Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

علم کی دولت

فیاض احمد

علم کی دولت

فیاض احمد

MORE BYفیاض احمد

    میرا نام جمشید ہے۔ مجھے یہ نام بہت مشکل سے ملا ہے۔ ابو میرا نام ’مصلح الدین‘ رکھنا چاہتے تھے اور امی ’مطیع الدین‘ دادی جان کہتی ہیں کہ میرا عقیقہ صرف اس لیے نہیں ہو سکا کیونکہ میرے نام پر اتفاق نہیں ہو پایا تھا۔ ابو نام بدلنے کو تیار نہیں تھے اور امی ہار ماننے والی نہیں تھیں۔ میں اس وقت دس سال کا تھا۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ میری تاریخ پیدائش بھی ابو اور امی کے درمیان تکرار کی وجہ رہی ہے۔ اکثر دونوں اس موضوع پر بحث کرنے لگتے اور یہ سلسلہ اتنا طویل ہو جاتا جیسے پانی پت کی جنگ چھڑ گئی ہے۔ امی کہتی ہیں کہ میں مانسون میں پیدا ہوا لیکن ابو کہتے ہیں کہ جب میں پیدا ہوا تھا اس وقت سخت سردی پڑ رہی تھی۔ برف کے اولے ایسے پڑ رہے تھے کہ گھر سے نکلنا دشوار ہو گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میرے پیدا ہونے کی خبر محلے والوں کو بھی نہیں دی جا سکی تھی۔ امی جھگڑ پڑتیں، محلے والوں کو خبر اس لیے نہیں دی جا سکی تھی کیونکہ بہت تیز بارش ہو رہی تھی اور گلیاں پانی سے بھر گئی تھیں۔ دیر رات تک لڑائی کا سلسلہ چلتا رہتا۔ میں ان کی نوک جھونک کے درمیان ہی سو جاتا۔

    مجھے چڑیوں کی چہچہاہٹ اور جھرنوں کا ترنم بہت اچھا لگتا ہے۔ ان سے میرے جسم کا ایک ایک حصہ پھڑک اٹھتا ہے، بڑی تمانیت اور فرحت کا احساس ہوتا۔ مگر چڑیوں کی چہچہاہٹ اور جھرنوں کے ترنم سے پہلے ہی ابو کی کرخت اور بارعب آواز کانوں میں پڑتی، ’’ارے جمشید اٹھو، صبح ہو گئی۔ اٹھتا ہے یا لگاؤں ڈنڈا۔‘‘ اب تو میں ابو کی رعب دار آواز سننے کا عادی ہو گیا ہوں۔ اس لیے اب مجھے اس آواز سے ڈر نہیں لگتا ہے۔

    میرے ابو کسان تھے۔ صبح سویرے اذان سے پہلے ہی جاگ جاتے اور مجھے اپنے ساتھ لیکر کھیتوں پر چلے جاتے۔ دن بھر کڑی محنت کرتے اور شام کو گھر آتے۔ میں ابو کے کام میں ہاتھ بٹاتا۔ تھک ہار کر جب شام میں گھر آتا تو کچھ دیر مدرسہ کے پاس رک جاتا۔ مدرسہ کی ایک دیوار ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس دیوار سے مدرسے کے اندر پڑھ رہے بچوں کو دیکھنے میں بڑا مزہ آتا تھا۔ وہاں پر انجیر کے بڑے بڑے درخت تھے جن پر بچوں نے رسی کے جھولے بنا رکھے تھے۔ پڑھائی کے بعد بچے جھولوں پر جھولتے اور خوب مزہ لیتے۔ یہ سب دیکھ کر میرا بھی دل مچل جاتا تھا۔ میں بھی پڑھنا چاہتا تھا۔ مگر اس سے پہلے کہ میری یہ خواہش دل کی گہرائی سے نکل کر زبان تک پہنچتی، ابو کی سخت آواز میرے کان سے ٹکراتی ارے، کہاں مر گیا جا، جلدی سے آلو، لے آ۔ میری خواہش اندر ہی دب کر رہ جاتی اور میں آواز کی طرف دوڑ پڑتا۔ یہی روز کا معمول تھا، لیکن آج جب میں مدرسے کی ٹوٹی ہوئی دیوار کے پاس کھڑا تھا تو مجھے اندر ایک بزرگ دکھائی دیے۔ وہ بیچ میں بیٹھے تھے اور ان کے چاروں طرف بہت سارے لوگ دو زانو تھے۔ میرے اندر ان سے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ تبھی ابو کی کرخت آواز میرے کانوں سے ٹکرائی لیکن میں نے ابو کی آواز سنی ان سنی کر دی اور میں آگے بڑھ گیا۔ آواز قریب آتی گئی۔۔۔ قریب۔۔۔ اور بھی قریب۔۔۔ اس سے پہلے کہ ابو میرا بازو پکڑ کر مجھے کھینچ کر لے جاتے میں بزرگ بابا کے سامنے پہنچ چکا تھا۔ ابو کا ہاتھ بیچ میں ہی رک گیا۔ بزرگ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے پاس بیٹھایا اور بولے، مجھے شیخ سعدی کہتے ہیں۔ تمہارا نام کیا ہے بیٹا؟ ’’امی کے لیے مطیع الدین اور ابو کے لیے مصلح الدین، میں جھٹ سے بول پڑا۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرا کر بولے، پڑھتے ہو؟ میں بولنا چاہتا تھا لیکن ابو کا چہرہ دیکھ کر خاموش رہا۔ میری خاموشی دیکھ کر شیخ سعدی ابو سے مخاطب ہو کر بولے، جہالت برائی کو جنم دیتی ہے اور دنیا کی تمام برائی جہالت سے پھیلتی ہے۔ جہالت کو مٹانا ہے تو علم حاصل کرو۔ علم کی روشنی سے نا صرف تمہاری زندگی بلکہ دنیا بھی سنور جائے گی۔ یہ سن کر ابو کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور پھر اس کے بعد میری زندگی کا رخ ہی بدل گیا۔ آج میں ڈھیر سارے بچوں سے گھرا رہتا ہوں۔ ان سے باتوں کرتا ہوں، انہیں کہانی سناتا ہوں۔ ان کے عجیب و غریب سوالات حل کرتا ہوں۔ یہ سب میرے لیے بہت ہی سکون کا باعث ہے۔ خود کو ان کے درمیان پاکر بے حد خوشی اور مسرت ہوتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے