Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گوالن

ملیانل

گوالن

ملیانل

MORE BYملیانل

     

    وہ جوان تھی، بے حد جوان۔ کسی کے رخساروں پر چودہ سال کی عمر میں گلاب کھل اٹھتے ہیں تو کسی کی آنکھ میں سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں چمک آتی ہے۔ لیکن اس کا یہ تھا کہ پندرہویں برس ہی اسکے گلے میں کوئل کوک رہی تھی۔ معصومیت رخصت ہورہی تھی، بچپن جوانی کو راہ دے رہاتھا، کچی کلی پوری آب وتاب سے کھل رہی تھی۔ 

    پڑھی لکھی نہ تھی، مگر ہوشیار تھی۔ شہر کی نہ تھی تاہم مہذب تھی۔ اونچے گھرانے کی نہ تھی پھر بھی گور ی گوری تھی۔ آنکھوں میں بے حد کشش تھی اور گالوں پر گلاب کھلے ہوئے تھے۔ 

    سرپر پیتل کی چمکتی ہوئی کلسی رکھ کر وہ گاؤں میں داخل ہوتی تو معلوم ہوتا جیسے لکشمی آئی۔ ’’دودھ لے۔۔۔ یو۔۔۔ دو۔۔۔ او۔۔۔ دہ‘‘ کی آواز محلے محلے اور گلی گلی کی فضا میں رس گھول دیتی اور دہلیز پر اکڑوں بیٹھ کر داتون کرتے ہوئے مردوں کی نظریں اسکی طرف اٹھ جاتیں۔ ہاتھ تھم جاتے اور وہ سمجھتے کہ شگون اچھا ہے۔ عورتوں کو رشک اور حسد ہوتا۔ 

    یہ گجراتی گوالن تھی۔ تالاب میں نہانے کے علی الصبح اپنے گاؤں سے نکلتی تازہ دوہیا ہوا دودھ شہریوں کی خدمت میں پیش کرتی۔ اسی سے دودھ خریدنے کو ہر ایک کا جی چاہتا۔ ’’دود لیئو، دو او۔۔۔ دہ‘‘ کی مترنم صدا سن کر محلے کی عورتیں اپنے بستروں میں فوراً اٹھ بیٹھتیں۔ 

    وہ ہمیشہ لال ساڑھی پہنتی تھی۔ موٹی مگر صاف، جو ہمیشہ نئی ہی لگتی تھی اور جس کے کنارے پر پیلے رنگ کی کور ٹنکی ہوئی تھی اور پلو کالے رنگ کا ہوتا تھا۔ ہاتھوں میں ہاتھی دانت چاندی کے کام والے کڑے۔ پیروں میں موٹے پازیب، انگلیوں میں چاندی کے چھلے، ناک میں نتھ اور کانوں میں بالیاں، گلے میں چوڑا گلوبند اور کانچ کے دانوں کی مالا۔ یہ تھے اس کے گہنے۔ ماتھے پر ذرا سا گھونگھٹ کھینچے رہتی تھی۔ اسے کوئی جانتا نہ تھا کہ اسکے بال کیسے تھے وہ بال بناتی ہوگی، کنگھی چوٹی کرتی ہوگی اور مانگ میں سندور بھرتی ہوگی، بس یہ تصور ہی اس کے حسن کو دوبالا کردیتا تھا۔ 

    اس کے آنے کے وقت ہی میں اپنے گھر کی دہلیز پر داتون کرنے بیٹھتا۔ وہ غریب شرمائی نظریں جھکا دیتی لیکن دوسری جوان لڑکیوں کی طرح اسکی چال نہ بدلتی، بدن میں تھرتھری نہ پڑتی اور نا ہی اسکے ہاتھ اپنے ہلنے کا انداز تبدیل کرتے۔ وہ ذرا بھی گھبرائے بغیر، ذرا بھی اترائے بغیر، حسب معمول ’’دودھ لیئو۔ دو۔ او۔ دہ‘‘ کی ہانگ لگاتی۔ 

    میں اپنی بیوی سے روزانہ ہی کہتا تھا۔ ’’تو اس گوالن سے دودھ کیوں نہیں خریدتی؟ ہر وقت دودھ لیئو دو۔ او۔ دہ‘ پکارتے اس غریب کا گلا خشک ہوجاتا ہے لیکن تجھے تو جسے کچھ پرواہ ہی نہیں۔ 

    پتہ نہیں کیا بات تھی لیکن جب سے میں اسے دیکھا تھا میرے دل میں کچھ عجیب سی گدگدی ہوتی رہتی تھی۔ ایک عجیب طرح کا جذبہ موجزن تھا کہ کسی نہ کسی طرح اپنی بیوی کو اس سے دودھ خریدنے پر رضامند کرلوں۔ چند منٹوں تک اسے اپنے دروازے پر روک رکھوں اور موقع ملتے ہی اسے اپنی طرف دیکھنے پر مجبور کردوں۔ ایسا کچھ جی چاہتا تھا میرا۔ ایسی نازک بدن اور گوالن! وہ گوالن کیوں پیدا ہوئی، اس کا نازک جسم ایسے موٹے لباس کو کس طرح برداشت کرسکتا ہوگا؟ ایشور بھی سوچے سمجھے بغیر ہی پیدا کردیتا ہے۔ 

    اسی دن میں نے پہلی دفعہ سوچا کہ کاش میں بھی گوالا ہوتا۔ تالاب کے کنارے کھڑا میں بنسری بجاتا، گاؤں سے باہر میں لٹھ پر اپنا جسم لٹکا کر اور ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر کھڑے رہ کر مویشیوں کو ’’ہا۔ او۔ ہو‘‘ کہتا، ان کے درمیان کھڑا زبان اور تال سے ’’ڈچ ڈچ‘‘ کی آواز پیدا کرتا اور سر پر یہ بڑا سا پگڑ لپیٹے گیت گاتا۔ اے کاش ایسا ہوتا۔ یہ دیہاتی تاہم کنہیا کی زندگی تھی۔ پاگل کردینے والی گوالن بھی رادھا کی ذات والی ہی تو تھی۔ 

    بار بار اسکا حسن دیکھنے کی وجہ سے میرا دل بے قرار ہوگیا۔ اس کی گمبھیر لیکن تیکھی نظر نے میرا دل کھینچ لیا اور میں یہ سوچنے لگا کہ میں گوالن کا پیچھا کروں اور دیکھوں کہ وہ کہاں جاتی ہے۔ 

    ایک دن تو صبح آٹھ بجے ہی میں اٹھ بیٹھا اور کہیں ادھر ادھر جانے کے بجائے سیدھا گاؤں کے دروازے پر پہنچا اور انتظار کرنے لگا۔ دودھ بیچنے کے بعد وہ ابھی واپس آئے گی اور گھر جانے لگے گی، تب میں انجان بن کر اُس کے پیچھے لگ جاؤں گا۔ اور جیسے ہی موقع ملے گا اس سے پوچھوں گا کہ تو کون ہے؟ تیری آنکھوں میں کیا ہے؟ تیری چال اتنی مست کن کیوں ہے۔ 

    یوں اپنے دل میں سوال ترتیب دے کر میں گاؤں کے دروازے پر منتظر کھڑا رہا۔ کچھ ہی دیر میں دونوں ہاتھوں میں پیسے گنتی اور سر پر خالی کلسا رکھے وہ آگئی۔ کلسا سر پر چونکہ بے سہارا رکھا تھا۔ اس لیے اس کی گردن تنی ہوئی تھی لیکن نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ وہ میرے قریب سے نکل کر آگے بڑھ گئی۔ میں اس کے پیچھے چل پڑا۔ 

    چھکڑے کی لکیر بنی ہوئی تھی۔ ڈھلان کاٹ کر راستہ بناگیا تھا۔ اسی لیے دونوں طرف مٹی کی دیواریں سی بن گئی تھیں جن پر ککروندے اور چرونٹھی کے درخت اور بیلیں اگ رہی تھیں۔ لکیر کے بیچ میں کی مردہ مٹی اڑاتی، تیز تیز قدم اٹھاتی وہ چلی جارہی تھی۔ سورج عین سامنے تھا اس لیے گوالن نے اپنا ایک ہاتھ اٹھا کر ہتھیلی کا چھجا آنکھوں پر رکھ لیا تھا اور دوسرے ہاتھ سے سر پر رکھا برتن پکڑ رکھا تھا۔ ایک آدھ دفعہ گردن گھما کر اس نے میری طرف دیکھا تھا اور اُسے شک بھی ہوگیا تھا کہ میں اُس کا پیچھا کررہا ہوں چنانچہ کبھی تو وہ اپنی رفتار کم کردیتی اور کبھی تیز اسی مناسبت سے میں بھی اپنی رفتار میں کمی بیشی کررہا تھا۔ میں جانتا نہ تھا کہ یہ عیار عورت ایسا کیوں کررہی ہے۔ کیا وہ یہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ اس کا شک صحیح تھا یا غلط؟ بہر حال میں اس کی شرافت اور چال چلن پر کوئی الزام نہ لگانا چاہتا تھا اس کے حسن نے مجھے مسحور کردیا تھا۔ میرا دل بے قابو ہوچکا تھا اس کے باوجود میرا دماغ کام کررہا تھا۔ میری سمجھ بوجھ قطعی رخصت نہ ہوئی تھی اور نا ہی میں ایسا پاگل اور بے اختیار ہوگیا تھا کہ کوئی الٹی سیدھی حرکت کر بیٹھتا۔ 

    اس طرح ہم نے تقریباً نصف میل کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ وہ چلتے چلتے ٹھہرگئی۔ یہاں برگد کا ایک بڑا اور سایہ دار پیڑ تھا اور اسی کی چھاؤں میں راہگیروں کے بیٹھنے اور گھڑی دو گھڑی سستانے کے لیے ایک جھونپڑی بنادی گئی تھی۔ پیڑ پر کوئل بولے اور نیچے بچھڑے بھیڑیں، گائیں بھینسیں ادھر ادھر گھوم پھر کر چررہی ہوں یا برگد کی چھاؤں میں بیٹھی جگالی کررہی ہوں، جگہ بڑی خوبصورت تھی۔ 

    اس نے اپنے سر سے کلسا اُتار کر جھونپڑی کے باہر رکھ دیا اور خود راستہ کے کنارے اگی ہوئی گھاس پر کھڑے پاؤں، جس طرح گوالنیں عموماً بیٹھتی ہیں۔ ’’ہائے رام‘‘ کہہ کر بیٹھ گئی۔ 

    اب میں شش و پنج میں پڑگیا، کیا کروں؟ آگے بڑھ جاؤں یا وہیں رکا رہوں۔ اس سے بات کرنے کے خیال سے ہی میرا دل دھڑکنے لگا۔ جسم کا سارا خون سمٹ کر چہرے میں جمع ہوگیا اور میرے گال دہکنے لگے۔ ہمت کرکے میں یہاں تک آگیا تھا لیکن اب اس گوری گوالن نے میری ساری ہمت پست کردی تھی۔ 

    چند ثانیوں تک سوچتے رہنے کے بعد میں اسی راستے پر آگے بڑھا اور اس کے قریب سے سر جھکا کر نکلا چلا گیا۔ لیکن ابھی دوقدم ہی دور گیا تھا کہ اس نے پوچھا۔ 

    ’’سندن بھائی! ادھر کہاں آرہے ہو؟‘‘ 

    میرے گھر روزانہ آنے کی وجہ سے وہ مجھے پہنچانتی تھی۔ لیکن یہ تو میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ خود ہی یوں، اس طرح مجھ سے بات چیت شروع کردے گی۔ تو کیا وہ سمجھ گئی تھی کہ میں اسی کا تعاقب کررہا تھا۔ میرے متعلق کیسی رائے قائم کی ہوگی اس نے؟ ایسے کئی سوالات میرے دماغ میں یکے بعد دیگرے پیدا ہوئے۔ لیکن اس کے سوال کا جواب تو بہر حال دینا ہی تھا، پھر بھی کیا جواب دوں۔ چنانچہ گڑبڑا کر میں نے کہہ دیا۔ 

    ’’تیرا گاؤں دیکھنے جارہا ہوں۔‘‘ 

    لیکن پھر خیال آیا کہ میں کیا بک گیا۔ اس کا گاؤں دیکھنے کی مجھے کیا ضرورت؟ اب تو اس نے یقیناً میری دلی کیفیت معلوم کرلی ہوگی۔ شاید اسے میر اتعاقب برا ملوم ہوا ہوگا اور اگر اس نے کسی سے کہہ دیا کہ ’’سندن بھائی میرا گام دیکھنے آئے تھے تو؟‘‘ لیکن اس نے کہا۔ 

    ’’اوہو۔ واہ۔ تو میرے گام میں دیکھنے والی بات ہی کیا ہے؟ تمہارے گام جیسا تو ہے نہیں۔ لو۔ اب یہاں آؤ اور یہ دودھ پیو تازہ تازہ تازہ۔ باکھڑی بھینس کا ہے۔ منہ میں مزہ رہ جائے گا۔‘‘ 

    میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ میرا تعاقب اسے برا معلوم نہ ہوا تھا۔ اس کے برخلاف خود وہی مجھے بلا رہی تھی اس لیے اب تو یہ خطرہ ہی نہ تھا کہ میری عزت پر حرف آئے گا۔ اگر گلاب بلبل کو قریب آنے کی دعوت دے تو اس میں بلبل کا کیا قصور؟ اگر ناگ مرلی کے قریب آکر بیٹھ جائے تو سپیرے پر الزام نہیں آتا۔ اب جو ہونا ہے سو ہو بندہ تو اب اپنی مراد پاتا ہے۔ 

    ’’ارے نہیں۔ یوں راستے چلتے کہیں دودھ پیا جاسکتا ہے بھلا؟ کل گھر دے جانا‘‘ پینے کو تو دل مچل رہا تھا لیکن یوں پہلی ہی دعوت پر لبیک کہہ دینا تو ہلکی بات رہتی۔ گھر پر جب لوگے تو دیکھا جائے گا اس وقت تو یہیں پی لو، وہاں کہاں برگد کی ایسی ٹھنڈی چھاؤں ہوگی، جہاں پنچھی گیت گارہے ہوں گے؟ اور پھر میرے ہاتھ سے دودھ وہاں کہاں ملے گا؟ وہاں تو ہوگا یہ کہ اگر میری بہن کو پتہ چل گیا تو پھر لے دے مچ جائے گی۔‘‘ 

    اگر کوئی اسے جاہل کہے تو اس کا مطلب بس اتنا ہی ہے کہ وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ وہ بولنا نہیں جانتی تو اس کے معنی صرف یہ کہ وہ شہر کی پرتکلف اور معنوی زبان سے واقف نہ تھی۔ اس نے قدرت کی آغوش میں آنکھ کھولی تھی اور قدرت کی بانہوں میں پلی بڑھی تھی۔ وہ قدرت کے مزے سے واقف تھی، قدرت کی شرارت سے واقف تھی اور اپنے دیہاتی لہجے لیکن میٹھی آواز میں مجھے اس کا احساس دلارہی تھی ایسے وقت ایسے مقام اور ایسی تنہائی میں دل کو جھنجھوڑا اور جذبات کو برانگیختہ کیا جاسکتا ہے یہ وہ جانتی تھی اور اس کا احساس بھی دلا سکتی اور اظہار بھی کرسکتی تھی۔ میں تو بے پیے ہی مدہوش ہو جا رہا تھا۔ 

    ’’اب کہتی ہے تو پیے لیتا ہوں شرط یہ ہے کہ دودھ کے پیسے لے لینا۔‘‘ 

    ’’ہائے ہائے! پاگل ہوئے ہو کیا۔ یوں کہیں پیسے لیے جاسکتے ہیں۔ میری قسم اگر نہ پیو تو۔‘‘ 

    میں قریب ہی کھڑا ہوا تھا چنانچہ اس نے ذرا سا جھک کر میرے سامنے دودھ کا پیالہ رکھ دیا۔ اور میں نے سوچا کہ بس میاں اب زیادہ کھینچا تانی نہ کرو۔۔۔، اگر زیادہ ناز نخرے بگھارے تو موقع نکل جائے گا۔ میں نے اس کے ہاتھ سے دودھ ناپنے کا پیالہ لے لیا اور ہونٹوں سے لگا کر دودھ غٹ غٹا گیا۔ اس میں چینی نہ تھی، گرم کیا ہوا نہ تھا اس کے باوجود مجھے بے حد لذیذ معلوم ہوا۔ دودھ ویسے بھی مزیدار ہوتا ہے اور جن لوگوں نے کبھی تازہ دوہیا ہوا دودھ پیا ہے وہ اس کی مٹھاس سے واقف ہیں۔ پھر یہ تو ایک خوبصورت عورت نے پیش کیا تھا اور اصرار کرکے پلایا تھا اور پھر ایک مدہوشی نے پیا تھا اس لیے اس کی لذت تو کچھ اور ہی تھی۔ 

    ’’گوالن تیری ذات کیا ہے؟‘‘ میں نے بات شروع کی۔ 

    ’’لو، تمہاری تو ذات بگڑی اور دھرم گیا۔‘‘ 

    ’’نہیں تو۔ میں اس لیے پوچھ رہا۔ صرف جانکاری کے لیے پوچھ رہا ہوں۔ ہاں تو کیا ذات ہے تیری؟‘‘ 

    ’’یہ بھی بھلا کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ ہم ڈھور چرانے والے رباری لوگ ہیں۔‘‘ 

    ’’توشادی شدہ ہے یا کنواری؟‘‘ میرا دیوانہ پن اب بڑھتا جارہا تھا۔ 

    اس نے شرما کر بے حد نیچی آواز میں کہا ’’شادی ہوچکی ہے۔‘‘ 

    ’’کس کے ساتھ؟‘‘ 

    ’’ارے سندن بھائی! گھر والے کا نام لیا جاسکتا ہے بھلا؟ ہم جیسے ایک رباری کے ساتھ ہوئی ہے شادی۔‘‘ 

    ’’محبت کیا ہے تو جانتی ہے؟‘‘ میں تو اپنے حواس میں نہ تھا۔ کیا پوچھا جاسکتا ہے اور کیا نہیں، اسکا بھی مجھے ہوش نہ تھا۔ میں نے کیا پوچھا یہ وہ سمجھی ہی نہیں۔ 

    ’’کیا؟‘‘ 

    ’’پیار کیا ہوتا ہے یہ تو جانتی ہے؟ تیرا شوہر چاہتا ہے تجھے؟‘‘ 

    ’’ہائے ہائے! سندن بھائی تم پاگل تو نہیں ہوگئے؟‘‘ 

    ’’نہیں۔۔۔ یہ تو تجھے بتانا ہی پڑے گا۔ یہاں تک تیرے پیچھے پیچھے آیا ہوں وہاں محلے میں اور بازار میں تجھ سے بات کرتے ڈرتا تھا۔ اب اگر تو میرے ساتھ بات چیت نہ کرے تو تجھے میری قسم۔‘‘ اور میں اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ ہمارے درمیان دودھ کا کلسا تھا۔ 

    یکلخت ’’ہائے۔ میں اپنی پوٹلی بھول آئی۔ ہائے ہائے!‘‘ سن کر میں گھبرا گیا۔ وہ ایک دم سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

    ’’سندن بھائی! میرے اس کلسے کا جرا دھیان رکھا۔ میں اپنی بھوسی کی پوٹلی کہیں بھول آئی ہوں۔ بس ابھی گئی اور واپس آئی۔‘‘ 

    ’’کیوں نہیں؟‘‘ وہ اگر دن بھر جھلسا دینے والی دھوپ میں بیٹھنے کو کہتی تو میں اس کے لیے بھی تیار تھا یہ تو تھوڑی سی دیر کی ہی بات تھی۔ 

    ’’ہاں، ہاں۔ جاؤ لے آؤ۔ میں اس جھونپڑی میں بیٹھتا ہوں۔‘‘ 

    اگر کسی نے مجھے راستے میں بیٹھا دیکھ لیا تو پوچھے گا کہ یہاں کیوں بیٹھا ہوں چنانچہ میں کلسا اٹھا کر جھونپڑی میں جا بیٹھا۔ یہاں کسی نے گھاس بچھا کر فرش بنادیا تھا ببول کے ٹہنے زمین میں گاڑ کر اس پرنرسلوں کی چھت ڈال دی تھی۔ پچھواڑے کی دیوار میں چھوٹی سی کھڑکی تھی۔ دیوار کی ٹیک لگا کر اور ٹانگیں پھیلا کر میں بیٹھ گیا۔ واہ ری گوری گوالن! تیری دیہاتی بولی میں کیا مٹھاس ہے۔ آج تو میں اسے جانے نہ دوں گا۔ باتوں باتوں میں اگر اسکا گھر نہ بھلادوں تو میرا بھی نام نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ مجھے گائیں چرانا سکھاتی ہے کہ نہیں! اگر اس نے باریک ساڑھی، جگمگاتی اور پھنسی پھنسی چولی اور ریشمی گھاگھری پہن رکھی ہوتی تو وہ کیسی معلوم ہوتی، اگر اس نے جوڑے میں گلاب کا پھول لگایا ہوتا، کلسے میں موتیوں کی یک لڑی مالا ہوتی اور پھر وہ اپنی اسی دل لبھانے والی چال سے چلی جاتی تو اچھے اچھے جگادری پارسا اپنے حواس کھو بیٹھتے۔ تصور میں اسے نت نئے لباس اور گہنے پہنا پہنا کر میں اس کے حسن کو زیادہ سے زیادہ مسحور کن بنا رہا تھا اور اس تصور سے میں خود مدہوش اور بے قابو ہوا جارہا تھا۔ اس کے کلسے پر کوئی نام کندہ تھا۔ میں نے غور سے دیکھا۔ ’’دلی‘‘ یہی ایک لفظ میں صاف پڑھ سکا۔ چنانچہ میں نے سمجھ لیا کہ ’’دلی‘‘ اسی کا نام ہوگا۔ شاید میکے سے سسرال جاتے وقت اس کے والدین نے یہ کلسا اسے دیا ہوگا۔ افوہ! اندر اور باہر سے اس نے اس کلسے کو کس قدر صاف ستھرا کر رکھا ہے۔ اب اگر اس میں دودھ اچھا معلوم ہو اور لوگوں کا جی للچائے تو اس میں حیرت کی کون سی بات ہے۔ ایسے صاف ستھرے برتن کی وجہ سے دودھ بھی اچھا معلوم ہو وہ سر پر رکھنے کا اینڈ وا کیوں نہ لے گئی اپنے ساتھ؟ جب وہ سر پر کلسا رکھ کر دونوں ہاتھ ہلاتی ہوئی گاؤں میں آتی ہے تو کتنی میٹھی ہوتی ہے اس کی آواز! واہ بھئی واہ! دل بے اختیار کھنچا چلا جاتا ہے۔ علی الصبح بھیرویں جس طرح مست و بے خود کردیتی ہے، بس ایسا ہی کچھ اثر اس گوالن کی آواز کا ہوتا ہے۔ کچھ سوتے کچھ جاگتے عالم میں اس کی آواز سنائی دیتی ہے تو نیک شگون کا خواب آتا ہے اور پورا دن ہنسی خوشی گزر جاتا ہے۔ سچ کہوں تو یہ گوالن پورے گاؤں کے لیے ایک مبارک فال تھی۔ 

    بیس پچیس منٹ تک انہیں خیالات میں ڈوبا رہا کہ وہ آگئی۔ 

    ’’اوہو! بیٹھے ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔ 

    ’’کیوں پوٹلی ملی؟‘‘ 

    ’’نا بھئی! چار پانچ گھروں میں پوچھ آئی لیکن کہیں پتہ نہ لگا۔ کون جانے کس کے گھر بھول آئی ہوں۔ اب اس وقت تو کہاں کہاں جاؤں۔‘‘ اور وہ مایوس ہوکر دھپ سے بیٹھ گئی۔ 

    ’’دلی‘‘ 

    وہ چونکی۔ 

    ’’گاؤں میں لوگ مجھے دودھ والی کہتے ہیں۔‘‘ 

    ’’یہ دیکھ، تیرے کلسے پر لکھا ہے تیرا نام۔ یہ کلسا تجھے میکے سے ملا تھا نا؟ 

    میرا مطلب ہے تیری شادی کے وقت‘‘ 

    میں تو اسی میں کھو گیا تھا۔ اس لیے میں نے عجیب وغریب اندازے لگا لیے تھے تو اس میں کوئی تعجب نہ تھا۔ 

    ’’اور تیرا یہ شوہر۔۔۔ دوسری دفعہ کا ہے۔ ہے کہ نہیں؟‘‘ میں نے اس کی گردن میں پڑی ہوئی ’’سوگ پاؤں‘‘ 1 (سوت مالا) کو دیکھ کر پوچھا۔ میری نظر اس کے دودھیا جسم پر پھسل رہی تھی اس لیے اس نے ساڑھی کا دامن سینے پر کھینچ لیا۔ 

    ’’تو اور تیرا شوہر۔ تم دونوں دن بھر کیا کیا کرتے ہو؟‘‘ 

    ’’ہائے ہائے‘‘ وہ اپنے موتی جیسے دانتوں کو ساڑھی کے کونے میں چھپا کر اور ذرا منھ پھیر کر ہنسی۔ 

    ’’بتا تو سہی، صبح سے شام تک کیا کرتے ہو تم دونوں؟‘‘ 

    ’’اب کیا کرتے ہوں گے سندن بھائی؟ ڈھوروں کا کام کرتے ہیں۔ صبح بڑی جلدی اٹھتے ہیں۔ داتون کرنے کے بعد بچھیوں کو ان کی ماں کے تھنوں سے دودھ پلواتے پھر وہ گائیں دوہیں اور میں بھینسیں، دودھ دوہنے کے بعد اور ڈھوروں کو چارہ پانی دینے کے بعد ہم دونوں نکل پڑتے ہیں۔ گاؤں سے نکلنے کے بعد وہ دوسری طرف جاتا ہے اور میں تمہاری طرف آجاتی ہوں۔ دودھ بیچ باچ کر میں یہاں آبیٹھتی ہوں اور ان کے آنے تک میں یہیں بیٹھتی ہوں اور پھر ہم ساتھ ساتھ اپنے گاؤں کی طرف چل دیتے ہیں۔‘‘ 

    اب مجھے فکر ہوئی۔ اگر اس کا رباری آگیا اور مجھے اسکے ساتھ بیٹھا دیکھ لیا اور لٹھ اٹھا کر مجھ پر ٹوٹ پڑا تو؟ لاکھ کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ ذلت برداشت کرنی پڑے گی اور ہڈیاں ٹوٹیں گی سو الگ۔ اس خیال کے آتے ہی میرا رنگ فق ہوگیا اور میں نے ٹوپی اٹھا کر فرار ہوجانے کی تیاری کی۔ 

    ’’ارے سندن بھائی! ٹوپی کیوں اٹھائی۔ آج تو میں اکیلی ہی آئی ہوں وہ گھی بیچنے گئے ہیں۔‘‘ اس نے مجھے اطمینان دلایا۔ 

    ’’دلی! تیرا شوہر بنسری میں ایسی کون سے دھن بجاتا ہے کہ تم سب وہاں کھڑے بس سنا کرتے ہو۔ اگر میں تالاب کے کنارے بنسری بجاؤں تو۔۔۔؟‘‘ 

    ’’لیکن سندن بھائی! تم کو ہم جیسا بننے کا شوق کیوں ہوا ہے؟‘‘ 

    ’’تیرے ہی لیے دلی، صرف تیرے لیے، تو کھائے سو میں کھاؤں باجرے کی یہ موٹی اور پیاز یا ہری مرچ، تیری گایوں کو چرانے لے جاؤں، ایسا کچھ ہوتا ہے میرے دل میں تیرا گاؤں یہاں سے اور کتنی دور ہے؟‘‘ 

    چار پانچ کھیت دور، وہ سپاریوں کے پیڑ نظر آرہے ہیں نا، بس وہ ہے میرا گاؤں۔ سندن بھائی! تمہیں ہمارے ہاں کیا اچھا لگے گا؟ ہم تو گھاس پھوس کے گدوں پر سوتے ہیں، چار پائی جھونپڑی کے باہر ڈال دیتے ہیں۔ قریب میں ہی ڈھور بندھے ہوتے ہیں جو رات بھر ’’گوں گوں‘‘ کرکے ڈکارتے ہیں۔ تم جیسوں کو وہاں نیند نہ آئے گی۔‘‘ 

    ’’کیا بات کرتی ہو۔ میرے لیے تو وہ جگہ جنت سے بڑھ کر ہوسکتی ہے اور پھر تجھ جیسی کا ساتھ ہوتو میں اپنا گھر بار سب بھول جاؤں۔‘‘ 

    اس ساری گفتگو سے میں نے تو یہ یقین کرلیا تھا کہ یہ گوری گوالن مجھ پر فدا ہے میں نے اس کا دل موہ لیا ہے اور اب وہ آہستہ آہستہ لجا کر شرما کر اپنے دل کی بات کہہ دے گی، پھول کی طرح میرا دل امید سے کھلا جارہا تھا، چشمہ بہتا اور پھیلتا ہے یوں میرے تصورات پھیل اور بڑھ رہے تھے۔ خلا میں قلابازیاں کھاتی ہوئی ننھی سی چڑیا کی طرح میرا دل ڈول رہاتھا۔ گوالن ہاتھ میں ایک تنکا پکڑے ددھ میں آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ رہی تھی، اسے موڑ کر کمان سی بناتی اور اب وہ اسے توڑ رہی تھی۔ یوں وہ کھیل رہی تھی اور ذرا بھی گھبرائے بغیر، ذرا بھی خوفزدہ ہوئے بغیر اور ذرا بھی شرمائے بغیر وہ بڑی بے تکلفی سے مجھ سے باتیں کررہی تھی۔ چند لمحوں تک خاموش رہی۔ 

    اور پھر یکایک بجلی سی گری، زبردست کڑک تھے بچے کا دل لرزا دے، اس طرح، زبردست آندھی آئے اور مدھو مالتی کی بیل کانپ کانپ اٹھے یا جیسے شادی کے گھر میں اچانک موت ہوجائے۔ بس ایسا ہی کچھ ہوا۔ جھونپڑی کی کھلی ہوئی کھڑکی میں میری بیوی جھانکتی ہوئی نظرآئی۔ وہ غصے سے تمتمایا ہوا چہرہ لیے کھا جانے والی نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ 

    اس کی آنکھوں میں غصے کی شدت سے پانی بھرآیا تھا۔ جسم میں تھرتھری پڑ گئی تھی۔ زبان گنگ تھی، کیا کہوں کیا نہ کہوں وہ اسی الجھن میں پڑی تھی۔ کیا کچھ کہنے کا طوفان اس کے دل میں اٹھا ہوا تھا۔ اس کے باوجود اس کے منھ سے ایک لفظ تک نہیں نکل رہا تھا۔ وہ کچھ کہے بغیر یک ٹک میری طرف دیکھے جارہی تھی۔ میں نے نظریں جھکالیں اور دلی۔ وہ عیار عورت ساڑھی کے پلو میں منھ چھپا کر ’’کھی کھی‘‘ ہنس رہی تھی، بس ہنسے جارہی تھی۔ 

    اور یہاں مصور کو تین تصویریں بنانی تھیں: ایک غضب کی دیوی کالی کی، دوسری ایک جادوگرنی کی اور تیسری، ایک بیوقوف کی! 



    حاشیہ
    (۱) اپنے پہلے شوہر کے مرجانے پر عورت دوسری شادی کرتی ہے تو اپنے گلے میں چاندی یا سونے کا طوق غم اور سوگ کی علامت کے لیے ڈالتی ہے۔ 

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے