aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہرے رنگ کی گڑیا

دیوندر ستیارتھی

ہرے رنگ کی گڑیا

دیوندر ستیارتھی

MORE BYدیوندر ستیارتھی

    میں نے اسے پہلے پہل ایک سرکاری دفتر میں دیکھا۔ وہ سبز رنگ کے لباس میں ملبوس تھی۔ میں اپنے پرانے دوست مٹو سے ملنے کے لیے ٹھیک گیارہ بجے پہنچا۔ وہ وہاں پہلے سے موجود تھی۔ مٹو نے اس سے میرا تعارف کرایا جب یہ پتہ چلا کہ وہ مصوری میں دلچسپی رکھتی ہے اور اِس فن میں اسے بڑی شہرت حاصل ہے تو مجھے بڑی مسرت ہوئی۔ میری درخواست پر اس نے اپنے ہاؤس بوٹ کا پتہ لکھ دیا۔ بہت دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ مجھے یہ محسوس ہوتے دیر نہ لگی کہ ہماری یہ ملاقات محض رسمی ملاقات نہیں ہے۔ اس نے زور دے کر کہا۔ ’’تھوڑا وقت نکال کر میرے ہاں آئیے۔ میری کچھ نئی تصویریں دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ میں اپنی کوششوں میں کہاں تک کامیاب رہی ہوں۔‘‘

    ’’ہم ضرور حاضر ہوں گے‘‘ مٹو نے سرکاری فائل سے ایک لمحہ کے لیے چھٹی لیتے ہوئے وعدہ کیا۔

    ’’مجھے بھی لیتے چلیے‘‘ مٹو کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے میں نے کہا، ’’نئی تصویریں دیکھنے کا مجھے بھی بےحد شوق ہے۔‘‘

    ’’میں انتظار کروں گی!‘‘ وہ مُسکرائی۔ مسکراہٹ سے ہنسی، ہنسی، سے قہقہہ اور پھر اس کی شخصیت شانتی اور سکون کے تاثر میں کھو گئی۔

    مٹو سرکاری فائل پر جھک گیا۔ جیسے وہ بھول کر بھی یہ نہ سوچ سکتا ہو کہ سرکاری فائل کا کام تھوڑی دیر کے بعد بھگتایا جا سکتا ہے۔ مجھے خیال آیا کہ یہ بھی غنیمت ہوا کہ میں پہنچ گیا ورنہ صوفیاؔ کو میرے دوست کی یہ بےرخی بہت بری طرح اَکھرتی۔

    وہاں بیٹھے بیٹھے صوفیا سے اتنی باتیں ہو گئیں کہ اب ہمارے بیچ میں کسی طرح کی دوری کا تصور مٹ گیا۔ اس نے بتایا کہ سبز رنگ کا لباس اسے بےحد پسند ہے اور جس روز وہ سب سے زیادہ خوش ہوتی ہے یہ ناممکن ہے کہ وہ سبزرنگ کے لباس کے سوا کوئی دوسرا لباس پہنے۔ بچپن سے ہی اسے چاکلیٹ پسند تھیں اور یہ ناممکن ہے کہ اس کی جیب میں دو چار چاکلیٹ نہ رہیں۔ پھولوں کی موجودگی اُس کی روح میں لطافت پیدا کرتی ہے۔ موسیقی اور رقص کی فضاؤں میں سانس لینے کی بات وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ دیس دیس کی سیر، ہر روز نئے چہرے دیکھنے کی جستجو، زندگی کے محور پر گھومتی ہوئی مصوری۔۔۔ایسی، ایسی بہت سی باتیں جسے صوفیا ایک ہی سانس میں بتا گئی تھی۔

    ’’کبھی کبھی نئی تصویر بناتے ہوئے مجھے آنے والے زمانہ کی جھنکار سنائی دینے لگتی ہے!‘‘ وہ مسکرائی اور مجھے محسوس ہوا کہ اگر یہ صحیح ہے تو صوفیا کی تصویروں کے رنگ زندگی کی کشمکش کے رنگ ہوں گے۔ ان میں کسی طرح کا ڈیڈ لاک نہ ہوگا۔

    ’’شاعری کی طرح مصوری بھی سچائی چاہتی ہے!‘‘ میں نے دھیمی آواز میں کہا۔

    مٹو کو جیسے ہماری گفتگو سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔ سرکاری فائل سے سر اٹھا کر اس نے چپراسی کو گھنٹی دے کر بلایا اور چائے لانے کا حکم دیا۔ ’’تھوڑا نمکین ضرور لانا، تھوڑی مٹھائی بھی۔‘‘

    میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں صوفیا سے کہا کہ چلیے یہی کیا کم ہے، آخر ہمارے دوست کو ہمارا تھوڑا بہت خیال تو ہے۔ صوفیا نے جرأت سے کام لیتے ہوئے کہا۔ ’’میں اس لیے حاضر ہوئی تھی کہ آپ کا محکمہ میری تصویروں کے فوٹو لینے کا انتظام کر دے۔‘‘

    ’’یہ کام میں ضرور کر دوں گا۔‘‘مٹو نے وعدہ کیا۔

    ’’تو کب تک امید رکھوں؟‘‘ صوفیا نے کسی قدر لجاجت سے کہا ’’میں بہت جلد باہر جا رہی ہوں۔‘‘

    ’’آپ جائیں گی بھی تو اگلے ہفتے۔‘‘میں نے بڑھاوا دیا۔

    ’’اس ہفتے تو میں جانے سے رہی۔‘‘

    ’’تو میں ضرور حاضر ہو جاؤں گا۔‘‘

    ’’ضرور آئیے۔‘‘

    صوفیا کے چہرے سے معصومیت برستی تھی۔ اس کی آنکھوں میں تپاک اور ہمدردی کی جھلک نمایاں تھی۔ کبھی کبھی اس کی آنکھوں میں سوچ کا رنگ ابھرتا جیسے تعارف کے بعد ہونٹوں پر مسکراہٹ تھرکنے لگتی ہے۔ سچ کہتا ہوں مجھے صوفیا کی یہ کمزوری بہت ناگوار گزری کہ پبلسٹی والوں سے اسے خود یہ درخواست کرنی پڑے کہ وہ اس کی تصویروں کے فوٹو لے کر مختلف اخباروں کو بھیجنے کا انتظام کریں۔ پبلسٹی والوں کو سو بار غرض ہوتی تو صوفیا کا ہاؤس بوٹ پوچھ کر اس کے ہاں پہنچتے اور محکمہ کے ڈائرکٹر کی چٹھی میں صاف صاف لکھا ہوتا کہ اگر مادام صوفیا اپنی کچھ تصویروں کے فوٹو لینے کی اجازت دے سکے تو محکمہ کشمیر ٹورسٹ پبلسٹی بے حد ممنون ہوگا۔ صوفیا کو تھوڑا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ پبلسٹی والے بھاگے بھاگے اس کے ہاں محکمہ پبلسٹی کی یہ درخواست لے کر آتے۔ خیر اب تو صوفیا خود ہی محکمہ پبلسٹی میں چلی آئی تھی۔ جیسے اپنی اس حرکت کے ذریعہ اس نے سب کے سب مصوروں کی ہتک کر دی ہو۔

    ’’حافظ نے لکھا ہے کہ اپنا وطن بہشت ہوتا ہے۔‘‘میں نے صوفیا کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔

    ’’بہت بڑی بات کہہ دی حافظ نے۔‘‘وہ پہلے مسکرائی، پھر ہنستی رہی۔

    اس نے بتایا کہ کشمیر اسے بےحد پسند ہے۔ اسی لیے نیپال کے سفر میں بھی اسے کشمیر کی یاد کبھی بھولی نہ تھی۔ وہاں اس نے گنتی کے دن بڑی مشکل سے کاٹے۔ ہر وقت وہ یہی سوچا کرتی کہ وہ دن کب آئےگا جب اس کے پاؤں پھر سے کشمیر کی دھرتی کو چوم رہے ہوں گے۔ بڑے موثر انداز میں اُس نے بتایا کہ نیپال سے کشمیر پہنچ کر اس نے خوشی سے جھوم کر ادھر ادھر دیکھا تھا اور اب جب کہ وہ دو ہفتوں کے لیے بمبئی جا رہی تھی اسے ڈر تھا کہ بمبئی جاکر بھی اس کی وہی حالت نہ ہو جائے جو نیپال پہنچنے پر کٹھمنڈو میں ہوئی تھی۔۔۔

    ’’کشمیر مجھے پسند ہے، کوئی اسے بہشت سمجھے چاہے نہ سمجھے‘‘ صوفیا نے جیسے دل کی گہرائیوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا، ’’میری بہترین تصویریں کشمیر کی تصویریں ہیں۔ ایک بات اور بھی تو ہے۔ فنکار کو اپنا وطن تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اب چونکہ مجھے کشمیر میں ہی گھر کا احساس ہوتا ہے، یہی میرا وطن بن گیا ہے۔ کشمیر کی فضا میں سانس لیے بِنا جیسے میرا فن مر جائےگا۔‘‘

    ’’تو یہ کہیے کہ آپ مصوری کو جغرافیائی اور سیاسی دیواروں سے گھیر کر رکھنے کی قائل ہیں۔‘‘مٹو نے فائل سے سر اٹھا کر ہماری گفتگو میں شامل ہونے کا دم بھرا۔

    ’’چائے کا کب تک انتظار کرنا ہوگا؟‘‘ میں نے صورتِ حال کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے کہا۔

    ’’ابھی آیا چاہتی ہے چائے۔‘‘

    ’’ابھی کا مطلب دس منٹ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

    ’’شاید۔‘‘

    صوفیا بیٹھی مسکراتی رہی۔ جیسے اس کی مسکراہٹ کشمیر کی دہلیز پر کھڑی عورت کی طرح نئے زمانے کا استقبال کر رہی ہو۔ بولی ’’بہشت کی حور ہے آزادی۔ کیا وہ گھر گھر جائےگی؟ اب تو کسی کسی گھر میں آزادی ناچ رہی ہے، لیکن یقین کیجیے کہ ایک دن کشمیر کی دکھ بھری کہانی کا اَنت ہو جائےگا۔ اس وقت لوگ میری تصویروں میں اس نئی سماج کی روح دیکھ کر کتنے خوش ہوں گے۔ وہ ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔۔۔آخر یہ کیسے ممکن ہو سکا کہ مادام صوفیا نے اپنی تصویروں میں آج سے دس برس پہلے وہی بات اجاگر کی جس کی ضرورت ہمیں اتنے دنوں بعد محسوس ہوئی؟‘‘

    ’’اب آپ کی تصویروں کے فوٹو لینے کا انتظام زیادہ سے زیادہ دور وز لے گا‘‘ مٹو نے سرکاری فائل سے سر اٹھا کر تسلی دی۔

    چائے آ گئی۔ میں نے ٹرے کو صوفیا کی طرف سرکاتے ہوئے کہا۔ ’’اب اپنا کام کیجیے۔‘‘

    صوفیا نے پہلا پیالہ مٹو کی طرف بڑھایا دوسرا پیالہ میری طرف۔ تیسرا پیالہ اپنے ہونٹوں تک لے جاتے ہوئے اس نے دیکھا کہ مٹو لاکھ بےرخی دکھائے۔ آخر وہ اچھا آدمی ہے اور یہ اس کی ایمانداری ہے کہ دوستوں کی موجودگی میں بھی سرکاری فائلوں کو بھگتانے کی بات اُسے اہم معلوم ہوتی ہے۔

    چائے کے بعد صوفیا اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اس نے مجھ سے پوچھا۔۔۔اس وقت کدھر چلنے کا ارادہ ہے؟ بولی، ’’اب میں چلوں گی۔‘‘

    ’’آرٹسٹ لوگ محکمہ پبلسٹی پر اتنے مہربان ہیں‘‘ مٹو نے پیشانی کھجاتے ہوئے کہا ’’وہ خود ہی اِدھر چلے آتے ہیں یہ ان کی عین عنایت ہے۔‘‘

    ’’مجھے ابھی رکنا ہوگا۔‘‘میں نے کہا ’’آپ چلیے۔‘‘

    صوفیا چلی گئی۔ مٹو بولا۔ ’’کہیے کیا ارشاد ہے، قبلہ؟‘‘

    ’’اپنی اب تک کی چھپی ہوئی ہر پبلیکیشن کا ایک ایک نسخہ دلاسکیں تو عنایت ہوگی۔‘‘

    ’’ابھی لیجیے۔ پہلے بتایا ہوتا تو اب تک یہ چیزیں آپ کے سامنے پہنچ چکی ہوتیں۔‘‘

    ’’خیر اب نکلوا دیجیے۔‘‘

    مٹو نے گھنٹی بجاکر چپراسی کو بلایا اور کاغذ کے پُرزے پر نوٹ لکھ کر کہا۔ ’’اسے سومناتھ کے پاس لے جاؤ۔ بولو کہ یہ کتابیں اور پمفلٹ دس منٹ کے اندر اندر مل جانے چاہئیں۔‘‘

    دفعتاً مٹو زور زور سے ہنسنے لگا۔ ’’مجھے صوفیا سے ایک ہی شکایت ہے۔۔۔‘‘

    ’’ہم بھی سنیں۔‘‘

    ’’اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی ایک تصویر مجھے ضرور دے گی۔ اسی امید پر ہم نے اس کی بےحد پبلسٹی کی۔ مانا کہ وہ کشمیر کو اپنی تصویروں میں پیش کرتی ہے اور اس طرح کشمیر کی ٹورسٹ پبلسٹی میں ہماری مددگار ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ڈھول پیٹنے سے جب بھی اس کی تصویریں اچھے داموں پر بکتی ہیں، سب کا سب روپیہ اسی کی جیب میں جاتا ہے۔‘‘

    ’’وہ اپنی کوئی تصویر تحفہ کے طور پر ضرور پیش کرےگی۔‘‘

    ’’چلیے اور انتظار کر لیتے ہیں۔ آخر دنیا امید پر قایم ہے۔‘‘

    مجھے یوں محسوس ہوا کہ مٹو کے ہونٹوں پر کوئی گونگا خیال تھرک اٹھا ہے۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا۔ لیکن اسے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ بولا، ’’بہت سے آرٹسٹ تو کاغذ پر رنگ تھوپ دیتے ہیں اور سوچتے ہیں تصویر تیار ہو گئی۔ لیکن صوفیا بہت محنت کرتی ہے۔ اپنی تصویروں میں اس نے کشمیر کو کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے کہ رنگ ہم آہنگ ترنم کے ساتھ کشمیر کی خوبصورتی کا دم بھرتے چلے جاتے ہیں۔ اس پبلسٹی کے لیے ہم صوفیا کے بے حد ممنون ہیں، لیکن۔۔۔‘‘

    ’’لیکن صوفیا کو اپنا وعدہ یاد رکھنا چاہیے۔‘‘میں نے ہنس کر بڑھاوا دیا ’’اور اگر صوفیا صحیح قسم کی آرٹسٹ ہے تو وہ اپنی کوئی تصویر اگلی بار آپ کے لیے ضرور لیتی آئےگی۔‘‘

    مٹو کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اس نے کہا۔۔۔تمھارے منھ میں گھی شکر۔ تمھاری زبان مبارک! اس وقت اس کا ذہن ویران نہ تھا۔ سنبھل کر اس نے کہا۔ ’’ہم تو زندگی کے علمبردار ہیں۔ اگر سچائی کا دم بھرنا گناہ ہے تو ہم سچ مچ گناہگار ہیں۔ صوفیا جانتی ہے کہ مجھ پر اس کا رعب ہے۔ میں ہمیشہ اس کے لیے، اس کے فن کے لیے لڑتا رہا ہوں۔ آپ یہ مت سمجھیے کہ میں ایک تصویر کی شکل میں اپنی خدمات کا صلہ چاہتا ہوں۔ میں چاہوں تو اس کی ایک تصویر خرید سکتا ہوں۔ لیکن۔۔۔‘‘

    ’’لیکن جو مزا تحفہ میں ملی ہوئی تصویر کا ہوتا ہے۔‘‘میں نے ہنس کر کہا ’’وہ مزا خریدی ہوئی تصویر کا نہیں ہوتا۔‘‘

    ’’آپ نے تو میری زبان سے یہ الفاظ چھین لیے۔‘‘

    ’’داد دیجیے۔‘‘

    ہماری آنکھیں کچھ لمحوں کے لیے ایک دوسرے کو داد دیتی رہیں۔ اس بیچ میں میرے لیے ضروری لٹریچر آ گیا تھا۔ اس کے لیے میں نے مٹو صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ جذبۂ خود داری کو میں نے سنبھال کر تھام رکھا تھا۔ میں نے انھیں بتایا کہ ابھی ہفتہ دس دن اورہوں کشمیر میں اور دلی جانے سے پیشتر ایک بار ان کا نیاز ضرور حاصل کروں گا۔

    کئی روز دوسری ہی کشمکش میں گزر گئے۔ صوفیا کے ہاؤس بوٹ میں جانے کے لیے وقت نہ نکالا جا سکا۔ کئی بار مجھے اپنے ذہن میں گدگدی سی محسوس ہونے لگتی۔ صوفیا کی یاد میں زندگی کا ایک نیا موڑ نظر آنے لگتا۔ صوفیا نے پہلی ہی ملاقات میں دل کھول کر رکھ دیا تھا۔ اُس نے کسی اور کا افسانہ نہیں سنایا تھا، اپنی تصویروں کا افسانہ سنایا تھا۔ یہ تصویریں مجھے بلا رہی تھیں۔ جیسے پوچھ رہی ہوں۔۔۔تم کب آ رہے ہو؟

    ایک روز میرے ایک ساتھی نے، جو نہ صرف بے حد ہنس مکھ واقع ہوا تھا بلکہ جسے ڈوگری لوک گیتوں کی کچھ پرانی دھنیں بڑی باریکی سے پیش کرنے کی اہلیت حاصل تھی، نہ جانے کیا سوچ کر پوچھا۔ ’’آپ صوفیا کو جانتے ہیں؟‘‘

    ’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘ میں نے کچھ اس سادگی سے پوچھا۔ جیسے صوفیا کے بارے میں مجھے کوئی علم ہی نہ ہو۔

    ’’صوفیا کی تصویریں خوب بِک رہی ہیں آج کل‘‘ میرے ساتھی نے شکایت کی ’’یہاں کے آرٹسٹ منھ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ کچھ بڑے بڑے فریم میکروں کے ہاں صوفیا نے اپنی تصویریں رکھ چھوڑی ہیں۔ اس کی دیکھا دیکھی یہاں کے آرٹسٹ بھی ان فریم میکروں کے ہاں اپنی تصویریں بکنے کے لیے رکھ جاتے ہیں۔ دکاندار کو تو کمیشن چاہیے۔ اس کی بلا سے صوفیا کی تصویر بکے چاہے یہاں کے کسی آرٹسٹ کی۔ لیکن ہوتا یہی ہے کہ صوفیا کی تصویریں بکتی ہیں اور یہاں کے آرٹسٹ کافی ہاؤس میں بیٹھ کر صوفیا کا نام لے لے کر اسے سو سو صلواتیں سناتے ہیں۔ کہتے ہیں اسے فن کی بہت زیادہ تمیز نہیں ہے۔ اس کی تصویریں فلیٹ ہیں۔ کوئی کہتا ہے اسے انگریز اور امریکن ٹورسٹوں کو ٹھگنے کا ڈھنگ آگیا ہے۔ کلب میں وہ اُن سے ملتی ہے اور ہونٹوں پر جھوٹی سچی مسکراہٹیں بکھیر کر ان کا دل موہ لیتی ہے اور پھر اپنی تصویروں کا پراپگینڈہ کرتی ہے، فریم میکروں کے پتے بتا دیتی ہے جن کے ہاں اس کی تصویریں نمائش اور بکری کے لیے پڑی رہتی ہیں۔‘‘

    ’’اپنی تصویروں کے بارے میں کسی کو کچھ بتانا تو بہت بڑی زیادتی نہیں ہے۔‘‘میں نے صوفیا کی طرفداری کی ضرورت سے زیادہ اہمیت دی۔ ’’میں نے سنا ہے کہ صوفیا کی تصویریں بہت گمبھیر ہوتی ہیں۔ وہ محض کاغذ پر رنگ تھوپنے تک ہی اکتفا نہیں کرتی۔ اب تم سے چھپانے سے کیا حاصل؟ ابھی اگلے ہی روز صوفیا سے میری ملاقات ہو گئی۔‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’مٹو صاحب کے دفتر میں۔‘‘

    ’’کون مٹو صاحب؟‘‘

    ’’وہی پبلسٹی والے مٹو صاحب۔‘‘

    ’’تو یہ کہیے کہ صوفیا کے ہاں چلنے کا ارادہ ہے۔‘‘

    ’’آپ بھی چلیے۔‘‘

    ہم بازار سے بنڈکی طرف ہولیے اور دس منٹ تک پیدل چلنے کے بعد اس ہاؤس بوٹ کے سامنے جا پہنچے جہاں صوفیا رہتی تھی۔ لکھا تھا۔۔۔کتوں سے خبردار رہیے۔ میرا ساتھی گھبرایا۔ میں نے اسے تسلی دی کہ یہاں کوئی خطرہ پیش نہیں آئےگا۔ ’’میں نے صوفیا کو نزدیک سے نہیں دیکھا‘‘ وہ کہہ رہا تھا ’’صرف اس کے بارے میں ادھر ادھر کی باتیں سُنی ہیں۔ شاید صوفیا اتنی خراب نہ ہو جتنی کہ بتایا جاتا ہے۔‘‘

    میں نے سنبھل کر کہا۔ ’’صوفیا عورت ہے۔ شاید یہی اس کا سب سے بڑا گناہ ہے۔‘‘

    جذبات کی رو میں بہہ کر میرے ساتھی نے کہا۔ ’’اگر لوگ صوفیا کو صرف اسی لیے برا بھلا کہتے ہیں تو میں یقیناً ان کا ساتھ نہیں دے سکتا۔‘‘

    ہاؤس بوٹ کے اندر ہم نے اپنا کارڈ بھیج دیا تھا۔ ہم اس انتظار میں کھڑے تھے کہ ہاؤس بوٹ سے نکل کر ہاؤس بوٹ کے مالک کا نوکر ہمیں بتائے کہ ہم اندر جا سکتے ہیں۔ آخر وہ لمحہ بھی آ گیا جب ہاؤس بوٹ کے نوکر نے اطلاع دی کہ ہمیں اندر بلایا جا رہا ہے۔

    جس وقت ہم ہاؤس بوٹ میں پہنچے صوفیا نے آگے بڑھ کر ہمارا سواگت کیا۔ وہ بہت مختصر سے لباس میں تھی۔ بہت حد تک یہ وہی لباس تھا جو تیرتے وقت آج کل کی جدید لڑکیاں پہنتی ہیں۔ رنگ وہی سبز۔ ’’اس لباس کا رنگ تو نیلا ہونا چاہیے۔‘‘میں نے ہنس کر کہا۔

    اس کی آنکھوں میں کوئی گستاخی نہ تھی۔ وہ جھٹ اندر چلی گئی۔ کہتی گئی کہ اسے ایک کام یاد آ گیا۔ لباس کا ڈھنگ وہی تھا۔ لیکن اب کے وہ واپس آئی تو سبز رنگ کی بجائے نیلا لباس پہنے ہوئے تھی۔ اس وقت وہ کوئی جل پری ہی تو معلوم ہورہی تھی۔ بولی ’’ادھر تین دن سے ہاؤس بوٹ کی مرمت ہو رہی ہے۔ بڑی مصیبت ہے۔ ہر وقت ہتھوڑے کی ٹھک ٹھک۔ میں تو تنگ آ گئی ہوں۔‘‘

    ’’اب ایک نہ ایک مصیبت تو لگی ہی رہتی ہے مادام۔‘‘میں نے ہتھوڑے کی ٹھک ٹھک سے ابھرتے ہوئے کہا۔

    صوفیا نے سامنے کی میز پر کہنیاں ٹیک کر میری طرف دیکھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اس نے کہا۔۔۔آکاش بدل جاتا ہے۔ دھرتی بدل جاتی ہے۔ لیکن انسان کا چہرہ وہی رہتا ہے۔ میں نے اس کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’تمھاری سب سے پیاری تصویر کون سی ہے؟‘‘

    ’’اب یہ فیصلہ میرے بس کا روگ نہیں‘‘ اس نے سوچتے سوچتے اور مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’میں نے یہ سوال کاروباری انداز میں نہیں کیا۔‘‘

    ’’یہ میں خوب سمجھتی ہوں۔‘‘یہ کہہ کر صوفیا خاموش ہو گئی۔ پھر مسکراہٹ ابھری، پھر ہنسی کا فوارہ سا اچھلا۔ وہ بہت خوش تھی۔ اس کی آنکھوں کی نیلگوں جھیلوں میں ایک سوال ابھرا۔ پھر وہ سنبھل کر بولی۔ ’’آپ ایسے وقت آئے جب کہ ہاؤس بوٹ میں مرمت ہو رہی ہے۔ پھر بھی آپ میری کچھ تصویریں تو ضرور دیکھ سکتے ہیں۔ سب سے پیاری تصویر کون سی ہے یہ فیصلہ خود کیجیے۔‘‘

    میرا ساتھی گمبھیر آنکھوں سے صوفیا کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو کہ یہ وہی صوفیا ہے جس کے بارے میں لوگ کافی ہاؤس میں بیٹھ کر الٹی سیدھی باتیں کرتے تھے۔

    اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’انھیں ڈوگری لوک گیتوں کی بہت سی پرانی دھنیں یاد ہیں۔ آج ان کے ایک دوست کے ہاں گئے تھے جس سے بہت سے لداخی گیت حاصل کیے۔ معلوم نہیں آپ نے کبھی محسوس کیا یا نہیں کہ کشمیری لوک گیت کی دُھنیں بےحد یاس انگیز ہوتی ہیں۔ جیسے صدیوں کی غلامی کے نیچے دبی ہوئی جنتا گا نہ سکتی ہو، محض رو سکتی ہو۔۔۔‘‘

    ’’لیکن یہ تو نہیں ہو سکتا کہ جادو کے اثر سے کشمیری لوک گیتوں کی دھنیں ہی بدل جائیں، جیسے جیسے حالات بہتر ہو گئے ان میں وہی چمک آتی جائےگی جو اکثر پہاڑی گیتوں کا خاصہ ہے۔‘‘

    ’’یہ تو سچ ہے۔ لیکن آج نہیں تو کل کشمیری گیتوں کی دھنیں بدل کر رہیں گی۔‘‘

    میری درخواست پر میرے ساتھی نے ایک گیت گاکر سنایا جس میں ایک عورت نے شکایت کی تھی کہ اسے اتنی بھی تو آزادی نہیں کہ وہ اپنے محبوب کے پاس جا سکے۔

    صوفیا کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ یوں محسوس ہوا کہ نیلے لباس والی جدید جل پری ہاؤس بوٹ کی کسی کھڑکی سے نیچے جہلم میں کود پڑے گی اور تیرتی تیرتی اپنے محبوب کے پاس جا پہنچےگی۔ لیکن میں نے موقع پاکر فرمائش کی کہ ہم اس کی تصویریں دیکھنے کے لیے بےقرار ہو رہے ہیں۔

    پہلے اس نے وہ بکس کھولا جس میں نیپال کی تصویریں رکھی تھیں۔ نیپال کے مندروں، بازاروں اور ان بازاروں میں چلتے پھرتے لوگوں کو اس نے نہایت ایمانداری سے پیش کیا تھا۔ ایک تصویر میں ایک نیپالی کنبہ دکھایا گیا تھا جس میں ایک بڑھیا کے چہرے پر کم و بیش وہی جذبات پیش کیے گئے تھے جو گورکی کا ناول ’’ماں‘‘ پڑھتے وقت ماں کے چہرے پر ابھرتے نظر آتے تھے، جب روس کی یہ عورت انقلاب کی روح بن کر رجعت پسند طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈٹ کر کھڑی ہوگئی تھی۔ نیپال کے پورے سٹ میں یہی تصویر سب سے پیاری تصویر تھی۔ میں نے اسے اٹھاکر ایک کونے میں تپائی پر رکھ دیا تاکہ ہم کچھ دیر کے لیے اِسے دیکھ سکیں۔

    ’’کسی تصویر سے پورا تعارف کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ تھوڑی دیر ہماری آنکھوں کے سامنے رہے‘‘ میں نے صوفیا کے فن کی داد دیتے ہوئے کہا۔

    وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر میری کرسی کے بازو پر آ بیٹھی۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ تصویر اِسی جدید قسم کی جل پری نے بنائی ہے۔ جیسا کہ صوفیا نے بتایا، اس کی ماں ایک یہودی عورت تھی اور اس کا باپ تھا ایک فرانسیسی۔ ان دونوں نسلوں کے امتزاج سے صوفیا کا جنم ہوا تھا۔ اُس کا باپ بھی اچھا خاصا مصوّر تھا۔ کٹھمنڈو میں صوفیا پیدا ہوئی تھی کوئی تیس برس پیشتر، جب کہ اس کا باپ نیپال کے وزیراعظم کی پورٹریٹ بنانے کے لیے انڈونیشیا سے نیپال پہنچا تھا۔ صوفیا نے بتایا کہ جب وہ چھوٹی سی تھی تو ایک انڈونیشیا ئی آیا اسے انڈونیشیائی لوک گیت گاکر سُنایا کرتی تھی۔ جب وہ سات برس کی تھی اس کے باپ کو دوبارہ نیپال دربار کی طرف سے دعوت ملی۔ اس کے باپ کو نیپال دربار کے لیے بہت سی پورٹریٹ بنانے کا کنٹریکٹ ملا تھا۔ ان دِنوں صوفیا کو نیپالی لوک گیت سُننے کا موقع ملا۔ اس نے بتایا کہ اب کے جب وہ نیپال گئی تو اسے وہ دن یاد آ گئے جب نیپال پر راناؤں کے دربار کا رعب غالب تھا اور اب جب کہ نیپال کی جنتا نے جمہوریت کی نئی راہوں پر چلنا شروع کر دیا تھا، نیپال کا چہرہ جلدی جلدی بدل رہا تھا۔

    میرے ساتھی نے اس شرط پر ایک ڈوگری لوک گیت پیش کرنا منظور کیا کہ صوفیا ایک انڈونیشیائی لوری سنائے اور ایک نیپالی لوک گیت جس میں نیپال کی روح بول رہی ہو۔

    ’’ہاں ہاں منظور ہے‘‘ صوفیا نے وعدہ کیا۔

    میرے ساتھی نے وہ گیت سنایا جس میں کوئی بھگت اپنے بھگوان سے شکایت کرتا ہے۔۔۔

    ہریا! میں کِئیاں کری جپاں تیرے نامے؟

    گھراں جورُو بنائی لیندی کامے!

    ڈنگرے گی چھڈی آیاں دھارا

    مُنّوآں کھڈایاں

    نہوئی دھوئی لگیاں رسوئی

    اجّ آؤ نائی مُنّوے دے مامے!

    ہریا! میں کِئیاں کری جپاں تیرے نامے؟

    ہے ہری! میں کس طرح تیرا نام جپوں؟ گھر میں جورو مجھے غلام بنائے رکھتی ہے۔ ڈھورڈنگروں کو سامنے والی پہاڑی چھوڑا (اب جورُو کہتی ہے) منے کو کھلاؤ۔ نہا دھوکر رسوئی کا کام شروع کر دو۔ آج منے کے ماموں نے ہمارے ہاں آنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ہے ہری! میں تمھارا نام کیسے جپوں۔۔۔؟ گیت کا مفہوم بتایا گیا تو صوفیا دیر تک، کھلکھلاکر ہنستی رہی۔ میں نے سوچا کہ نیلے لباس والی یہ جدید قسم کی جل پری جب بیاہ کرائے گی تو شاید اپنے شوہر کو اُتنا غلام نہیں بنائےگی جتنا کہ ڈوگری گیت میں ایک شوہر کی تصویر پیش کرتے وقت کسی لوک کوی نے دکھانے کی کوشش کی تھی۔

    انڈونیشیائی لوری کو صوفیا نے کچھ اس طرح پیش کیا جیسے سمندر کی لہریں ساحل سے ٹکراٹکراکر کہہ رہی ہوں، اب سوجاؤ! کل صبح زندگی کی جدوجہد شروع ہوگی اور نیپالی لوک گیت میں ایک لڑکی نے اپنے باپ سے یہ فرمائش کی تھی کہ وہ اپنے سات جوڑے کبوتروں میں سے ایک جوڑا کبوتر اپنی بیٹی کو جہیز میں دے دے۔ باپ انکار کر دیتا ہے۔ کہتا ہے گائے کا جہیز لے لو، لیکن کبوتر کا جوڑا جہیز میں مت مانگو۔ لڑکی نہیں مانتی۔ آخر ہار کر باپ کہتا ہے۔۔۔چلو تمھاری مرضی ہی سہی۔ تم ایک جوڑا کبوتر لے جاؤ۔

    انڈونیشیائی، نیپالی اور ڈوگری لوک گیتوں کی دھنیں بہت کچھ گلے ملتی نظر آ رہی تھیں۔ میں نے موقع پاکر ایک لداخی گیت گاکر سنایا جس میں اپنے جنم استھان سے بہت دور پڑا ہوا کوئی نوجوان کہتا ہے۔۔۔پہاڑ پر درے کے سرے پر پہنچتے ہی میں نے اپنی جنم بھومی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور گاؤں کو اپنے تخیل میں ہوبہو سانس لیتے دیکھ لیا۔ دیکھنے ہی سے تو جی نہیں بھرتا۔ کیونکہ وہاں پہنچنا تو کٹھن ہے۔۔۔! صوفیا کا انگ انگ تھرک رہا تھا۔ جیسے آج اس نے کسی جدید عمر خیام کے لیے ساقی کے فرائض سر انجام دینے کے لیے تیاری کرنی ہو۔ معاً وہ میری کرسی کے بازو سے اچھل کر اندر چلی گئی اور ایک تصویر اٹھا لائی جس میں ایک نیپالی لڑکی نے کبوتر کے جوڑے کو سینے سے بھینچ رکھا تھا۔ بولی۔ ’’تم مانونہ مانو، میں کہتی ہوں اس لداخی گاؤں میں بھی کوئی ایسی لڑکی ضرور ہوگی جس نے کبوتر کے جوڑے کو سینے سے بھینچ رکھا ہوگا۔ کیوں میں کچھ جھوٹ کہتی ہوں!‘‘

    ’’اور سب جھوٹ ہو سکتا ہے۔‘‘ ’’لیکن یہ بات جھوٹ نہیں ہوسکتی۔‘‘میں نے کہا۔

    ’’صوفیا جی! یہ کبوتروں والی تصویر تو بین الاقوامی فن کی بیش قیمت تصویر ہے!‘‘ میرے ساتھی نے لجاجت سے کہا۔

    صوفیا کے ابھرے ہوئے گالوں کی ہڈیاں ابھر کر میرے ساتھی کی داد کا جواب دے رہی تھیں۔

    پھر اس نے کشمیری تصویروں والا بکس کھولا اور ایک ایک کرکے بہت سی تصویریں دکھائیں۔ میرے ساتھی نے اس تصویر پر ہاتھ رکھ دیا جس میں ایک کشمیری دوشیزہ نے اپنے ہاتھ میں بادام کے پھولوں کی ٹہنی تھام رکھی تھی۔ ’’یہ بہترین تصویر ہے!‘‘ اُس نے اپنی جگہ سے اچھل کر کہا۔

    ’’یقینا!‘‘ میں نے تصدیق کی۔ ’’بادام کے پھول بہار کے پھول ہیں۔‘‘

    ’’آپ غلطی کر رہے ہیں‘‘ میرے ساتھی نے سمجھایا۔ ’’بادام کے پھول کھلنے سے پہلے تو کشمیر میں نرگس اپنی آنکھیں کھولتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کسی تصویر میں صوفیا جی نرگس کے پھولوں سے بھی بہت بڑے سمبل کا کام لیں گی۔‘‘

    صوفیا خوش تھی۔ شاید اس سے پہلے کسی نے اس کے ہاں آکر اس کی تصویروں کو اتنے غور سے نہیں دیکھا تھا۔ پھر سے میری کرسی کے بازو پر آکر بیٹھتے ہوئے صوفیا نے کہا، ’’میں سوچ رہی ہوں۔۔۔‘‘

    ’’کیا سوچ رہی ہیں آپ؟‘‘

    ’’یہی کہ آپ کی ایک پوٹریٹ بناؤں۔‘‘

    ’’لیکن میری پورٹریٹ سے کیا ہوگا؟‘‘

    صوفیا نے اٹھ کر پورٹریٹ بنانے کے لیے جگہ ٹھیک کی۔ ایک طرف سے کھڑکی کا پردہ کھول دیا۔ باقی سب پردے بند کر دیے۔ میرا ساتھی اس ڈوگری لوک گیت کے سر گنگنا رہا تھا جس میں کوئی دلہن کہتی ہے۔۔۔

    ’’دھاریں دھوراں پئیاں

    میں کلی آ گھر کئیاں رہنا!‘‘

    پہاڑوں پر دھول چھا گئی۔ میں اکیلی گھر کیسے رہوں؟

    ’’دھاریں دا سنجوگ دھوریں کنیں دکھی کری

    مناں چلی پئی آں سو ہے دیاں بھاراں!

    میں کلی آ گھر گئیاں رہنا؟‘‘

    پہاڑوں کا دھول کے ساتھ سنجوگ دیکھ کر، ہے میرے من! گرمی کی بہار نے وداع لی۔

    ’’پائی کے پجیباں پھراں انگن پساری آ

    سجنے دا راہ دکھاں کھلی میں دوآری آ

    سارا سارا دن اوندی، مکھی اے چ اکھی آں بچھائی کری

    مناں اساں ہاری ہٹی جاناں!

    میں کلی آگھر کئیاں رہنا!‘‘

    پازیب پہن کر کبھی میں آنگن میں جاتی ہوں، کبھی دالان میں۔ کبھی اپنی کھڑکی پر کھڑی ہوکر اپنے ساجن کا راہ دیکھتی ہوں۔ سارا سارا دن ان کے انتظار میں راہ پر آنکھیں بچھائے ہوئے، ہے من! ہم تھک جائیں گے، ہار جائیں گے۔ میں اکیلی گھر میں کیسے رہوں۔۔۔؟ میرے ساتھی نے بتایا کہ یہ اُس وقت کا گیت ہے جب گرمی کے بعد نیا موسم شروع ہوتا ہے اور برہن ساجن کی جدائی سہہ نہیں سکتی۔

    میں اپنی جگہ پر بیٹھا تھا۔ سبز رنگ کا مختصر سا لباس پہنے صوفیا پورٹریٹ بنارہی تھی۔ ایک آدھی بار میں نے آنکھ بچاکر صوفیا کی طرف دیکھ لیا۔ مجھے اس کے باپ کا دھیان آیا جو نیپال کے وزیر اعظم کا پورٹریٹ بنانے کے لیے کٹھمنڈو پہنچا تھا آج سے تیس برس پیشتر، جب کٹھمنڈو میں صوفیا کا جنم ہوا تھا۔۔۔لیکن میں۔۔۔میں تو صرف لوک گیت جمع کرنے والا ایک ادیب تھا۔

    میرا ساتھی برابر لوک گیت کی دھن گنگنائے جا رہا تھا۔ جیسے وہ پوچھ رہا ہو۔۔۔کیا کبھی تمھارے دل میں بھی ساجن کے لیے اسی طرح ہوک اٹھی ہے؟

    معاً باہر سے کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ ہاؤس بوٹ کا نوکر دوڑ کر باہر گیا اور کچھ لمحوں کے بعد مٹوصاحب داخل ہوئے۔ آتے ہی وہ سیدھے صوفیا کی بغل میں چلے گئے۔ صوفیا نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ مٹو صاحب کا استقبال کیا اور پھر وہ میری پورٹریٹ بنانے میں جٹ گئی۔

    تھوڑی دیر مٹوصاحب چپ بیٹھے رہے۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولے۔ ’’تو یہ ٹھاٹھ ہیں؟ اب سمجھا کہ آپ اس روز میرے کمرے میں صوفیا کی اتنی تعریف کیوں کر رہے تھے۔‘‘صوفیا ذرا سا مسکرائی اور پھر اس کا ہاتھ تیزی سے رنگ اٹھا اٹھاکر کینوس پر جمانے لگا۔ اب میری نگاہ تو کینوس تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ چور آنکھوں سے صوفیا کی طرف دیکھنے کی حرکت بھی اب مجھ میں کہاں تھی۔

    مٹو سمجھ گیا کہ صوفیا فرصت میں نہیں ہے۔

    ’’اچھا تو اجازت!‘‘ مٹو بولا، ’’کبھی پھر سہی۔‘‘

    صوفیا خاموش رہی۔

    مٹو اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے اس کی طرف دیکھ کر صوفیا کی طرف سے بھی معذرت کردی۔ دروازے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے مٹو نے کہا۔ ’’تو پھر کب ملاقات ہوگی؟‘‘

    صوفیا خاموش رہی۔

    جب مٹو چلا گیا تو صوفیا خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی۔

    میں نے حوصلہ کرکے پوچھ لیا۔

    ’’کیوں مٹو صاحب سے ان دنوں کچھ ناراضگی ہے؟‘‘

    ’’وہ مجھے آج تک نہیں سمجھ سکا۔ وہ مجھے باہر سے دیکھتا ہے۔ محض باہرسے۔ باہر سے دیکھنے سے تو میں زیادہ سے زیادہ ہرے رنگ کی گڑیا ہی نظر آ سکتی ہوں۔ لیکن میں پوچھتی ہوں کیا میں بس یہی کچھ ہوں جو باہر سے نظر آتی ہوں۔ مجھے تو اس انسان کی تلاش ہے جو مجھے اندر سے پہچانے۔ ایسا انسان صرف میرے کینوس پر ابھرتا ہے۔‘‘اور وہ تیزتیز جنبش کے ساتھ رنگ اٹھا اٹھاکر کینوس پر جماتی رہی۔ میرے دوست نے ایک دو بار میری آنکھوں میں جھانک کر بتانا چاہا کہ خوب مزے میں ہو، میرے یار! لیکن میرا ہی دل جانتا تھا کہ مجھ پر کیسی گذر رہی تھی۔

    واقعی ہرے رنگ کی گڑیا نے مجھے قید کر لیا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے