Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گوپی ساہو کی دکان

اننت پرساد پانڈا

گوپی ساہو کی دکان

اننت پرساد پانڈا

MORE BYاننت پرساد پانڈا

    یگ یگ سے سڑک کے پاس بہت پرانا اور گھنا برگد کاوہ پیڑ اس طرح کھڑا ہوا ہے۔۔۔ پیڑ کی جڑیں نہ جانے کب سے غار منا میں سما چکی ہیں لیکن اسے زندہ رکھ چھوڑا ہے اس کی چار چھ موٹی موٹی لٹوں نے جو مٹی میں داخل ہوکر جڑ کا کام کر لیتی ہیں۔

    پیڑ اپنے جنم سے اب تک زمانے کے نہ جانے کتنے تغیرات کا مشاہدہ کرتا آ رہا ہے۔ جب اس کا جنم ہوا تھا اس وقت یہاں ایسی پختہ سڑک نہیں تھی، کوئی کچا راستہ تک نہ تھا۔ صرف ایک آڑی ترچھی پگڈنڈی اس علاقے سے گزرتی تھی اور کسی نیک دل نے اس جگہ یہ درخت لگا دیا تھا۔ اسے لگاکر اس بھلے مانس کی نجات ہوئی یا نہیں، کون جانے۔ شاید موجودہ جدید عہد کے نوجوان لڑکے لڑکیاں اس کے اس اندھے اعتقاد پر ہنسیں لیکن اس میں شک نہیں کہ اس کا یہ عمل خدمت خلق کے اعلی اصولوں پر مبنی تھا۔ جوبھی ہو، وہ پیڑ آج تک کھڑا ہے۔ ان گنت تھکے ماندے راہ گیروں نے اس کے نیچے پناہ لے کر بیساکھ کی جھلسا دینے والی دھوپ سے اپنے آپ کو محفوظ کیا ہے۔ اس کا حساب کون بتائے۔

    وہ برگد اسی طرح کھڑا ہوا تغیرات زمانہ کا نظارہ کر رہا ہے۔ جب اس ٹیڑھی ترچھی پگڈنڈی کی جگہ وہاں ایک غبار آلود کچی سڑک تیار ہوئی تو سیکڑوں بیل گاڑیاں اس پر سے گزرنے لگیں۔ اس وقت بھی وہ برگد گاڑی بان کی پناہ گاہ تھا۔ بیساکھ کی گرم لو، چلچلاتی دھوپ ناقابل برداشت ہو جاتی تو گاڑی بان اس برگد کے نیچے گاڑی کھول کر، بیلوں کوپیڑ سے باندھ کر، اس کے سائے میں انگوچھا بچھاکر سو جاتا اور اس کا دل لامحدود طمانیت سے لبریز ہو جاتا۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ یہ پیڑ راہ گیروں اور گاڑی بانوں کو دھوپ اور گرمی سے محفوظ رکھتا ہے، پوس کی ہڈیوں کو ٹھٹھرا دینے والی سردی سے بھی ان کی حفاظت کرتا ہے۔ جب سرد راتوں میں گاڑی بانوں کے ہاتھ پاؤں اکڑنے لگتے تو وہ اسی برگد کے تلے گاڑی کھول کر الاؤ جلاکر اور چٹائی اوڑھ کر لیٹ جاتے ہیں۔

    راہ گیروں کو، بطور خاص گاڑی بانوں کو کھانے پینے کی چیزیں فراہم کرنے کے لیے حلوائی گوپی ساہو نے اس برگد کے تلے اپنی چھوٹی سی دکان کھولی تھی۔ اس کی دکان برگد کی دو بڑی لٹوں کے درمیان مٹی اور بانس سے بنائی گئی تھی۔ جب گوپی ساہو نے یہ دکان کھولی تھی، اس کی عمر بمشکل بیس پچیس سال کی ہوگی۔ اس کی دکان میں چاول سبزی سے لے کر ہانڈیاں، لکڑی، تیل، نمک وغیرہ سبھی چیزیں بکتی تھیں۔ مرمرے، چوڑے اور گڑکی کمی بھی نہیں تھی۔

    دوپہر یا شام کو جوگاڑی بان آرام کی غرض سے وہاں ٹھہر جاتے، وہ گوپی ساہو کی دکان سے چاول، سبزی، ہنڈیا، لکڑی وغیرہ خرید کر برگد کے نیچے ایک گڑھا کھود کر، دوچار بڑے پتھروں کے ٹکڑوں کی مدد سے بھات پکا لیتے۔ دن ڈھلنے پر، یاصبح تڑکے اٹھ کرجب وہ گاڑی جوت کر چلنے لگتے تو گوپی ساہو سے مرمرے، چوڑا، گڑ تمباکو وغیرہ لے کر انگوچھے میں باندھ لیتے اور اوپندر بھنج یا سوریہ کوی کے رسیلے گیتوں کا ایک آدھ مصرع گاتے گنگناتے چلے جاتے۔ گوپی ساہو کو دو پیسے بآسانی مل جاتے۔

    اس طرح کچھ دن گزر گئے۔ بعدازاں ضلع بورڈ کے کنٹریکٹر اور انجینئر وغیرہ نے آکر اس کچے راستے کی پیمائش کی۔ دریافت کرنے پر گوپی ساہو کو معلوم ہوا کہ سرکار اس راستے کو پختہ کر رہی ہے۔ گوپی کی قسمت اور چمک گئی۔ بےشمار قلی اور مزدوروں نے کام کیا۔ کچھ دن تک گوپی ساہو کو بہت زیادہ منافع ہوا۔ اس نے اپنی مٹی کی کٹیا توڑکر دو کمروں کا پختہ مکان بنا لیا اور دکان کے ساتھ چائے کافی کا ایک ہوٹل بھی شامل کر دیا۔

    اس وقت گوپی کی عمر تیس یا چالیس سال کی ہو گئی تھی۔ اتنے عرصے تک اس نے سوچا ہی نہ تھا لیکن دکان کی ترقی اور ہاتھ میں پیسہ آنے کی وجہ سے اسے ایک کمی محسوس ہونے لگی۔ اسے لگا جیسے وہ اس وسیع دنیا میں بالکل اکیلا ہے۔ دن بھر دکان پر بیٹھنے کے بعد جب وہ رات کو کھانا پکانے لگتا یا کھاکر آدھی رات کو اپنی چھوٹی سی پلنگ پر گدڑی بچھاکر سونے جاتا تو اسے اس کمی کا شدید احساس ہوتا۔ گوپی سوچتا کہ گھر میں بیاہ کر بہولے آئے تواسے بےحدآرام ملےگا۔ چونکہ پیسوں کی کمی نہ تھی، اس لیے لڑکی ملنے میں دیر بھی نہیں لگی۔ تھوڑے ہی دنوں میں نئی بہو نے گوپی کی تنہا زندگی کا خلا بھر دیا۔

    آب رواں کی طرح وقت گزرتا رہا۔ ایک کے بعد دوسرا دن۔ گوپی کو محسوس ہوا جیسے دنیا لطیف ونشاط کی تماش گاہ ہے۔ اول اول نئی دلہن گھونگھٹ نکال کر دکان کے اندرونی حصے میں بیٹھی رہتی لیکن بتدریج اس کی شرم دور ہو گئی اور وہ دکان کی مالکن بن گئی۔ گوپی اس کا غلام ہو گیا لیکن اس کے دل پر ذرا بھی میل نہ آیا۔ اسے کوئی افسوس نہ ہوا بلکہ وہ فرط مسرت سے جھوم اٹھتا تھا۔ جب تھوڑے بہت روپے جمع ہو جاتے، وہ بیوی کے لیے کر دھنی، نتھ، کنڈلی وغیرہ کوئی زیور بنوا دیتا۔

    اس طرح دو چار سال گزار دینے کے بعد گوپی اور اس کی بیوی نے محسوس کیا کہ ایک نئی کمی اور ہے۔ گوپی کی بیوی کو ایک بچے کی خواہش ہوئی۔ اس کے لیے میاں بیوی نے کھلے دل کے ساتھ دان کیا۔ لڈو بابا کے مندر میں کئی بارپوجا پاٹ کرائی، گادی گوسائیں سے کتنی منتیں مانیں، گاؤں کی دیوی باسولیئی کے سامنے ایک کالے بکرے اور دو کالی مرغیوں کی نذر گزاری۔ گاؤں کے اعتقاد کا ہر کام کیا۔

    باسولیئی کی مہربانی سے ہو یا بابا کی کرامات سے، ششٹی دیوی نے گوپی کی بیوی پر کرم کیا، مبارک ساعت میں گوپی کے ہاں ایک لڑکی ہوئی۔ میاں بیوی مسرت سے لبریز ہو گئے۔ نومولود لڑکی کی طویل عمر کے لیے بوڑھی باسولیئی کو بکری کے دوبے داغ بچوں کی نذردی گئی، لڈو بابا کی بھی کافی پوجاپاٹ کی گئی۔ قادر مطلق کی رحمت کا خزانہ شاید چھلک رہا تھا۔ دوسرے سال کارتک مہینے میں پھر ایک لڑکی ہوئی، اس طرح پانچ سالوں میں پانچ لڑکیوں کی پیدائش سے جب ساہوکارن پانچ بچوں کی ماں بن گئی تو اس نے شوہر کو بلاکر رنج کے ساتھ کہا، کیا بھگوان بالکل نا سمجھ ہے؟ ہر سال لڑکیاں ہی کیوں پیدا کرتا ہے، جوبھی ہو آخر ہیں تو پرائے گھر کی۔ کاش ایک لڑکا ہوتا!

    ساہو خاندان نے دوبارہ ایک کمی کا کرب محسوس کیا۔ ایک اولاد نرینہ کی مراد لے کر گوپی نے اس مرتبہ باسولیئی کو دو کالے بکرے اور دو کالے مرغ نذر گزارے۔ دیوی خوش ہو گئی۔ پانچ لڑکیوں کے بعد ساہو کے گھر میں لڑکے نے جنم لیا۔ ان کی مسرتوں کی حد نہ رہی۔ اب بیٹے کی سلامتی کے لیے باسولیئی سے لے کر بڑی دیوی تارا تارنی تک بھینسے اور دو کالے بکروں کی بھینٹ چڑھائی گئی۔

    اس اثنا میں سڑک کی تعمیر کا کام ختم ہو گیا ہے۔ گوپی ساہو کی دکان کے سامنے کی وہ دھول گرد والی کچی سڑک اب پختہ سڑک میں تبدیل ہو گئی ہے، قلی مزدور بھی وہاں سے چلے گئے ہیں۔ گوپی ساہو کی دکان کی آمدنی بھی کم ہو گئی لیکن اب ایک پیٹ کی جگہ آٹھ پیٹ ہو گئے ہیں پھر بچوں کی بہتری کے لیے آئے دن پوجا پاٹ، تیج تیوہار، قربانیاں وغیرہ میں نہ جانے کتنا کچھ خرچ ہو جاتا ہے۔

    لیکن نشے کی جھونک میں ساہو خاندان نے اس جانب کوئی توجہ نہیں کی۔ پھر بھی گاڑی بانوں سے دو چار پیسوں کی جو آمدنی ہوتی، گوپی کسی طرح کھینچ تان کر اسی میں کام چلا لیتا۔ کچھ دن بعد دو لڑکیوں کی شادی ہو گئی۔ ساہوکارن کی ضد تھی کہ شادی ذرا ٹھاٹ باٹ کے ساتھ ہو، گوپی ساہو نے مجبوراً ساہوکار سے کچھ قرض لے کر کام چلایا، پاس پڑوس اورذات برادری والوں کی اس نے شاندار دعوت کی۔ سب نے بہت تعریف کی۔

    ایک دن صبح گوپی ساہو دکان کے برآمدے میں بیٹھا داتن کر رہا تھا کہ اسے گھوگھو کی آواز سنائی دی۔ گھروں کے اندرسے بچے بڑے سب باہر دوڑ آئے۔ ساہوکارن بھی گھر کا کام کاج چھوڑکر باہر نکل آئی۔ گوپی نے دیکھا ایک مشین گاڑی چلی آ رہی ہے پوں پوں کرتی ہوئی۔ تقریباً بیس پچیس مسافر تھے۔ گوپی نے سوچا اس کی قسمت یاور ہے۔ اتنے آدمی اگر بیک وقت ایک ایک پیسے کی چیز بھی خریدتے ہیں تو پانچ سات آنے کی بکری ایک ہی بار میں ہو جائےگی۔ ساہو فوراً دکان پر پہنچنے کو تیار ہوا لیکن جب مشین گاڑی اس کی دکان پر ایک نگاہ ڈالے بغیر ہی دھول اڑاتی ہوئی آگے بڑھ گئی تو غیرشعوری طور پر اس کی چھاتی میں دھمک پیدا کرتے ہوئے ناامیدی کی طویل سانس نکل گئی۔

    گوپی نے سوچا ابھی صبح ہے، اس لیے گاڑی چلی گئی ہے لیکن دوپہر کی تپتی ہوئی دھوپ میں یارات کے اندھیرے میں یقیناً اس پیڑ کے نیچے اسے آرام کے لیے رکنا ہوگا۔ اس وقت ضرور ہنڈیا، ایندھن، چاول وغیرہ کی عمدہ بکری ہوگی لیکن دوپہر میں جو مشین گاڑی آئی وہ اس جھلسا دینے والی دھوپ سے لاپرواہ گوپی ساہو کی دکان پر نظر ڈالے بغیر یا اتنے زمانے سے پناہ دینے والے اس قدیم برگد سے چشم پوشی کرکے دوڑتی ہوئی نکل گئی، جیسے کوئی سنگدل عفریت ہو۔ گوپی کا نخل امید مر جھا گیا۔ شام کو بھی مشین گاڑی آئی لیکن رکی نہیں۔

    گوپی نے سوچا مشین گاڑی آدمی ہی تو ڈھو رہی ہے، مال اسباب تو بیل گاڑی سے ہی جائےگا لیکن گوپی کی اس امید پر ضرب کاری لگاکر جس دن مال ڈھونے والی گاڑی اس سڑک پر دوڑتی ہوئی نکل گئی توگوپی کا گویا دل ٹوٹ گیا۔ بیل گاڑی یا بھینساگاڑی کی تعدادمیں کمی ہوتی گئی۔ گوپی کی آمدنی بالکل گر گئی لیکن خرچ بڑھ گیا تھا۔ گوپی نے افلاس کی شدید ضرب کو محسوس کیا۔

    گوپی نے باقی ماندہ تین لڑکیوں کی شادی کے لیے ساہوکار سے کچھ اور قرض لیا۔ غریبی اور مصیبت کے باعث گوپی اوراس کی بیوی علیل رہنے لگے۔ لڑکا بھی قلت غذا کے باعث سوکھے کا شکار ہو گیا۔ گاؤں میں چیچک پھیلی، لاتعداد آدمی مر گئے۔ ایک دن اچانک گوپی ساہو کے لڑکے کو چیچک نے آ لیا۔ بوڑھے کا جسم اور دل دونوں ٹوٹ گئے۔ بچے کھچے زیورات کو فروخت کرکے بیٹے کی سلامتی کے یے باسولیئی دیوی پر کالے بکرے اور کالے مرغ کی بھینٹ چڑھائی لیکن اس مرتبہ نہ جانے کیوں دیوی نے نگاہ کرم نہ کی۔ لڑکا چل بسا۔

    اس کے بعد بوڑھے کو چیچک نکل آئی۔ جسم میں سوئی رکھنے کی جگہ بھی باقی نہ رہ گئی پھر بھی بوڑھے کو رنج نہیں، اس کی ایک ہی فریاد ہے، ’’اے باسولیئی دیوی! میرا بیٹا تونے لے لیا، مجھے بھی مہربانی کرکے اٹھا لے۔‘‘ لیکن بوڑھے کی یہ دلدوز فریاد دیوی کے سخت دل کو متاثر نہ کر سکی۔ بوڑھا پڑے پڑے ٹھیک ہو گیا، لیکن اپنی دونوں آنکھوں سے معذور ہو گیا۔ ابھی سنبھالا لینا شروع بھی نہ کیا تھا کہ مہاجن نے عدالت میں نالش کر دی اور بوڑھے بڑھیا کو گھر سے بے گھر کر دیا نیز جو کانسے وغیرہ کے برتن تھے انہیں نیلام کرواکر اپنے روپے لے لیے۔

    بےگھر بوڑھا، بڑھیا کے ساتھ اسی برگد کے نیچے ایک کٹیا میں پڑا رہتا۔ دن میں موٹر بس وغیرہ کے گزرنے کا وقت ہوتا، بوڑھی بوڑھے کا ہاتھ تھام کر لے جاتی اور راستے کے کنارے پہنچ کر کہتی، ’’ہاتھ بڑھاکر ایک آدھ پیسہ مانگ۔ کتنی بسیں جاتی ہیں۔‘‘لیکن بوڑھے کا منہ نہیں کھلتا۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بسیں ہی اس کی درگت کا سبب ہیں۔ غصے اور غیرت سے اس کی دھنسی ہوئی بے نور آنکھوں سے جلتے ہوئے آنسوؤں کی دو دھاریں بہنے لگتیں۔

    مأخذ:

    اڑیا افسانے (Pg. 55)

      • ناشر: نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1980

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے