Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انتہائی نگہداشت

پروین عاطف

انتہائی نگہداشت

پروین عاطف

MORE BYپروین عاطف

    میرا شک یقین میں بدلتا جا رہا ہے۔ ڈگڈگی بجانے والا اب خود بھی تھک چکا ہے۔ میرے مٹی کے ڈھیر بدن میں اب اوپر والے کے اشاروں پہ ناچنے کی سکت نہیں رہی۔ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے کمرے میں پھرتی سے ادھر ادھر بھاگتے سفید کوٹوں کے چہروں پہ پھیلتی مایوسی دیکھ کر مجھے اک گونہ کامرانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آدھی صدی زندگی کا کچرا سینے پہ دھرنے کے بعد فنا کے عمیق سمندر میں غرقاب ہو جانے کے بعد میں اس بےنیاز کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاؤ ں گا جس نے زندگی کے پہلے پانچ برسوں کے اندر اندر جب میں زمین آسمان، چاند تاروں، جھرنوں، آبشاروں، گیتوں، محبتوں کے طلسماتی حسن سے ابھی واقف بھی نہیں ہوا تھا ابھی میری دنیا ماں باپ، لالہ، آپی اپنی ٹرائی سکل اور پچھواڑے والے درزی چچا سے آگے کچھ بھی نہیں تھی۔ مجھ پر فالج گرا کر مجھے منجھی سے منجھی کر دیا۔ زندگی کے تابوت میں بند کرکے حکم دیا گیا کہ حسیں تو قائم رہیں گی لیکن بدن کبھی زندہ نہ ہوگا۔

    ماں کی صورت تو اب میر ے ذہن میں ایک غیر مرئی محبت کے احساس سے زیادہ کچھ بھی نہیں لیکن قربت مرگ کے لمحات میں بھی اس کے آنسوؤں کی جلن میں اپنے مٹی بدن پہ جوں کی توں محسوس کرتا ہوں کھڑکی کی سل پہ بیٹھا موت کا گدھ نما پرندہ مجھے جھوپ کر لے جانے کے شوق میں بار بار پر پھڑپھڑاتا ہے لیکن ٹوٹیوں، انجکشنوں، نالیوں میں جکڑے رہنے کے باوجود میں جانتا ہوں ابھی وہ گھڑی نہیں آئی جب سین پورا ہو جانے کے بعد ڈائریکٹر کٹ کی آواز لگاتا ہے۔ قہار جبار سے بھی میرے بدن کے آدھے حصے کی زندگی کشید کرتے وقت میرے فائدے کی غلطی یہی ہوئی کہ وہ میرے ذہن کی ساری بتیاں گل کرنا بھول گیا۔ اسی لیے فلم ختم ہوتے ہوتے بھی کئی گزشتہ ایپی سوڈ (episode) میرے اردگرد مسلسل چل رہے ہیں۔۔۔ میری ماں تو میرے لوتھڑا بدن کو دوبارہ زندہ کرنے کی خواہش میں مجھے بارہ تیرہ برس کی عمر تک گھسیٹتے گھسیٹتے اس قدر تھک گئی تھی کہ ایک رات میرے ساتھ سوئی سوئی وہ خود ابدی نیند سو گئی۔ ہم دو ہی بہن بھائی تھے۔ میں بہن کے دس برس بعد پیدا ہوا تھا۔ اسے رب نے چاند تاروں کی کرنیں پیس پیس کر بنایا تھا میں گول مٹول کمہار کے چکے پر لاپرواہی سے ڈھالا ہو تھن متھنا تھا۔ پر بیماری سے پہلے لالہ آپی ہر گھڑی مجھے گپلو، ببلو صدقے واریاں کرتی، ڈھاک پہ لٹکائے رکھتی تھی۔ لالہ آپی تو سنڈریلا تھی ہی لیکن اس کی زندگی کا پیدائشی مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ زندگی کے کسی بھی بدصورت پہلو یا انسان کو برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ نرم خو اور رحم دل ہونے کے باوجود بس بدنمائی اور بدصورتی کی قربت اسے دمے کا دورہ ڈال دیتی تھی۔ امیر کبیر گلزار بھائی چھوٹی عمر میں اس کا ہاتھ مانگنے پر مجبور بھی اس کا مس ایشیاء جیسا قد بت اور چہرہ دیکھ کر ہی ہوئے تھے۔

    ماں تو میرے فالج زدہ منہ سے گرنے والی رالیں بھی اپنی ہی چنی سے صاف کرتی تھی لیکن اس کی اچانک موت کے بعد خوشبوؤں میں بھیگی نازک اندام آپی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ مجھے اپنی محل نما کوٹھی کے ایک کمرے میں ڈال کر دو تین ملازم میری راکھی پر چھوڑ دے۔ کمرے کا ایک دروازہ بھی باہر نوکرکواٹروں میں کھلتا تھا۔ وہ میری ایک ہی آواز پر بھاگے بھاگے اندر آجاتے تھے۔ میری زبان میں لکنت تو تھی لیکن دوسروں کو بات سمجھانا زیادہ مشکل نہ تھا۔ آپی اپنی دولت کے ذریعے مجھے ہر طرح کی تکلیف سے بچا کر رکھنا چاہتی تھی۔ یہ ایک بات کہ زندگی کی بھاگ دوڑ ہنگاموں نے میرے لیے اس کے پاس بہت کم وقت چھوڑا تھا، نہ نہ کرتے بھی پولیو کے بعد احساس جرم تو میرے وجود میں اسی دن سرایت کر گیا تھا جس دن مجھے یہ علم ہوا کہ اپنے جسم کی تمام فطری رطوبتوں اور غلاظتوں کا اخراج مجھے بستر کے اندر ہی اندر کرنا ہوگا اور وہ بھی کسی دوسرے کے رحم و کرم سے شروع میں ادھیڑ عمر عاشق مسیح باجی سے حاصل کردہ بھاری تنخواہ کے عوض بیڈ پین اور پیشاب کی بوتل مجھے استعمال تو کروا دیتا تھا لیکن انہیں اوپر اوپر سے کھنگال کر غسل خانے میں اسی طرح پھینکتا کہ ساری فضا متعفن ہو جاتی۔ میں تو اپنی مکروہ زندگی کا عادی ہو چکا تھا۔ باہر سے آنے والے لوگ جب چند منٹ کمرے میں رک نہ سکتے تو مجھے اندازہ ہو جاتا کہ میرے کمرے کا ماحول دوسروں کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔ آپی کی کبھی کبھی آمد سے پہلے تو سارے لالچی ملازم کمرہ ہسپتال کے وی آئی پی روم کی طرح چمکا دیتے لیکن جتنے دن وہ نہ آ سکے، جی جناب جی، ہاں جناب کرنے کے علاوہ وہ مجھے پانی پلانے میں بھی گھنٹوں لگا دیتے تھے۔ ماں کی مشفق جھلکیاں تو جان کنی کے ان لمحوں میں بھی میرے دماغ میں جوں کی توں محفوظ ہیں۔ میرے منہ کے دائیں ٹیڑھے حصے کو اپنے ہاتھ سے کھول کرجب وہ نوالہ اس میں رکھتی اور چباتے چباتے جب وہ میری نیم مردہ براچھوں سے باہر گرنے لگتا تو وہ آبدیدہ ہو کر اپنی جھولی آگے کر دیتی۔ اس میں گرا بیلو میری جھولی میں سو دفعہ گرا میرا بچہ۔

    وہ کہتی ملازم تو بھاری تنخواہوں کے باوجود مہینے دو مہینے میں آپی سے کہہ دیتے کہ میرے بوجھل وجود کو سدا صاف ستھرا رکھنا، سنبھال لینا ان کے بس میں نہیں تھا۔ پندرہ ہزار روپے ماہانہ کا میل نرس بھی پانچ ہفتوں کے اندر اندر ہی یہ کہہ کر نوکری چھوڑ گیا تھا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی کمزور تھی اور مجھے ہلانا جلانا اس کے بس میں نہ تھا۔ انتہائی نگہداشت کمرے میں سردی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی ہے۔ ناک منہ پر جکڑی نالیوں کی وجہ سے بولنے سے معذور ہوں۔ چاک و چوبند نوجوان ڈاکٹر جب ہر طرح کی بھاگ دوڑ کے باوجود مجھے آہستہ آہستہ فنا کے سمندر میں اترتے دیکھتے ہیں تو اپنے کسی سینئر کے مشورے پر کچھ مزید ٹیکنالوجی مجھ پر لاد دیتے ہیں اور اس ناک منہ پر جڑی نالیوں اور ٹوٹیوں کی وجہ سے میں انہیں یہ نہیں بتا سکتا کہ میں یخ بستہ پانیوں میں ڈوب رہا ہوں اور اس ڈوبنے کا احساس پرسکون ہے مجھے اپنی زندگی کی قید بامشقت سے آزاد ہونا چاہیے لیکن میری پیاری ماں جائی بہن؟ جن کے گلزار بھائی اپنے بڑے بڑے پلازوں کی کنسٹرکشن چھوڑ کر ہر برس پاکستان نہیں آ سکتے اور وہ اپنے پلازوں کے جھروکوں سے برستی اشرفیوں کی بارش میں میری بہن کو بھگوتے ہیں، میری وجہ سے بیچاری آپی پاکستان سے باہر بھی زیادہ نہیں جا سکتی لیکن شدید گرمی اور لوڈشیڈنگ سے گھبرا کر وہ اپنی امیر کبیر سہیلیوں کے ساتھ گرمیاں اپنے ہی ملک کے پہاڑی علاقوں میں گھوم گھوم کر گزارتی ہے۔ اس بار بھی جانے سے پہلے مجھ سے کہتی تھی، ببلو تم چاہو تو میں تمہارا مری جانے کا بندوبست کر دوں۔ موت جوگے ملازم ہی آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں تمہارے ساتھ نہیں جانا چاہتے۔ نہیں آپی آپ جائیں گھر جیسا آرام مجھے باہر کبھی نہیں مل سکتا۔ جنریٹر گزارہ چلا لےگا، میں نے حسب سابق حوصلے سے کہہ دیا تھا۔

    میں جانتا تھا آپی بھی مجھے مری کی صدا صرف گونگلوؤں سے مٹی اتارنے کی خاطر دیتی تھیں۔ میں یہ بھی جان چکا تھا کہ اوپر والے نے میرے ساتھ بہت بڑا چھل کیا ہے۔ چرند، پھول، شجر حجر، دریا، پہاڑ صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جن کے بدن مکمل ہوں جو اپنی غلاظتیں خود سنبھال سکتے ہوں۔ عناصر کا اتھاہ حسن مجھے صرف ٹی وی کی اس سکرین کے پیچھے سے جھانکتا تھا جو میرے بستر کے سامنے لٹکا دیا گیا تھا۔ میں نے تو چھک چھک کرتی دھواں اڑاتی ریل یا دم کے پیچھے سے دھویں کی لکیریں بنتے آسمانوں میں گم ہوتے جہاز کو بھی محض ٹی وی پر لگنے والی فلم کے ذریعے ہی دیکھا تھا۔ ان میں بیٹھ کر سفر کیسے کرتے ہیں، یہ تو میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔

    اس بار آپی کو گلزار بھائی نے دبئی میں اپنے کسی شاپنگ مال کے افتتاح کے لیے بلایا تھا۔ جانے سے پہلے وہ چاہتے تھے آپی ان کے شان و شوکت کا لطف ان کے ساتھ کھڑی ہو کر اٹھائے۔ علم نہیں تھا کہ پرانی شوگر کی وجہ سے میری انتڑیاں اچانک خون تھوکنے لگیں گی اور میری کال کوٹھڑی کا تالا کھول دئیے جانے کا فرمان جاری ہو جائےگا۔ چوکیدار نے کل مجھے بتایا تھا۔ جدے میں عمرے کے دوران آپی کو میری مخدوش حالت کا علم ہو چکا تھا۔ ہسپتال والوں کو ایڈوانس ڈالر بھیج دئیے گئے ہیں۔ عمرے کے سیزن کی وجہ سے انہیں جلدی سیٹ نہیں مل رہی۔ سیٹ ملتے ہی وہ واپس سیدھی میرے پاس چلی آئیں گی۔

    ’’نگو‘‘ کے بینوں کی آہستہ آہستہ ہسپتال میں پھیلتی آواز الہامی ہے۔ اس جیسی گرم و سرد چشیدہ ڈھیٹ عورت صرف اسی کے لیے بین ڈال سکتی ہے جو واقعی دوسرے کنارے پہنچ چکا ہو۔ میں جانتا ہوں میرے لیے رونے پر اسے اس کی ضرور یات بھی مجبور کر رہی ہیں لیکن وقت رخصت اگر میں کہوں کہ میرے لیے بین ڈال کر رونے والی اس بےہنگم عورت کے سوا دنیا میں کوئی دوسرا نہیں ہے تووہ مبالغہ نہیں ہوگا۔

    منکر نکیر لکھتے ہیں تو لکھیں۔ اس کی ادا صرف بے نیازی نہیں ہے بےانصافی بھی ہے۔ جاتے جاتے ذہن کاجل بجھ جل بجھ حصہ بولتا ہے، اگر میں اپنے بدن کے زندہ متحرک حصے کے ساتھ لٹکتے بھاری مردہ ماس کو کاٹ کر الگ کر سکتا تو میں بھی اپنے آپ کو صاف ستھرا معطر رکھ سکتا تھا۔ پراب جاتے جاتے کہنا چاہتا ہوں کہ زندگی سرنگوں کرنے والے صحتمندوں اور مجھ جیسے کثیر التعداد کوڑھیوں کے درمیان بےوجہ ایک ناقابل عبور دیوار چین کھڑی کردی جاتی ہے۔ ہم بےگناہ زندگی کی رنگ پچکاریوں سے کھیلتے، محبتوں کے کھیل رچاتے لوگوں کوصرف دور دور سے دیکھ سکتے ہیں اپنی نحوستوں کی دیوار ٹاپ کر ان میں شامل نہیں ہو سکتے۔ اسی قربت مرگ کے لمحے بھی مجھے یاد ہیں، آپی ایک بار میری شدید محرومیوں سے شرمندہ مجھے وہیل چیئر میں انڈیل کر رشتہ داروں کی شادی میں بھی لے کر گئی تھی ہجوم کو دیکھ کر میرے خون کا فشار تو جو بڑھا سو بڑھا، چچ چچ! ہائے ہائے! کرتے ترس کھانے والے میرے گرد یوں جمع ہونے لگے جیسے میں دنیا کا کوئی نواں عجوبہ تھا اس سے پہلے کہ میں وہاں دھاڑیں مار مار کر رونے لگتا یا فرسٹریشن سے انہیں گالیاں دینے لگتا میں نے اسلم اور اللہ رکھے سے کہا مجھے فی الفور واپس گھر لے جاؤ۔۔۔

    آخری ملازم سیف اللہ جب اپنی بھاری تنخواہ والی نوکری یہ کہہ کر چھوڑ گیا کہ باہر والا آدھا زندہ آدھا مردہ بدن تو ہمت کرکے صاف کرلیتا ہوں لیکن بھیا کی بیماری تو اندر سے ہی دن بھر بدبو چھوڑتی ہے، وہ نہیں سہاری جاتی۔

    تھلتھلے بدن والی قد آور ’’نگو‘‘ چوڑی کافی دیر سے کوٹھی کی صفائی ستھرائی پر معمور تھی۔ وہم کی حد تک صفائی پسند ہونے کی وجہ سے ’’نگو‘‘ کو بھاری تنخواہ دے کر آپی اس سے دن بھر جھاڑو پوچے پھرواتی رہتی۔ آپی کی کشادہ دستی کی وجہ سے اس کے سامنے سدھائے ہوئے جانو ر کی طرح دن بھر سٹ سٹینڈ میں مصروف رہتی تھی کیونکہ اس کے نشئی شوہر اور بچوں کا اس کے بغیر کوئی دوسرا کفیل نہ تھا۔

    سیف اللہ کی شدید بدتمیزی کے بعد آپی نے بادل نخواستہ میری تمام ذمہ داری ’’نگو چوڑی‘‘ کے حوالے کردی۔ اس نے پہلے دن ہی اپنے دونوں مضبوط بازوؤں میں مجھے اٹھا کر مجھے بیڈ پین پر بٹھاتے ہوئے کہا۔ ہم عیسائی لوگ تو صدیوں سے آپ لوگوں کے گوموت سنبھالتے ہیں، آپ کی دفعہ مجھے کونسی موت آ جائےگی۔ جب یسوع مسیح خود کوڑھیوں کو سینے سے لگا سکتے ہیں تو مجھ کم ذات کا کیا نخرہ؟

    وہ میری ہونق زندگی کا پہلا دن تھا جب مجھے میری غلاظتیں سنبھالنے والے ہاتھوں میں غصے اور جھنجھلاہٹ کا احساس نہیں ہوا۔ وہ مجھے ایسی خوشدلی سے سنبھال رہی تھی جیسے کوئی ماں اپنے گندے بچے کو سنبھالتی ہے۔ احتیاط سے بیڈپین میرے نیچے رکھنے کے بعد اس نے منہ دوسری طرف کرکے ٹپے گانے شروع کر دئیے تھے۔

    اس کی سنبھال میں توجہ اور شفقت تو تھی لیکن وہ میرے تکیے تلے پڑے نوٹوں پراس طرح جھپٹتی جیسے چیل چھیچھڑوں پر جھپٹتی ہے۔ کیوں چھینتی ہو مجھ سے اتنے پیسے؟ شرم نہیں آتی میری مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے۔۔۔؟

    جناب عالی! اس کتے کی اولاد اپنے خصم ’’سٹیفن‘‘ کی خاطر بے غیرت ہو گئی ہوں۔ میں عشق نہ پچھے ذات میرے حضور! تین دفعہ تو نشے کے ہسپتال سے علاج کرا چکی ہوں اس بھڑوے کا۔ آتے ہی دوبارہ لے جاتے ہیں اسے اس کے نشئی دوست اسے زہر پلانے، آپ سے کیا پردہ مجھے توابھی ماہانہ تاریخیں بھی نہیں آئی تھیں جب میرا دل سٹیفن کی شربتی آنکھوں نے لوٹ لیا تھا۔ آپ معصوم کیا سمجھیں حضور میرے پیٹ کی خالی سیپی میں موتی بھی تو اسی کے وجود نے پروئے تھے نا۔۔۔ اپنے ان تینوں پیاروں کے لیے ابھی تو صرف اپنی غیرت بیچتی ہوں کبھی جان بیچنی پڑی تو دریغ نہیں کروں گی۔ جناب آپ کی خیر خیرات جو بھی لے جاتی ہوں اسی سے دیا جلتا ہے میری اندھیری کوٹھڑی کا۔

    ’’نگو‘‘ چوڑی یہ بھی اچھی طرح جانتی تھی کہ میری قربت سے زیادہ تر دور بھاگنے والی آپی اپنی غیر موجودگی کی تلافی مجھ پر نوٹوں کی بارش برسا کر کرتی تھی اور وہ نوٹ ملازموں کو اٹیرنے کے علاوہ میرے کسی کام نہیں آ سکتے تھے۔

    ’’نگو‘‘ مہترانی نے جب میرے بدن کا چارج سنبھالا تو میں انیسواں ٹاپ رہا تھا۔ آدھا چہرہ گھنے بالوں سے بھرا تھا۔ آدھے مفلوج حصے پر سوکھی پرانی گھاس جیسے بدرنگ بال اگ رہے تھے۔ انیس بیس کی عمر تک میں مرد کی مردانگی کے کسی بھید سے بھی واقف نہ تھا۔ چند مہینوں سے اپنے بے کراں بدن کی مالک مہترانی پیشاب کی بوتل میرے مضمحل مردانہ عضو کے ساتھ لگاتے لگاتے اسے اپنی کھردری انگلیوں سے سہلاتی تو اچانک ریڑھ کی ہڈی میں چالیس والٹ بلب جیسی ہلکی ہلکی شعاعیں جگنے لگتیں۔ نسوں کے مردہ جال میں توانائی کا لذیذ احساس، جاگ اٹھتا کیا کررہی ہو بدتمیز، میں آہستہ سے بڑبڑاتا چاروں چک جہانگیر ہیں سرکار۔۔۔ وہ زور سے قہقہہ لگاتی۔۔۔ اپنے خاں صاحب کو میں نے مردوں میں سے ایک بھرواں مرد نہ بنایا تو ’’نگو‘‘چوڑی نام نہیں۔ جو کچھ زندہ نہیں لگتا وہ بھی زندہ کرکے دکھاؤں گی ایک دن۔ وہ میری ڈانٹ سنی ان سنی کرکے ’’نکا موٹا باجرہ ماہی وے‘‘ گاتی ہوئی نکل جاتی اور میں گھنٹوں لیٹا اس انوکھی روشنی اور توانائی کے بارے میں سوچتا رہتا جس کے بٹن مہترانی کے کھردرے ہاتھوں میں پوشیدہ تھے۔ کچھ ہی دنوں کے اندر اندر ’’نگو‘‘ نے مجھے اس گھڑی بھر کے تلذذ کا عادی بنا دیا تھا۔ میں صبح اٹھتے ہی بےچینی سے اس کا انتظار کرنے لگتا نوٹوں سے اس کی جھولی بھر دیتا جن سے وہ نشے کے عادی سٹیفن کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی اور مجھ پر اپنے ڈھیلے زنانہ بدن کے مزید بھید کھولنے لگتی۔ آہستہ آہستہ میرے اور پینتالیس سالہ ’’نگو‘‘ کے درمیان ایک باقاعدہ پوشیدہ رشتہ قائم ہو چکا تھا۔ میرے بدن کے مردہ تودے میں زندگی کی چنگاری بھڑکانا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ میری میلی کچیلی متعفن دنیا میں ایک عورت کے وجود کی وجہ سے رنگ کھلنے لگے تھے۔ پچھلی جون میں شدید گرمی اور لوڈ شیڈنگ سے تنگ لالہ آپی نے جب اپنی امیر کبیر سہیلیوں کے ساتھ کوہساروں کا رخ کیا تو ’’نگو‘‘ کئی راتیں میری دیکھ بھال کے بہانے سرونٹ کوارٹروں میں بسر کرنے لگی تھی۔ دوسرے ملازموں کے سونے کے بعد وہ لوڈشیڈنگ کے گھپ اندھیروں میں میرے پاس آتی اور ایک سدھائے ہوئے جانور کی طرح مجھے اپنے بدن کی ہر نکڑ سے کھیلنے کی اجازت دے دیتی۔ کچھ دیر میں میں اپنے آپ کو اس کے اتھل پتھل ماس کے ڈھیر کا مالک سمجھنے لگتا۔ زندگی کے لذائذ کی معمولی سی جھلک نے بھی میرے اندر جینے کی امنگ پیدا کر دی تھی۔

    ماں کی وفات سے لے کر ’’نگو‘‘ چوڑی کی میری زندگی میں آمد تک مجھے کسی ایسے انسانی لمس کا تجربہ نہیں تھا جس میں قبولیت یا ہمدردی کی کوئی معمولی سی چس بھی موجود ہوتی۔ وہ میلی تھی یا بدصورت، اس نے مجھے زندگی کے گلزار کی سحر انگیز جھلک دکھائی تھی انسان سے انسان کی جڑت کی اہمیت اجاگر کی تھی۔ ان دنوں میں اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔

    سٹیفن کا بدن نشے کی زیادتی کی وجہ سے برادہ بن چکا تھا۔ اس کی جوا ن بہن کی شادی کی تمام ذمہ داری اپنے بھائی اور بھابی پر ہی تھی۔ سٹیفن کو تو مصری ممی بناکر ’’نگو‘‘ نے گھر میں ڈال رکھا تھا۔ پر بھری برادری میں وہ اپنے نیم مردہ شوہر کی تھڑی تھڑی نہیں کرانا چاہتی تھی۔

    سرہانے پڑے مانیٹر پر میرے دل کی جل بجھ جل بجھ لائنیں دیکھ کر ڈاکٹر لوگ دوبارہ ادھر ادھر بھاگنے لگے ہیں۔۔۔ وینٹی لیٹر۔۔۔ وینٹی لیٹر کی کھسر پھسر صاف سنائی دے رہی ہے۔ دسیوں بار ٹیلی ویژن پر اور میرے پاس آنے جانے والے دکاندار طبقے سے میں مرنے والوں کے آخری لمحات کاحال سن چکا ہوں دل بھلے جھٹکے کھاتا رہے۔ جب تک انسانی ذہن کی بستی گل نہ ہو موت جیت نہیں سکتی۔

    میری ڈوبی ڈوبی بینائی کے باوجود میرے ذہن کی پھرکی جوں کی توں چل رہی ہے۔ سفید ریش ڈاکٹر نے مجھے دل کاجو ٹیکا لگایا ہے اس نے سانس ایک بار پھر رواں دواں کر دئیے ہیں۔

    نند کی شادی کی فکر میں گھلی نگو نے اس رات میرے بدن کی مکمل مالش کے بعد ’’مجھ سے مدد کی التجا اسی لہجے میں کی تھی جیسے عورتیں اپنے کماؤ مردوں سے کرتی ہیں۔‘‘ میرے خاندان کی جوانی کے صدمے میں للی کی شادی کی ذمہ داری کو بھی اچھی طرح پورا کرنا چاہتی ہوں، سٹیفن نامراد کو دنیا کے سامنے ذلیل ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔ کیا کہتے ہو میری سرکار؟

    اس نے دھیرج سے میری قمیض کے بٹن کھولتے ہوئے کہا۔ زندگی بھر قدم چومتی رہوں گی۔

    ’’لچی‘‘ میں ہنسا۔۔۔

    میری سرکار آپ بھی کون سے کم لچے ہیں نہ آؤں تو آپ کو بھی اس نیچ کی لگن لگی رہتی ہے۔ اب اس دربار سے اٹھ کر جاؤں بھی کہاں؟

    سیاحت یا سیر کے لیے جاتے وقت آپی شاید میری خود اعتمادی بڑھانے کی خاطر اپنے پورے گھر کی چابیاں مجھے ہی دے کر جایا کرتی تھی۔ زیور، کیش تو زیادہ تر بینکوں میں ہی بند رہتے تھے۔۔۔۔ لیکن کمروں میں سجے نوادرات کی قیمت بھی لاکھوں سے کم نہ تھی۔ بہت زیادہ نہیں لیکن اپنی ضرورت کے مطابق آدھی رات برکت مسیح کے مشٹنڈے بھائی لے کر آؤ اور باقی ملازم جب گہر ی نیند سو جائیں تو گھر سے کچھ قیمتی اشیاء اٹھا کر لے جاؤ اور ان سے علی کی شادی کا بندوبست کر لو۔ میں نے گھر کی چابیاں اسے پکڑاتے ہوئے کہا۔ صبح ڈاکے ڈاکے کا شور پڑے تو تمہیں بھی موجود ہونا چاہیے۔ چیزیں احتیاط سے بیچنا کام پروگرام کے مطابق پورا ہو گیا۔ ڈاکے کی خبر سن کر پولیس آئی تو میری بےبسی دیکھ کر ملازموں سے گالی گلوچ کرتی رہی۔ میں نے تھانیدار کو کچھ پیسے دے کر آپی کے آنے تک کسی ملازم کو تھانے کچہری نہیں جانے دیا۔ ’’نگو‘‘ نے میری مردہ ایخو کو زندگی بخشی تھی۔ میری اپنی ہی ذات سے نفرت کو کم کیا تھا۔ سحر انگیز حقائق سے پردہ اٹھایا تھا۔ چند مہنگی اشیاء کی گمشدگی آپی کے لیے کسی بڑے خسارے کاباعث نہیں تھی۔ ’’نگو‘‘ کا اپنی برادری میں سرخرو ہونا میرے لیے باعث اطمینان تھا آپی واپسی پر پریشان تو ہوئی لیکن نقصان سے زیادہ اسے دکھ تھا تو میری بے بسی کا۔۔۔ شکر ہے ببلو ان بھیڑیوں نے تیرے کمرے کا رخ نہ کیا تمہیں کوئی نقصان پہنچ جاتا تو میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کر سکتی۔ حفظ ماتقدم کے طور پر آپی نے ’’نگو‘‘ سمیت ان تمام ملازموں کو نوکری سے فارغ کر دیا جنہیں وہ پیچھے گھر چھوڑ کر گئی تھیں۔ اگلے روز ’’نگو‘‘ مجھے داتا گنج بخش کے مزار کی طرح سر سے پاؤں تک چومتی۔ تشکر سے بھری مری زندگی سے غائب ہو گئی تھی۔ سٹیفن کی عزت کی خاطر اس نے میری ذات کی بھی بلی چڑھا دی تھی۔

    میرے کمرے کی فضا ایک بار پھر گھٹن اور تعفن سے لتھڑ گئی۔ کسی اپنائیت بھری انسانی چھون کے بغیر میری فالج زدہ رگوں میں دوڑتا خون منجمد لوتھڑوں میں تبدیل ہونے لگا تھا۔ میرے آدھے زندہ حصے نے بھی مٹی سے مٹی ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میں نے ایک آدھ بار اپنی بہن سے کہا بھی تھاکہ ’’نگو‘‘ کی طرح دل لگا کر مجھے کوئی نہیں سنبھال سکتا لیکن اس نے میری بات سنی ان سنی کر دی تھی۔ میری آپی میری بہترین گاڈفادر تھی لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ ’’نگو‘‘ کے چلے جانے کے بعد میری روح نے بھی ہفت آسمانوں میں اڑان بھرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

    آج وہ مجھے اندر آکر ایک نظر دیکھنے کی خواہش میں صبح سے کئی دفعہ دھکے کھا چکی ہے۔ یہ انتہائی نگہداشت کا کمرہ ہے۔ وہ نہیں جانتی یہاں ڈاکٹروں کی مریض کے ساتھ خفیہ کاروائی میں کوئی مخل نہیں ہو سکتا۔ یہ زندگی اور موت کے درمیان آخری یدھ ہے۔ باہر بین ڈالتی کالی پیلی چوڑی کیسے جان سکتی ہے کہ انتہائی نگہداشت کمرہ دراصل وہ ہیلی پیڈ ہے جہاں سے انسان کو اس کی آخری پرواز پر روانہ کیا جاتا ہے اور ہیلی کاپٹر کے ڈبل انجن کی آواز تو میرے دماغ کے پرخچے اڑا رہی ہے، اللہ کرے آپی کو آج ہی واپسی کی سیٹ مل جائے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے