Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہندوستاں ہمارا

بلونت سنگھ

ہندوستاں ہمارا

بلونت سنگھ

MORE BYبلونت سنگھ

    کہانی کی کہانی

    جنگ آزادی کے زمانہ میں انگریزوں کے نسلی تعصب اور ہندوستانیوں سے امتیاز کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ جگجیت سنگھ ایک لفٹننٹ ہے جو اپنی حاملہ بیوی کے ساتھ شملہ گھومنے جا رہا ہے، سکینڈ کلاس میں ایک اکیلا انگریز بیٹھا ہوا ہے لیکن وہ جگجیت سنگھ کو ڈبے میں گھسنے نہیں دیتا اور کسی اور ڈبے میں جانے کے لئے کہتا ہے۔ پولیس والے اور ریلوے کا عملہ بھی جب اسے سمجھانے بجھانے میں ناکام ہو جاتا ہے تو جگجیت سنگھ انگریز کو ڈبے سے اٹھا کر پلیٹ فارم پر پھینک دیتا ہے اور پھر اپنی بیوی کو ڈبے میں بٹھا کر، سامان رکھ کر نیچے اترتا ہے اور انگریز کی پٹائی کرتا ہے۔

    ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

    اقبال

    جگجیت سنگھ اپنی بیوی کی تلاش میں تھا۔ بھلا اتنے بڑے جوڑ میلے میں ایک عورت کو ڈھونڈ نکالنا بھی کوئی آسان کام تھا۔ سکھوں کا جوڑ میلہ ایک برس میں ایک ہی مرتبہ لگتا تھا۔ گورو ارجن دیوجی مہاراج کی یاد میں بڑے بڑے دیوان لگتے۔ پنجاب کے دور افتادہ مقامات سے پریمی سکھ جوق در جوق آتے۔ دو دن تو اس جگہ تل پھینکنے کو جگہ نہ ملتی تھی۔ مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے سبھی جمع ہوتے تھے۔ اتنی بھیڑ میں بھلا جگجیت سنگھ کی بیوی کا کیا پتہ چل سکتا تھا۔

    لیکن وہ بیوی کو ڈھونڈے بغیر واپس نہ جا سکتا تھا۔ وہ کچھ عرصہ تک برما کے محاذ پر جانے والا تھا۔ اس نے بمشکل دو ہفتے کی چھٹی حاصل کی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ ان چھٹیوں میں وہ اپنی بیوی کو ہمراہ لے کر شملے چلا جائے۔ اس کی بیوی کی خواہش تھی کہ وہ کسی پہاڑی مقام کی سیر کرے۔ ہز میجسٹی کی فوج کا لفٹننٹ ہونے کی حیثیت سے نہ معلوم کتنے عرصے تک اسے اپنی قوم اور ملک کی خدمت کرنی پڑے۔ ہندوستان کی خاک پاک کو لالچی اور خونخوار دشمنوں سے بچانے کے لیے نیز ہندوستان کی آزادی برقرار رکھنے کے لیے نہ معلوم کب تک اسے شمشیر بکف رہنا پڑے۔ ان حالات میں اس نے مناسب سمجھا کہ چند روز اپنی بیوی کی صحبت میں کسی پر فضا مقام پر گزارے۔

    وہ آج ہی گھر پہنچا تھا لیکن بیوی موجود نہ تھی۔ صرف ماں بیٹھی چرخہ کات رہی تھی۔ گھر پہنچتے ہی اس نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا۔ وہ منہ سے کچھ کہنے سے شرماتا تھا۔ شادی کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ ماں بھانپ گئی۔ سوت کے ساتھ نئی پونی لگا کر بولی، ’’لڑکیاں جوڑ میلے پر گئی ہیں۔ میرا بھی جی چاہتا تھا لیکن میلے کے دنوں میں گھر اکیلا چھوڑ کر جانا مناسب نہیں، اس لیے میں نے آج انہیں بھیج دیا۔ کل میں خود جاؤں گی۔‘‘ پھر ماں نے بلائیں لے کر کہا، ’’اچھا اب نہا دھو کر کچھ کھا پی لو۔‘‘

    ’’لیکن وہ کب آئیں گی ماں؟‘‘ ماں ہنسنے لگی۔ ’’چھوکریاں ہیں کون کہہ سکتا ہے کب آئیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ شام سے پہلے نہیں آئیں گی۔ آج دوپہر کا کھانا بھی وہ لنگر ہی سے کھائیں گی۔‘‘ جگجیت سنگھ عجلت میں تھا۔ اس نے ماں کو اپنا سارا پروگرام بتایا۔ ماں کہنے لگی اب وہ تیرے ساتھ پہاڑ پر نہیں جا سکتی۔

    ’’نہیں جا سکتی۔۔۔؟ کیوں؟‘‘

    ’’احمق!‘‘ اس کی ماں پر معنی انداز میں ہنسنے لگی، ’’کہہ جو دیا وہ نہیں جا سکتی۔‘‘ وہ کچھ نہ سمجھا۔ لیکن وہ بلا کچھ کھائے پیے بیوی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔

    شادی ہوئے چار پانچ مہینے ہی گزرے تھے۔ شادی کے بعد وہ ایک ماہ کے قریب اپنی بیوی کے ساتھ رہا۔ پھر اسے ملازمت پر جانا پڑا۔ اب یہی ایک موقع تھا۔ اس کے بعد نہ معلوم کب ملاقات ہو یا نہ ہو۔ اسے اپنی بیوی سے اتنی ہی محبت تھی جتنی کسی نوعمر جوشیلے نوجوان کو ہو سکتی ہے۔ اسے اس کا خوبصورت تیکھے خدوخال والا چہرہ بخوبی یاد تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوگی وہ اسے پہچان لےگا۔

    بھیڑ میں سے رستہ بناتا ہوا وہ چلا جا رہا تھا۔ پہلے وہ خیموں کے عارضی بازار میں سے ادھر ادھر نظریں دوڑاتا ہوا گزر گیا۔ اس کی بیوی چٹپٹی چیزیں کھانے کی بہت شوقین تھی۔ اس نے دور چاٹ والے کی دکان پر چند عورتوں کا جمگھٹا دیکھا۔ وہ لپک کر وہاں پہنچا۔ عورتوں کی خاصی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ ان میں اس کی بیوی شامل ہو یا نہ ہو۔ اگر وہ یوں ہی نظر اٹھا کر کسی غیرمرد کو دیکھ لے تو وہ ہاتھ دھوکر اس کے پیچھے ہی پڑ جائے۔ چنانچہ وہ دوپیسے کے دہی بڑے لے کر ایک طرف کھڑا ہو گیا اور کنکھیوں سے عورتوں کا جائزہ لینے لگا۔ لیکن ان میں اس کی بیوی موجود نہ تھی۔

    وہاں سے نکلا تو پرے مچھلی بیچنے والے کی دکان نظر آئی۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی بیوی مچھلی کے پکوڑے یا تلی ہوئی مچھلی بھی بڑی رغبت سے کھاتی تھی۔ ممکن ہے وہاں بینچ پر انگلیاں چاٹتی ہوئی سی سی کر رہی ہو۔ اس کی بیوی ابھی نوعمر لڑکی ہی تھی۔ یہی سولہ سترہ کا سن تھا۔ بڑی چنچل اور طرحدار۔ اسےدیکھ پائے گی تو بھلا وہ کس انداز سے مسکرانے لگےگی۔ وہ بھاگا بھاگا پہنچا۔ لیکن اس کی بیوی اس جگہ بھی موجود نہ تھی۔ اسی طرح بھاگم بھاگ اس کی پگڑی بھی ڈھیلی ہو گئی۔ گردن کی جلد سرخ ہو گئی۔

    بڑے گوردوارے کے ارد گرد دور تک علیحدہ علیحدہ شامیانوں کے نیچے دیوان لگے ہوئے تھے۔ ان دیوانوں میں مرد بھی شامل تھے عورتیں بھی۔ اس نے سوچا ممکن ہے وہ کسی دیوان ہی میں بیٹھی ہو۔ وہ بھاگا بھاگا ایک دیوان میں گھس گیا۔ اسٹیج پر نئی روشنی کا ایک سکھ جنٹل مین کھڑا ہوا تھا۔ وہ سکھ قوم کے کسی مسئلہ پر جدید روشنی میں بحث کر رہا تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے قد کا مختصر سا آدمی تھا۔ اگرچہ وہ بڑے جوش میں بول رہا تھا لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ دیہاتوں سے آئے ہوئے اکھڑ سکھ اس کے لکچر میں خاص دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔ اس کی کمزور پتلی پتلی باہیں اور چھوٹی چھوٹی کسی ہوئی مٹھیاں، اس کی باریک زنانہ آواز اور پھر اس کی اردو ملی پنجابی بولی یا پنجابی ملی اردو سونے پہ سہاگا کا کام کر رہی تھی۔

    ’’میں آپ نوں یقین دلاتا ہوں۔ بلکہ ہم ایسی بات پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اسی یہ نتیجہ نکالن میں حق بجانب ہیں کہ سکھ قوم بڑی بہادر قوم تھی اور ہن بھی ہے، لیکن سکھ راج نیتی کے معاملے وچ کورے ہی ہیں۔ سیاست میں کوئی ٹاواں ٹاواں آدمی سمجھدار بھی نظر آجاندا ہے پر اس بات کی پنتھ نوں ہمیشہ ہی کمی رہندی ہے۔۔۔ جے آپ بگھیل سنگھ کی گل پر غور کرو۔ بگھیل سنگھ نے دلی پر قبضہ کر لیتا۔ دلی پر پنتھ کا نشان لہران لگ پیا۔ تو خالصہ صاحبو! دیوالی کے دن آ گئے۔ سب سکھوں نے کہا کہ ایس دیوالی امرتسر مناونی ہے جی۔ اس گل نوں سن کر بگھیل سنگھ جی بولے، خالصہ جی بات ہم سویکار کرتے ہیں۔ ہن خالصہ جی امرتسر جی کی طرف کوچ کر دیو۔ اس وقت کسے نے کہیا، سردار صاحب! دلی داکیا بنےگا؟ سردار بگھیل جی کہن لگے، پھر فتح کر لیں گے۔ تو جی جیکارے بلاندے اور واپس امرتسر آن دھمکے۔۔۔‘‘

    جگجیت سنگھ اچک اچک کر عورتوں کی طرف دیکھتا رہا۔ اسے اپنی بیوی کہیں بھی نظر نہ آئی۔ بچارا بہت پریشان تھا۔ وہاں سے ہٹ کر بھیڑ میں دھکے کھاتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ کوئی عورت اس کی نظر سے نہ بچتی تھی۔ وہ اور ایک دیوان میں جا نکلا۔ وہاں بھی لکچر ہو رہا تھا۔ یہ لکچر دینے والے سردار صاحب خوب لمبا سا لٹھ ہاتھ میں تھامے ہوئے تھے۔ وہ بڑے جوش میں بول رہے تھے۔ ان کی آواز گرج دار تھی اور صورت سے رعب ٹپکتا تھا۔ اس نے اپنے منہ کے دہانے کے آگے سے اپنی گھنی اور بڑی بڑی مونچھیں ہاتھ سے ہٹاتے ہوئے کہا،

    ’’پنتھ جیو! مجھے ایک بڑے ودوان پروفیسر نے یہ بات بتائی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ہندوستان کی ہسٹریاں لکھنے والے سب انگریز مصنف اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں انہیں مشرق میں سب سے سخت دشمن سکھ ہی ملے تھے۔ یہ بات کٹر سے کٹر انگریز بھی تسلیم کرتے ہیں۔۔۔ آخر یہ جوش اور طاقت سکھوں میں کہاں سے آ گئی؟ یہ شری گروکلغی دھرکا بھرا ہوا جوش ہے اور یہ سب شری گورو ارجن دیوجی مہاراج کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔۔۔ میں آپ کو ایک مزے کی بات سناتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ذرا زور کے ساتھ کھانسا۔

    جگجیت سنگھ عورتوں کے جھرمٹ کے قریب چلا گیا، ’’یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ کی بات ہے۔ اس وقت مہاراجہ جی کے جرنیل ہری سنگھ نلوے کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ یہ وہی نلوا تھا جس نے کابل قندھار تک سکھوں کی تلوار کا سکہ بٹھا دیا تھا۔۔۔ پٹھان مائیں اپنے روتے ہوئے بچوں کو اس کا نام لے کر چپ کراتی تھیں۔ انہیں دنوں کی بات ہے کہ انگریزوں نے کلکتہ میں ایک کانفرنس بلائی۔ اس میں ہندوستان کے بڑے بڑے حکمراں یا ان کے نمائندے بھی مدعو کیے گئے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے نلوے کو روانہ کر دیا۔ جس دن پہلی میٹنگ ہونے والی تھی سردار ہری سنگھ نلوا وقت سےکچھ پہلے ہی وہاں جاکر بیٹھ گئے۔ ہری سنگھ بہت بھاری ڈیل ڈول والا شخص تھا۔ صورت ایسی ہیبت ناک اور پر جلال تھی کہ دیکھ کر دل تھرا جاتا تھا۔ آنکھوں میں ایسی تیزی تھی کہ کوئی شخص اس سے آنکھ نہیں ملا سکتا تھا۔

    خیر! اس میٹنگ میں سبھی لوگ جمع ہونے شروع ہو گئے۔ جو کوئی نلوے کو دیکھتا حیرت سے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں۔ میٹنگ کی کارروائی کا وقت آن پہنچا لیکن حاضرین کو جیسے سانپ سونکھ گیا ہو۔ ہر طرف خاموشی طاری تھی۔ ہری سنگھ نلوا کچھ دیر تک تو منتظر رہے پھر وہ کچھ برا مان گئے اور اسی دن پنجاب کی طرف روانہ ہو پڑے اور لاہور پہنچ کر مہاراج سے اس بات کی شکایت کی۔ مہاراج نے اسی وقت انگریزوں کو چٹھی لکھی کہ آپ لوگوں نے ہمارے نمائندے کی تضحیک کی ہے۔ وہ آپ کی کانفرنس میں شامل ہوا اور سب چپ چاپ بیٹھے رہے۔ اس بات پر انگریزوں نے جواب دیا کہ ہم معافی کے خواستگار ہیں لیکن ہم لاچار تھے۔ آپ کے جرنیل کا دبدبہ ہی کچھ ایسا تھا کہ یہاں پر کسی کو زبان ہلانے کی جرأت تک نہ ہوئی۔ سب ممبران یہی سوچتے رہ گئے کہ ممکن ہے وہ کوئی بات کہیں جو نلوے کو پسند نہ آئے اور وہ خفا ہو جائے۔۔۔ سو یہ تھا ہمارے جرنیل ہری۔۔۔‘‘

    جگجیت سنگھ آگے بڑھ گیا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ اس نے صبح سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ جلدی سے اپنی بیوی کو ڈھونڈ کر لے آئےگا۔ پھر وہ نہا دھوکر کھانا کھائےگا اور اس کی بیوی بھی شام تک تیاری کر لےگی۔ اگر اس طرح ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہی شام ہو گئی تو وہ آج نہ جا سکیں گے۔ جس کے معنی ہیں ایک دن ضایع ہو جائےگا۔ یہ سوچ کر وہ اور بھی سرگرمی سے بیوی کی تلاش کرنے لگا۔ اس کی پریشانی دیکھ کر کوئی سیوادار پوچھ بیٹھتا، ’’کیوں سردارجی خیریت تو ہے۔ کوئی بچہ وچہ تو نہیں کھو گیا۔‘‘ وہ مسکرا کر آگے بڑھ جاتا۔ واقعی اتنے بڑے میلے میں بیوی کو تلاش کرنا بہت مشکل تھا۔

    پرے گھاس کے ٹکڑے پر درخت کی چھاؤں تلے رنگ برنگ کے کپڑوں والی عورتیں بیٹھی تھیں۔ اسے کچھ اس قسم کا دھوکا ہوا جیسے اس کی بیوی بھی انہیں میں شامل ہو۔ وہ بڑی امیدوں کے ساتھ وہاں پہنچا۔ لیکن مایوس آنا پڑا۔ کئی طرحدار بانکی عورتوں کو پیچھے سے دیکھ کر اسے شک گزرتا ممکن ہے یہ میری بیوی ہی ہو۔ مگر جب قریب پہنچ کر ان کی طرف دیکھتا تو شرمندہ ہونا پڑتا۔ ادھر وہ عورتیں اپنی خوبصورت آنکھیں ایک مرتبہ تو حیرت سے اس کے چہرے پر گاڑ دیتیں۔ پھر وہ جلدی سے منہ پھیر کر چل دیتیں۔

    ایک اور بڑے مجمع میں بہت عورتیں بیٹھی دکھائی دیں۔ وہ خود لمبے قد کا شخص تھا۔ لیکن اس کے آگے کھڑے ہوئے طرہ باز سکھ نوجوانوں کی پگڑیوں کے پھیلے ہوئے کلغے اس کے راستے میں حائل ہو جاتے تھے۔ وہ بھی مجمع میں گھس کر کھڑا ہو گیا۔ یہاں ڈھڈ سارنگی والوں نے سماں باندھ رکھا تھا۔ ڈھڈ چھوٹی ڈھولک سی ہوتی ہے جسے ایک ہاتھ میں پکڑ کر دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے اسے بجایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ستار بجتا ہے۔ یہ دونوں ساز رزمیہ اور جوشیلے گانوں کے لیے مخصوص ہیں۔ سب سے زیادہ بھیڑ اسی جگہ تھی۔ عورتوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ جگجیت سنگھ کو پورا یقین تھا کہ اس کی بیوی اس جگہ ضرور مل جائےگی۔

    وہ کچھ آگے بڑھا پھر رک گیا۔ اس نے سوچا کہ اگر اس نے زیادہ دھما چوکڑی مچائی تو لوگ اسے نکال باہر کریں گے۔ وہ ایسے زاویہ پر کھڑا ہونا چاہتا تھا جہاں سے وہ عورتوں کو بخوبی دیکھ سکے۔ وہ کچھ دیر کے لیے ڈھڈ سارنگی والوں کے گیت سننے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ وہ تعداد میں تین تھے۔ تینوں شخص خوب پلے ہوئے بھینسوں کی طرح موٹے تازے تھے۔ رنگ تانبے کے مانند سرخ۔ گردن کی رگیں پھولی ہوئیں۔ جوش میں بپھرے ہوئے شیروں کی طرح دکھائی دیتے تھے۔ اس وقت وہ مشہور شاعر شاہ محمد کی لکھی ہوئی رزمیہ نظم سنا رہے تھے۔ اس نظم میں شاہ محمد نے بڑے پرجوش انداز میں سکھوں اور انگریزوں کی لڑائی کا حال بیان کیا ہے۔

    ان تین اشخاص میں سے ایک کے ہاتھ میں ستار تھا اور دو کے ہاتھ میں ڈھڈ کی دھپادھپ کی آواز کے ساتھ ان کے ہاتھ اور سر بھی ہل رہے تھے۔ حاضرین بیٹھے جھوم رہے تھے۔ ڈھڈ والوں میں ایک شخص کبھی نثر میں جنگ کا نقشہ کھینچتا اور پھر کوئی بول وہ تینوں ہم آواز ہو کر ایک ساتھ پرجوش انداز میں گانے لگتے۔

    ’’صاحباں! یہ ایک غلط بات ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد سکھوں نے جنگ کا آغاز کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ خود انگریزوں کی نیت خراب تھی۔ انہوں نے رشوت دے کر چند سکھ سرداروں کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ مجبوراً سکھوں کو بھی لڑنا پڑا۔ یہ انگریزوں کی خوش قسمتی تھی اس وقت سکھوں کا کوئی رہنما نہ تھا۔ اگر یہ لڑائی مہاراجہ شیر پنجاب کی زندگی میں شروع ہو گئی ہوتی تو یقیناً آج ہندوستان کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی۔ ایک طرف فرنگیوں نے کچھ ایسے حالات پیدا کر دیے کہ سکھوں کے لیے جنگ ناگزیر ہو گئی اور جب سکھ مرنے یا مارنے پر تیار ہو گئے تو انگریزوں نے چاہا کہ طوفان تھم جائے۔ چنانچہ شاہ محمد فرماتے ہیں،

    چٹھی لکھی فرنگیاں خالصے نوں

    تسی کاس نوں جنگ مچانوویں او

    (انگریزوں نے سکھوں کو چٹھی لکھی کہ آپ جنگ کیوں چھیڑ رہے ہیں)

    ہور دیے جونس فرماندے او

    (ہم سے لاکھوں روپیہ لے جاؤ اور اس کے علاوہ جو کچھ آپ طلب کریں ہم دینے کو تیار ہیں)

    جگجیت سنگھ مایوس ہوکر مجمع سے باہر نکل آیا۔ اب کوئی چارہ باقی نہ رہا تھا۔ اس کے ہونٹ خشک ہو رہے تھے۔ پسینہ اس قدر زیادہ آیا تھا کہ اس کی بغلوں میں اس کا خاکی کوٹ تک بھیگ گیا تھا۔ پیٹ پیٹھ سے جا لگا تھا۔ شدت کی پیاس محسوس ہو رہی تھی۔ اسے اپنی بیوی پر سخت غصہ آنے لگا۔ نہ معلوم کمبخت کہاں چھپ کر بیٹھ رہی ہے۔ اس کا سارا پروگرام درہم برہم ہوا جا رہا تھا۔۔۔ اس نے سبیل سے دودھ کی کچی لسی پی اور لاہور کے قلعہ کی دیوار سے پیٹھ لگا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی ٹانگیں شل ہو گئی تھیں۔ وہ زیادہ دیر تک کھڑا نہ رہ سکا۔ اس قدر شور و غل اور دھکم دھکے میں وہ بھوکا پیاسا صبح سے گھوم رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ کہیں لیٹ کر کمر سیدھی کر لے۔

    یہ سوچ کر وہ میلے سے ذرا ہٹ کر ایک درخت کی طرف بڑھا۔ برگد کے پھیلے ہوئے درخت کے نیچے گاؤں سے آئی ہوئی عورتیں بیل گاڑیوں کے نیچے بیٹھی ہوئی روٹیاں کھا رہی تھیں۔ وہ مایوس تھکا ہارا قدم بڑھائے چلا جا رہا تھا کہ اتنے میں ایک لڑکی بھاگتی ہوئی ان کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔۔۔ اس نے آنکھیں اٹھائیں۔۔۔ ارے اس کی چھوٹی بہن۔۔۔!

    ’’ستو! ستو! تم لوگوں کو صبح سے ڈھونڈ رہا ہوں۔ کہاں بیٹھی ہو تم لوگ؟‘‘ بہن نے انگلی سے دور اشارہ کیا۔ وہ اس کے ساتھ چل دیا اور وہاں اس کی دوسری بہن اور بیوی صاحبہ بھی براجمان تھیں۔ بیوی حسب معمول چٹوری بلی کی طرح اپنے سامنے کئی چٹپٹی چیزیں رکھے پوریاں کھانے میں مصروف تھی۔ دونوں کی نظریں ملیں تو بیوی دلفریب انداز سے مسکرا کر شرما گئی۔ کتنی محنت کے بعد بیوی کی صورت نظر آئی تھی۔ وہ پہلے کی طرح سانولی سلونی ہی تھی۔ سرخ رنگ کی شلوار اور تنگ سی قمیص پہنے ہوئے جس میں اس کی چھاتیوں کی ابھری ہوئی گولائیاں صاف نظر آ رہی تھیں۔ اس کا جسم پہلے ہی کی طرح جاذب تھا۔۔۔

    جگجیت سنگھ ان کے پاس بیٹھ گیا اور دو تین پوریاں بھی کھا لیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنا رونا بھی روتا گیا۔ بیوی بولی، ’’آخر میں کہیں گم تو نہ ہو جاتی، آپ گھر ہی پر کیوں نہ بیٹھے رہے۔۔۔ اس قدر دھوپ میں۔۔۔ خواہ مخواہ۔۔۔‘‘ اس نے بہنوں کی نظریں بچاکر اس کی بغل میں چٹکی لے لی اور وہ بل کھا کر پرے سرک گئی۔ اس نے بتایا کہ وہ دونوں شملہ کو جانے والے تھے۔ اس کی بیوی حیران رہ گئی۔ اس کے منہ کا نوالہ منہ ہی میں رہ گیا۔ حلق سے اتراہی نہیں۔ بڑی خوشی ہوئی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی کتنی خوش ہوگی۔

    وہ لوگ جلدی سے میلے کو خیرباد کہہ کر گھر آئے۔ آتے ہی اس کی بیوی نے سامان باندھنا شروع کر دیا۔ ماں نے کہا وہ تیرے ساتھ کیسے جا سکتی ہے۔ ایک تو تم احمق ہو اور تم سے زیادہ وہ احمق ہے جو جھٹ تمہارے ساتھ چلنے پر آمادہ ہو گئی۔ ادھر اس کی بہنیں بھی واویلا کرنے لگیں کہ وہ بھی چلیں گی۔ نہیں تو بھابی کو بھی نہ جانے دیں گی۔ یہ نیا جھنجھٹ آن پڑا۔ اس نے ماں سے کہا، ’’آخر حرج ہی کیا ہے۔ پہاڑ پر چلی جائےگی تو اس کی صحت اور اچھی ہو جائےگی۔‘‘ اس پر اس کی ماں نے ناک چڑھاکر کہا، ’’باہگورو، باہگورو، لفٹی ننٹ بن گیا ہے پر اتنی عقل بھی نہیں سر میں۔۔۔‘‘

    پھر وہ اسے گھر کے ایک کونے میں لے گئی اور اس کے کان میں کھسر پھسر کرنے لگی۔ جگجیت سنگھ کی آنکھیں پھیل گئیں۔ اس کے منہ سے مسرت کی ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ اس کی بیوی حاملہ تھی۔ اس نے ماں کو بازوؤں میں جکڑ کر اوپر اٹھا لیا، ’’افوہ میری اچھی ماں۔۔۔ میری بہت ہی اچھی ماں۔۔۔ بول تو کس چیز سے منہ میٹھا کرےگی۔‘‘ ماں خوشی سے پھول کر کپا ہو گئی بولی، ’’ارے پگلے! منہ تو میٹھا کر ہی لوں گی، تو یہ بتا کہ میرا مطلب بھی سمجھ گیا کہ میں کیوں تجھے اسے ساتھ لے جانے سے منع کرتی تھی۔‘‘

    ’’لیکن ماں اس سے کیا ہوتا ہے۔ وہ چلےگی میرے ساتھ، اچھا ہوا جو تونے بتا دیا۔ میں اس کا سب خیال رکھوں گا۔۔۔ میں سب کچھ سمجھتا ہوں۔‘‘ ماں بگڑ گئی، ’’پھر وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔ جب میں نے کہہ دیا نہیں جائےگی۔‘‘

    ’’کیوں ماں! کیوں نہیں جائےگی؟‘‘

    ’’نہیں جائےگی۔ ہزار بار لاکھ بار کہہ دیا نہیں جائےگی۔‘‘

    یہ نئی مشکل آن پڑی۔ اس نے منت کر کے کہا، ’’ماں آخر تجھے ہو کیا گیا ہے۔‘‘

    ’’ارے جاہل، ہوش کے دوا لے۔ عورت کے پیٹ میں بچہ ہو اور پہاڑوں پر قلانچیں بھرتی پھرے۔ تیری عقل گھاس چرنے گئی ہے کیا۔‘‘ وہ آگے بڑھ کر ماں کو سمجھانے لگا، ’’ماں! دھیرج کر کے میری بات بھی تو سن۔۔۔ تین چار مہینے کا بچہ تو ہے ہی۔ اس میں پریشانی کی بات کیا ہے؟‘‘ اس پر ماں جھنجھلاکر کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اس نے اس کا منہ بند کر کے کہا، ’’میری بات تو سن لے پہلے۔ مجھے یہ بتا کہ تو پہاڑ کو سمجھتی کیا ہے۔ وہاں ہموار سڑکیں ہوتی ہیں۔ پھر ہر قسم کی سواری مثلاً رکشا ڈانڈی وغیرہ۔ بھلا میں اسے پیدل گھماؤں گا۔ تونے بھی مجھے ایسا ہی بےوقوف سمجھا ہے۔ میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر دس قدم بھی جانا ہوگا تو میں اسے رکشا پر بٹھالے جاؤں گا۔‘‘

    ان پڑھ ماں نے رونی آواز میں کہا، ’’ارے بیٹا رکشاکیا ہوتی ہے۔ میں نے تو آج ہی نام سنا ہے۔ کیوں بناتا ہے مجھے۔۔۔‘‘

    جگجیت سنگھ نے ماں کو سمجھانے میں اپنی ساری قابلیت صرف کر دی۔ ماں بڑی مشکل سے رضامند تو ہو گئی لیکن اس کے دماغ میں اب بھی وہی خیال بیٹھا ہوا تھا کہ بیٹا غلطی کر رہا ہے۔ ماں سے جان چھوٹی اور سامان بندھنے لگا تو بہنیں بسورنے لگیں۔ آج اسے بہنوں پر بڑا غصہ آ رہا تھا۔ انہیں اتنی تعلیم بھی نہیں دی گئی کہ اگر میاں بیوی کسی جگہ تفریح کے لیے جا رہے ہوں تو دوسروں کو خواہ مخواہ اس میں اپنی ٹانگ نہ اڑانی چاہیے۔ وہ بہنوں کو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔ لیکن اس موقع پر اس کی ماں نے دونوں لڑکیوں کو جھاڑ کر بٹھا دیا، ’’خبردار! چوٹی کاٹ کر پھینک دوں گی اگر تم میں سے کسی نے ساتھ جانے کا نام بھی لیا تو۔‘‘

    اب بہنیں بھائی کی طرف دیکھنے لگیں۔ بھائی نے سر اور آنکھوں کے اشارے سے ظاہر کیا کہ اب وہ کیا کر سکتا تھا۔ بچاری سیدھی سادی بہنیں سمجھتی رہیں کہ بھیا بچارا تو انہیں لے جانے کے لیے تیار تھا۔ ماں نے نہیں جانے دیا۔ ان سب باتوں سے فراغت پاکر اس نے گھڑی دیکھی تو چار بجے تھے۔ ساڑھے آٹھ بجے گاڑی روانہ ہوتی تھی۔ ابھی کافی وقت باقی تھا۔ لیکن وہ دل میں ڈر رہا تھا کہ کہیں کوئی نئی رکاوٹ کھڑی نہ ہو جائے۔ اس لیے اس نے نوکر کو اسی وقت تانگہ لانے کے لیے بھیج دیا۔ ماں کہنے لگی، ’’بیٹا ایسی بھی کیا جلدی ہے؟‘‘ اس نے بہانہ کیا کہ گاڑی میں بہت تھوڑا وقت باقی رہ گیا ہے۔ تانگہ آیا اور وہ جلدی سے سامان رکھ کر تانگے میں بیٹھ گئے۔ ماں نے بلائیں لیں۔ دونوں کو تانگہ چل دینے پر بھی پکار پکار کر قیمتی نصیحتیں کرتی رہی۔

    جب گھر سے دور چلے آئے تو وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا، ’’بھئی شکر ہے۔ ہزار ہزار جان چھوٹ ہی گئی۔‘‘ اس کی بیوی ہنس کر اس کے قریب ہو گئی۔ اس نے بیوی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ’’اچھا اب تم بھی مجھ سے باتیں چھپانے لگیں؟‘‘

    ’’میں نے کیا بات چھپائی؟‘‘ اس کی بیوی لاعلمی میں آنکھیں جھپکاکر بولی۔ جگجیت سنگھ نے پیٹ کی طرف آنکھ سے اشارہ کیا اور وہ دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر روٹھ گئی، ’’آپ بہت بےشرم ہیں اور نہیں تو۔‘‘

    ’’ہو ہو۔‘‘ جگجیت نے کہا، ’’تم روٹھ گئیں۔ بھئی تمہیں منا لینا کیا مشکل ہے۔ ابھی دو پیسے کے گول گپے کھلا دوں تو خوش ہو جاؤگی۔‘‘ اس پر اس کی بیوی انگلیوں کے بیچ میں سے دیکھ دیکھ کر ہنسنے لگی۔

    ’’اچھا واقعی بتاؤ تو کیا کھاؤگی؟‘‘ دہی بڑے، پکوڑے، کلفی، رس گلے، آئس کریم۔۔۔ بتاؤ میری چٹوری بلی!‘‘

    ’’کھانے بیٹھ جائیں گے تو گاڑی جو چل دےگی۔‘‘

    ’’ہاہا۔۔۔ آ گئیں چقمے میں۔۔۔ بھئی ابھی تو بہت وقت پڑا ہے۔ میں نے یونہی غپ اڑا دی تھی۔ سوچا ذرا ان لوگوں سے جان چھڑا کر بھاگیں۔‘‘

    وہ دونوں ایک بہت بڑے ہوٹل میں گھس گئے۔ وہ جان بوجھ کر بیوی کو اس ہوٹل میں لے گیا تھا۔ اب وہ لفٹننٹ ہو گیا۔ وہ چاہتا تھا ذرا بیوی بھی اس کی شان دیکھ لے۔ وہ ایک علیحدہ باکس میں بیٹھ گئے۔ اس کی بیوی کے تر و تازہ حسین چہرے پر حیرت کے آثار کس قدر بھلے معلوم ہوتے تھے۔ پہلے بھی اس نے ہوٹلوں میں کھانا کھایا تھا لیکن ایسے شاندار ہوٹل میں آنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ جگجیت سنگھ نے بٹن دبایا۔ گھنٹی بجی۔ بیرا حاضر ہوا۔ اس نے آرڈر دیا۔ آج وہ بہت خوش تھا۔ اپنی محبوب بیوی کے ساتھ نہ پہلے کبھی اکیلے سفر کیا تھا، نہ وہ کبھی اکیلے کسی مقام پر جاکر رہے تھے۔ پھر شملہ جیسے مقام پر وہ دونوں کس قدر لطف اندوز ہوں گے۔

    موجودہ لمحہ سے لے کر مکمل دو ہفتوں کی چھٹیاں ختم ہونے تک وہ ایک ایک لمحہ مسرت اور شادمانی میں گزارنا چاہتا تھا۔ آج صبح سے وہ عجب سراسیمگی میں گھومتا رہا۔ وہ سمجھنے لگا کہ یہ بھی واہگورو اکال پرکھ کی کرپا تھی کہ اس کی سب مشکلات آنکھ جھپکتے میں دور ہوگئیں۔ کھانا آیا اور وہ آپس میں باتیں کرنے لگے۔ اس کی بیوی کی شیریں آواز اس کے کانوں میں امرت ٹپکاتی تھی۔ وہ بھی تو از حد خوش تھی۔ مینا کی طرح چہک چہک کر باتیں کر رہی تھی۔ اس کی طفلانہ حرکتیں اور بھی زیادہ مزا دے رہی تھیں۔ وہ بولی، ’’کیوں جی! ہم گوردوارے میں ٹھہریں گے جاکر؟‘‘

    ’’نہیں مائی ڈارلنگ۔ ہم کسی شاندار ہوٹل میں ٹھہریں گے۔ گوردوارے کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ گوردوارے پر بوجھ ڈالنے کے بجائے ہمیں اپنے ہاتھ سے وہاں دان کرنا چاہیے۔‘‘

    پھر اس نے بیوی کو پہاڑی مقامات کی بابت سب باتیں بتائیں، ’’وہاں مکانات اوپر تلے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے تو وہاں ہمارے شہروں کی طرح کیچڑ نہیں ہوتی بلکہ پانی فوراً بہہ جاتا ہے۔ سڑکیں دھل کر صاف ہو جاتی ہیں۔۔۔ وہاں ہم زمین سے بہت اونچے ہو جائیں گے سمجھی۔۔۔ یہ بادل جو آسمان پر نظر آتے ہیں۔ ہمارے نیچے نظر آنے لگیں گے۔۔۔ ہاں۔‘‘ اس کی بیوی یہ باتیں سن کر بہت حیران ہوئی۔ کھانا کھانے کے بعد وہ دونوں خوش خوش باتیں کرتے ہوئے اسٹیشن کی طرف چل دیے۔ تانگے سے سامان اتروا کر قلیوں کےحوالے کیا۔ ابھی گاڑی جانے میں آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ اس نے سکنڈ کلاس کے دوٹکٹ خرید لیے۔

    جنگ کی وجہ سے بھیڑ بھاڑ بہت زیادہ تھی، اس لیے وہ دونوں فوراً پلیٹ فارم کی طرف چل دیے۔ بیوی شوہر کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ اس کا طاقتور اور چوڑے چکلے جسم والا خاوند اس کی رہنمائی کر رہا تھا۔ گاڑی ٹھساٹھس بھری ہوئی تھی۔ سکنڈ کلاس کے صرف ایک ڈبہ میں ایک انگریز کے سوا اور کوئی نظر نہ آتا تھا۔ جگجیت سنگھ دروازہ کھول کر اندر جانے لگا تو انگریز اٹھ کر دروازے پر آن کھڑا ہوا، ’’کسی اور ڈبہ میں بیٹھیے جا کر۔‘‘ وہ بہت حیران ہوا، ’’اور کوئی ڈبہ خالی نہیں ہے۔‘‘

    ’’خیر اس ڈبے میں نہیں بیٹھنے دوں گا۔‘‘

    ’’کیوں، کیا یہ ریزرو ہو چکا ہے؟‘‘ انگریز نے نتھنے پھلا کر کہا، ’’ریزرو ہی سمجھ لو۔‘‘ جگجیت سنگھ بہت پریشان ہوا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، کہیں بھی ریزرو لکھا ہوا نظر نہ آیا۔ ’’یہ ریزرو نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اندر داخل ہونے لگا، تو صاحب نے پھر راستہ روک دیا۔ اس بات پر کچھ تو تو میں میں ہو گئی۔ کچھ لوگ بھی جمع ہو گئے۔ اسٹیشن کا بابو بھی آ نکلا۔ جگجیت سنگھ نے بابو کو ساری بات سمجھائی۔ صاحب نے چلاکر کہا، ’’میں اسے اپنے ڈبے میں سفر کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘

    بابو نے کہا اسٹیشن ماسٹر سے کہیے۔ جگجیت سنگھ اسٹیشن ماسٹر کے پاس گیا۔ اس نے آکر صاحب کو سمجھایا لیکن صاحب نے سو سوالوں کا جواب ایک ’’نہیں‘‘ میں دے دیا۔ پولیس کے کانسٹبل چپ چاپ ادھر ادھر کھسک گئے۔ اسٹیشن ماسٹر نے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو فون کیا۔ وہ دفتر میں نہیں تھا۔ اس نے بھی لاچاری ظاہر کی آخر ہو بھی کیا سکتا تھا۔ گاڑی چلنےمیں ابھی پانچ منٹ باقی رہ گئے تھے۔ جگجیت سنگھ پلیٹ فارم پر کھڑا تھا۔ قلی سامان زمین پر رکھے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ اس کی سرمگیں آنکھوں والی بیوی سراسیمگی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ صاحب کھڑکی کے قریب بیٹھا اطمینان سے چرٹ پی رہا تھا۔

    مادر وطن کے سینے پر مادر وطن کی ریل گاڑی کھڑی تھی اور مادرِ وطن کے ایک بیٹے کو اس سرزمین سے ہزارہا میل پر رہنے والا اجنبی گاڑی کے اندر داخل نہیں ہونے دیتا تھا۔ اس کا یہ جائز حق کوئی قانون واپس نہ دلا سکتا تھا۔ جگجیت سنگھ کا جسم تنگ وردی میں جکڑن سی محسوس کرنے لگا۔۔۔ دفعتاً اس نے قلیوں کو سامان اٹھانے کے لیے کہا اور بیوی کو ساتھ لے کر گاڑی کے اسی ڈبے کی طرف بڑھا۔ پیشتر اس کے کہ صاحب اٹھ کر اس کاراستہ روکے وہ پھرتی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ صاحب کی گردن پکڑی اور اس کی ٹانگوں میں ہاتھ دیا اور اچھال کر پلیٹ فارم پر پھینک دیا۔ بیوی کا ہاتھ پکڑا۔ اسے سیٹ پر بٹھایا۔ قلی سامان لے کر اندر آ گئے اور اس نے صاحب کا سامان اٹھا اٹھا کر پلیٹ فارم پر پھینکنا شروع کر دیا۔

    صاحب گاڑی کی طرف لپکا۔ جگجیت سنگھ نے گاڑی سے نیچے اتر کر اسے راستہ ہی میں جا لیا۔ اس کے گندم گوں ہاتھوں کی گرفت میں صاحب کی ٹائی آ گئی اور دوسرے فولادی ہاتھوں میں دو زناٹے کے تھپڑ اس کے منہ پر پڑے۔ صاحب کی بتیسی ہل گئی اور اسے دن میں تارے نظر آنے لگے۔ وہ تھپڑ کھا کر لڑکھڑاتا ہوا پیچھے کی طرف اپنے کھلے سوٹ کیس میں جا دھنسا۔۔۔ اس کش مکش میں اس کے سر سے ہیٹ گر کر جو لڑھکا تو ایک بازاری کتا اسے منہ میں داب کر لے بھاگا۔

    اس کے بعد صاحب کو آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ جونہی جگجیت سنگھ نے پائیدان پر پاؤں رکھا۔ گاڑی چل دی۔

    مأخذ:

    بلونت سنگھ کے بہترین افسانے (Pg. 175)

      • ناشر: ساہتیہ اکادمی، دہلی
      • سن اشاعت: 1995

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے