Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گونگے بول

محمد امین الدین

گونگے بول

محمد امین الدین

MORE BYمحمد امین الدین

    جھاڑیوں سے جھانکتے ہوے میں نے اپنے بھوک سے بلکتے بچے کو خود سے قریب کر لیا۔ وہ میرے ساتھ چپک کر چاروں طرف نظریں دوڑانے لگا۔ دوسروں کے بچوں کی طرح اسے میرے دودھ سے زیادہ رغبت نہیں۔ جو کچھ میں کھاتی ہوں یہ بھی وہی کھانا پسند کرتا ہے۔ گو کہ میں اسی سامنے والی عمارت میں رہتی ہوں، لیکن روز دوپہر کو میں یہاں چلی آتی ہوں۔ سامنے پختہ سیڑھیوں، اونچے چبوترے، لمبے دالانوں، بےشمار کھڑکی دروازوں اور بلند مچانوں والی گہرے مٹیالے رنگ کی عمارت میں کام کرنے والے لوگ اور بالخصوص بظاہر بیمار مگر کڑک دار آواز والا بوڑھا شخص مجھے کھانے کو کچھ نہ کچھ ضرور دے دیا کرتے ہیں۔ تیز قوت شامہ کی بدولت مجھے کھانے کی مہک دور ہی سے محسوس ہو جاتی ہے۔ مگر آج یہ مہک محسوس نہیں ہو رہی تھی۔

    مجھے ان لوگوں کے سارے معمولات یاد ہیں۔ کیوں کہ روز اسی طرح ہوتا ہے۔ صبح صفائی کرنے کے بعد بڑاگیٹ کھول دیا جاتا ہے۔ لوگ آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اکثر پہلے آنے والوں میں طوطے جیسی ناک والا لمبا نوجوان ہوتا ہے، جو سب سے پہلے بہت سارے کاغذوں کا ڈھیر بوڑھے شخص کے کمرے سے دوسرے کمرے میں لے جا کر رکھ دیتا ہے۔ پھر سیڑھیوں کے قریب چبوترے پر رکھے پانی کے کولر کو کیاری میں لگے نل سے بھر کر رکھ دیتا ہے۔ ذرا سی دیر میں یہاں بہت چہل پہل ہو جاتی ہے۔ بڑھتے ہوئے انسانوں کے اس ہجوم کو میں اکثر بڑے گیٹ کے ساتھ بنے ہوئے چھوٹے سے کمرے کی دیوار کی اوٹ سے گھورتی رہتی ہوں جہاں میرا بچہ میرے اردگرد اچھلتا کودتا پھرتا ہے۔

    دوپہر کی دھوپ میں اونچے اونچے درختوں کا سایہ جب قد آدم دیوار پر چڑھتی ہوئی بیلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے تو اس وقت دور سڑک کے کنارے بنی ہوئی عمارت سے آتی ہوئی مخصوص لحن دار آواز کے ساتھ ہی سامنے والی عمارت کے آخری سرے پر بنے ہوئے کمرے سے نکل کر وہ بوڑھا شخص تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اس مخصوص لحن دار آواز کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔ نہ جانے اس آواز میں ایسی کیا کشش ہے کہ وہ آدمی اپنے سارے معمولات چھوڑ کر سرے پر بنی ہوئی اس عمارت میں کچھ دیر کے لیے جا بیٹھتا ہے۔ ایک بار میں اس کے پیچھے چل دی۔ دیکھا وہ بہت سے دوسرے انسانوں کے درمیان ہاتھ باندھے کھڑا ہوا ہے۔ ایسا لگا جیسے عبادت کر رہا ہو۔

    بوڑھے شخص کے جانے کے بعد عمارت میں کام کرنے والے دو آدمی بہت سارا کھانا ایک بڑے کمرے میں لگانا شروع کر دیتے۔ بس اسی لمحے میرے پیٹ میں بھی چوہے دوڑنے لگتے، ذرا دیر بعد جب بوڑھا شخص لوٹ آتا تو مختلف کمروں سے نکل کر بہت سارے لوگ بڑے کمرے میں پہنچ جاتے۔ تب بوڑھا شخص گوشت کی کچھ بوٹیاں مجھے بھجوا دیتا۔ جسے میں اور میرا بچہ سیر ہوکر کھا لیا کرتے۔ بھنے، تلے اور پکے ہوئے گوشت نے میری فطری عادتوں کو بدل کر رکھ دیا تھا۔

    سیڑھیوں کے پاس چبوترے پر رکھے ہوئے پانی کے کولر کے پاس جا کر، جس کی ٹونٹی سے ہر وقت ٹپکتا پانی سوندھی مٹی میں لگے چھوٹے چھوٹے پودوں کو سیراب کرتا رہتا ہے، میں اور میرا بچہ اپنا حلق تر کر لیتے ہیں۔

    مگر آج جب عمارت کا بڑا گیٹ کھلا اور کام کرنے والے لوگوں نے آکر وہاں کی جھاڑ پونچھ کی تو میں نے دیکھا کہ صاف ستھرے لباس اور ترشی ہوئی داڑھی والے شخص نے سب سے پہلے پانی کے کولر کو ہٹایا، اس کا سارا پانی کیاری میں انڈیل دیا اور پھر لے جا کر کمرے میں کہیں رکھ دیا اور جب دوپہر کی دھوپ میں اونچے اونچے درختوں کا سایہ قد آدم دیوار پر چڑھتی ہوئی بیلوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تو میں نے دیکھا کہ دور سڑک کے کنارے بنی ہوئی عمارت سے مخصوص لحن دار آواز پر آج بوڑھے شخص کے ساتھ یہاں کام کرنے والے اور بہت سارے آدمی بھی اس آواز کی سمت یوں چل دیئے جیسے کوئی معمول اپنے عامل کی طرف کھنچا چلا جاتا ہو۔ میں حسب معمول بوڑھے کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔

    ابھی تک بڑے کمرے میں سناٹا تھا۔ میں نے گھور کر چاروں طرف دیکھا مگر آج کوئی تیاریاں دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ سب لوٹ آئے اور اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ جھاڑیوں میں بیٹھے ہوئے دیر تک انتظار کرنے کے بعد جب کوئی ہل جل نہیں ہوئی تو میں نے مایوسی سے اپنے بچے کو دیکھا جو میرے نرم بالوں سے کھیل رہا تھا۔ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ پلٹ کر اپنے بچے کو پیار کیا اور پھر اپنے دونوں اگلے ہاتھوں کو آگے پھیلا کر ایک سخت انگڑائی لیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ آج مجھے باہر جاکر کھانے کا کچھ نہ کچھ بندوبست کرنا چاہیے۔

    ذرا دیر بعد میں نے اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا کہ بوڑھا شخص اپنے کمرے سے نکل کر کہیں جا رہا ہے۔ میں تیزی سے اس کی طرف دوڑی اور جاکر اس کے سامنے سر اٹھاکر کھڑی ہو گئی۔ اس نے مجھے دیکھا، مسکرایا اور اپنے قریب کھڑے ہوئے دوسرے آدمی سے کچھ کہا۔ میں سمجھ نہ سکی۔ پھر وہ سیڑھیاں اترکر چلا گیا۔ جاتے ہوئے دیکھ کر میں نے اسے آواز دی۔

    ’’میرا بچہ بھوکا ہے ۔کیا آج تم بوٹیاں نہیں دوگے؟‘‘

    مگر اس نے شاید میری بات سنی ہی نہیں۔ میں نے پلٹ کر وہاں کھڑے دوسرے آدمی سے پوچھا:

    ’’کیا آج تم کھانا نہیں کھاؤگے؟‘‘

    مگر وہ بھی مجھے نظرانداز کرتا ہوا چلا گیا۔ اسی لمحے دوسرے کمروں کے دروازوں سے یہاں کام کرنے والے سارے لوگ نکل آئے اور پھر جانے کے لیے سیڑھیاں اترنے لگے۔ میں تیزی سے ان کی طرف دوڑی۔

    ’’دیکھو میرا بچہ بھوکا ہے‘‘۔

    انہوں نے مجھ پر سرسری نظر ڈالی اور آگے بڑھ گئے۔ میں تیزی سے سیڑھیاں اترتی ہوئی ان کے قریب گئی۔ مگر نہ وہ لوگ رکے اور نہ میری طرف دیکھا۔ میں مایوس ہوکر اپنے بچے کی طرف چلی آئی۔ وہ دوڑ کر میرے پیروں سے لپٹ گیا۔ کبھی اپنی گردن میرے پیٹ سے رگڑتا اور کبھی اپنے گال سہلانے لگتا۔ میں کمر کے بل لیٹ گئی تاکہ وہ تھوڑا بہت دودھ پی سکے۔ مگر وہ بےاعتنائی سے کھڑا رہا۔ اسے بھی میری طرح گوشت کھانا زیادہ اچھا لگتا ہے۔

    سامنے والی عمارت میں کام کرنے والے تمام لوگ جاچکے تھے۔ عمارت روز کے معمول کی طرح خالی ہو چکی تھی۔ چند ماہ پہلے یہاں خوراک میرے لیے کوئی مسئلہ نہ تھی۔ میری مرغوب غذا اس عمارت میں اس قدر موجود تھی کہ جب اور جہاں چاہوں کسی موٹے تازے چوہے کو اپنے نوکیلے دانتوں میں دبوچ لوں۔ یوں بھی اس پوری عمارت میں مجھ اکیلی کا راج چلتا ہے۔ مگر ایک دن اچانک صبح کے وقت باہر کے کچھ لوگوں نے آکر پوری عمارت میں عجیب بدبودار دواؤں کا چھڑکاؤ کر ڈالا۔ دو دن عمارت بند رہی، تیسرے دن صفائی کر دی گئی۔ اس کے بعد یہاں چوہے ناپید ہو گئے۔ اب تو صرف شب بسری کے لیے یہاں کے درختوں پر آنے والے کبوتر ہی میری رات کی خوراک کا ذریعہ بنتے ہیں۔ دن میں تو وہ بھی دکھائی نہیں دیتے۔ چنانچہ میں اپنے بچے کو لے کر بیلوں سے لپٹی قد آدم دیوار کے دوسری طرف کی دنیا میں خوراک تلاش کرنے چل دی۔

    عمارت کا جالیوں والا مرکزی دروازہ بند ہو چکا تھا۔ میں درمیانی خلا سے گزر کر سڑک پر آگئی۔ تیز رفتار گاڑیاں ادھر ادھر آ جا رہی تھیں۔ میں نے گھوم کر چاروں طرف دیکھا۔ مجھے اپنے بچے کے لیے اندر کی دنیا باہر کے اس بے ہنگام شور مچاتی دنیا سے زیادہ محفوظ دکھائی دی۔ کچلے جانے سے بھوکے مرنا زیادہ بہتر ہے۔ میں اسی راستے واپس چلی آئی۔ اندر داخل ہوتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ عمارت ذرا دیر پہلے کی طرح خالی نہیں ہے۔ شایدچند ذی روح اس عمارت میں موجود ہیں۔ یہ بات انہونی نہیں تھی۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ دیر تک بیٹھ کر کام کرتے ہیں،کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ جانے کے بعد واپس آکر بھی کام کرتے ہیں یا کچھ بھول جانے کی صورت میں دوبارہ آ جاتے ہیں۔ اپنے بچے کی بے چینی دیکھ کر مجھے لگا اب وہ دودھ پینے کے لیے تیار ہے۔ چنانچہ میں عمارت کی سیڑھیوں پر لیٹ گئی۔ وہ بھی جست لگا کر میرے قریب آ گیا۔

    ابھی میں اسے دودھ پلانے میں مصروف تھی کہ عمارت کی پچھلی سمت میں کسی کے چیخنے کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ چیخ میں کرب کی شدت صاف محسوس ہورہی تھی۔ میں اچھل کر کھڑی ہو گئی۔ تیزی سی سیڑھیاں اتر کر داہنی سمت والی پتھریلی روش پر دوڑتی ہوئی عمارت کی پچھلی طرف بھاگی جہاں سے خوف، دہشت اور درد میں ڈوب ہوئی آواز مسلسل آرہی تھی۔ عمارت کے پچھلے ستون کے قریب میں جھٹکے سے رک گئی۔ سامنے کا منظر دیکھ کر میرے ریشمی بال رونگٹوں کی طرح کھڑے ہوگئے۔ سیورج کے پائپ سے بندھا ہوا نوجوان دہکتے شعلوں میں نہایا ہوا چلا رہا تھا۔ جبکہ تین دیگر نوجوان پچھلی دیوار پھلانگ کر بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے۔

    میرا بچہ بھی میرے پیچھے پیچھے چلا آیا تھا۔ مگر سامنے کے منظر نے اسے اس قدر خوفزدہ کر دیا کہ وہ پلٹ کر کئی قدم پیچھے دبک کر کھڑا ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چیخیں دم توڑ گئیں۔ آگ کے شعلے کپڑوں کو راکھ کرتے ہوئے کھال میں سے گزر کر گوشت میں اترنے لگے۔ ذرا سی دیر میں بھنے ہوئے گوشت کی مہک چاروں طرف پھیل گئی، مگر کچھ دیر پہلے والی بھوک میں گوشت کی طلب کا میرے اندر نام و نشان تک نہ تھا۔ یہی حال میرے بچے کا تھا۔

    اچانک احساس ہوا کہ مجھے باہر جاکر لوگوں کو مطلع کرنا چاہیے کہ اندر عمارت میں ایک زندہ انسان کو جلایا جا رہا ہے۔ میں بیرونی گیٹ کی طرف دوڑی۔ فٹ پاتھ پر بس کے انتظار میں کھڑے لوگوں کو میں نے چیخ چیخ کر اندر کا حال بتایا۔ مگر کوئی میری طرف متوجہ نہ ہوا۔ کوئی میری بات نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ میرے گونگے بول فضا میں بکھرتے جارہے تھے۔ چند ثانیے بعد ایک بس آکر رکی۔ لوگ اس میں سوار ہونے لگے۔ دوسری بس کے انتظار میں ٹھرجانے والے لوگوں میں سے ایک بوڑھے شخص نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھیلے میں چھپے ٹفن کو کھول کر میرے سامنے الٹ دیا۔ بہت سارے بھنے ہوئے گوشت کی بوٹیاں فٹ پاتھ پر بکھر گئیں۔ میرا بھوکا بچہ تیزی سے ان کی طرف لپکا۔ میں نے چیخ کر کہا۔

    ’’ٹھہرو۔۔۔!‘‘

    وہ رک گیا۔ پلٹ کر مجھے دیکھا۔ میں نے خوف زدہ اور درد کی شدت سے آنکھوں میں اتر آنے والے آنسوؤں کو کراہیت میں ملفوف کرتے ہوئے کہا:

    ’’آج کے بعد بھنا ہوا گوشت مت کھانا‘‘۔

    (۲۰۰۰ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے