Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حسن رہ گزر

علی عباس حسینی

حسن رہ گزر

علی عباس حسینی

MORE BYعلی عباس حسینی

    بھائی افتخار! اب کے تمہارے ہاں کے قیام میں جو لطف ملا۔ وہ ساری عمر نہ بھولوں گا۔ عمدہ سے عمدہ غذائیں جسم کے لیے اور افضل سےافضل مباحث دماغ کے لیے۔ روحانی لذتیں تمہارے سرد پا خلوص میں تھیں۔ بھابی کی میٹھی باتوں میں تھیں اور بچوں کے پیارے چہچہوں میں۔ کن کن نعمتوں کو سراہوں، ہر واقعہ دل میں پارۂ الماس کی طرح جڑا جگمگا رہا ہے۔

    پھر واپسی کے سفر نے اس یادگار قیام پر اس طرح کی مہر لگادی کہ کہکشاں کی طرح ہر ٹکڑا ہمیشہ چمکتا رہےگا۔ میں سمجھتا تھا راستہ کاٹے نہ کٹےگا۔ لیکن وہاں شہابِ ثاقب کی سی بلا کی سرعت تھی۔

    روئے گل سر ندیدیم و بہار آخر شد!

    لیکن ان چند لمحوں میں تجربات کی ایک زندگی سمٹ آئی تھی۔ وہ گھڑیاں کیا تھیں تیزاب کی بوندیں تھیں جنہوں نے دل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داغ ڈال دیے۔ نشتروں کی نوکیں تھیں جو زخموں میں ٹوٹ کر رہ گئیں اور اندمال کے بعد بھی جیتے جی کھٹکتی رہیں گی۔

    میں جانتا ہوں کہ میری ان جذباتی باتوں پر تم اپنے مخصوص انداز میں مسکرا رہے ہوگے۔ تم اپنے خشک مارکسی نظریہ سے انہیں دیکھ کر اسی طرح منہ بناناکر سر ہلاتے ہوگے۔ جس طرح غزلیے شاعری کے لطیف ترین مبالغوں پر میں نے لوگوں کو سر دھنتے اور تمہیں طنز سے سر ہلاتے دیکھا ہے۔ لیکن پہلے پوری بات سن لو، پھر مضحکہ اڑانا۔ میں سارا سفر تفصیل سے بیان کیے دیتا ہوں۔ اسے بغور پڑھو، پھر بتانا کہ یہ افسانہ ہے یا حقیقت۔ دل کی خلش ہے یا لفظوں کا الٹ پھیر۔

    ہاں تو میں تم سے رخصت ہوکر اسٹیشن آیا۔ وہاں وہ ساری دلچسپیاں موجود تھیں جو ہر بڑے اسٹیشن کو ہر شب برات کا گھر بنا دیتی ہیں۔ برقی قمقوں کی چمک قلیوں کی دوا دوش، خونچے والوں کی صدائیں، مردانے مسافروں کی وضع قطع، چال ڈھال، زنانے مسافروں کی ساریاں، لہنگے، پائنیچے، گاؤن، برقعے، بچوں کا رونا اور قلقاریاں مارنا، انجن کی سیٹیاں، گاڑیوں کی گھڑ گھڑاہٹ، ڈبوں میں بیڑیوں سگرٹوں کا گھٹتا ہوا دھواں اور ان سب ہنگاموں میں کسی ایسی گاڑی کا جس کے ہم دیر سے منتظر ہوں، دور سے سیاہ پیشواز میں تارے چمکاتی، چھم چھم کرتی، گنگناتی، لاپتی ہوئی ایک فردوسِ نظر ہے کہ دیکھتے رہو اور جی نہ بھرے۔ مجھے اس طرح کا انتظار نہ کرنا چاہیے تھا۔ میری گاڑی بیوی کی طرح خیرمقدم کے لیے آغوش کشادہ پلیٹ فارم پر کھڑی ہو رہی تھی مگر میں اس تازہ بہ تازہ، نو بہ نو ڈبے کا منتظر تھا جو کارواں کے نئے اونٹ کی طرح گاڑی میں نتھی ہونے والا تھا۔ چنانچہ میں نےاس ڈبے کے لیے اختر شماری کی جگہ وہیلر کی دکان کی کتابیں الٹنا پلٹنا شروع کیں۔ چار نئی نئی کتابیں خریدیں اور اب پھر نظرِ شوق پلیٹ فارم پر ڈالی۔ کیفیت وہی تھی جس کا ذکر اردو کے ہجراں نصیب شعرا اپنے معدوم شوق کے انتظار میں بار بار کرتے ہیں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ مجھے پندرہ منٹ بعد یہ ڈبہ مل گیا۔ لیکن ان غریبوں کو سات سات دیوان سیاہ کرنے، کوہ ستون ٹپنے اور جوئے شیر لانے پر بھی نہیں ملتا! مجھے اس ڈبہ کا یوں انتظار تھا کہ وہ زیادہ تر خالی رہتا ہے اور مجھے چلتی گاڑی میں سوچنے اور پڑھتے رہنے کا مرض ہے! تم کہوگے اس مرض کے اسباب جنسی ہیں، میں کہوں گا ہندوستان کے سے ننگے فاقہ کش اور رسم و رواج میں جکڑے ہوئے ملک میں اور ہوں گے ہی کیا؟ وہی بھوک، پیٹ ہو یا جنس کی ۔ ہاں تو یہ ڈبہ جیسے ہی کنکیا کی دم کی طرح گاڑی میں جوڑا گیا میں جھپٹا، بالکل اسی طرح جھپٹا جس طرح کوئی چوہا روٹی کے ٹکڑے کے لالچ سے جھپٹ کر چوہے دان میں داخل ہوتا ہے۔ اندر پہنچتے ہی میں نے ایک نشست پر قبضہ کر لیا۔ بغل میں دبی ہوئی چاروں کتابیں سیٹ پر الگ الگ ڈال دیں۔ شیروانی اتار کر کھونٹی پر لٹکادی۔ پان، سگریٹ، تمباکو اور دیاسلائی کی ڈبیاں نکال لیں اور ڈبے کی ہنری دیوار سے ٹیک کر دونوں ٹانگیں برتھ پر ’’پسار لیں‘‘۔

    نہایت ہی اہم اور غور طلب مسئلہ یہ تھا کہ میں کون سی کتاب شروع کروں۔ بالکل اسی طرح جس طرح بڑی بوڑھیوں کی کہانی کے اس مسافر کے لیے جو چھتنا درخت کی گھنیری چھاؤں میں کنوئیں کی جگت پر روٹیاں پھیلاکر رکھتا اور زور زور سے کہتا ’’ایک کھاؤں، دو کھاؤں، تین کھاؤں یا سب کی سب کھا ڈالوں!‘‘

    ابھی میں کسی معقول فیصلہ پر نہ پہنچا تھا کہ دفعتاً ڈبے کا دروازہ دھڑاکے کے ساتھ کھلا اور دو آدمی مع چار عدد قلیوں کے ’’اسباب برسر اور بنڈل دربغل‘‘ داخل ہوئے۔ انہوں نے بکس اوپر والے برتھ پر رکھوا دیے اور نیچے کی تینوں سیٹوں پر بستر کھول کر بچھا دیے۔ میں نے ان کی اردو فارسی ملی ہوئی زبان سنی اور انہیں دلچسپی سے دیکھا، گورے چٹے لوگ تھے۔ مگر پھٹے اور میلے کپڑے بتا رہے تھے کہ آقا نہیں ملازم ہیں۔ بظاہر یہ سامان کسی ایرانی خاندان کے ورود کا پیش خیمہ تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں میرا شبہ یقین سے بدل گیا۔ ایک قد آور مسن ایرانی تین برقعہ پوش عورتوں اور دو پھول سے بچوں کے ساتھ داخل ہوئے۔ انہوں نے اسباب اور بستروں پر نظر ڈالی اور ’’شاباش! حسنت! مرحبا!‘‘ کہتے ہوئے دونوں آدمیوں اور قلیوں کو رخصت کیا اور تینوں سیٹوں پر قبضہ کر لیا۔

    آدمیوں کے باہر ہوتے ہی تینوں عورتوں نے نقاب الٹ دی۔ ان میں سے ایک تو سانولی سی ہندوستانی عورت تھی۔ یہ غالباً ملازمہ تھی۔ اس لیے کہ اس نے دونوں بچوں کو سمیٹ کر اپنے برتھ پر لے لیا اور انہیں سلانے کی کوشش کرنے لگی۔ بقیہ دونوں عورتوں میں ایک خاتون چالیس کے قریب کی تھی۔ گداز بدن، چہرے پر ہلکی ہلکی جھریاں، آنکھوں میں وہ خاص متانت جو بچہ کش گھروالیوں کی خصوصیت ہے۔ تیسری کا سن کسی طرح اٹھارہ سے زیادہ نہ تھا۔ دبلی پتلی، ستواں ناک، چھوٹا دہانہ، تھوڑی میں زنخداں اور انگریزی قسم کے بال۔ آنکھیں زیادہ بڑی نہ تھیں۔ لیکن ان میں بلاکی چمک تھی اور ان کے سیاہی مائل نیلگوں رنگ میں سرخ ڈورے مجھے اپنی برتھ سے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ اس نے ایک عجیب بیباکی سے ہنس کر میری طرف دکھا اور میں نے محسوس کیا کہ غازہ، پاؤڈر اور لپ اسٹک سے حسن درخشاں میں چار چاند لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔

    تم جانتے ہو کہ میں نہ تو پاکستانی ہوں اور نہ رام راجی۔ لیکن میں اس سے مجبور ہوں کہ مجھے ایشیائی چہروں پر مغربی پالش ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ میں مانتا ہوں کہ یہ اپنے اپنے ذوق کی چیز ہے۔ بالکل ہماری شاعری کی طرح کہ کسی کو غزلوں میں سارا مزا ملتا ہے، کسی کو نظموں میں، کسی کو اس تیسری جنس کی چیز میں جسے عرف عام میں آزاد نظم کہتے ہیں۔ لیکن جس کی مثال بالکل ہندوستانی چہرے پر مغربی غازہ اور لپ اسٹک کی ہے۔ ہاں تو میری غرض اس بکواس سے یہ ہے کہ پہلی نظر نے میرے دل میں غصہ اور نفرت کی لہر دوڑا دی۔ نورجہاں اور ممتاز محل کی وارثہ ہیلن اور کیتھرن بننے کی کوشش کرے۔

    ’’تفوبر تواے چرخ گرداں تفو!‘‘

    میں نے جلدی سے وہ کتاب اٹھالی جو قریب ترین تھی اور اس کے پڑھنے کی کوشش کرنے لگا، مگر کانوں میں ’’قربانت شوم‘‘ ’’نہ خیر‘‘۔ ’’نثار شما‘‘ کے سے مرکبات بار بار آتے اور اپنی شیرینی لطافت اور کیف سے کتاب کو دھندلا اور ان کے معانی کو بعید از فہم بنا دیتے تھے۔ آخر گھبراکے نظر اٹھاکر دیکھا تو وہ مسکراتی آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔ فوراً جھینپ کر نگاہ نیچی کرلی۔ مگر پہلی نفرت کی جگہ یہ خواہش ہونے لگتی کہ کاش موقع ملتاتو سمجھاتا۔ ’’تووضع پہ اپنی قائم رہ۔‘‘ عقل ٹھٹھے لگانے لگی۔ اے سبحان اللہ کیا آئینہ میں کبھی اپنی صورت نہیں دیکھی۔ ہندستانی بیوی تک نے جس کی ساری دنیا تم ہی ہو، کبھی حسین نہ جانا۔ اس لیے یہ نظر نہ تو تمہارے لیے تھی اور نہ تمہیں ناصح ہنسنے کی دعوت دیتی تھی۔ یہ تو صرف ڈبے کی پوری فضا کو معطر بنانے کے لیے تھی۔ تم پر محض اس لیے پڑی کہ تمہاری سی صورت شکل کے اجنبی کو اس طرح کی معنبر فضا میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ پھر تم ایک مذہب تعلیم یافتہ آدمی سمجھے جاتے ہو، جوانی کے طوفان سے گذر چکے ہو۔ تم کو اس کیف و سرور، جذب و کشش سے کیا تعلق کیا لگاؤ؟ خواہش نے کہا۔ یہ سب کچھ صحیح مگر حسن رہ گزر رہے۔ آنکھیں سینکنے میں کیا خرابی ہے۔ اگر ان لوگوں کو نمائش سے پرہیز ہوتا تو بغل ہی میں زنانہ انٹرکلاس ہے وہاں استراحت فرماتیں۔ پھر حسن نہ سہی مگر اس کو کیا کیا جائے کہ

    دل سے شوق رخ نکو نہ گیا

    جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا

    سو اب ہمارے حصہ میں تو صرف جلوہ اور ’’دور کا جلوہ‘‘ ہی ہے۔ ایسے میں اپنے حصہ سے دست برداری صریحی کفرانِ نعمت ہے۔

    غرض دل میں ہنگامہ ہوتا رہا۔ نظر میں کتاب کے الفاظ پھیلتے سمیٹتے رہے اور کانوں میں ایرانی مسافر اور ان کے ساتھ کی خواتین کی آوازیں گونجتی رہیں۔

    میں نے دوشیزہ کو کنکھیوں سے دیکھا وہ مرد کے کے کسی سوال کے جواب میں سر ہلاکر مسکرا رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا۔ سیاہ گلاب نسیم سحر کے جھونکے سے جنبش میں ہے۔ مرد نے باصرار کچھ کہا اور سوڈ المنڈ والے کو آواز دی۔ اس سے دو بوتلیں سوڈا کی کھلواکر دو گلاسوں میں انڈیل لیں اور بہت سی برف چور کراکے تھرماس میں رکھ لی۔ پھر وہ حصرت مسن خاتون کی طرف جھک پڑے۔ انہوں نےنہایت ہی بے تکلفی سے اس کے گالوں کا پیار لے کر باصرار دوسری برتھ پر لٹا دیا۔ تھوڑی دیر وہ اس کے بالوں اور گالوں کو اس طرح تھپکتے رہے جیسے وہ اسے لوری دے کر سلا رہے ہوں۔ پھر انہوں نے ایک بکس کھینچ کر دوشیزہ کی برتھ اور اس برتھ کے درمیان رکھا اور میری طرف پشت کرکے تھرماس اور گلاسوں میں نہ جانے کیا الٹتے پلٹتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے ایک گلاس دوشیزہ کی طرف بڑھا دیا۔ میں نے دیکھا کہ اس میں اب کوئی گلابی سی چیز تھی۔ اس نے پھر سرہلایا اور میری طرف دیکھ کر گلاس ہاتھوں سے ہٹایا۔ میں نے دیکھا کہ اس کے شہابی پالش سے چمکتے ناخن مغربی ڈھنگ سے کٹے ہیں۔ پھر معلوم ہوا کسی نے دل پر شیر پنجہ مارا۔ آخر ہماری معصوم حنانے کیا قصور کیا ہے۔ برگ سبز کو تو تحفہ درویش ہونے سے دیس نکالا ملا۔ لیکن اپنے ہاتھوں کی سوزش کم کرنے والی، دوسروں کے ہاں التہاب بڑھانے والی، مہندی نے کون سی قمچیاں ماریں، کس کے چٹکیاں کاٹیں کہ مردود درگاہ نبی۔ پھر غصہ عود کر آیا۔ نہ جانے کتنے جاموں میں لپٹ جاتے تھے کہ کسی طرح صورت زیبا کی زیارت ہی نہ ہوتی تھی۔ میں لاکھ کوشش کرتا تھا کہ انہیں دیکھوں مگر ان کا چہرہ کہرے کی چادر میں لپٹتا ہی جاتا تھا۔

    میرے ہاں یہی جنگِ زرگری جاری تھی کہ وہاں بھی اصرار و انکار کے بعد دونوں اٹھے اور گاڑی کے اس حصے کی طرف چلے جو جائے احتیاج کہا جاتا ہے۔ مرد باہر ایک پہریدار کی طرح کھڑا ہو گیا۔ دوشیزہ اندر چلی گئی۔ چند منٹ بعد وہ برآمد ہوئی اور مرد اندر سے ایک خالی گلاس لے کر پلٹا۔ دونوں میری طرف سے ہوکر گزرے تھے، جانے میں ایک لطیف سی خوشبو محسوس ہوئی تھی۔ پلٹتوں میں وہ متعفن بو جس پر محتسب چیں بہ ابرد ہوکر بقول سائل یہ شمار کرنے لگتا ہے کہ

    کے نے پی، کے نے نہ پی

    کتنوں کے آگے جام تھا!

    گاڑی چلی جا رہی تھی۔ اسٹیشن چھوٹ چکا تھا، گرمی کی جگہ اب ٹھنڈی ہوائیں پسینہ خشک کر رہی تھیں اور اس ڈبے میں صرف میں اکیلا غیر تھا۔ بقیہ سب ایک ہی سلسلہ کی لڑکیاں تھیں۔ اس لیے لمحہ بہ لمحہ بے تکلفی و بے حجابی بڑھ رہی تھی۔ دوشیزہ نے برقعہ اتار پھینکا تھا۔ ایک قیمتی چست گاؤن زیب بدن تھا۔ اس نیم عریاں ملبوس سے جسم کے جو حصے چھپے نہ تھے ان میں غضب کی صباحت تھی اور جو حصے ڈھکے تھے ان کا حسن ابھرکر دعوت نظارہ دے رہا تھا۔ پھر اس پرآفت جاں وہ بات بات پر مسکراہٹ، ہر چھیڑ کا شیریں لب و لہجہ میں جواب۔

    میں نے ہار کر پھر دیکھا۔ وہ بڑی بے تکلفی سے اپنے بالوں سے سرخ ربن نکال رہی تھی۔ استراحت کا ارادہ تھا یا کھل کھیلنے کا۔ کون جانے؟ مرد نے بھی ہاتھ بڑھاکر اپنی موٹی موٹی انگلیاں موشگافی میں شریک کر لیں اور دوشیزہ نے بالکل اس پھول کی طرح جس کی پنکھڑیاں ہوا کا تیز جھونکا بکھیر دے۔ اپنے سر کو جھٹکا دے کر شانوں پر زلفیں ’’لہرا دیں‘‘۔

    میرے دل میں یہ خیال کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا کہ میں اس صحبتِ تخلیہ میں مخل ہو رہا ہوں۔ لیکن گاڑی اسکپریس تھی اور ’’دید‘‘ کا بہانہ کافی تھا۔ جب کسی کی آنکھیں خود ہی دعوت نظارہ تماشا دیں تو ’’چشم رسوا راچہ گناہ!‘‘

    آنکھوں کے تیر اس طرح چل رہے تھے کہ صاف ظاہر تھا کہ وہ صرف مرد ساتھی کے لیے ہی نہ تھے بلکہ میرے لیے بھی۔ بالکل اسی طرح جیسے دسترخوان پر شکم سیر ہوتے وقت دوچار نوالے پالتو جانور کو بھی پھینکے جاتے ہیں۔ اس کی آنکھیں میری تشنگی کو بھی سیراب کرنےکی کوشش کرتی جاتی تھیں۔ اسکوشش و کشش کایہ نتیجہ تھا کہ میں بھی پچھلی نفرت بھول کر دیکھنے اور مسکرانے پر مجبور تھا۔

    مرد بزرگ پر غالباً اب گلاس کا اثر ہو رہا تھا۔ ان کے ہاتھ بہکنے لگے تھے اور دوسروں کی موجودگی کاخیال ان کے دماغ سے محو ہو رہا تھا۔ انہوں نے دفعتاً سگریٹ کاٹن کھولا۔ خود ایک سگریٹ نکالی۔ دوشیزہ کی طرف ٹین بڑھایا۔ اس نے سر ہلاکر کچھ کہا۔ وہ ہنستے ہوئے میری طرف بڑھے۔ میں نےاس اخلاق پر عرق عرق ہوکر انکار کرنا چاہا۔ انہوں نے ’’بگیرید، بگیرید‘‘ کہہ کر اصرار کیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ان کی پشت کی طرف نظر کی، دو غزالی آنکھیں بھی اصرار کرتی دکھائی دیں۔ میں نے جلدی سے سگریٹ لے لی۔ شکریہ ادا کیا اور کتاب میں اپنی آنکھیں گاڑ لیں۔ وہ اپنی سیٹ کی طرف پلٹے اور یقینی مطمئن پلٹے۔ انہوں نے وقتی چوکیدار کو سگریٹ کی رشوت دے کر چشم پوشی پر مجبور کر دیا تھا۔ اب بھلا انہیں سرقہ حسن سے کون روک سکتا تھا؟۔

    وہ بہت ہی بیباکی سے بکس کی جگہ اب کے برتھ پر جاکر بیٹھے۔ دوشیزہ پہلے تو کچھ جھجکی، پھر اس نے ایک نیم سپردگی کے انداز سے انہیں اپنی طرف بڑھنے دیا۔ انہوں نے ایک ہاتھ توسیٹ پر رکھا۔ دوسرے ہاتھ کے کٹورے میں اس کا چہرہ لے لیا۔ حسینہ کا چہرہ گلابی بلب کی طرح چمکنے لگا۔ میرے دماغ میں حافظ شیراز کا کا مصرعہ گونجنے لگا۔

    چہ دلادراست دزدے کہ بکف چراغ دارد

    لیکن مجھے پھر غصہ سا آنے لگا۔ آخر انہیں اس قدر بےتابی کیوں ہے۔ ایک غیر مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں چلتی گاڑی میں اس قدر اظہار محبت کی کون سی شدید ضرورت ہے۔ پھر میں نے سوچنا شروع کیا آخر مجھے کیوں برا لگتا ہے۔ حیوانات مخصوص مہینوں اور زمانوں میں ایک دوسرے کے سامنے اظہار محبت کرنے میں نہیں شرماتے پھر انسان کیوں شرمائے۔ یہ تو عین فطرت ہے۔ تصنع و تکلف، رسم و آئین سے مبرا۔ کہیں میری ناراضگی کی وجہ یہ تو نہیں کہ مجھے اس اظہار میں اپنی شرکت کا مقدور نہیں؟ کیا کہتا ہے فرائڈ؟ کہیں یہ امر بھی ان احتسابات میں سے تو نہیں جنہیں ہم نے ماحول، تربیت و تعلیم اور خود ساختہ اخلاق کی وجہ سے اپنے پر عائد کر رکھا ہے اور جو اس وقت نیم شعوری طور پر اپنا رنگ دکھلا دیتے ہیں۔ لیکن وہ بھی تو نہ جانے کیا کیا بکتا ہے۔ اس کے ہاں تو ساری دنیا ہی جنسیات میں لپٹ کر رہ جاتی ہے، اگر اس کافلسفہ کلیتاً صحیح مان لیا جائے تو سارا نظام ہی بدل جائے اور مارکٹ نظریہ تو بالکل پامال ہوکر رہ جائے لیکن وہ بھی کہاں مکمل ہے؟ دیکھو نہ روس کو، لینن نے اسے کیا سے کیا بنا دیا اور اسٹالن اسے کہاں سے کہاں لے گیا۔ مگر صاحب یہ روس والے بھی بلا کے لڑنے والے نکلے۔ کیا استقلال ہے، کیا پامردی، کیا جانفروشی ہے اور کیا وطن پروری۔ بڑی اچھی نظم کہی ہے علی سردار جعفری نے۔ ’’کارخانوں میں مشینوں کے دھڑکنے لگے دل!‘‘ لیکن اگر اس میں آزاد نظم کی قید نہ لگی ہوتی تو لاجواب چیز ہوتی۔ مگر یہ آزاد و مقید نظم کی بحث بھی خوب ہے۔ میرے جیسے ’’کرم خوردہ دماغ‘‘ کیا کریں؟ ایک میں اپنی بیوی کی سی یکسانیت، دوسری میں ہمسائے کی دلہن کی سی جاذبیت۔ کس کو چھوڑو، کس کو اپناؤ؟ ایک طرف اثر لکھنوی و اختر تلہری، دوسری جانب احتشام ماہلی و علی جواد زیدی۔ پھر ترقی پسندوں کا پورا گروہ۔ سجاد ظہیر، مجنوں گورکھپوری اور کپتان فیض! نہ جانے ان حضرات کا نام اس قدر غیرشاعرانہ کیوں رکھا گیا کہ قافیہ پیمائی بغیر وکالت کے ممکن ہی نہیں۔۔۔ کہیں اس لیے تو وہ ردیف و قافیہ سے نہیں گھبراتے۔ لیکن بھئی کہتا خوب ہے ظالم کلام میں کیف بھی ہے، مغز بھی اور صفائی و تسلسل بھی۔۔۔ ن۔م۔راشد بھی ذہین ہیں۔ جدت و تنوع بھی ان کے ہاں ہے۔ لیکن خدا جانے کیوں الہامیات کی طرح اپنے نام اور کلام میں مقطعات کی شرکت ضروری سمجھتے ہیں اور وہ جو حضرات ہیں۔۔۔ ارے وہی ’’کوا، کالا کوا‘‘۔ مغز ہوتا ہے ان کے کلام میں اور کبھی کبھی ضرورت بھی مگر اس پہ مچلے ہیں کہ نظم کو آزاد کریں گے۔ کیا حافظہ ہے واللہ میرا، ان کانام ہی نہیں یاد آتا۔ بھلا ساتو ہے۔ کچھ ملاجیوں سا۔ ہاں ہاں یاد آیا، میراجی! ہوں گے تو آدمی یقینی وجہیہ۔ ماشاء اللہ پنجابی جوان ہیں۔ لیکن خیال ہیولیٰ! بس میاں جی!۔ سر کے بال الجھے ہوئے، لمبی سی داڑھی، پان کی پیک باچھوں سے بہتی ہوئی۔ گرد بیٹھے ہوئے عقیدت مندوں پر حال کا سادورہ پڑتا ہوا۔ میاں جی واہ! میاجی سبحان اللہ! لیکن کیا پیشہ ہے یہ مدرسی بھی۔ لونڈے چڑا رہے ہیں۔میاں جی، میاں جی بکری چراؤگے؟ مداریوں کی طرح بندروں کو سدھاکر صرف ڈگڈگی پر ناچنا اور پیٹ دکھاکر پیسے مانگنا ہی نہ سکھاؤ بلکہ انہیں آدمی بھی بناؤ۔ پھر اس پر نہ لونڈے لونڈیاں عزت کریں اور نہ اماں باوا۔ مگر عزت کی بنا خدمت پر نہیں، خوف پر ہے۔ جس قدر آزار پہنچنے کا آپ سے ڈر ہوگا اسی قدر آپ کی تعظیم و تکریم ہوگی۔ اسی جذبے نے تو پوجا پاٹ کرائی۔ دیوی دیوتا خلق کرائے اور طرح طرح کے خدا پیدا کر دیے۔ جب ہی تو لاالہ الا اللہ۔۔۔

    ایک چھینپی ہوئی ہنسی نے اس انمل اور لامتناہی سلسلہ خیالات کو توڑ دیا۔ نظر پھر بہکی۔ زرد چہرہ گلابی سنہری چہرے سے الگ ہو رہا تھا۔ آفتاب سے گہن دور ہو رہا تھا۔ میں نے دیکھا دو خماریں آنکھیں معافی مانگ رہی تھیں۔ میں نے گھبراکر ادھر دیکھا جدھر دوسری برتھ پر اتارے ہوئے بار کی طرح مسن عورت پڑی تھی۔ اس پر وہی کیفیت تھی جو مرجھائے ہوئے پھولوں میں ہوتی ہے۔ آنکھیں بند تھیں مگر تنفس تیز تھا۔ میں نے ادھر بھی دیکھا، جدھر ملازمہ تھی۔ اس نے منہ پر چادر ڈال لی تھی اور سونے والوں کی صورت بنائے لیٹی تھی۔ غالباً اس نے اپنےزمانے میں اس طرح کے کھیل بہت کھیلے ہوں گے۔ اس کو ان حرکات میں جو خلاف ارادہ میری تمام توجہ کا مرکز بنی جارہی تھیں۔ کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ یا شاید وہ اس طرح کے تماشوں کی عادی ہو گئی تھی اور پیٹ کے لیے اپنا منہ چھپا لینے ہی میں خیر سمجھتی تھی۔

    میری نگاہیں پھر بھٹکیں۔ اب کے وہ دوسری ہی برتھ پر جم رہیں۔ کیا رشتہ ہے بہارِ شوخ خو میں اور خزان زرد رو میں؟ ایک منزل کی طرف جا رہی ہے۔ دوسری منزل پر پہنچ چکی ہے۔ لیکن کیا عورت کے لیے ماں بننا ہی منزل ہے؟ اگر ایسا ہے تو ایک بار منزل تک پہنچنے کے بعد پھر پلٹنے کی خواہش ہی کیوں ہے؟ کیا زینت وا آرائش کے سارے سامان منزل کی جیتی ہوئی مسافرہ کو تازہ دم راہرو بناکر نہیں پیش کرتے؟۔ مگر یہ زرد و مسن مرد آخر اس قدر آپے سے باہر کیوں ہوا جاتا ہے؟ بالکل جس طرح مخصوص مہینوں میں بعض جانور۔ واقعی کس قدر مشابہ ہے انسان حیوانات سے اور کہتا ہے اپنےکو اشرف المخلوقات۔

    مخصوص برتھ سے آواز آئی ’’نہ! نہ!‘‘ اور ایک سیمیں قہقہہ سنائی دیا۔ میری نگاہیں روکے نہ رُک سکیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح فوجی گھوڑے بگل کی آواز پر روکے نہیں رکتے۔ میں نے دیکھا مرد کے موٹے بھدے ہاتھ دونازک ہاتھوں سے روکےجا رہے تھے۔ آنکھیں تمسخر بھی کر رہی تھیں۔ التجا بھی اور لب لعلیں سے ’’آرام کنید! آرام کنید!‘‘ کی تاکید تھی۔ سپید سوکھی چندیا تروتازہ زانو پر رکھ لی گئی اور بھاری بھرکم جسم بےبسی سے برتھ پر گرا دیا گیا۔ شاید بوجھ اس کی بساط سے باہر تھا۔ اس لیے کہ اس نے بھی فریاد کی مگر بار بار کروٹوں پر کروٹیں لی گئیں اور بار بار سرہانے کی طرف ٹٹولتے ہوئے ہاتھ بڑھتے رہے۔ بالآخر دو رنگین ناخنوں والے ہاتھ دو حریص آنکھوں پر رکھ دیے گئے اور مجھ سے روشن قمقوں نے کہا ’’دیکھتے ہو میری مجبوری!‘‘

    میں نے سینے میں ایک پھانس سی چھبتی محسوس کی اور پھر کمبخت کتاب پر نظریں جما لیں۔ اکسپرس نے جلدی جلدی پٹریاں بدلیں۔ میرا اسٹیشن آ گیا۔ میں نے جلدی سے کھونٹی سے شیروانی اتاری، اسے کھڑے ہوکر پہنا اور ٹرین کی حرکت کی وجہ سے لڑکھڑانے میں لذت محسوس کی۔ مختلف ڈبیاں جیبوں میں ڈالیں کتابیں سمیٹ کر بغل میں دبا لیں اور اترنے کے لیے بالکل تیار ہو گیا۔

    لیٹے لیٹے ’’خس کم جہاں پاک‘‘ والے لہجے میں مرد نے پوچھا۔ ’’می ردید؟‘‘ میں نے عرض کی ’’بلے‘‘۔ پانوں کی ڈبیا نکالی، خود پان کھایا۔ پھر جسارت کرکے کھلی ڈبیا لیے ادھر بھی بڑھ گیا۔ گھبراکر اٹھ بیٹھے۔ میں نے ڈبیہ بڑھا دی۔ ایک پان لے لیا، میں نے ڈبیا اور آگے بڑھائی ’’خاتون؟‘‘ ’’نہ۔ نہ۔ نمی خورد‘‘۔ مگر وہاں نذر قبول ہو چکی تھی۔ شرمائی ہوئی چمکتی آنکھوں نے خاموشی کی رشوت دی اور دست سیمیں نے بڑھ کر ایک پان نکال لیا۔ میں نے اس دلدہی پر جھینپ کر ’’شکریہ‘‘ کہا اور دروازے کی طرف مڑ پڑا۔

    گاڑی رک گئی۔ قلیوں کی پکار شروع ہو گئی۔ برقی قمقوں سے جگمگاتا اسٹیشن برات کے گھر کا منظر پیش کرنے لگا۔ میں نے شیرازی گلاب کو یاد رکھنے کے لیے قریب سے دیکھا۔ پنکھڑیوں پر موتی جھلک رہے تھے۔ جلدی سے ہندی لب و لہجہ میں فارسی میں کہا۔ ’’معاف کنید، مخل شدیم!‘‘ اور دو جھینپتے ہوئے قہقہوں کو کانوں میں بساکر ڈبے سے باہر نکل آیا۔

    نہ جانے کیوں اب جب بھی سفر کرتا ہوں۔ جی چاہتا ہے۔ زہرہ و مشتری سی چمکتی نگاہیں پھر دیکھ لوں۔ کیا مرزا نوشہ کو کوئی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا جو اس نے فریاد کی

    سفینہ جبکہ کنارے پہ آلگا غالب

    خدا سے کیا ستم وجور ناخدا، کہیے!

    چہ می فرمایند آقائی افتخار؟

    منظور

    منظور۔۔۔تم بھی اب بوڑھے ہو گئے ہو۔ ورنہ شہاب ثاقب کو قطب ثابت نہ سمجھتے اور ایک الم انگیز داستان کو حکایت لذیذ بناکر پیش نہ کرتے۔

    افتخار

    مأخذ:

    میلہ گھومنی (Pg. 161)

    • مصنف: علی عباس حسینی
      • ناشر: مکتبہ اردو، لاہور

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے