Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اخطاص دیو

محمد ہمایوں

اخطاص دیو

محمد ہمایوں

MORE BYمحمد ہمایوں

    دلچسپ معلومات

    ایک شہزادے کا قصہ جو دیو اور پری زادوں کا دشمن تھا اور ان کو قتل کرنے کے در پے تھا۔ اس کا سامنا اخطاص دیو سے ہوا جس کے قبضے میںطاقت کا سرچشمہ سامری کا سہ رخی مہرہ تھا اور وہ اس سے مہرہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔۔

    اخطاص دیو، گرجتا،برستا، چیختا، چنگھاڑتا، بے ہنگم ہاتھ اورستون نما ٹانگیں لئے بصد غرور ایک ایک سیڑھی پر پاوں رکھتا، ڈولتا ہوا قلعے سے نیچے اتر آیا۔ جب نگاہ کی تو اپنے عین سامنے پادشاہزادے کے لشکرِ آراستہ کوہوشیار، باندھے چار ہتھیار واسطے جدل کے ہر دم تیار پایا۔ایک لمبی سانس لے کر دیو آگے بڑھا اور اپنے تئیں مصمم ارادہ کیا کہ سپاہ جانثار کے آمادہ بر پیکار لشکر جرارکو کچل ڈالے۔

    دیو کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر لشکر کے سراسیمگی پھیلی۔صف کے صف تھر تھر کانپنے لگے۔۔ہر سپاہی و سرہنگ کا رنگ پتنگ سا اڑ گیا۔۔ چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔۔ سب کے پسینے چھوٹنے لگے۔ جانبازوں کو لرزہ بر اندام دیکھ کردیو نے تبسم کیا۔اسے اپنی فتح کا یقین ہو چلا۔

    پادشاہزادے نے ماجر ہ متزلزل دیکھا تو باآواز بلند دیو کو یوں للکار ا۔

    ’’اے مجہول تو کس باعث بات کو بے جا طول دیتا ہے ؟۔ان سپاہ کو بیچ سے نکال،مجھ سے دوبدو لڑ۔ خدا کی قسم میں تجھے چھٹی کا دودھ یاد دلاوں، ایک ہی ہاتھ میں دو ٹکڑے کر دوں۔ تو خوب جانتا ہے کہ تیرے اور میرے بیچ یہ تنازعہ تو تب ختم ہوگاجب تو یا تو کامل میری اطاعت میں آکر مجھے طلسمی مہرہ دے اور یا میں تیرا سر تن سے جدا کرکر تیرے حلقوم سے مہرہ کھینچ نکالوں۔۔ بول کیا کہتا ہے ؟ گو تجھ پر جبر نہیں،پھر بھی شتابی کر کہ مجھے صبر نہیں‘‘۔

    بیت

    جو تو چاہے وہ ہوگاانجام جنگ

    مجھے مہرہ دے دے یا لے گور تنگ

    عزیزو جان لینا چاہیئے کہ ملک یمن کا شہزادہ رونق الدہر سید شجاع، مرد با صفا، پادشاہزادی کفترانگبین لب پر سو جان سے فدا، اپنے والد سلطان گرامی الدہر سید شجاع کا ثنا خوانِ پر وفا، ایک لشکر جرارکے ہمراہ اخطاص دیو کے قلعے کے سامنے جا پہنچا تھا کہ اس سے بموجب فرمان سلطان عالیشان سامری جادوگر کا طلسمی مہرہ حاصل کرے۔

    بیت

    تھا جوش جوانی مہارت ذیادہ

    لڑائی میں یکتا، سوار اورپیادہ

    خاصیت اس سہ رخی مہرے کی یہ بیان میں آتی تھی کہ اس سے زمام اقتدار کو دوام ملے، شمشیر کی کاٹ میں تاثیر پیداہو، تیر کار گر ہو، گرزپر اثر ہو۔۔قلمرو کا ہر فرد، چاہے ہوشیار ہو مدہوش ہو، ظاہر ہو روپوش ہو، اس مہرے کے باعث طوعاً وکرہاً سلطان کانگاہ پست و دست بستہ سفتہ گوش ہو۔ یہاں تک ہوئے کہ شاہ کی مرضی کے خلاف قلمروکا ایک پتہ بھی نہ ہلے۔مختصر یہ کہ اسی مہرے کی بدولت سلطانِ عالی شان، جہانِ پادشاہان میں مطلق العنان ہوئے اور رعایابلا چون و چراں اس کی تابع فرمان ہوئے۔

    اس مہرے کو پانے واسطے ہزاروں شجاع نہ صرف خون کی ندیاں بہا چکے تھے بلکہ اپنی جانیں بھی گنوا چکے تھے اور بے شک اس مہرے کی خاطر قریے کے قریے، شہر کے شہر لہو میں نہا چکے تھے۔ جو بھی اس مہرے کو حاصل کرنے کے جتن کرتا تھا لامحالہ ذلت اور شکست پر مجبور تھا کیونکہ اس مہرے کی حفاظت پر اخطاص دیو مامور تھا۔

    اس دیو کا بیان پر ہیجان یوں نقل میں آتا ہے کہ وہ مہیب الشکل تھا، پر قہر تھا، سفاک تھا، چالاک تھا اور مکر و فریب میں طاق تھا۔ مزید براں، طبعیتاً مغرور تھا اور پورے جہان میں لشکر کے لشکر کچلنے واسطے مشہور تھا۔

    مبرہن رہے کہ دیو ہرات اور مروکے قلمرو کا حکمران تھا اور اس کے ہمراہ خرابی پر مائل بیسیوں تنومند دیو ایسے تھے جو خوش خوراک تھے اورغارت گر املاک تھے۔ یہ دیوپیہم لوگوں کے منہ سے نوالے چھینتے تھے اور قلمرو میں فساد بے حساب مچاتے تھے۔

    تدبیر ان کی حکومت کی یہ تھی کہ سب کے سب چرب زبان اور چالاک تھے اور باوجود یہ کہ،وہ خون ریز تھے، مردم ستیز تھے، غرور انگیز تھے، ان کے ظلم و ستم سے چشم ہائے خلق لبریزتھے وہ پھر بھی عوام میں ہر دل عزیز تھے۔جس جس نے ہمت کی کہ ان کے خلاف زبان کھولیں وہ انہیں بے زبان کرتے، محبوس کرکر بے نام و نشان کرتے، ان کے گھرویران کرتے اور ان کے اہل وعیال کو بے جا پریشان کرتے۔

    پادشاہزادے کی للکارسن کر اخطاص دیو نے ایک لمحہ توقف کیا۔ رخ لشکر سے موڑکرتوجہ پادشہزادے کی جانب مبذول کی اور اس پر سر تا پیر، ایک نظر غیض و غضب سے بھری، اس طور ڈالی کہ اپنی انگارہ نما آنکھیں اس کی آنکھوں میں پیوست کیں۔

    پادشاہزادے نے بھی جواب میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مشاہدہ اس کے خدوخال کا کیا۔

    دیکھنے میں دیو ہاتھی جتنا اونچا اور چوڑا تھا، اس کا چہرہ شدت غیض سے تمتماتاتھا، منہ سے کف جاری تھا، کان بادبانوں جیسے پھڑپھڑاتے تھے اور سننے میں آتا تھا کہ تیز اِتنے کہ ہند کی قلمرو میں بھنبھناتے مچھر کو بھی سن لیں۔ اس کی ناک گویا خنزیر کی تھوتھنی تھی، لمبی بھدی، آنکھیں شعلہ بار، زبان دل آزار، خصلت خون خوار، جسم بدبودار، لباس داغ دار، اوردانت جیسے خنجر، نئے چمک دار۔

    دیو نے ایک لمبی سانس لی اور اپنی مٹھیاں متعدد بار کھول کر بند کیں، اس کے نتھنوں سے بھاپ نکلی اور اس کا چہرہ آہن سرخ کی مانند دہکنے لگا۔ دفعتاً اس کی گردن کے بال نیزوں کی مانند کھڑے ہوگئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کا قد اتنا بڑھ گیاکہ پہاڑوں سے بھی اونچا، آن کی آن میں ہمسر فلک ہوگیا۔ ایک کیفیت غیض و غضب میں پادشاہزادے کی طرف اس صورت چل پڑا کہ زمین کا سینہ شق ہوگیا۔۔اس میں جا بجا گڑھے پڑ گئے۔

    دھم، دھم، دھم۔جہاں جہاں پڑا عفریت کا قدم، ابل پڑا وہاں سے اک چشمہ خم بہ خم۔

    دیوپادشاہزادے کے عین سامنے آن کھڑا ہوا اور طیش میں آکر اپنی چھاتی اس طریق پر پیٹنی شروع کی کہ شرق و غرب دہل اٹھے۔ پھر وہ دفعتاًاس شدت دھاڑاکہ اس کی صدائے پر ہیبت و دلخراش کے ارتعاش سے پہاڑخشخاش بنے۔

    پادشاہزادے نے جب دیکھا کہ دیو بس جھپٹا ہی چاہتا ہے تو دو قدم پیچھے ہوکرچوڑا کھڑا ہو ا۔ تلوار سونت کراپنے داہنے ہاتھ میں پکڑ، یکلخت بائیں جانب سے اس پر حملہ آور ہوا۔

    ابیات

    وہ شاہزادہ آگے بڑھا سر بکف

    رہے پیچھے سرہنگ و سربازِصف

    ’’سرافراشتہ، تیرزن صف شکن

    زرہ پوش و آہن بدن، پیلتن‘‘

    دیو بھی گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے ہوے تھا۔۔ پینترے بدل بدل کر وار کرتا رہا۔ لڑائی نے طول پکڑا ،شام ڈھلنے کو آئی اور دونوں پر آثار ماندگی کے غالب آنا شروع ہوئے لیکن شام ہی کا پادشاہزادے کو انتظار تھا کیونکہ اس کو علم تھا کہ اخطاص دیو شب کور تھا۔

    جیسے ہی سورج ڈوبا، پادشاہزادے نے اسم اعظم پڑھا اور اس کی برکت سے دیو کا قد واپس اپنی حالت پر آیا۔ رات چھائی تو دیو کی بینائی یکسرمعدوم ہوئی۔۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر شاہزادے کو دیکھنے کی سعی کی۔۔ بڑاسٹپٹایا مگر اس کو کچھ نظر نہیں آیا۔ یہی موقع تھا جب شہزادہ رونق الدہرنے آگے بڑھ کردیوکو دھکا دیا۔۔وہ لڑکھڑایا اور اپنے ہی پاوں کے ایک نشان میں گرکر اس میں دھنس گیا۔

    پادشاہزادہ فوراً اس کی چھاتی پر چڑھ بیٹھا اور سلطانی جڑاو خنجر نکال، اس کی گردن پر رکھ کر ارادہ باندھاکہ اس ناپاک دیو کا کام ہمیشہ کے لئے تمام کرے لیکن اس نے صرف ایک بار، واسطے تشفی قلب اورتقاضا ہائے انصاف کے اس سے اس بات کا استفسار کیا۔

    ’’اے اخطاص دیو کیا تو ہی وہ ہے جس نے تبریزکو تار تار کیا، سلطانی محل مسمار کیا، ہر کس و ناکس پر وار کیااور ہزاروں لوگوں پر ظلم بے شمار کیا ؟‘‘۔

    جاننا چاہیئے کہ پادشاہزادہ انصاف کا شیدائی تھا، کسی کے ناحق قتل کرنے کو روا نہیں سمجھتا تھا اور اس واسطے ہر کافر ناہنجار دیو کو ایک موقع ضرور دیتا تھا کہ کچھ اپنی صفائی میں بیان کرے۔

    ’’اے انصاف کے اصولوں سے بے خبر دھوکے باز پادشاہزادے، اے فلاں کے فرزند جو چھپ کے وار کرتا ہے تو اس وقت غالب ہے اور مجھ سے ہر بات منوا سکتا ہے۔۔تیرا خنجرمیری شہ رگ پر ہے۔ بے شک انصاف تو یہ ہے کہ تو میری چھاتی سے اتر کر، مجھے اس دلدل سے نکال کر، سامنے بٹھا کر مجھ سے یہ سوال کرے۔تب میں جیسے چاہوں عندالقلب جواب دوں‘‘

    شہزادہ رونق الدہر نے مغلوب دیو کی جرات پر تعجب بے شمار کیا اور اس گستاخی اور بے موقع کلام سے اس کی سانسیں تیز، آنکھیں سرخ، منہ لال اور گردن کی رگیں پھول گئیں۔ پسنیے میں ڈوبے پادشاہزادے نے دیو کی چھاتی پر گھٹنے ٹیک کر دباو اتنا بڑھایا کہ اس کی کٹورہ نما آنکھیں باہر نکل آئیں، دیو کی گردن بائیں ہاتھ سے اس شدت سے دبوچی کہ اس کی زبان منہ سے باہر نکل آئی اور ماہی بے آب کی مانند تھرکتی، پھڑپھڑانے لگی۔

    اس امر سے دیو کا چہرہ گہرا نیلا ہوگیا اور جب اس کا دم گھٹنے کے قریب آیا تو پادشاہزادے نے خنجر کی نوک اس کی گردن میں بس اتنی گھسیڑی کہ اس کی شہ رگ کو چھونے لگی اور اس کی گردن سے خون رسنے لگا۔

    ’’بول اخطاص کیا تو اقرار کرتا ہے کہ تو نے خلق خدا کوناحق اشکبار کیا؟‘‘

    دیو کی سانس اکھڑنے لگی اور اس نے کراہتے ہوئے در کی شدت سے آنکھیں بھینچیں

    ’’پادشاہزادے کیا تو نے عجم کے شاہزادے کا قصہ سنا ہے جو تیری طرح بہادر اور دیو کش تھا۔ اسی ہی نے تو تورازند دیو کو اپنی دانست میں جہنم واصل کیا اور خردنگ دیو کو ایک ہی وار میں نامرد کر دیا تھا۔ بے شک وہ تو بڑے بڑے دیوں کی مردانگی ثانیوں میں نیست و نابود کر دیا کرتا تھا، یہ قصہ عجیب ہے ویسے اور مجھے یقین ہے تو نے نہیں سنا ہوگا‘‘

    پادشاہزادہ مزید غیض میں آیا

    ’’اے ترجمان جاہلان تیرا اس بیہود ہ بیان سے کیا منشا؟ کیا تو بھی اسی بات کا طلبگار ہے کہ میں تجھے بھی نامرد بنا کر،تیرے ٹکڑے ٹکرے کروں اور قلمرو کے کتوں کو کھلا دوں؟۔۔ بول جواب دے۔۔ مجھے شتابی ہے‘‘

    اخطاص دیو نے گلا کھنکارہ اور اپنی آواز پست کی

    ’’اے عالی نسب پادشاہزادے،اے زیرک سلطان کے بہادر بیٹے، زیر بہ دست زبر کہ وہ جو چاہے کرے لیکن کیا تو اس قصے کو بھی نہیں سننا چاہتا جب توران کی پادشاہزادی کا دل کسی کے واسطے دھڑکنے لگا، اس کا چین گیا، آرام گیااور اس نے اپنی محبوب ترین سہیلی سے کہا

    ‘‘ کوئی ہے جو میرے نکاح کا پیغام اس بے خبر تلک پہنچا دے‘‘

    یہ واضح رہے کہ پادشاہزادہ رونق الدہر پڑھنے لکھنے کا عاشق، ذہین و فطین تھا، قصوں،کہانیوں، احوال، بیانوں، کیفیتوں، سرگزشتوں، رودادوں، حکایتوں اور داستانوں کا تا غایت شوقین تھا۔ ہزاروں قصے اس کو زبانی یاد تھے لیکن یہ عجیب قصے جو دیو نے بتلائے نہ تو اس نے سنے تھے اور نہ پڑھے تھے۔

    اس بیان کا اثر یہ ہوا کہ اس کے خنجرکی چبھن میں کچھ کمی ہوئی اور اس نے دیو کی چھاتی سے ایک گھٹنا ہٹا دیا اور باہنے ہاتھ کی گرفت کم کی۔

    اس امرسے دیو نے سکھ کا سانس لیا اور اس کے چہرے کی رنگت واپس لوٹ آئی۔

    ’’پادشاہزادے آپ نے تو وہ بھی قصہ نہیں سنا ہوگا جب جو نہیں ہونا تھا ہوگیا اور ہونی توہو کر رہتی ہے۔۔شکار کے لئے نکلی پادشاہ زادی لالہ رخسار اپنے ہی تیر کا شکار ہوگئی، یہ قصہ تو ویسے سننا لازم ہے‘‘

    پادشاہزادہ رونق الدہر دیو کی چھاتی سے اتر آیا، اپنا جڑاو خنجر صاف کرکر اپنے نیفے میں اڑس لیا، تلوار نیام کی اورماتھے سے پسینہ پونچھا

    ’’اے دیو مجھے تجھے قتل کرنے کی شتابی ہے اور یہ مت سمجھ کہ تیرے بیہودہ قصے سن کر میں تجھے زندہ چھوڑ دوں گا، خدا کی قسم، تجھے تو میں جہنم واصل کرکے رہوں گا‘‘

    یہ کہ کر اس نے دور کھڑی سپاہ کو اشار ت کی کہ دھنسے دیو کو زمین سے کھینچ نکال، اس کی مشکیں کس، اسے زیر زمین زندان میں مقید کرکر اس پر پہرہ کڑا مقرر کیا جاوے تاکہ اس اذیت رساں دیو کو کچھ دن بعد تہ تیغ کرکے جہنم واصل کیا جاوے۔ یوں عوام کو اس کی شر سے نجات ملے اور خلق اللہ سکھ اور چین سے رہے۔

    مبرہن رہے کہ پادشاہزادہ عوام کی فکر میں گھلتا تھا اور ہر دم ان کے غم میں کڑھتا ان کو سکھ اور چین دینے کے لئے بے قرار رہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ تمام دیو نیست و نابود ہوجائیں اورلوگ چین سے زندگی بسر کریں۔ اس کے برعکس عوام اپنے حال میں مست اور دیو اور پری زادوں کے ظلم و ستم کے نیچے فاقہ مست پڑے رہتے تھے اور ٹس سے مس نہیں ہوتے تھے مگر ہٹے کٹے دیووں کی حکومت میں کراہتے ضرورتھے۔ اس بات کا پادشاہزادے کو بہت قلق تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طور لوگوں میں شعور آئے اور دیووں کو اپنے اوپر مسلط نہ کریں۔

    اس رات پادشاہزادے نے دیو کو اپنے خیمے میں بلایا، گاجرکے حلوے سے اس کی ضیافت کرکے اس سے طلسمی مہرہ مانگا جو اس نے بلا حیل و حجت اپنی حلقوم سے نکال کر اس کے حوالے کیا۔ پادشاہزادے نے اس مہرے کو دیکھا۔

    مہرہ، سہ جہت اور سہ رنگی تھا اور ہیئت میں گویا ایک نارنگی تھا۔ گاہے آسمان رنگ، گاہے سفید اور گاہے سرخ نظر آتا تھا۔ گوترکیب میں شفاف تھا لیکن اس میں عکس الٹا نظر آتا تھا۔ دیو نے دیکھاکہ پادشاہزادہ اس مہرے کے سحر میں مبتلا، کہانی سننے کا مشتاق تھا۔

    ’’گو مجھے کچھ بھی اشتیاق نہیں لیکن اس پادشاہزادی کا کیا قصہ ہے جو اپنے ہی تیر کا شکا ہوگئی اور جسے سننا لازم ہے اور مرو کے اس والی کا کیا قصہ ہے اور وہ کون پادشاہزادی تھی جس کا دل کسی کے لئے دھڑکنے لگا ؟‘‘

    اس پر دیو نے تبسم کیا اوراپنے کلام کی ابتدا کی

    ’’اے غیرت مند پادشاہزادے، اے عالی نسب اور پر وقار امیر، اے بہادر سپاہی یہ تینوں بیان ایک ہی قصے کے مختلف رخ ہیں،بعینہ جیسے آپ کا یہ سہ رخی مہرہ۔

    اب جو آپ ہمہ تن گوش ہیں تو میں یہ قصہ آپ کے گوش گذار کئے دیتا ہوں اگر آپ کا اذن میسرہو‘‘

    پادشاہزادے نے اثبات میں سر ہلا کر اجازت مرحمت فرمائی اور دیونے قصہ شروع کیا

    

    قصہ پادشاہزادی لالہ رخسار کا اورپھنسنا پادشاہزادے کا جال میں

    ’’اے پادشاہزادے ٹک نظر کیجئے، توجہ کرکر سنیئے اور اس داستان سے عبرت حاصل کر یں کہ خطا میں ڈوبا،گناہ میں لتھڑا، قدرت کا بنایا مٹی کا یہ تودہ، جو اشرف المخلوقات وعالی صفات ہے، حامل بلند درجات و مقامات ہے اور وجود جس کا پر از کمالات ہے،در حقیقت دو سانسوں کا محتاج اور تحقیق حیات اس کی حد درجہ بے ثبات ہے۔

    بیت

    سنتا ہوں بڑے غور سے افسانہ ہستی

    کچھ خواب ہے کچھ اصل ہے کچھ طرز ادا ہے

    زن،زر،زمین کے سودے میں الجھا یہ پر غرور پتلا کہنے کو تو انسان ہے لیکن ضعیف البنیان ہے، مرکب من الخطا اور نسیان ہے۔

    اے پادشاہزادے !

    داستان کے بیان سے پہلے لازم ہے کہ حمد پڑھی جاوے اس ذات کی جس نے یہ دنیا بنائی اگرچہ خامہ خشک زبان و خشک مغز کی کیا مجال کہ اس ذات ذوالجلال کی ثنا کا حال لکھنے کی سعی کرے کہ بے شک اگر کوئی ازل سے ابد تک ا س کی مدح تحریر کرے۔۔اس کی تعریف میں تقریر ہائے پر توقیر کرے۔۔نہ ثنا کا حق پورا کر سکے نہ اس کے حسن اور شان بے ہمتا کی تعبیر کرے۔۔ ہاں وہ پاک ذات اس کوشش میں لگے بندے کی ضرورمعاف تقصیر کرے۔

    بیت

    حق نہیں ہے نہ سہی تیری سخاوت کے حضور

    ہے مرا کام تمنا کی جسارت کرنا

    پھردورودبھیجا جاوے نبی عالی نسبﷺ پرکہ اِن جیسا کوئی اس دنیا میں نہ آیا نہ آئے گا۔ پھر، سلام ان کی آل اولاد پر، ان کے ہمہ اصحاب پر اور تمام صالحین پر۔

    بیت

    اے زہے قسمت اگر دشت جہاں میں آپؐ کے

    نقش پا پر چلتے چلتے نقش پا ہو جایئے

    دیو نے دیکھا کہ اس کلام سے پادشاہزادے کے چہرے کی سختی کافور ہو گئی اور اس کا دل نرم ہوگیا۔ درحقیقت اس ملعون کا اس کلام سے مطلوب و مقصود بھی یہی تھا کہ وہ شیطان رطب السان نام کو تو مسلمان تھا لیکن در پردہ ابلیس کا ثنا خواں تھا، مکار تھا۔ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر، باتوں میں مٹھاس ملا کر لوگوں کو دھوکہ دینا اس کا شعار تھا۔

    دیو نے کلام کا سلسلہ آگے بڑھایا

    ’’اے عالی مقام پادشاہزادے یہ قصہ تب شروع ہوا جب پادشاہزادی، سلطان توارن احتشام الدین امیر کی بیٹی، حسن میں بے نظیر۔۔ لمبے بالوں اور کتابی چہرے والی، غالیہ مو، نیک خو، چہرہ اس کا مو سیاہ میں مانند مہ نیم ماہ، نسب معتبرکو شکار کی خواہش حد درجہ ہوئی اور اس واسطے جنگل جانے کا قصد کیا۔جاننا ضروری ہے کہ پادشاہزادی کے سرخ رخسار پر ایک تل سیاہ تھا جس باعث اس نازنین زہرہ جبین کا نام لالہ رخسار تھا۔

    بیت

    اب میں سمجھا ترے رخسار پہ تل کا مطلب

    دولت حسن پہ دربان بٹھا رکھا ہے

    سلطان توارن نے مہم پر جانے سے پہلے اپنی دختر نیک اختر کے ہمراہ دو سو سوار اس کی حفاظت پر مامور کئے، از قصر تا شکار گاہ تمام عوامل ضرر رساں دور کیئے، نقد و جنس، دواب و لشکر غرض جو اسباب سفر کے واسطے درکار تھا مہیا کر کراس کا ماتھا چومااور اپنا سلطانی ترکش اس کے حوالے کیا۔

    ’’اے میری آنکھوں کی نور، میرے دل کی قرار یہ مبارک تر کش لے جس میں نہ ختم ہونے والے تیرہیں اور پھر تو پورا دن شکار کر۔ خبردار رہیو اس تر کش میں موجود سنہری مبارک تیر ہر گز استعمال نہ کیجو کہ اس سے کسی ذی روح کا خون نہیں بہتا اور بے شک یہ تیر تو واسطے شکار کے ہے ہی نہیں۔ اس تیر کی برکت سے البتہ ترکش میں تیر بحکم یزدان ختم ہونے میں نہیں آتے۔‘‘

    تو پھر تو پادشاہزادی دن بھر شکار سے دل بہلاتی رہی۔ دفعتاً ایک ہرن، تیز و طرار،مانند رہوار صاعقہ رفتار کو دیکھا کہ چشم زدن میں اس کے سامنے قلانچیں بھرتا اس طور گزرا گویا بجلی چمکے۔ پادشاہزادی نے اس کے پیچھے گھوڑا اٹھایا اور یوں پیچھا کرتے کرتے اپنے محافظوں اور سہلییوں سے بچھڑ گئی۔ کوسوں دور ایک گھنے جھنڈ کے پاس دیکھا کہ وہی ہرن دنیا و ما فیہا سے بے خبر تالاب میں اپنے عکس کے نظارے میں مشغول،اپنے تئیں غرور میں مبتلا پانی نوش کرتا ہے۔۔دل میں اپنی پتلی ٹانگوں کو کوستا ہے۔۔ اپنے دہ شاخہ سینگوں کو دیکھ کر خوشی سے پھولانہیں سماتا۔

    ہرن کو یوں بے خبر پایا تواس کے نظارے سے محظوظ ہوتے ہوتے پادشاہزادی چوک گئی اور اس نے غلطی سے مبارک تیر اپنے تر کش سے کھینچ نکال، کمان میں جوڑ، تاک کر، پوری قوت سے کمان تان کر، ہرن کو نشانہ بنا کر تیر داغ دیا۔

    تیرنوکدار، از پیکان تا سوفا ریکساں ہموار و شعلہ بار، ہوسِ ہدف میں گرفتار،چشم زدن میں سنسناتا سرسراتا، ہوا میں سرنگ بناتا،شست کے دوش پر سوار،مستقیم روش پر پراں مانند عقاب برق رفتار، لپک کر سیدھا اس غزال نا ہشیارکی طرف ایک سرعت بے شمار سے بڑھا لیکن حیف صد حیف کہ ایک دست غیبی نے اسے عین اس وقت موڑ دیا جب وہ غرض سے بس ایک ہی بالشت دور تھا۔۔ بھٹک گیا اور ایک ارتعاش کے ساتھ، ایک درخت کے آر پار پیوست اس میں اٹک گیا۔

    بیت

    سب نشانے اگر صحیح ہوتے

    تیر کوئی خطا نہیں ہوتا

    ہرن نے تیر کی سنسناہٹ سنی تو اس کے غرور کا نشہ ہرن ہوگیا اور وہ ایک زقند لگا کے، یہ جا وہ جا، چھلاوہ بن، وہاں سے تیر ہوگیا۔

    پادشاہزادی کو احساس ہوا کہ جو نہیں ہونا چاہیے تھا، ہوچکا۔

    درخت کے پاس پہنچ کر پادشاہزادی نے اپنے والد کا مرغوب تیرنکالنے کی سعی کی۔ اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑا، پیر تنے پر رکھے اور پوری قوت سے باہرکھینچا۔ تیر اس کے ہاتھوں سے بار بار پھسلا اور اس سعی میں اس کا حجاب کھلا، چہرہ بادہ رنگ ہوا اور اس کے حسین جبین پر خال مشکین اور ابھر آیا۔ اس نے سو جتن کئے مگر ہر بارمنہ ناکامی کا دیکھنا پڑا۔

    ناچار وہاں بیٹھ کر محافظوں کے انتظار میں اپنی قسمت کو کوس کر رونے لگی۔

    اسی اثنا میں ایک مرد،بارعب، قد بلند، نگاہ تیز، چوڑے کندھے، جسم مظبوط، آواز پاٹ دار گھنے درختوں کی جھنڈ کی اوٹ سے نکل آیا۔اکیلی پادشہزادی کو مغموم دیکھ کر وہ سارا ماجراسمجھ گیا۔ اس نے دو انگلیوں سے پکڑ کر درخت سے تیر کھینچ نکال، پادشاہزادی کو تھما دیالیکن اس بات کا خیال رکھا کہ پادشاہزادی، جو بے حجاب تھی، اس کی نظر اس پرنہ پڑے۔

    ’’اے مرد تو کون ہے جو میرے لئے رحمت کا فرشتہ بن کر آیا ہے، تجھے تو اس بہادری کا انعام ضرورملے گا۔ آگاہ رہوہم پادشاہزادی لالہ رخسار ہیں، توران ہمارا قلمرو ہے‘‘

    اس مرد نے پیہم نظریں نیچی رکھیں

    ’’اے پادشاہزادی میرا اجر مجھ پر واقع ہوچکا پس مزید کی مجھے طلب نہیں‘‘

    یہ کہ کروہ مرد وہاں سے چل دیا۔ جانتے ہو شہزادے رونق الدہر وہ مردکون تھا؟

    ’’اخطاص تو اپنی کہانی جاری رکھ‘‘

    پادشاہزادہ ہنوز اس مہرے اور کہانی کے سحر میں مست ومخمور تھا۔

    اخطاص نے سر ہلا کر تائید کی

    ’’ادھر تیر نکال کر وہ مرد وہاں سے گیا اور ادھر ایک تیر عشق کا اس گل صورت پادشاہزادی لالہ رخسارکے دل میں پیوست رہ گیا۔ اب وہ بدنصیب جو اپنے حبیب کے عشق میں مرنے کے قریب ہوئی، آہیں بھرتی اپنی سہیلی خوش ترکیب سے رازداری میں ایسے ہمکلام ہوئی

    ’’اے خوش ترکیب ڈھونڈ کسی کو، پتہ کر، کھوج کر، کیا کوئی ایسا ہے جو میرے نکاح کا پیغام اس بے خبرتلک پہنچا دے۔اے خوش ترکیب کون ہے یہ ؟ کہاں کا باشندہ ہے ؟ جس کا نقشِ الفت لوح دل پر مرقوم ہے۔

    جاننے میں نہیں آتا وہ اس وجاہت سے کیوں میرے دل میں مہمان بنا بیٹھا ہے کہ اس کی آنکھوں کے تیر میرے دل اور جگر میں پیوست ہیں اور بے آرامی ہے۔جس کو دیکھا تو مجھے دنیا جہان کی خبر نہیں اور تصور اس کا ہر لمحے آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔۔ ہائے اللہ۔۔دن کا چین گیا رات کا آرام گیا، ہر گھڑی جستجو ہے، ملنے کی آرزو ہے اور ہر لمحے فراق یار میں بیمار ہوں۔

    بیت

    فراق یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا

    کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا

    خوش ترکیب نے اپنے پستان بند سے ایک سفوف زمرد رنگ نکالا اور اسے شمع پر چھڑکا۔

    آن کی آن میں دھوا ں چھا گیا اور دیوار میں ایک دریچہ طلسمی نموردار ہوا۔ اس میں اسے ایک شہسوار نظر آیا کہ اپنے صبا رفتار، چہار نعل رفتار رہوار برق رفتارپر سوار، ہاتھ میں پکڑے ننگی تلوارگرد و غبار میں ڈوبا شمال کی جانب رو بہ سفر ہے‘‘

    ’’پادشاہزادی لالہ رخسار کیا یہی شہسوار سمند باد رفتار تیرے دل کا قرار ہے ؟‘‘

    پادشاہزادی نے دل تھاما، آہ بھری، آنکھیں بند کیں

    ’’ارے ہاں یہی تو میرے دل کا قرار ہے، آنکھوں کا نور ہے، خوابوں کا سرور ہے‘‘

    یہ سن کر خوش ترکیب نے اپنے پستان بند سے دوبارہ ایک سفوف لالہ رنگ نکالا اور اسے ٹمٹاتی لو پر چھڑکاجو اب ایک کبوتر کی شکل بنا۔ خوش ترکیب نے اس کبوتر کو مخاطب کیا

    ’’اے آتشیں کبوتر، جا اور اس مرد بے خبر کی خبر لا‘‘

    کبوتر نے اس حکم کی فی الفور تعمیل کی اور نظروں سے غائب ہوگیا۔ کچھ ساعت بعد کبوتر حاضر ہوا اورخوش ترکیب نے اس کے پیر سے بندھا رقعہ کھول کر پڑھا

    ’’یہ مرد ملک عجم کا پادشاہزادہ مہرگیر ہے۔دوبھائیوں میں چھوٹا ہے ولی علم و فراست میں جہانگیر ہے، جمال میں بدر منیر ہے، حرب میں طاق، شجاعت میں مفرد و بے نظیر ہے، نسب اس کا عالی، خود صاحب وقار، علامہ زماں، رستم دوراں، رعب ودبدبے میں پر توقیر ہے۔

    پادشاہزادہ مہر گیرامور جنگ میں ہونہار، طبعیت سے ملنسار، آوازرعب دار، ظاہر و باطن اس کا دیندار، صحبت میں بردبار، میل ملاقات میں وضعدار، غریبوں کا مددگار، اللہ سے استعانت کا طلبگاراور سلطان کے حکم پر جان نثار ہے۔ نیز دیو پریزادوں سے نفرت بے حساب کرتا ہے اور سدا ان کے قتل میں بیتاب مانند سیماب رہتا ہے۔ اس نے ملک ایران و توران وکیہان کے تمام جنوں کو تہ تیغ کیا، خردنگ دیو کو تلوار کے ایک وار سے نامرد بنا چھوڑا اور اب۔۔‘‘

    یہ سن کر پادشاہزادی کو ابکائی سی آگئی

    ’’اری بس کر مجھے کیا غرض وہ کیسے نامرد بناتا ہے، تم بھی بس۔ اری خوش ترکیب مجھے تو وہ کاٹ دار طریقہ بتا کہ اس تلک اپنے نکاح کا پیغام پہنچاوں اور باقی عمر اس کے ساتھ گزاروں‘‘۔

    ’’پادشاہزادی یہ کام مشکل ہے اور یہ اس باعث کہ اس کی گردن میں ایک تعویذ ایسا ہے کہ اس کی برکت سے اس کے نزدیک کسی بھی جن و انس کا پہنچنا مشکل ہے ماسوائے ان کے جن سے وہ خود ملاقات کا متمنی ہو۔ اگرچہ اس کام میں کھٹکا جان کا ہے لیکن میں یہ کر کے رہوں گی، اگر خدا نے چاہا۔ میں نے سنا یہ ہے کہ گھنے جنگل میں زمردی جھاڑی کے قریب اس تعویذ کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔ اب تدبیر یہ ہے کہ میں کسی طریق سے اسے وہاں لے جاوں‘‘

    یہ کہہ کر خوش ترکیب نے ایک سفوف عجیب اپنے چہرے پر ملا اور ہرن کا روپ دھار،جنگلوں کی طرف چلدی اور وہاں بسیرا کیا جہاں شہزادہ مہر گیر واسطے شکار کے آتا تھالیکن اسے کیا خبر تھی کہ اجل اس کے انتظار میں تھی۔

    بیت

    ہر دم دم آخر ہے اجل سر پہ کھڑی ہے

    دم بھر بھی ہم اس دم کا بھروسہ نہیں کرتے

    تیسرے روز اس نے دیکھا کہ پادشاہزادے نے شکار گاہ میں خیمہ گاڑ رکھا ہے تو وہ آہستہ آہستہ ٹہلتی وہاں چلدی۔صبح جب واسطے شکار کے پادشاہزادہ تیار ہوا تو دفعتاً اس ہرن پر نظر پڑی۔ایک ہرن، صاعقہ رفتار اس کے سامنے قلانچیں بھرتا آیا اور چشم ِزدن میں یہ جا وہ جا غائب ہو گیا۔

    پادشاہ زادے نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ دی اور اس کا تعاقب کیا۔ وہ فرس صبا رفتار ہوا سے ہمکلام اس ہر ن کے پیچھے پڑا مگر ہرن قابو نہ آیا اور وہ اس کے تعاقب میں چلتا گیا۔

    اسی مشغلے میں پادشاہ زادہ اپنے رفیقوں سے بچھڑ کر، جنگلوں سے گزر ایک بیابان میں پہنچا جہاں وہ غزال، تشنہ کام، واسطے پانی پینے کے ایک نخلستان میں جا رکا اور تالاب میں اپنی شبیہ میں مستغرق ہوگیا۔ اس کو یوںاپنے اندر گم دیکھ کر پادشاہ زادے نے تیر جوڑا اور کمان کھینچ، نشانہ اس کے دل کا لیا۔

    تیر کمان سے نکلا اور اچھل کر تر کش میں واپس آگیااور یہ بار بار ہوا۔ شہزادے کا ماتھا ٹھنکا اور اس نے دل میں گمان کیا کہ مقرر ادھر کسی سحر کااثر ہے۔ ہرن نے پانی پیا اور اس نخلستان کے جھنڈ میں گم ہو گیا۔ پادشہزادہ انگشت بدندان کھڑا تماشہ دیکھتا رہا۔

    پادشہزادہ نے یکایک فیصلہ کیا اور اس کا پیچھاکرنے کی ٹھانی۔ ہوتے ہوتے، نخلستان سے گزر کر، پہاڑوں کے اس پار، وہ ایک گھنے درختوں کے جھنڈمیں پہنچ گیا۔ اس نے تاک کر ایک تیر کمان میں جوڑا لیکن نشانہ اس کا خطا گیا۔ اس پر شہزادے کی غیرت نے جوش مارا۔ اس نے تیر کی کج روشی کو اپنی شجاعت اورناوک فگنی پر حرف جانااور پے درپے تیر اس ہرن پر چلائے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ہر تیر جیسے ہی ہرن کے قریب پہنچتا، مڑ جاتا۔

    ایک تیرجو شہزادے نے بہت تاک کر کھینچا اور نادِ علیؓ پڑھ کر مارا، ہرن کی گردن میں پیوست ہوگیا۔ گردن فگار، خوش ترکیب نے ایک زقند لگائی اوربرق رفتاری سے جھنڈکے اندردوڑی۔

    پادشاہزادے نے گھوڑے کو ایڑھ دی اور اس کا پیچھا کرنے کی ٹھانی۔

    جھنڈگھنے سے گھنا ہوتا چلا گیا اور انجام کار ہرن کے سینگ زمردی جھاڑی میں پھنس گئے۔ اس کی گردن سے خون اتنا بہا کہ وہ ادھ موئی ہوئی۔ جب پادشاہزادہ وہاں پہنچا تو اس کو وہ ہرن اس حالت میں ملا کہ بس قریب المرگ تھا اور اس کا آدھا دھڑ عورت اور آدھا دھڑ ہرن تھا

    ’’اے سحر کے کارخانے کی ملکہ یہ کیا ماجر ا ہے ؟ کس باعث تو نے یہ زخم سہے ؟‘‘

    نازک بدن خوش ترکیب ٹوٹتی سانسوں کے ساتھ کراہتی رہی اور پھر یوں کلام کیا

    ’’اے بے خبر بادشاہزادے تجھے یہ خبر کرنے آئی تھی کہ کوئی بے صبرتیرے عشق میں جلتی ہے، جان بلب ہے۔۔سواس کے نکاح کا پیغام لائی ہوں۔ میں اپنی سہیلی کے لئے مر جاوں۔۔کوئی بات نہیں لیکن جو امانت اس کی ہے وہ تجھے دئیے دیتی ہوں‘‘

    یہ کہہ کر اس کا جون تبدیل ہوا اور وہ پوری عورت بن گئی، آخری ہچکی لی اور پادشاہزادے کو ایک رقعہ ایسا دیا جس میں متحرک تصویر پادشاہزادی لالہ رخسار کی نظر آتی تھی۔ مہر گیر نے یہ دیکھا تو سو جان سے اس پر فدا ہوا۔

    ابیات

    عاشق و معشوق باہم ہوں جہاں

    شوق نپٹ جوش میں آئے وہاں

    شمع کو پروانہ جو دیکھے کہیں

    رہ سکے نہ،گر پڑے اس پر وہیں

    پادشاہزادے نے جی میں یہ نیت باندھی کہ اپنے والد سے پہلے اجازت لے پھر توران کا سفر کرے اور اس پادشاہزادی سے نکاح کرکر زندگی کے مزے لوٹے۔

    پادشاہزادہ واپس خیمے میں پہنچا تو ایک قاصد نے خبر دی کہ کو اس کے والد سلطان عجم نے فی الفور بلایا ہے۔ عجلت میں سامان سفر کا تیار کروایا اور اپنے والد کے سامنے حاضر ہوا۔

    ’’اے فرزند ارجمند، دِق کے ہاتھوں میری موت کا وقت قریب ہے اور تیرا بھائی اور ولی عہد پادشاہزادہ رود گیر تخت پر براجمان ہوا چاہتا ہے اور یہ بار مہیب ہے۔ تجھ پر لازم ہے کہ اس کی حکومت کو دوام بخشنے کے واسطے ایک مہرہ سہ رخی کہ جسے مہرہ سامری کہتے ہیں فراہم کرجوکہ تورازند دیو کے قبضے میں ہے‘‘۔

    پھر سلطان نے اسے اپنی مہر حکومت دی اور کہا

    ’’اب جیسے جس اہل کار کو امور سلطنت کا اہل سمجھو اسے اپنے فرمان اور اس شاہی مہر سے تبدیل کرو معزول کرو، زنداں میں ڈالو یا اِعدام دو لیکن یہ میرا حکم ہے کہ ہر صورت وہ مہرہ حاصل کرو جو تیرے بھائی کی حکومت کو دوام دے۔ یاد رکھ، ہم تمہیں تین مہینے کا اختیار مطلق دیتے ہیں اور ساری حکومت کے خزانے، وزیر، تیرے تابع ہیں۔ پس شتابی کر اور اس فرمان کی تعمیل میں کوئی کوتاہی نہ کر‘‘

    پادشہزادہ گو دیووں پریزادوں کو قتل کرنے میں ماہر تھا، امورحرب کی اونچ نیچ سے واقف تھا اور اپنے والد کے فرمان کو مو بہ مو پورا کرنے میں ہر دم مستعد وتیار تھا لیکن دنیا کی اونچ نیچ کو نہیں سمجھتا تھا اور امور سیاست سے یکسر نابلدتھا۔ کون اس سے کیا چا ہتا ہے اس کو اس سے غرض نہیں تھی، بس جو اسے بتایا جاتا تھا وہی کرتا تھا اور اسی سبب اپنے والد اور بھائی کا از حد مطیع وتابع فرمان تھا۔

    جب پادشاہزادہ نے، بموجب اپنے والد کے فرمان کے، ایک لشکر جرار کے ساتھ، تورازند دیو کے قلمرو میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو دیو نے اپنا ایک ایلچی، امور رسالت میں طاق، ہمراہ سو تحائف کے اس کی خدمت میں بھیجا اور ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا۔

    شام کو بادشاہزادہ اور تورازند دیو اپنے سامنے بیٹھے تھے۔ آپ جانتے ہیں تورازند دیو نے کیا کہا؟‘‘

    ’’اخطاص تو اپنی کہانی جاری رکھ‘‘

    پادشاہزادہ ہنوزاس مہرے اور کہانی کے سحر میں مست و مخمورتھا

    ’’پادشاہزادے عالی وقار تورازند دیو نے مہرہ حلقوم سے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا

    ’’اے پادشاہزادے تو بے جا جتن کرتا ہے، دیوزادوں کو قتل کرتا ہے۔ جان لو نہ تو دیوزاد کبھی ختم ہونگے اور نہ ہی ان کا شر۔ تیری سو تلواریں کند ہوجائیں، زوبینیں ٹوٹ جائیں، تر کشوں کے تیر ختم ہوجائیں، گھوڑے ہانپتے ہانپتے جان دے دیں، سپاہ کے ہاتھ لڑ لڑ کر شل ہوجائیں پھر بھی۔۔ یاد رکھ۔۔ پھر بھی۔۔تو جتنے سر کاٹے گا، جتنی چھاتیاں چھیدے گااتنے ہی سر ابھریں گے۔۔ اتنے ہی دیوتیرے سامنے سینہ تانے کھڑے ہونگے‘‘

    پھر دیو نے اپنی آواز پست کی، اپنے لب شہزادے کے کانوں کے قریب لایا

    ’’میری صلاح ہے، اس پر پیکار زندگی کا کوئی مقصد نہیں، تدبیر کے ناخن لے، جنگ و جدل میں جان کا کھٹکا ہے۔مہرہ اب تیرے اختیار میں ہے، جا اپنے قلمرو میں جا اور وہاں کی پادشاہت سنبھال۔ ہزاروں لونڈیاں باندیاں رکھ، چار بیبیاں رکھ اور اپنی زندگی بِتا، عش و عشرت میں‘‘۔

    رباعی

    فصل گل و طرف جویبار و لب کشت

    با یک دو سہ اہل و لعبتی حور سرشت

    پیش آر قدح کہ بادہ نوشان صبوح

    آسودہ ز مسجدند و فارغ ز کنشت

    پھر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بصد احترام چوما

    ’’اے مہر گیر کیا تو نے کچھ تفکر کیاہے ؟ دیو پریزادوں کو قتل کرنے واسطے تیرا بھائی، رود گیر، جو بالفعل ولی عہد ہے خود کیوں نہیں آتا؟ کچھ تو سوچ اے عاقل مرد، سلطنت کا خواہاں تو ہے کہ وہ؟ کچھ تفکر کروہ تجھے کیوں بھیجتا ہے واسطے حرب و ضرب کے؟ــ۔ سچ سنا ہے، سگ باش برادر خورد مہ باش۔مہر گیر زیرک بن اور دیکھ کہ کوئی بھی اپنی جان کو مصیبت میں نہیں ڈالتا لیکن اپنے فائدے کے لئے۔۔ ہاں۔۔ وہاں دوسرے کو آگ میں جھونکنے سے ذرا بھی نہیں کتراتا‘‘۔

    پادشاہزادے نے ہاتھ تلوار کے دستے پر رکھ دیا

    ’’اے ناہنجار میں مکرو فریب کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتا ہوں۔میں اپنے لشکر کا بہادر ترین سرہنگ ہوں،میں نے ہر مقابلہ جیتا ہے اور اب میں تیرا سر کاٹنے آیا ہوں۔۔سن رکھ ! مجھے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے نہ ورغلا، کہ خوشامد کا تیرمجھ پر کار گر نہیں۔ مجھے زن کے جال میں مت پھنسا کہ میرے لئے میری لالہ رخسار ہی کافی ہے جو مجھ سے سچی محبت کرتی ہے اور بس‘‘۔

    ’’پادشاہزادے کاٹ دیں میرا سر۔۔ سبک کردیں میرے دوش۔۔بلا تکلف۔۔ چھڑا دیں مجھے زندگانی کی صعوبت سے۔۔لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس سے آپ کو چنداں نفع نہ ہوگا۔۔ میں تو بلکہ یہ بھی دیکھتا ہوں کہ آپ کی توجہ اپنے فائدے کی طرف بہت ہی کم ہے۔

    اے عاقل پادشاہزادے !

    یہ نکتہ لطیف ہے، اگر اذن ہو اور آپ میں سننے کی تاب ہو تو مجھے ایک لحظہ اپنا بیان دہرانے دیں‘‘

    دیو اب دست بستہ کھڑا ہوا اور اپنے اس کلام کا اثر دیکھنے واسطے پادشاہزادے کی طرف نگاہ کی۔ وہ طلسمی مہرے کے حسن میں گم تھا اور بے شک وہ تو دنیا اور ما فیہا سے بے خبر تھا

    ’’پادشاہزادے میں آپ کا دشمن نہیں اور جو میں نے بتایا اس میں آپ کا کوئی نقصان نہیں۔ میں آپ کا اور آپ فائدہ میرا کریں تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ایک بات اور۔۔ جان لیں یہ طلسمی مہرہ بے اثر ہے اگر اس کے ساتھ میں اور میرے جنوں کی جماعت کا ہاتھ نہ ہو۔ جان لیجئے عالی نسب پادشاہزادے ہم جماعت عفریت ہرشاہ نیک بخت کی جیت کا سبب ہیں۔۔دست راست۔۔ان کو اقتدار لے کے دیتے ہیں۔ یہی ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اب آپ جو چاہیں ہم وہی کریں‘‘۔

    ’’اے خبیث دیو، بیہودہ گفتاری بند کر اور اپنی زبان کو لگام دے۔ تو مجھے اپنے والد اور بھائی کے خلاف بغاوت پر اکساتا ہے ؟ میں بادشاہ وقت کا غلام بے دام ہوں اور ان کے حکم پر عاشق اور فرمان پر جان دیتا ہوں‘‘

    ’’اے پادشاہزادے یہی روش رہی تو اس میں شک نہیں کہ آپ ضرور صرف جان ہی دیں گے۔ میری بات غور سے سنیں، کچھ ہوش کی تدبیر کریں، عقل کے ناخن لیں۔۔آپ جو دیووں کو ہرانے، ان کا سر اڑانے، ان کو نامرد بنانے کے شوقین ہیں اس بات کی طرف متوجہ ہی نہیں کہ یہ مہرہ جو آپ ہاتھ میں ہے اور تخت،جس پر آپ کا بھائی بیٹھنے کا ارادہ رکھتا ہے،یہی طاقت کا منبع ہیں‘‘

    پادشاہزادے نے ہونٹ کاٹتے ہوئے مہرہ شمع کے سامنے رکھ ہم کلامی کی

    ’’ میں امورِ سیاست میں کوراہوں، میں تو صرف دیووں کو کاٹنا جانتا ہوں، بڑے بڑے دیووں کو اور بس۔۔ میں کیسے اپنے والد کو تخت سے ہٹاوں گا؟ یہ کام مشکل ہے‘‘

    یہ سناتورازند دیو نے لمبی اطمینان بھری سانس لی

    ’’یاد رکھیں پادشاہزادے۔ دیو مارنے، زاندان میں ڈالنے یا قتل کرنے کے لئے نہیں ہوتے، ان سے بادشاہوں کو ہٹایا اور بنایا جاتا ہے۔۔ امور سلطنت چلائے جاتے ہیں بطور معاون و دست و بازو۔۔ ان کی طاقت کے سامنے عوام بے بس۔۔جان رکھو ہر علاقے میں ایک دیو ایسا ہوتا ہے جو اس علاقے کی عوام کی نبض کو ایسے سمجھتا ہے جیسے کوئی اپنے بیٹے کو پہچانے۔

    بس انہی دیووں کو قابو میں رکھ تیری سلطنت کو حاصل دوام ہوگا۔۔ تیرا ذکر ہر گام ہوگا اور شاہان بلندہائے جہان میں تیرا نام ہوگا۔ بھول جا راست بازی اورمحبت کے شعار کو۔۔اور۔۔ پادشاہزادی لالہ رخسار کو‘‘

    ’’اور میں ان دیووں تک کیسے پہنچوں؟‘‘

    پادشاہزادہ ملتجی ہوا

    ’’پادشاہزادے یہ کام مشکل ضرور ہے اگرچہ ناممکن نہیں۔ جن دیووں کے سہارے اب آپ کے والد اوربھائی کی حکومت ہے ان میں سے کچھ دیووں کے سہارے تیری حکومت بنے گی۔ہاں جب آپ کے اقبال کا دوام ہوگا، آپ کاطالع اوج پر ہوگا،آپ معتبر و صاحب مقام بنیں تو بس انہیں ہی وزیر اور مشیربنائیں اور خود صرف تخت پر بیٹھ، زندگی کے مزے لوٹیں۔

    باقی رہی انتظام کی بات تو دیو جانتے ہیں کہ امور سلطنت کیسے چلانے ہیں۔۔ قاضی، فقیہ، قصہ گو، معلم، مدرس اور کوتوال شہر سب ہماری مٹھی میں ہیں، حتی کہ عالم جنات میں قبیلے کے قبیلے ہمارے مطیع اور زیر زمین حشرات بھی ہمارے تابع‘‘

    پھر رک کر پادشاہزادے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں

    ’’ہاں ایک بات۔۔جب دیوزادآپ کے تخت کو دوام دیں۔۔ آپ کو غالب کرا چھوڑیں، عوام میں پذیرائی دلا دیں تو آپ بھی ان کی طرف سے آنکھیں بند رکھیں، ان کو کرنے دیں جو وہ کرتے ہیں‘‘

    ’’تو اب کیا کروں؟ اور قلمرو میں عوام کو کیا بتاوں، وہ مجھے سچا اور راست باز جانتے ہیں‘‘

    ’’یہ کام آپ میرے اوپر چھوڑ یں۔۔بس اب اپنے والد کو یہ لکھ بھیجیں کہ تورازند دیو کا خاتمہ ہوگیا ہے، مہرہ ہاتھ آگیا ہے۔ باقی رہے قلمرو کے عوام تو ان کو قصے کہانیوں سے غرض ہے، امورسیاست سے نہیں اور ہمارے پاس اس کام میں ماہر دیو زاد ہیں جو سالہاسال تک عوام کو لوریاں سنا سکتے ہیں۔۔ انہیں بیوقوف بنا سکتے ہیں۔۔آپ تخت سنبھالیں، عوام کو ہم سنبھالیں لیں گے‘‘

    اتنا کہہ کر توارزند دیو نے پادشاہزادے کو دو پڑیاں سفوف کی دیں اور اس کے کان میں کچھ کہا۔ پادشاہزادہ یکایک غیض میں آگیا

    ’’اے سپاہ جانثار اس خبیث دیو کو زندان میں ڈال دو‘‘۔

    اس امر سے فراغت حاصل کی تو پادشاہزادے نے ایک پڑیا سفوف کی، آ تشیں رنگ، ہوا میں چھڑکی جس سبب دو کبوتر نموردار ہوئے۔ پادشاہزادے نے ایک خط کچھ دیوزاودں، جو اس کی والد کی سلطنت میں فعال تھے اور اس کے جان نثار تھے، کو معزول کرنے کے واسطے لکھے اور کچھ کو زندان میں ڈالنے کا حکم دے کر ان پر اپنے والد کی مہر ثبت کی اور اسے ایک کبوتر کے پاوں سے باندھ امور سلطنت کے وزیر کے پاس بھجوا دئیے۔ اس امر سے فراغت حاصل کی تو اپنے والد بزرگوار کو ایک خط لکھا

    سلطان عالی مقام کے نام

    ’’میرے والد سلطان عالی مقام اور میرے بھائی ولی عہد رود گیرکا نام بلند ہو، ان کے اقتدار کو دوام ملے۔ اے والد محترم میں نے تورازند دیو کو جہنم واصل کر دیا ہے اور مہرہ میرے قبضے میں ہے۔ مجھے جن جن سے بغاوت کی بو آتی تھی ان جنوں کوواپس دارسلطنت بھجوا دیا ہے، کچھ کو معزول اور کچھ کو زندان میں ڈال دیا ہے کہ بے شک جو سلطان کا نمک خوار ہو اور بغاوت پر تیار ہو، یہی اس کا انجام کار ہو۔میرے والد محترم ان کی جگہ میں نے کوہ قاف کے سب سے ذہین عفریت غلغلہ دیو کو مقرر کیا ہے جو ہمارے ہر وزیر سے زیادہ خجستہ تدبیر، عقل و فراست میں بے نظیر، ذی وقار اور پر توقیر ہے۔ تب تو وہ اپنی دانست میں جسے چاہے سلطنت میں جو بھی کام امور سلطنت کا ہو تفویض کرے۔

    حضور کا اقبال بلند ہو

    آپ کا مطیع اور جگر کا ٹکڑا، من جانب پادشاہزادہ مہر گیر‘‘

    ’’جانتے ہیں پادشاہزادے پھر کیا ہوا؟‘‘

    ’’اخطاص تو اپنی کہانی جاری رکھ‘‘

    پادشاہزادہ ہنوزاس مہرے اور تخت کے سحر میں مست تھا

    اخطاص نے سر ہلا کر تائید کی

    ’’ پادشاہزادے مہر گیر نے تورازند دیو کو بلایا اور بموجب اس کے فرمانے کے سبز پڑیا میں موجودسفوف اس پر چھڑک دیا۔چشم زدن میں اس کے اثر سے تورازند ایک سے دو بن گیا۔ پھر پادشاہزادے نے اس کے ہمزاد کوسب کے سامنے تہ تیغ کیا اور تورازند کے ہاتھ پر غلغلہ دیو کھدوا کر اسے قلمرو کی طرف بھیجا کہ امور سلطنت سنبھالے اور اس کا کام آسان کرے۔

    اگلی صبح جب پادشاہزادہ جاگا تو آئینے میں اپنی جگہ ایک دیو کو دیکھا۔ یہ دیکھ کر پادشاہزادے مہر گیر کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔

    اخطاص دیو نے کلام روک کر خشک ہونٹوں پر زبان پھیری

    ’’پادشاہزادے جانتے ہو وہ دیو آج کل کہا ں ہے‘‘

    ’’مجھے غیب کا کوئی علم نہیں تو ہی بتا ؟‘‘

    ’’پادشازادے وہ دیو میں ہوں۔کبھو میں بھی تیری طرح پادشاہزادہ تھا۔۔پادشاہزادہ مہر گیر۔۔ دیوںکو نامرد بنانے والا۔۔ایک وار میں۔۔اس صفائی سے کہ نہ ان کو درد ہوتا تھا اور نہ چبھن کا احساس۔

    پھر پادشاہزادے میں نے اپنے والد کا تخت حاصل کیا، بھائی کو محبوس کیا، دیو پریزادوں سے مل کر عوام کو لوٹا، ان پر ستم کے پہاڑ توڑے ان کا نوالہ چھینا۔۔ان کی چیخ و پکار سے میرا دل نہ پسیجا اور جتنے وہ پس سکتے تھے ان کو پیستا رہا۔ اس کام میں مجھے مزہ آیا اور مجھے سیاست کاگر آگیا۔ لیکن افسوس اس عمل میں انسان سے دیو بنا۔ اے پادشاہزادے میں آپ کو بھی ترغیب دیتا ہوں کہ تمام طاقت تخت اور اس مہرے میں ہوتی ہے، سو استدعا یہ ہے کہ۔۔۔‘‘

    ’’نہیں میرے بھائی مہرگیر، یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔ میں انسان رہنا چاہتا ہوں، دیو نہیں بننا چاہتا۔میری محبوبہ پادشاہزادی کفترانگبین لب کسی دیو سے شادی ہر گزنہیں کرے گی، میری مجبوری سمجھو۔۔ میری محبوبہ۔۔اخطاص میرے بھائی، خدا را، کیا کوئی اور طریقہ ہے کہ نہ سیخ سوز نہ کباب؟‘‘

    ’’ضرور پادشاہزادے، ضرور ایک طریقہ ہے۔۔ہر کہ جوئندہ است، یابندہ بود۔۔ آپ دیو نہیں بنیں گے۔۔ یہ میرا وعدہ ہے‘‘۔

    یہ کہہ کر اس دیو نے پادشاہزادے کو دو پڑیاں طلسمی سفوف کی دیں اور اس کے کان میں کچھ کہا

    پادشاہزادہ چلا یا

    ’’بس کر گستاخ دیو، بس کر، تیرا وقت آن پہنچا ہے۔اب تو تیرا یہ سر تن سے جدا ہو کر رہے گا۔۔اے سپاہ جانثار اس خبیث دیو کو زندان میں ڈال دو‘‘۔

    سلطان عالی مقام کے نام

    ’’میرے والد سلطان عالی مقام آپ کا نام بلند ہو، آپ کے اقتدار کو دوام ملے۔ اے والد محترم میں نے اخطاص کو جہنم واصل کر دیا ہے اور طلسمی مہرہ میرے قبضے میں ہے۔

    مجھے جن جن دیووں سے بغاوت کی بو آتی تھی ان کوواپس دارسلطنت بھجوا دیا ہے، کچھ کو معزول اور کچھ کو زندان میں ڈال دیا ہے کہ بے شک جو سلطان کا نمک خوار ہو اور بغاوت پر آمادہ اور تیار ہو، یہی اس کا انجام کار ہو۔میرے والد محترم ان کی جگہ میں نے کوہ قاف کے سب سے ذہین عفریت شرابور دیو کو مقرر کیا ہے جو ہمارے ہر وزیر سے ذیادہ خجستہ تدبیر، عقل و فراست میں بے نظیر، ذی وقار اور پر توقیر ہے۔ تب تو وہ اپنی دانست میں جسے چاہے سلطنت میں جو بھی کام امور سلطنت کا ہو، تفویض کرے۔

    حضور کا اقبال بلند ہو،

    آپ کا مطیع اور جگر کا ٹکڑا، من جانب پادشاہزادہ رونق الدہر‘‘

    ہمزاد کا کام تمام کرکر اس نے شرابور دیو کا نام اخطاص دیو کے ہاتھ پر کھدوا کر اسے قلمروکی جانب بھیجا کہ امور سلطنت سنبھالے اور یہ سب کرنے کے بعد ڈرتے ڈرتے آئنیے میں دیکھا تو تحقیق وہ ہنوز پادشاہزادہ ہی تھا، گوشت پوست کا بنا، بلند قامت، وجیہ الشکل ایسا کہ پریاں اس پر فریفتہ ہو جائیں، پیشانی چوڑی ایسی جس کے رعب سے اعدا کے دل بیٹھ جائیں، ذکاوت سے بھری آنکھیں جو دلوں کو موہ لیں، خوش پوش اور نرم مزاج ایسے جسے دیکھ کر عوام اس کی قدم بوسی کرنے دوڑیں۔ بے شک اخطاص نے اپنی زبان کا پاس رکھا تھا۔

    یہ دیکھ اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور اسے اخطاص دیو کے حسن تدبیر، لا محدود فراست، دیر پا حکمت علمی، عقلمندی، پیہم درست معاملہ فہمی، امور سیاست میں بصیرت کی گہرائی،تیر بہدف صحیح مشورے، قانون توڑے بغیر قانون شکنی، ایفائے عہد، مثبت سوچ، طریقہ کار حکومت، دانائی و حکمت پر رشک آگیا۔

    اس نے سوچا کہ اخطاص کے حسن تدبیر ہی سے اس کے دل کی مراد بھر آئی، حکومت، مال و درہم، پادشاہزادی انگبیں لب اور تو اور اسے اپنا جون بھی تبدیل نہ کرنا پڑا اور نہ اس کی شجاعت اور غیرت پر کوئی حرف آیا۔ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آئے چوکھا۔۔ وہ اس امر سے خوشی سے پھولے نہیں سمایا اور بار بار مہرے کو چومتا رہا۔

    جب شرابور دیو کا پیغام آگیا کہ اس کے والد اب نہیں رہے اور وہ آکر تخت سنبھالے تو پادشاہزادہ رونق الدہر نے حمام میں جا کر غسل کا ارادہ کیا کہ پوشاک زریں زیب تن کر کرامور حکومت سنبھالے۔ اس نے اپنے آپ کو لباس کی قید سے آزاد کیا، آنکھیں بند کیں اور چشم تصور میں اپنے آپ کو سلطان دیکھا، بر سر دربار لوگوں میں فیصلے کرتے دیکھا، اپنے لوگوں کو نوازتے دیکھا، سرحدوں پر اپنے سرہنگوں کو کمک بھیجتے دیکھا۔

    پادشاہزادے نے دیکھا کہ دیواس کی تخت کو دوام بخشنے کے کام میں مشغول ہیں، ہر جگہ اس کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے، لوگ اس سے خوش ہیں اور اس کی سواری کی دھول سے مہر نماز بناتے ہیں۔ اپنے آپ کو دیکھا کہ وہ امورسلطنت میں ان دیووں کی غفلت، عوام پر ظلم، من مانی، نااہلی،اور عوام کی دل آزاری سے چشم پوشی کر رہا ہے مگر رونق الدھر پر مطلق اثر نہ ہوا۔

    ہاں اس پر اثر تب ہوا جب غسل کرتے ہوئے، انہی خیالوں میں مستغرق، یکایک آنکھیں کھول کر اس نے نیچے دیکھا۔

    اس کی جان نکل گئی۔

    اخطاص دیونہایت سلیقے سے اپنا کام کر چکا تھا

    ایک ہی وار میں۔

    درد اور چبھن کے بغیر۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے