Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہیرا پھول

جمیلہ ہاشمی

ہیرا پھول

جمیلہ ہاشمی

MORE BYجمیلہ ہاشمی

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک علامتی کہانی ہے، ایک ایسے لڑکے کی جسکی دادی اسے اپنے باپ کی موت کا انتقام لینے کے لیے تیار کرتی ہے۔ اس شخص سے جو رشتے میں دادی کا چھوٹا بیٹا اور اس کا چچا ہے۔ لڑکا دادی کی ہر بتائی بات سیکھتا ہے اور خود کو اس قابل بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ بدلہ لے سکے، اس پھول کو لا سکے جو پتہ نہیں کس دیس میں ہے۔

    ’’پتہ نہیں تمہیں کیوں یاد نہیں رہتا کہ جب میں شہ کہوں تو اس کا مطلب ہے تمہارا بادشاہ زد میں ہے اور تمہیں۔۔۔ اس کی فکر کرنا چاہیے۔‘‘

    میں کیا کروں اگنی دامجھے یاد ہی نہیں رہتا۔ مجھے یہ ہارنے جیتنے کا کھیل بکواس لگتا ہے۔ میرا بادشاہ اگر زد میں آ گیا ہے تو تم جیت گئیں۔ اب بساط اٹھا دو۔ ’’اگر تم یہ کھیل نہ سیکھ سکے۔ اپنے مہروں کو بچانے کی تمہیں فکر نہ ہوئی تو مانو تم نے کچھ کبھی نہ سیکھا۔ دیکھو بات سنو اب پھر سے یاد کرو گھوڑا ڈھائی چال چلتا ہے۔‘‘ دا نے اٹھ کر آنگن میں بکھری چیزیں سمیٹنا شروع کیں۔

    ’’اندو۔ اندو۔‘‘ اس نے پھر پکارا۔ پورب کی ہوا ہے اور کالے بادل پانی لائے ہیں۔‘‘

    میں نے جھانک کر دیکھا۔ گھٹائیں سرمئی اندھیرے کو سیاہ کئے دیتی تھیں تیز ہوا اور بہار کی بسنتی باس کے ساتھ بھیگی ہوئی مہک تھی جیسے پانی کے کندھوں پر اڑتی آئی ہو۔

    ’’دا میری سمجھ میں یہ سب نہیں آ سکتا یہ ڈھائی چال کیا ہوئی بھلا؟ میں بساط اٹھا کر پٹخ دوں گا۔‘‘

    ’’سنو جی مجھ سے یہ نہیں چلےگا جب تک تم اسے سمجھ نہیں چکتے میں تمہیں کبھی بھی جانے نہیں دوں گی۔ رات کی کہانی ختم اور اپنے ساتھ تو تمہیں ہرگز نہیں سلائوں گی۔‘‘ اگنی دا ضد کی بہت پکی ہے اور جب کبھی میں اور وہ کسی بات پر جھگڑتے ہیں جیت اسی کی ہوتی ہے۔ اب کئی دنوں سے یہ شہ اور مات۔ پایرے اور فیل چل رہے ہیں۔ لمبی ہونکتی ہوئی دوپہروں میں جب بھی نیند آنے لگتی دا بساط بچھا کر بیٹھ جاتی اور مجھے سونے نہیں دیتی۔ وہ کہتی ہے میں بہت سی چالیں بیک وقت سوچوں تا کہ اسے دے سکوں اور میں صرف ایک چال سوچ سکتا ہوں۔ پھر اگنی دا کے سامنے بیٹھے مجھے تو اس کی پروا بھی نہیں ہوتی کہ میں جیت یا ہار اور پھر یہ جھنجھٹ کہ وزیر کو بچائو۔ فیل کو بچائو۔ پیادے کو بچائو۔ رخ کو بچاؤ۔ دا چاہتی ہے میں اس کے مہرے پیٹوں مگر میں یہ کھیل کسی نہ کسی طرح جلد ختم ہو، چاہے میں ہی کیوں نہ پٹ جاؤں۔‘‘

    اگنی دا مجھے اتنا کٹھور بنانا چاہتی ہے اتنا سخت کہ میں ہر آفت سہہ لوں۔ سردی اور گرمی مجھ پر اثر نہ کریں۔ میری چیزوں کی کرنے کی طاقت بہت ہو، بے انداز مگر میں کھڑکی میں سے باہر جھانک کر دیکھتا ہوں۔ سیاہی بجلی کے لہریوں سے اور گہری ہوئی جاتی ہے۔ کواڑ ہوا کے زور سے دھڑ دھڑائے جا رہے ہیں۔ بوندوں کی چاپ چھت پر سنائی دے رہی ہے۔ وہ ہولے ہولے پھوار بن کر ٹھنڈک بن کر۔ میں چاہتا ہوں ہوا کو پکڑ لوں۔ مٹھیاں بھر بھر اسے اپنے گرد بکھیروں اور بادلوں کی روئی میں دھنستا چلا جاؤں وہاں جہاں دا کہتی ہے پاتال ہے۔ لمبی تانوں والے راگوں کا ایک قافلہ سا چل رہا ہے۔ میرے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے اور تاریکی میں سنسناتی گولیاں سی ادھر ادھر اڑ رہی ہیں۔ یوں جیسے رات کے پرندے ایک سی بولی بول کر ایک دوسرے کو کھوج رہے ہیں جیسے میں ہیرا پھول کھوجتا ہوں۔

    ’’ہیرا پھول کے بنا کوئی عزت دار نہیں ہو سکتا۔ کوئی اس شہر کی گلیوں میں سر اٹھا کر نہیں چل سکتا۔ ہیرا پھول کے بنا کوئی کسی کو نہیں پہچان سکتا اور پھر تم؟‘‘

    اگنی دا کی آواز ’’تم‘‘ کہتے کہتے جانے کیوں اتنی سخت ہو جاتی ہے۔ حکم دیتی ہوئی میرے دفتر کو دہلاتی ہوئی؟‘‘

    ’’کیوں دا اگر مجھے ہیرا پھول کھوجنے پر بھی نہ ملے۔‘‘ میں دا سے کسی نہ کسی سطح پر صلح کر کے اپنا مطلب اسے بتانا چاہتا ہوں۔

    ’’سارے آدمی اس پھول کو کھوجنے نکلتے ہیں ورنہ ان کا جینا مرنا سب برابر ہے۔‘‘ دا بات کرنے کے سارے راہ بند کرکے خود اس راہ پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ وہ جس پھول کے کھوجنے کے لیے مجھے تیار کرتی ہے جانے وہ کن باغوں میں کھلتا ہے؟

    پتہ نہیں وہ پھول اب آفتاب اور مہتاب میں سے کسی کے پاس ہو جو میری طرح اگنی دا کے نہیں میری ماں اور میرے چاچا کے بیٹے ہیں۔

    ماں بھی ایک سندر سپنا تھی دھان پان سی جیسے کہانی کی پری ہو۔ ڈری ڈری سہمی سہمی سی جیسے کسی دیو کی قید میں کوئی راجکماری ہو بڑی بڑی آنکھوں میں آنسوئوں کی چمک لیے جانے اسے دیکھ کر رونا کیوں آنے لگتا تھا۔ پھر وہ آتی بھی تو سپنے کی طرح تھی۔ زیادہ دیر نہ رکتی اس نے کبھی مجھے زیادہ پیار نہیں کیا۔ ایک جب وہ مجھے اپنے قریب کھینچ رہی تھی تو اگنی دا نے کہا تھا۔

    ’’بہو کیا تمہیں اچھا لگتا ہے کہ یہ تمہارے بنارہ نہ سکے۔‘‘

    ماں کے ہاتھ ایک بےبس کی طرح اس کے پہلوئوں میں گر گئے تھے۔ اس کی کاجل سے سیاہ آنکھیں آنسوئوں سے بھری تھیں اور وہ کوشش کررہی تھی کہ آنسوگریں نہیں۔

    اگنی دا نے کہا تھا۔

    ’’جاؤ بہو اگر کاجل پھیل گیا تو تم کیا جواب دو گئی؟‘‘

    ماں کے جانے کے بعد میں نے دا سے پوچھا تھا، ’’تمہیں ماں اچھی نہیں لگتیں نا تم اسے یہاں آنے کیوں نہیں دیتیں؟‘‘

    دا نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا، ’’بیٹے رات کے بعد دن ہوتا ہے۔ اندھیرے کے بعد اجالا ہوتا ہے۔ وقت کا انتظار کرو بیٹے اور ایسی بہت سب باتیں جن کی سمجھ نہ مجھے تب تھی نہ اب ہے۔ پروانے مجھے ایسی کھوج پر کیوں لگایا ہے جس کا کوئی انت نہیں۔ بھلا ہیرا پھول کیسا ہے۔ کون جانے اور آخر میں جانے پھول کس کے ہاتھ لگے۔

    خالی اور لمبی دوپہروں میں اگنی دا نے مجھے صحیح نشانہ باز بنانے کے لیے کتنی محنت کی تھی۔ آج جو میں آواز پر نشانہ لگاتا ہوں وہ نہیں چوکتا تو یہ سب اگنی دا کی محنت ہے جو اس نے میرے ساتھ کی تھی۔ اس دن بھی میں نے دونوں بازوں کو لڑتے دیکھ کر نشانہ لیا اور پھر غرور سے میں نے زمین پر بیٹھی اگنی دا کی طرف دیکھا مگر وہ میری طرف نہیں دیکھ رہی تھی وہ اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے میں لیے بیٹھی تھی۔

    میں بھاگ کر اس کے گلے سے لٹک گیا۔ ’’دا دیکھتی ہو میں نے کیا کیا ہے؟ دیکھا میرا نشانہ؟‘‘ پھر اس کا رنگ یوں زرد ہو گیا جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ ’’بیٹے تم نے کیا کیا ہے۔ بیٹے تم نے یہ کیوں کیا ہے۔ ابھی وقت نہیں آیا بیٹے مگر ہونی کو کون روک سکتا ہے۔ میرے بچے تم نے تو باز کی ٹانگ توڑ دی ہے۔ اب میں کیا کروں گی تمہیں کہاں چھپاؤں گی۔‘‘

    پھر میں نے اپنے چچا کو دیکھا کہ جھومتا ہوا آیا ہے۔

    ’’ہوں‘‘ کر کے اس نے مجھے اور دا کو دیکھا اور پھر اس کی نظر اپنے زخمی باز پر پڑی وہ ساری لمبی داستان عجیب طرح سے اندھیرے میں ہے۔ روتی ہوئی اگنی دا چیختی ہوئی ماں اور زمین پر پٹخنیاں کھاتا ہوا میرا اپنا جسم۔ ایک عجیب آواز سے میں دیواروں دروازوں فرش پر لگ رہا تھا۔ کچھ محسوس ہی نہیں ہوپاتا تھا۔ جیسے میں کوئی اور ہوں جسم سے باہر پرے اور فرش پر لڑھکنیاں کھاتے ہوئے کسی پتھر کے جسم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ وہ چیخیں بھی میں نے اپنے کانوں سے سنیں پھر ہولے ہولے سب کچھ تھم گیا۔ کوئی آواز نہیں آتی تھی!

    پر آج تک بھی جب مجھے کوئی ٹھوکر لگی ہے جب بھی میں زخمی ہوا ہوں مجھے سدا یہی لگا ہے جیسے یہ میں نہیں کوئی اور ہے جس پر یہ سب بیت رہی ہے مجھے کچھ محسوس ہی نہیں ہوتا۔ آنکھ کھلی ہے تو میں نے ماں کو اپنے پر جھکے دیکھا وہ رو رہی تھی اور ہاتھ مل رہی تھی اس کے وہ ہاتھ جیسے چاندنی کو گوندھ کر بنائے گئے ہوں۔ اس کے سفید چہرے پر کاجل پھیلا ہوا تھااور اس کے بال کھلے تھے۔ میں نے زمانوں کے بعد اسے دیکھا تھا او ر وہ مجھے بہت اچھی لگی۔

    ’’تم کیسے ہو بیٹے میرے میرے بیٹے میرے لال‘‘ اس کی آواز مجھے ایسی سہانی لگی جیسے گھنٹیوں کی مدہم سی سنسناہٹ ہو وہ آواز میرے خون میں ایسی سنسناہٹ پیدا کرنے لگی جیسی سیاہ گھوڑے پر بیٹھ کر تاریک رات میں سرد ہوا کے تھپیڑے کھانے سے ہوتی ہے۔ یہ میری ماں تھی۔ میرا جی چاہا وہ مجھے گلے سے لگا لے۔ اگنی دا کی طرح وہ مجھے اپنے سینے سے چمٹائے، میں اس میں سما جاؤں!

    مگر اگلے ہی لمحے ایک باندی نے کہا، ’’رانی آپ چل کر سنگار کر لیں وہ بے بسی اور بے چارگی کی نظر جیسے نظر نہ ہو خون کا آنسو ہو۔ مجھے اپنا دل ٹھہرتا ہوا معلوم دیا۔ پھر اگنی دا نے کہا، ’’بہو تم جاؤ میرے بچے پر دیا کرو۔‘‘

    ماں نے بڑی منت سے دا کی طرف دیکھا اور جھک کر میرا ماتھا چوم لیا۔

    وہ جگہ جہاں ماں کے ہونٹ پڑے تھے وہ جگہ میرے اپنے ماتھے پر اتنی پوتر لگتی ہے کہ مجھے کبھی کبھار اپنے آپ پر مندر ہونے کا شبہ ہوتا ہے!

    ان دنوں گھٹائیں جھوم کر آتی تھیں اپنے کمرے کی چھوٹی سی کھڑکی میں سے مجھے جو آکاش دکھائی دیتا وہ سیاہ ہوتا۔ ہوا ایک عجیب طر ح کے زور سے چلتی جیسے اپنے ساتھ سب کچھ برباد کر دے گی۔

    میں بہت کمزور تھا اور پھر دا مجھ سے بات بھی بہت کم کرتی تھی اس گھڑی کے بعد سے وہ مجھ سے آنکھ بھی نہیں ملاتی تھی۔ اپنے سفید ہلتے سر کو اور جھکائے تقریباً دوہری ہوتی جب وہ کمرے میں ادھر سے ادھر چلتی تو میں اسے دیکھتا رہتا۔ کبھی میرے لیے دوا لارہی ہے کبھی میرے جسم کو سینک رہی ہے۔ مجھے چادر میں لپیٹ رہی ہے ان بوڑھے ہاتھوں میں گرمی بھی نہیں تھی میرے زخم مندمل ہونے میں ہی نہیں آتے تھے۔ کبھی میں درد کی شدت سے رونے لگتا تو دا بہت خفا ہو کر میری طرف دیکھتی۔

    ’’بیٹے یہ تم ہو، روتے ہوئے کیا اچھے لگتے ہو؟‘‘

    ’’دا یہاں یہاں دکھ جو ہوتا ہے۔‘‘ میں زور سے کہتا اور چوٹوں کو چھونے کی کوشش کرتا۔

    ’’تمہیں تو جانے کیا کچھ سہنا ہے ابھی اور تم اتنی سی بات نہیں سہار سکتے؟‘‘ وہ چوٹ کی جگہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتی۔

    ’’دا کیا اس سے بھی زیادہ دکھ ہو سکتا ہے؟ کیوں مجھے کیوں دکھ ہوگا بھلا؟‘‘ میں بے یقینی سے پوچھتا۔ ’’کئی جسم بہت سخت بنائے جاتے ہیں جو بہت کچھ سہہ سکیں‘‘ دا بڑے رسان سے کہتی، ’’تم کس شے سے بنی ہو دا‘‘ میں نے اسے اپنے کمزور ہاتھ سے چھو کر کہا۔

    ’’میں نے بہت کچھ سہا ہے ابھی بہت کچھ سہنا ہے۔ ان آنکھوں نے کیا نہیں دیکھا۔‘‘ اس نے ہولے سے کہا اور میں حیرت سے اسے دیکھتا اور جی ہی جی میں کہتا، ’’دا مجھے دھوکا دے رہی ہے خود مجھے کہتی ہے کہ جھوٹ نہیں بولو پاپ ہوگا۔ پر خود تو پاپ سے ذرا نہیں ڈرتی۔ یہ کاغذ کی طرح کے مڑے تڑے کھڑ کھڑاتے ہوئے ہاتھ سفیدسر اور پپوٹوں کے بوجھ سے بند ہوتی آنکھیں۔ چلا تو اس سے جاتا نہیں اور اپنے آپ کو سخت کہتی ہے۔ ایک ٹھوکر لگنے سے گر جاتی ہے، ہوا میں اڑ سکتی ہے ا ور پھر میں سوچنے لگا، کیسے ہو اگر دا اڑ جائے اور برگد کی شاخ میں اٹک جائے اور زور سے رونے لگے اور میں جو اتنا بہادر سور بیر ہوں یوں چٹکی بجاتے میں اسے نیچے اتار لائوں اور کہوں، ’’دیکھا تم نے اب بتائو کون سخت بنا ہے تم یا میں؟‘‘

    میں زور زور سے ہنسنے لگا تو دا نے کہا، ’’بیٹے یوں نہیں ہنستے جب تک کوئی بات نہ ہو۔‘‘

    ’’تمہیں کیا پتہ کیا بات ہے۔ دا میں تم سے بہت بڑا ہوں۔ میں تم کو درخت سے اتار کر لا سکتا ہوں!‘‘

    دا نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا، ’’میں تو تمہاری باندی ہوں بیٹے۔ تم مجھ سے بہت بڑے ہو پھر بھی مجھے اسی جگہ پر بھٹکنا ہے اور تمہیں آگے جانا ہے!‘‘

    ’’کہاں آگے جانا ہے دا۔ تم مجھے اپنے سے دور کیوں بھیج رہی ہو؟‘‘

    ’’کیونکہ تمہیں اپنے پھول کی کھوج میں نکلنا ہے۔ پھول جس کا رنگ کبھی کم نہیں پڑتا، پھول جس کی باس سدا رہنے والی ہے اور جس کا رنگ کبھی مدھم نہیں ہوتا۔‘‘

    ’’دا تم مجھے اکیلا کیوں بھیجنا چاہتی ہو۔ تم خود میرے ساتھ کیوں جانا نہیں چاہتیں؟ میں تمہارے بنا بھلا کہاں جاؤں گا؟‘‘

    ’’میرے بیٹے‘‘ اس نے اپنا جھریوں بھرا ہاتھ سر پر رکھ کر مجھے کہا تھا، ’’تمہیں ہر چیز کے لیے اپنے کو تیار کرنا ہوگا، بیٹے تمہاری زندگی بہت کٹھن ہوگی، بچے، بہت ہی کٹھن!‘‘ اس کا ہاتھ بالوں میں کانپ رہا تھا۔

    ’’دا تمہارا نچڑا ہوا کمزور ہاتھ کیوں ہے ماں کی طرح کا خوبصورت کیوں نہیں!‘‘

    ’’ابھی تمہیں ان ہاتھوں کی ضرورت ہے ہاں جب تم بڑے ہو جاؤگے؟‘‘

    ’’ہاں دا جب میں بڑا ہو جاؤں اور اس نیلے گھوڑے پر ہی تو چڑھ سکوں گا۔ بتائو نا مجھے نیلے گھوڑے پر کب چڑھنے دوگی؟‘‘

    ’’جب تم بدلہ لے سکو گے اپنے باپ کی موت کا بدلہ۔‘‘ اس کی آواز بمشکل سنی جا سکتی تھی۔ تمہیں اپنے چاچا سے، آفتاب سے ماہتاب سے بدلہ لینا ہے، بیٹے انہوں نے تمہارے جواں باپ کو یوں مسل دیا جیسے وہ کوئی چیونٹی ہو۔ انہوں نے ذرا ترس نہیں کھایا۔‘‘ سن سن کر کے خون میری رگوں میں دوڑنے لگا۔ کان جلنے لگے اور سرگھوم گیا۔

    ’’ماں تم نے آج سے پہلے مجھے یہ سب کیوں نہیں بتایا؟‘‘

    آج سے پہلے اور اب بھی وقت کہاں ہے بیٹے؟ مگر مجھے قول دو کہ تم بدلہ لوگے تم۔ ’’تمہاری باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں؟‘‘ میں نے گھبرا کر کہا۔

    ’’ضروری نہیں کہ سب تمہیں سمجھ آئے، ساری باتیں کبھی کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کرتیں۔ مگر راستے انہیں اندھیروں سے گزرتے ہیں۔‘‘ اگنی دانے اٹھ کر دیا بجھا دیا۔ ’’اندھیرے میں مجھے ڈر معلوم ہوتا ہے۔‘‘ میں نے منت سے اسے کہا۔ مجھے لگا جیسے باہر کی ساری آوازیں تھم گئی ہوں۔

    ’’مجھے قول دو اس اندھیرے کی طرح کی بے یقینی سے مجھے اور اپنے کو نکالوگے۔ تم عزت کا پھول لے کر دن کی روشنی میں نکلوگے۔‘‘ اس کی آواز مضبوط تھی اور سخت کوڑے کی طرح مجھے لگ رہی تھی۔

    پھر ہولے ہولے باہر کی ساری آوازیں تھم گئیں میرے اندر صرف پیاس تھی اور کوئی مجھے سینے سے لگائے تھا۔

    دیا جلا کر اگنی دا نے ہمیں دیکھا۔ میں ماں کو دیوانہ وار چوم رہا تھا یہ میری ماں تھی۔ آفتاب مہتاب کی نہیں میری ماں۔ میں اس ایک گھڑی کے بدلے لاکھوں اگنی دا قربان کر سکتاتھا۔ ماں کے آنسو میرے بالوں میرے ہونٹوں پر گر رہے تھے اور میرا جی چاہتا تھا میں اس کے سینے میں سما جاؤں۔

    ماں نے اٹھتے ہوئے کہا، ’’اگنی کیا تم مجھے کبھی معاف نہیں کر سکتیں میں اس کی ماں ہوں!‘‘

    اگنی دا نے چوکی پر بیٹھتے ہوئے کہا، ’’بہو تمہیں مجھ سے شرمندہ ہونے کی کیا ضرورت ہے تم اس کی ماں ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے چاچا کی سہاگن بھی تو ہو، آفتاب اور مہتاب کی ماں ہو، یہاں کے حاکم کی بیوی ہو، میرا کیا منہ ہے کہ میں تمہیں معاف کر سکوں۔ میں ایک ادنیٰ باندی ہوں مگر اس کے باپ نے میرا دودھ پیا تھا وہ اسی طرح مجھے پیارا تھا جس طرح تمہیں تمہارے بیٹے ہیں۔ میرا دل خون کے آنسو روتا ہے اور اس کی رگوں میں اس کا خون ہے بہو۔ خون خون کے لیے جاگےگا بہو!‘‘

    ماں کھڑی تھی، وہیں زمین پر بیٹھ گئی اور بین کرنے لگی۔

    ’’اگنی دوسری بار مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ اپنا سہاگ لٹا سکوں!‘‘

    دا نے بہت ہولے سے کہا، ’’میرے بیٹے نے تمہارا کیا لیا تھا، تمہیں کونسا دیکھ پہنچایا تھا اور جب اس کی یاد کا دامن بھی میلا نہیں ہوا تھا تو تم نے دوسرے سہاگ کی خوشیاں کیں۔ تم نے کیسے پور پور سنگار کیا تھا جیسے پہلی بار سہاگن بننے جا رہی تھیں۔‘‘

    ماں نے کہا، ’’اگنی میں تمہارے پاؤں پکڑتی ہوں میرے بیٹے کو وہ سب نہیں بتائو جو اسے معلوم نہیں!‘‘

    اگنی دا نے بہت نفرت سے کہا، ’’کیا تم سمجھتی ہو یہ سدا بچہ ہی رہےگا وہ جوان ہو کر ان اونچی نیچی جگہوں میں گھومنا نہیں چاہےگا اور یہ گلیاں اس سے کچھ نہیں کہیں گی اور پھر تمہارا سہاگ جو اس کے خون کا پیاسا ہے؟ یہ یہاں کیا بن کر رہ سکےگا بہو۔ اسے جانا ہے بہو۔‘‘ وہ چپ ہوگئی جیسے سانس ٹھیک کرنے کو رکی ہو۔

    ماں کا سر اس کے گھٹنوں پر رکھا تھا اور بالوں کی سیاہی میں دئیے کی لو سے شعلے سے پروئے لگتے تھے اور اس کی لمبی چوٹی تاروں سے گندھی لگتی تھی دیئے کی لو کی اوٹ سے پرے اگنی دا تھی۔ اس کا سفید سر اور بھی جھک گیا تھا۔ وہ کانپ رہی تھی جیسے تیز ہوا کی لہروں پر بہتا کوئی تنہا زرد پتا ہو۔

    اگنی دا نے ماں کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھاتے ہوئے کہا، ’’بہو عزت کی کتاب کا سبق اسے بھی پڑھنے دو۔ اگر تمہارے نصیب میں یہی بدر ہے تو اسے کون مٹا سکتا ہے میں جو ایک باندی ہوں اس سے دغا نہیں کر سکتی، تم تو اس کی ماں ہو۔‘‘

    ماں نے جھکا ہوا سر اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر چہرے پر سکون تھا۔ پھرا س نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا، ’’دا ٹھیک کہتی ہے بیٹے جو عزت کی راہ ہے اس پر چلو، چاہے اس راہ پر کوئی بھی آئے اس کی پروا نہ کرو۔ میں ماں ہو کر تم سے دھوکہ کیسے کر سکتی ہوں؟‘‘

    اور آج بھی وہ مجھے دکھائی دیتی ہے میری یادوں کے پردے پر وہ اسی طرح ابھرتی ہے آنسوئوں سے بھری آنکھیں جیسے پانی کی جھیلیں ہوں۔ چہرے کے مقابلے میں بالوں کی کالی گھٹا سے بھی گہری سیاہی اور جوش سے سفیدی میں جھلکتی ہوئی جو چہرے کو پھولوں کے رنگ کا بنائے دیتی ہے۔

    اسکول جانے کے دن قریب آرہے تھے۔ میں اور احسن ٹیلوں کے پرے اپنے سیاہ گھوڑے کو خوب تیز دوڑاتے ٹیلوں میں آنکھ مچولی کھیلتے۔ صحرا اپنی ساری وسعتوں سمیت ہمارے سامنے پھیلا ہوا ہوتا۔ چرواہوں کی بانسریوں کی صدائیں اور جانوروں کے گلے میں پڑی گھنٹیوں کی ٹنٹناہٹیں مجھے سپنوں میں سنی آوازوں کی طرح جان پڑتیں۔ لانے اور پھوگ، جنڈی اور لائی کی جھاڑیوں میں مدھر سی خوشبو اور پھر بسیرا کرتی کاونتیوں اور چڑیوں کے شور سے ٹیلے آباد ہوتے۔ ہم دونوں اس بھول بھلیاں میں گم ہو جاتے۔ کبھی ڈاہر پر گھوڑوں کو دوڑاتے چلے جاتے۔ میرا سانس رکنے لگتا۔ زمین گھوڑوں کے سموں کے نیچے لوہے کی طرح بجتی اور ان کی دمیں ہوا میں یوں اٹھی ہوئی ہوتیں جیسے وہ کسی سانچے میں ڈھلے کھلونے ہوں۔ پھر ہم دونوں خاموش ہو کر چلنے لگتے اور سورج ہمارے سامنے غروب ہونے لگتا۔ بادلوں میں آگ لگتی اور ریت کے ذرے اس سرخ رنگ میں نہا جاتے، جھاڑیاں سرخ روشنی سے بھر جاتیں اور پرندے بسیرا کرنے کے لیے تیز تیز پر مارتے اپنے ٹھکانوں کو لوٹتے۔ پھر ہولے ہولے ہوا گھلنے لگتی۔ بادل اتنے سرخ ہو جاتے تھرتھراتے سیال کی طرح جیسے آگ پر تپائے جا رہے ہوں، شعلہ رنگ مرغولے سے اڑتے اور سب کچھ خون میں نہا جاتا اور سورج کے سفید تھال میں آگ لگ جاتی۔ ریت کے پہاڑ اور ٹیلے دھوئیں کی سیاہی میں ڈوبنے لگتے۔ کالی رات کے دھواں دھواں دامن دن کو ڈھانپنے بڑھتے اور خاموشی کی لہریں سی پھیلتی جاتیں۔

    دئیے کی لو میں کتابوں کے ورق پلٹتے دیکھ کر دا کہتی، ’’جانے ان کتابوں میں وہ سب لکھا ہے کہ نہیں جو میرا جی چاہتا ہے تم سیکھو۔‘‘

    ’’تمہیں تو کبھی پتہ ہی نہی چل سکتا کہ کتابوں میں کیا لکھا ہے!‘‘ میرا سر غرور سے تن جاتا۔ ’’ہیرا پھول کی کہانی تو ان میں ہوگی؟‘‘ وہ کتابوں کے صفحے بڑی آس سے الٹتی پلٹتی۔ ’’تم تسلی رکھو دا گھوڑے پر چڑھنا، نشانہ لگانا، یہ سب تو مجھے آہی گیا ہے، کسی دن جب میں چاچا کے برابر اونچا ہو جاؤں گا تو دیکھنا میں ہیرا پھول لے کر گھر پلٹوں گا‘‘ اور اگنی دا ٹھنڈا سانس بھر کر کہتی، ’’کیا ہی اچھا ہوتا اگر پھول لانا اتنا آسان ہوتا!‘‘

    سردی گھوم گرج کر پڑ رہی تھی جب مجھے اسکول بھیجا گیا۔ اس رات دا دیر تک مجھے کچھ سمجھاتی رہی مگر میں بستر میں دبکا لیٹا تھا اور چومکھیا دئیے کو دیکھ رہا تھا جس کی لو گھٹتی بڑھتی اور کبھی درزوں سے اندر آنے والی ہوا کے رخ پر جھک جاتی تھی جو باہر برگد کی شاخوں میں شور مچاتی بڑے زوروں میں تھی جیسے کوئی منہ زور گھوڑا ہو۔ جھنگھاڑتی ہوئی وہ اپنا سر دروازوں سے دے مارتی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا اگنی دا کی کہانیوں کے سارے دیو آزاد ہو کر گھوم رہے ہیں۔

    ہجوم میں مل کر چلنے میں مزہ بھی آتا ہے مگر آدمی اکیلا ہی ہوتا ہے اپنے اندر کے وسیلوں کے سہارے صحرامیں گھومنے والے خانہ بدوش کی طرح راہوں کی تلاش میں اور اپنے بچائو میں لگا رہا اور اسی لیے جب بورڈنگ اسکول میں بھیج دیا گیا ہوں تو میں نے ضد نہیں کی اور رو رو کر میڈم کو پریشان نہیں کیا اور اگلے دن رائونڈ پر آنے والے سپرنٹنڈنٹ نے مجھ سے پوچھا، ’’تم اداس تو نہیں ہو‘‘ تو میں نے کہا تھا، ’’میں ٹھیک ہوں بالکل۔‘‘

    میں نے اپنے طرز عمل سے انہیں خاصا مایوس کیا۔

    کبھی کبھار گھر سے کوئی ملنے آتا توہم ملاقات کے کمرے میں بیٹھے اپنے سامنے تکنے رہتے۔ میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا، ’’ماں کیسی ہے؟‘‘ مگر پھر اندر سے مجھے کوئی روکتا۔ وہ آفتاب اور مہتاب کی ماں تھیں بھلامیں اس کی خیریت کیوں پوچھتا؟

    پہلی ٹرم کے ختم ہونے پر مجھے کوئی لینے نہیں آیا۔

    خالی کمروں میں ہوا سائیں سائیں کرتی رہی۔ برطانوی وضع کی اس پرانی عمارت میں جس کا سنگ بنیاد ڈیڑھ صدی پہلے رکھا گیا تھا لڑکوں کو انتہائی شان و شوکت سے رہنے کی تربیت دی جاتی۔ انہیں دنیا داری کے سب طریقوں کے ساتھ انگریزی کا صحیح تلفظ اور مکمل لہجہ سکھایا جاتا۔ استاد تیرنا سکھاتے ہوئے انگریزی بولتے۔ میڈم انگریزی میں صبح بخیر کہتی۔ چپڑاسی سے لے کر پرنسپل تک سب اسی زبان میں بات کرتے۔ خاص لباس پہن کر گھوڑوں پر سواری کی جاتی۔ شہر کے ان ہنگاموں میں بھلا گھوڑے کب بھاگ سکتے ہیں اور میں کہتا بیکار ہی یہاں بھجوایا گیا ہوں۔ یہاں وہ جوش اور گرمی کہاں تھی جو خون کو رگوں میں چلنے کی حد تک گرم کر دے۔

    دا کی کہانیوں میں تو ہیرا پھول کسی اور دیس میں، کسی اور کونے میں کھلتا تھا۔ کتنی ہی وادیوں، آگ کے سمندروں اور جنگلوں کے پار ایک ویران سے اجاڑ باغ کے کسی تنہا چھپے ہوئے کونے میں ٹہنی پر اکیلا پھول تھا۔۔۔ اور میں یہاں تھا اور پھر دا کی کہانیاں میرے ذہن میں عجیب طرح گڈمڈ ہو جاتیں۔ کبھی راتوں کو میرے سارے بادشاہ اور پیادے مل کر بھاگ کھڑے ہوتے اور بساط خالی رہ جاتی۔ میں یہ تماشا دیکھتا مگر کچھ کر نہ سکتا۔ پھر دا کی آواز اندھیرے کے پار سے سنائی دیتی۔

    ’’پتہ نہیں تمہیں کیوں پتہ نہیں چلتا جب میں شہہ کہوں تو اس کا مطلب ہے تمہارا بادشاہ زد میں ہے اور تمہیں اس کی فکر کرنا چاہیے۔‘‘

    پھر ماں کی صورت دکھائی دیتی، جو خوابوں کے اجالوں میں نکھری نکھری اور اپنی لگتی، مگر میں اور میڈم کینوس پر سیاہ گھوڑوں، نیلے گھوڑوں، بھاگتے گھوڑوں کی تصویریں بناتے رہتے اور سڑک پر سے موٹریں گذرتی رہتیں۔ درختوں میں کوئلیں کوہو کو ہو بولتیں اور آم کے درختوں تلے نظر نہ آنے والی خوشبوئیں ڈولتیں۔ میری منزل ابھی دور تھی اور راستے پر کوئی دیا بھی تو نہ تھا۔ جانے میری منزل کہاں تھی، ہیرا پھول کون سے دیس میں اگتا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے