aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انتظار

انتظار حسین

انتظار

انتظار حسین

MORE BYانتظار حسین

    کہانی کی کہانی

    چند نوجوان کسی کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ انتظار کرتے کرتے رات ہو گئی لیکن وہ شخص نہیں آیا یہاں تک کہ وہ سو گئے۔ پھر ان میں سے بعض کو شبہ ہوا کہ جب سب سو گئے تھے تو شاید وہ آیا تھا۔ ایک شخص کہتا ہے کہ یہ تو انجیل کے دلہنوں والا قصہ ہو گیا۔ ایک شخص کہتا ہے کہ انتظار کرانے والے اتنے ظالم کیوں ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ سگریٹ پی کر تاش کھیل کر وقت گزاری کی سوچتے ہیں لیکن یہ چیزیں میسر نہیں ہیں۔ پھر وہ سوچتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی داستان گو ہوتا۔ پھر مختلف نوعیت کی باتیں مذہب، سیاست وغیرہ پر ہونے لگتی ہیں۔ ایک شخص کہتا ہے کہ کہیں وہ سچ مچ نہ آجائے۔

    ’’یار کب آئے گا وہ، مجھے تو نیند آنے لگی۔‘‘

    ’’ابھی سے؟ ابھی کون سی آدھی رات ہو گئی۔‘‘

    ’’یارمیری عجب عادت ہے، ویسے میں رات بھر جاگ لوں، لیکن اگر کسی کا انتظار کرنے کو کہا جائے تو پھر میری آنکھوں میں نیند تیرنے لگتی ہے۔‘‘

    ’’فضول آدمی۔۔۔‘‘ کنجی آنکھوں والا بولا، ’’انتظار کے عالم میں تو آئی نیند غائب ہوجاتی ہے، تیرا باوا آدم نرالا ہے کہ انتظار میں تجھے نیند آتی ہے، جب ہی تیرا کوئی عشق کبھی پروان نہیں چڑھا۔‘‘

    ’’بس یار ایسا ہی ہے، بری عادت جو ہوئی۔‘‘ فضول آدمی سٹپٹا کر چپ ہوگیا۔

    ’’لمبو، تو بہت چپ بیٹھا ہے، کیا تجھے بھی نیند آرہی ہے؟‘‘

    ’’نہیں یار، نیند تو نہیں آرہی ہے، مگر یار انتظار کی بھی حد ہوتی ہے، آخر کب آئے گا وہ؟‘‘

    ’’بس اب اسے آجانا چاہئے۔‘‘

    ’’وقت اس نے بتایا تھا؟‘‘

    ’’میرے حساب سے اب اسے آ جانا چاہیئے۔‘‘

    ’’کنجے، اپنا حساب ہمیں مت بتا، یہ بتا کہ اس طرف سےتجھے کیا اطلاع ملی ہے، کوئی وقت تو بتایا ہوگا؟‘‘

    ’’لمبو، جن حالات میں وہ یہاں آ رہا ہےاس میں یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کہا جائے کہ میں اتنے بج کر اتنے منٹ پر پہنچ جاؤں گا اور ٹھیک اتنے بج کر اتنے منٹ پر پہنچ جائے۔‘‘

    ’’نوجوان تو تو تھک گیا ہوگا؟‘‘

    ’’نہیں!‘‘ بس اس نے مختصر سا جواب دیا، اور چپ ہو گیا۔ وہ اپنے انتظار کی کیفیت میں کوئی رخنہ نہیں چاہتا تھا، اصل میں سب سے زیادہ شدت کے ساتھ انتظار تو وہی کر رہا تھا، اس کی خواہش تھی کہ سب چپ رہیں، بولیں نہیں، بس انتظار کریں، سو جب کوئی بولتا تو اسے عجب بےکلی سی ہوتی، جتنی بات بڑھتی اتنی بے کلی بڑھتی جاتی۔ اسے اس وقت کل آتی جب بات کرتے کرتےیار بالآخر چپ ہو جاتے۔ لمبو نے ایک الکساہٹ کے ساتھ انگڑائی لی، یار بوریت ہو رہی ہے، پھر رک کر بولا، ’’کنجے تاش تو ہوجائے، لانکال، دوچار بازیاں ہی ہوجائیں، وقت تو کٹے گا۔‘‘ کنجا آدمی معذرت کرنے لگا، ’’یار تاش تو اندر بند ہیں۔‘‘

    ’’تاش بھی اندر بند ہیں۔‘‘

    ’’ہاں یار۔‘‘

    ’’یار تالا کھل نہیں سکتا؟‘‘

    ’’لمبو، تجھے پتہ نہیں ہے کہ چابی اسی کے پاس ہے۔‘‘

    ’’پتہ نہیں وہ کب آئے گا؟‘‘

    ’’میں پوچھتا ہوں کہ وہ آئے گا بھی؟‘‘ فضول آدمی پھر بول پڑا۔ نوجوان نے گھور کر فضول آدمی کو دیکھا مگر بولا کچھ نہیں۔ کنجے آدمی نے دلاسا دینے کے لہجے میں کہا، ’’کیوں نہیں آئے گا، اسے بہر حال آنا ہے۔‘‘

    ’’مگر کب؟‘‘ لمبو نے سوال کیا۔

    ’’لمبو، تھوڑا صبر کر، اسے بس اب آجانا چاہئے۔‘‘

    ’’ویسے اگر وہ نہ آیا تو؟‘‘ فضول آدمی نے پھر ایک سوال اٹھا دیا اور ایسا سوال اٹھایا کہ ایک دفعہ تو سب چکر میں آگئے، سب کو اس خیال نے پریشان کر دیا کہ اگر وہ نہ آیا تو پھر کیا ہوگا۔ نوجوان نے تھوڑی برہمی اور بہت اعتماد کے ساتھ اعلان کیا، ’’وہ آئے گا۔‘‘ کنجے آدمی کو اس اعلان سے بہت حوصلہ ہوا، اس نے گرمجوشی سے تائید کی، ’’یقیناً آئے گا۔‘‘ لمبو بھی قائل ہوگیا، کہنےلگا، ’’اب تو یار اسی پر سارا دار و مدار ہے، اسے بہر حال آنا چاہئے۔‘‘

    ’’یہی میں کہہ رہا ہوں۔‘‘ کنجا آدمی بولا۔

    ’’اور یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ۔۔۔‘‘ فضول آدمی پھر بول پڑا، ’’کہ سارا دارو مدار اسی پہ ہے، وہ اگر نہ آیا تو پھر کیا ہوگا۔‘‘ نوجوان نے شعلہ برساتی آنکھوں سے اسے دیکھا، سخت غصے سے بولا، ’’ہمیں confuse کرنے کی کوشش مت کرو، وہ آئے گا۔‘‘ Confuse ہوجانے کے اندیشہ سے وہ چپ ہوگئے۔ دیر تک چپ رہے، آخر لمبو بول پڑا، ’’یار اب تو بہت رات ہوگئی۔‘‘ کنجے آدمی نے ارد گرد نظر ڈالی، ’’یار آج رات بہت کالی ہے۔‘‘

    ’’میرا خیال ہے کہ اب وہ نہیں آئے گا۔‘‘ مگر لمبو کو فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا، فوراً تصحیح کی، ’’میرا مطلب یہ ہے کہ اس وقت رات میں وہ نہیں آئے گا، دیکھتے نہیں ہو رات کتنی کالی ہے، پھر یوں بھی اس غیر وقت میں آنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’میرا خیال یہ ہے کہ اب وہ صبح کو آئے گا۔‘‘

    ’’اچھا؟‘‘ کنجا آدمی سوچ میں پڑ گیا، بولا ’’شاید تم ٹھیک ہی کہتے ہو؟ دونوں نے مل کر ان سارے خطروں کا جائزہ لیا جو رات کے سفر میں مضمر تھے، پھر طے کیا کہ اب وہ صبح ہی کو آئے گا، نوجوان یہ ماننے پر آمادہ نظر نہیں آتا تھا، پھر کسی نہ کسی طرح انھوں نے اسے بھی قائل ہی کر لیا۔ پھر طے ہوا کہ اب تھوڑی کمر لگائی جائے اور ایک نیند لے لی جائے، وہ تینوں لیٹ گئے، فضول آدمی اسی طرح بیٹھا رہا۔

    ’’فضول آدمی‘‘کنجا آدمی بولا، ’’تجھے تو بہت نیند آرہی تھی اب کیوں نہیں سوتا۔‘‘

    ’’نہیں!‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’مجھے اندیشہ ہے۔‘‘

    ’’اندیشہ؟ کیا اندیشہ؟‘‘

    لمبو اسے سمجھاتے ہوئے بولا، ’’میں نے کہا نا کہ رات میں اس کے آنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے، میرا مطلب ہے کہ کوئی امکان نہیں ہے۔ اب وہ صبح ہی کو آئے گا۔‘‘

    ’’اگر صبح نہ ہووئی تو؟‘‘ فضول آدمی نے پھر ایسی بات کہہ دی کہ دفعتاً سب چکرا گئےمگر پھر فوراً ہی انھیں احساس ہوا کہ یہ کتنا احمقانہ خیال ہے۔

    ’’یار تو بہت فضول آدمی ہے۔‘‘ کنجا آدمی بولا، ’’بھلا اس خیال کی بھی کوئی تک ہے، صبح کیوں نہیں ہوگی۔‘‘

    ’’تم ٹھیک کہتے ہو، مگر پتہ نہیں ان راتوں میں مجھے یہ اندیشہ ستاتا رہتا ہے کہ شاید اب صبح نہ ہو، ایک رات ہاں پرسوں ہی رات کی تو بات ہے، مجھے لگا کہ رات بہت لمبی ہوگئی ہے۔‘‘

    ’’ہاں پرسوں کی رات تو واقعی بہت بھاری گزری ہے۔‘‘ لمبو نے تائید کی۔

    ’’بس مجھے ایسا لگا کہ اب صبح نہیں ہوگی، میں تو بالکل جی چھوڑ بیٹھا تھا، وہ تو یہ کہئے کہ کہ اسی وقت مر غا بول پڑا۔‘‘

    نوجوان نے اسے غصے سے دیکھا، ’’گویا مرغا نہ بولتا تو صبح نہ ہوتی۔‘‘ نوجوان نے تو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اس کی بات کتنی مضحکہ خیز ہے، طنز یہ لہجہ میں بات کہی تھی، مگر اس نے نو جوان کے طنزیہ لہجہ کو یکسر نظر انداز کردیا، بہت سنجیدہ ہوکر کہنے لگا، ’’ہاں یہ سوچنے کی بات ہے۔‘‘ اور سوچ کر بولا، ’’میرے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ ڈربوں میں مرغیاں پھڑ پھڑائیں گی اور مرغے بانگ دیں گے اور گائیں کھونٹوں سے بندھی بندھی ڈکرائیں گی اور گھوڑے اپنے تھان پہ کھڑے کھڑے بےکلی سے ہنہنائیں گے اور رسہ تڑا کر بھاگ نکلیں گے مگر صبح کسی صورت نہیں ہوگی۔‘‘

    ’’یہ کون سی رات ہوگی؟‘‘ لمبو کچھ خوفزدہ ہوگیا۔

    ’’یہ دنیا کی آخری رات ہوگی۔‘‘ چپ ہو گیا، پھر سوچتے ہوئے بولا، ’’صبح ہوگی بھی تو وہ صبح نہیں ہوگی، سورج میں روشنی ہی نہیں ہوگی بس جیسے چراغ میں تیل ختم ہوگیا ہو، بتی کی لو تھمنے کو ہو۔‘‘ کنجے آدمی نے تردیدی لہجہ میں کہا، ’’مگر روایتوں میں یہ ہے کہ اس صبح کو دو سورج نکلیں گےایک مشرق سے ایک مغرب سے۔‘‘

    ’’دوسرا سورج بھی کام نہیں دے گا، وہاں بھی چراغ میں تیل ختم ہوچکا ہوگا۔‘‘

    ’’سب بکواس!‘‘ نوجوان آخر پھٹ پڑا، ’’میں ان روایتوں کو نہیں مانتا، یہ روایتیں گھڑی گئی ہیں اور اسی مقصد سے گھڑی گئی ہیں کہ لوگوں کو ان بحثوں میں الجھا کر اور ایسے اندیشوں میں مبتلا کر کے اصل مسئلہ سے ان کی توجہ ہٹادی جائے، اس فضول آدمی نے بھی یہ بحث اسی وجہ سے چھیڑی ہے کہ اصل مسئلہ سے ہماری توجہ ہٹ جائے؟‘‘

    ’’اصل مسئلہ؟‘‘ فضول آدمی نے حیران ہوکر نوجوان کو دیکھا اور معصومیت سے پوچھا، ’’وہ کیا ہے؟‘‘

    ’’وہ یہ کہ اسے آنا ہے اور پھر ہمیں۔۔۔‘‘ پھر اچانک رک کر بولا، ’’فضول آدمی اگر تمہیں خود پتہ نہیں ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے تو میں تمہیں کیسے سمجھا سکتا ہوں، اور اگر تمہیں کچھ پتہ نہیں ہے تو تم ہمارے ساتھ کس خوشی میں ٹکے ہوئے ہو۔‘‘ لمبو نے دیکھا کہ نوجوان غصہ میں بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، جلدی سے بیچ میں دخل دیتے ہوئے بولا، ’’نوجوان تجھے تو بہت جلدی غصہ آ جاتا ہے‘‘

    ’’غصہ۔ غصہ مجھے ابھی کہاں آیاہے، میں تو اپنی طرف سے بہت ضبط کر رہا ہوں، مگر کب تک غصہ نہیں آئے گا۔‘‘ کنجے آدمی نے سمجھانے کے انداز میں کہا، ’’نوجوان تجھے پتہ نہیں کہ یہ کتنا فضول آدمی ہے، اس کی بات کو ایک کان سننا چاہیئے اور دوسرے کان اڑا دینا چاہئے، اس کا کیا ہے وہ نہ تو خود سوئے گا نہ ہمیں سونے دے گا، جلدی ایک نیند لے لو کہ جلدی اٹھ سکو۔‘‘

    ’’نہیں، میں نہیں سوؤں گا۔‘‘ نوجوان نے قطعی لہجہ میں اعلان کیا۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’تم لوگوں کا کیا ہے، تم نے تو اپنی طرف سے فیصلہ دے دیا کہ وہ اب صبح کو آئے گا، مگر وہ تمہارے فیصلہ کا پابند تو نہیں ہے، وہ کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔‘‘ کنجا آدمی فوراً ہی قائل ہوگیا، ’’یہ بات بھی ٹھیک ہے، کیا پتہ ہے کہ وہ رات ہی میں آنکلے، سو احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ہمیں سونا نہیں چاہئے۔‘‘ لمبو بھی لیٹے سے اٹھ بیٹھا، ’’اچھا یار نہیں سوتے مگر وقت گزارنے کی کوئی صورت ہونی چاہئے تھی، تاش تو اندر بند ہیں، ویسے کیرم سے بھی شغل کیا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’کیرم بورڈ بھی تو اندر ہی بند ہے۔‘‘ کنجے آدمی نے اطلاع دی۔

    ’’یہ تو بڑی بوریت ہے۔‘‘

    ’’کیا کریں یار، کنجی اس کے پاس ہے۔‘‘

    ’’پھر تو واقعی اس کا آنا بہت ضروری ہے۔‘‘

    ’’مگر میں حیران ہوں۔‘‘ کنجا آدمی کہنے لگا، ’’وہ ابھی تک آیا کیوں نہیں، قاعدے سے اس وقت تک اسے آجانا چاہئےتھا۔‘‘

    ’’آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟‘‘

    ’’یہی تو میں سوچ رہا ہوں کہ ابھی تک نہ آنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔‘‘

    لمبو کچھ جھجکتے ہوئے بولا، ’’کہیں اس کے ساتھ واردات تو نہیں ہوگئی۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ کنجے آدمی نے اعتماد سے کہا، ’’تو بہ کیجئے، وہ مار کھا جانے والا آدمی نہیں ہے، اور ان چوٹوں سے مار کھا جائے، ہرگز نہیں۔‘‘

    ’’پھر کیا وجہ ہوئی۔‘‘

    ’’یار بات یہ ہے۔۔۔‘‘ کنجا آدمی سوچتے ہوئے بولا، ’’وہاں سے نکلنا اتنا آسان تو نہیں، اسے کوئی داؤں لگا کر ہی نکلنا تھا۔‘‘

    ’’وہ کوفہ سے نکل بھی آئے گا؟‘‘ فضول آدمی نے پھر ایک سوال اٹھایا۔

    نوجوان نے پھر اسی غصیلی نظروں سے دیکھا، ’’کوفہ میں تو ہم ہیں۔‘‘ لمبو نے تائید میں سر ہلایا، ’’نوجوان نے ٹھیک کہا، کوفہ میں تو ہم ہیں۔‘‘ اس کے لہجہ میں کتنی یاس تھی۔

    ’’تو گویا ہم اسے کوفہ میں بلا رہے ہیں۔‘‘ فضول آدمی لے زہر خند کے ساتھ کہا۔ نوجوان اب کے بس غصیلی نظروں سے اسے دیکھ کر رہ گیا، جواب کوئی بن نہ پڑا۔ فضول آدمی نے لمبی جماہی لی، ’’اب میں واقعی سونے لگا ہوں۔‘‘ اس کی آنکھیں مند تی چلی گئیں اور پھر جلدی ہی خراٹے لینے لگا۔ لمبو نے جماہی لی، ’’اس کے خراٹوں سے مجھے بھی نیند آنے لگی۔‘‘ لمبو نے کئی مرتبہ آنکھیں بند کیں اور کھولیں پھر سچ مچ بند ہوگئیں۔

    ’’لو وہ بھی سو گیا۔‘‘ کنجے نے کہا۔ نوجوان نے دونوں سوتے ہوؤں کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا اور کنجے سے مخاطب ہوا، ’’دیکھ رہے ہو؟‘‘

    ’’ہاں دیکھ رہا ہوں۔‘‘

    ’’یہ لوگ بھلا اس کے ساتھ چل سکیں گے؟‘‘

    ’’یہی میں سوچ رہا ہوں۔‘‘

    ’’یہ تو کوفی ہیں کوفی، پتہ نہیں اس نے کیا سوچ کر ان پر اعتبار کیا ہے۔‘‘

    ’’وہ سب کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔‘‘

    ’’پھر اس نے ان پر اعتبار کیوں کیا؟‘‘

    کنجے آدمی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، وہ چپ رہا، نوجوان بھی چپ ہوگیا، چپ بیٹھا رہا اور اندر ہی اندر کھولتا رہا کنجے آدمی کو چپ بیٹھے بیٹھے اونگھ سی آگئی، بس ذرا آنکھ لگی تھی کہ فضول آدمی، چونک کر اٹھ بیٹھا، ’’کیا وہ آگیا؟‘‘ لمبو بھی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا، ’’اچھا اچھا آگیا۔‘‘ کنجے آدمی نے بھی جلدی سے آنکھیں کھول دیں اور ایسا ظاہر کیا جیسے وہ سویا ہی نہیں۔

    ’’کوئی نہیں آیا۔‘‘ نوجوان نے اطمینان کے ساتھ کہا۔ فضول آدمی نے اپنی بات پر اصرار کیا، ’’میرا خیال ہے کسی نے دستک دی تھی۔‘‘

    ’’مجھے بھی کچھ لگا تو تھا۔‘‘ لمبو بولا۔ نوجوان نے دونوں کو بیزاری سے دیکھا، بولا، ’’تم دونوں تو سو رہے تھے، تمہیں کیسے پتہ کہ کوئی آیا تھا۔ میں جاگ رہا ہوں، میں نے دستک کی کوئی آواز نہیں سنی، تم نے سنی تھی؟‘‘ اس نے کنجے آدمی سے پوچھا۔

    ’’نہیں میں نے کوئی آواز نہیں سنی۔‘‘

    ایک اچھی خاصی بحث چل نکلی کہ وہ آیا تھا یا نہیں آیا تھا، فضول آدمی اور لمبو ایک طرف تھے، ان کا گمان تھا کہ ان کے سوتے میں کسی نے دستک دی تھی۔ کنجا آدمی ڈھلمل یقین تھا، مگر نوجوان قطعی طور پر اس سے انکاری تھا کہ کسی نے دستک دی تھی۔

    ’’یار یہ تو بالکل انجیل کی دلھنوں والا قصہ ہوگیا۔‘‘ فضول آدمی تاسف بھرے لہجہ میں کہنے لگا، ’’وہ آیا اور ہمیں سوتا پاکر چلا گیا۔‘‘

    ’’مگر میں جاگ رہا تھا۔‘‘ نوجوان نے چلا کر کہا۔

    ’’یار اس میں غصے کی کیا بات ہے۔‘‘ لمبو کہنے لگا، ’’بعض اوقات آدمی جاگتے ہوئے بھی غافل ہوجاتا ہے، ممکن ہے اس وقت تم کسی اور خیال میں کھوئے ہوئے ہو۔‘‘

    ’’بالکل غلط، سب بکواس ہے، میں جاگ رہا تھا اور پورے ہوش میں تھا، کوئی نہیں آیا تھا، کوئی آہٹ کوئی دستک نہیں ہوئی۔‘‘ اور اس مرتبہ نوجوان نے اتنے قطعی لہجہ میں اور اتنے اعتماد سے اعلان کیا کہ فضول آدمی اور لمبو دونوں چپ ہوگئے اور کنجے آدمی کو تو بالکل یقین آگیا کہ کوئی دستک نہیں ہوئی تھی، اس نے لمبو اور فضول آدمی سے صاف صاف کہہ دیا، ’’یار تمہیں وہم ہوا ہے، کوئی دستک نہیں ہوئی تھی، اور وہ آتا تو اس طرح واپس تو نہ چلا جاتا۔‘‘

    لمبو بولا، ’’خیراگر وہ نہیں آیا تھا تو اچھا ہی ہوا، آکر چلا گیا ہوتا تو پھر مارے گئے تھے، اب کم از کم اس کے آنے کی امید تو ہے۔‘‘

    ’’امید۔۔۔‘‘ فضول آدمی بڑبڑایا، پھر دراز ہوتے ہوئے بولا، ’’اچھا تم اپنی امید کا چراغ جلائے بیٹھے رہو، میں تو سوتا ہوں۔‘‘ لیٹتے ہی وہ سوگیا، خراٹے لینے لگا، مگر تھوڑی ہی دیر میں ہڑ بڑاکر اٹھ بیٹھا، پھٹی آنکھوں سے ایک ایک کو دیکھا، ’’دوستو! تم کب سے یہاں بیٹھے ہو؟‘‘

    ’’کب سے؟‘‘ فضول آدمی بڑ بڑایا، ’’پتہ نہیں شاید خواب ہی ہو۔‘‘ چپ ہوا۔ پھر کھوئی کھوئی آواز میں شروع ہوگیا، ’’وہ بالکل میرے سر پہ آکھڑا ہوا اور گرج کر بولا کہ یاں کیوں بیٹھا ہے، میں نے کہا کہ ہم سب اس کے انتظار میں بیٹھے ہیں، تند و تیز ہوکر بولا کس کے انتظار میں، اس پر میں چکرایا، کس کے انتظار میں۔ برابر والے سے پوچھا، دوست ہم کس کے انتظار میں یہاں بیٹھے ہیں، اس نے پریشان نظروں سے مجھے دیکھا، پھر میں نے دوسرے سے پوچھا، پھر تیسرے سے، پھر ان سب سے پوچھا کہ رفیقو! ہم یہاں کس کے انتظار میں بیٹھے ہیں، ان سب نے کہ جن کی بھنویں تک سفید ہوچکی تھیں مجھے حیرت سے دیکھا۔ پھر ایک دوسرے کو، اور ہم سب ملول ہوئے کہ ہم نے یہاں اس کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے اپنی بھنویں تک سفید کر لیں۔‘‘ وہ چپ ہوگیا اور کسی سوچ میں کھو گیا۔

    ’’فضول آدمی۔۔۔‘‘ نوجوان غصے میں بڑ بڑایا۔ فضول آدمی جیسے ہوش میں آگیا ہو، سنجیدگی سے پوچھا، ’’ویسے ہم یہاں بیٹھے کس کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

    ’’ہم اس کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ نوجوان نے طیش بھری آواز میں کہا، ’’جس کا ہمیں انتظار کرنا چاہئے۔‘‘

    ’’بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ کنجے آدمی نے کہا۔

    ’’مگر کون ہے وہ؟ فضول آدمی نے اصرار کیا۔‘‘

    ’’تمہارا باپ!‘‘ نوجوان نے گرج کر کہا۔

    ’’مگر میرا باپ تو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔‘‘

    ’’مگر وہ اس دنیا میں ہے، وہ آئے گا اور تمہارے مزاج ٹھکانے لگا دے گا۔‘‘

    فضول آدمی چپ ہو گیا۔ نوجوان کنجے آدمی سے مخاطب ہوا، ’’معلوم ہے ایسے لوگوں کا علاج کیا ہے۔‘‘ ہاتھ کو ایسے چلایا جیسے پستول چلا رہا ہے۔ ’’گولی‘‘رکا۔ پھر کہنے لگا، ’’وہ جب آئے گا تو ایسے لوگوں کو بخشے گا نہیں۔‘‘ فضول آدمی نوجوان کو تکنے لگا، پھر بولا، ’’اتنا انتظار کراکے آنے والے اتنے ظالم کیوں بن جاتے ہیں؟‘‘

    ’’ظالم؟ کیا مطلب؟‘‘ لمبو نے چکرا کر پوچھا۔

    ’’یہی کہ نجات دلانے آتے ہیں اور پھر ان سے نجات حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘

    نوجوان نے معنی خیز نظروں سے کنجے آدمی کو دیکھا، آہستہ سے کہا، ’’میں نے کیا کہا تھا، وہ بات ٹھیک نکلی نا۔‘‘ کنجے آدمی نے فضول آدمی کو شک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’ہاں تم ٹھیک کہتے تھے۔‘‘ لمبو کا ماتھا ٹھنکا، ’’کیا کہہ رہا تھا نوجوان؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔‘‘ کنجے آدمی نے مختصر جواب دیا۔ لمبو نے ایک شک کے ساتھ نوجوان اور کنجے کو دیکھا اور چپ ہو گیا۔ ایک وسوسہ اسے ستانے لگا تھا کہ جانے ان دونوں نے ان کے سوتے میں کیا باتیں کی ہیں، طرح طرح کی باتیں اس کے دھیان میں آئیں اور ہر بات ایسی کہ اس کے ساتھ دسیوں وسوسے اس کے دل میں پیدا ہوئے۔ پھر اس نے ایک دم سے سارے وسوسوں، سارے اندیشوں کو رد کر دیا یہ سوچ کر کہ اس جال میں پھنس گیا تو نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ باقی جو صورت جس وقت پیش آئے گی اس وقت سمجھ لیں گے، دھیان کو اس طرف سے ہٹانے کی خاطر اس نے ایک مرتبہ پھر تاشوں کی بات چھیڑ دی۔ مقفل دروازے کو غور سے دیکھا اوربولا، ’’اگر تالا کھل جاتا تو تاش ہی کی کچھ بازیاں ہوجاتیں۔‘‘

    ’’اب وہ آہی جائے گا۔‘‘ کنجا آدمی بولا، ’’پھر جتنی چاہے بازیاں کھیلنا۔‘‘

    ’’لو بھلا اس کے آنے کے بعد تاش کھیلیں گے، اس وقت اتنی فرصت کہاں ہوگی، فرصت تو اب ہے۔‘‘

    نوجوان نے تلخ لہجہ میں کہا، ’’ہاں جب تک وہ نہیں آتا ہے تو لوگوں کے لئے فرصت ہی فرصت ہے، تاش کھیلو، کیرم کھیلو، جو فضولیات کرنا چاہتے ہو کرو، میں دیکھوں گا کہ اس کے آنے کے بعد کوئی کیسے ان بے معنی سرگرمیوں میں وقت ضائع کرتا ہے۔‘‘

    فضول آدمی پریشان ہوکر بولا، ’’گویا اس کے آنے کے بعد مجھے فلیش کھیلنے کی آزادی نہیں ہوگی۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’یہ بے عملی کے زمانے کے مشغلے ہیں، وہ عمل کا وقت ہوگا۔‘‘

    ’’مگر وہ آئے بھی تو سہی۔‘‘ لمبو بولا۔

    ’’آئے گا۔‘‘ نوجوان نے یقین کے ساتھ کہا۔

    ’’مگر کب؟‘‘

    ’’جلدی، بہت جلدی۔‘‘

    ’’اتنی رات ہوگئی، اب کیا آئے گا۔‘‘ تامل کیا پھر بولا، ’’میرے خیال میں اب وہ صبح ہی کو آئے گا۔‘‘

    ’’صبح۔ صبح۔ صبح۔‘‘ فضول آدمی جھنجھلا گیا، ’’لمبو، تیرے اعصاب پہ صبح کیوں سوار ہوگئی ہے، پتہ نہیں کب رات کا انت ہوگا۔۔۔ کب صبح ہوگی۔۔۔ کب وہ آئے گا۔‘‘

    ’’صحیح کہا ہے کہنے والوں نے کہ لمبا آدمی احمق ہوتا ہے، لمبو تجھے پتہ نہیں ہے کہ ایسی راتوں کی صبح کیسی ہوتی ہے۔‘‘

    ’’یار یہ بکواس بند کرو۔‘‘ کنجا آدمی چڑ کر بولا، ’’اگر کسی کے پاس سگریٹ ہے تو وہ لگا لے۔‘‘ فضول آدمی نے فوراً جیب میں ہاتھ ڈالا، ’’لو سگریٹ کو تو ہم بھول ہی گئے تھے۔‘‘ جیب سے سگریٹ کی ڈبیا اور ماچس نکالی۔ لمبو نے سگریٹ لیتے ہوئے کہا، ’’فضول آدمی، تو تو بہت کام کا آدمی نکلا، اگر سگریٹ نہ ہوتی تو ہم بالکل ہی مارے گئے تھے۔‘‘ تینوں نے ایک ایک سگریٹ لگا لیا، پھر فضول آدمی نے ڈبیا نوجوان کی طرف بڑھائی جو ابھی تک اسی طرح تنا بیٹھا تھا۔

    ’’نوجوان سگریٹ پی۔‘‘

    ’’نہیں!‘‘

    ’’اچھا مت پی، ویسے تیرے سگریٹ نہ پینے سے وہ جلدی تو نہیں آجائے گا، آنا تو اسے اپنے وقت ہی پہ ہے، اگر اسے آنا ہے۔‘‘

    ’’تجھے اس میں کوئی شک ہے؟‘‘

    ’’شک۔۔۔ نہیں کچھ زیادہ نہیں، کیا پتہ ہے وہ آہی جائے۔‘‘

    نوجوان کا پارہ پھر چڑھنے لگا تھا، لیکن لمبو نے دوسرا ہی قصہ چھیڑ دیا، سگریٹ کے کش کے ساتھ اس میں کچھ گرمی آگئی تھی، کہنے لگا، ’’یار جاگنے کا پرانا سسٹم اچھا تھا، الاؤ روشن کیا، ارد گرد بیٹھے اور کوئی کہانی شروع کر دی۔ داستان والے ذرا زیادہ اہتمام کرتے تھے، ان کے رتجگے زیادہ زور دار ہوتے تھے۔‘‘ پھر ایک حسرت کے ساتھ کہنے لگا، ’’یار ہمارے درمیان کوئی داستان گو ہونا چاہئےتھا۔‘‘

    نوجوان نے زہریلی نظروں سے اسے دیکھا، بولا، ’’لمبو اس کے بعد تو کہے گا کہ افیون گھولنے کے لئے کوئی چاندی کی کٹوری بھی ہونی چاہئے تھی۔‘‘ فضول آدمی نے نوجوان کے طنز کو بالکل فراموش ہی کر دیا، افیون اور چاندی کی کٹوری کے ذکر پر اس کی تو باچھیں کھل گئیں، ’’یار، پھر تو لطف آجاتا، ویسے میں نے نشہ کیا کبھی نہیں ہے، سالی ہماری قسمت میں تو وہ وہسکی رہ گئی ہے۔ چاندی کی کٹوری میں گھل کر افیون کیا قیامت ڈھاتی ہوگی۔ بس اس کا تو میں تصور ہی کر سکتا ہوں۔‘‘

    ’’فضول آدمی۔۔۔‘‘ نوجوان غصے سے بڑ بڑایا، ’’آخر Decadence کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔‘‘ لمبو نے نوجوان کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا، وہ اپنے خیال میں کھویا ہوا تھا، لمبا کش لیا اور بولا، ’’یار اگر اس وقت وہسکی ہوتی تو مزہ آجاتا۔‘‘

    ’’ہاں پھر یہ بوریت تو نہ ہوتی۔‘‘

    کنجا آدمی بولا، ’’کیا کریں یار سالا تالا بند ہے اور چابی اس کے پاس ہے۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘ لمبو چونک پڑا۔

    ’’وہسکی۔‘‘

    ’’ہاں یار ہے تو سہی، پوری بوتل ہے، مگر سالی چابی ہمارے پاس نہیں ہے۔‘‘

    ’’یار تونے پہلے نہیں بتایا۔‘‘

    ’’پہلے بتا دیتا تو کیا ہوتا۔‘‘

    ’’خیر اسے اب تو آہی جانا چاہئے، بس ابھی آجائے تو مزہ آجائے، پورا جشن منائیں گے۔‘‘

    ’’یار۔۔۔‘‘ فضول آدمی کے اندر شک کی ایک لہر اچانک اٹھی۔

    ’’وہ ہم سے دغا تو نہیں کرے گا۔‘‘

    ’’دغا!‘‘ کنجے نے اسے گھور کر دیکھا، ’’وہ ہم سے دغا کرے گا، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ نوجوان نے اپنے زہر بھرے لہجہ میں ٹکڑا لگایا، ’’البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اسے ہمارے بارے میں شک ہو کہ کہیں ہم اس سے دغا نہ کریں۔‘‘

    ’’یعنی ہم؟‘‘ لمبو نے ہم پر کتنا زور دیا تھا۔

    ’’مطلب یہی ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ہوسکتا ہے۔‘‘

    ’’کوئی کون ہوسکتا ہے۔‘‘ فضول آدمی جیسے وضاحت طلب کر رہا ہو۔

    ’’کوئی بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

    ’’آدمی کو کوفی ہوتے دیر تھوڑا ہی لگتی ہے، میں ہوسکتا ہوں، تم ہو سکتے ہو۔‘‘

    ’’کیا کہا، میں؟‘‘

    ’’ہاں تم۔‘‘ نوجوان نے فضول آدمی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔ ایک دم سے وہ پھر طیش میں آگیا تھا، مگر اس مرتبہ فضول آدمی کو بھی تاؤ آگیا، منہ غصے لال ہوگیا، ’’یہ گالی میں برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘ اور فوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا جیسے نوجوان سے دو دو ہاتھ کرنے پہ آمادہ ہو، نوجوان نے بھی آستینیں چڑھا لیں، اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا، کنجا آدمی اور لمبو دونوں انھیں خاموش دیکھا کئے، مگر جب انھوں نے دیکھا کہ وہ تو سچ مچ کٹ مرنے پہ تل گئے ہیں تو انھوں نے اٹھ کر بیچ بچاؤ کرادیا۔ لمبو نے فضول آدمی کو تھاما، کنجے آدمی نے نوجوان کو جیسے تیسے سنبھالا، وہ تو بس فضول آدمی پر ٹوٹ پڑنا چاہتا تھا، تتو تھمبو کرکے دونوں کو الگ الگ بٹھایا، کچھ جھڑکا، کچھ سمجھایا، ’’اس نازک وقت میں تمہیں لڑنے کی سوجھی ہے، حد ہوگئی۔‘‘

    نوجوان یوں چپ تو ہوگیا مگر اس کی آنکھوں میں اس کے بعد بھی دیر تک خون ابلتا رہا۔ فضول آدمی کے سر پہ چڑھا بھوت جلد ہی اتر گیا، غصہ جس تیزی سے چڑھا تھا اسی تیزی سے اترا، پھر وہ الگ گم سم بیٹھ گیا، کنجا آدمی اور لمبو بھی چپ رہے، چپ رہنے میں ہی انھیں عافیت نظر آرہی تھی، وہ بولیں تو پتہ نہیں کس بات سے کیا بات نکلے اور وہ دونوں رفیق پھر بھڑک اٹھیں۔ دیر بعد لمبو بڑ بڑایا، ’’ہم کس مشکل میں پھنس گئے ہیں۔‘‘ کنجا آدمی اپنی بلی جیسی آنکھوں سے اسے تکنے لگا، پھر بولا، ’’یار آدمی پھنستا جلدی ہے، نکلتا دیر سے ہے۔‘‘

    ’’ٹھیک کہتے ہو، ایک دفعہ آدمی پھنس جائے پھر اسے اللہ ہی نکالے تو نکالے، اس پہ مجھے حضرت موسیٰ کے حواریوں کا قصہ یاد آگیا، یہ لوگ چلتے چلتے ایک صحرا میں جا نکلے، وہاں ایسی پھنسے کہ چالیس برس تک اسی صحرا میں بھٹکتے رہے، نکلنے کا راستہ انھیں نہیں مل پاتا تھا۔‘‘

    ’’چالیس برس تک؟‘‘ نوجوان نے حیرت سے سوال کیا۔

    ’’جی چالیس برس تک۔‘‘

    ’’ان لوگوں کا Sense of direction بہت کمزور تھا۔‘‘

    ’’خیر وہ تو صحرا تھا۔‘‘ لمبو کہنے لگا، ’’صحراؤں میں تو یوں بھی سمتوں کا احساس ختم ہوجاتا ہے، اور پھر وہ زمانہ۔ میں تمہیں اپنا اس زمانے کا تجربہ سناتا ہوں، ایسا ہوا کہ مجھے گلبرگ ایک عزیز کے یہاں جانا تھا، رات ایسی زیادہ نہیں گئی تھی، اول شب سمجھو، ہاں بارش ہورہی تھی، اور بارش کی راتوں میں تم نے دیکھا ہوگا کہ سٹریٹ لائٹس کے باوجود رستے آپس میں کچھ تحلیل ہوجاتے ہیں۔ سو دفعہ کا وہ گھر دیکھا ہوا، وہ سٹریٹ دیکھی ہوئی، مگر قریب ہی جاکر میں بہک گیا اور غلط گلی میں مڑ گیا۔

    بس پھر میں ایک گلی سے دوسری گلی میں، دوسری گلی سے تیسری گلی میں، وہ گلی نہ ملی جس میں وہ گھر تھا، بس آس پاس کی گلیوں میں گھنٹوں بھٹکتا رہا، بالآخر ایک ریستوران میں جاکر میں نے انھیں فون کیا اور وہ خود آکر مجھے لے گئے، تو بھائی آدمی کا قدم ایک مرتبہ بہک جائے، بس پھر سمجھ لو کہ گیا کام سے۔‘‘

    نوجوان سوچ میں پڑ گیا، کنجا آدمی آنکھوں سے اسے تکتا رہا، بولا کچھ نہیں، فضول آدمی بول پڑا، کہنے لگا، ’’کبھی تو وہ اتنا قریب ہوتا ہے کہ میں اس کے قدموں کی آہٹ سن سکتا ہوں، لگتا ہے کہ یہیں آس پاس کی گلیوں میں منڈلا رہا ہے، بلکہ اس گھر کی دہلیز کے قریب اور کبھی یوں لگتا ہے کہ دور صحراؤں میں بھٹک رہا ہے، اور یہ کہ ہم تک کبھی نہیں پہنچ سکے گا۔‘‘

    ’’بکواس!‘‘ نوجوان نے غصے سے ہونٹ چبائے۔ اس نے نوجوان کے ردعمل کو یکسر نظر انداز کیا، سرک کر لمبو کے قریب آگیا، رازدارانہ لہجہ میں بولا، ’’مجھے لگتا ہے کہ اس وقت وہ کہیں آس پاس ہے، ویسے تمہارا کیا خیال ہے، اسے آنا چاہئے۔‘‘

    ’’میرا خیال۔۔۔‘‘ لمبو نے فضول آدمی کو گھور کر دیکھا، ’’ہم اسی آس پر تو بیٹھے ہیں کہ وہ آئے اورہم اس مشکل سے نکلیں۔‘‘

    ’’لیکن اگر اس کے آنے کے بعد بھی ہم اس مشکل سے نہ نکل سکے تو؟‘‘ لمبو چکرا گیا، نوجوان حسب عادت پھر غصے سے کانپنے لگا۔ کنجا آدمی بہت بے مزہ ہوا، ’’یار کس فضول آدمی کے ساتھ پالا پڑ گیا ہے۔‘‘

    ’’تو کیا چاہتاہے۔‘‘ لمبو نے اس سے سیدھا سوال کیا، ’’اسے نہیں آنا چاہئے؟‘‘

    ’’یہ تو نہیں کہوں گا، اسے آنا تو چاہئے۔‘‘ رک کر بولا، ’’تم لوگوں کو پتہ ہے کہ اب کے میں نے عریضہ ڈالا تھا۔‘‘

    نوجوان چکرایا، ’’عریضہ؟ کیسا عریضہ؟‘‘

    ’’نوجوان ہنسا، ’’دنیا میں کیسے کیسے توہم پرست لوگ ہیں۔‘‘ لمبو نے بہت میانہ روی برتی، نوجوان کو ٹوکا، ’’نوجوان یہ عقیدے کا مسئلہ ہے، ہمیں کسی عقیدے کی تضحیک کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ نوجوان نے ایک تحقیر کے ساتھ’’ہوں‘‘ کہا اور چپ ہوگیا۔

    فضول آدمی پھر شروع ہوگیا، ’’میں نے پہلے کبھی عریضہ نہیں ڈالا تھا، گھر کے سب لوگ ڈالا کرتے تھے، میں اس کا قائل ہی نہیں تھا مگر اس برس شب براؔت پر میں نے آخر شب اٹھ کر وضو کیا، پیالی میں زعفران گھولا، بہت عقیدت کے ساتھ عریضہ میں اپنی یہ تمنّا رقم کی، اسے میدے میں لپیٹ کر تاروں کی چھاؤں میں دریا کنارے پہنچا اور اپنے عریضے کو لہروں کے سپرد کر دیا، اس توقع کے ساتھ کہ کوئی نیک پاک مچھلی میرے اس عریضے کو امام غائب کے حضور لے جائے گی۔‘‘

    ’’اچھا کیا۔‘‘ لمبو نے اسی میانہ روی کے ساتھ کہا۔

    ’’مگر اب مجھے ڈر لگ رہا ہے؟‘‘

    فضول آدمی لمبو کے اور قریب سرک آیا اور ایسے جیسے اس کے کان میں بات کر رہا ہو، اور ایک تشویش کے ساتھ بولا، ’’یہی کہ کہیں وہ سچ مچ آہی نہ جائے۔‘‘

    مأخذ:

    گنی چنی کہانیاں (Pg. 278)

    • مصنف: انتظار حسین
      • ناشر: وکاس پبلیشنگ ہاؤس پرائیویٹ لمیٹڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1992

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے