Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جب میں نے ذات چھپائی

بابو راؤ باگل

جب میں نے ذات چھپائی

بابو راؤ باگل

MORE BYبابو راؤ باگل

    اپنی ذات چھپانے کی وجہ سے مجھے ایک بہت بڑی مصیبت سے دو چار ہونا پڑا تھا۔ اس واقعہ کی یاد آتے ہی سارے بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے، دماغ جھنجھنا اٹھتا ہے اور ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ بدنصیبیوں سے بھرے اس دیش میں غلطی سے بھی دلت برادری میں جنم نہیں لینا چاہیے۔ دلت ذات میں جنم لینے کے جرم کی پاداش میں اس قدر دکھ، پریشانیاں اور دلتیں ذلتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں کہ دل ودماغ ایسی زندگی سے موت کو بہتر سمجھتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ زہر کھاکر اس زندگی کو فنا کر دیں۔ اندر کا امرت سڑ جاتا ہے، خدائی صفات، اخوت محبت کے جذبات سسک سسک کر دم توڑ دیتے ہیں اور کچھ باقی رہ جاتا ہے تو صرف ایک ہیجان، برافروختگی، انتشار، حیوانیت، نفرت اور چڑ۔

    ایسی ہی نفسیاتی اور ذہنی اذیت سے مجھے ایک دفعہ گذرنا پڑا تھا۔ اگر میں وہاں کچھ اور دن اپنی ذات چھپائے رکھتا تو یقینا پاگل ہو جاتا یا پھر سانپ کی مانند سارا زہر اپنے اندر جذب کرکے بمبئی لوٹتا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ جس دن مجھے تنخواہ ملی اسی رات رام چرن تیواری کے گھر میرے سامان کی چوری ہو گئی اور چور نے ایک ذات چھپانے رکھنے والے چور کی چوری کا بھانڈا پھوڑ دیا اور رام چرن تیواری نے میری اپنے استاد کی اچھی طرح سے مرمت کی۔ خوب لاتیں اور گھو نسے لگائے مگر کاشی ناتھ سکپال نے عین موقع پر وہاں پہنچ کر اجتماعی غیظ وغضب کے جہنم سے باہر کھینچ کر میری جان بچائی۔

    وہ واقعہ اس طرح رونما ہوا پوپھٹنے کے ساتھ ہی میں ادھنا اسٹیشن پر اترا اور سیدھے انجن شیڈکی طرف چل دیا۔ نوکری ملنے کی خوشی میں میرا دل ماہ اساڑھ کی مانند جارحانہ اور موسم برسات کی طرح فاتح اور سرسبز شاداب ہو رہا تھا۔ اپنی اسی اندرونی قوت کی وجہ سے میرے دل میں کوئی خدشہ تھانہ خوف، نہ ہی مجھے کوئی پرایا، غیر لگ رہا تھا۔ مجموعی طور پر تمام حالات بڑے فرحت بخش تھے۔ ان چاہی یادکھ دینے والی کوئی بات بھی ہو سکتی ہے، مجھے اندیشہ تک نہ تھا۔ میرا جسم دل اور دماغ ایک نئی قوت سے متحرک و مسرور تھے۔ اس وقت مجھے کوئی فکر تھی نہ ہی کوئی پریشانی۔ مجھے یقین تھا کہ قدم جہاں رکھوں مضبوطی سے جمالوں گا، کامیابی و کامرانی میرے قدم چومے گی۔ میں رات بھر ٹرین میں بیٹھے بیٹھے طرح طرح کے سپنے سجاتا رہا تھا۔

    نسیم صبح کے ٹھنڈے جھونکوں کی مانند آگے بڑھتے ہوئے مزدوروں کے گروہ کو میں نے آواز دی اور سبھی مزدور رک گئے۔ ان میں سے بائلر فٹر نے مجھے پوچھا، ’’ کیم بھائی، سوں چھے؟‘‘

    میں نے بھی صاف ستھری گجراتی میں اپنے مقصد کی وضاحت کی۔ رنچھوڑ فوراً ہی مجھے کمرہ دینے کے لیے تیار ہویگا اور اس کا حیرت زدہ ساتھی مجھے تکتا ہی رہ گیا۔ میری ٹوپی، کوٹ، دھوتی، کولہاپوری چپل، ایک ہاتھ میں مائیکوفسکی کی نظموں کی کتاب اور دوسرے ہاتھ میں ٹرنک اور اس پر بندھے ہوئے بستر کو ہر کوئی حیرت واستعجاب سے دیکھ رہا تھا۔ ان سبھی کے چہروں پر محبت و احترام کے ملے جلے جذبات امڈتے دیکھ کر نوکری ملنے کی وجہ سے پہلے ہی سے مسرور میرا دل کسی رنگیلے معشوق کی طرح مہکنے، بہکنے لگا تھا۔ اس طرح شادمانی و شادکامی سے سرشار میرا من ناچنے ہی لگا تھا کہ رنچھوڑنے ڈرتے ڈرتے مجھ سے پوچھ ہی لیا، ’’لیکن آپ کی ذات کیا ہے؟‘‘

    یہ سنتے ہی میں نے گرجتے ہوئے کہا، ’’تم نے مجھ سے ذات کے بارے میں کیوں کر پوچھا؟ کیاتم کو دکھائی نہیں دیتا کہ میں کون ہوں؟ میں بمبئی کا رہنے والا ہوں سچائی کا عاشق، سچائی کا پجاری، سچائی کے لیے مر مٹنے والا۔ علم و ہنر کا دھنی، دیش کو شکتی و مکتی دینے والا۔ سمجھے! یا تمام تفصیلات دوبارہ بتاؤں؟‘‘

    اپنی کامیابی کی خوشی میں مست اتنا کہہ کر میں آگے بڑھ گیا۔ رات بھر خوابوں اور منصوبوں کے جھولوں پر ہچکولے لیتا ہوا میرامن تیزی سے آگے بڑھتا رہا تاہم ان لوگوں کی سرگوشیاں مجھے صاف سنائی دے رہی تھیں دیوجی کہہ رہا تھا، ’’ارے رنچھوڑ، اسے مت چھوڑ، جانے نہ دے، کرایہ نہ ڈبا۔ مراٹھی آدمی ہے۔ نڈر ہے۔ شاید برہمن ہوگا یا چھتریہ۔ دوڑو، بھاگو، آواز دو۔‘‘ لیکن میرے پہلے ہی وار کے گھائل، رنچھوڑ میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ میرے قریب پھٹکنے کی جرأت بھی کرتا مگر لوگوں کے اصرار پر ڈرتے ڈرتے وہ میرے قریب آیا اور دھیمی آواز میں بڑے انکسار سے کہنے لگا، ’’دیکھئے آپ برا نہ مانئے، نئے آدمی سے توا س کی ذات پوچھتے ہی ہیں، یہ تواپنے دیش کا رواج ہے۔ میں نے آپ کو کمرہ دے دیا، بات پکی سمجھئے۔ لیکن کرایہ پانچ روپئے لوں گا۔‘‘

    دیوجی رنچھوڑ کی بات کاٹ کر کہنے لگا، ’’بھائی اپنے ذات والوں کے ساتھ تومٹی بھی کھائی جا سکتی ہے، لیکن پرائی ذات کے ساتھ ہاتھی پر بیٹھ کر گھوما نہیں جا سکتا۔ آپ کی طرح کا آدمی دھیڑ یا نچلی ذات کے لوگوں کے ساتھ تو نہیں رہےگا، چوروں کے گھر رہ کر اپنی تباہی و بربادی کو خود ہی دعوت نہیں دےگا۔‘‘

    ’’کم سے کم آپ میرے سامنے تو ایسی باتیں نہ کریں، میں نئے بھارت کا نیا سپاہی ہوں، ہم سبھی بھارت کے معمار و نقاش ہیں، کوئی دھیڑ، چمار، برہمن نہیں۔‘‘

    ’’ہم سے غلطی ہوئی۔‘‘

    ’’بلاشبہ، اسی لئے تو ہمارا بھارت، سنہرا بھارت، جس کے سنہری بھنڈار بھرے ہوتے تھے، بھکاری ہو گیا ہے۔ سمجھے۔‘‘

    ’’لیکن کھولی کی بات تو پکی ہوئی نا، آئیں گے نا آپ؟‘‘ رنچھوڑ گویا میری منت سماجت پر اتر آیا۔

    ’’سوچ کر بتاؤں گا۔‘‘

    ’’بھلا اس میں سوچنے کی کیا بات ہے، میری کھولی بہت اچھی ہے، پاس ہی کنواں ہے، امرائی ہے، رنگ برنگے پرندے روزانہ وہاں آتے ہیں، چہچہاتے ہیں، پھد کتے ہیں، میری طرف سے تو بات پکی سمجھئے۔‘‘ رنچھوڑ کی بےبسی، اس کی التجاؤں اور عجزوانکسار کے باعث میں نے دل بڑا کر کے ہاں کہہ دیا۔ رنچھوڑ کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ وہ خوش ہوکر اصرار کرنے لگا، ’’چلو، چائے پی آئیں۔‘‘

    ’’چلئے میں آتا ہوں۔ ‘‘ میں نے کہا اور وہ اپنے دوستوں کے ساتھ آگے بڑھنے لگا۔ کبھی ویگنوں کی قطار وں کو پار کرتا ہوا، کبھی اوپر اور کبھی نیچے سے ہوتا ہوا ایک میلی کچیلی ویگن میں داخل ہو گیا۔ یہ چائے، ناشتہ کی کینٹین تھی۔ اندر پیر دھرنے تک کی جگہ نہیں تھی مگر وہ اندر گھس ہی گیا اور وہاں سے ہاتھ ہلا ہلاکر مجھ سے کچھ کہہ رہا تھا کہ میں نے سنا، ’’مہار۔‘‘ میرے کانوں میں جیسے کسی نے پگھلتا ہوا سیسہ انڈیل دیا۔

    ’مہار؟‘‘ رنچھوڑ نے منھ پھیر کر چلانے کے انداز میں کہا تو پنچھی کی طرح قلابازیاں کھاتا ہوا میرایہ من اچانک دھم سے زمین پر گر پڑا۔ پر جوش، توانا و تندرست میرا جسم بے جان سا ہو گیا میرا جسم ٹھنڈا ہونے لگا اور رگوں میں خون منجمد ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ کچھ لمحوں قبل ہی باتوں کے الفاظ بھوت بن کر میری نگاہوں کے سامنے ناچنے لگے۔ میں دیوار بنا کھڑا رہا۔

    ابھی کچھ دیر پہلے، جوشیلے انداز میں میں نے اپنی جو خصوصیات وفضائل بتائی تھیں، ان سے متاثر ہوکر ان مزدوروں نے منوکے ماننے والوں کے دھرم کے مطابق میری ذات کا تعین کر لیا تھا اور اب کینٹن میں کسی نے مجھے دھلے ہوئے چاول سے کنکر کی مانند نکال پھینکا تھا۔ اب کیا کرنا چاہئے۔ میں اس گتھی کو سلجھانے میں مصروف ہی تھا کہ رنچھوڑ کا سوال میرے کانوں سے ٹکرایا۔

    ’’تیواری جی، مہار یعنی کیا؟‘‘

    تیواری نے وضاحت کی، ’’مہار یعنی مہاراشٹرین، شری شیواجی کے لوگ لڑنے والے۔‘‘

    ’’جی نہیں پنڈت جی۔ میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی ذات کا ہوں، انہیں کی برادری کا، مجھے کاشی ناتھ سکپال کہتے ہیں، بمبئی کا رہنے والا ہوں، کالا چوکی علاقہ کا۔‘‘ کاشی ناتھ کی صاف گوئی اور اس کے لہجے میں کھنکھناہٹ سے میری جان میں جان آئی، کپکپی تھمنے لگی۔

    تیواری نے فورا کہا، ’’نچلی ذات، یعنی اچھوت۔‘‘

    ’’آپ نے درست معنی بتائے پنڈت بھیاجی۔‘‘ کاشی ناتھ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ تیواری کہاں ماننے والا تھا۔ چلاکر کہنے لگا، ’’مارو سالے دھیڑ کو۔‘‘

    ’’مارو۔۔۔ مارو۔۔۔‘‘ اندر بیٹھے ہوئے سبھی لوگوں نے اپنی آوازیں ملائیں۔

    کاشی ناتھ نے چائے کی پیالی، جسے وہ اپنے ہونٹوں تک لے جا چکاتھا، زمین پر پھینک دی اور دونوں ہاتھ جیب میں ڈا ل کر سینہ تانے کھڑا ہو گیا اور گرجدار آواز میں کہنے لگا، ’’آؤ، کوئی بھی آؤ۔ تیواری توآ، رنچھوڑ تو آ، بڈھے توآ، موٹے، جاڑ ئیے توآ، کوئی بھی کتنے بھی آؤ۔ ایک، دو، تین، آؤ، آؤ، اٹھو‘‘ لیکن کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اٹھ کر کاشی ناتھ کا مقابلہ کرتا۔ سب لوگ ایک ٹک کاشی ناتھ کو دیکھے جارہے تھے۔ اس کا غصہ بڑھنے لگا اور وہ انہیں للکار للکار کر کہہ رہا تھا۔

    ’’ابھی جاکر تمہارے فورمین کو انڈین کانسٹی ٹیوشن سناتا ہوں، تم سب کو دودھ سے مکھی کی طرح نوکری سے نکلوا دوں گا، سب کو جیل کی ہوا کھلاؤں گا، تم لوگوں نے سمجھ کیا رکھا ہے؟‘‘ کاشی ناتھ نے آگ بگولہ ہوکر کہا اور بڑے رعب و جلال کے ساتھ قدم ڈالتا ہوا چلا گیا۔

    سبھی لوگ حیران و پریشان بیٹھے رہ گئے، مانو کاٹو تو لہو کی ایک بوند تک جسم سے نہ نکلے۔ سبھی اندر اندر کانپ رہے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ بے چین دبلا، پتلا، گھنے بالوں والا، ناناجی پانچال دکھائی دے رہا تھا۔ وہ مسلسل فورمین کی آفس کی جانب دیکھے جا رہا تھا کہ اچانک چلا چلاکر کہنے لگا، ’’بھاگورے بھاگو وہ بمبئی کا دھیڑ فورمین کو ادھر لے آیا تو ہماری نوکری چلی جائیں گی، ستیاناس ہو جائےگا، بھاگو۔‘‘

    سب کو وہاں سے کھسکنے میں عافیت نظر آنے لگی۔ لوگوں کو پریشانی کے عالم میں وہاں سے نکلتے دیکھ کر تیواری کڑک کر کہنے لگا، ’’بیٹھو یار بیٹھو، میں ہوں نا یہاں، بھائی سے کہہ کر اسے یہاں سے چلتا کر دوں گا، بیٹھو، ‘‘ اس کا بھائی فورمین کلرک تھا۔ کچھ لوگوں کوتسلی ضرور ہوئی، لیکن کچھ لوگوں کی زبانیں تیزی سے چلتی رہیں اور وہ کاشی ناتھ کو گالیاں دیتے ہوئے انجن شیڈ کی طرف بڑھنے لگے۔ ان کا غصہ اور کاشی ناتھ کے تئیں نفرت نیز اس کی بربادی کے منصوبے دیکھ، سن کر مجھ اتنا دکھ ہوا کہ سانس لینا دوبھر ہو گیا، جی چاہتا ہے کہ اسی لمحے بمبئی واپس چلا جاؤں، اپنے اندر غم و غصہ کی اٹھتی ہوئی شدید ترین لہروں کے باوجود، اپنی معاشی پریشانی اور زبوں حالی کا تصور کرتے ہی بیمار بیل کی مانند میری گر دن جھک گئی اور قدم خودبخود فورمین کے دفترکی سمت اٹھنے لگے۔

    میری جھکی ہوئی گردن اور لڑکھڑاتی چال دیکھ کر دیوجی نے آگے بڑھ کر ہمدردی جتاتے ہوئے کہا، ’’ٹھاکریہ اچانک کیا ہو گیا آپ کو؟ کہیں بخار تو نہیں چڑھ گیا؟ لائیے ٹرنک مجھے دے دیجئے۔ فورا جائیے اور اس بمبئی کے دھیڑ سے پہلے اپنی حاضری لگا دیجئے ورنہ وہ کمبخت آپ سے سینئر ہو جائےگا۔ سالا بھوت کی طرح بھیانک ہے۔ ہو آئیے تب تک میں آپ کاسامان سنبھا لتا ہوں۔ یہاں چور بہت ہیں، سالے یہ سبھی دھیڑ چمار چور ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘ اپنی ذات کا بھید کھل جانے کے خوف سے اور اس کے ذات پات بھید، بھاؤ کے کٹرپن کی وجہ سے اس کی ہمدردی کی قدرنہ کرتے ہوئے میں آگے بڑھنے لگا۔ ہر ہر قدم پر مجھے خود ہی سے ڈر لگ رہا تھا۔ میرا ضمیر مجھے فورمین کے آفس جانے سے روک رہا تھا۔ ایک عجیب سی رسہ کشی مجھے اپنے اندر چلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ میری حالت تختہ دار پر بڑھتے ہوئے قیدی کی سی تھی۔ کسی طرح میں فورمین کے دفتر کے دروازہ پر پہنچ ہی گیا اور اپنی فکروں میں الجھا ہوا چپ چاپ، بے سدھ کھڑا تھا کہ اسی اثنا میں کاشی ناتھ بجلی کی سی تیزی سے زینے اترنے لگا۔

    مجھے ایک دھکا سا لگا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا، ’’ٹھہرو‘‘ مجھے بتاؤ!‘‘ آگ ہوئے کاشی ناتھ نے غصہ سے مجھ سے ہاتھ چھڑایا اورجیب سے کھلا چاقو نکال کر چلایا، ’’ہٹ جاؤ، مار ڈالوں گا۔‘‘

    ’’ارے تم پر کیا بیتی، میں سننا چاہتا ہوں۔ میں بھی بمبئی کا ہوں اور تمہاری ہی۔۔۔‘‘ رنچھوڑ کو قریب آتا دیکھ کر’ذات‘ کے یہ الفاظ میں نے نگل لئے۔ کاشی ناتھ نے غصیلے لہجے میں مختصراً اپنے ساتھ پیش آئے ذلت آمیز واقعات بیان کیے اور ایک پل بھی وہاں نہیں رکا۔ اس کی دکھ بھری بپتاسن کر میرا خون بھی کھولنے لگا۔ ضمیر مصلحت کوشی پر غالب آنے لگا اور نوکری نہ کرنے کے ارادہ سے میں سیڑھیاں چڑھنے لگا آخرش میں ماتا پرساد تیواری کے ٹیبل کے سامنے اس انداز میں کھڑا ہو گیا جیسے پھانسی کا پھندہ اپنے گلے میں ڈالے کوئی شہید۔ ماتا پرساد کے قریب ہی اسٹول پر رام چرن تیواری بیٹھا ہوا تھا۔ دونوں بھائیوں کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ ان کی یہ حالت دیکھ کرمیں بھی مرنے مارنے پر آمادہ ہو گیا تھا۔

    ’’کیوں رے اس آوارہ اچھوت سے کیا باتیں کر رہا تھا تو؟‘‘

    ان کا غرور توڑنے کے لیے میں نے کہا، ’’اچھوت؟ کون اچھوت؟ آگ بھی اچھوت ہے، سورج بھی اچھوت ہے، موت اور زندگی کے عظیم عناصر خمسہ بھی اچھوت ہیں‘‘

    ’’کیا مطلب۔ کیا تو بھی بمبئی کا۔۔۔؟‘‘

    ’’نوکری سے بےنیاز و بےخوف ہوکر میں نے فوراً جواب دیا، ’’بے شک میں بمبئی کا۔ ایک انقلابی شہر کا۔ ایک ایسے شہر کا جس نے کئی انقلابوں کو جنم دیا ہے۔ باسی ہوں، منونے جس دیش کا ملیامیٹ کر دیا تھا، بمبئی واسیوں نے اسے مکتی دلوائی۔ اسی بمبئی شہر کا میں ایک محنت کش شہری ہوں۔ میرے یہ ہاتھ بھارت کی ترقی کے رتھ ہیں۔‘‘ میں نے سنسکرت آمیز ہندی میں انہیں دو ٹوک جواب دیا۔

    ’’کیا۔۔۔؟‘‘ اس نے ہڑبڑاکر پوچھا، رام چرن کی آنکھیں حیرت سے بھر آئیں اس کے پوچھنے پر میں نے وہی باتیں دہرا دیں۔

    ’’اس دھیڑکی باتیں سن کر مجھے بمبئی کی ہشیاری مت دکھاؤ۔ میں ماتا پرساد ہوں۔‘‘ اب چپ بیٹھنا میرے لئے بھی آسان نہ تھا۔ (ایک لمحے کے التوا کے بغیر)میں نے فوراً ہی دوٹوک جواب دیا۔

    ’’میں فلاح عامہ کا، نئے سکھوں کا علمبردار ہوں۔ انسانی حقوق اور سکھوں کے لیے لڑنے والا، مرمٹنے والا ایک سپاہی ہوں، میری اپنی ایک پہچان ہے، بمبئی میرا گاؤں ہے۔‘‘

    ’’بکواس بندوکرو۔۔۔‘‘ اس نے جھلاکر کہا۔

    ’’میں بکواس نہیں کر رہا، میں تو نئے بھارت کا منتر سنا رہا ہوں، نئی زبان میں ایک نئے بھارت سے آپ کو متعارف کرا رہا ہوں۔‘‘

    ’’چپ، سیدھی بات کر ورنہ۔۔۔‘‘

    ’’میں تو صاف اور سیدھی بات کہہ رہا ہوں۔ میں ایک محنتی ناگرک ہوں۔ منو کے اس بچھڑے ہوئے دیش کو ایک نیا روپ ایک نئی آب و تاب دینے والا۔‘‘

    ’’کیا آپ شاعر بھی ہیں۔‘‘ رام چرن کے چہرے پر خوشی پھیل گئی، وہ پسندیدہ نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگا۔ اس لیے میں نے بڑی نرمی سے کہا، ’’ہا ں تیواری جی۔۔۔‘‘ رام چرن کھل اٹھا اور’’واہ، واہ‘‘ کہتے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملانے کے لیے اپنے دونوں ہاتھ آگے بڑھا دیے۔ اسی وقت ماتا پرساد چلایا، ’’رام چرن۔۔۔‘‘ اور رام چرن اپناسا منہ لئے نیچے بیٹھ گیا اور ماتا پرساد نے بڑے حقارت آمیز لہجہ میں قلم دوات میں ڈبوتے ہوئے مجھ سے پوچھا، ’’نام کیا ہے؟‘‘ پل بھر میں اپنی مفلسی بیکاری، بےسروسامانی، اپنی مشکلوں اور پریشانیو ں کے سارے مناظر میری آنکھوں میں دوڑ گئے اور نوکری حاصل کرنے کی چاہ زور پکڑنے لگی۔ میں نے مؤدب ہوکر اپنا نام بتایا۔ اپنے غیرمہذب لہجے کے لیے مجھے افسوس ہونے لگا میں نے اس سے معافی مانگی۔ وہ خوش ہو گیا مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر گئی۔ اس نے مجھ سے کے کہا، ’’ تو ہندی توبہت صاف ستھری بولتا ہے۔ بالکل ہم برہمنوں کی طرح۔‘‘

    میں نے اسے مزید بڑاپن دیتے ہوئے نرم لہجے میں کہا، ’’صاحب ہندی زبان سے سنت کبیر اور تلسی کی، شری نرالاجی اور پریم چند کی‘‘ میرا یہ جواب سن کر رام چرن مسکرانے لگا۔ ماتا پرساد نے رعب سے پوچھا، ’’سرٹیفکیٹ کہاں ہے؟‘‘

    میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور بڑے انکسار سے کہا، ’’غلطی سے گھر رہ گئے ہیں۔‘‘ اب میں مشاہدہ کر رہا تھا کہ میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں۔

    ’’اچھا، کہاں تک پڑھے ہو؟‘‘

    ’’نون میٹرک۔ فنون لطیفہ اور ادب میں زیادہ دلچسپی کی وجہ سے تعلیم جاری رکھنے کی خواہش نہیں ہوئی۔‘‘

    ’’یہیں تو مار کھا جاتے ہیں ہم لوگ اور دھیڑوں، چماروں کو موقع مل جاتا ہے وہ پھٹاپھٹ آفیسر، منسٹر بن جاتے ہیں اور ریلوے میں تو خصوصاً انہیں اتنی سہولیات میسر ہیں کہ وہ سورکاشی ناتھ جب چاہے کلرک بھی بن سکتا ہے۔ وہ بھی تمہاری طرح نون میٹرک ہے۔ تم دونوں اگر ایک ساتھ کلینر ہو تو وہ کلینرہوتے ہی فائر مین، ڈرائیور، کنٹرولر بن جائےگا اور تم کلینر ہی رہوگے۔ اسی لئے تم سرٹیفکیٹ فورا منگوا لو۔ سمجھے!‘‘

    ’’جی صاحب!‘‘ میں نے بناوٹی احترام سے جھک کر کہا، میں دل ہی دل میں یہ طے کر چکا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اپنے سرٹیفکیٹ نہیں دکھاؤں گا۔

    ’’جاؤ! تم دیر سے آئے ہو لیکن میں نے تمہیں ہی سینئر کیا۔ تمہارے آنے سے پہلے ہی رنچھوڑ نے مجھے بتا دیا تھا اور ہاں اس کمبخت سے ذرا دور ہی رہنا، اس نالائق کو شاعری نے کہیں کا نہ رکھا۔ اب تم جاؤ۔‘‘

    میں نیچے آکر اپنا ٹرنک اٹھانا ہی چاہتا تھا کہ رام چرن نے آگے بڑھ کرمجھ سے پہلے اسے اٹھا لیا کہنے لگا، ’’چھوڑیئے بھی۔ آج سے آپ میرے گرو، مجھے اپنی شاعری دکھلائیے۔‘‘ ایک تو رام چرن کی قربت پھر اس کی عقیدت دیکھ کر میں ڈر سا گیا۔ لیکن میں نے محسوس کیا وہ حقیقتاً خوش ہوکر بول رہا تھا۔ میں اس کے خلوص و احترام کے باعث اس کے ساتھ چلنے پر مجبور ہو گیا۔ اس کے اس طرح کے رویے سے میرا مضمحل، پژمردہ دل پھر سے کھلنے لگا۔ میں اپنے گناہوں، اپنی غلطیوں کو بھول جانا چاہتا تھا۔

    رام چرن کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے میں آگے بڑھ رہا تھا کہ کاشی ناتھ کے الفاظ، جووہ کسی سے چلا چلاکر کہہ رہا تھا۔ میرا دل مسوسنے لگا، مجھے اپنی طرف کھینچنے لگے۔ آخرش میں ٹھہر ہی گیا۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا، ’’ہاں میں مہار ہوں۔ اس لئے سنڈاس اور موتری ضرور صاف کروں گا لیکن اس کے علاوہ کہیں اور پھیلی ہوئی گندگی ہرگز صاف نہیں کروں گا۔

    ’’تجھے وہ کرنی ہوگی ہی، دوسری گندگی بھی صاف کرنی ہی پڑےگی۔‘‘ ماتا پرساد کے حکم کے مطابق ایک نچلی ذات کا مقادم کہہ رہا تھا۔

    یہ دیکھ کر رام چرن کا خوش ہونا ایک فطری عمل تھا۔ لیکن میری حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔ مقادم کاشی ناتھ کودبائے جا رہا تھا۔ ان کی اس بحث و تکرار سے لطف اندوز ہونے کے لیے کئی مزدور وہاں جمع ہو چکے تھے۔ پہلے ہی دن کہیں کاشی ناتھ کی نوکری پر کوئی آنچ نہ آ جائے اس لئے بیچ بچاؤ کرتے ہوئے میں نے مقادم سے کہا، ’’اس طرح کے کام پڑھے لکھے صحت مند نوجوانوں کے کرنے کے لیے نہیں ہوتے، ایسے کام تو لنگڑے، لولے، اپاہج، پاگل، ان پڑھ لوگوں کے لئے ہوتے ہیں، اس لئے مجھے ٹوکتے ہوئے تیواری نے کہا، ’’تمہارا مطلب ہے یہ کام ان پڑھ، اپاہج برہمن کریں گے! واہ استاد!‘‘ تیواری کا یہ کھرکھرا جواب سن کر سبھی بہت خوش ہوئے اور کچھ لوگو ں کی آنکھوں میں میں ناراضگی کے تاثرات صاف پڑھا جا سکتا تھا۔ سبھی مجھے شک وشبہ کی نظروں سے دیکھ رہے تھے مجھے تیواری کا ’’واہ استاد‘‘ بہت برا لگا تھا۔ تاہم کچھ نہ کچھ تو ضرور کہا جانا چاہئے تھا اس لئے میں نے کہا، ’’تیواری جی، جوانی اس قوم و ملک کی سب سے بڑی دولت ہے۔ یہ بھی زندگی کی پانچ عظیم قوتوں کی طرح چھٹی عظیم قوت ہے۔

    اپنے اس بدنصیب دیش کے علاوہ ایسے کہیں اور اس قدر ذلیل و خوار نہیں کیا جاتا۔ اسی لئے اس ملک کی دسوں دشاؤں میں سوائے مفلسی و مفلوک الحال کے کچھ نہیں دکھائی دیتا۔ میں نے محسوس کیا کہ میری باتیں سن کر کچھ لوگ بہت ناراض ہو گئے تھے بلکہ کچھ لوگوں کے ہونٹ تو میری ذات پوچھنے کے لیے کھل بھی گئے تھے میرا کلیجہ کانپنے لگا۔ میں کاشی ناتھ کو بچانا چاہتا تھا مگر وہ ہر کسی سے الجھتا جا رہا تھا۔ مقادم کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی۔ وہ کچھ بھی سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ مزید برآں سارے مزدور کاشی ناتھ کے خلاف ہو گئے تھے اور میں بادل نخواستہ آگے بڑھ گیا۔

    اس پہلے دن کے بعد ہر آنے والا دن دکھوں کا پہاڑبن کرمیرے سر پر گرتا جس کے نیچے میری شخصیت کا ہر پہلو، جسے نہ جانے کتنی مشکلوں سے میں نے گھڑا تھا، ریزہ ریزہ ہوکر بکھرنے لگتا۔ میں ہمیشہ آتش زیر پا رہتا۔ کاشی ناتھ تو ہر دن آگ پر بھونا جاتا۔ ہر روز کسی نہ کسی وجہ سے کسی نہ کسی سے وہ جھگڑتا رہتا تھا اس لئے بہترے لوگوں سے اس کی دشمنی ہو گئی تھی۔ وہ بدنام اور مشکوک ہوتا جا رہا تھا۔ لوگ اس کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی یابھول چوک معاف کرنے یا برداشت کرنے کے موقف میں نہیں تھے۔

    لوگوں کے ظالمانہ، بہیمانہ سلوک کی وجہ سے اس کی ذہنی کیفیت ابتر ہوتی جا رہی تھی۔ وہ پاگل سا ہو گیا تھا۔ ہمیشہ اپنی جیب میں کھلا چاقو رکھتا اور فوری ہی آپے سے باہر ہو جاتا تھا۔ اس کی بےکلی، بے چینی اذیت و کرب کو میں اچھی طرح سمجھتا تھا۔ میری یہی آگاہی مجھے جلاتی رہتی تھی۔ غریب ماں باپ کی اس خوددار اولاد، ان کی امیدوں اور آشاؤں کے مرکز کو اس پرائے میں کہیں کوئی ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچے، اس خیال میں اس کو سنبھالے رکھنے کی، قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا۔ چوری چھپے اس سے ملتا رہتا۔ کہیں غصہ میں کچھ کر نہ دے اس لئے اسے سمجھاتا رہتا۔ مگر میں کسی خونی، قاتل کی طرح چوکنا بھی رہتا۔

    میں کہ اس قدر باتونی، ملنسار اور دوستوں کی صحبت کا شائق ہوں، بمبئی جیسے شہر کا، جہاں انسانوں کا کبھی نہ تھمنے والا سیلاب ہمیشہ رواں دواں رہتا ہے۔ شہری ہونے کے باوجود میں تنہائی کے ظالم اندھیروں میں غرق ہوتا جا رہا تھا۔ سہمے ہوئے خرگوش کی مانند چست و چوکنا رہتا اور ایک ایک لفظ ناپ تول پر بولتا کہ کہیں میری ذات کا بھید نہ کھل جائے۔ یہاں تک کہ مجھے اپنی جان سمجھنے والے رام چرن سے بھی دور دور رہنے کی کوشش کرتا۔ اپنے آپ کو کوستے رہنا میرا مقدر بن چکا تھا۔

    میرے ناروا اور دل شکن رویے کے باوجود رام چرن میرا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں تھا۔ دن میں دسیوں بار وہ میرے پاس آتا جاتا رہتا اور ہر اتوار کو بڑی محبت سے اپنے یہاں کھانے کے لیے مدعو کرتا۔ لیکن میں بڑی بےرحمی اور بےرخی سے اس کی دعوت ٹال جاتا یا صاف انکار کر دیتا۔ میرے انکار کی وجہ سے وہ غصہ میں اپنے بھائی کو برا بھلا کہنے لگتا۔ دراصل اس کا یہ خلوص بےلوث محبت اور عقیدت ہی میرا خون جلائے جا رہی تھی۔

    میں ایسے مظلوم کی ماننددن بتائے جا رہا تھا جس کا زبردستی منہ دبا کر بڑی بےدردی سے خوب لاتیں اور گھونسے لگائے جا رہے ہوں اور جو آہ تک نہ کر سکتا ہو۔ ہر ہر لمحہ بڑا اذیت نا ک ہوتا تھا۔ اسی طرح تنخواہ کا دن آ پہنچا نوکری چھوڑ دینے کا ارادہ سے میں نے چھٹی کے لئے عرضی دی اور سرٹیفکیٹ لانے کا بہانہ کرکے ماتا پرساد سے اسے منظور بھی کروا لیا۔

    چھٹی سے متعلق رام چرن کو جونہی پتہ چلا وہ دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور اصرار کرنے لگا، ’’کم از کم تنخواہ کے دن تو میرے یہاں کھانے کے لئے آئیے۔‘‘ اس کے محبت بھرے اصرار پرمیں انکار نہ کر سکا۔ تنخواہ ملی۔ نوکری چھوڑوں یا نہ چھوڑوں۔ یہ سوال پھر سر اٹھانے لگا۔ کم مائیگی، مفلسی، گھریلو پریشانی کی وجہ سے نوکری میری اشد ضرورت تھی۔ میں بےچین ہوا ٹھا۔ میں اپنی غلطی پر اند رہی اندر رونے لگا۔ اپنے اس فیصلے کو قطعی شکل دینے کے لیے میں اندھیرے کمرہ میں بیٹھا سگریٹ پھونکتا رہا۔ سوچتا رہا۔ اپنی ذات ظاہر کر دینے کے بعد ذلیل وخوار ہوکر جینے کے لئے میں قطعی تیار نہیں تھا نہ ہی میں نوکری چھوڑ سکتا تھا۔ میں اسی اذیت ناک ادھیڑ بن میں تھا کہ کاشی ناتھ کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی، ’’ماسٹر!‘‘

    ’’آؤ، آؤ، کاشی ناتھ، اندرآؤ۔‘‘ ذات پات، چھوت چھات کی وحشیانہ رسموں سے مجبور، میرے اصرار کے باوجود، میری ناراضگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کاشی ناتھ باہر ہی کھڑا رہا۔

    ’’آؤ کاشی ناتھ، میں تمہاری ہی۔۔۔‘‘ ایک باہمت، نڈر نوجوان کا اپنے ہم ذات سے قریب آنے پر اس قدر تامل اور تذبذب دیکھ کر میرے کلیجے میں سو چھید ہو گئے۔ سچ کے اظہار کے لئے لب وائے ہو رہے تھے، الفاظ گلے سے ہونٹوں تک پہنچے ہی تھے کہ رنچھوڑ کی دی ہوئی دھمکی مجھے یاد آ گئی اور ہونٹ پھر مل گئے منہ سے آواز نہ نکل سکی۔ آنکھوں سے گرتے ہوئے آنسوؤں کومیں اپنی دھوتی میں جذب کرنے لگا۔

    ’’ماسٹر جی، ہر بار آپ مجھے روکتے رہے ہیں۔ آپ ایسا نہ کرتے تو شاید ابھی تک رنچھوڑ یا رام چرن کا میرے ہاتھوں قتل ہو چکاہوتا۔ پھر میرے غریب، بوڑھے ماں باپ، بیوی کا نہ جانے کیا ہوتا؟‘‘

    ’’ماسٹر میرا مزاج بہت گرم و غصیلا ہے، میرا بہنوئی بڑا ظالم آدمی ہے۔ وہ میری بہن کو خوب ستاتا، گالی گلوج کرتا اور پیٹتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے بچپن ہی میں اس قدر غصہ آتا تھا کہ میں بالکل بے قابو ہو جاتا تھا۔ بھوک پیاس مجھ سے دور چلی جاتی، کچھ اچھا نہیں لگتا تھا۔ میں اس وقت میٹرک میں تھا۔ اپنے بہنوئی کو راہ پر لانے کے لئے میں غنڈوں کے گروہ میں شامل ہو گیا اور اس کی وہ پٹائی کی کہ بس! اچھا ہوا بچ گیا ورنہ شاید میرے ہاتھوں خون ہی ہو جاتا اور اس کے بعد میرا اسکول ہمیشہ کے لئے چھوٹ گیا۔‘‘

    ماسٹرمیں نے یہ نوکری چھوڑ کر بمبئی واپس جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جو کام ملےگا وہاں کروں گا۔ ایس ایس سی پاس کروں گا۔ کالج جاؤں گا، وکیل بنوں گا مجھے صرف ایک مزدور کی حیثیت سے جینا اور مزدور ہی مرنا نہیں ہے۔ بڑی بھیانک زندگی ہے ماسٹرجی، ہر ہرپل مرنا پڑتا ہے۔‘‘ یہ بولتے ہوئے اس کی آنکھوں سے چنگاریاں برسنے لگیں۔ کاشی ناتھ کاسارا اضطراب، سارے دکھ، درد پریشانیاں، اذیتیں میرے دل ودماغ میں واضح ہو گئیں۔ میرا دل بھر آیا، ’’کاشی ناتھ میں بھی یہ نوکری چھوڑ جانا چاہتا ہوں، یہاں زندہ رہنا مرنے کے برابر ہے، مجھے بھی اپنے دل کے پھپھولے تمہیں دکھانے ہیں۔ میں بھی تمہاری ہی۔۔۔‘‘

    میں اس سے معذرت چاہتے ہوئے اپنی ذات کی چوری کی کہانی سنانا ہی چاہتا تھا کہ اسی اثنا میں کاشی ناتھ کو میرے ساتھ دروازہ پر کھڑا دیکھ کر تضحیک و تمسخر آمیز لہجے میں رنچھوڑ چلایا، ’’کل بمبئی جانا ہے اس لئے کیا تم میرا کمرہ ناپاک اور گندہ کرنا چاہتے ہو؟‘‘

    ’’کمینے میں تجھے یہیں ڈھیر کردوں گا۔‘‘ مشتعل ہوکر کاشی ناتھ رنچھوڑ کی طرف لپکا لیکن رنچھوڑ پلک جھپکتے ہی اپنے گھر کے اندر گھس گیا اور دروازہ اندر سے بند کر لیا۔

    میں نے دوڑ کر سکپال کو قابو میں کر لیا۔ اس نے اپنا سر میرے کندھوں پر ٹکا دیا اور کچھ دیر یوں ہی ننھے بچے کی طرح وہ شانت پڑا رہا۔ پھر کچھ لمحوں بعد جیب سے اپنا کھلا چاقو ہاتھ میں نکال کر اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ میں بڑی دیر تک خوف زدہ سا اسی اندھیرے کو تکتا رہا جس میں کاشی ناتھ کہیں غرق ہو گیا تھا۔ مجھے روشنی کرنے کا بھی ہوش نہیں تھا اور نہ ہی یہ یاد تھا کہ میں آج رام چرن کے یہاں مدعو ہوں۔ ذات پات، بھید بھاؤ، اونچ نیچ، نفرت وحقارت کا یہ روپ دیکھ کر میرا کلیجہ منہ کو آنے لگا تھا۔

    ’’استاد!‘‘ دوڑ کر آتے ہوئے رام چرن نے عقیدت وانسیت سے چلاکر کہا، اس کی آواز سن کر تمام دھیڑ ذات کو گندی گندی گالیاں دینے والا رنچھوڑ بھی باہر نکل آیا۔ رام چرن کے استفسار پر اس نے غضبناک ہوکر، جھنجھلا جھنجھلاکر کچھ لمحوں قبل وقوع پذیر ہونے والے واقعہ کو تفصیل سے سنایا، ساتھ ہی وہ مجھے پیٹتا بھی جا رہا تھا۔ اسے میری ذات پر شبہ ہونے لگا تھا۔ مجھے پٹتا دیکھ کر رام چرن کو بھی جوش آ گیا اور وہ بھی اپنے برہمن پن کے زعم سے مشتعل ہوکر رنچھوڑ سے الجھ پڑا۔ رنچھوڑ بھی رام چرن کو نیچا دکھانے کی حتی المقدور کوشش کرنے لگا۔ اسی اثنا میں میں اپنا ٹرنک اور دوسرا سامان باہر لے آیا اور رنچھوڑ کی بیوی کے ہاتھوں میں کرایہ تھماکر آگے بڑھنے لگا۔ رام چرن جھگڑا چھوڑکر فورا میرے پیچھے دوڑ آیا اور کہنے لگا، ’’آج میں نے آپ کو کھانے کی دعوت دی تھی اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ آپ کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے آؤں گا، پھر بھی ایک لفظ بولے بغیر آپ یونہی چلے جا رہے تھے۔‘‘

    ایک خاموش نظر اس پرڈال کر پھر سے میں گردن جھکاکر آگے چلنے لگا۔

    ’’استاد کچھ بتائیے تو کیا ہوا؟ کیا رنچھوڑ نے آپ کی بےعزتی کی، آپ پر ہاتھ اٹھایا۔ میں سالے کی ٹانگ توڑ دوں گا۔‘‘

    ’’کچھ نہیں ہوا۔‘‘ میں نے گردن ہلاتے ہوئے کہا، رام چرن کا گلارندھ گیا اور وہ اپنی جگہ ٹھہر کر دونوں ہاتھ ہوا میں لہراکر کہنے لگا، ’’میں نے آپ سے کتنی بار کہاہے کہ اس اچھوت سے بات نہ کریں۔۔۔‘‘

    ’’کیوں؟ وہ اورمیں ایک ہی مٹی سے بنے ہوئے ہیں۔ ایک ہی زبان بولتے ہیں اس کے اور میرے پیروں کے نیچے ایک ہی زمین ہے، ہم دونوں کے سروں پر ایک ہی آسمان ہے۔‘‘

    ’’آپ بہت اونچی اونچی اڑانیں بھرتے ہیں۔ ذرا زمین پر آئیے۔ ہم معمولی سے مزدور ہیں۔‘‘

    ’’ہم نئی زندگی کے خالق اور نئی اقدارکے معمار ہیں۔ اس لئے زندگی کے تئیں ہماری ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے۔‘‘

    ’’استاد۔ چلئے گھر چلئے۔‘‘

    ’’رام چرن، معاف کرنا میں کچھ زیادہ ہی زہر اپنے حلق سے اتار چکا ہوں اور زیادہ کی اب مجھ میں ہمت نہیں۔ اس لئے اب نہیں۔ براہ کرم تم میرے ساتھ چلو، مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔‘‘ میں اسے اپنی ذات کے متعلق بتانا چاہتا تھا۔

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ سنتے ہی وہ میرے پیروں پرجھک پڑا۔ اس کی یہ عقیدت دیکھ کرمیں پسیج گیا۔ میں نے کہا، ’’چلو دوست، تمہاری محبت کی خاطر میں موت بھی برداشت کر لوں گا۔ چلو۔‘‘

    ہم دونوں چپ چاپ اس کے دروازہ پر کھڑے رہے۔ اس نے باہر ہی سے مسرت و شادمانی سے لبریز آواز لگائی، ’’سرسوتی باہر آؤ، دیکھو کون آیا ہے۔۔۔؟ انہیں نمسکار کرو۔‘‘

    سرسوتی جیسے ہماری راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھی تھی۔ وہ اپنی پازیب چھنکاتی ہوئی باہر آئی۔ چھریرا بدن، کالی، لمبی، گھنیری زلفیں سیندور سے بھری مانگ، ماتھے پر کم کم کا ٹیکہ، شرمیلی اداؤں والی سرسوتی اپنے سینے پر پلو کھینچتی ہوئی آئی اور اپنے شوہر سے رنگ روپ، عمر و تجربہ میں نسبتا کم، میرے، اپنے شوہر کے استاد کے ہندوستانی رسم و روایت کے مطابق میرے شدید انکار کے باوجود پیر چھوکر چلی گئی۔ ہندوستانی عورت کی یہ شوہر پرستی دیکھ کرمیں عش عشق کرتا رہ گیا۔

    رام چرن بھی سرسوتی کے پیچھے ہی اندر گیا اور ایک بالٹی گرم پانی، تیل اور صابن لے کر باہر آیا اور بڑی محبت سے کہنے لگا، ’’وہاں بیٹھے، نہا لیجئے، میں تیل مالش کرتا ہوں۔‘‘

    میں نے شرماتے ہوئے کہا، ’’بھابھی سے پیر چھواکر میں پہلے ہی ایک غلطی، ایک گناہ کر چکا ہوں۔ اب اور کوئی غلطی نہیں کروں گا۔‘‘ وہ ہنس پڑی۔ ہاتھ پیر دھوکر اندر میں آیا اور کاشی ناتھ کو میں نے کس طرح پکڑ رکھا تھا، رنچھوڑ کے نمک مرچ لگائے ہوئے مبالغہ آمیز بیان کی یاد آتے ہی میرے ذہن میں شبہ نے سر اٹھایا۔ کہیں اسی لئے تو رام چرن میرے نہانے پراصرار نہیں کر رہا تھا۔ میں نے کہا، ’’ہم لوگ باہر ہی کھانا کھائیں گے۔‘‘

    ’’نہیں آپ ایک برہمن کے استاد ہیں۔ چلئے اندر چلئے۔‘‘ وہ میرا ہاتھ پکڑکر اندر لے جانے لگا۔

    ’’میں برہمن نہیں ہوں۔‘‘

    ’’بھلے ہی نہ ہوں، مگر میرے گرو جو ہیں۔‘‘ اس نے مجھے پتر پر بٹھایا۔ سرسوتی واری جانے والے انداز میں ہماری میزبانی میں مصروف رہی۔ پنکھا جھلتی رہی لیکن اس کی یہ سیوا مجھے بہت بڑی سزا لگ رہی تھی۔ دنیامیں کسی اور کو کبھی نہ کرنی پڑی ہوگی‘‘ ایسی کسرت مجھے کرنی پڑ رہی تھی۔

    سرسوتی کے کھانا ختم کرکے دروازہ میں آنے سے پہلے ہی رام چرن نے باہر کے کمرہ میں میرا بستر لگا دیا تھا۔ سرسوتی کے آتے ہی شاعری کا دور شروع ہو گیا۔ میں اپنے اضطراب، اپنی بےچینی سے چھٹکارا پانے کے لئے رام چرن کی رومانی نظموں پر خوب داد دے رہا تھا اور بیچ بیچ میں سرسوتی کو خوش کرنے کے لئے اسے سمجھاتا بھی جا رہا تھا۔ میں اس خاتون کا معترف ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے خوف زدہ بھی تھا۔ رات دیر گئے تک محفل جمی رہی۔ پھر وہ اندر چلے گئے اور میں اپنی بےچینی بھلاکر چین کی نیند سو گیا۔

    اچانک ہی گھونسے اور لاتیں پڑنے پر میں نے کراہ کر آنکھیں کھول دیں۔ رام چرن کا کمرہ کھچاکھچ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ان میں سے کئی لوگ مجھے اپنی اصلیت اپنی ذات چھپائے رکھنے کے جرم میں گندی گالیاں دے رہے تھے۔ کچھ سنجیدہ قسم کے لوگ شدید برہمی کے عالم میں مجھے زدوکوب کئے جا رہے تھے۔ کچھ لوگ مجھے گھر میں گھسے ہوئے سانپ کی طرح ٹھیس رہے تھے۔ کچل رہے تھے۔ جتنی محبت، عقیدت اور اپنائیت رام چرن مجھے بتا رہا تھا۔ اس سے کئی گنا زیادہ غصہ، حقارت اور نفرت سے وہ مجھے پیٹ رہا تھا۔ اس کی بیوی نے میری جو خدمت کی تھی اسی خیال سے وہ مجھے پاگلوں کی طرح مار رہا تھا۔ اس کا غصہ ہر لمحہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔

    اپنے بچنے کی کوئی امید مجھے نظر نہیں آ رہی تھی۔ دکھ اورنفرت غم و غصہ سے میری زبان گنگ ہو گئی تھی۔ رام چرن کی حیوانیت اور بربریت سے میرے کلیجہ میں ایک دراڑ سی پڑ گئی تھی۔ آنسوؤں کے سوتے بھی جیسے سوکھ گئے تھے۔ ایسی حالت میں میری زبان کیا کھلتی۔ میں جاں بلب ادھر سے ادھر مار کھاتے ہوئے لڑکھڑا رہا تھا۔

    غیر مردوں کے سامنے کبھی بےپردہ نہ ہونے والی سرسوتی اندر ہی سے چلا چلاکر کہہ رہی تھی، ’’ان کا کوئی قصور نہیں، وہ یہاں آنا ہی نہیں چاہتے تھے، بڑی منت سماجت کرکے انہیں لایا گیا ہے۔ ان کا سب کچھ لوٹ لیا گیا ہے۔۔۔ انہیں مت مار یئے۔ چھوڑ دیجئے۔ ورنہ میں وہاں آکر ان پر پڑ جاؤں گی۔‘‘

    ابھی اس کایہ جملہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ بھگدڑ مچ گئی۔ غصہ میں آگ ہوئے لوگ وہاں سے بھاگ رہے تھے اور چلا چلاکر ایک دوسرے سے کہتے جا رہے تھے ’’ بھاگو ارے وہ بمبئی کا دھیڑ ہاتھ میں چھرا لئے لوگوں کو مارتا ہوا آ رہا ہے۔ بھاگو!‘‘ پلک جھپکتے ہی کمرہ خالی ہو گیا۔ سرسوتی نے فوراً اپنے شوہر کو اندر کرکے دروازہ بند کر دیا۔ بڑی محبت سے میرے پاس آ بیٹھی اور اپنے پلو سے میرے منہ اورسرسے بہتے ہوئے خون کو پونچھنے لگی۔ اس کی آنکھوں اور مامتا بھرے ہاتھوں کا لمس میری شدید جسمانی تکلیف اور ذہنی کرب کو سکون بخش رہا تھا کہ اسی وقت کاشی ناتھ ہاتھ میں چھرا لہراتا ہوا گرجنے لگا، ’’شاباش ماسٹرجی، شاباش!‘‘

    کاشی ناتھ کے ان الفاظ نے مجھ پر اب تک پڑنے والی شدیدضربوں سے کسی طرح کم تکلیف نہیں پہنچائی۔ اسے دیکھتے ہی سرسوتی دروازہ سے الگ کھڑی ہوگئی تاکہ اپنے سیندور اپنے سہاگ کی حفاظت کر سکے۔

    ’’ہٹ جاؤ۔۔۔‘‘ چھرا نچاتے ہوئے کاشی ناتھ دہاڑا۔ سارے جسم میں درد کی لہریں اٹھ رہی تھیں، میں ادھ مرا ہو چکا تھا۔

    لیکن کہیں وہ اس دیوی سے کوئی گستاخی نہ کر بیٹھے۔ اسے زخمی نہ کردے اس لئے ناممکن ہوتے ہوئے بھی اپنی جان ایک جگہ مجتمع کرکے اٹھا اوراس سے کہا، ’’چلو، کاشی ناتھ۔‘‘

    کاشی ناتھ نے مجھے سہارا دیا اور جیسے ہم چلنے لگے۔ سرسوتی کی آنکھوں کا باندھ ٹوٹ پڑا اور وہ آنسوؤں سے میرے پیر سینچ کر پھرتی سے رام چرن کے پاس چلی گئی۔ اب اسے کوئی خوف، کوئی ڈر نہیں تھا۔ ہم نے بھی اپنے راستے چل دیے۔

    میرا سب کچھ چوری ہو گیا تھا۔ سرٹیفکیٹ رام چرن نے پھاڑ دیا تھا میری گردن میں بے انتہا تکلیف تھی، چال میں کھڑکھڑاہٹ تھی۔ میرے اندر ایک شدید طوفان اٹھا ہوا تھا اور کاشی ناتھ ننگا چاقو ہاتھ میں لئے برابر دھاڑے جا رہا تھا۔ بستی سے باہر نکل آنے پر کاشی ناتھ نے کہا، ’’چلئے۔ ماسٹر۔ پولس اسٹیشن چلتے ہیں۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘

    ’’آپ ان لوگوں کی اتنی مار کیو ں کر برداشت کرتے رہے ہو ماسٹر؟‘‘

    ’’مجھے انہوں نے تھوڑے ہی مارا۔ مجھے مارنے پیٹنے والا تو منو ہے، چلو بھی کاشی ناتھ۔۔۔‘‘

    مأخذ:

    Imkan (Pg. 74)

      • ناشر: مہاراشٹرا اردو، اکادمی
      • سن اشاعت: 1988

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے