Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

محبت کا دم واپسیں

مجنوں گورکھپوری

محبت کا دم واپسیں

مجنوں گورکھپوری

MORE BYمجنوں گورکھپوری

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ مریم نام کی ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جس نے اپنی زندگی میں صرف اپنے شوہر سے ہی محبت کی ہے۔ جب اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے شوہر کے تعلقات کسی اور عورت سے بھی ہیں تو وہ غصے سے آگ بگولا ہو جاتی ہے۔ وہ شوہر سے اس عورت کے بارے میں پوچھتی ہے تو اس کے جواب میں وہ مریم کو خود اس عورت سے ملانے کے لیے لے جاتا ہے۔‘‘

    مریم کی تعلیم و تربیت ہی کچھ ایسے ماحول میں اور ایسے اصول پر ہوئی تھی، جو انسان کو بھولا بناکر رکھ دیتے ہیں وہ ضلع بارہ بنکی کے ایک خاندانی زمیندار کی لڑکی تھی جو نہ صرف دولت و ثروت میں صاحب حیثیت تھا بلکہ علم و فضیلت میں بھی ایک خاص مرتبہ کا مالک تھا۔ قاضی عبدالرؤف کے گھر کا ایک ایک شخص قدیم و جدید تعلیم سے بہرہ ور تھا جو شخص ان کے وہاں سب سے کم پڑھا لکھا تھا وہ ان کا بھتیجا نعیم تھا۔ لیکن وہ بھی انٹرنس کا درجہ حاصل کیےہوئے تھا اور کچھ عربی فارسی میں بھی شدوبد رکھتا تھا۔ عبدالرؤف اس گھرانے کے پہلے شخص تھے جنھوں نے ملازمت اختیار کی ورنہ ان کے علاوہ کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ سب اپنی آبائی زمینداری سے اپنا پیٹ پالتے رہے اور ہمیشہ فراغت سے رہے۔

    عبدالرؤف بی۔ اے۔ کرنےکے بعد ڈپٹی کلکٹری کے عہدہ پر مامور ہوئے اور اپنی کوششوں سے ملازمت کی۔ تمام مدت بستی، سیتاپور، لکھنؤ اور بارہ بنکی میں گزاری۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ واقعی بی۔اے سے سرخاب کے پر لگ جاتے تھے اور ڈپٹی اپنے وقت کا فرعون ہوتا تھا۔ لیکن عبدالرؤف کو اس کلیہ سے مستثنٰی کر دیجیے ان میں ان بے عنوانیوں کا کوسوں تک پتہ نہیں تھا جن کو اقتدار و حکومت کے لازمی علامات سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے آج تک کسی پر جبر و تشدد نہیں کیا۔ خودغرضی اور زبردستی ان کی لغت میں بے معنی الفاظ تھے۔ یہ واقعہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ انہوں نے عمر بھر کسی سے کوئی ایسا تحفہ نہیں قبول کیا جو کسی طرح بھی رشوت کی ذیل میں آ سکتا ہو۔ ان کی عدالت حقیقی معنوں میں عدالت تھی۔ جہاں ہر بات کا فیصلہ اصول انصاف پر مبنی ہوتا۔ وہ بڑے سے بڑے اور الجھے سے الجھے مقدمہ کو کاوش اور محنت کے ساتھ سمجھتے اور پھر دودھ کا دودھ پانی کا پانی کرکے رکھ دیتے۔ افسروں اور حریفوں میں ان کی بڑی وقعت تھی اگرچہ ان میں سے اکثر دل ہی دل میں ان سے جلتے تھے۔

    عبدالرؤف کے گھر کی عورتیں بھی اپنے طبقہ کی دوسری عورتوں سے ممتاز اور فائق تھیں۔ کوئی ایسی نہ تھی جو تھوڑی بہت اردو فارسی نہ جانتی ہو۔ مریم چونکہ عبدالرؤف کی اکلوتی لڑکی تھی اس لیے باپ نے اس کو جہاں تک اردو فارسی پڑھا سکتے تھے پڑھایا اور گھر پر کچھ انگریزی بھی پڑھوا دی۔ اس تعلیم نے مریم کی طبیعت میں جو فطرتاً کچھ کم غائر اور سنجیدہ نہیں تھی اور بھی تمکنت اور توازن پیدا کر دیا۔

    جس خاندان میں مریم کی اٹھان ہوئی تھی وہ ان خاندانوں میں سے تھا جو صرف اپنی تہذیب و تکمیل میں مشغول رہتے ہیں اور دنیا کے اچھے برے سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ اس کے گھر کی ماما دائی کو بھی کسی نے آج تک دوسروں پر رائے زنی کرتے نہیں سنا۔ محلہ ٹولہ یا برادری میں اگر کوئی ناشائستہ اور غیرمہذب واقعہ ہو جاتا تو گھر میں مریم کسی کی زبان سے اس سے زیادہ نہ سنتی کہ ’’بڑے افسوس کی بات ہے اس کی کسی کو توقع نہیں تھی‘‘ ۔ اس تربیت کا نتیجہ یہ تھا کہ دنیا کی بہتری لڑکیوں کے برعکس مریم معصومیت، اور سادہ لوحی، انسانیت اور خداترسی، عفو اور خطاپوشی، ضبط اور خودداری کا مجسمہ ہوکر رہ گئی، اس نے نہ کبھی کسی کو برا سمجھا اور نہ برا کہا۔ مشہور تھا کہ جیسی پاک دلاور بےلوث خود ہے ویسی ہی دنیا کو سمجھتی ہے۔ مسلمان کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ وہ ہر شخص کے ساتھ حسن ظن رکھتا ہے۔ اس حیثیت سے مریم فطرتاً مسلمان تھی وہ کبھی کسی سے جلد بدگمان نہیں ہوتی تھی۔

    مریم کی شادی ارشاد علی سے ہوئی۔ عبدالرؤف کو ہمیشہ یہ فکر رہی کہ ان کی لڑکی ایسے گھر بیاہی جائے جہاں اس ’’سکوتِ مریم‘‘ کی قدر کی جائے اور اس سے غلط اور ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے اور اس سے انکار نہیں کہ باپ نےبیٹی کے لیے گھر خوب تلاش کیا۔ ارشاد علی کے خاندان سے وہ اچھی طرح واقف تھے جو ضلع بستی کے مشہور خاندانوں میں سے تھا۔ وہ اس خاندان کو اپنےخاندان کا پہلا شخص تھا جس نے کیننگ کالج لکھنؤ سے ایم، ایس، سی کیا ورنہ برادری میں اب تک کوئی مڈل سے آگے نہیں بڑھا تھا۔ لیکن قدیم نصاب تعلیم کی رو سے ان کے گھر کا ہر شخص عالم فاضل کہے جانے کا مستحق تھا۔ عورتوں میں بھی کوئی ایسی نہ تھی جو اچھی طرح پڑھی لکھی نہ ہو۔

    ارشاد علی اور ان کے کنبہ اور برادری والے برے دولت مند لوگوں میں تھے۔ ان کے مورث اعلیٰ کو شاہ جہاں کے وقت میں بیس موضعے معافی ملے تھے اس کے بعد اس میں برابر اضافے ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ آج خاندان کے ہر فرد کے پاس فراغت اور آسائش کے سامان مہیا تھے۔ ان میں سے سب سے زیادہ جائداد اور دولت ارشاد علی کی ایک دورکی رشتہ کی بہن کے پاس تھی جس کا اصل نام تو غیرمعروف رہ گیا لیکن جو اپنوں میں ’’نور النہار‘‘ کے نام سے پکاری جاتی تھی اور غیروں میں ’’شہزادی‘‘ ۔ یہ دونوں نام اس کے باپ نے اس کو دئے۔

    ’’نورالنہار‘‘ کی عمر مشکل سے تیس برس کی تھی مگر اسی عمر میں تلے اوپر ساتوں آسمان اس پر ٹوٹ پڑے تھے۔ باپ نے بڑے ارمان کے ساتھ اس کو اپنے ایک رشتہ دار کے لڑکے کے ساتھ بیاہا تھا۔ شادی کے کوئی چھ ہی مہینے بعد شوہر میں سل کے آثار نمودار ہوئے اور نورالنہار کا سہاگ مشکل سے ڈیرھ سال قائم رہا۔ تقریباً سال بھر بیمار رہ کر شوہر مر گیا اور نورالنہار گھونگٹ الٹنے سے پہلے ہی بیوہ ہو گئی۔ ماں باپ کا خیال تھا کہ سال آدھ سال بعد بیٹی کی پھر شادی کر دیں گے لیکن اسی درمیان میں گاؤں میں طاعون پھیلا اور باپ کو اس کی بھینٹ چڑھنا پڑا۔ اس کے دو سال بعد ماں فالج کے عارضہ میں مبتلا ہوئی اور جانبر نہ ہو سکی۔ باپ کے مرتے ہی نورالنہار نے عہد کرلیا کہ دوسری شادی نہیں کرےگی۔ پھر عزیزوں اور خیرخواہوں نے کتنا زور لگایا مگر وہ اپنے عہد پر قائم رہی۔ چنانچہ آج وہ تقریباً پندہ برس سے بیوگی میں گزار رہی تھی اور صرف اپنی بوڑھی خالہ کے ساتھ نور محل میں رہتی تھی جس کو اس کے باپ نے خاص اسی کے لیے تعمیر کرایا تھا اور جو اس کو جہیز میں دیا گیا تھا۔

    ’’نورالنہار‘‘ سوا ارشاد کے اور کسی سے زیادہ ملتی ملاتی نہ تھی اور نہ وہ ان ہنگاموں میں شریک ہوتی تھی جو طرح طرح کی تقریبوں کے نام سے آئے دن دوسرے گھروں میں ہوا کرتے تھے۔ ارشاد سے اس کو بچپن سے انس تھا۔ دونوں ساتھ کے کھیلے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کے مزاج شناس تھے۔ نورالنہار عمر میں ارشاد سے تین سال بڑی تھی لیکن وہ ایک دوسرے کے ساتھ جس طرح کھل کر ملتے تھے اور جس طرح ایک دوسرے کو مخاطب کرتے تھے اس سے کہیں سے یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ دونوں کی عمر میں کوئی فرق ہے۔ ارشاد اور نورالنہار کا یہ باہمی انس کسی سے پوشیدہ نہ تھا اور بعض کا تو یہ خیال ہے کہ اگر نورالنہارارشاد سے عمر میں اس قدر بڑی نہ ہوتی تو وہ ارشاد ہی کے ساتھ بیاہی جاتی۔ بہرحال اب جب کہ نورالنہارکی شادی ارشاد سے نہیں ہوئی دونوں اپےو دیرینہ انس کو بڑے سلیقہ کے ساتھ نباہ رہے تھے کسی نے کبھی اس کو قابل اعتراض نہیں سمجھا۔

    جس زمانہ میں ارشاد لکھنؤ میں پڑھنے گیا عبدالرؤف وہیں مامور تھے۔ اس طرح ان کو ارشاد کے مزاج و طبیعت کا مطالعہ کرنے کا اور بھی موقع مل گیا۔ جتنا ہی زیادہ وہ ارشاد سے واقف ہوتے گئے اتنا ہی زیادہ وہ اس سے گرویدہ بھی ہوتے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جس سال ارشاد نے ایم- ایس- سی. کے پہلے سال میں قدم رکھا اسی سال عبدالرؤف نے تمام مراحل طے کرکے مریم کی شادی اس کے ساتھ کر دی۔ اس کا البتہ عبدالرؤف اور ارشاد کے باپ دونوں نے خیال رکھا کہ جب تک ارشاد ایم- ایس- سی پاس نہ کر لےاس وقت تک مریم رخصت نہ کی جائے۔

    ارشاد نے ایم- ایس- سی۔ دھوم کے ساتھ پاس کیا۔ ایک طرف باپ کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں دوسری طرف عبدالرؤف جامہ میں پھولے نہ سماتے تھے۔ دونوں کی خواہش تھی کہ ارشاد کو کوئی بڑا عہدہ دلوادیا جائے۔ لیکن ارشاد نے یہ کہہ کر سارا قصہ ہی ختم کر دیا، ’’میں نے جو کچھ حاصل کیا ہے اپنے اطمینانِ قلب کے لیے حاصل کیا ہے، دوسروں کی غلامی کے لیے نہیں۔ مجھے دال روٹی جو کچھ میسر ہو سکےگا اپنے گھر پر آزادی کے سانس لے کر کھاؤں گا۔‘‘

    عبدالرؤف داماد کے اس خیال سے دل ہی دل میں خوش ہوئے۔ لیکن باپ کو بیٹے کی طرف سے کچھ مایوسی ہوئی۔ اگرچہ اس نے اپنے چہرہ سے کچھ ظاہر نہیں کیا۔ اس خیال سے کہیں ارشاد کو ملال نہ ہو۔

    اب ارشاد نے گھر بیٹھ کر آزادی و فراغت کے ساتھ اپنی جائداد کی دیکھ بھال شروع کی اور مختلف نئے کاروبار بھی شروع کردیے جن میں روزبروز اس کو فروغ ہونے لگا۔ عوام کا خیال تھا کہ ارشاد مٹی کو بھی چھودے تو سونا ہو جائے۔

    مریم رخصت ہوکر سسرال آئی اور منتظر آنکھوں نے دیکھ لیا کہ گھر میں ایک جیتی جاگتی لچھمی اتر آئی ہے۔ ارشاد کا اپنے دوستوں سے بیان ہے کہ جب پہلے پہل اس نے مریم کی صورت دیکھی تو اس کو یونان کی سانکی یاد آ گئی اور بے ساختہ اس سے یہ مصرعہ موزوں ہو گیا،

    ’’یہ حقیقت ہے کوئی یا عالم تصویر ہے‘‘

    اور پھر اس کے بعد اس نے بہت چاہا کہ دوسرا مصرعہ بھی موزوں کرے لیکن ناکامیاب رہا۔ ارشاد کے گھر والوں کو بہت جلد معلوم ہو گیا کہ ان کی بہونہ صرف پری تمثال ہے بلکہ عادات و خصائل میں فرشتوں کی طرح معصوم بھی ہے۔ اس کےبھولے پن، اس کے خلوص و ایثار، اس کی میٹھی زبان اور اس کی معصوم سنجیدگی کا تھوڑے دنوں میں ہرشخص گرویدہ ہو گیا۔ اس سے سب سے زیادہ اطمینان ارشاد کو تھا۔ وہ یہ دیکھ کر اپنی قسمت پر ناز کرنے لگتا تھا کہ اس کے ماں باپ بھائی بہن سب یکساں مریم کے دلدادہ ہیں اور مریم نے ان کو نہ صرف راضی رکھا ہے بلکہ ان کو ہر طرح موہ لیا ہے۔ اس کو اس خیال سے بڑی خوشی تھی کہ اس کے گھر میں کبھی وہ بے کیفی نہیں پیدا ہوگی جو اکثر نااہل کے بعد رونما ہوتی رہتی ہے۔

    مریم حسن و عشق کے تصور سے ناآشنا نہیں تھی۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ اس کونہایت بلند حوصلگی کے ساتھ وسیع پیمانہ پر تعلیم دلائی گئی تھی اور اس کو خود بھی کتب بینی کا ذوق تھا۔ جس موضوع پر کتاب مل جاتی اس کو بغیر ختم کیے ہوئے اس کی طبیعت نہیں مانتی تھی اور قصص و اساطیر اور دواویں میں تو شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو جو اس کی نظر سے نہ گزری ہو۔ اور جس سے اس کے ذہن میں کچھ نقوش باقی نہ رہ گئے ہوں پھر وہ حسن و عشق کے مفہوم سے بے خبر کیسے رہ سکتی تھی۔ خاص کر جب کہ وہ خود نہایت نکتہ سنج تخیل اور دور رس فکر کی مالک تھی۔ لیکن اس کو ان باتوں کا کوئی ذاتی تجربہ نہیں تھا۔ خود اس نے جس کی صورت کو سب سے پہلے حسین و جمیل جانا وہ ارشاد تھا اور خود اس کے دل میں جس کے عشق نے ذوق اور ولولہ پیدا کیا وہ اس کا اپنا شوہر تھا۔

    مریم نے سسرال میں آکر آنکھیں کھولیں تو اپنے کو ارشاد کا مبتلا پایا۔ اور اس کے دل نے یہ سمجھا کہ حسن و عشق کی دنیا بڑے اطمینان اور آسودگی کی دنیا ہے۔ وہ صبح سے شام تک ارشاد کے ساتھ رہتی تھی اور اس کی صحبت کی لطافتوں سے کیف اندوز ہوتی رہتی مگر اس کو سیری نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ جب ارشاد روزانہ شام کو تین چار گھنٹہ کے لیے غائب رہتا تو مریم اس کے انتظار میں گھڑیاں گنتی رہتی۔ کبھی کبھی وہ ارشاد سے اس بات کا دبی زبان سے اظہار بھی کر دیتی تھی کہ جب وہ باہر نکل جاتا ہے تو وہ گھبرایا کرتی ہے۔ ارشاد بڑے پیار کے ساتھ جواب دے دیا کرتا تھا کہ چوبیس گھنٹے میں دو چار ہی گھنٹے کے لیے تو وہ اس کو چھوڑ کر جاتا ہے۔ مریم پھر خودشرمندہ ہوکر چپ ہو جاتی۔ اس لیے ارشاد کی بات اس کو نہایت معقول معلوم ہوتی تھی۔

    ارشاد روزانہ اپنی شام کی سیر کی مختصر روداد مریم سے بیان کردیتا تھا اور اس میں نورالنہار کا ذکر ضرور آتا۔ ارشاد ادھر ادھر گھومتا پھرتا ہوا ایک مرتبہ نورالنہار کے پاس بھی ہو آتا تھا مریم کے دل میں اب تک کوئی خلش پیدا نہیں ہوئی تھی، اگرچہ اس کو حیرت ضرور تھی کہ اس کو سسرال آئے ہوئے تقریباً سال بھر ہو گیا تھا اور اب تک اس نے نورالنہار کو نہیں دیکھا تھا۔ حالانکہ آنے کے دو ہی چاردن بعد سے وہ اس کا نام ہر شخص کی زبان سے سن رہی تھی۔ نورالنہار کو دیکھنے کا شوق اس کو بہت تھا۔ نورالنہار اس کی سسرال کی رشتہ دار تھی اور ارشاد کے ساتھ ایسے مخلصانہ مراسم رکھتی تھی پھر کیا وجہ کہ مریم نے سب کو دیکھا اور سب سے ملی لیکن نورالنہار اس کے لیے ایک خیالی ہستی رہی۔ اس کو کبھی کبھی تو یہ شبہ ہونے لگتا تھا کہ واقعی نورالنہار ہے بھی کوئی یا محض الف لیلیٰ کا ایک قصہ ہے۔ اس نے کئی دفعہ ارشاد سے کہا کہ وہ نورالنہار سے ملنے کی مشتاق ہے۔ مگر ارشاد بھی روز ’’اچھا۔ اچھا‘‘ کہہ کر ٹالتا رہا۔ مریم کو معلوم تھا کہ نورالنہار کہیں آتی جاتی نہیں۔ اس نے سمجھا کہ ممکن ہے وہ اس سے بھی نہ ملنا چاہتی ہو، اور اس کا شوہر اسی لیے ٹال رہا ہو۔ لیکن اس کے دل میں شوہر کی طرف سے کوئی بدگمانی نہیں تھی۔ وہ ارشاد اور نورالنہار کے مراسم کو دیرینہ ہمدمی کی یادگار سمجھے ہوئے تھی۔ جو ایک طرح کی وضعداری ہوکر رہ گئی تھی۔ اور مریم اس کو کوئی بازپرس کے قابل بات نہیں سمجھتی تھی۔

    لیکن ایک روز شام کو اس کو ایک تحریر ملی جس کا سواد خط نامانوس تھا اور جس کو پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اور جب اس کو ہوش آیا تو اس کاجی سنناو رہا تھا۔ خط یہ تھا،

    ’’معصوم مریم! میری اس جسارت اور اس بے تکلفی کو معاف کرنا۔ میں تمہارا رشتہ دار ہوں اور رشتہ اور عمر دونوں لحاظ سے تم سے بڑا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ تم لوگوں کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگےگی کہ میں کون ہوں اور میں جو اپنا نام چھپا رہا ہوں تو وہ صرف ایک رسمی سی بات ہے ورنہ میں گم نام رہنا چاہتا اور نہ میں اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو سکتا ارشاد بے تامل بتا دیں گے کہ میں کون ہوں۔ اس تحریر کے دو مقصد ہیں۔ ایک تو میں تمہاری آنکھوں سے پردے ہٹانا چاہتا ہوں۔ تم بھولی بھائی ننھی نادان لڑکی ہو اور کسی کو برا سمجھنے اور کسی بات میں برا پہلو دیکھنے کی قابلیت تم میں نہیں ہے۔ یہ ادا بجائے خود کتنی ہی دلکش کیوں نہ ہو لیکن دنیا کی زندگی میں اس سے طرح طرح کے نقصانات واقع ہوتے ہیں۔ مجھے اس کا افسوس ہے کہ میں تم کو ان خرابیوں سے واقف کر رہا ہوں جن سے اگر انسان بےخبر رہتا تو شاید اپنی فردوس کبھی نہ کھوتا۔ لیکن کیا کیا جائے تم کو ان میں ماہر ہونا ہے۔ دوسرے مجھ کو ارشاد کو سزا دینا ہے۔ ارشاد کی روش کو میں نہ صرف معیوب سمجھتا ہوں بلکہ میری خیال میں وہ سراسر مصلحت کوشی اور مطلب پرستی پر مبنی ہے۔ تم شاید کچھ کچھ میرا مطلب سمےھش لگی ہو۔ یہ بات تو شاید تم سے بھی پوشیدہ ہو کہ نورالنہار سے ان کو بچپن سے تعلق خاطر ہے اور یہ تعلقِ خاطر یقیناً وہی ہے جس کو عوام کی اصطلاح میں عشق کہتے ہیں۔ اگر کسی نے تم کو کچھ اور سمجھا رکھا ہے تو وہ تم کو صریح دھوکا دے رہا ہے۔ نورالنہار کا سودا ارشاد کے سر میں اتنا نہیں ہے جتنا کہ ارشاد کا سودا نورالنہار کے سر میں ہے۔ اگرچہ اپنےحرکات و سکنات سے ارشاد ہمیشہ یہی ظاہر کرتے رہے کہ وہ نورالنہار کو حاصل دوجہاں سمجھتے ہیں۔ ارشاد جیسا پکا دنیادار اس خلوص و انہماک کی اہلیت نہیں رکھ سکتا ورنہ آج ارشاد ٹھنڈے کلہج سے یہ گوارا نہ کرلیتے کہ نورالنہار کو دوسرا شخص بیاہ کر لے جائے۔ مصلحتوں نےاس وقت بھی ان کو دبایا، کہ نورالنہار سے دست بردار ہو جائیں اور اب بھی جب کہ نورالنہار پھر ان کی ہو سکتی تھی وہ دور تک سوچ سمجھ کر ہی چپ ہیں اور نورالنہار کو اس کی اندوہناکیوں میں مبتلا چھوڑے ہوئے ہیں۔ جس وقت نورالنہار بیوہ ہوئی ہے اس وقت ایک مرتبہ پھر ارشاد نے اس کی کوشش کی تھی کہ ان کی شادی اس سے کر دی جائے لیکن ان کی چلنے نہ پائی۔ ایک تو ماں باپ یونہی اس کو کب گوارا کر سکتے تھے کہ ان کے منتوں کے پالے ہوئے بیٹے کی شادی ایک بیوہ سے ہو۔ دوسرے نورالنہار کو لوگ منحوس سمجھنے لگے ہیں۔ عورتوں میں تو اکثر اس کو ڈائن کہتی ہیں جس نے شوہر، باپ، ماں سب کو ایک ایک کرکے کھا لیا۔ مختصر یہ کہ ارشاد کے ماں باپ اور کنبہ والوں نے اس شادی کی اجازت نہیں دی اور پھر ارشاد نے کوئی قابل قدر کوشش بھی اس معاملہ میں نہیں کی۔اسی غم میں نورالنہار نے یہ عہد کرلیا کہ وہ شادی نہیں کرےگی۔ وہ بچاری ارشاد پر بری طرح مٹی ہوئی ہے لیکن ارشاد کی جو بات مجھے سب سے زیادہ ناگوار ہے وہ یہ کہ جب ان کے اندر عشق کا یارا نہیں ہے تو وہ یہ دورنگی زندگی کیوں اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو وہ مریم جیسی پری بیاہ لائے اور اپنا گھر بسا لیا۔ دوسری طرف وہ نورالنہار کو بھی ہاتھ سے جانےدینا نہیں چاہتے، بلکہ میں یہ کہوں گا درپردہ وہ اس کو بہکا رہے ہیں کہ وہ دوسری شادی نہ کرے اگرچہ مجھے یقین ہے کہ ارشاد جیسا ہوشمند آدمی کبھی اپنی زبان سے یہ کہتا نہ ہوگا۔ وہ روز شام کو تین چار گھنٹے نورالنہار کی صحبت میں صرف کرتے ہیں اور شاذونادر ہی کسی اور سے ملنے جاتے ہیں۔ میری اس تحریر کی طرح طرح سے تاویلیں کرکے لوگ مجھ کو جھٹلانے کی کوشش کریں گے، مگر میں اس سے زیادہ کہنا نہیں چاہتا تھا جو کہہ چکا۔‘‘

    ’’بررسولاں بلاغ باشدوبس‘‘

    تمہارا ایک خیراندیش

    مریم کے اوپر سے جب سکتہ کی کیفیت دور ہوئی تو اس کے ہیجان کا عجیب عالم تھا۔ وہ اس خط کو سرتا سر افترا سمجھنا چاہتی تھی۔ لیکن خط کے لب و لہجہ کی بیباکی اور بےتکلیف راست بازاری اور صداقت کی دلیل معلوم ہوتی تھی۔ اور جب وہ خیال کرتی کہ اس کا شوہر جس کو وہ مجسم خلوص و محبت تصور کرنے کی خوگر تھی ایسے فریب و دغا کی بھی قابلیت رکھتا ہے تو مارے رنج و غصہ کے اس کا بدن کانپنے لگا تھا۔ وہ ان عورتوں میں سے تھی جن کے غصہ کو بھڑکانا آسان نہیں۔ لیکن جب ایک بار بھڑکا دیاجائے تو پھر وہ اپنے رنج یا غصہ کو چھپا نہیں سکتیں خاص کر جب کہ ان کو اپنی فوقیت کا بھی احساس ہو۔

    وہ اسی انتشار و اضطراب کے عالم میں اپنے کمرہ میں ٹہل رہی تھی کہ ارشاد حسب معمول اپنے چہرہ پر وہی شگفتگی لیے ہوئے داخل ہوا وہ مریم کو مخاطب کرنا چاہتا تھا کہ یکایک اسے محسوس ہوا کہ مریم کا چہرہ خلاف عادت دھندلا ہے۔اس کی تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں، آنکھوں سے ترشی کا اظہار ہو رہا تھا، ہونٹ اندر کو دبے ہوئے تھے جیسے کسی تلخ سے تلخ چیز کو گوارا کر رہی ہو۔ ارشاد کو کمرہ میں آئے ہوئے پانچ منٹ سے زیادہ ہو گئے اور مریم اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئی۔ آخرکار ارشاد نےحیرت کے ساتھ پوچھا، ’’کیوں آج تم کچھ دلگیر نظر آ رہی ہو، کیا گھر میں کسی سے کوئی بدمزگی ہو گئی ہے۔‘‘

    مریم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ اس خط کو اس کے سامنے پھینک کر حقارت کے ساتھ اس کی صورت دیکھنے لگی۔

    ارشاد نے خط کو شروع سے آخر تک پڑھا اور اپنے بشرہ سے بغیر کسی قسم کی سرآیگی اور خجالت کا اظہار کیے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کر مریم کے پاس آیا اور نہایت متانت اور سنجیدگی کے ساتھ کہا، ’’دیکھو میں تم سے اپنی صفائی میں کچھ نہ کہتا اگر مجھے تمہارے رنج اور ملال کا خیال نہ ہوتا۔ اگر تم ایسی ایسی باتوں سے اس آسانی کے ساتھ اثر قبول کرتی رہوگی تو تمہارے لیے روز ایسے اسباب پیدا کیے جائیں گے۔ اور تمہاری زندگی اور اسی کے ساتھ میری زندگی مفت میں جی کا جنجال ہوکر رہ جائےگی۔ ابھی تو پہلا دن ہے۔ تم نے یہ تو سنا ہی ہوگا،

    کورنجتاں بہ آرزو خواہند

    مقبلاں راز وال نعمت جاہ

    اور یہ کوئی تعلی نہیں ہے کہ آج اس جوار میں ’’نعمت وجاہ میں میرا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ زرومال کے علاوہ علم کی جو دولت مجھے حاصل ہے اس سے دور دور تک میری توقیر و تعظیم ہو رہی ہے۔ اس پر تم جیسی شریک زندگی مجھ کو ملی۔ پھر کیا وجہ کہ دشمن ہم سے جلنے نہ لگیں۔‘‘

    ’’لیکن جب تک کوئی اصلیت نہ ہو کوئی شخص محض عداوت میں اس بیباکی کے ساتھ کسی پر اتنا بڑا بہتان نہیں لگا سکتا۔‘‘ مریم نے بات کاٹ کر کہا اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔‘‘

    ’’تم کو ابھی معلوم نہیں ہے کہ دنیا میں کیسے کیسے لوگ ہیں۔‘‘ ارشاد نے فوراً جواب دیا، ’’یہ شخص میرے ایک دور کے چچا کا لڑکا ہے۔ اس کا نام سعید ہے اور اس کو خواہ مخواہ یہ بدگمانی ہے کہ میں نورالنہار کو بہکائے ہوئے ہوں ورنہ وہ اس سے شادی کر لیتی۔ وہ نورالنہار پر برسوں سے فریفتہ ہے۔ لیکن اب تک نہ تو نورالنہار نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور نہ کبھی اس کے والدین اس کو خاطر میں لائے اور یوں بھی سعید مجھ سے ہمیشہ جلتا رہا۔ اس لیے کہ نہ تو وہ دولت میں کبھی میرا مقابلہ کر سکا نہ علم و فضل میں، رہ گیا اصلیت کا سوال سو اس قدر اصلیت سے تو تم بھی واقف ہو کہ نورالنہار مجھ سے ہمیشہ مانوس رہی اور مجھ کو مانتی رہی۔ تم کو معلوم ہے کہ میں روز اس کے پاس ایک بار ضرور جاتا ہوں، اس لیے کہ بیچاری کی تنہائی و مجبوری کی کوئی حد نہیں، میں تھوڑی دیر اس کا غم غلط کر دیتا ہوں۔

    یہ بات غلط ہے کہ میری شادی اب اس کے ساتھ اس لیے نہیں ہوئی کہ وہ منحوس جاتی ہے۔ وہ خود اپنے کو منحوس سمجھنے لگی ہے اور شادی نہ کرنے کا عہد کیے ہوئے ہے جس کو کوئی توڑ نہیں سکتا۔ میں نے تم سے سارا واقعہ بیان کر دیا، اب تمہارا جو جی چاہے سمجھو۔ میں اب یہ سوچتا ہوں کہ تم کو نورالنہار سے ملادوں اور تم خود اندازہ کر لو کہ وہ کس قسم کی مخلوق ہے، وہ بارہا تم سے ملنے کااشتیاق ظاہر کر چکی ہے۔ لیکن میں اس کو ٹالتا رہا اس لیے کہ ممکن ہے میرے گھروالے اس کو گوارا نہ کریں۔ نورالنہار سے میرا ہی ملنا لوگوں کو گراں گزر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نورالنہار خود کسی سے نہیں ملتی۔ اس کو لوگ مغرور سمجھتے ہیں اور اس کے ہاں بہت کم آمد و رفت رکھتے ہیں۔ مگر میرا تجربہ کہتا ہے کہ غرور کا اس کے اندر کوسوں پتہ نہیں ہے وہ مجھ سے بارہا کہہ چکی ہے کہ اس کے اور دنیا کے دوسرے لوگوں کے درمیان مشترک بات ہی کون سی ہے جس کی بنا پر وہ کسی سے مراسم رکھے۔ مجھ سے غالباً وہ صرف بچپن کی وضع نباہ رہی ہے اور میں بھی بدوضعی کرنا نہیں چاہتا۔ میں کل اس کو اطلاع دے دوں پھر پرسوں تم کو اس سے ملانے لے چلوں گا۔ وہ یہاں سے مشکل سے دس قدم کے فاصلہ پر ہے۔‘‘

    مریم دیر تک بے حس و حرکت شوہر کا منھ دیکھتی رہی مگر شوہر کے تیور اپنی جگہ اسی طرح درست رہے۔ اس کو خوب معلوم تھا کہ کس موقع کو کس طرح نباہا جائے، کم سے کم اس اعتبار سے تو وہ دنیادار تھا ہی۔ مریم جانتی تھی کہ وہ اپنے شوہر پر جاسوس نہیں بٹھا سکتی۔ پھر ان سب باتوں کی تصدیق یا تردید کیونکر ہو۔ اس لیے اس نے اسی کو غنیمت سمجھا کہ نورالنہار کے گھر آنا جانا شروع کر دے۔ اس طرح اس کو نہ صرف مزید تحقیق و تفتیش کا موقع ملےگا بلکہ آئندہ خرابیوں کا بھی سدباب ہو جائےگا۔ اس نے فوراً اپنےتیور بھی درست کر لیے اور ارشاد سے اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگی، ’’دنیا میں بھی کیسے کیسے لوگ ہیں۔ آخر سعید کو اس سے کیا ملے گا۔ کچھ یہ تو نہیں کہ ہم لوگوں کی زندگی تلخ کرکے اس کی زندگی کچھ بہتر ہو جائےگی۔ مگر خیر! برا چاہنے والے کا خدا برا کرےگا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے کو ارشاد کی کھلی ہوئی آغوش میں دے دیا ارشاد نے کہا، ’’تو تم نورالنہار سے ملنے کے لیے تیار ہو؟‘‘ مریم نےجواب دیا، ’’ہاں ضرور ملا دیجیے، اس طرح میں بھی کبھی کبھی ان سے مل کر جی بہلا لیا کروں گی اور کچھ ان کا وقت بھی مزے سے کٹ جایا کرےگا۔‘‘

    دو گھنٹہ کی صحبت میں مریم نورالنہار کی گرویدہ ہوکر رہ گئی۔ ساری بدگمانیاں بات کی بات میں جاتی رہیں۔ مریم کے حلق کے نیچے کسی طرح یہ بات نہیں اتر سکتی تھی کہ ایسی ہوشمند اور خلیق عورت کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی اس کو روا رکھےگی کہ دوسرے کے شوہر پر ڈورے ڈالے اور اس کو اپنے فرائض کی طرف سے بیگانہ کرکے اپنا بنالے۔ نورالنہار کی صورت اور اس کے انداز بات سے تو یہ پایا تھا کہ یہ عورت کبھی بھی دوسرے کا برا نہ چاہے گی۔ اور جب کبھی ایسی آزمائش کا موقع آئے گا تو وہ ہمیشہ ایثار کو راہ دےگی اور اپنی بڑی سے بڑی خواہش اور بڑی سے بڑی امید کو بے تامل قربان کر دےگی۔ یہی خصوصیت تھی جس نے اس کو ہزارو ں سے فائق بنا رکھا تھا اور اسی کی وجہ سے وہ دوسروں سے بالکل مختلف مخلوق معلوم ہوتی تھی۔ اسی بے نفسی اور خودگزاشتگی نے اس کو دنیا سے اجنبی بنا رکھا تھا۔ خود نورالنہار کو اپنی فوقیت کا احساس تھا اور اس احساس کو لوگ گھمنڈ سے تعبیر کرتے تھے۔

    مریم نے ایک نظر میں دیکھ لیا کہ نورالنہار ایک مٹی ہوئی ہستی کا نام ہے اور اب اس کی سمجھ میں آ گیا کہ اگر نور النہار اپنے کو اس قابل نہیں پائی کہ دنیا میں کسی سے ملے جلے یا دنیا میں اس کی اہلیت نہیں دیکھتی کہ اس کے ساتھ ہمدردی اور موانست برت سکے تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ جہاں تک صورت شکل اور رنگ روپ کا سوال ہے، مریم جس کو اپنی شکل و صورت پر ناز تھا نورالنہار کو دیکھ کر دل ہی دل میں اپنی صورت سے شرمانے لگی۔ نورالنہار ایک ایسی تصویر معلوم ہوتی تھی جس کے مصور نے اس کو اتارنے کے بعد خود اپنے کو اس کا مبتلا پایا ہو اور پھر اس ڈر سے کہ کہیں اس کا ثانی بھی نہ پیدا ہو جائے اپنے فن کو ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا ہو۔

    نورالنہار کو دیکھنے کے بعد مریم کی سمجھ میں آ گیا کہ شاعروں نے معشوق کو ’’بت‘‘ کے نام سے کیوں یاد کیا ہے۔ لیکن مریم کو یہ دیکھ کر عبرت ہوئی کہ نورالنہار کو نہ تو اپنی صورت کا احساس ہے اور نہ اس کی پروا، نورالنہار عرصہ سے بیمار رہتی تھی اور اپنی صحت کی اس کو کوئی پروا نہ تھی۔ اس پر بھی اس کا یہ عالم تھا کہ دیکھنے والے کو مبہوت اور برخود غلط بناکر رکھ دیتی تھی۔ وہ اس پھول کے مانند تھی جو کھل چکنے کے بعد بلا فکر و سعی کے شگفتہ رہتا ہے اور جو حوادث روزگار کے سخت سے سخت جھونکوں کے سامنے بھی مرجھانے کا نام نہیں لیتا۔

    مریم کو نورالنہار سے بے تکلف ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ نورالنہار نے پہلے ہی دن اس کو کچھ اس طرح سر آنکھوں پر بٹھایا کہ مریم اس کے نام کی تسبیح پڑھنے لگی اور اب وہ جتنا وقت ارشاد سے بچا سکتی تھی وہ نورالنہار کی صحبت میں صرف کرتی تھی۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ارشاد بستی چلا جاتا تھا اور مریم فوراً بہلی تیار کراکے نورالنہار کے وہاں پہنچ جاتی تھی اور شام کے وقت تو وہ بلاناغہ تین چار گھنٹہ نور محل میں گزارتی تھی۔ سسرال والے اس کے اس معمول پر چیں بجبیں تھے لیکن چونکہ ارشاد کو مریم کی یہ روش پسند تھی اس لیے اس کو بھی سسرال والوں کی اس معاملہ میں پروا نہیں تھی۔ نورالنہار نے مریم کے ساتھ جو وضع پہلے روز اختیار کی اس کو اسی طرح آخر تک نباہا۔

    مریم اور نورالنہار ایک دوسرے کی صحبت سے کبھی اکتاتی نہ تھیں، باتیں کرتے کرتے جب گھبراجاتی تھیں تو وہ قصہ کہانی کی کتابیں اٹھالے تیں اور پھر گھنٹوں قصہ خوانی میں اس طرح گزر جاتے کہ کسی کو وقت کا احساس بھی نہ ہوتا۔ زیادہ تر ’’آرائش محفل‘‘ ، ’’باغ و بہار‘‘ ، ’’الف لیلہ‘‘ ، ’’قصہ ممتاز‘‘ ، ’’بدرمنیر‘‘ ، ’’گلزار نسیم‘‘ کے ورد ہوا کرتے تھے۔

    ایک دفعہ دو دن کے لیے ارشاد لکھنؤ گیا اور جب واپس ہوا تو اس نے جہاں مریم کو اور تحفے دیے وہاں ایک قلمی مثنوی بھی دی جس کو اس نے گدڑی بازار میں خریدا تھا۔ اور جس کے شروع کے اوراق غائب تھے۔ یہ اوراق غالباً حمد ونعت کے تھے اس لیے کہ اصل قصہ میں مریم کو کوئی کمی نظر نہیں آئی۔

    شام کے وقت عموماً مریم اور نورالنہار کی صحبت میں ارشاد بھی ہوتا تھا۔ آج بھی شام کو وہ مریم کے ساتھ ’’نورمحل‘‘ میں آیا لیکن چونکہ اس کو کوئی ضروری کام تھا اس لیے کوئی آدھ گھنٹہ رہ کر چلا گیا۔ اس کے چلے جانے کے تھوری دیر بعد مریم نے نورالنہار کو یہ نئی مثنوی سنانا شروع کی۔ نورالنہار اگرچہ تعلیم و تربیت میں مریم کے مقابل کی نہ تھی تاہم پڑھی لکھی تھی اور نکتہ رس ذہن رکھتی تھی، جب مریم اس شعر پر پہنچی،

    نہ یہ مے نہ یہ باغ رہ جائےگا

    نہ ملنے کا اک داغ رہ جائےگا

    تو نورالنہار تڑپ گئی اور اس کو بار بار پڑھوایا۔ قصہ ختم ہونے کے بعد مریم نے کہا، ’’مجھے نہ جانے کیوں آج اس مثنوی پر رہ رہ کر یہ شعر یاد آ رہا ہے،

    فر اک میں باندھ خواہ مت باندھ

    اب تیرے شکار ہو گئے ہم

    تو نورالنہار کو اس شعر کے سمجھنے میں کچھ دیر لگی اور جب مریم نےاس کو اچھی طرح سمجھایا تو وہ کچھ دیر تو خاموش رہی۔ اس کے بعد ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہنے لگی، ’’مریم! کل ذرا دن رہتے آؤ تواب میں تم سے ایک قصہ بیان کروں جس کو میں نے بچپن میں سنا تھا اور جو محض الف لیلہ یا باغ و بہار کی داستان نہیں ہے بلکہ اسی جوار سے متعلق کسی زمانہ کا سچا واقعہ ہے۔‘‘

    دوسرے دن مریم دوپہر ہوتے ہوتے نورمحل پہنچ گئی۔ ارشاد نے چاہا کہ ابھی وہ نہ جائے اور سہ پہر تک انتظار کرے۔ مگر مریم نے کہا، ’’آج ایک دن آپ گھر میں اکیلے ہی رہیے۔ میں نے نورالنہار سے وعدہ کیا ہے کہ آج قریب قریب دن بھر اس کے ساتھ رہوں گی۔‘‘

    یوں تو نورالنہار ہمیشہ سوگوار اور گرفتہ خاطر رہتی تھی، لیکن آج اس کی صورت زیادہ حسرت ناک تھی۔ مریم اس قدر سویرے پہنچ گئی تھی، اس پر نورالنہار اس کو دعائیں دینے لگی۔ اس نے کہا، ’’اگر کوئی کسی کا اتنا خیال رکھ سکے تو اس فریب و دغا کی دنیا میں اس کو ایک فردوسی نعمت سمجھنا چاہیے۔ مریم! مجھے امید ہے کہ تم میرے ساتھ کبھی دغا نہیں کروگی۔‘‘ نورالنہار کے لہجہ میں ایک عجیب المناک سنجیدگی تھی۔ مریم پر اس کا اثر ہوا اور اس نے کہا، ’’آج تم کچھ معمول سے زیادہ غمگین ہو رہی ہو۔ یہ کیوں؟‘‘ نورالنہار نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، اس نے مریم کو ساتھ لیا اور اس آراستہ و پیراستہ کمرہ میں لے گئی جو پچھم کی جانب میں کھلتا تھا۔ ہر طرف سے ہوا کے ہلکے جھونکے آ رہے تھے اور جسم میں ایک سکون بخش ٹھنڈک پیدا کر رہے تھے۔ نورالنہار نے کہا، ’’آج ایک مدت کے بعد میں نے اس کمرہ کو اس طرح آراستہ کیا ہے۔ ہم لوگ یہیں بیٹھیں گے اور میں قدرت کی ان تمام شادابیوں اور رنگینیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں تم کو وہ قصہ سناؤں گی جس کا کل میں نے وعدہ کیا تھا۔‘‘

    نورالنہار نے تھوڑی دیر بعد قصہ یوں شروع کیا،

    ’’مریم! یہ قصہ ہمیشہ میرے دل میں چٹکیاں لیتا رہا ہے اس لیے کہ اس کے بہت سے ٹکڑے خود میری زندگی پر صادق آتے ہیں، تم کان لگاکر سنواور پھر فیصلہ کرو کہ یہ قصہ تمہارے اس شعر کی پوری تفسیر ہے یا نہیں۔ مجھے خود اس پر ایک شعر یاد آتا رہا ہے،

    پورا ہوا نہ اپنا زمانے سے کوئی کام

    نالاں ہوں میں اگر تو بلب نارسیدہ ہوں

    لوگوں کے نام مجھے یاد نہیں اور نہ ہمیں نام سے کوئی کام ہونا چاہیے۔ اصل چیز واقعات ہیں، کسی زمانہ میں یہاں کوئی زمیندار کا لڑکا تھا جس کو خدا نے ہر طرح کی نعمت دے رکھی تھی۔ صورت میں چندے آفتاب چندے ماہتاب، دولت و اقبال میں کوئی اس کا ہمسر نہ تھا۔ بڑے بڑے زمیندار اس گھر کا لوہا مانے ہوئے تھے۔ علم و فضیلت میں بھی دور دور کوئی اس کا ثانی نہ تھا، اس لڑکے کو کسی غریب لڑکی کے ساتھ عشق تھا۔ کم سے کم مشہور یہی تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لڑکی حسن و جمال میں آپ اپنی نظیر تھی، اس کو لوگ ’’اندر کے اکھاڑے کی پری‘‘ سمجھتے تھے، آؤ ہم لوگ اپنی سہولت کے لیے دونوں کے فرضی نام رکھ لیں۔ اگر تم کو بھی اتفاق ہو تو لڑکے کو شہزادہ احمد اور لڑکی کو پری بانو کے نام سے یاد کیا جائے۔ ابھی کچھ دن ہوئے تم نے شاہزادہ احمد پری بانو کا قصہ ’’الف لیلیٰ‘‘ سے پڑھ کر سنایا تھا۔ ’’الف لیلی‘‘ کے قصہ اور اس قصہ میں کوئی مشترک بات نہیں۔ لیکن میں نے صرف صورت و شکل کے اعتبار سے دونوں کے یہ نام تجویز کیے ہیں۔ پری بانو ایک الھڑ نادان لڑکی تھی جس کو اپنے حسن اور اس کی غارت گری کا کوئی احساس نہیں تھا۔ جس شخص نے اس کے اندر یہ احساس پیدا کیا وہ احمد تھا۔ پری بانو بچپن سے اس کی طرف مائل تھی، لیکن اگر احمد اس کو نہ چھیڑتا تو شاید اس کو یہ میلان محض ایک بے معنی اور بے نتیجہ میلان ہوکر رہ جاتا مگر احمد نے اس کو چھیڑا اور اس کے سوئے ہوئے جذبات کو جگا دیا۔ پری بانو اپنے کو احمد کے مقابلہ میں ایک فرد مایہ ہستی سمجھتی تھی اور کبھی اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی۔ جس چیز کا وہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتی تھی اس کو احمد نےایک واقعہ بناکر پیش کردیا، نتیجہ یہ ہوا کہ پری بانو ساری دنیا سے بیگانہ ہوکر احمد میں محو ہو گئی۔ اس میں اگر کہیں کوئی قصور نظر آتا ہے تو وہ احمد کا ہے نہ کہ پری بانو کا۔ پری بانو نے تو اپنے اور چاہنے والوں کی طرف سے بھی منھ موڑ لیا تھا اور اس کے چاہنے والوں کاحلقہ بہت وسیع تھا۔ ان میں سے ایک چاہنے والے کی زندگی تو عمر بھر کے لیے خراب ہو گئی۔ پری بانو کو اس کی پروا تک نہیں ہوئی۔ شاید اس کو اسی کی سزا ملی، نہ جانے وہ کون سے اسباب تھے جن کی بنا پر پری بانو کی شادی احمد کے ساتھ نہیں ہوسکی۔ پری بانو کو اس کا بڑا صدمہ ہوا۔ شاید وہ اس صدمہ کو برداشت کر لے جاتی۔ جس صدمہ کو وہ نہیں برداشت کر سکی وہ احمد کی بے حسی تھی جس کی پہلے کوئی علامت اس کے اندر نہیں پائی جاتی تھی۔ احمد پری بانو کو بھی یقین دلائے ہوئے تھا کہ وہ ساری دنیا کی زحمتوں اور دشواریوں کا مقابلہ کرکے اس کےساتھ شادی کرےگا۔ اور غالباً اس نےحتی الوسع مقابلہ کیا بھی۔ مگر جب اس نے دیکھا کہ پری بانو کو حاصل کرنے کے معنی یہ ہے کہ سب کچھ کھو دو، تو وہ پری بانو سے دست بردار ہو گیا۔

    اس کی سب سے بڑی ہٹ دھر می یہ تھی کہ اس نے کبھی اس کو تسلیم نہیں کیا کہ اس نے پری بانو کے ساتھ بدوضعی کی، پری بانو کا حال البتہ ہمیشہ تباہ رہا۔ احمد کا درد اس کے دل سے کبھی نہیں گیا۔ اس کے ماں باپ نے اس کی شادی دوسری جگہ کردی۔ مگر اس کا دل افسردہ ہو چکاتھا، اور اب اس کو کسی بات میں لذت نہیں ملتی تھی۔ اس کا شوہر تھوڑے ہی عرصہ بعد مر گیا۔ اس کے بعد پری بانو نے دوسری شادی نہیں کی۔ احمد اس سے برابر ملتا رہا اور اس کو برابر یہی یقین دلاتا رہا کہ وہ اس کو اب بھی چاہتا ہے۔ پری بانو اس کی خاطر سے مان بھی لیتی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ احمد میں محبت کی وہ صلاحیت نہیں تھی جس نے پری بانو کو مٹاکر رکھ دیا تھا۔ وہ اپنی دنیوی فلاح کو محبت کی راہ میں قربان نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن پری بانو اس راہ میں ثابت قدم رہی اور مرتے دم تک احمد کا دم بھرتی رہی۔ سنا جاتا ہے کہ اس غم میں آخرکار اس کا کام تمام ہو گیا۔ احمد کچھ دن ماتم کرکے پھر اپنے روزگار میں مصروف ہو گیا۔ مریم! اس قصہ میں سب سے زیادہ اہم بات پری بانو کی مجبوری ہے۔ اس سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ احمد سے کم سے کم بظاہر بےنیاز ہو جاتی۔ وہ احمد کے خیال کو کسی طرح محو نہ کر سکی، نہ جانے تم کو یہ قصہ دلچسپ معلوم ہو یا نہیں، مجھے تو اس کے اندر بہت کچھ سامانِ عبرت و بصیرت ملا۔‘‘

    نورالنہار نے قصہ ختم کیا تو مریم بڑی دیرتک دم بخود اس کی صورت دیکھتی رہی۔ لیکن نورالنہار کے چہرے سے کسی غیرمعمولی بات کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ سوا اس کے کہ وہ آج روز سے زیادہ سوگوار معلوم ہوتی تھی۔ مریم کو رہ رہ کر خیال پیدا ہوتا تھا کہ یہ نورالنہار نے اپنی سرگزشت بیان کی ہے۔ لیکن پھر اس کو یاد آتا تھا کہ آج سے تقریباً نو ماہ سے روز نورالنہار کے ساتھ وہ گھنٹوں بسر کرتی تھی۔ شام کے وقت ارشاد بھی برابر ساتھ ہوتا تھا، لیکن اب تک کوئی بات ایسی نہیں ہوئی تھی جس سے اِس کے اس گمان کو توثیق ہوتی کہ نورالنہار کو ارشاد کے ساتھ عشق ہے۔ جیسا کہ اکثر لوگوں کا خیا ل تھا۔ نور النہار ارشاد کو مانتی بہت تھی اور ذرا ذرا سی بات میں اس کا خیال رکھتی تھی، مگر اس میں کہیں سے کوئی ایسا پہلو نہیں نکلتا تھا جس کو مریم برا سمجھتی یا جس سے اس کو کوئی صدمہ پہنچتا۔ غرض یہ کہ مریم عجیب ادھیڑ بن میں تھی۔

    دیر تک مریم خاموش رہی۔ آخرکار نورالنہار نے پوچھا، ’’کیوں! چپ کیوں ہو؟ کہو قصہ کیسا ہے؟‘‘ مریم نے کہا، ’’بے انتہا دردناک ہے۔اگرچہ وہ مجبوریاں نہایت مضحکہ انگیز ہیں جنہوں نے پری بانو کی زندگی کو اس قدر المناک بنا دیا۔ مگر شاید یہ دو طبیعتوں کی مجبوریاں ہیں جو بعض اوقات زمانہ کی مجبوریوں کی طرح سنگین ثابت ہوتی ہیں۔‘‘

    مریم گھر آئی تو ساری رات اس قصہ پر غور کرتی رہی۔ اس کو قریب قریب یقین ہو چلا تھا کہ یہ دراصل نورالنہار کی رودادِ زندگی تھی۔ اس کو رہ رہ کر سعید کا خط یاد آ رہا تھا، اور پھر جب وہ احمد اور ارشاد کا مقابلہ کرتی تو اس کایہ خیال راسخ ہونے لگتا اور اس کو ارشاد سے نفرت ہونے لگتی۔ اس کی ساری ہمدردی نورالنہار کی طرف تھی۔ اگرچہ اس کو اس بات پر غصہ بھی تھا کہ جو شخص محبت کی صلاحیت سے اس قدر عاری ہو اور جو کسی طرح محبت کا مستحق نہ ہو اس کے پیچھے کوئی اپنا حال کیوں تباہ کرے۔ دوسرے دن مریم نے نورالنہار سے اپنے اس خیال کااظہار بھی کر دیا۔ اس نے کہا، ’’پری بانو یقیناً سڑی تھی کہ احمد جیسے بے حس کاٹھ کے پتلے پر اس طرح مرمٹی۔‘‘

    نورالنہار نے کہا، ’’نہیں یہ بات نہیں ہے، پری بانو اپنی طبیعت سے مجبور تھی اور احمد اپنی طبیعت سے۔ ورنہ شاید اپنی اپنی جگہ دونوں محبت میں سچے تھے۔‘‘ اس منطق سے مریم کو تسکین نہیں ہوئی اور اس کے دل میں خلش باقی رہی۔‘‘

    بارہا مریم نے ارادہ کیا کہ ارشاد سے صاف صاف گفتگو کرکے اپنے دل کی خلش مٹالے لیکن وہ نہ جانے کیوں اپنے کو اس کے لیے تیار نہیں پاتی تھی کہ ارشاد سے پھر جھوٹ مصلحت آمیز باتیں سن کر اپنے کو دوبارہ قریب میں مبتلا کرے۔ اس کو رفتہ رفتہ یقین ہو گیا کہ نورالنہار جس دکھ میں مٹ رہی ہے وہ ارشاد ہی کا دیا ہوا ہے اور اب وہ ارشاد کو محض ایک کندۂ ناتراش سمجھ رہی تھی۔ جو کسی قسم کے لطیف جذبات کی اہلیت نہیں رکھتا تھا۔ جب سوچتے سوچتے مریم کا سر چکرانے لگتا تھا تو وہ کبھی کبھی نورالنہار کو بھی الزام دینے لگتی تھی کہ اس نے ناحق اس کے اندر یہ تازہ کھٹک پیدا کر دی، لیکن پھر فوراً یہ سمجھ کر نورالنہار کو معاف بھی کردیتی تھی کہ شاید مریم جیسا غم خوار دمساز پاکر اس سے ضبط نہ ہو سکے اور اس نے اس تمثیل کے پردے میں اپنا قصہ سنا دیا۔ مریم ان دنو ں کچھ ارشاد سے مکدر سی رہنے لگی تھی۔ اگرچہ اپنے تیور وہ کچھ ظاہر نہ ہونے دیتی تھی۔

    تھوڑے ہی دنوں بعد نورالنہار کو بخار آیا۔ تداخل کا زمانہ تھا۔ دو دن بخار نہیں اترا۔ سب نے سمجھا فصلی بخار ہے، وقت سے جاتا رہےگا۔ لیکن تیسرے دن اس کی حالت زیادہ نازک ہو گئی۔ قصبہ سے ڈاکٹر بلایا گیا اور معلوم ہوا کہ نورالنہار کو ’’نمونیا‘‘ ہے اور اس کی زندگی خطرے میں ہے۔ نورالنہار سے یہ خبر چھپ نہ سکی۔ اس کو اپنی حالت کا علم ہو گیا۔ مگر وہ ہراساں نہیں ہوئی۔ اس کو ایک طرح کا اطمینان ہو گیا۔ ڈاکٹر کے چلے جانے کے بعد تقریباً تین بجے سہ پہر کے وقت اس نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ سے یہ تحریر لکھی اور ارشاد کے پاس روانہ کرکے ’’نیم بیہوشی‘‘ کے عالم میں اس کا انتظار کرنے لگی،

    ’’میرے پیارے ارشاد! ہر چند کہ ابھی تم اور ڈاکٹر دونوں مجھے اطمینان دلا گئے ہو کہ مجھے کوئی اندیشہ ناک مرض نہیں۔ مگر میں جانتی ہوں کہ میں کس حالت سے گزر رہی۔ میرا دل کہہ رہا ہے کہ میں اب زندہ نہیں بچوں گی اور شاید میرے حق میں اب یہی بہتر بھی ہوگا۔ یہ خط میں اس لیے لکھ رہی ہوں کہ قبل اس کے کہ شام کے وقت مریم اور دوسرے لوگ میری عیادت کو آ جائیں، تم تنہائی میں آکر مجھے آخری بار اپنا پیار کر لینے دو تاکہ میں قبر میں یہ جلن لے کر نہ جاؤں۔ مجھے امید ہے کہ تم میری التجا قبول کروگے۔

    تمہاری مرتے دم تک

    نورالنہار

    جس وقت ارشاد کو یہ خط ملا وہ مریم کے ساتھ بیٹھا ہوا نورالنہار کی حالت پر گفتگو کر رہا تھا۔ وہ خط پڑھ کر کچھ اس طرح باؤلا سا ہوگیا کہ مریم بھی گھبرا گئی۔ اس نے کبھی ارشاد کو اس عالم میں نہیں دیکھا تھا۔ مریم نے کہا، ’’کہو خیریت تو ہے؟ نورالنہار کی حالت زیادہ نازک تو نہیں ہے؟‘‘

    ارشاد نے جلدی میں جواب دیا، ’’نورالنہار کی حالت اچھی نہیں ہے اور میں ڈاکٹر کے وہاں جارہاہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوسرے کمرہ میں گیا اور کپڑے پہن کر باہر نکل گیا۔ مریم نے بھی سوچا کہ بہلی کساکر نور محل جائے۔ اس خاول سے وہ بھی اس کمرے میں گئی جس میں سے ابھی ارشاد نکلا تھا۔ اس نے ماما کو بلاکر کہا کہ بہلی تیار کرائے اور خود کمرے میں ٹہلنے لگی۔ اتنے میں اس نے میز پر ایک کھلی ہوئی چٹھی دیکھی۔ ارشاد غفلت اور محویت میں اس کو چھوڑ گیا تھا۔ مریم نے بلاارادہ اس کو اٹھا لیا اور پڑھنے لگی۔

    خط پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے تو اس کے بدن میں چنگاریاں چھوٹنے لگیں۔ لیکن پھر اس کو نورالنہار کے عبرتناک حشر کا خیال آیا، اور اب وہ اپنے غصہ پر نادم تھی۔ لیکن ارشاد سے وہ اب بھی کبیدہ خاطر تھی۔

    تھوڑی دیر بعد ارشاد گھبرایا ہوا آیا اور کہنے لگا، ’’نورالنہار کی حالت شاید نازک ہے میں پھر وہیں جارہا ہوں۔ تم بھی وہیں جلد چلی آؤ۔‘‘

    مریم نے جل کر کہا، ’’میں نہیں جاؤں گی، تم اکیلے جاؤ، نورالنہار کو تمہاری ضرورت تنہائی میں ہے۔‘‘

    ارشاد حیرت کے ساتھ مریم کا منھ تکنے لگا۔ اتنے میں اس کی نظر کھلے ہوئے خط پر پڑ گئی اور وہ سب کچھ سمجھ گیا۔ اس نے اپنے تیور نہیں بدلے اور یہ کہتا ہوا پھر باہر نکل گیا، ’’خیر تمہاری مرضی، جیسا مناسب سمجھو کرو۔‘‘

    مریم اور بھی بیچ و تاب کھانے لگی، اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس کا شوہر کس قسم کا جانور ہے، دغاباز یا مکار تو وہ کسی طرح نہیں معلوم ہوتا تھا۔ لیکن کم سے کم جذبات سے تو عاری ضرور تھا۔

    ارشاد کے چلے جانے کے بعد مریم بہلی میں سوار ہوکر نورمحل کو روانہ ہوئی، نورالنہار کو اس نے صبح سے زیادہ بے چین پایا۔ ارشاد اس کی پٹی کے پاس چپ چاپ سر جھکائے بیٹھا تھا۔ اور اس کے چہرے سے سوا ایک عام افسردگی کے کسی قسم کے جذبات کااظہار نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے مریم کی طرف ایک بار نظر ا ٹھاکر دیکھا اور پھر اس کی طرف مخاطب نہیں ہوا۔ وہ بیمار کی تیمارداری میں مصروف رہا۔ نورالنہار نے مریم کو دیکھا تو ایک مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ اس کو اپنے قریب بلاکر بٹھایا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہنے لگی،

    ’’مریم! اگر میں اس مرض میں جانبر نہ ہو سکوں تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔ تم پریشان اور فکرمند نظر آ رہی ہو۔ لیکن اگر میں خوش نہیں ہوں تو اپنے انجام کی مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ ممکن ہے میری آئندہ زندگی اس سے بہتر ہو۔ تم ابھی کم سن ہو اور پھر تم کو زندگی کی صعوبتوں کا کوئی تجربہ نہیں اور خدا نہ کرے کہ ہو۔ لیکن میں سب کچھ جھیل چکی ہوں اور مجھے ایسی دنیا میں جینے کا حوصلہ نہیں جہاں صرف حسرتوں اور مایوسیوں میں اپنا کام تمام ہو جائے۔‘‘

    ’’اس قسم کے وسواس کو اپنے دل میں جگہ دے کر کیوں خواہ مخواہ اپنے کو کڑھاتی ہو۔‘‘ مریم نے بات کاٹ کر جواب دیا۔

    ’’ذرا صبر کرو مجھے بیچ میں مت ٹوکو۔ ارشاد! ذرا تم باہر چلے جاؤ۔ میں ان سے اطمینان کے ساتھ باتیں کر لوں۔‘‘ ارشاد اسی طرح خاموش اٹھ کر باہر چلا گیا۔

    نورالنہار نے کہا، ’’مریم! میں مر رہی ہوں۔ میں موت کو ہر رگ و پے میں محسوس کر رہی ہوں۔ اس لیے جو کچھ کہوں اس کو کان لگاکر سنو،

    ’’دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو

    میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے‘‘

    ’’اگر حرمان کے صحیح معنی تم کو سمجھنا ہیں تو مجھے دیکھو اور میری زندگی پر غور کرجاؤ، جہاں تک دولت اور ثروت کا سوال ہے مجھے کیا نہیں حاصل؟ لیکن پھر یہ سب کس کام کے؟ میں دنیا میں نامراد رہی اور دنیا سے نامراد اٹھی۔ تم کو مجھ سے انس ہے، اور مجھے یقین ہے کہ یہ انس کوئی دکھاوا نہیں ہے۔ تم نے ارشاد کو اپنا شوہر جانا اور یہ تمہاری سب سے بڑی خوش قسمتی ہے، لیکن تم کو کبھی یہ بھی گمان ہوا کہ وہ کسی دوسرے کے لیے بھی کچھ رہا ہے یا ہو سکتا ہے۔ مجھ کو امید ہے کہ تم عام عورتوں کی طرح تنگ نظر اور تنگ حوصلہ نہیں ہو۔ اس لیے سن لو۔ ارشاد کو میں روز اول سے چاہتی ہوں اور وہ بری طرح چاہتی ہوں۔ چنانچہ یہ جاننے کے بعد کہ میں اب زیادہ زندہ نہیں رہوں گی اگر کسی حسرت نے مجھے بے چین اور مجبور کر دیا تو وہ ارشاد کی حسرت تھی۔ میں نے اس کو تنہائی میں بلایا، سنا ہے کہ تم کو اس کی خبر ہو گئی اور تم کو یہ ناگوار ہوا۔ اس کی مجھے امید نہیں تھی۔ میں یوں بھی تم سے مرتے وقت اپنی رام کہانی بیان کر دینے والی تھی۔ ارشاد ان ہستیوں میں سے ہے جو بہرحال اپنے فرائض منصبی کو انجام دیتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ میں ہمیشہ اس پر مٹی رہی اور اگر حالات مواقف ہوتے تو میں اس کو اپنا بناکر چھوڑتی۔ لیکن اب جب کہ وہ میرا نہیں ہو سکا تو وہ جس کابھی ہو کبھی اس سے دغا نہیں کرےگا۔ میں بسترمرگ پر تم سے قسم کھاتی ہوں کہ تمہارے شادی کرنے کے بعد اس نے کبھی ایسا کوئی کام نہیں کیا جس کو تم بے وفائی یا فریب سمجھو۔ تم کو سعید نے بہکایا تھا۔ میں ارشاد کو چاہتی ہوں اور پکار پکار کہتی ہوں کہ اس کو چاہتی ہوں اور وہ بھی میرے ساتھ وضع نباہتا رہا ہے۔ لیکن یہ بات اس وقت سے چلی آ رہی ہے جب کہ اس کے ذہن میں تمہارا تصور بھی نہ تھا۔ میں نے آج تنہائی میں اس کو اس لیے بلایا کہ آخری دفعہ اپنے بچپن کی محبت کی یاد تازہ کر لو اور وہ چلا آیا۔ تم کو یہ بات گراں گزری سو خطاوار میں ہوں نہ کہ ارشاد۔ مریم! جس احمد کا میں نے اس دن قصہ بیان کیا تھا وہ یہی ارشاد ہے۔ اب تم اس کو عیب سمجھو یا کمال کہ وہ اپنے جذبات کا غلام نہیں ہے۔ لیکن میرا شہزادہ احمد فرومایہ یا دغا باز نہیں ہے۔ کم سے کم میں اس کو ایسا نہیں سمجھتی۔ اب اس احمد کو میں تمہارے سپرد کرتی ہوں۔ وہ تمہارے پاس میری امانت ہے۔ اس کی کبھی کوئی حق تلفی نہ کرنا۔ مجھے جتنے کوسنے جی چاہے دو لیکن ارشاد کے ساتھ بے انصافی نہ کرنا۔ میں نے تم سے راہ و رسم صرف اس لیے پیدا کی تھی کہ تم خود دیکھتی رہو کہ اصلیت کیا ہے اور یہ اتہام کہاں تک صحیح ہے کہ ہم دونوں مل کر تم کو دھوکا دے رہے ہیں۔ جو کچھ تم نے دیکھا ہوگا اس کی گواہ تم خود ہوگی۔ میں اگر تمہارے دل کو انسانیت کے جذبہ سے معمور نہ پاتی تو اپنی زبان سےتم کو یہ ہیچ و پوچ داستان نہ سناتی، تو اب بولو میری وصیت کا خیال رکھوگی یا نہیں؟ اور ارشاد کے ساتھ خوش و خرم رہوگی یا نہیں؟‘‘

    یہ کہتے کہتے نورالنہار کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ مریم کے اعضا میں مدت سے ایک تناؤ تھا۔ اب اس سے بھی ضبط نہ ہو سکا۔ نورالنہار نے اس کے اعصاب ڈھیلے کر دیے اور وہ بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ نورالنہار نے پوچھا، ’’کیوں! یہ میری قسمت کو رو رہی ہو یا اپنی؟‘‘

    مریم اس سے لپٹ گئی اور سسکیاں لیتی ہوئی کہنے لگی، ’’خدا کے لیے اب بس کرو، میں تم سے شرمندہ ہوں۔ میں شاید تمہاری گنہگار ہوں، تم زندہ رہو۔ مجھے کبھی تم سے کوئی ملال نہ ہوگا۔‘‘

    ‘‘ خیر! میرا زندہ رہنا اور مرجانا دونوں یکساں ہیں۔ لیکن یہ وعدہ کرو کہ ارشاد سے تم کو کدورت باقی نہیں رہےگی۔‘‘ مریم نے وعدہ کیا اور نورالنہار نے اطمینان کی ایک لمبی سانس لی۔

    نورالنہار کااندازہ غلط نہیں تھا۔ ڈاکٹر کا خیال تھا کہ وہ بچ جائےگی لیکن رات کے پچھلے پہر کے قریب نورالنہار کی حالت اور بھی بدتر ہو گئی اور صبح ہوتے ہوتے سانس اکھڑ گئی۔ دوپہر کے قریب وہ اپنی ساری حسرتیں سمیٹ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ یوں تو جھوٹ سچ سب ہی نے آنسو گرائے لیکن مریم کی حالت ناقابل بیان تھی، اس کی طبیعت امڈی چلی آ رہی تھی اور آنسو کسی طرح تھمتے نہیں تھے۔ ارشاد بدستور ساکت و صامت تھا۔

    باوجود نورالنہار کی وصیت کے مریم عرصہ تک ارشاد کی طرف سے کسی قدر بیگانہ رہی، وہ اس کی خدمت میں سرگرم تو رہتی تھی، لیکن اس کے لیے اپنے دل میں کوئی ابھار یا ولولہ نہیں پاتی تھی۔ بلکہ ارشاد کی طرف سے اپنے دل میں رکاوٹ سی محسوس کرتی تھی۔ لاکھ نورالنہار کے آخری الفاظ کو یاد کرتی مگر وہ پھر بھی اپنی طبیعت کو مجبور پاتی۔ ارشاد بھی مریم کو اس کے حال پر چھوڑے ہوئے تھا، وہ اپنا وقت زیادہ تر باہر کے کاموں میں صرف کرتا تھا۔

    کئی مہینے اسی طرح گزر گئے۔ آخر کار ایک دن مریم نے ارشاد سے کہا، ’’کبھی تمہارے دل میں یہ خیال بھی گزرتا ہے کہ نورالنہار کی جان تمہارے پیچھے گئی۔‘‘

    ’’اب تو اس ناگوار حقیقت کو ماننا ہی پڑتا ہے‘‘ ارشاد نے سرجھکائے ہوئے ایک ٹھنڈی سانس کے ساتھ جواب دیا۔‘‘ میں محبت کو ایسا جان کا روگ نہیں سمجھتا تھا، میرا خیال تھا کہ محبت بہرحال قائم رہ سکتی ہے اور اس کے لیے مناکحت ضروری نہیں۔ اگر مجھے یہ خیال ہوتا کہ محبت کے لیے شادی ضروری ہے اور بغیر اس کے محبت کا نباہ دشوار ہے اور اگر مجھے پہلے سے اس کا وہم بھی ہوتا کہ مجھ کو نہ پاکر نورالنہار کا یہ حشر ہوگا تو میں ساری دنیا سے مخالفت کرنے پر آمادہ ہو جاتا۔ میرا تو یہ خیال تھا کہ ایسی مخالفتوں کے ہوتے ہوئے اگر میں نے اس کے ساتھ شادی کی تو میں اپنے ساتھ اس کی زندگی کو بھی تلخ کر دوں گا۔ دوسری مرتبہ میں نے اس کی پوری کوشش کی کہ تلافی ماےفات کروں لیکن اب کی مرتبہ وہ خود کسی طرح اس پر راضی نہیں ہوئی، وہ وہمی ہو گئی تھی اور اپنے کو منحوس اور سبزقدم سمجھنے لگی تھی۔ جیسا کہ اور لوگ بھی سمجھنے لگے تھے۔ اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اپنی نحوست میرے سر نہیں لگائےگی۔ اس کے بعد میری ہر کوشش بےنتیجہ ثابت ہوئی اور میری شادی تمہارے ساتھ ہو گئی۔ آخرکار آج تم نے چھیڑ کر میری زبان سے اتنا سن لیا، ورنہ اس داستانِ محروم کو دہرانے سے میں ہمیشہ پہلو بچاتا رہا۔‘‘

    مریم اور ارشاد دونوں دیر تک خاموش رہے، مریم کا سکوت اس کی کشاکشِ جذبات کا آئینہ تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کہے اور کیا کرے۔ یکایک ایک خیال سے وہ چونک پڑی اور ارشاد سے کہنے لگی، ’’میں نورالنہار کی قبر پر اب تک نہیں گئی ہوں، آج مجھے لے چلو۔‘‘ شام ہو گئی تھی، ارشاد نے کہا چلو اور دونوں قبرستان کی طرف روانہ ہو گئے۔ مریم نورالنہار کی قبر سے لپٹ کر دیر تک آنسو بہاتی رہی، ارشاد ایک کنارے بُت بنا ہوا بیٹھا رہا۔ جب مریم خوب روچکی تو ارشاد کے پاس آئی اور اس کو پیار کرکے کہنے لگی، ’’اگر کوئی بات معاف کرنے کی تھی تو میں نے تم کو اور نورالنہار دونوں کو معاف کیا۔ اس نے مرتے دم وصیت کی تھی کہ میں تم کو اس کی امانت سمجھ کر رکھوں، ادھر میں تمہاری طرف سے برابر اپنے دل میں غبار لیے رہی ہوں، لیکن یہ شاید نورالنہار کی طرف سے غبار لیے رہنا ہے۔ اب آؤ ہم نورالنہار کی یادگار اپنی محبت سے قائم کریں۔‘‘

    ارشاد نے مریم کا منھ چوم کر جواب دیا، ’’خدا تم کو اس کا اجر جمیل دے۔‘‘ جب دونوں قبرستان سے پلٹنے لگے تو ارشاد نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا، ’’شاید کسی شاعر کا یہ کہنا غلط نہیں کہ محبت مرد کی زندگی کا صرف ایک جز ہے مگر عورت کی ساری ہستی۔‘‘

    مأخذ:

    مجنوں کے افسانے (Pg. 165)

    • مصنف: مجنوں گورکھپوری
      • ناشر: حالی پبلیشنگ ہاؤس، دہلی
      • سن اشاعت: 1938

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے