Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گلاں کی سرگوشیاں

رفاقت حیات

گلاں کی سرگوشیاں

رفاقت حیات

MORE BYرفاقت حیات

    پچھلی چوری کو اکیالیس دن گزر چکے تھے۔ اس کی ملامت ابھی تک جیون کے دل میں اٹکی ہوئی تھی۔ کبھی کبھار وہ اسے محسوس کر لیتا تھا اور ٹھنڈی آہ بھر کے رہ جاتا تھا۔

    پچھلی مرتبہ وہ چھٹی کی رات گھر میں لیٹا ہوا تھا۔ اس کی نئی نویلی، کالی کلوٹی اور کم سن بیوی، اس کی بالوں سے اٹی چھاتی میں ہاتھ پھیر رہی تھی۔

    آسمان پر آخری دنوں کا چاند تھا۔ گھر میں اور گلی میں جھینگر کا شور تھا۔ بیچ بیچ میں دور سے آتی بھیڑیے اور گیدڑ کی کرلاٹ تھی۔ صحن میں ہوا کے جھونکے تھے اور وہ دونوں۔

    اس نے گلاں کو اپنی طرف کھینچا تھا۔ اس کے ہونٹوں کو چوما اور سینے کو دبایا تھا۔

    وہ کسمساتی ہوئی اس کی چھاتی سے چمٹ گئی تھی اور تھوڑی دیر بعد اس نے جیون کے کان میں پانچویں سرگوشی کی تھی۔

    وہ بےہودگی سے ہنسا تھا اور اس نے گال پر کاٹتے ہوئے انگوٹھی خرید لانے کا وعدہ کر لیا تھا۔

    کل رات آسمان پر چاند نہیں تھا۔ بھیڑیے اور گیدڑ کی کر لاٹ قریب سے سنائی دے رہی تھی اور ہوا بالکل بند تھی۔

    وہ دونوں کھاٹ پر لیٹے ہوئے تھے۔

    گلاں نے ہنسی دباتے ہوئے سرگوشی کی۔

    جیون نے قہقہہ لگایا اور پیار سے چھاتی پر کاٹتے ہوئے پازیب خریدنے کا وعدہ کیا۔

    وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس مرتبہ بھی کپاس کی گانٹھ چرائے۔ اس کے عوض آسانی سے کوٹ بنگلے کے بہترین زرگر وادھولال سے سونے کی پازیب بنوائی جا سکتی تھی۔

    چلچلاتی دھوپ میں وہ گھر سے نکلا۔ کاندھے پر کلہاڑی تھی اور ہاتھ میں نائیلون کی نیلی رسی۔ اس نے ویران گلی کے دونوں طرف دیکھا اور دروازے کی کنڈی چڑھائی۔ دھوپ کی حدت نے لوہے کی کنڈی کو تاپ دیا تھا۔

    داہنی طرف سڑک تھی اور بائیں جانب ریت کے ٹیلے۔ اس نے رومال کو سر پر باندھا اور اس کے باقی ماندہ حصے میں چہرے کو چھپایا اور ریت کے ٹیلوں کی طرف چل پڑا۔

    گلی سے نکل کر اسے لو کی شدت کا اندازہ ہوا۔ ریت سے اٹھتی گرم لہریں شیشے کی لرزتی کانپتی فصیل کی طرح نظر آ رہی تھیں۔

    پہلے چپل سلگی، پھر اس کے پاؤں جلنے لگے اور اس کے بعد سارا بدن۔ لیکن وہ ریت پر بنے ہوئے نشانوں سے مختلف اپنے قدموں کے نشان بناتا رہا۔ اس کی رفتار کم تھی اور اس کی نگاہ زیادہ دور تک کام نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے موٹے پاؤں بار بار ریت میں دھنس جاتے اور اس کی بہت سی قوت انہیں نکالنے میں صرف ہو جاتی۔

    وہاں کوئی درخت نہیں تھا اور نہ ہی سبز پودا۔ اکا دکا سوکھی جھاڑیاں تھیں اس نے سوچا! ’’کاش یہاں ایک گھنا جنگل ہوتا!‘‘ اس نے چھاؤں کو محسوس کیا اور ہوا کے ٹھنڈے جھونکوں کو اور لمبا سانس بھر کے رہ گیا۔

    اس بار بھی اس کے دل میں گلاں کے لیئے عناد نہیں تھا۔ گرچہ وہ بارہا اس کی خاطر عزت اور نوکری داؤ پر لگا چکا تھا۔ وہ اس کے لیے کسی بھی حد سے گزر سکتا تھا۔ کیونکہ وہ اس کے لیے تین وقت کی روٹی پکاتی تھی۔ اس کی قمیض پر ٹوٹے ہوئے بٹن ٹانکتی تھی اور ہر شب کو اس کا سارا اضطراب چوس لیتی تھی۔

    کلہاڑی کندھے پر زخم کرتی محسوس ہوئی تو اس نے اسے اتار لیا۔ چمکتے ہوئے پھل کو غور سے دیکھا۔ اور اسے ہاتھ میں پکڑ کر چلنے لگا۔

    اسے پیاری گلاں کی یاد آئی۔ اس نے سوچا کہ وہ رنگین چادر والے بستر پر سو رہی ہوگی۔ اس کے کالے پاؤں میں سنہری پازیب کتنی جچےگی۔ پوری گلی میں دھوم مچ جائےگی۔ وہ مسکرایا۔

    دھلے ہوئے پیروں کو چومنے کا خیال اس کی رگوں میں سرسرایا۔ اس نے کبھی انہیں چھواتک نہیں تھا۔ اسی وقت گھر پہنچ کر سجدہ ریز ہونے کی خواہش کو اس نے دبایا اور چلتا رہا۔

    ٹیلوں پر چھوٹی موٹی لکڑیاں بکھری نظر آئیں۔ وہ اس کے لیے بے کار تھیں۔ بعض جگہوں پر وہ جانوروں کی ہڈیاں دیکھ کر ٹھہر گیا۔ وہ مرے ہوئے اونٹوں کے ڈھانچے تھے۔ اسے ان کا مصرف نہیں سوجھ سکا۔

    ایک لمحے کے لیے اسے شدید گرم دن میں طویل مسافت اور کوٹ بنگلے کے بازار میں خواری کی مہم حماقت پر مبنی محسوس ہوئی۔ لیکن اسے گلاں کی سرگوشی یاد آ گئی اور اس نے سفر کو جاری رکھا۔

    ٹیلے ختم ہوئے تو پتھریلا راستہ شروع ہو گیا۔

    آڑے ترچھے پتھروں پر چلنا مشکل تھا۔ وہ غور سے نیچے دیکھتا تیزی سے چلنے کی کوشش کرتا رہا۔

    تھوڑے فاصلے پر آم کا باغ تھا۔ وہ باغ کے گرد مٹی کی دیوار کے مختصر سائے میں سستانے لگا۔ اس کا جسم پسینے میں بھیگا تھا۔ وہ رومال سے چہرہ صاف کرتا رہا۔

    وہ آم کے باغ میں نہیں گھسا۔ دیوار کے ساتھ نیچے اترنے والے راستے پر چلنے لگا۔

    ذرا سا دور کھجور کا باغ تھا۔ زمین پر درختوں کے سائے اک دو سرے میں الجھے تھے۔

    اب میر واہ نزدیک تھی۔ آم کا باغ پیچھے رہ گیا۔ مٹی کی دیوار غائب ہو گئی اور کھجور کا باغ داہنی طرف مڑ گیا۔

    اس نے پانی کے بہنے کی آواز کو سنا اور فضا میں چڑیوں اور ابابیلوں کو اڑتے ہوئے دیکھا۔

    تھوریلی زمین کا قطعہ عبور کر کے وہ میر واہ کے کنارے پہنچ گیا۔

    اس نے کلہاڑی اور رسی پھینکی۔ چپلیں اتار کر نہر کے پانی پر جھک گیا۔ وہ اپنی اوک سے گھونٹ بھرتا رہا۔ اس نے اپنے سر کو اچھی طرح دھویا اور چہرے پر چھپا کے مارتا رہا۔

    جسم سے گرمی کا بوجھ اور سفر کی تھکان اتر گئی۔

    رسی اور کلہاڑی کو رومال سے باندھ کر اس نے دوسرے کنارے پر پھینکا۔ قمیض کا گولا بنا کر اسے اچھالا اور شلوار کو رانوں تک کھینچ کر اس نے چھلانگ لگائی اور تیرتے ہوئے نہر عبور کی۔

    اس نے ٹانگوں پر رومال باندھ لیا اور اپنے کپڑے ایک درخت کے تنے پر لٹکا دیئے۔

    وہ نہر کے کنارے درختوں کی قطار کو ٹٹولنے لگا۔

    اس نے شیشم کی لکڑی کی تعریف سنی تھی۔ اسے افسوس ہوا کے آری نہ ہونے کی وجہ سے وہ موٹے تنے والے شجر کا انتخاب نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے دبلے پتلے درخت کو منتخب کیا۔

    یہ درخت انگریز کے زمانے میں نہر کی کھدائی کے وقت لگائے گئے تھے۔ اس لیے ان کی لکڑی زیادہ ٹھوس تھی۔ مگر جیون کو کلہاڑی سے زیادہ اپنی قوت پر اعتماد تھا اور اپنی پر خلوص محبت پر۔

    وہ گول تنے پر وار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں نہر کے پانی سے حاصل ہونے والی تازگی کافور ہو گئی۔ آدھے گھنٹے میں وہ تھک ہارا اور ہاتھ منہ دھو کر گھاس پر لیٹ گیا۔

    کچھ دیر بعد اس نے مٹی میں ہاتھ رگڑ کر کلہاڑی اٹھائی اور درخت کاٹنے لگا۔

    سخت لکڑی آہستگی سے کٹ رہی تھی۔

    ایک بار جھنجھلا کر اس نے سوچا کہ اپنا سرکیوں نہ کاٹ لے۔ لیکن اسے گلاں کی گداز چھاتی یاد آئی اور نرم ہونٹ۔ وہ اور شدت سے کلہاڑی چلانے لگا۔

    سنہری دھوپ زرد پڑ گئی اور آسمان پھر سے نیلا ہو گیا۔ لو کے جھونکے خوشگوار لگنے لگے اور زمین کی حدت قابلِ برداشت ہو چلی۔

    جیون نے مویشی ہانکتے چرواہے کو نہیں دیکھا۔ جو حیرت سے اسے تکتا قریب سے گزر گیا۔ اس نے سفید گھا گھرے پہنے، کمر پر گھڑ ے لٹکائے بلوچ عورتوں پر بھی توجہ نہیں کی۔

    بہت وقت گزر گیا۔ جب اسے محسوس ہوا کے درخت ایک ہی دھکے سے گر جائےگا۔ تو اس لمحے وہ خود زمین پر ڈھے گیا۔ اور لمبے لمبے سانس بھرنے لگا۔

    اپنا نیم عریاں جسم دیکھ کر وہ چونکا اور اس نے فوراً کپڑے پہن لیے۔

    ایک ہلکی ضرب کے بعد اس نے گرتے درخت کی زد سے اپنے آپ کو بچایا۔

    اس نے رسی کا ایک سرا تنے کے درمیان باندھا اور دوسرا کمر کے ساتھ۔ درخت کو نہر کے بند سے لڑھکایا اور خود بھاگتا ہوا نیچے پہنچا۔

    جھک کر پورے جسم کا زور لگاتے ہوئے جیون اسے گھسیٹنے لگا۔

    سورج پہاڑی والے قلعے کے پیچھے ڈوب گیا تھا، جب وہ بازار پہنچا۔ بہت سی دوکانیں بند ہو چکی تھیں۔ بازار والی گلی میں برائے نام لوگ جوتیاں گھساتے گھوم ر تھے۔ ان کے چہرے سوئے تھے اور لہجوں میں خمار بھرا تھا۔

    ٹال آخری کونے میں واقع تھا۔ وہ بازار سے گزرا تو گلی غبار سے اٹ گئی۔ تنا گھسیٹنے کی آواز چاروں طرف پھیل گئی۔

    دروازوں کی کنڈیاں اتریں۔ کھڑکیاں کھل گئیں۔ آنکھیں بازار میں جھانکنے لگیں۔

    تھوڑے سے لوگ باہر نکل آئے اور دوکانوں کے تھڑوں پر کھڑے ہو گئے۔ وہ سب حیران تھے اور ایک اجنبی کو ثابت پیڑ گھسیٹتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔

    ٹال کا مالک آواز کی ٹوہ لینے باہر نکلا۔ پیٹھ کھجاتا اس کا ہاتھ رک گیا۔ اس نے پہلے آنکھیں مچ مچا کر دیکھا اور اس کے بعد پھٹی آنکھوں سے۔ وہ مسکرایا اور پھر ہنستا ہوا کھاٹ پر جا بیٹھا۔

    اس نے لکڑیا ں کاٹتے مزدوروں کو بلایا اور انہیں ٹال سے باہر بھیج دیا۔

    جیون ٹھہر گیا۔ بہ دقت اس نے کمر سیدھی کی۔ رسی کھول کر دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا وہ ٹال کے مالک کے پاس پہنچا۔ اس نے کچھ کہنا چاہا مگر بول نہ سکا۔ درخت کی طرف اشارہ کر کے رہ گیا۔

    مالک پورے درخت کا معائنہ کرنے لگا۔ جب کہ جیون کھاٹ پر جا گرا۔ اس کی کمر جیسے ٹوٹ گئی ہو اور ایک ایک عضو اپنی جگہ سے اکھڑ گیا ہو۔ اسے کچھ ہوش نہیں رہا۔ وہ صرف آسمان کو گھورتا رہا۔ سانسیں بحال ہوئیں تو بڑی مشکل سے وہ اٹھا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ وہ لکڑی کے برادے میں دھنسے سٹکے کے پاس گیا اور پانی کے چار پانچ کٹورے چڑھا گیا۔

    مالک کھیسیں نکالتا اس کے سر پر آ کھڑا ہوا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اسے لکڑی کے بارے میں بالکل پتہ نہیں تھا۔ ورنہ وہ فرنیچر کی بہترین لکڑی ٹال پر نہیں لے کر آتا۔

    وہ افسوس کرتے ہوئے بولا۔ ’’پورا درخت گیلا ہے۔ نہر سے کاٹ کر لائے ہو؟‘‘

    جیون نے اثبات میں سر ہلایا۔

    ’’سوکھنے میں مہینہ لگ جائےگا۔ جلتے ہوئے دھوا ں بہت نکالیں گی اس کی لکڑیاں۔ کوئی اور درخت لے کر آتے شیشم کیوں کاٹ لیا۔‘‘ وہ اس کے چہرے کو غور سے دیکھتا رہا۔

    ’’پیسوں کی ضرورت تھی۔‘‘ اس نے کہا۔

    ‘‘کتنے؟‘‘

    ’’کم از کم ہزار روپے کی۔‘‘ وہ جھجھکا۔

    ٹال والا ہنسنے لگا۔ ’’چریا سائیں۔ یہ تو سوکا بھی نہیں۔‘‘

    ’’تم جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘

    ’’چلو، تمہاری محنت کے صدقے سو روپے دے دوں گا۔‘‘

    ’بہت کم ہیں۔‘‘

    ’’سوچ لو۔ یہاں دوسرا خریدار بھی نہیں ہے میرے سوا۔‘‘ وہ زیر لب مسکرایا۔

    جیون بے بس ہو گیا۔ اس قصبے میں دوسرا ٹال نہیں تھا اور یہاں فرنیچر بھی نہیں بنتا تھا۔

    ٹال کا مالک مشکل سے ڈھائی سو روپے دینے پر تیار ہوا۔

    وہ رقم جیب میں ڈال کر افسردگی سے سرہلاتا ٹال سے باہر آیا۔

    وادھو لال زرگر شام کا سایہ پھیلنے سے پہلے ہی دوکان بند کر لیتا تھا۔ اسے امید تھی کہ اگر وہ مل گیا تو پازیب ادھار پر بنوائی جا سکتی تھی۔

    بازار والی گلی میں وہ بند دوکانوں کو ٹٹولتا رہا۔

    بہت دور ہوٹل سے نکلتی روشنی نے پختہ زمین پر چوکھٹا بنایا ہوا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا وہاں تک پہنچا اور چوکھٹے میں کھڑا ہو کر اندر جھانکنے لگا۔

    اسے چائے کی طلب محسوس ہوئی اور وہ ہوٹل میں جا بیٹھا۔

    دو چار لوگ قصبے سے ڈھائی کوس دور ہونے والی مرغوں کی میل پر تبصرہ کر رہے تھے۔

    وہ کچھ دیران کی باتیں سنتا رہا۔ پھر گلاں کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ پریشان ہوگیا کیوں کہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا۔ وہ اب تک ہر فرمائش پوری کرتا رہا تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ اگر وہ روٹھ گئی تو اسے کس طرح منانا پڑےگا۔ زمین پر ناک سے لکیریں نکال کر یا اس کے پیروں کو چوم کر۔

    اس نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور جیب سے دو روپے کا نوٹ نکال کر ہوٹل والے کو تھمایا۔

    پنکھا بند ہوتے ہی گلاں کی نیند ٹوٹ گئی۔ اس نے آنکھیں ملیں، جماہی لی اور اٹھ بیٹھی۔

    دھوپ کی حدت سے کمرہ تپ گیا تھا۔ بستر، تکیہ۔ اس کا جسم، حتیٰ کہ اس کا لباس بھی گرم ہو گیا تھا۔

    وہ لمبے سانس بھرتی بکھرے بال سمیٹتی رہی۔

    صحن میں لو کی سر سراہٹ کے سوا کوئی آواز نہ تھی۔

    اس نے الماری سے ہاتھ والا پنکھا نکالا اور جھلنے لگی۔

    چہرے کا پسینہ سوکھ گیا اور جسم کے دوسرے حصوں میں چھپی بوندیں سرد ہو گئیں۔

    وہ کمرے سے نکلی اور دھوپ میں پڑی کھاٹ کو دیوار کے سائے میں گھسیٹ لیا۔ وہ ناچار بیٹھ گئی کیوں کہ باہر کی فضا میں حبس نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد وہ ٹانگیں پسار کر لیٹ گئی۔

    وہ پہلے آسمان کو تکتی رہی، پھر کروٹ لے کر زمین کو گھورنے لگی۔ وہ سوچنے لگی۔ جیون درخت کاٹ چکا ہوگا۔ شاید اب اسے کوٹ بنگلے لے جا رہا ہو۔ اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ اسے کتنا فاصلہ طے کرنا پڑےگا۔

    فاصلہ زیادہ تھا۔ وہ اندازہ نہ لگا سکی تو اٹھ بیٹھی۔ اس نے دیوار سے تکیہ لگایا اور اپنی پیٹھ رکھ کر اپنے پاؤں دیکھنے لگی۔

    اس کے پیر چھوٹے اور بھرے بھرے تھے۔ وہ نرم ایڑیوں کو دباتی رہی۔ اس نے پرانی پھنسیوں کے سانولے د اغوں کو نظرانداز کر دیا۔

    وہ اپنے بدصورت پیروں کا حسین تصور باندھتی رہی۔ اس نے خود کو صحن میں، گلی میں احتیاط سے چلتے دیکھا۔ اس نے تحسین بھری نظروں کو پاؤں کو گھورتے دیکھا۔ اس نے میٹھی میٹھی سرگوشیاں سنی اور رشک بھرے جملوں پر مسکرائی۔

    وہ غسل خانے میں چوکی پر جا بیٹھی۔ صابن سے رگڑ رگڑ پاؤں دھونے لگی۔

    گلاں شام تک نہا کر تیار ہو چکی تھی۔ اس نے عروسی لباس پہن لیا گرچہ اس کی سرخی ماند پڑ چکی تھی۔

    اس نے زیوروں والا ڈبہ صحن میں چار پائی پر رکھ دیا اور ایک ایک چیز کو غور سے دیکھنے لگی۔

    اس نے داہنی کلائی میں کانچ کی سرخ چوڑیاں پہنیں اور بائیں طرف والی میں سبز۔ اس نے پرانے کانٹے اتار دیے اور گلاب کی پتیوں کے ڈیزائن والے جھمکے پہن لیے۔

    وہ زیورات کو کپڑے سے صاف کرتی رہی۔ ننھے سوراخوں میں پھونکیں مار کر مٹی اڑاتی رہی۔

    وہ لدی پھندی صحن میں ٹہلتی جیون کا انتظار کرتی رہی۔ وہ اپنے لباس کی سرسراہٹ اور چوڑیوں کی کھنک کو غور سے سنتی جیون کے بارے میں سوچتی رہی۔

    اندھیرا بڑھنے لگا تو اس نے بتی جلا دی۔ پھر گلی کی معدوم ہوتی آوازوں پر کان لگائے وہ کھاٹ پرجا بیٹھی اور پریشان نظروں سے بار بار دروازے کی طرف دیکھنے لگی۔

    قدموں کی آہٹ سن کر وہ چونک پڑی۔ اس نے کنڈی کھولی تو دھک سے رہ گئی۔

    باہر کپاس کے کارخانے کا منیجر کھڑا تھا۔

    وہ جیون کے بارے میں پوچھنے لگا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور اس کی آنکھیں بنی سنوری گلاں پر ساکت تھیں۔

    چھوٹے قد کے داڑھی والے آدمی کو دیکھ کر اس نے دروازہ بھیڑ لیا۔ وہ چھٹی مرتبہ اس شخص کو دیکھ رہی تھی۔ جیون کو جب بھی کارخانے پہنچنے میں دیر ہوتی، وہ فوراً آ دھمکتا۔

    ’’گھر پر نہیں وہ۔‘‘ گھبرائے لہجے میں گلاں نے کہا۔

    ’’کدھر گیا ہے ؟‘‘ منیجر نے کھنکارتے ہوئے کہا۔

    پازیب لینے کوٹ بنگلے گیا ہے۔ وہ بات نہ بنا سکی۔ چند لمحوں کے بعد اسے احساس ہوا کہ اس نے غلط بات کہہ دی۔

    ’’بہت خیال رکھتا ہے تمہارا۔‘‘

    گلاں نے ہنسنے کی آواز سنی اور خاموش رہی۔

    ’’کیا تمہیں پازیب اچھی لگتی ہے؟‘‘

    وہ سوچنے لگی کہ کیا جواب دے پھر بولی ’’تمہارا کیا جائے؟‘‘

    ’’کچھ نہیں ظاہر ہے ۔ حسین عورتوں کو حسین چیزیں اچھی لگتی ہیں۔‘‘

    اس بار بھی وہ کچھ نہیں بولی۔ وہ حیران تھی کہ ابھی تک منیجر کھڑا کیوں تھا۔ گر چہ اس کا جملہ سن کر وہ خود کو مسکرانے سے نہیں روک سکی تھی۔ غیرمرد سے گلاں نے پہلی مرتبہ اپنی تعریف سنی تھی۔

    وہ خوامخواہ ہنسا اور خدا حافظ کہہ کر چلتا بنا۔

    گلاں نے دروازے کا پٹ کھول کر اسے جاتے ہوئے دیکھا۔

    کنڈی چڑھا کر وہ باورچی خانے میں جا بیٹھی۔

    کچھ دیر وہ منیجر کے متعلق سوچتی رہی۔ اسے وہ عجیب و غریب لگتا تھا۔ گلی سے اور کارخانے کے قریب سے گزرتے ہوئے کئی مرتبہ اسے دیکھ چکی تھی۔ وہ ہمیشہ سفید کپڑوں پر واسکٹ پہنتا تھا اور اس کی آنکھوں پر موٹے شیشوں والی عینک لگی رہتی تھی۔

    اسے جیون کا خیال آیا تو وہ خود کو ملامت کرنے لگی۔ اس نے ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے توے سے روٹی اتاری۔

    یہ سوچ کر وہ مسکرائی کہ آج اس کے قیمتی ڈبے میں ایک نئے زیور کا اضافہ ہو جائےگا۔

    جیون کپاس کے کارخانے کی روشنیوں سے چھپتا گلی میں داخل ہوا۔ وہ خالی ہاتھ لوٹنے پر افسردہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے چلنے کی آواز نہ ہو۔ اس لیے احتیاط سے چلتا رہا۔ دستک دینے سے پہلے وہ اندر جھانکنے کی کوشش کرتا رہا۔

    گلاں نے بھاگ کر دروازہ کھولا۔

    جیون کی مسکراہٹ کے باوجود اس نے بھانپ لیا کہ وہ پازیب کے بغیر آ گیا تھا۔

    پھر بھی اس نے اپنے شوہر سے سوال کر دیا۔

    وہ ہاتھ منہ دھو کر تازہ دم ہونا چاہتا تھا۔

    گلاں راستے میں کھڑی ہو کر جواب مانگنے لگی۔

    ’’کل تک مل جائےگی۔‘‘ اس نے جھوٹ بول دیا۔ اصل واقعہ بیان کرنے سے ناراضگی بڑھ سکتی تھی۔

    ’’آج کیوں نہیں لائے ۔ تم نے وعدہ کیا تھا۔‘‘

    ’’وادھولال کے پاس