aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جہاز کب آئیں گے؟

نعیم بیگ

جہاز کب آئیں گے؟

نعیم بیگ

MORE BYنعیم بیگ

    پلوا شاہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ شاید وہ کوئی خواب دیکھ رہی تھی، جیسے پہاڑوں کے دامن میں شفاف چشمے سے بہتے پانی میں ہاتھ ڈالے اس کی ٹھنڈک سے محظوظ ہو رہی ہو کہ اوپر سے اچانک پتھر لڑھکنے لگ جائیں۔ در اصل اسے دھماکے کی آوازنے گہری نیند سے جگا دیا تھا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا۔ خاموش کھلے آسمان سے چھنتی ستاروں کی ملگجی روشنی میں پانچ سالہ نور اور چھ سالہ سجاد خان اس کے دائیں پہلو میں نیند میں مدہوش پڑے تھے اور بائیں جانب زریں گل گٹھڑی بنے، اس کے کولھے سے جڑی سو رہی تھی۔

    جگہ کی قلت نے اسے ساری رات ٹریکٹر ٹرالی کی اندرونی دیوار سے ٹیک لگائے رکھنے پر مجبور کر دیا تھا اور وہ کل شام سے یونہی بیٹھی رہی تھی؛ مگر نہ جانے رات کے کس پہر اس کی آنکھ لگ گئی، اور اب صبح کی سپیدی نمودار ہونے کو تھی۔ اس نے ایک انگڑائی لی اور کمر کے تناؤ کو کم کرنے کے لیے پہلو بدلا اور اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔

    پیاس اور بھوک کے مارے اس کی انتڑیاں سکڑ رہی تھیں لیکن قافلے والوں کے بر عکس اس کا حوصلہ بلند تھا۔ کل شام سے پورے قافلے کا کھانے پینے کا سامان قریب قریب ختم ہو چکا تھا، صرف پانی باقی بچا تھا جسے بچوں کے لیے مختص کر دیا گیا تھا۔

    وہ گزرے وقت کو یاد کرنے لگی۔ چار دن پہلے جب قافلہ گاؤں سے روانہ ہوا تھا، کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ سفر میں اتنا وقت لگ جائے گا۔ جنگ شروع ہوئے کئی ماہ گزر چکے تھے۔ آس پاس کا پورا علاقہ باغیوں کے حصار میں تھا۔ گو فوج نے باغیوں کو یہاں سے بھگا دیا تھا لیکن ان کی خفیہ موجودگی کی وجہ سے اہل علاقہ کو نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا تاکہ ملکی فوج ان کا مکمل قلع قمع کر سکے۔

    روانگی کے وقت دوپہر سر پر آ چکی تھی، اس لیے ان کا سفر شروع نہ ہو سکا تھا۔ چمک دار، تیکھی اور چبھنے والی پہاڑی دھوپ میں پلوا شاہ نے اپنے دونوں بچوں کے سر ڈھانپ رکھے تھے جو ٹرالی پر بیٹھے چاروں طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے کسی میلے کا حصہ ہوں۔ ان کے ساتھ کچھ اور بچے بھی اپنی ماؤں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹریکٹر کا مالک اور ڈرائیور کہیں پرے نئے مسافروں سے منہ مانگا کرایہ ہتھیانے میں مصروف تھے۔

    آس پاس کے سینکڑوں لوگ نقل مکانی کے خواہش مند تھے۔ ہر خاندان ایک ہی قافلے میں شرکت کا خواہاں تھا۔ سواری کی کمی نے ایک ہڑبونگ مچا رکھی تھی۔ کرایے ناقابل برداشت تھے۔ ہر شخص سواری چھٹ جانے کے خوف میں مبتلا تھا کہ فوج کی طرف سے آج علاقہ چھوڑنے کی وارننگ کا آخری دن تھا۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ بمباری مقررہ وقت سے پہلے ہی شروع ہو جائے۔ سو ہر شخص زاد راہ کا بندوبست کرنے کی بھاگ دوڑ میں مصروف تھا جس میں کافی پریشانیوں کا سامنا تھا کیونکہ ہفتوں سے گاؤں اور آس پاس کے علاقوں میں اشیائے خورد و نوش کی کمی واقع ہو چکی تھی۔ باغیوں کی وجہ سے راستے مسدود تھے۔۔۔ صرف ایک راستہ کھلا تھا جو ملک کے دوسرے حصوں سے منسلک تھا۔

    دور فضا میں کہیں کہیں اڑتے ہیلی کاپٹر یا کبھی جیٹ طیارے نظر آتے تو بچوں کا شور ان طیاروں کی طرف دیکھتے ہوئے بڑھ جاتا۔ یوں محسوس ہوتا کہ جانے انجانے میں سبھی لوگ آسمانوں پر اڑتے ان پرندوں سے اپنی خوشیاں اور امن کی امید یں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ پلوا شاہ نے ساتھ کھڑی دوسری ٹرالی کی طرف دیکھا جس میں اس کا بوڑھا سسر بیٹھا نمناک آنکھوں سے بار بار اپنے پوتے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ گھر سے نکلتے ہوئے بھی بڑے خان نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالا تھا لیکن اسے معلوم تھا کہ سفر ان کا مقدر ہے۔ گزشتہ تیس۳۰ سال سے ان کے گاؤں کا امن روٹھ چکا تھا۔۔۔ کبھی افغانستان سے مہاجر آ جاتے اور کبھی انھیں باغیوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا۔

    بڑے خان نے اپنی جوانی کے ایام سے یہاں لڑائی جھگڑے ہی دیکھے تھے۔ جانان اس کا اکلوتا بیٹا تھا جو باغیوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ ابھی اس کی موت کا زخم نہیں بھرا تھا کہ اس کے دو بھائیوں کو قتل کر دیا گیا۔ اب وہ اس بڑھاپے میں بھی اکیلا کھیتی باڑی کر کے بہو اور بچوں کے لیے رزق روٹی کا سامان پیدا کرتا تھا۔

    ٹریکٹر کا مالک آخری سواریوں کو لیے واپس آ گیا تھا اور مسافروں کو ٹرالی میں بٹھانے لگا تھا۔ یہ ٹرالی صرف خواتین اور بچوں کے لیے مختص تھی۔ مرد، دوسری ٹرالی میں الگ بیٹھے تھے۔ نئے آنے والوں میں چار خواتین، چند چھوٹے بڑے بچے، مرغیاں، پرندے اور کچھ بکریاں بھی شامل تھیں۔ ستر اسی عورتوں، مردوں، بچوں اور چرندوں پرندوں پر مشتمل یہ چھوٹا سا آخری قافلہ اب روانگی کے لیے تیار تھا جبکہ کئی ایک قافلے صبح کے وقت نکل چکے تھے۔ جانے والے اس وقت تک پیچھے مڑ مڑ کر اپنے ہنستے بستے گاؤں کو دیکھ رہے تھے جب تک کہ وہ ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہو گیا۔ نہ جانے وہ کن بھیانک ویرانوں کی طرف جا رہے تھے۔

    پلوا شاہ نے چادر میں لپٹی، کچھ برقع پوش خواتین کی طرف غور سے دیکھا تو اسے لگا کہ یہ لوگ ان کے گاؤں سے نہیں تھے۔ برسوں سے مسلسل جنگ کی صورت حال میں علاقائی اقدار اور انسان دوستی کے جذبات عنقا ہو چکے تھے۔ آج وقت کی لگام صرف روپے پیسے کے ہاتھ میں آ چکی تھی۔ اپنوں بیگانوں کی شناخت اسی کسوٹی پر منحصر تھی۔ لیکن اس بکھرے ہوئے ماحول اور چہروں پر مایوسی کے گہرے سایوں تلے وہ معصوم، خوبصورت، کھلکھلاتی ہوئی لڑکی اسے عجیب سی لگی جو دنیا و ما فیہا سے بے خبر بات بے بات پر ہنس رہی تھی۔ اس نے پھول دار قمیص کے نیچے ایک ڈھیلا ڈھالا چولا پہن رکھا تھا، پاؤں میں ٹوٹی ہوئی چپل تھی؛ سر پر چادر تو تھی لیکن اس کے بار بار مسلسل حرکت میں رہنے کی وجہ سے دونوں پلو اپنی جگہ سے سرک جاتے اور سر کے ننگا ہو جانے سے ہلکے براؤن بال شانوں سے نیچے ڈھلکے نظر آتے جس پرایک عورت اسے دوبارہ ڈھانپ دیتی۔ اس کی عمر یہی کوئی بارہ تیرہ برس رہی ہوگی۔۔۔ وہ بار بار اپنا سر کھجا رہی تھی۔

    پلوا شاہ نے ٹریکٹر کے حرکت میں آتے ہی اسے تجسس سے دیکھا۔ اپنے گھروں کو چھوڑتے ہوئے اس قدر اذیت ناک ماحول میں اس کا ہنسنا اسے خلاف معمول لگا۔ اس نے آنکھوں سے اشارہ کیا کہ وہ اس کے پاس آ جائے۔ وہ کھڑی ہوئی تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے گی۔۔۔ وہ بیٹھ گئی اور گھٹنوں کے بل رینگتے ہوئے پلوا شاہ کے پاس پہنچ گئی۔

    جہاز کب آئیں گے؟

    اس نے معصومیت سے پلوا شاہ سے پوچھا۔

    ’’جہاز۔۔۔ کون سے جہاز؟‘‘

    پلوا شاہ حیرت زدہ ہو گئی۔

    وہی جو دشمنوں کو مارتے ہیں۔۔۔ ڈز۔۔۔ ڈز۔۔۔ ایسا! اس نے ہاتھ کے اشارے سے باقاعدہ نشانہ لیا تو پلوا شاہ کو کچھ عجیب سا لگا۔

    استا سہ نم دی؟

    پلوا شاہ نے پشتو بولتے ہوئے اس کا نام پوچھا۔۔۔

    ’’زریں گل۔۔۔ ہاہاہا‘‘

    اس نے جواب دیتے ہوئے قہقہہ لگایا جو جذبات سے عاری تھا۔

    گولڈن فلاور، یو نو، آئی ایم گولڈن فلاور!

    گاؤں میں زریں گل اور شہر میں سنہری پھول۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ میرے کتنے نام ہیں۔

    پھر اس نے سر کجھاتے ہوئے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا۔

    پلوا شاہ کو مزید حیرت ہوئی کہ اس کا انگلش بولنے کا لہجہ غیر ملکی سا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کی دماغی حالت غیر متوازن تھی یا اس کی ذہنی سطح عمر کی مناسبت سے کم تھی۔۔۔ اس کا تجسس بڑھ چکا تھا!

    کیا تم پڑھتی ہو؟

    پھر کچھ سوچ کر کہا۔ نو۔۔۔

    ’’یس، بلیو فائیو‘‘

    سر کھجاتے ہوئے شاید اسے اپنا سکول یاد آ گیا تھا۔

    پلوا شاہ نے ساتھ بیٹھی ایک عورت سے پوچھا

    کیا تم اسے جانتی ہو؟

    عورت نے پلوا شاہ کو سرخ کپڑوں میں ملبوس ذرا دور بیٹھی ایک درمیانی عمر کی عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک لمبی کہانی سنائی،

    وہ اس کی پھوپھی ہے۔ اس کا باپ مڈل ایسٹ میں کام کرتا تھا، ساتھ والے گاؤں اچوزئی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے ایک لبنانی عورت سے شادی کر لی، جس سے یہ بچی پیدا ہوئی۔ یہ پیدائشی طور پر ذہنی کمزوری کی شکار ہے۔ دو سال پہلے میاں بیوی اس بچی کے ساتھ یہاں آئے تھے کہ یک دم حالات بگڑ گئے۔ دہشت گردوں کے حملے میں بیسیوں لوگ مارے گئے جن میں زریں گل کے والدین اور خاندان کے بیشتر لوگ بھی شامل تھے۔ اس خاندان میں سے صرف یہی ایک بچی اور اس کی پھوپھی بچے تھے۔

    ’’جہاز کب آئیں گے؟‘‘

    زریں گل نے پلوا شاہ کو دوبارہ مخاطب کیا۔ اس اثنا میں وہ مسلسل اپنا سر کھجا رہی تھی۔

    آئیں گے۔۔۔ جلد آئیں گے۔ ’’رازی۔۔۔ زر۔۔۔ رازی‘‘

    پلوا شاہ نے اسے ٹالتے ہوئے پشتو میں جواب دیا

    یہ سن کر اس نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا۔ اس کے گالوں پر خوشی کے ایسے آثار ابھر آئے جو کسی الھڑ مٹیار کے چہرے پر اس وقت نمایاں ہوتے ہیں، جب وہ کسی محبوب ترین ہستی کے انتظار میں ہو۔

    مشرق کی سمت کئی ایک گھنٹوں کی مسافت کے بعد عورتوں کا ٹریکٹر ایک جگہ اچانک رک گیا تھا۔۔۔ انجن میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی تھی جسے ٹریکٹر کے مالک سمیت کئی ایک مرد دوسرے ٹریکٹر سے نیچے اتر کر درست کرنے کی فکر میں تھے۔۔۔ ہر شخص اپنی ہانک رہا تھا مگر ٹریکٹر کی درستی کے آثار مفقود تھے۔

    مغرب کے بلند و بالا پہاڑ اب ان سے میلوں دور پیچھے رہ گئے تھے جبکہ مشرق کی جانب دور دور تک میدانی علاقہ شروع ہو چکا تھا۔ ان کی آخری منزل حکومت کا نقل مکانی کرنے والوں کے لیے قائم شدہ وہ کیمپ تھا، جو چند روز پہلے وجود میں آیا تھا۔

    آج تیسرا دن تھا، اب تک ٹریکٹر مرمت نہ ہو سکا۔ نتیجہً قافلے والوں کا کھانے پینے کا سامان بالکل ختم ہو گیا تھا۔ انھیں سات آٹھ گھنٹوں میں منزل پر پہنچ جانا تھا مگر اب تک پچھتر گھنٹے گزر چکے تھے اور منزل ابھی کئی گھنٹوں کی مسافت پر تھی۔ پیدل چلنا مشکل تھا۔ ریڈیو سے انھیں جنگ کی اطلاعات مل رہی تھیں اور وہ اس خوف میں بھی مبتلا تھے کہ راستے ہی میں کہیں بمباری سے لقمہ اجل نہ بن جائیں۔ کچھ نوجوانوں نے ٹرالیاں کھینچ کر نزدیکی پیڑوں کے سایے میں کھڑی کر دیں۔۔۔ اب یہی جگہ ان کے لیے عارضی کیمپ بن چکی تھی۔

    سورج نے چہرہ دکھا کر پلوا شاہ کے خیالات کا سلسلہ منقطع کر دیا۔ اس نے پلو سے چہرے کا پسینہ صاف کیا اور چاروں طرف دیکھا۔ صبح کے آثار نمودار ہو تے ہی گرمی جوبن پر آ چکی تھی۔ اگرچہ سورج ابھی بہت اوپر نہیں آیا تھا۔ ٹرالیوں کا بسیرا چھوڑ کر اب پورا قافلہ نیچے اتر آیا تھا۔ بیشتر لوگ چادریں وغیرہ زمین پر بچھا کر کیمپنگ کر چکے تھے۔ سورج کے نکلتے ہی لوگوں نے اپنی اپنی پوٹلیوں میں سے کھانے پینے کا بچا کھچا سامان نکال کر بچوں کو کھلا دیا۔ صرف ایک گھرانے کے پاس گیس سلنڈر چولھا تھا جس پر پورا قافلہ چائے بنانے کے لیے امنڈ پڑا تھا۔

    بچوں نے کسی ایک جگہ پر زمین ہموار کر کے اپنے کھیلنے کا سامان پیدا کر لیا تھا۔ لیکن زریں گل کا ٹھکانا پلوا شاہ اور اس کے بچوں کے پاس تھا جن سے اس کی چار دن کی دوستی صدیوں کی رفاقت میں بدل چکی تھی۔ اس کی خواہش ہوتی کہ سارا دن نور کو گود میں اٹھائے گھومتی رہے۔

    بابا، ٹریکٹر کب ٹھیک ہوگا؟ آج تو ہمارے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ بھی نہیں۔

    پلوا شاہ نے سسر کو اپنی طرف آتے دیکھ کر سوال کر دیا۔

    اس بوتل میں دودھ ہے۔

    اس نے پپسی کی ایک چھوٹی پرانی بوتل واسکٹ کی جیب میں سے نکال کر پلوا شاہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا،

    آدھا آدھا دودھ دونوں بچوں کو پلا دینا۔ شاید آج کوئی سبیل نکل آئے۔

    بڑے خان کی نظر قریب کھڑی زریں گل پر پڑی جو بوتل کی طرف للچائی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

    پلوا شاہ نے زریں گل کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔

    بڑی صبر کرنے والی بچی ہے۔ کل سے صرف پانی پر ہے۔ کیا مجال کہ اس نے ایک دفعہ بھی بھوک کی شکایت کی ہو۔ کل کسی نے اسے ایک سیب دیا تو اس نے وہ بھی لا کر نور کو کھلا دیا۔

    پلوا شاہ نے بڑے خان کی طرف دیکھا جو پہلے ہی اپنی آنکھوں میں ٹمٹماتے ستارے سجائے کھڑے تھے،

    اچھا تمھارے لیے بھی کچھ ڈھونڈ کر لاتا ہوں۔۔۔

    اس نے زریں گل کے سر پا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا،

    اب تو کھانے پینے کا سامان کسی کے پاس نہیں۔ اگر تھوڑا بہت بچا بھی ہے تو لوگوں نے اپنے لیے چھپا لیا ہے۔

    ’’بابا۔۔۔ میں ٹریکٹر ٹھیک کر دوں؟

    زریں گل نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا،

    ’’ہاں کر دو۔۔۔‘‘

    بڑے خان نے یاس بھرے لہجے میں جواب دیا۔

    ’’بابا۔۔۔ جہاز کب آئیں گے؟‘‘

    اس نے اچھلتے ہوئے پوچھا۔

    ’’آخر تمھیں جہازوں سے کیا دلچسپی ہے؟‘‘

    خان بابا نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا،

    ’’بابا سکول میں میری مس نے کہا تھا کہ جہاں کھانا نہیں ہوتا، وہاں جہاز کھانا دیتے ہیں۔‘‘

    ’’او۔۔۔ میرے خدایا۔۔۔ اب میں اسے کیا سمجھاؤں‘‘

    خان بابا نے بڑبڑاتے ہوئے کہا،

    ’’بابا۔۔۔ مجھے سمجھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ میں آئی ڈی پیز ہوں‘‘

    زریں گل نے قہقہہ لگایا۔

    یہ تمھیں کس نے بتایا ہے؟ بڑے خان نے متعجب ہو کر اسے پوچھا۔

    ’’کل وہاں ایک انکل کہہ رہے تھے کہ ہم سب آئی ڈی پیز ہیں۔‘‘

    اس نے دور کھڑے چند نوجوانوں کی طرف اشارہ کیا۔ وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ’’ہم تو اس ملک میں پہلے د ن سے ہی آئی ڈی پیز ہیں۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے بھاگ گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے