Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گزری یادیں

پناتھل کنجابدلا

گزری یادیں

پناتھل کنجابدلا

MORE BYپناتھل کنجابدلا

    گزری یادوں کا آغاز ہوا۔ آغاز ہوا، یعنی ابھی شروع ہی ہوا۔ اس ایک لمحہ میں اس کی دو زندگیاں ختم ہوئیں۔ تیسری زندگی کا بھی آخری وقت آ پہنچا۔

    بیچارے بندر نے ایک مندر کے سامنے برگد کے درخت کی شاخ پر بیٹھے بیٹھے سوچا۔

    اس زندگی میں جو کچھ وہ حاصل کر سکا، اس کے متعلق ہی نہیں، اس کی گزشتہ زندگیوں میں بھی اس نے جو کچھ حاصل کیا، اس سب کے بارے میں وہ سوچ رہا تھا۔

    برگد کی درخت کی شاخ کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے اپنی مٹیالی بھوؤں کو اٹھاکر موتیابند میں مبتلا آنکھوں سے سامنے کی طرف دیکھا۔ خلائی جہاز کی طرح آسمان کی پہنائیوں کو چیر کر جاتے ہوئے ایک بڑی شکل کے دروازے اور اس کے سینے پرپستان جیسی گھنڈی پراس کی نظر پڑی۔ پہلی زندگی کی یادیں، حمل کے بچے کی طرح کلبلائیں تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ آنکھیں بھر آئیں تو سبھی منظر دھندلے پڑ گئے۔ دروازہ دھندلا ہو گیا۔ گھڑی غیرواضح ہو گئی۔ مندر بھی غائب نظر آیا۔

    دھندلاپن بڑھتے بڑھتے ہر جگہ تاریکی چھا گئی۔ تاریکی میں اندرونی بصیرت چمک اٹھی۔ اس چمک میں پہلی زندگی نمودار ہوئی۔ پہلی زندگی ریگستان میں ایک لڑکے کی شکل میں حاصل ہوئی۔ ایک نہایت حسین اور بڑے خاندان کے سرپرست کی چوتھی بیوی کے تیرھویں لڑکے کی شکل میں اس کی پیدائش ہوئی۔ جوانی کی حد میں پہنچ کر وہ اونٹ کو ہانکتا، کھجور کا پھل کھاتا اور آوارہ گردی کرتا ہوا اپنے دن گزارتا تھا۔ اس درمیان اس نے شادی کی، سات اولادوں کاباپ بھی بنا۔

    اسی وقت ایک رسول کا پیغام سنائی دیا۔ وہ ایسا زمانہ تھا جب ریگستان میں تحریک چل رہی تھی۔ رسول کے معتقدین اوردشمنوں کے درمیان خوفناک جنگ اور خوفناک تحریک چل رہی تھی۔ رسول حرا کی غار میں بیٹھا خدا سے ہم کلام تھا۔ مقدس صحیفہ کی سورتیں ایک ایک زمین پر اتر رہی تھیں۔ ستائیسویں دن خدا نے نبی کو اپنی طرف اپنے عرش پر مدعو کیا۔ حیرت میں آکر رسول نے پوچھا، ’’میں ادھر آؤں؟ آسمان ایک دو نہیں سات ہیں۔ میں نے ان سات آسمانوں کے درمیان کے نقطے والے آسمان کی چھلانگ لگاکر کئی زمانے گزارے اے خدا۔ اب مجھ سے اپنے پاس آنے کی التجا کر رہا ہے کیا مجھ سے یہ ہو سکتا ہے؟ اے خدا کیا تو میرا امتحان لے رہا ہے؟‘‘

    خدا نے کہا، ’’رسول، تو ایک بات یاد رکھ۔ میری مدد مل جائے تو اس کائنات میں کچھ بھی ناممکن نہیں، کیا تو یہ سچائی بھول گیا کہ تیرے دل کے علاوہ حواس خمسہ یعنی چھ حواس خمسہ اور بھی ہیں۔‘‘

    رسول نے ادب سے سر جھکایا۔ رات کی آخری عبادت کے بعدرسول براق پر چڑ ھ گئے۔ براق چھلانگ لگاکر اڑ گیا۔ ایک کے بعد ایک آسمان اور نقطہ والے آسمان کو طے کرکے رسول خدا کے سامنے پہنچے۔

    ایسی ملاقات جو کبھی بھلائی نہیں جا سکتی۔

    گفتگو رازدارانہ طریقے پر ہوئی۔

    رسول واپس زمین پر اترے تو اس وقت اس قوت کی اذاں گونج اٹھی کہ رسول شادمان ہو گئے۔

    ایک رات سے، ایک ہی رات سے اے خدا تیری مرضی تیری قدرت۔

    رسول نے اپنے معتقدین سے یہ نہ پوچھا کہ وہ کب سے ان کا انتظار کر رہے ہیں۔

    یہ بات سن کر وہ کھلکھلاکر ہنسا۔ شہر کے چوراہے پر اس نے اس داستان کی حقیقت صاف صاف بتائی۔ لوگوں نے اس کے ساتھ مل کر رسول کی ہنسی اڑائی، وہ بھی ہنس پڑا۔

    وہ ہنستا ہنستا گھر پہنچا، اس وقت اس کی بیوی باورچی خانے میں بیٹھی روٹی پکا رہی تھی۔ بچے صحن میں بیٹھے کھجور کے بیجوں سے کھیل رہے تھے۔ ہنسی دیکھ کر بیوی کی بھویں چڑھ گئیں۔ وقت کو برباد کیے بغیر اس نے اسے جلدی نہاکر آنے کو کہا۔

    تیل اور صابن لے کر وہ اپنے گھر کے سامنے کے تالاب میں نہانے گیا۔

    پانی میں اترکر ایک باراچھی طرح ڈبکی لگائی۔ پانی کے اوپر آنے پر وہ حیرت میں پڑ گیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ ایک دریا کے ساحل پر کھڑا ہے۔ کئی عورتیں اس کے چاروں طرف غسل کر رہی ہیں۔ حیرت! اتنی نیم برہنہ دوشیزاؤں کے درمیان اپنے کندھے پر لٹکتے لمبے بالوں اور بھاری سینہ پر اس کی نظر پڑی۔

    اس بار پھر وہ پسینہ سے شرابور ہو گیا۔

    وہ ایک حسین عوت کی شکل میں تبدیل ہو گیا تھا، اس نے کپڑے بدلے۔ دریا کی سیڑھیوں سے ہوکر اوپر چڑھا۔

    پھر کیا کیا ہوا۔ کسی نے اس سے شادی کی، شوہر کے ساتھ زندگی گزاری۔ پانچ بچے پیدا کیے۔ بال پکنے لگے۔ کوئی خاص واقعہ نہیں ہوا۔ وقت گزرتا رہا۔ تب ایک دن وہ سیدھے سادے دریامیں غسل کرنے گئی۔ غوطہ لگاکر سیدھی کھڑی ہوئی تووہ حیران ہو گئی۔ وہ اپنے پرانے گاؤں میں پہنچ گئی تھی، وہی پرانا تالاب جہاں وہ اپنی مرد کی شکل میں آخری بار نہائی تھی۔

    اب وہ عورت کی شکل میں نہیں تھی۔

    سیڑھیوں پر رکھے کپڑے ویسے ہی پڑے تھے۔ اس نے کپڑے بدلے۔ اسی راستے گھر کی طرف دوڑا۔ گھر پہنچا تو بیوی اب بھی روٹی پکار رہی تھی۔ بچے اب بھی کھجور کے بیجوں سے کھیل رہے تھے۔

    وہ خوف سے کانپ گیا۔ اس کی سانس حیرت سے پھول گئی۔

    بیوی نے پوچھا، ’’اتنی جلدغسل کر لیا۔ کوا نہان ہے۔‘‘

    وقت کے عجب کرشمے کا اس نے احساس کیا۔ وہاں سال گزر گئے اور یہ یہاں صرف کچھ لمحے ہی گزرے۔ اسے ایسا معلوم ہواکہ رسول کا آسمان میں گزرا ہوا آدھا دن زمین میں سالوں کے برابر ہوگا۔ اسے معرفت حاصل ہو گئی۔

    پھر اس کے یقین کے ثبوت بدل گئے۔

    اس نے سوچا،

    وقت کا مطلب کیا ہے؟

    آسمان کا کنارہ کہاں ہے؟

    وقت کے بارے میں سوچتے سوچتے وہ اس نتیجے پر پہنچا، نتیجے لکھے گئے۔

    وقت تھا۔

    وقت ہوگا۔

    لیکن وقت ہے ایسی ایک حالت نہیں۔ لمحے گزرتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔ سورج طلوع ہوا۔ غروب ہو گیا۔ لوگ اسے دن کہتے ہیں۔

    وقت کی گنتی ہونے لگی۔ کھجورکے ساتھ بیجوں سے ہفتے کے نشان لگائے۔ چار گنج کے بیجوں سے مہینے کا شمار ہوا۔ بیجوں سے سال بنایا گیا۔ سونے کے دس سکوں سے دس سال کا شمار کیا گیا۔

    وقت کا فیصلہ ہوا۔ سایہ کو ناپا۔ معمولی بوتلوں میں ریت بھری۔ نوک سے ہوکرریت کے ذرات ریزوں کی صورت میں جھڑنے لگے۔

    ستاروں کو دیکھ کر پہروں کا شمار کیا۔

    اعداد بنائے گئے۔

    تقویم کی ایجاد ہوئی۔

    گھڑی اس سلسلے میں بنی آخری عجیب چیز تھی۔

    آسمان کے بارے میں سوچنے ہی لگا تھا کہ وہ مر گیا۔

    (۲)

    ہندوستان نام کے ملک میں انسان کی شکل میں دوبارہ پیدا ہوا۔ جب پیدائش ہوئی تب صرف زمانہ کی یاددل میں رہ گئی تھی۔ سینہ میں بھی وہ ایک یاد اس پر حکمرانی کرتی تھی۔

    ایٹم۔۔۔سے، خلا سے، تلاش سے، لکڑی سے، ہانڈی سے، گھڑی سے، لمحے سے، دن رات سے، مہینہ سے، سال سے اس کی ترقی شروع ہوئی۔ مقدس دریا میں غسل کرکے، مقدس پانی پی کر خداکے مجسمہ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر پرندوں اور جانوروں کو پیار کرکے صرف پھل سبزی کھاکر وہ پروان چڑھا۔

    جب وہ بڑا ہو گیا تب عقل میں ترقی ہوئی۔ اس نے اپنے آپ سے پوچھا، ’’زمانہ کیاہے؟‘‘

    زمانہ کے متعلق علم حاصل کرنے کے لیے اس نے دن رات ایک کرکے تحقیقات کیں۔ کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ لیکن ایک بات سمجھ میں آئی۔ اس کائنات میں اسے صاحب علم کی بنانے کی طاقت صرف خالق کائنات میں ہی ہے۔ آٹھوں پہر اس نے ریاضت کی، بینائی صرف برائے نام رہ گئی۔ گیسو سر پر لپیٹ لیے۔ داڑھی کے بال بڑھتے بڑھتے کانوں تک آ گئے۔

    وشنو کے ناف سے نکلے کمل سے ظاہر ہونے والی برہما کی صرف یاد اس کے ہی بدن کے بال میں پھیلی ہوئی تھی۔

    سال کیا زمانے بھی گزر گئے۔

    ایک بار افق میں نقطہ سا ایک ہنس ظاہر ہوا۔ کچھ ہی لمحوں میں برہما اس کے سامنے تھا۔

    اس نے برہما کا کلام سنا۔

    آنکھیں کھو لیں۔

    برہما نے آنکھ نہ کھولی۔

    ’’بیٹا! یہ سعی لاحاصل کس لیے؟وقت سے متعلق حساب صرف میرے پاس ہے۔‘‘

    ’’آقا! مہربانی فرما کر مجھے بتا دیجیے۔‘‘

    ’’بیکار بات کیوں سننا چاہتا ہے؟‘‘

    ’’آقا، میرا اصرار اٹل ہے۔‘‘

    ’’تو سن!‘‘برہما نے کہا، ’’دن رات سے، مہینے موسم سے، اناج سے، آدمی سال سے، دیو سال سے، مہایگ سے گزری یادوں سے ہوکر میرے دن رات ختم ہوتے ہیں۔ وہ ایک دن تیرے ۴۰۰۰۰۰ سال کے برابر ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’دیو مجھے معاف کریں‘‘

    برہما اور ہنس غائب ہو گئے۔

    وہ ریاضت سے اٹھ گیا۔

    اس وقت تک اس کے اسلاف کے ذریعہ بنے بنائے دریائی ساحل والی تہذیبیں مٹی میں مل گئیں۔ ا ن تہذیبوں کی یادوں نے بعد میں کسی کو بےقرار نہ کیا۔ تواریخ کے کند ذہن طلبا ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اپنی جوابی بیاضوں میں اس کا تذکرہ کر رہے تھے۔

    اتنے میں برف کے دیوتا کی شرافت کو ایک بددعا کی شکل میں برباد کرنے میں لگے ہوئے دو پھاٹکوں سے ہوکر مانسون ہواؤں کا دخول ہوا۔ ان کے ساتھ کئی زہریلے جانداروں نے بھی ا س مقدس زمین کے اندر چھپے چھپے دخول کیا۔

    نتیجے میں یہاں طبقاتی برادریاں ہوئیں۔ اس کی تہذیب وتمدن میں بھی آمیزش لانے کی کوشش ہوئی۔ نہایت ذہنی تکلیف سے وہ ایک حقیقت کو سمجھ گیا۔ اس کے محبوب برہما کے تخیلات ختم ہو رہے ہیں۔ اس کی روایت بھی دھندلی ہو رہی ہے۔

    پھر وہ بھی کم درجے کی غیرملکی زبان پڑھنے کو مجبور ہو گیا۔ اس زبان کے ذریعہ سے اس نے وقت کے بارے میں نقطہ آسمانی کے بارے میں غور کیا۔

    ٹایم شیرس دی فیٹ آف پیس۔

    آل پوائنٹس آف ویوکویلینٹ

    دی ریلٹیواپیرس ابیسولیوٹ

    دی ایبسولیٹ ٹرنس آؤٹ ٹوبی ریلٹیو۔

    ولاسٹی ہیزاٹس لمٹ۔

    روزمرہ کے اتنے جملے حاصل کرنے پر کسی نے اس سے کہا، ’’شام کے پانچ بج گئے ہیں۔‘‘

    اس نے پوچھا، ’’کہاں، ہند میں یا امریکہ میں؟‘‘

    اس طرح آئن سٹائن کا نظریہ اضافت ادھورا ہی پڑھ پایا کہ تب تک اس کے دوسری پیدائش کی داستان بھی ختم ہو گئی۔

    (۳)

    اس بدقسمت کی تیسری پیدائش ایک بندر کی شکل میں ہوئی۔ بندرکے عزیز یا دوست احباب نہ تھے۔ ایک ایسے طبقے میں جہاں عورتیں عوامی ملکیت مانی جاتی تھیں، اس کی پیدائش ہوئی۔ اس وجہ سے وہ اپنے والد کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ ماں کے پیچھے چلنا، اس کے پستان کو چوسنا، اس کے سر سے جوئیں نکال کر انہیں مارنا، یہ سب باتیں اسے یاد ہیں۔ دوسرے حمل کے ساتھ ماں نے اسے اپنے سے علیحدہ کر دیا۔

    پھر ساتھیوں کے ساتھ اس کی رہائش ہوئی۔ ان کے ساتھ درختوں پر اچھلتا کودتا، بڑی بڑی دیواروں پر چڑھتا اور مندر کی اوپری چھت پر رقص کرتا۔ وہ مزہ سے دن کاٹ رہا تھا۔ ایک دن امرود کے باغ سے امرود توڑکر چوری چوری کھا رہا تھا کہ مالی نے گوپھن گھماکر پتھر پھینکا۔ پتھر پیٹھ کی ہڈی پرزور سے لگا۔ وہ رو پڑا۔ دوتین دن تک ناقابل برداشت درد ہوا۔ پھر وہ حصہ سرخ ہوا اور سو ج گیا۔ ایک ہفتہ کے بعد وہاں زخم بن گیا۔ زخم کے آس پاس کے بال جھڑ گئے۔ زخم سے پیپ اور خون بہنے لگا۔ پیپ بالوں میں بھیگ کر سوکھ گئی۔ مکھیاں زخم پر رقص کرنے لگیں۔ اس میں کیڑے بھی رینگنے لگے تھے، بدبو بھی آنے لگی تھی۔ وہ سب سے الگ ہو گیا۔

    آج بندر بےسہارا ہے۔ وہ اکیلا ہے۔ باپ نہیں، ماں نہیں، خاندان نہیں، دوست احباب نہیں، بوڑھی پشت پر کبھی نہ سوکھنے والا بار لیے وہ بھینسے کے انتظار میں وقت گزارتا ہے۔

    مندر کے سامنے کا برگد کا درخت اس کے رہنے کی جگہ۔ وہ برگد کا درخت ایک ایسے چوراہے پر واقع ہے جو مندر، شہر، پولیس اسٹیشن اور دریا کو سڑکوں سے ملاتا ہے۔

    شاخوں اور ضمنی شاخوں میں منقسم چاروں طرف سائے اور پھیلے، جڑ اور تنے سے بنیادوں کو بڑھاکر بوڑھے اسلاف کی لاچاری کو دیکھتے دیکھتے تنہائی کے جذبے کے ساتھ وہ برگد کا درخت وہاں کھڑا ہے۔ اس کے کھوکھلے سوراخ سانپوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ شاخو ں پرچڑیوں کے گھونسلے ہیں۔ شاخوں میں ہوا تیرتی ہے۔ چیونٹیوں کی قطاریں شاخوں سے ہوکر آگے کی طرف سرکتی ہیں۔ جسم پرپھیلے چھوٹے چھوٹے پتے ہوا میں کانپتے ہوئے ہلتے ہیں۔

    بندر گزشتہ کئی سالوں سے اس برگد کے درخت کی ایک بےبنیاد شاخ پر بیٹھا نیچے رواں دواں زندگی کا نظارہ کر رہا تھا۔

    راستے سے آتے جاتے آدمیوں اور جانوروں سے وہ اپنی پہلی زندگی کی داستان کہنے کو ترستا رہالیکن زبان سے کچھ نہ نکلا۔ اس نے سایہ ناپ کر وقت کا تعین کیا۔ ریت کی شیشیوں کی مدد سے وقت کو ناپا، اعدادکی ایجاد کی، کلینڈر اس کی اپنی تخلیق تھی، ریاضت کرکے برہما کو بلوایا۔ ایسے کتنے ہی حقائق کی مہر تصویروں کی شکل میں اس کے دل پر پڑی۔

    راہرووں میں کوئی بھی اس پردھیان نہ دیتا، بچے بھی دیکھ کر مذاق نہ اڑاتے، کھانا نہ ملتا۔ پرساد سے بھری تھالی لیے پجاریوں کو مندر سے اس راستہ آتے جاتے دیکھ کر اس کے منھ میں پانی بھر آتا۔ پیٹ بھوک سے جلنے لگتا۔ پجاری مندر کا پھاٹک بند کرکے کھیر پیتا تووہ پلک مارے بغیر اسے ہی دیکھا کرتا اور اپنی بھوک مٹاتا۔

    رات میں سب کے سو جانے پر وہ درخت سے نیچے اترکر مندرکے صحن میں جاتا۔ پجاریوں کے ذریعہ پھوڑے ہوئے ناریل کے ٹکڑے، سڑے ہوئے پھل، مٹھائی کے غبار آلود ٹکڑے، آم کی گٹھلی اسے کبھی کبھی مل جاتی۔ کچھ نہ ملتا تو مندر کے تالاب میں اترکر پانی پیتا، پجاری وہاں پر نہ ہوتے تو مندر کی چھت پر گھنٹی بجاتا پھر آن کی آن میں دوڑ کر برگد کے درخت پر چڑھ بیٹھتا۔

    سو نادشوار۔ گزشتہ پیدائش کے وقت آسمان، پیٹ کا دردناک کچا زخم، بڑھاپے کی لاچاری وغیرہ یاد کرتے کرتے اس کا دل سخت عذاب کو محسوس کرتا۔ پو پھٹنے کے وقت اس کی آنکھیں بند ہونے لگتیں۔

    سائرن سن کر وہ روزانہ جاگتا ہے، میونسپلٹی کے دفترکے بہت بڑے پھاٹک کے سامنے سائرن بجتا ہے، تب گھڑی میں چھ بجتے ہیں۔

    فصیل میں پھاٹک ایک پستان جیسا دکھائی دیتا۔ گھڑ ی کوجب سے دیکھ رہا تھا اس وقت سے اس کی ایک تنہا آرزو اسے مضطرب کرتی تھی۔

    وہ ایک دن اس فصیل کی چوٹی پر چڑھ کر گھڑی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ممکن ہو تو پل بھر میں چاند کو چھونا چاہتا ہے۔ یہ آرزو لاوے کی طرح اس کے دل میں سلگ رہی تھی، اسی دل میں جس نے وقت کے بارے میں اتنا غوروفکر کرکے وقت کا تعین کیا۔ گھڑی کو ایجاد کیا۔ غیرجانبدارانہ اصول کا مطالعہ شروع کیا اور گزشتہ زندگیوں میں اچھے اعمال کیے۔

    کئی راتوں میں وہ پھاٹک تک گیا مگر اس وقت تک گورکھا پہریدار فصیل کے پھاٹک پر تالا لگاکر سویا رہتا ہے۔

    اہم دن آیا۔ حسین چاندنی رات۔ پھاٹک کی چوٹی کا کلس سیدھے چاند کو چھید رہا ہے۔ چوکیدار پھاٹک بند کرنا بھول گیا اور خراٹے لے کر سو گیا۔

    ضعیفی کی پرواہ نہ کرکے زخم کا درد برداشت کرتے ہوئے بھوک کو بھول کر وہ پھاٹک کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔

    اسے یاد نہیں کہ کتنی دیر میں اوپر چڑھا۔ سیکڑوں، ہزارں سیڑھیاں، بدن پسینے سے شرابور ہو گیا۔ چکر آیا۔ پیر تھک کر ٹوٹ سے گئے۔ دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ سانس آندھی کی طرح چلنے لگی۔

    آخر میں وہ اپنے مقصد تک پہنچ گیا۔ وہ گھڑی کو جوش سے خواہشوں کے جذبے سے سہلاتا رہا۔ اس کی سوئیوں کواس نے چوم لیا پھر ساری طاقت لگاکر اسے پھاٹک سے توڑ لیا۔

    پھاٹک کی چھاتی خراب ہو گئی۔ اذیت ناک درد۔

    اس کی آرزو پوری ہوئی۔ گھڑی کے موجد کے ہاتھ میں گھڑی آ گئی۔

    گھڑی کو اپنی زخم رسیدہ پیٹھ پر رکھ کروہ فصیل کی چوٹی پر کھڑا رہا۔ روشنی میں نہایا ہوا آسمان۔۔۔چاندکی میخ سے کچھ ہی دور، چاہے تو وہ چھو سکتا ہے۔ چاند کو چھوکر وہ جس راستے سے گیا اس راستے سے لوٹ آئےگا۔

    چاند کو چھونے کے لیے پیر کے انگوٹھے کے بل کھڑے ہوکر اس نے ایک ہاتھ سے گھڑی اٹھائی، دوسرا ہاتھ اوپر کی طرف پھیلایا۔ پیر پھسل گئے، صرف یہی یاد ہے۔

    دوسرے دن مندر کی طرف جانے والے پجاریوں نے دیکھا کہ خون میں لت پت ایک بندر کی لاش اور ٹوٹی گھڑی کے پرزے پھاٹک کے نیچے بکھرے پڑے ہیں۔

    گزری یادوں کا ابھی آغاز ہوا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے