Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حسین خواب

محمد نہال افروز

حسین خواب

محمد نہال افروز

MORE BYمحمد نہال افروز

    ”پیپ پیپ پی۔۔۔ پی، پیپ پیپ پی۔۔۔ پی۔۔۔“

    ”چلو۔۔۔ چلو۔۔۔ جلدی چلو، باہر گاڑی ریڈی ہے اور ڈرائیور لگاتار ہارن بجائے جارہا ہے۔“ میں نے جوتے پہنتے ہوئے کہا۔

    ”ہم لوگ دو منٹ میں آرہے ہیں۔“ میں نے باہر نکل کر ڈارئیور کو آواز دی۔

    ”چلو۔۔۔ چلو۔۔۔ ہم سب تیار ہیں۔“ دوستوں نے ایک جٹ ہو کر پیچھے سے آواز دی۔

    ”ہاں ہاں۔۔۔ چلو چلو۔“ ہم لوگ گاڑی میں بیٹھ گئے۔

    ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی اور آگے بڑھائی۔ کچھ ہی پلوں میں گاڑی رفتار پکڑ لی۔ گاڑی ہرے بھرے کھیتوں کے بیچ تیزی سے گزر رہی ہے۔ دور دور تک چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آرہی ہے۔ جدھر بھی نظر اٹھا کر دیکھتے کھیت ہی کھیت نظر آ رہے ہیں۔ کھیتوں میں طرح طرح کی فصلیں لہلہا رہی ہیں۔ ان میں زیادہ تر گنّا، گیہوں اور سرسوں کی فصلیں ہیں۔ شام کا وقت ہے۔ ہم لوگ باہر کا منظر دیکھتے دیکھتے تھک گئے تو گاڑی ہی میں بیٹھے بیٹھے آنکھیں بند کر کے آرام کرنے لگے۔ گاڑی ہوا کی رفتار سے آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ اچانک سرسوں کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبوناک میں پہنچی تو میری آنکھیں کھل گئیں اور میں باہر کی طرف دیکھنے لگا۔ باہر کھیتوں کا منظر بہت ہی خوبصورت لگا۔ زیادہ تر کھیتوں میں گیہوں اور سرسوں دونوں ایک ساتھ بوئے گئے ہیں۔ گیہوں کے پودے ابھی چھوٹے ہی ہیں، لیکن سرسوں کے پودے کافی بڑے ہو چکے ہیں اور ان میں اچھی طرح سے پھول بھی آچکے ہیں۔

    باہر کھیتوں کا منظر ایسالگ رہاہے جیسے سبز رنگ کی چادر پر پیلے ر نگ کے گل بوٹے بنے ہوئے ہیں۔ دور دور تک پیلا رنگ ہی نظر آرہا ہے۔ ان پھولوں پرشام کی پیلی پیلی سورج کی کرنیں پڑ رہی ہیں، جس کی وجہ سے یہ منظر اور بھی زیادہ خوبصورت نظر آرہا ہے۔ اس خوبصورت منظرکو دیکھ کر میں نے کہا”نور، ساجد، رحیم دیکھو دیکھویہ کھیت کتنے اچھے لگ رہے ہیں۔“

    ”کون سا کھیت؟“ سب نے ایک ساتھ کہا۔

    ”ارے بابا۔۔۔ تم لوگ باہر دیکھو تو سہی۔“ میں نے دوبارہ کہا۔

    باہر دیکھتے ہی سب کے سب حیران رہ گئے۔ ایسا خوبصورت اور دل نشین منظرہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

    ”کتناخوبصورت نظارہ ہے یار۔“ رحیم نے فوراًکہا۔

    ”تو نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔“ ساجد نے اس منظر کو دیکھنے میں دلچسپی دکھائی۔

    ”گاڑی تھوڑی دھیمی کیجیے۔ یہ تو واقعی دیکھنے لائق ہے۔“ نور نے ڈرائیور سے کہا۔

    ڈرائیور نے گاڑی کی رفتار کم کر دی۔ اب گاڑی سست رفتار سے چل رہی ہے تو کھیت اور بھی خوبصورت اور دلکش نظر آرہے ہیں۔

    ہم لوگ گاڑی سے نیچے اترے اور باری باری سرسوں کے پھولوں کے بیچ جاکر تصویریں نکالنے لگے۔ تصویر کھینچ ہی رہے تھے کہ اچانک اسکول کی گھنٹی بجی اور ہم لوگ دوڑتے ہوئے کلاس روم میں پہنچ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ٹیچر آئے اور ایک کے بعد ایک سب کا ہوم ورک چیک کرنے لگے۔ اتنے میں ساجد نے ٹیچر کو یاد دلا یاکہ آپ نے سب سے نظم سننے کے لیے بولا تھا۔ ٹیچر باری باری سب سے الگ الگ ایک نظم سننے لگے۔ پھر میری باری آئی۔ میں نے حفیظ جالندھری کی نظم”لو پھر بسنت آئی“ سنائی۔

    ”لو پھر بسنت آئی

    پھولوں پہ رنگ لائی

    چلو بے درنگ

    لب ِ آبِ گنگ

    بجے جل ترنگ

    من پر اُمنگ چھائی

    پھولوں پہ رنگ لائی

    لو پھر بسنت آئی

    پھر ہو گیاہے زندہ

    باغوں کا ہر پرندہ

    کھیتوں کا ہر چرندہ

    پھولی ہوئی ہے سرسوں

    پھولوں پہ رنگ لائی

    لو پھر بسنت آئی“

    سارے بچوں سے نظم سننے کے بعد سر نے ایک نیا سبق پڑھایااور اگلے دن کا ہوم ورک دے کر چھٹی دے دی۔ چھٹی ہوتے ہی لوگ ہم پھر اسی گاڑی میں سوار ہو گئے۔ ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی اور آگے بڑھائی۔ گاڑی ایک بار پھر دھیرے دھیرے رفتار پکڑنے لگی۔ اب رات ہو چلی ہے۔ باہر گھپ اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ گاڑی کے باہر سوائے سامنے کی سڑک کے کچھ اورنظر نہیں آرہا ہے۔ گاڑی کی رفتار لگاتار بڑھتی جارہی ہے۔ اچانک دور ایک گھردکھائی دیا۔ اس پر طرح طرح کے لائٹس لگے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ بہت خوبصورت نظر آرہا ہے۔ ہم لوگوں نے کہا چلو دیکھتے ہیں وہاں کیا ہو رہا ہے۔ وہاں پہنچ کر ہم لوگوں نے دیکھا کہ یہاں ہمارا ایک کلاس میٹ ریحان موجود ہے۔ ریحان کودیکھ کر ہم لوگ تذبذب میں پڑ گئے۔

    ”ریحان تم؟ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟“ ہم لوگوں نے ایک ساتھ کہا۔

    ”یہ میرا گھر ہے۔ میں یہیں رہتا ہوں۔“ ریحان نے جواب دیا۔

    اچھا تمہارے یہاں کوئی فنکشن ہے کیا؟“ میں نے پوچھا۔

    ”ہاں!آج میرے بھائی کی شادی ہے۔ چلو تم لوگوں کواپنے گھر والوں سے ملواتا ہوں۔“ کہتے ہوئے ریحان ہم لوگوں کو اندر لے گیا۔

    ہم لوگ اندر گئے تو دیکھا کہ وہاں بہت بھیڑ ہے۔ اس بھیڑ میں میرے سارے دوست گم ہو گئے۔ میں انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کبھی انہیں گھر کے اندر تلاش کررہا ہوں، کبھی باہر ڈھونڈرہا ہوں اور کبھی گاڑی میں جاکر دیکھ رہا ہوں، لیکن وہ لوگ کہیں نظر نہیں آ رہے ہیں۔ بلکہ میں نے دیکھاکہ ان دوستوں کی جگہ کچھ نئے چہرے میرے ساتھ گھوم رہے ہیں۔

    شادی کا گھر ہے۔ پورا گھر رشتے داروں اور مہمانوں سے بھرا ہوا ہے۔ ریحان ایک ایک کرکے مجھے سب سے ملوا رہا ہے۔ یہ میری امی ہیں، یہ میرے ابو ہیں، یہ میرے بھائی ہیں، یہ میری آپی ہے، یہ میرے چا چا ہیں، یہ میری چاچی ہیں اوریہ میری آنٹی ہیں۔ اس کے بعد ریحان سب کو مخاطب کرتے ہوئے میری طرف اشارہ کر کے کہتاہے ”اور یہ میرے اسکول کا دوست ’زاہد‘ ہے۔“ ہم دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتے ہیں۔

    سب سے ملاقات کرانے کے بعد ریحان مجھے گھر کے باہر لگے ایک منڈپ میں لے گیا۔ میں نے دیکھاوہاں ناشتے کے لیے بہت سارے اسٹال لگے ہوئے ہیں۔ منڈپ میں ایک طرف گول گپّے، چھولے، چاٹ مسالے، چاؤ مین غیرہ کے کارنر موجود ہیں تودوسری طرف فروٹ سلادو، جوس، لسی، فالودہ اورآئس کریم کے اسٹال لگے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ایک کونے میں کافی کارنر کا بھی بورڈ لگا ہوا ہے۔ لوگ مستی سے ان تمام چیزوں کا لطف لے رہے ہیں۔ ہم دونوں بھی ان میں شامل ہوئے اور ناشتہ کیا۔ ناشتے کے بعد کافی کارنر سے ایک ایک کپ گرماگرم کافی لی اوراسے پیتے ہوئے منڈپ سے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔

    ہم دونوں دوبارہ گھر میں داخل ہوئے اور ایک نئے کمرے میں پہنچ گئے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں ایک اسٹیج بنا ہوا ہے، جس پر دولہا اور دلہن بیٹھے ہوئے ہیں۔ دولہا ایک خوبصوت شیروانی اور دلہن ایک مخصوص لباس پہنی ہوئی ہے۔ میں نے دیکھااس جوڑے میں دونوں بہت خوبصورت لگ رہے ہیں۔ ساتھ میں اوربھی کرسیاں لگی ہوئی ہیں، جس پر گھر کے لوگوں کے ساتھ دوسرے رشتے دار بھی بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔ اسٹیج کے نیچے بہت ساری کرسیاں لگی ہوئی ہیں۔ ان کرسیوں پر آنے والے مہمان اور دوست احباب اٹھتے بیٹھے اورکمرے سے آتے جاتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک دولہا اور دلہن کو بھینٹ میں تحفے تحائف بھی دے رہے ہیں۔ ریحان مجھے اسٹیج کے پاس لے جاکر ان سے میرا تعارف کرایا۔ میرے پاس تحفہ دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر دولہے سے مصافہ کیا اور اپنا نام بتاتے ہوئے دونوں کو شادی کی مبارک باد دی۔

    وہاں سے نکل کر ہم لوگ منڈپ کی طرف واپس آئے۔ میں نے دیکھا منڈپ میں ایک پارٹیشن لگا ہوا ہے۔ پارٹیشن کی دوسری جانب کھانے کے لیے بہت سارے ٹیبل لگے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ کھاناکھانے میں مصروف بھی ہیں۔ ہم لوگ بھی پارٹیشن کے اس طرف پہنچے اور کھانا کھانے کی غرض سے ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے۔

    میں نے دیکھاٹیبل پرایک طرف مرغ مسلم، قصوری مرغ، افغانی چکن، مغلئی چکن، نظامی چکن، حیدرآبادی چکن، لاہوری چکن، پنجابی چکن کے ڈونگوں کے ساتھ رومالی روٹی، تندوری روٹی، بٹر نان وغیرہ قرینے سے سجا کر رکھے ہوئے ہیں۔ ٹیبل کی دوسری جانب مختلف قسم کی بریانی کے ساتھ شامی کباب، حسینی کباب، ریشمی کباب، کوفتے، چکن ٹکہ، تندوری چکن، فرائڈ فش، اپولو فش اور فش کباب موجود ہیں۔ ساتھ میں شاہی حلوہ، شاہی ٹکڑے، چم چم، رس ملائی کے علاوہ مختلف قسم کے سلاد اور مشروبات رکھے ہوئے ہیں۔ ٹیبل کے بیچ میں منرل واٹرکا ایک بڑا سا باٹل رکھا ہوا ہے، جس کے چاروں طرف نل لگے ہوئے ہیں۔ مختلف اقسام کے کھانوں سے بھرے میز کودیکھ کر مجھے ایک شعر یاد آگیا۔

    مثمن مرغ کا تھا شامی کباب

    حسینی کباب کفتے تھے بے حساب

    اتنا سب کچھ ایک ساتھ دیکھ کرمیری نظریں ٹیبل ہی پر ٹکی رہ گئیں۔ میں کہاں ہوں؟ میرے ساتھ کون ہے؟مجھے کون دیکھ رہا ہے؟ ان سب باتوں سے بے خبرمیں بس ایک ٹک ٹیبل ہی کو گھور رہا ہوں۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کہاں سے کھانا شروع کروں۔

    ”زاہد بیٹاکیا کر رہے ہو؟“

    ”ارے عالیہ آنٹی آپ۔ آپ کب آئیں؟“

    ”بس۔۔۔ ابھی ابھی آئی ہوں۔“

    ”دیکھو نا آنٹی۔ کتنے قسم قسم کے کھانے ہیں اور لذیذ بھی لگ رہے ہیں۔ میں تو خوب مزے لے لے کر کھاؤں گا۔“

    پہلے کیا۔۔۔؟پہلے کیا۔۔۔؟ہاں، حسینی کباب سے شروع کرتا ہوں۔ مجھے بہت پسند ہے۔

    ”زاہدبیٹا اٹھو۔۔۔ جلدی اٹھو۔ کب تک سوتے رہو گے۔ صبح کے سات بج رہے ہیں۔ اسکول کے لیے دیر ہو رہی ہے۔“ امی نے مجھے جگاتے ہوئے کہا۔

    ”اُوں۔۔۔ ہوں۔۔۔ ارے یہ کیا؟ میں یہاں کیسے آگیا؟میں تو۔۔۔؟“

    ”میں توریحان کے بھائی کی شادی میں کھانا۔۔۔؟“

    ”اوہ۔۔۔ کیا امی، تھوڑی دیر اور رک جاتیں، میں کتنا حسین خواب دیکھ رہا تھا۔“

    ”خواب بعد میں دیکھنا۔ جلدی سے ریڈی ہو جا۔ ٹیبل پر رکھے شامی کباب، حسینی کباب اور پراٹھے ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔“ کہتی ہوئی امی باہرکی طرف گئیں۔

    ”پیپ پیپ پی۔۔۔ پی، پیپ پیپ پی۔۔۔ پی۔۔۔“

    باہر اسکول بس کھڑی تھی اورڈرائیورنان اسٹاپ ہارن بجائے جا رہا تھا۔

    ”آپ جایئے۔ زاہدکو تیار ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا۔ میں اسے اسکول بھیجوادوں گی۔“ ممی نے بس ڈرائیور سے کہا۔

    ”عالیہ! اچھا ہوا تو آگئی۔ زاہد تیار ہو رہا ہے۔ اسے اسکول پہنچادینا۔ آج دیر سے سو کر اٹھاہے۔ بس چلی گئی ہے۔“ امی نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے