aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گرفت

MORE BYمحمد حمید شاہد

    ہم دو ہیں اور تیسرا کوئی نہیں۔

    اگر ہے بھی تو ہم نے اسے ذہن کی سلیٹ سے رگڑ رگڑ کر مٹا ڈالا ہے۔

    وہ میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے اور مجھے یوں لگتا ہے میرابدن اس موم کی طرح ہے جو شعلے کی آنچ سے اس قدر نرم ہو جائے کہ جدھر چاہو موڑ لو۔

    یہ شعلہ اس کے اندر بھی ہے اور میرے اندر بھی۔

    مگر حیرت ہے یہ شعلہ اس کے بدن کو تپا کر مزید سختی عطا کرتا ہے اور مجھے پگھلا تا چلا جاتا ہے۔

    یہی سختی اور نرماہٹ پھسلن کی شروعات ہو سکتی ہیں۔

    مجھے یقین ہے ‘ہمیں پھسلنے سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔

    ویسے ہم دو کے علاوہ ہے بھی کون‘ جو ہمیں بچا سکے۔

    اور اگر ہے بھی تو ہم نے اسے اپنے ذہن کی سلیٹ سے یوں رگڑ رگڑ کر مٹا ڈالا ہے کہ اس کا ہونا نہ ہونا ایک جیسا ہے۔

    مجھے خدشہ ہے یوں پھسل کر گرنے سے مجھے گومڑ نکل آئےگا۔

    ایسا گومڑ جو میری ساری رعنائی نچوڑ کے مجھے بدوضع کر دےگا۔

    یہ گومڑ پک کر پھٹ جائےگا تو مجھے بدبودار خون اور پیپ میں بھگو دےگا۔

    اور شاید اس قدر بھگو دے کہ دیکھنے والوں کو ابکائیاں آنے لگیں۔

    وہ کہتا ہے کہ چوٹ تو اسے بھی آ سکتی ہے۔

    مگر ‘میں جانتی ہوں وہ جھوٹ کہتا ہے۔

    اسے جھوٹا سمجھنے کی میرے پاس ٹھوس دلیل ہے۔

    وہ یہ کہ ہم جب بھی پھسلنے کو ہوتے ہیں میرا رخ زمین کی طرف اور اس کا رخ آسمان کی بہ جائے میری جانب ہوتا ہے مگر ہر باروہ پشت کے بل اوپر ہی کو اٹھتا ہے۔

    عجب واقعہ ہے کہ وہ آسمان کو آنکھ بھر کر دیکھنے سے گریز کرتا ہے اور نظر مجھ پر ہی جمائے رکھتا ہے۔

    جس روز بھولے سے بھی اس کی نظر آسمان پر پڑ جائے اس کے ہونٹوں پر لفظ پیڑی کی صورت جم جاتے ہیں۔

    مجھے حیرت ہوتی ہے؛ کیا یہ وہی الفاظ ہیں جو اس کے ہونٹوں سے پھسل پھسل کر پھسلن بناتے رہے ہیں؟ ایسی پھسلن کہ میں نہ چاہتے ہوے بھی اس پر لڑھکتی رہی ہوں۔

    ہاں‘ پھسلن کی وجہ اس کے ہونٹوں سے پھسلنے والے لجلجے الفاظ بھی ہو سکتے ہیں۔

    کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ گفتگو کو میں ہی ابتدا دیتی ہوں۔

    مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے۔

    اتنا کم کہ انگلیوں پر گن سکتی ہوں۔

    انگلیوں پر گننا مجھے اچھا لگتا ہے۔

    مگر بار بار دو تک گننے سے مجھے جھنجھلاہٹ ہونے لگتی ہے۔

    میں اسے کہتی ہوں:

    ’’آؤ ‘پھسلتے پھسلتے وہاں ان ٹھنڈے میٹھے چشموں تک جا پہنچیں جن کا متبرک پانی ہمارے بدنوں سے بانجھ مشقتوں کو دھوکر انہیں زرخیز کر دے گا پھر نئے پھو ل اگیں گے۔ ایسے پھول‘ جن کی مہک خدشوں کی دلدل کو ڈھانپ لےگی۔‘‘

    وہ یہ سن کر بپھر جاتا ہے۔

    اور میری ان انگلیوں کو جنہیں دو تک گنتی ازبر ہو چکی ہے ‘ان انگلیوں سمیت جو گنتی کے عمل سے ہی ناآشنا ہیں‘ سختی سے اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔

    عجب سختی ہے جو انگلیوں سے ہتھیلی اور ہتھیلی سے بدن میں نرماہٹ اتارتی چلی جاتی ہے۔

    میری ماں کہتی تھی۔

    ’’عورت پیدا ہوتے ہی آدھی زمین میں دفن ہو جاتی ہے اور زمین میں دفن ہونے والی ‘باہر رہ جانے والی کو ساری عمر اپنی گرفت میں لینے کے جتن کرتی ہے۔‘‘

    ماں کی بات مجھے یوں یاد آئی کہ پھسل کر گرتے وقت وہ کشش ثقل سے آزاد ہو جاتا ہے اور مجھے کوئی نیچے بہت نیچے کھینچتا چلا جاتا۔

    شاید یہ وہی میرے بدن کا حصہ‘ آدھی عورت ہے جس کی بابت ماں نے بتایا تھا۔

    مجھے اس وقت ماں کی باتوں پر ہنسی آتی تھی ‘جب کہ اب میں الجھن پڑ جاتی ہوں۔

    میری ہنسی کی سنہری مچھلی نے الجھن کا کانٹا اس روز نگلا تھا جب مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ میں اس علاقے میں داخل ہو چکی ہوں جہاں پھسلن ہی پھسلن ہے۔

    دراصل میں پہلے پہل خلوص دل سے سمجھتی تھی کہ میری ماں ناسمجھ ہے۔

    مگر جب سے وہ یہ کہنے لگا ہے کہ ساری ہی لڑکیاں ناسمجھ ہوتی ہیں‘ مجھے اپنی ماں کی باتیں یاد کر کے ہنسی نہیں آتی۔

    اب مجھے پہلے پہل کی اپنی بے جا ہنسی پر دکھ ہوتا ہے۔

    ہمارے گھر کے صحن میں ایک برگد اگا ہوا ہے۔

    مجھے یاد ہے یہ اس وقت بھی تھا جب بان کی کھری چارپائی پر لیٹے ایک شخص کو سفید میلی چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔

    میں نے ماں کو پہلی مرتبہ دوہتڑ سینے پر مارتے ‘بال نوچتے اور دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا تھا۔

    مجھے حیرت ہوئی تھی کہ وہ تو چپکے چپکے رونے کی عادی تھی‘ یوں کہ سینے کے اندر کچھ ہوتا رہتا جس کی دھمک بہ مشکل مجھ تک پہنچ پاتی تھی۔ ہونٹ دانتوں تلے دبے ہوتے اور آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔ مگر یوں منھ کھول کر روتے اور ہاتھ لہرا لہرا کر بین کرتے میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔

    میں نے بےاختیاری میں اس کے چہرے سے چادر الٹ دی تھی۔

    اجنبی‘ بالکل اجنبی چہرہ؛ سخت یوں جیسے پتھر سے تراشا گیا ہو۔

    اس اجنبی شخص کو‘ کہ جسے میں نہ جانتی تھی اور جس کے لیے میری ماں دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی‘ صبح ہی صبح‘ صحن میں بچھی کھری چارپائی پر ڈال دیا گیا تھا۔

    میری آنکھ اس وقت کھلی جب میری ماں بوکھلا کر میرے پہلو سے اٹھی تھی اور اس کے سینے کی دھمک دانتوں تلے دبے ہونٹوں سے شراٹے بھرتی نکلی تھی۔

    پھر میری ماں نے میرے نیچے بچھی چادر کوا س قدر تیزی سے کھینچا تھا کہ میں لڑھکتی پرے جا پڑی تھی۔

    ماں نے مجھے نہیں سنبھالا تھا حالاں کہ وہ میرا بہت خیال رکھتی تھی۔

    جب وہ بھاگ کر صحن میں بچھی چارپائی تک پہنچی تھی تو اس نے ادھر ادھر دیکھے بغیر چادر کو پھیلا کر اس شخص کے بدن پر ڈال دیا تھا۔

    ایسا کرکے ماں نے اپنے ہاتھوں کی ساری چوڑیاں توڑ ڈالی تھیں۔ بال کھول لیے تھے اور ماتھا چارپائی کے پائے سے ٹکرا ٹکرا کر زخمی کر لیا تھا۔

    مجھے ماں کے رویے پر حیرت ہوئی تھی۔

    میں بہت کچھ پوچھنا چاہتی تھی مگر جلد ہی اس کی لمبی چیخیں ‘لمبی چپ نے نگل لیں۔

    اور لمبی چپ اسے تب لگی جب اس نے یوں ہی روتے دھوتے لمحہ بھر کو نظر بھر کو مجھے دیکھا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ خود بھی چپ کی چادر اوڑھ کر بےسدھ برگد تلے بچھی کھری چارپائی پر لیٹ گئی۔

    مجھ پر حیرت در حیرت کی جمتی تہیں سل کی طرح ہو گئیں۔

    حیرت کی سل اس روز تڑخ کر ٹوٹ گئی جب اس شخص نے میرے لیے لجلجے لفظ اگلے تھے جن کی وجہ سے چاروں طرف پھسلن ہوتی جا رہی تھی۔

    میں نے اس کا چہرہ غور سے دیکھا تھا۔ بالکل وہی چہرہ تھا۔ پتھر سے تراشا ہوا۔

    وہی جو بہت پہلے اپنے گھر کے صحن میں برگد تلے دیکھا تھا۔

    اور جس کے سرہانے میری ماں نے بین کیے تھے ‘چوڑیاں توڑ ڈالی تھیں اور سینے میں دفن دکھوں کو سسکیوں سے چیخوں میں ڈھلنے دیا تھا۔

    گھر کے صحن میں اب بس وہی برگد کا درخت ہے اورمیں ہوں۔

    وہ چہرہ ‘جو پتھر سے تراشا گیا ہے فقط میری سوچوں میں ہے۔

    محض اس کا چہرہ ہی پتھریلا نہیں اس کا سارا بدن پہاڑوں جیسا ہے۔

    ایسا پہاڑ جس کے اندر آتش فشاں کھول رہا ہے اور جس نے اپنا دہانہ کھول دیا ہے جہاں سے لفظوں کا لاوا نکلتا ہے۔ یہی لجلجا اور گرم گرم لاوا مجھے آن کی آن میں پگھلا دیتا ہے۔

    اوپر کو اچھلتا کودتا۔

    اس کا پہاڑوں جیسا بدن اپنے ہی لاوے کا جزو بن کر اوپر ہی اوپر اچھلتا رہا اور میں روز بہ روز زمین کی طرف گرتی چلی گئی۔

    مجھے وہی گومڑ بھی نکل آیا ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔

    وہ قہقہے لگاتا رہا اور کہتا رہاکہ اسے بھی تو چوٹ لگ سکتی ہے۔

    مگر میں شروع ہی سے جانتی ہوں‘ وہ جھوٹ بولتا ہے۔

    اب جب کہ میں عین برگد تلے کھڑی ہوں مجھے اپنی ماں خوش نصیب لگنے لگی ہے۔

    اس نے پتھر جیسا چہرہ اپنے سامنے بے بس پڑے دیکھا تھا۔

    اس پر آنسو بہائے تھے اور بین کئے تھے۔

    کاش میں بھی اتنی خوش بخت ہوتی۔

    مجھے تو وہ ساری آوازیں سننی پڑ رہی ہیں جو گھر کے دروازے پر بڑھتی چلی جاتی ہیں۔

    مجھے خبر ہے وہاں ایک نہیں پتھر جیسے چہروں والے کئی ہیں۔

    وہ بھی ان ہی میں ایک ہے۔ ان سب کے بیچ اپنی پہچان کھونے والا۔

    ان سب کو میرے گومڑ نے مشتعل کر رکھا ہے۔

    ابھی میرا گومڑ نہیں پھٹا۔

    مگر انہیں خدشہ ہے کہ اگر وہ پھٹ گیا تو ان سب کے گھر اور گلیاں خون اور پیپ سے لت پت ہو جائیں گے۔

    دروازہ ٹوٹ چکا ہے۔

    اب وہ مجھے دھکیلتے ہوے شہر سے باہر لے جارہے ہیں۔

    میں گرتے پڑتے ان کے آگے آگے بھاگ رہی ہوں اور وہاں پہنچ جاتی ہوں جہاں پھسلن ہے۔

    مجھے حیرت ہوتی ہے۔ پتھر چہروں والے سارے مرد ‘کہ جن کے ہاتھوں میں بھی پتھر ہیں‘ پھسلنا شروع ہو گئے ہیں۔

    ان میں سے کسی ایک کو بھی چوٹ نہیں لگ رہی اور مجھے اس پر تعجب نہیں ہو رہا۔

    میں اپنے گومڑ کو دیکھتی ہوں اور ان کے پھسلتے اور اچھلتے بدنوں کو دیکھتی ہوں۔

    پھر اس تضاد پر زور زور سے قہقہے لگاتی ہوں اور اس کے لیے بانہیں کھول دیتی ہوں جو میرے پیدا ہوتے ہی مجھے اپنی گرفت میں لینے کے جتن کر رہی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے