناسب خیال فرمائیں تو ہم میں سے کوئی آگے بڑھ کر حمام تیار کرا دے۔ غسل کر کے تازہ دم ہو جائیےگا پھر اقامت گاہ سلطانی تشریف لے جائیے مگر عیسیٰ خان نے انکار کر دیا۔ وہ پہلے اقامت گاہ سلطانی پہنچ کر خود صدر الصدر حسن علی خان یا خادم خاص شناور غلزئی کی زبان سے یا اگر شہزادہ عادل خان سوری موجود ہوئے تو ان کی زبان سے سلطان والا جاہ کی خیریت سنےگا۔ غسل اور لباس کی تبدیلی اور کھانا پینا سب کچھ بعد میں ہوگا۔

    سنبھل کا حاکم مسند عالی عیسی خاں ککبور سروانی شیر شاہی دربار کا حجاب دار، میر توزک اور سلطان کا تبنول دار تھا۔ وہ سلطان کو دربار میں پان پیش کرتا تھا۔۔۔یہ خود اپنی جگہ ایک جلیل القدر اعزاز تھا۔ اسے پانچ ہزار سواروں کی سالاری اور اہل و عیال کی پرورش کے لیے دو پرگنے عطا ہوئے تھے۔ عیسی خان بلا کا شمشیر زن اور قیامت کا شاہسوار تھا۔

    عیسیٰ خان کو سلطنت کے پہلے ’وکیل‘ یا وزیر کا رتبہ ملا تھا جس کا وہ بجا طور پر اہل تھا۔ عزت مآب مہمانوں، سرداروں، والیوں، حاکموں، شاہوں کو روبکارئی سلطان میں پیش کرنا، ان کو ان کے مراتب سے دربار میں کرسی، نشست اور اعزاز فراہم کرنا، بہ وقت ضرورت خلعت و انعام و سند مہیا کرنا، عیسیٰ خان کے فرائض میں شامل تھا۔ سلطان اور مملکت کا وفادار رہنا عیسیٰ خان کے فرائض میں شامل تھا اور سلطان سے محبت کرنا بھی۔ مگر کسی سے محبت کرنا کسی کے فرائض میں کیسے شامل ہو سکتا ہے؟ عیسیٰ خان نے سن رکھا تھا کہ محبت کا درجہ فرض سے کہیں زیادہ رفیع اور محترم ہے۔ مگر عیسیٰ خان حجاب دار خود رفیع اور محترم تھا اور وہ اپنے بادشاہ سے محبت کرتا تھا۔

    شاید بہت دن تک درباروں سے وابستہ رہنے کی وجہ سے ایک کمزوری ضرور عیسیٰ خاں کے مزاج میں در آئی تھی۔ وہ محبت کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ جب سلطان کے لیے اس کی محبت ظاہر ہو تو وہ ان کے ملاحظے میں بھی آئے۔ اس کی تازگی و رعنائی ویرانے میں کھلتے پھول کی طرح ہوا کا رزق نہ بن جائے۔

    اسی لیے لکھنوتی میں داخل ہوتے ہوئے وہ گرد و غبار اور تھکن اور تشویش میں اٹا ہوا سیدھا اقامت گاہِ سلطانی جانا چاہتا تھا تاکہ شیر شاہ سوری کے قریب کے یہ تین آدمی، حسن علی خان، شناور غلزئی اور شہزادہ عادل اسے سلطان کی محبت میں پریشان مو دیکھ لیں۔ یا اگر، خدا اس کا خیال مبارک کرے، اگر سلطان والا جاہ کسی دریچے سے ایوان کے صحن میں نظر دوڑاتے ہوئے خود ملاحظہ کر لیں تو سبحان اللہ! اس کا یہ تکلیف دہ طولانی سفر با ثمر ہو جائے۔ قلعہ دار چنتا منی گوڑ نے یہ خبر بھی دی تھی کہ سلطان شیر شاہ نے فیصلہ کیا ہے کہ پرگنہ شاہ آباد کا گاؤں ناہ والی، جو تخت دہلی پر بیٹھنے کے بعد سلطان نےخود عیسیٰ خان کو بےطلب بخش دیا تھا، اب عیسیٰ خان سے لے کر شہزادہ عادل خان کو عطا کیا جائےگا۔

    یہ خبر سن کر عیسیٰ خان نے خود کو سمجھایا تھا کہ پنج ہزاری سالاری۔ سنبھل سرکار کی حاکمی، حجاب داری، تبنول داری، معتمدی اور سرداری کے ہوتے اور بال بچوں اور وابستگان کی پرورش کے لیے دو پرگنوں کی آمدنی کے موجود رہتے اس ایک گاؤں کے سند جاگیر سے نکل جانے سے کون سی قیامت آ جائےگی۔ نہیں، عیسیٰ خان کے مرتبے اور آمدنی میں ایک گاؤں کے چلے جانے سےکوئی کمی واقع نہ ہوگی۔ ہاں، احسان مندی کی ایک روایت جو شیر شاہ سوری نے ہندوستان کا تخت سنبھالتے ہی قائم کرنا چاہی تھی، درمیان سے کٹ جائےگی اور عیسیٰ خان جو شیر شاہی دربار کے دستور اور روایات کا پاسدار تھا، ایک روایت کے اس طرح منقطع ہو جانے سے اداس تھا۔

    عیسیٰ خان بڑے باپ کا بیٹا تھا مگر یہ بات وہ کھل کر نہیں کہہ سکتا تھا، اس لیے کہ شیر شاہ سوری کے دربارمیں اگر قبیلوں کے سرداروں کو شوکت اور عروج حاصل ہوا تھا تو خادموں خانہ زادوں کی اولاد بھی عالی مرتبت ہو گئی تھی اور وہ جو آبائی علاقے روہ میں حجروں سے اٹھتے وقت سرداروں، خان زادوں کی دستاریں دونوں ہاتھوں پر رکھ کر انہیں پیش کرتے تھے اور بدھنےبھر بھر کر انہیں وضو کراتے تھے اور ان کے مرکبوں کی راسیں تھامے کھڑے رہتے تھے، وہ آج قلمروِ ہند میں ان کے برابر بیٹھتے ہیں اور واللہ! ان کے قریب سے گھوڑا نکال لے جاتے ہیں۔ مسند عالی خواص خان کو دیکھو، سلطان کے خادم ملک سکھا کا بیٹا ہے۔ اللہ نے۔۔۔اور سلطان نے۔۔۔اسے کیا دبدبہ و شکوہ عطا کیا ہے۔

    یہ نہیں کہ میں کسی سے اس کے عروج کی وجہ سے حسد کرتا ہوں۔ مجھے میرے خدا نے اور میرے بادشاہ نے بہت دے رکھا ہے اور حسد وہ کرے جس نے شوکت و مرتبہ اس نسل کے سوا کبھی دیکھا نہ ہو۔ میں خان اعظم عمر خاں ککبور سروانی کا بیٹا ہوں، جسے شیرشاہ سے پہلے سلطان بہلول لودھی نےعزت و شہرت اور خطاب و جاگیر سے نوازا تھا۔ وہ میرا باپ مسند عالی عمر خان ہی تو تھا جس نے فرید خان سوری۔۔۔اس وقت سلطان شیر شاہ، فرید خان ہی تھے۔۔۔تو فرید خان سوری کے باپ میاں حسن خان کو شاہ آباد پر گنے کا یہ گاؤں ناہ والی جاگیر میں دیا تھا اور خود وہ میرا باپ خان اعظم عمر خان تھا جس نے بارہ سال کے لڑکے فرید خان کو اسی گاؤں میں بلہو نام کی مزرع عطا کی تھی اور کہا تھا کہ ابھی تو نو عمر ہے جب اپنی عمر کو پہنچےگا تو تجھے ملازمت بھی دوں گا اور تو کیوں کہ اس وقت اپنے باپ کے ساتھ آیا ہے اور ملازمت طلب کرتا ہے اس لیے تالیف قلب کے لیے بلہو کی یہ مزرع تجھے عطا کرتا ہوں۔

    اور چنتا منی گوڑ کہتا ہے کہ اب وہی گاؤں واپس لیا جا رہا ہے جو سلطان عادل شیرشاہ سوری نے تخت دلی پر متمکن ہوتے وقت بے طلب مجھے، اپنے محسن اور بخشندہ کے بیٹے کو بخش دیا تھا تاکہ احسان مندی کی ایک روایت سوری خانوادے سے جاری ہو اور ککبور سروانیوں کو تا قیامت یہ احساس گرم و سرشار رکھے کہ ہم نے کبھی سوری حسن خان کو یہی ناہ والی گاؤں از راہ پرورش عطا کیا تھا کس لیے کہ جب سوری ضرورت مند تھے۔ پھر ایک احسان شناس سوری شیر شاہ نے وہ گاؤں عیسیٰ خان ککبور سروانی کو جاگیر میں دے کر گویا احسان مندی کی ایک روایت کا آغاز کیا تھا اور افسوس وہ روایت اب منطقع ہونےکو ہے۔ قلعہ دار چنتا منی کہتا تھا۔۔۔

    اور یہاں قلعہ دار کے پیش کیے ہوئے گھوڑے نے ٹھو کر کھائی۔ عیسیٰ خان نےراسیں کھینچ لیں۔ گھوڑے سے اتر آیا اور رستہ چھوڑ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ گھوڑے کی راسیں دھول میں گرائے ہوئے پختہ عمر کا ایک روہیلہ سردار سڑک کے کنارے سر جھکائے کھڑا ہے۔ پناہ بہ خدا! کیا یہ عیسیٰ خان تھا جو اتنی پست سوچ سوچتا ہوا چلا آ رہا تھا؟ یہ سنبھل کا حاکم، سوری دربار کا حجاب دار، مملکت کا میر توزک، اپنے سلطان کا تبنول دار، کیا یہ پانچ ہزار شیر شاہی سواروں کا سالار ہے جو اتنی گراوٹ کے ساتھ، ایسی رسوا کن باتیں اور کم ظرف خیال پال رہا ہے؟ اور ناموس باختہ عورتوں کی طرح خیال ہی خیال میں اپنے رفیقوں پر طعنہ زنی کرتا اور منافقت سوچتا چلا آتا ہے؟ نہیں! عمر خان جنت مکانی کا بیٹا ایسی اتھلی باتیں کیسے سوچ سکتا ہے۔ تف ہے مجھ پر۔ نفریں ہے مجھ سوار پر اور لعنت اس نحوست آثار گھوڑے پر۔

    عیسیٰ خان نے ایک ٹھنڈے غصے میں لرزتے ہوئے زین کا تسمہ کھول کر، گھوڑے کا ساز اور زین اور زین پوش زمین پر گرا دیا اور اپنے نیام کو چوڑائی کے رخ سے جریب کی طرح گھوڑے کے پٹھے پر مارکر اسے بوجھ کھینچنے والے جانور کی طرح بازار کی طرف ہنکا دیا اور چیخ کر کہا، ’’تف ہے تجھ پر! تیری سواری نے مجھے عیسیٰ خان نہ رہنے دیا۔ او لعنتی جانور، تیری نصف ساعت کی رفاقت نے مجھے چوہے جیسا خودغرض اور کمینہ بنادیا۔ تف ہے تجھ پر!‘‘

    اور اس طرح چنتامنی گوڑ کے پیش کیے ہوئے گھوڑے کو بےآبرو کر کے سڑک پر ہنکا دینے کے بعد، سنبھل کا حاکم عیسیٰ خان ککبور سروانی، گرد اور خفت میں اٹا ہوا، خود اپنے احتساب سے نڈھال اقامت گاہ سلطانی کی طرف پیادہ پا روانہ ہو گیا۔

    مأخذ:

    برج خموشاں (Pg. 83)

    • مصنف: اسد محمد خاں
      • ناشر: سیفورٹین، کراچی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے