Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جہاں میں رہتا ہوں

مہندر ناتھ

جہاں میں رہتا ہوں

مہندر ناتھ

MORE BYمہندر ناتھ

    میں دن رات یہی سوچتا رہتا ہوں کہ تمھیں کیا لکھوں، وہ کون سا مضمون ہے جس پر ادیبوں نے خامہ فرسائی نہیں کی، تم نے لکھا ہے کہ عورت کی محبت کے متعلق کیوں نہیں لکھتے، یہ قصہ بہت پرانا ہو چکا اور میں نے عورت کی محبت کے متعلق اتنا لکھا ہے کہ میرا جی ان باتوں سے اکتا گیا ہے، اب جی چاہتا ہے کہ میں اپنے متعلق لکھوں، کچھ اپنی اداسی، اپنے غم، اپنے دکھ کی نسبت، شاید تم اس اداسی، اس غم، اس افسردگی میں اہلِ دل کے اداس روح کی ایک جھلک دیکھ سکو!

    یہ تو تمھیں معلوم ہی ہوگا کہ میں کتنی دور سے چل کر یہاں آیا ہوں، کشمیر کی حسین وادیوں کا چکر کاٹ کر، پنجاب کے حسن سے متاثر ہوکر، دہلی اور لکھنؤ کا طواف کرکے اور پونا کے ملیریا بخار سے سیراب ہو کر بمبئی پہنچ گیا ہوں، آخر اتنا لمبا سفر کیوں۔۔۔؟ کیا اتنی پھیلی ہوئی دنیا میں میرے لئے کوئی مقام نہ تھا کہ ہندوستان کے ایک کونے سے چل کر دوسرے کونے تک پہنچ گیا ہوں، پھر بھی مجھے سکون نہیں ملتا، راحت نصیب نہیں ہوتی، خوشی محسوس نہیں ہوتی۔

    لوگوں نے بمبئی کی عمارتوں کی تعریف کی ہے، بمبئی کی ٹراموں اور بسوں اور ریلوں کو سراہا ہے، لیکن میں ان فلک بوس عمارتوں سے کبھی مرعوب نہیں ہوا۔ مجھے ان ٹراموں اور بسوں میں بیٹھ کر کبھی خوشی نہیں محسوس نہیں ہوئی، ہاں جب کبھی سمندر کے کنارے جاتا ہوں تو دل کو سکون سا مل جاتا ہے۔ یہ پھیلا ہوا وسیع سمندر اور اس پر کالے جھکے ہوئے بادل، جیسے کسی دوشیزہ کے سیاہ بال۔۔۔ اور دور، بہت دور، ایک کشتی لہروں پر ہچکولے کھاتی ہوئی ایک نامعلوم منزل کی طرف رواں اور پھر سمندر کے کنارے ناریل کے درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ، ناریل کے درخت خوب لمبے ہوتے ہیں، سرو اور یوکلپٹس کے درختوں سے بھی اونچے اور لمبے۔

    جب ہوا زور سے چلتی ہے تو یہ درخت ہوا میں جھومتے اور لہراتے اور آپس میں ایک عجیب انداز سے سرگوشیاں کرتے ہیں اور رات کے وقت جب ہوا ان درختوں میں سے گزرتی ہے تو ایک عجیب سی سرسراہٹ پیدا ہوتی ہے، ان کے لانبے لانبے پتّے ہوا میں لہراتے ہیں، کسی جوان لڑکی کے آوارہ بالوں کی طرح۔۔۔ چاند کسی شرمائی ہوئی دلہن کی طرح ان لانبے درختوں کی اوٹ میں چھپا رہتا ہے، لیکن چاند کی رسمیں کرنیں سمندر کی لہروں سے ہم آغوش ہوتی ہیں، ان کو چومتی ہیں، ان سے کھیلتی ہیں، لہریں بڑھتی ہیں اور ساحل سے ٹکراکر پیچھے ہٹ جاتی ہیں، شور بڑھتا ہے اور پھر مدھم ہو جاتا ہے، ریت کے ذرے ان چمکتی ہوئی کرنوں میں چمک اٹھتے ہیں اور سمندر کی تازہ، پاک اور صاف ہوا، ناریل کے درختوں میں سے گزرتی ہوئی ایک اداس نغمہ پیدا کرتی ہے۔

    بمبئی میں مجھے تین چیزیں پسند آئی ہیں، سمندر، ناریل کے درخت اور بمبئی کی ایکٹرس۔ اصل میں ان تین چیزوں سے بمبئی زندہ ہے، اگر ان تین چیزوں کو بمبئی سے نکال دیا جائے تو بمبئی، بمبئی نہ رہے، شاید دہلی بن جائے یا لاہور۔ دہلی ایک معمولی، بے کیف سا شہر، میں یہاں کیوں آیا؟ اس کی وجہ تم جانتے ہی ہو، وہی پرانی، روزگار کی تلاش۔ پیٹ کا مسئلہ بہت پرانا ہے، مگر انسانوں نے ابھی تک اس مسئلے کا کوئی حل پیش نہیں کیا۔ اگر اس مسئلے کا کوئی خاطر خواہ حل ہوتا تو بنگال میں اتنی موتیں نہ ہوتیں، یہ ہولناک جنگ بپانہ ہوتی، یہ بھوک، یہ غریبی، یہ پیاس نہ ہوتی، اس وقت میری جیب میں صرف چار آنے ہیں اور باہر ناریل کے پتوں پر سورج کی کرنیں رقص کر رہی ہیں اور دور گرجے کی صلیب پر ایک کوا کائیں کائیں کر رہا ہے۔

    اور میری بھوک ہر لمحہ بڑھتی جا رہی ہے، لیکن مجھے روزی کی اتنی فکر نہیں، آخر پیٹ بھرنے کو کچھ نہ کچھ ضرور مل جاتا ہے، کہیں نہ کہیں تم کو ایسا دوست مل جاتا ہے اور پھر ہم دونوں کسی ریستوران میں چلے جاتے ہیں اور کھانا کھاتے ہیں، میں کبھی کبھی اپنے دوستوں سے روپے ادھار لے لیتا ہوں، مگر یہ روپے کبھی واپس نہیں کرتا، کہہ دو یہ کمینہ پن ہے، مجھے اس کی پرواہ نہیں، بھوک ہی کمینہ پن سکھاتی ہے۔ سرمایہ دار مزدور کی روزی چھین کر عالی شان محل تیار کرتا ہے، فیکٹریاں بناتا ہے اور بال بچوں کو تعلیم دلانے کے لئے یورپ بھیجتا ہے، تو کیا یہ کمینہ پن نہیں؟ جابر کمزور کو مغلوب کرکے ایک عالیشان سلطنت کی بنیاد رکھتا ہے، کیا یہ کمینہ پن نہیں، حاکم محکوم کو کچل کر، پیس کر، حکومت کرتا ہے، کیا یہ ذلالت نہیں؟ اور اگر میں اپنے مالدار دوستوں سے چند ٹکے لے لیتا ہوں تاکہ اپنی بھوک کو میں بھلا سکوں، تو کیا میں کمینہ ہوگیا؟ چھوڑو میاں، تمھارے سماج کی عجیب قدریں ہیں اور میں ہر گام، ہر قدم پر اور ہر منٹ اور ہر سکنڈ ان کھوکھلی قدروں کو توڑنا چاہتا ہوں، ان قدروں کا مضحکہ اڑانا چاہتا ہوں، چاہے تم مجھے کمینہ کہو یا گنوار۔

    پہلے میں شیوا جی پارک میں رہتا تھا، یہ جگہ ایکٹر اور ایکٹرسوں کی پسندیدہ ترین جگہ ہے، شیواجی پارک کے چوک میں کھڑے ہوکر تم تمام ایکٹروں اور ایکٹرسوں کو دیکھ سکتے ہو، سڑک کی ہر نُکڑ پر، کسی نہ کسی موڑ پر، حلوائی کی دکان پر یا ایرانی کے ریستوران میں، تم ایکٹروں کو دیکھ سکوگے، یہ لوگ ایسے ہی عامیانہ انداز سے رہتے ہیں، جیسے تم یا میں، یہاں آکر ایکٹر اور ایکٹرسوں کو دیکھنے کو جی نہیں چاہتا، کیوں کہ ہر روز تم انھیں دیکھ سکتے ہو اور جو چیز روز دیکھی جائے، اس کی دل کشی جاتی رہتی ہے۔ تم نے یونہی پریتما کی تصویر مانگی ہے، ارے بھئی، چھوڑو ان ایکٹرسوں کو، کیوں دردِ سر مول لیتے ہو، بےچاری پریتما اب کافی موٹی ہو گئی ہے، کسی اور ایکٹرس کا نام لو، کوئی ہو بھی تو۔۔۔ شاید مہتاب تمھیں پسند آئے، میری نگاہوں میں یہی ایک ایکٹرس ہے جسے ایکٹرس کا پارٹ دیا جا سکتا ہے، باقی تو پھول کر کپا ہو گئی ہیں۔

    ہندوستان میں ایکٹر اور ایکٹرسوں کو اپنے جسم کا بالکل خیال نہیں رہتا، ایک بار ہیروئن کا رول مل گیا تو بس لگیں موٹی ہونے، نہ کمر رہی، نہ سینہ، نہ آنکھوں میں شوخی نہ بالوں میں چمک، گالوں پر گوشت چڑھنے لگا، یہاں تک کہ چہرے کے خطوط غائب ہو گئے، کولھے اتنے پھیلے کے ٹانگیں ندارد، سینہ اتنا بڑھا کہ پیٹ بن کر رہ گیا، اب بتاؤ، کیا کروگے ان کا فوٹو لے کر، کل ہی میں نے میٹرو کے سامنے ایک قسم کا اشتہار دیکھا، اشتہار پر مغربی ناچنے والی لڑکیوں کی ٹانگیں دکھائی گئی تھیں، صرف ٹانگیں۔ اف کیا ٹانگیں تھیں، کتنی سڈول اور گداز، گداز اور سڈول، جیسےسانچے میں ڈھلی ہوں کتنی خوبصورت، دل کش، توانا اور صحت مند، کتنی پر فریب، جیسے نگاہوں میں جذب ہو رہی ہیں۔ تمام ہندوستان چھان لو، اتنی خوبصورت، متناسب، موزوں ٹانگیں نہیں ملیں گی۔ میاں ان لوگوں سے پوچھو کہ خوبصورت ٹانگیں کس طرح تیار ہوتی ہیں، سڈول بازو، بھری ہوئی چھاتیاں، صحت مند جسم کس طرح بنتا ہے اور پھر یہ قوس، جو عورت کی خوبصورتی کی روح ہوتی ہے کہاں سے آتی ہے، کس طرح بنتی ہے، شرما نے کی کوئی بات نہیں، تم کہوگے ہندوستان مفلس ہے، غریب ہے، لیکن یہ ایکٹرسیں تو غریب نہیں، یہ تو ہزاروں روپے ماہوار کماتی ہیں۔

    لیکن خوبصورتی کا احساس کس کو ہے، یہاں تو عورت کو گٹھری بننے پر مجبور کیا جاتا ہےاور اگر عورت گٹھری بن گئی تو سمجھو حسن کا مجسمہ یتار ہو گیا، یہاں تو خوبصورت جسم پر غلاف چڑھائے جاتے ہیں، مبادا ان ٹانگوں میں زندگی آ جائے اور ٹیڑھی ٹانگیں چلنے پھرنے لگیں، مرنے اور جینے کے انداز مغربی لوگوں سے سیکھو میاں، ابھی ہم بہت پیچھے ہیں، بہت پیچھے۔

    ارے کر رہا تھا بات پرتیما کی، ذکر آ گیا براڈے گرلز کی ٹانگوں کا، اگر اتنے ہی بے بس اور مجبور رہتے ہو تو چند دنوں کے لئے بمبئی آ جاؤ، تمھارا ہندوستان کی تمام مشہور ایکٹروں اور ایکٹرس سے تعارف کرا دوں گا، یہ لوگ شہرت کے اسی قدر بھوکے ہیں جتنے تم انہیں دیکھنے کے لئے ترستے ہو، آخر یہ لوگ بھی انسان ہیں، میں یوں ہی ایکٹرسوں کے جھمیلے میں پڑ گیا۔ کر رہا تھا ذکر اپنا، درمیان میں بےچاری ایکٹرس آ گئی، تم نے میرے مکان کا پتہ پوچھا ہے، میں تمھیں کیا بتاؤں میں کہاں رہتا ہوں، پہلے میں شیواجی پارک میں رہتا تھا، وہاں سے کیوں چلا آیا۔ لو اس کی وجہ بھی سنو، میں ایک دوست کے پاس قیام پذیر تھا، آج کل کسی کو یوں ہی دوست بنانا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ دشمن، میرا دوست جس کا نام تم R رکھ سکتے ہو، ایک ہی پہلوان قسم کا انسان ہے، جسم دیکھو تو جی پھڑک اٹھے، ورزش کا بہت شوقین، وہ دن رات ورزش کرتا تھا، ہر وقت جسم مضبوط اور توانا بنانے کے خواب دیکھتا تھا۔

    دراصل اس کا سپنا اب حقیقت بن چکا تھا، بچارے میں صرف ایک خامی تھی، یہ کہ وہ عورت کو دیکھ کر گھبرا جاتا تھا، اسی لئے وہ عورتوں کی طرف بالکل نہیں دیکھتا تھا، میرا مطلب ہے جوان عورتوں کی طرف، اگر میں کبھی کسی عورت کی طرف نگاہ کرتا تو وہ اس بات کو برا سمجھتا، کبھی کبھی میں خیال کرتا ہوں کہ میرے دوست کا نقطہ نظر درست ہے۔ آخر یونہی اپنے دل و دماغ کو پراگندہ کرنےسے کیا فائدہ، ہر وقت عورت کے متعلق سوچنے سے کیا حاصل ہو سکتا ہے، بہتر یہی ہے کہ ورزش کی جائے، ڈنڑ پیلے جائیں، من من، دو من کے پتھر ہر روز اٹھائے جائیں اور جب انسان پتھر اٹھا اٹھا کر تھک جائے تو سمندر کے کنارے سیر کرنے چلا جائے اور سمندر کی ان گنت لہروں کو گنتا رہے۔ ہر طرف لہریں ہی لہریں یا پانی ہی پانی۔۔۔ دور نظروں سے دور جہاں سمندر اور آسمان آپس میں بغل گیر ہوتے ہیں۔

    سورج اپنی کرنوں کو سمیٹ کر سمندر کو چومتا ہے اور پھر گہرے نیلے پانی میں ڈوب جاتا ہے، ہر طرف سرخی ہی سرخی پھیل جاتی ہے، آسمان پر بھاگتے ہوئے بادل شفق کی سرخی سے چمک اٹھتے ہیں اور ٹھنڈی، تازہ، زندہ ہوا بادلوں کو چومتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے، ناریل کے درخت پیار بھری نظروں سے جھانکتے ہیں اور ان کی سوندھی سوندھی خوشبو ہوا میں تحلیل ہوتی جاتی ہے، اس نظارے کو چھوڑ کر کسی عورت کے پیچھے بھاگنا حماقت ہے، سراسر حماقت ہے۔

    اگر تم میرے دوست کو دیکھو تو یہی کہوگے، یہ کتنا متناسب، حسین تراشا ہوا یونانی بت ہے، اس کی آنکھوں میں سر سبز گھاس کی نیلاہٹ ہے اور اس کے رخسار پکے ہوئے سیب کی طرح سرخ۔ اگر تم اس کے قریب بیٹھوتو ایک عجیب صحت مند خوشبو اس کے جسم سے نکلتی ہے، جو صرف خالص گھی کھانے سے، دودھ پینے سے یا سرخ ٹماٹروں کے استعال سے یا عورت کی طرف نہ دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے، عورتیں اکثر میرے دوست کی طرف دیکھتی ہیں، نگاہوں میں آرزو ہوتی ہے، جسم کو چھونے کی خواہش ہوتی ہے، بس یہ دیکھنے کے لئے اس بت میں کیا ہے، اس کے بازو اس قدر سڈول کیوں ہیں، اس کی چال میں کیوں ایک زندگی ہے، اس کی نگاہوں میں کیوں ایک چمک ہے۔ لیکن میرا دوست عورتوں کی طرف نہیں دیکھتا۔

    اکثر میں اسے لیکچر دیا کرتا ہوں کہ بھئی عورت سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، آخر عورت بنی کس لئے ہے، عورت سے اس قدر دور رہنے سے کیا فائدہ، آخر زندگی میں ہرشخص کا نصب العین ایک خوبصورت جسم بنانا تو نہیں ہے، میری طرف دیکھ، میں چاہتا ہوں کہ میری صحت اچھی رہے اور میں تندرست رہنے کے لیے تھوڑی بہت ورزش بھی کر لیتا ہوں، لیکن میں پہلوان بننا نہیں چاہتا، میں زندگی میں ورزش کے علاوہ کچھ اور بھی کرنا چاہتا ہوں، مثلاً میں اس لڑکی کو، جو اکثر بالکونی کے دروازے میں کھڑی رہتی ہے، نہایت قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں، تم نے نہیں دیکھا اسے، دیکھا ہوگا اور ضرور دیکھا ہوگا، میں نے تمھیں اکثر دیکھا ہے کہ تم چاند کی سیمیں روشنی سے متاثر ہوکر باغ میں چلے جاتے ہو اور ہری ہری گھاس پر ایک سفید چادر بچھا کر لیٹ جاتے ہو اور جسم کو چاندی کی ٹھنڈی کرنوں کے حوالے کر دیتے ہو اور دیر تک ان سیمیں برفیلی کرنوں میں نہاتے رہتے ہو۔

    بھلا یہ کیوں، تم نے اس لڑکی کی طرف نہیں دیکھا، وہ بھی تو چاند ہی کا ٹکڑا ہے، اس کے جسم سے بھی کرنیں پھوٹتی ہیں، مگر یہ کرنیں عجیب سی ہوتی ہیں، میٹھی، ہلکی، نرم، گداز۔۔۔ نیند آ جاتی ہے ان کرنوں سے، مجھے نہانے دوان کرنوں میں، تم نے کبھی چاند کو چھونے کی تمنا کی ہے! ضرور کی ہوگی، چاند اس کائنات میں مسرت کا سر چشمہ ہے، میں بھی اپنے کرنوں کے منبع کو چھونا چاہتا ہوں، میں اس لڑکی کو نہایت قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں، میں اس کو خوف زدہ کرنا نہیں چاہتا ہوں، میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ اسے میری موجودگی کا علم ہو جائے کہ وہ انسان جو ہر روز اس کی بالکونی کے نیچے سے گزرتا ہے، اسے کتنا پسند کرتا ہے، یہ کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ ایک نہایت پاک اور مقدس خواہش ہے، آخر اس لمبے بالوں والی لڑکی سے تمھیں کیوں نفرت ہے۔

    کیا ہوا اگر اس نے تمھاری طرف تعریفی نگاہوں سے دیکھا، کیا ہوا اگر وہ ایک دن تمھارے کمرے میں اچانک آ گئی اور اس نے اپنے آپ کو تمھارے حوالے کرنا چاہا، لیکن تم نے اس کی بےعزتی کی اور اسے گھر سے باہر نکال دیا، یہ کہاں کی شرافت ہے، تم سمجھتے ہوکہ تم نے ایک نیک کام کیا اور ایک لڑکی کی عصمت کو بچایا، لیکن تم نے اس کی محبت کا سر چشمہ ہمیشہ کے لئے خشک کر دیا، آج کل کیوں اداس رہتی ہے، تم نے اس کے گالوں کی زردی کو نہیں دیکھا، تم نے اس کی نگاہوں کی تشنگی اور بھوک کا کبھی اندازہ نہیں کیا۔ تم ورزش کرکے اور گھی پی کر سو گئے اور وہ بےچاری محبت کی جھلستی ہوئی آگ میں جل بھن کر سوکھتی چلی گئی۔ مجھے ایسی شرافت پسند نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ جب تمھیں عورت کی یاد ستاتی ہے تو تم کیا کرتے ہو، اس وقت تم کیوں ٹھنڈے پانی سے بار بار غسل کرتے ہو، مگر آخر کب تک؟ اگر دنیا کے تمام انسان ٹھنڈی پانی سے نہانا شروع کر دیں تو دنیا اس چیز سے محروم ہو جائے جسے محبت کہتے ہیں، محبت ہی زندگی کا محور ہے، اس کے بغیر زندگی بےجان ہے، بےکیف ہے۔

    ہاں اس دن کی بات ہے کہ ایک نوجوان لڑکی میرے کمرے میں آگئی، میرے دوست نے اس لڑکی کو دیکھ لیا، اس نے اس بات کو نا پسند کیا اور یہ بات برداشت نہ کر سکتا تھا کہ کوئی لڑکی اس کے گھر کی طرف رخ کرے، میرے دوست نے اس لڑکی کو گالیاں دیں اور کہا کہ وہ رنڈی ہے، ایک بدمعاش عورت ہے، لڑکی بچاری تکتی رہ گئی، اس میں شک نہیں کہ اس نے نیا نیا دھندا شروع کیا تھا اور وہ ان لوگوں سے آشنائی کرنا چاہتی تھی جو کم ازکم اسےاچھے لگیں۔ اس سے پہلے وہ ایک لڑکے سے محبت کر چکی تھی اور اب وہ میری طرف مائل پرواز تھی، میرے دوست نے لڑکی کو بےعزت کرکے گھر سے باہر نکال دیا اور میں دیر تک اس واقعہ پر غور کرتا رہا۔

    اگر میرا دوست اَن پڑھ ہوتا تو شاید میں اسے معاف کر دیتا، لیکن جو شخص پڑھا لکھا ہو اور پھر ایک طوائف کو گالی دے کہ وہ کیوں طوائف ہے، وہ کیوں اپنا جسم بیچتی ہے، تو صاف ظاہر ہے کہ وہ شخص زندگی کے بنیادی مسئلوں سے آگاہ نہیں، وہ انھیں بالکل نہیں سمجھتا اور اگر سمجھتا بھی ہے تو اپنے اصولوں کی خاطر ایک ایسی لڑکی پر حملہ کرتا ہے جو نہتی ہے، جو اکیلی ہے، جس کا وارث کوئی نہیں ہے، جس کے پیشے کا ذمہ دار ہمارا سماج ہے، حکومت ہے، موجودہ سامراج ہے، تم ہی بتاؤ ایسے شخص کو کیا سزا ملنی چاہئے؟

    طوائفیت کے مسئلے کو حل کرنا، طوائفوں کو گالی دینے سے حل نہ ہوگا بلکہ عورتوں کو تعلیم دینے سے، عورتوں کی بھوک مٹانے سے، عورتوں پر دنیا کے دروازے کھولنے سے، عورتوں کو کام مہیا کرنے سے، عورتوں کو آزادی دینے سے، عورتوں کے اقتصادی مسئلوں کو حل کرنے سے۔ جب تک یہ کام حکومت نہیں کرے گی طوائفیں قائم رہیں گی اور آج کے دن تک وہ واقعہ بھول نہیں سکا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس دن اس لڑکی کی بے عزتی نہیں ہوئی تھی، میری بہن کی بےعزتی کی گئی تھی، اس دن میرے دوست نے اس لڑکی کی بےعزتی کر کے ظاہر کر دیا کہ مجھے بھی اس گھر میں نہیں رہنا چاہئے، ہو سکتا ہے کہ میں بھی اسی طرح اس گھر سے نکالا جاؤں۔

    اس لڑکی نے جن قہر آلود نظروں سے میرے دوست کی طرف دیکھا تھا اس سے صاف یہی عیاں تھا کہ اگر وہ مرد ہوتی تو اسے تھپڑ مار کر اس کے ہوش ٹھکانے لگا دیتی۔ وہ کون شخص ہوگا، جو اچھی زندگی بسر کرنا نہیں چاہتا، آخر اس کو کیا غرض تھی کہ وہ اپنا جسم راہ گیروں کے ہاتھ بیچتی پھرے؟ کیا اس کے دل کے کسی گوشے میں یہ تمنا نہ تھی کہ اسے ایک ایسا شوہر ملے جو خوب صورت ہو، نیک ہو، اچھے پیسے کماتا ہو اور اس سے محبت کرتا ہو اور اگر زندگی میں یہ چیزیں نہ ہوں اور فاقوں سے مجبور ہو کر اپنے آپ کو فروخت کرنا پڑے تو اس لڑکی کا کیا قصور۔۔۔؟ وہ اداس شام میں کبھی نہیں بھول سکتا، وہ گالیاں ابھی تک میرے ذہن پر مرتسم ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر گالی میرے سینے میں ایک زخم پیدا کر گئی ہے، اس دن کے بعد میں اپنے دوست کے گھر سے چلا آیا۔

    آج کل ماہم میں رہتا ہوں، سمرسٹ ماہم نہیں، منٹو کا ماہم نہیں بلکہ شیواجی پارک سےایک اسٹیشن آگے، یہ جگہ مجھے بہت پسند ہے۔ اس جگہ نے میری اداسی میں اضافہ کر دیا ہے، میرے گھر کے سامنے ناریل کے درخت استادہ ہیں، یہ درخت ہوا میں جھومتے ہیں اور سمندر کی ہوا ناریل کے پتوں سے اٹکھیلیاں کرتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے، آسمان ابر آلود رہتا ہے اور کبھی کبھی خوب زور سے بارش ہوتی ہے، میں اکثر بالکونی میں کھڑا رہتا ہوں اور ایک بھٹکے ہوئے انسان کی طرح ادھر ادھر دیکھتا ہوں، لوگ میری طرف دیکھتے ہیں اور ضرور سوچتے ہوں گے کہ یہ شخص یہاں کیوں کھڑا رہتا ہے، کیا یہ پاگل ہے، کیا اس کا دماغ ٹھیک ہے اور میں ان کی طرف دیکھتا ہوں جیسے میں ان کی ہر بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں، جیسے میں ان کے دل کی ویرانی، ان کی بے بسی، ان کی ناچاری سے آگاہ ہوں، مگر میں نے انھیں بنانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔

    میرے مکان کے سامنے ایک ایکٹر کا مکان ہے۔ میں نے اکثر ایک خوبصورت لڑکی کو اس کے کمروں میں گھومتے دیکھا ہے، سنا ہے کہ یہ لڑکی EXTRA کا کام کرتی تھی، پھر اس ایکٹر نے یہ لڑکی پسند کرلی اور اب وہ گھر کی چار دیواری میں بند کر دی گئی ہے۔ بمبئی میں عام طور پر لوگ ایکٹرسوں سے شادیاں کر لیتے ہیں اور جب شادی کر لیتے ہیں تو اپنی بیویوں کو گھر کی چار دیواری میں بند کر دیتے ہیں، ان میں اکثر لڑکیوں نے آزاد زندگی بسر کی ہوتی ہے، کہاں وہ پہلے کھلم کھلا ہر مرد سے مل سکتی تھیں، لیکن اب وہ کسی غیر مرد کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکتیں، یعنی ایک انتہا سے گزر کر دوسری انتہا کو پہنچ جاتی ہیں۔

    نتیجہ بےبسی، یاس، ایک ڈر، جو ہمیشہ ان کے گرد ایک چکر لگاتا رہتا ہے، مبادا ان کے شوہر انھیں کسی غیر مرد سے باتیں کرتے دیکھ لیں اور ان کا پھر وہی حشر ہو جس سے اکتا کر انھوں نے اس زندگی کو قبول کیا تھا، ازداجی زندگی کے چند سالوں کے بعد انھیں معلوم ہو جاتا ہے کہ اس زندگی میں اتنی ہی وحشت ہے، اتنا ہی زہر ہے، اتنی ہی تلخی ہے، اتنی ہی اداسی ہے جتنی ان کی پہلی زندگی میں تھی، کبھی کبھی ایکٹر کی بیوی میری طرف دیکھتی ہے، آنکھوں میں بے پناہ اداسی ہے، چہرے پر ڈر کے آثار ہیں اور زندگی میں حسرت اور غم کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا، ہوا زور زور سے چلتی ہے، ناریل کے پتے ہوا میں ناچتے ہیں، آنکھیں چمکتی ہیں لمحہ بھر کے لئے اور پھر وہی تاریکی چھا جاتی ہے۔

    میرے مکان کے نیچے اکثر گندگی کا انبار لگا رہتا ہے۔ کہتے ہیں بمبئی نہایت صاف جگہ ہے، اگر کبھی ماہم آؤ تو تمھیں معلوم ہو جائےگا کہ ماہم لاہور کی طرح گندا سڑا شہر ہے۔ مکان کے بائیں طرف دھوبی گھاٹ ہے جہاں دن بھر دھوبی کپڑے دھوتے رہتے ہیں، رسیوں پر طرح طرح کے فراک لٹکے ہوئے نظر آتے ہیں، وہ سرخ فراک دیکھ لو، کسی جوان لڑکی کا ہوگا اور وہ کٹکتا ہوا لمبا فراک، کسی بڑھیا کا ہوگا، رنگ برنگ کی ساڑیاں، پاجامے، دھوتیاں، انڈروئیر، چادریں جابجا لٹکی ہوئی نظر آئیں گی، گلی کے قریب ہی ایک ناریل کا درخت گرا ہوا ہے، ذرا بچ کے چلنا کہیں ٹھوکر نہ لگے، چند دن ہوئے بہت تیز و تند ہوا چلی تھی اور یہ ناریل کا درخت گر گیا تھا۔

    بالکونی میں کھڑے ہو کر تمھیں ایک چھوٹا سا مندر دکھائی دے گا، دراصل یہ مندر نہیں ہے، صرف ایک ٹین کی چھت ہے جس کے نیچے ایک مورتی رکھ دی گئی ہے۔ بمبئی میں بہت کم مندر ہیں۔ بہت کم گوردوارے ہیں، بہت کم مسجد ہیں، ہاں گرجے زیادہ نظر آتے ہیں۔ تو ہاں، شاید ماہم کے ہندؤوں کو مندر کی ضرورت محسوس ہوئی ہوگی، بےچاروں نے اسی ٹین کی چھت کے نیچے مورتی نصب کر دی، عورتیں صبح سویرے آتی ہیں اور پتھر کی پوجا کرتی ہیں، چند دن ہوئے ناریل کا درخت اس درخت کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا۔

    بیسویں صدی کے خدا بھی بے جان ہیں، جامد ہیں، غیر متحرک ہیں۔ آج کل جنگ کا زمانہ ہے، ہندؤوں اور مسلمانوں کو کھانے پینے کے لئے کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے، نہیں تو اس بات پر ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا۔ ہندو کہہ سکتے تھے کہ مسلمانوں نے جان بوجھ کر درخت گرایا ہے، تاکہ ہندؤوں کے پرماتما کی بےعزتی کی جائے، آج کل ان مسئلوں کو کون پوچھتا ہے، جب پیٹ بھرا ہوا ہو تو پرماتما یاد نہیں آتا۔۔۔ مذہب بچارا۔

    میرا فلیٹ دوسری منزل پر ہے، اس لئے جب کبھی بالکونی میں کھڑا ہوتا ہوں تو ارد گرد کے مکانوں کو اچھی طرح دیکھ لیتا ہوں۔ میرے فلیٹ کے دائیں طرف ایک گجراتی رہتا ہے، گجراتی بچارا بوڑھا ہے، لیکن اس کی بیوی جوان ہے، اگر خوبصورت ہوتی تو میں ضرور اس سے رومان لڑاتا۔ میری جمالیاتی حس کی داد دو کہ میں یوں ہی ہر لڑکی سے محبت نہیں کر سکتا، بچاری نہایت ہی بدصورت عورت ہے، کاش اس کے دانت باہر نکلے ہوئے نہ ہوتے تو شاید مجھے پسند آ جاتی، وہ اکثر پھولوں کا ایک گچھا اپنے جوڑے میں باندھتی ہے، یہاں کی عورتوں کو پھولوں سے عشق ہے، معلوم ہوتا ہے عورت جتنی زیادہ بدصورت ہوتی ہے، اتنا ہی وہ پھولوں سے محبت کرتی ہے، یہاں تم ہر لڑکی ہر عورت کو پھولوں سے لدی ہوئی پاؤگے، لیکن پھر بھی حسن عنقا ہے، حسین عورت بہت مشکل سے دکھائی دیتی ہے اور پھول لگا کر یہاں کی عورتیں اور بدصورت نظر آتی ہیں، خوب صورتی میں اضافہ تو ہوتا نہیں، بد صورتی میں اضافہ ہو جاتا ہے، بہر حال اس گجراتن کو پھولوں سے پیار ہے۔

    بوڑھا گجراتی اکثر باہر رہتا ہے، عورت دن بھر چارپائی پر لیٹی رہتی ہے، بالکل اوندھی تکیے پر منھ رکھ کر ٹانگوں کو دن بھر ہلاتی رہتی ہے۔ آج کل گجراتی نے ایک نوکر رکھ لیا ہے، آج میں نے نوکر کو گجراتن کے لبوں کو چومتے ہوئے دیکھا، پھر دروازے کی چٹخنی بند کر دی گئی، کچھ عرصے تک قہقہوں کی آواز آتی رہی۔ جب شام کے وقت گجراتن باہر نکلی تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی، آنکھوں میں چمک تھی، جسم میں سے ناریل کی سوندھی سوندھی خوشبو آ رہی تھی، آنکھوں میں خوشی کے لاکھوں پھول کھلے ہوئے تھے، لیکن یہ خوشی جلد ہی فنا ہو گئی۔ بوڑھے گجراتی کو اس عشق کا علم ہو گیا اور اس نے نوکر کو نکال دیا۔ آج پھر گجراتن کے لب سوکھے ہوئے تھے، اس کی آنکھوں سے یاس ٹپکتی تھی، اس کی مسکراہٹ میں اداسی تھی، اس کی باتوں میں غمی کی جھلک تھی اور وہ اب اکثر بستر پر اوندھے منھ لیٹی رہتی ہے اور اس کی سڈول پنڈلیاں ہلتی رہتی ہیں۔

    تم کہوگے کہ میں محبت کا قصہ لے کر بیٹھا، سچ کہوں تو برا تو نہ مانوگے، میں ہر طریقے سے کوشش کرتا ہوں کہ عورت کے متعلق کچھ نہ سوچوں، عورت کے متعلق کچھ نہ لکھوں، لیکن ہر بار جب لکھنے لگتا ہوں تو عورت سامنے آ جاتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید عورت کے بغیر بات پھیکی رہےگی، اچھا آؤ، میں تمھیں عورت کی دنیا سے دور لے چلتا ہوں، میں تمھیں اپنے دوستوں سے متعارف کراتا ہوں، جس جگہ میں رہتا ہوں وہ فلیٹ صرف ایک آدمی کے رہنے کے لئے ہے، لیکن آج کل اس فلیٹ میں سات آدمی رہتے ہیں۔

    ان سے ملو، یہ ہیں مسٹر چٹرجی،، یہ بنگال کے ایک دور افتادہ گاؤں سے چل کر بمبئی آئے ہیں، وہی تلاش روزگار۔۔۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ انگریز اتنی دور سے چل کر آئے ہیں اور اگر ایک بنگالی نوجوان بمبئی میں اپنی قسمت آزمانے آیا ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔ چٹر جی کا رنگ سیاہ ہے، جب کبھی وہ سیاہ سوٹ پہنتا ہے اور سگریٹ سلگا کر دھواں منھ سے نکالتا ہے تو بالکل ریل کے انجن کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ عام بنگالیوں کی طرح دبلا پتلا، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ تپ دق کا مریض ہے، اس کے گال پچکے ہوئے ہیں، چہرے پر ہر وقت مردنی سی چھائی رہتی ہے، بازو لمبے اور پتلے، ٹانگیں سوکھی ہوئی، آنکھیں بڑی بڑی سیاہ مگر بے نور، بے جان، کھوئی کھوئی سی، کسی چیز کی جویا، ایک آنے والے زمانہ کی امید پر زندہ، وہ زمانہ جب بھوک اور بیکاری مٹ جائےگی، جب دنیا میں انسانیت کا راج ہوگا، جب ایک نئی زندگی کی صبح ہوگی۔

    خیر۔۔۔ چٹرجی نہایت ہوشیار آدمی ہے، ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے، میں نے کبھی اسے بیکار نہیں دیکھا، مگر حالت یہ ہے کہ آج تک اسے کوئی روزگار نہیں ملا۔ وہ بمبئی میں اس لئے آیا تھا کہ وہ ایک کامیاب کیمرہ مین بن سکے، اس کا بھائی فوٹوگرافر تھا اور اس نے بھی فوٹو گرافری کا کام بھائی کی دوکان سے سیکھا تھا، وہ اردو اچھی طرح بول سکتا ہے، ہندی بھی جانتا ہے، ٹوٹی پھوٹی انگلش بھی بول لیتا ہے، اس کے پاس یونیورسٹی کی کوئی ڈگری نہیں لیکن ایک عام گریجویٹ سے بہتر انگریزی بول لیتا ہے۔ ایک بار ایک فلم میں کام ملا تھا، لیکن چند دنوں کے بعد اسے نکال دیا گیا تھا، اب وہ ڈائریکٹر بننا چاہتا ہے اور اس کے بعد پروڈیوسر۔ وہ کہتا ہے کہ وہ ایک دن پرڈیوسر بن کر دکھائےگا۔

    اس کے پاس کھانے کے لئے پیسے نہیں ہوتے، کبھی کبھی وہ مجھ سے پیسے مانگ لیتا ہے، آج کل وہ ایک وقت کھانا کھاتا ہے، اس لئے اس کی صحت روز بروز گر رہی ہے۔ پچھلے ہفتے اس کو زکام ہو گیا اور ساتھ ہی بخار، پہلے ہی کون سا طاقتور تھا، زکام اور بخار نے اسے اور لاغر کر دیا، دو دن تک اس نے کچھ نہیں کھایا، اس کی بے نور آنکھیں اندر دھنس چکی ہیں، اس کا چہرہ اور سیاہ ہوگیا ہے اور جب وہ چلتا ہے تو اس کی ٹانگیں کانپتی ہیں، باتیں کرتے وقت اس کا سانس پھول جاتا ہے، لیکن اس نے ابھی ہمت نہیں ہاری، وہ اب بھی کہتا ہے کہ وہ ایک دن پروڈیوسر ضروربنےگا۔

    وہ ایک دن فلم ڈائریکٹ ضرور کرےگا، کیا ہوا اگر اس کے پاس پیسہ نہیں ہے، کیا ہوا اگر وہ ایک دن میں ایک بار کھانا کھاتا ہے، وہ فاقے کرے گا، وہ زندگی سے لڑےگا، وہ فلمی دنیا کے ہر شخص سے جنگ کرےگا، وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ لوگ کس طرح پرڈیوسر بن جاتے ہیں، بمبئی میں اگر کوئی پروڈیوسر بننا چاہے تو اسے چاہئے کہ وہ کسی خاتون کو پھانس لے یا وہ خود اتنا حسین ہو کہ کوئی عورت اسے پھانس لے لیکن چٹرجی نہ خوبصورت ہے نہ جوان ہے، کوئی ذہین سمجھدار خوبصورت عورت اس سے عشق نہیں کر سکتی مگر وہ اپنی دھن کا پکا ہے۔ اس کا ارادہ چٹان کی طرح مضبوط ہے مگر کبھی کبھی جب وہ بمبئی کے سٹوڈیو کے چکر لگا لگاکر تھک جاتا ہے تو کہتا ہے کہ وہ اس زندگی سے اکتا گیا ہے، وہ کب تک جدوجہد کرتا رہے، وہ کب تک لوگوں کی گھڑکیاں سنتا رہے، اسے لوگوں سے نفرت ہو گئی ہے، اسے خود زندگی سے نفرت ہو گئی ہے، وہ خوکشی کر لےگا اور جب کبھی وہ کرسی پر بیٹھ کر خودکشی کے متعلق سوچتا ہے تو میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر وہ ایک عجیب انداز سے مسکراتا ہے، اف ان خشک لبوں پر ایک بےجان مسکراہٹ! یہ مسکراہٹ نہیں خون ہے، مسلسل فاقوں کی ایک تصویر ہے جو زندہ ہوکر اس کے لبوں پر ناچتی ہے، کائنات کا ہر ذرہ خاموش ہے، بمبئی کا ہر سیٹھ زندہ ہے۔

    بمبئی کے ہر ہوٹل میں بجلی کے قمقمے جگمگاتے ہیں، بمبئی کے شراب خانوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں، ناچ ہوتے ہیں، نگاہوں میں پیاس اور ہوس کی بجلی کوندتی ہے، مرین ڈرائیو پر لاکھوں قمقموں کی روشنی پھیلتی ہے اور ہر طرف پھیلتی چلی جاتی ہے، سمندر کی لہریں بڑھتی ہیں، شور مچاتی ہیں اور کچھ ہٹ جاتی ہیں، ٹراموں، بسوں اور موٹروں کی کھڑکھڑاہٹ مدھم نہیں ہوتی، لیکن یہ شخص اس بےنور کمرے میں بیٹھ کر کیوں اداس دکھائی دیتا ہے، اس کی آنکھوں میں کیوں مرنے کی تمنّا ہے، مگر اس اندھی جدوجہد کا کیا مقصد ہے؟ آج کل چٹرجی کھانستا ہے، وہ ہلکی ہلکی کھانسی، خدا بچائے اس کھانسی سے، کیا اسے تپ دق ہو گیا ہے؟ کیا وہ زندگی میں کبھی ڈائریکٹر نہ بن سکےگا، کیا اس کی خواہش کبھی پروان نہ چڑھےگی؟ میرے دوست اکثر چٹر جی کو چڑھاتے ہیں، اس سے مذاق کرتے ہیں کہ وہ کب ڈائریکٹر بنےگا، وہ کب پرڈیوسر بنےگا، پھر سب اسے گالیاں دیتے ہیں، اسے گھر سے نکال دینے کی دھمکیاں دیتے ہیں، محض اس لئے کہ اس کا کوئی وارث نہیں، محض اس لئے کہ اس کے پاس پیسے نہیں اور وہ فلیٹ کا کرایہ ادا نہیں کر سکتا اور وہ اکثر دوستوں کا دست نگر رہتا ہے، وہ جانتا ہے کہ اگر وہ اس فلیٹ سے نکال دیا گیا تو کہاں اور کدھر جائے گا، وہ کس جگہ رات بسر کرےگا۔

    وہ غصے میں آکر خط لکھنے لگتا ہے۔۔۔ کس کو؟ شاید اپنے باپ کو۔۔۔ جس نے اسے پیدا کیا، شاید اپنی ماں کو جو کب کی مر چکی ہے، یا اپنے بھائی کو، جو ایک دور افتادہ گاؤں میں زندگی کے دن کاٹ رہا ہے، خط لکھو، لکھے جاؤ، دنیا کے نا خداؤں کو خط لکھو، چرچل کو خط لکھو، روز ویلٹ کو تار دو کہ وہ تمھیں روپے بھیجیں، سٹالن کو خط لکھو، جس نے ہندوستان کی آزادی کے متعلق کبھی کچھ نہیں کہا، دنیا کے ہر بڑے انسان کو خط لکھو کہ وہ تمھیں اس زندگی سے نجات دلائے، تم دنیا کے ہر بڑے شخص سے پوچھو کہ تم چٹرجی، کیوں اس دنیا میں اکیلے ہو، تم کیوں فاقے کرتے ہو، تم کیوں بھوکے رہتے ہو، تمھیں کیوں سونے کے لئے جگہ نہیں ملتی، لیکن خدا کے لئے خاموش نہ رہو، تم دوستوں کی گالیاں اس خاموشی سے نہ سنو۔ تم کیوں اس ذلت کو برداشت کرتے ہو، یہ ذلت مجھے ناگوار معلوم ہوتی ہے، ناگوار ہی نہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے، میں یہ سکوت برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔ اور کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میں ان سب لوگوں کو با لکونی سے نیچے پھینک دوں، دنیامیں ہر شخص کمینہ ہے، ذلیل ہے۔۔۔

    دنیا میں ایسے نظام کی ضرورت ہے، ٹھہرو۔۔۔ میں اشتراکی بننا نہیں چاہتا، میں فسطائیت کا حامی نہیں، میں کسی ازم کا پرچار کرنا نہیں چاہتا، میں فسطائیت کا حامی نہیں، میں کہانی نہیں لکھ رہا ہوں، میں کہانی لکھنا جانتا ہی نہیں، میری کہانی میں نہ پلاٹ ہوتا ہے اور نہ میں ماحول تعمیر کرتا ہوں، نہ کردار نگاری کے معجزے دکھاتا ہوں، نہ رنگین عبارت لکھتا ہوں، میں غلط محاورے لکھتا ہوں، مجھے مذکر اور مونث کی کوئی تمیز نہیں، میں نئی نئی تشبیہیں نہیں لکھتا، میں دلکش سٹائل کا مالک نہیں، میں موپساں اور ٹالسٹائی کی طرح بڑا ادیب بننا نہیں چاہتا، میں شہرت کا قائل نہیں۔۔۔ میرے پاس صرف چار آنے ہیں صرف چار آنے۔۔۔ میں جو کچھ کہوں گا، صاف کہوں گا۔

    میرے خیلات ایک فرد، ایک قوم کے نہیں بلکہ انسانیت کے ترجمان ہیں، میں انسانیت کا قائل ہوں اور اس لئے پوچھتا ہوں کہ اس دنیا میں اتنا ظلم کیوں ہے، اتنی بےکاری کیوں ہے، اس کا جواب تم کیا دوگے! انسانی خداؤں اور رہنماؤں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں، خیر۔۔۔ ان سے ملو ان کا نام ہری چند ہے، یوپی ان کا دیس ہے، جنگ شروع ہونے سے پہلے ہری چند اپنے مالدار چچا کے ساتھ سٹّہ کھیلتا تھا لیکن جونہی جنگ شروع ہوئی، اس کا چچا سٹّے میں سب کچھ ہار گیا اور ہری چند کو نوکری کی تلاش میں بمبئی آنا پڑا۔ کچھ عرصہ وہ ڈپو میں کام کرتا رہا لیکن ڈپو کی نوکری موافق نہ آئی نوکری چھوڑ دی۔ کسی نے کہا تم ایکٹر بن سکتے ہو، بس پھر کیا تھا، ایکٹر بننے کا جنون سر پہ سوار ہو گیا، بمبئی کی آدھی آبادای ایکٹر بننے کی تمنا کرتے کرتے مر جاتی ہے، بچارے ہری کو بھی جنون سوار ہے، کاش اسے اصلیت سے آگاہ کر دیا جاتا، مگر انسان اپنے آپ کو دھوکا دینا چاہتا ہے، وہ اصلیت کا کبھی سامنا کرنا نہیں چاہتا۔

    آج کل ہری دن میں بیس بار کنگھی کرتا ہے، آئینہ ہر وقت اس کے ہاتھ میں رہتا ہے، اس کے جسم کی تشکیل میں ایک عجیب نسوانیت کی سی جھلک ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ مرد کم عورت زیادہ ہے، وہ بال عجیب انداز سے بناتا ہے، غسل خانے میں دو دو گھنٹے صرف کرتا ہے اور جب نہا کر باہر نکلتا ہے تو کریم اور پاؤڈر کی آفت آتی ہے، چہرے پر کریم ملتا ہے اور ملتا رہتا ہے اور پھر پنکھے سے ہوا کرتا ہے تاکہ چہرے کی جلد کے ہر مسام میں کریم جذب ہو جائے، لیکن کریم کے متواتر استعمال سے ابھی تک رنگت میں کوئی فرق نہیں آیا، ہری ہر روز دگنی اجرت پر کپڑے دھلاتا ہے اور روپے گھر سے منگوا کر گزارہ کرتا ہے لیکن کب تک۔

    وہ پھر سٹہ کھیلنا چاہتا ہے، وہ کہتا ہے کہ سرکاری نوکری کرکے کوئی انسان امیر نہیں بن سکتا، وہ ایک اچھے گھر میں رہنا چاہتا ہے، وہ ریڈیو خریدنا چاہتا ہے، وہ خوبصورت عورتوں سے محبت کرنا چاہتا ہے، بتاؤ ان باتوں میں کون سی بری بات ہے، ہر عقل مند شخص ان ہی باتوں کی خواہش کرےگا، ہری چند جانتا ہے کہ ڈپو کی نوکری کرکے وہ یہ چیزیں حاصل نہیں کر سکتا، اس لئے وہ ایکٹر بننا چاہتا ہے، کیوں کہ ایک ایکٹر آج کل ہزاروں روپے کماتا ہے، وہ سٹہ کھیلنا چاہتا ہے کیوں کہ سٹّہ کھیلنے سے یا وہ امیر بن جائےگا یا محض بھکاری۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ زندگی سے جوا کھیلنا چاہتا ہے۔۔۔ جن حالات، جس ماحول میں وہ رہتا ہے، اس ماحول میں اسے رتی بھر خوشی نصیب نہیں ہوتی، روز بروز اس کا وزن کم ہو رہا ہے، سر کے بال گر رہے ہیں، آنکھوں میں مایوسی کے آثار نمایاں ہیں، وہ کچھ تھکا تھکا سا دکھائی دیتا ہے، آج ہری طاقت کی دوا خرید لایا ہے، وہ ہر روز اسے استعمال کرے گا اور زندگی کی کشمکش جاری رکھےگا۔

    دواؤں کے استعمال سے انسان کب تک زندہ رہ سکتا ہے، آخر کب تک۔۔۔؟ جس ہوٹل میں وہ کھانا کھاتا ہے، وہاں کی خوراک میں غذائیت کا نام نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ ان مسلسل مصیبتوں کا مقابلہ نہ کر سکےگا، میں نے اس سے کئی بار کہا ہے کہ وہ پھر سے ڈپو کی نوکری کر لے، مگر وہ ہمیشہ نفی میں جواب دیتا ہے اور آئینہ کو سامنے رکھ کر مسکراتا ہے اور اپنے بےجان کھردرے بالوں میں کنگھی کرتا ہے اور زور زور سے کریم ملتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میں آہستہ آستہ مرنا نہیں چاہتا، میں جانتا ہوں کہ میں اب زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا، شام کے وقت میری ٹانگیں ڈگمگاتی ہیں، سر چکراتا ہے اور روز رات کو بخار ہو جاتا ہے اور پھر ہلکی ہلکی کھانسی کی شکایت بھی ہے مجھے، لیکن میں ڈپو کی نوکری نہیں کر سکتا۔ وہ بامشقت قید ہے۔ میں یہ قید برداشت نہیں کر سکتا۔

    دیکھو اس ٹرنک میں میری بی اے کی ڈگری ہے، اگر میں مر گیا، وہ پھر ہنستا ہے، موٹے موٹے لبوں پر ایک کھسیا نی سی ہنسی، جیسے وہ کبھی نہیں مرےگا، تو یہ ڈگری لکھنؤ یونیورسٹی کو واپس بھیج دینا، زیادہ عرصہ اسے اپنے پاس نہ رکھنا۔ ڈگری کا کافی حصہ دیمک چاٹ گئی ہے اور باقی۔۔۔ ہے بھی کیا اور میں اسے سمجھاتا ہوں کہ بھائی نوکری کر لو لیکن وہ بالکل نہیں مانتا، اس دورِ ابتلا میں عجیب انسانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہر طرف ابتری پھیلی ہوئی ہے اور ہر شخص ایک بہتر زندگی بسر کرنے کی فکر میں ہے، مگر وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں دنیا کے انسانوں کی قسمت ہے، وہ چپ چاپ بیٹھے ہوئے ہیں، وہ اپنی شہرت، عزت اور رتبے کو برقرار رکھنے کے لئے اسی راستے پر گامزن رہنا چاہتے ہیں جس پر چل کر کئی صدیوں تک ان کے باپ دادا نے حکومت کی تھی۔

    اور رگھبیر سے تعارف کرانا تو میں بھول ہی گیا، رگھبیر تمام دن باہر رہتا ہے اور تقریباً رات کے بار ہ بجے گھر آتا ہے، تم پوچھو گے کہ وہ کیا کرتا ہے تو میں اس کا جواب کچھ نہیں دے سکتا، اس فلیٹ میں جو شخص بھی رہتا ہے، اس کے متعلق میں یہ وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا کام کرتا ہے، دراصل اس فلیٹ میں جو لوگ بستے ہیں، وہ کچھ کام نہیں کرتے۔۔۔ اوتار سنگھ کو چھوڑ کر، لیکن اس کا ذکر میں پھر کروں گا۔

    رگھبیر کو تم نے نہیں دیکھا، وہ چھوٹا سا قد دور سے دیکھو، ایک خوبصورت کھلونے کی طرح دکھائی دےگا، اس کے بال بھورے، رنگ گورا، اس کی خوبصورتی اس کے سنہرے بالوں میں پنہاں ہے۔ اسے اچھے کپڑے پہننے کا بہت شوق ہے اور جب کبھی وہ ایک اچھا سوٹ پہن کر اور نکٹائی لگا کر فلیٹ سے باہر نکلتا ہے تو گلی کی تمام جوان لڑکیاں اس کی طرف آرزومند نگاہوں سے دیکھتی ہیں اور پھر رگھبیر ایک شعر گنگناتا ہے۔ ’’زندگی چاند سی عورت کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ رگھبیر شاعر ہے، لیکن اس کی کوئی نظم کبھی کسی رسالے میں نہیں چھپی، وہ ایک کامیاب ایکٹر ہے، لیکن کسی فلم میں ابھی تک اسے کوئی پارٹ نہیں ملا۔

    وہ ایک دلچسپ عاشق ہے، وہ ہر عورت سے عشق کر سکتا ہے، بلکہ وہ لڑکی سے عشق کرتا ہے، سڑک پر چلتے پھرتے ٹرام میں چڑھتے اترتے، گلی کے موڑ پر، ہوٹل، سنیما، باغ، اسٹیشن ہر جگہ وہ لڑکیوں سے عشق کرتا ہے، وہ صرف لڑکی کی طرف دیکھتا ہے اور پھر آہ بھرتا ہے، شعر کہتا ہے، ’’زندگی چاند سی عورت کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ اپنی ناکام محبت کے افسانے دوستوں کو سناتا ہے، جس لڑکی سے وہ عشق کرتا ہے، اس سے ضرور شادی کا وعدہ کرتا ہے، چند دنوں کے بعد شادی کا جوش سرد پڑ جاتا ہے، مگر رگھبیر کی جنوں پرور نگاہیں کسی اور لڑکی کو تلاش کر لیتی ہیں۔

    آج کل اسے ایک بنگالن سے عشق ہو گیا ہے، رگھبیر کہتا ہے کہ وہ واقعی عشق کر رہا ہے، لیکن ہمیں یقین نہیں آتا، ہم سب ہنس پڑے، ہم اس کی گہرائی اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہر روز وہ اپنی محبوبہ کو خط لکھتا ہے اور وہ رات بھر جاگتا رہتا ہے، میں اکثر رگھبیر کی محبت کا مذاق اڑاتا ہوں، لیکن وہ مسکرا کر ٹال دیتا ہے اور کسی بات کا جواب نہیں دیتا، اس کی ہنسی میں واقعی کچھ مایوسی سی آ گئی ہے۔ کیا رگھبیر بنگالن سے عشق کرتا ہے؟ رگھبیر نے بتایا کہ شروع میں بنگالن، جس کا نام گیتا ہے، اس سے شادی کرنے کے لئے تیار ہو گئی تھی۔

    گیتا ایک نرتکی ہے، وہ ایک مشہور فلم اسٹار کے ٹروپ میں کام کرتی ہے اور بچارا رگھبیر بھی اس ٹروپ میں شامل ہو گیا اور اس بنگالن کی خاطر تمام ہندوستان کا چکر لگاتا رہا۔ لیکن جب ٹروپ کلکتہ پہنچا تو گیتا نے صاف جواب دے دیا کہ وہ اس سے شادی نہیں کر سکتی، شاید گیتا کے چاہنے والوں نے اصرار کیا ہوگا کہ وہ کیوں ایک غریب آوارہ لونڈے سے عشق کر رہی ہے، ہماری طرف دیکھو، ان فلک بوس عمارتوں کو دیکھو، ان کاروں اور گاڑیوں کی طرف دیکھو، یہ چمکتے ہوئے ہیرے، یہ صوفہ سیٹ، یہ رنگین پردے، یہ نوکر، یہ لونڈیاں، یہ باندیاں اور طرح طرح کے کھانے۔۔۔

    وہ شاعر تمھیں کیا دےگا، فقط چند شعر اور کچھ نہیں، اگر تم اس سے شادی کروگی تو بھوکی مرجاؤ گی، وہ خود بھوکا ہے، وہ تمھیں کیا کھلائےگا اور پھر وہ بنگالی نہیں ہے، شمالی ہند کی ایک گھٹیا سی ریاست کا باشندہ ہے، اپنے دیس میں رہو، اس کلکتہ میں رہو، یہاں ناچو، گاؤ، لوگوں کو الو بناؤ اور زندگی کے دن ہنسی خوشی بسر کرتی چلی جاؤ۔۔۔ اور بےچارا رگھبیر، جب سے وہ کلکتہ سے واپس آیا ہے، اس کا حلیہ بگڑ گیا ہے، عورت کی بے وفائی نے اسے بری طرح اداس کر دیا ہے، اب وہ ہر روز شراب پیتا ہے اور ات کے بارہ بجے گھر آتا ہے۔ پہلے وہ مستقبل کے متعلق بہت پر امید تھا لیکن اب اس کے حوصلے بہت پست ہو گئے ہیں، اس کے دل کی ویرانی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، آج وہ رات کے بارہ بجے گھر واپس آیا، اس نے کافی شراب پی رکھی تھی اور اس کے منھ سے شراب کی بو آ رہی تھی، اس کے بھورے بال بکھرے ہوئے تھے، اس کی پینٹ میلی اور ڈھیلی ہوگئی تھی، کوٹ پر دھبے پڑ گئے تھے۔ آنکھیں سرخ تھیں۔

    وہ ہنسنا چاہتا تھا، لیکن ہنسی لبوں کے قریب ہی رک گئی اور وہ لڑکھڑاتا ہوا کرسی پر گر گیا اور بڑبڑانے لگا، یہی کہ وہ بمبئی میں نہیں رہ سکتا، وہ واپس شملہ جائےگا، اسے کیا معلوم کہ شہری لڑکیاں اتنی چالاک ہوتی ہیں، اس نے بوٹ اتار دیے اور پسینے سے بھیگی ہوئی جرابوں کو سونگھنے لگا اور پھر جرابوں کو اس نے ایک کونے میں پھینک دیا، وہ شملہ کی حسین وادی میں اپنا مسکن بنائےگا، وہ یہاں نہیں رہ سکتا، وہ شملہ کی ایک انجان الھڑ لڑکی سے شادی کرےگا اور نمک اور تیل کی دوکان کھولےگا، اب رگھبیر نے ایک کوٹ اتار دیا تھا، قمیض اتارتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا، اسے فلمی دنیا سے نفرت ہو گئی ہے اور پھر اس نے پتلون بھی اتار دی اور صرف انڈروئیر پہنے کرسی پر ڈھیر ہو گیا۔۔۔ اسے اس زندگی سے نفرت ہو گئی ہے وہ اس زندگی کو دوبارہ شملہ میں زندہ جاوید کرےگا۔ وہ شملہ کی پہاڑیوں کو کبھی بھول نہیں سکتا اور پہاڑوں پر پھیلی ہوئی دھند سفید، ٹھنڈی، نرم و نازک اور اس کے ذہن میں اس الھڑ لڑکی کے نقوش ابھر آئے جس نے اسے شہر جانے سے روکا تھا، لڑکی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور دھند چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور وہ دونوں دھند میں اڑے جا رہے تھے، کدھر، کہاں۔

    رگھبیر نے لڑکی کو اپنی چھاتی سے لگا لیا، لڑکی کی چھاتیاں اس کے سینے سے ٹکرائیں اور ایک غیر فانی نغمہ پیدا کرتی گئی۔ لڑکی کے دل کا طوفان اس کی طرف بڑھ رہا تھا اور دھند چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی، لیکن وہ کیا کرتا، اس نے لڑکی کے گرم جلتے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ دیے اور وہ دھند کی انتہائی گہرائیوں میں کھو گیا۔ وہ نرم نرم پتلے پتلے ہونٹوں کا مزہ، وہ لڑکی کے سینے کا طوفان، اس کی آنکھوں کی عاجزی، رگھبیر کبھی نہیں فراموش کر سکتا۔ رگھبیر لڑکی کو بے یارو مدد گار چھوڑ کر چلا آیا اور اب پھر واپس جانا چاہتا تھا، کیا وہ لڑکی اب بھی انتظار کر رہی ہوگی، شاید، کون کہہ سکتا ہے کہ ان ابدی بوسوں کا مزہ ابھی تک لڑکی کے ہونٹوں پر ہو، لیکن۔۔۔ کون کہہ سکتا ہے کہ کسی زمیندار نے اس لڑکی سے شادی نہ کر لی ہوگی، ایسی حسین لڑکیوں کو کون کنواری رہنے دیتا ہے۔

    شہر اور گاؤں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں، دونوں جگہ ظلم ہے، ہر جگہ محبت کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے اور ظلم و استبداد کی پھیلی ہوئی سیاہی انسانوں کے دلوں کو اور سیاہ کر دیتی ہے، رگھبیر نے اب انڈروئیر بھی اتار دیا ہے اور اب وہ مادر زاد ننگا ہے، اس کا سر ایک طرف لڑھک گیا ہے اور اس کے منھ سے شراب کی بدبو بدستور آ رہی ہے، باہر ناریل کے درخت پر الو چیخ رہا ہے اور ہوا زور زور سے سائیں سائیں کر رہی ہے۔

    بچارا رگھبیر۔۔۔ اور پھر اوتار سنگھ۔۔۔ بڑی دلچسپ شخصیت رکھتا ہے۔ اوتار سنگھ ایک سرکاری ڈپو میں نوکر ہے، وہ صبح چھ بجے گھر سے نکل جاتا ہے اور شام کے آٹھ بجے واپس آتا ہے وہ ایک ایسے ڈپو میں کام کرتا ہے جہاں جتنا زیادہ کام کیا جائے اتنی زیادہ تنخواہ ملتی ہے۔ اوتار سنگھ زیادہ سے زیادہ روپے کمانا چاہتا ہے، وہ پنجاب کے ایک مالدار جاٹ کا لڑکا ہے، اوتار سنگھ کہتا ہے کہ آج کل اسے ترقی ملنے والی ہے اور ترقی ملنے کی وجہ صرف اس کے صاف اور ستھرے کپڑے ہیں اور خاص کر اس کی نیلی نکٹائی جو اس کے سپرنٹنڈنٹ کو بہت پسند ہے، دفتر کا سپرنٹنڈ نٹ ایک انگریز ہے، دفتر میں باقی کلرک دھوتی پاجامہ پہن کر آتے ہیں، اس لئے وہ زیادہ پسند نہیں کئے جاتے اور چونکہ دفتر میں سردار ہی سب سے زیادہ خوش پوش انسان ہے، اس لئے اسے جلدی ترقی ملنے والی ہے، اوتار سنگھ خدا پر ایمان نہیں رکھتا، وہ گوردوارے نہیں جاتا اور اکثر قینچی سے داڑھی کے بال بھی کاٹ لیتا ہے، مگر سکھوں کے متعلق کوئی ریمارک پاس کیا جائے تو وہ برا مانتا ہے، وہ سکھوں کے خلاف کوئی بات سننا پسند نہیں کرتا، وہ ایک مجموعۂ اضداد ہے اور آزاد خیال ہوتے ہوئے بھی سخت رجعت پسند ہے۔

    آج کل وہ بھی زندگی سے تنگ آ گیا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس فلیٹ کی ہوا میں اداسی رچ گئی ہے، وہ کہتا ہے کہ اسے ڈپو کی زندگی پسند نہیں، آخر وہ کب تک دن رات کام کرے اور کیوں، ڈپو کی کلرکی انسان کو غلام بنا دیتی ہے اور یہ نوکری کتنی ذلیل ہے، اندر جانے کے لئے شناختی کارڈ لانا ضروری ہے، کارڈ دکھا کر اندر جانا پڑتا ہے، پھر رجسٹر پر حاضری لگانی پڑتی ہے اور کوئی کلرک ایک دو منٹ دیر سے پہنچے تو اس کی تنحواہ میں سے پیسے کاٹ لئے جاتے ہیں، یہ زندگی نہیں دوست، یہ موت ہے اور پھر ان لمحوں میں کبھی خوشی نصیب نہیں ہوتی، کبھی تو انسان جی بھر کر ہنس لے، کسی عورت سے مسکرا کر بات کر لے، اس کے حسین زندہ بالوں سے کھیل لے، کبھی تو عورت کے حسین خطوط کی داد دے سکے، کبھی تو عورت کی دلفریب مسکراہٹ سے لطف اندوز ہو سکے، کبھی تو انسان عورت کے جسم کی گرمی، اس کے بالوں کی خوشبو، اس کی آنکھوں کی دل کشی، اس کی باتوں کی موسیقی سے ہم کنار ہو سکے، لیکن اس فلیٹ میں عورت کہاں۔

    یہاں تو ہم سب بھوت رہتے ہیں، عہد پارینہ کے انسان، تم نے بمبئی آنے کے لئے لکھا ہے، آؤ، بڑے شوق سے آؤ اور میرے پاس ٹھہرو، جب اسٹیشن سے اترو تو بس میں بیٹھ کر شیواجی پارک کا ٹکٹ خرید لو اور پھر ماہم پوسٹ آفس، ماہم پوسٹ آفس کے سامنے ایک گلی ہے، بس چلے آؤ اس گلی کی طرف، جو دوسرا مکان نظر آئے اس کی طرف نگاہ اٹھاؤ، آشیانہ بلڈنگ کا نام پڑھ لینا۔۔۔ اور جوں ہی داخل ہوگے، تمھیں ایک پاگل آدمی کا سامنا کرنا پڑےگا۔ گھبرانا نہیں، یہ پاگل خانہ نہیں، یہاں انسان بستے ہیں، یہ پاگل اکثر دروازے کے باہر پڑا رہتا ہے، یہ کیا کرتا ہے، روٹی کہاں سے کھاتا ہے؟ اس کا مجھے کوئی علم نہیں، لوگ اسے پاگل کہتے ہیں، لیکن میں نے کبھی اسے کوئی حرکت کرتے نہیں دیکھا، جس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ یہ شخص پاگل ہے۔ اکثر یہ شخص آوارہ پھرتا ہے، ایک کالی، سیاہ پھٹی ہوئی قمیض پہنتا ہے، اس کے سر کے بال بکھرے رہتے ہیں اور ان میں مٹی جمی رہتی ہے، مسلسل فاقوں کی وجہ سے یہ انسان بہت دبلا ہو گیا ہے۔

    میں نے اسے کبھی کسی سے بات کرتے نہیں دیکھا، وہ اکثر خاموش، چپ چاپ لیٹا رہتا ہے اور جب لیٹے رہنے سے تنگ آ جاتا ہے تو گلی میں آ کھڑا ہوتا ہےاور سر کو جھٹک کر چلنا شروع کر دیتا ہے، یا کبھی پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے، جیسے زندگی کا سرمایہ کہیں بھول آیا ہے، اس کے ساتھ تم ایک کتے کو دیکھوگے، کتا تمھیں دیکھ کر بھونکےگا، کتے کو دیکھ کر خوف زدہ نہ ہونا، یہ کتا ہر نووارد کو دیکھ کر بھونکتا ہے، اس کی سرخ آنکھوں میں تم غم و غصہ کی جھلک دیکھوگے۔ اس کے جسم کو دیکھ کر تم آشیانہ بلڈنگ کے رہنے والوں کی بھوک کا اندازہ لگا سکوگے، صاف ظاہر ہے کہ جس گھر کا کتا بھوکا ہے، وہاں کے رہنے والے خود کتنے بھوکے ہوں گے۔

    نچلی منزل میں ایک میوزک ماسٹر رہتے ہیں، انھوں نے ایک طوائف کو پھانس رکھا ہے، میں نے اس عورت کو اکثر روتے دیکھا ہے، اکثر یہ عورت سلاخوں والی کھڑکی میں بیٹھ کر ادھر ادھر جانے والے لوگوں کی طرف پریشان نگاہوں سے دیکھتی رہتی ہے، مجھے معلوم نہیں کہ یہ میوزک ماسٹر ایسی عورت کہاں سے لے آیا۔ میوزک ماسٹر کی شکل ایک بھٹیارے سے ملتی جلتی ہے لیکن اس کے گھر کے باہر ایک موٹر کھڑی رہتی ہے، یہ موٹر اکثر خراب ہو جاتی ہے، جب رات پڑتی ہے تو میوزک ماسٹر عورت کو کار میں بٹھا کر کہیں لے جاتا ہے اور رات کے بارہ بجے کے بعد گھر آتا ہے۔ میں نے دونوں کو کبھی خوش نہیں دیکھا، ہر روز کمرے میں سے لڑائی جھگڑے کی آوازیں آتی رہتی ہیں، میوزک ماسٹر کی بیوی زور زور سے روتی ہے، چیختی ہے، چلاّتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ یہاں سے چلی جائےگی، وہ یہاں نہیں رہ سکتی، دونوں خوب زور زور سے باتیں کرتے ہیں، لیکن دوسرے دن دونوں پھر اسی کمرے میں رہتے ہیں، سوتے ہیں اور عورت کھڑکی میں بیٹھ کر لوگوں کی طرف دیکھتی ہے، معلوم نہیں کیوں!

    اب ذرا سیڑھیاں چڑھو، دیکھ کر چڑھنا، پھسلن ہوگی، یہاں ٹھہر جاؤ ذرا دم لے لو، ایک ہی بلڈنگ میں تمام ہندوستان کو دیکھ سکوگے، یہاں ایک کرسچن لڑکی رہتی ہے، یہ لڑکی ہے یا عورت ہے یا ماں یاکسی کی بیوی، اس کا مجھے کوئی علم نہیں، کہتے ہیں اس کے تین بچے ہیں، یہ تینوں بچے سیڑھیوں میں کھیلا کرتے ہیں، بچوں کے جسم پر پھوڑے نکلے ہوئے ہیں، کرسچن لڑکی دروازے میں کھڑے ہوکر اپنے بچوں سے انگریزی میں باتیں کرتی ہے، اس کرسچن لڑکی کا نام کیا ہے، نام پوچھنے کی ضرورت کیا ہے، بچاری کی حالت ابتر ہے، گورنگ سفید ہے، لیکن جسم پر گوشت نہیں ہے، چہرے کی ہڈیاں ابھری ہوئی ہیں اور اوپر والے جبڑے کے تین دانت آگے بڑھے ہوئے ہیں، کرسچن لڑکی فراک پہنتی ہے، کاش شلوار یا دھوتی پہنا کرے تو کم ازکم اس کی پنڈلیاں تو ہماری نظروں سے اوجھل رہیں۔ نہایت پتلی پتلی سی ٹانگیں اور کچھ کچھ مڑی ہوئی، جیسے جسم کے بوجھ سے مڑ گئی ہوں۔

    میں نے اس کے خاوند کو کبھی نہیں دیکھا یعنی میں نے اس گھر میں کسی مرد کو نہیں دیکھا، بہر حال کوئی مرد تو اس گھر میں آتا ہوگا، ورنہ یہ بچے کہاں آ گئے اور بچاری کرسچن لڑکی گزارہ کس طرح کرتی ہوگی۔ جب تم پہلی بار آؤگے تو تم کرسچن لڑکی کو دروازے میں کھڑی پاؤگے، وہ تمھاری طرف دیکھےگی اور پھر منھ موڑے گی۔ وہ ہر روز کس کا انتظار ضرور کرتی ہے، اس کا مجھے علم نہیں، لیکن اس کی آنکھوں میں اس کے نہ آنے والے محبوب کا انتظار ضرور ہے، وہ کب تک انتظار کرےگی، میں کیا بتا سکتا ہوں، میں نے ہمیشہ اس لڑکی کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن میں نے ہمیشہ اسے دروازے پر کھڑی دیکھا ہے۔

    کرسچن لڑکی کے دروازے کے سامنے چند مدراسی عورتیں رہتی ہیں، بلکہ ایک بیوہ عورت رہتی ہے، جس کی بہت سی لڑکیاں جوان ہیں، لیکن وہ شباب ہی کیا جو تمھیں اپنی طرف نہ کھینچ لے، وہ عورت ہی کیا جس کی طرف ایک نظر دیکھنے کو جی نہ چاہے، عورت کے حسن میں کشش ہونی چاہیے، اگر تم ایک بار دیکھ لو، تمھیں یہ محسوس ہو جائے کہ تم ایک زندہ، متحرک دائرے کے اندر کھڑے ہو، لیکن آشیانہ بلڈنگ میں حسن مردہ ہے، شباب عنقا ہے، زندگی جامد ہے، میں سمجھتا ہوں کہ زندگی حسن سے پیدا ہوتی ہے، خوبصورت چیز کو دیکھ کر خوبصورت بننے کو جی چاہتا ہے، یہاں تو بدصورتی کا مقابلہ ہے۔ لڑکیوں کی ماں بیوہ ہے اور اس نے اپنی بیوگی کے تمام قوانین اپنی لڑکیوں پر عائد کر رکھے ہیں، میں نے لڑکیوں کو بھی کبھی مسکراتے نہیں دیکھا، ان کے گھر سے کبھی قہقہوں کی آواز نہیں آئی، گھر کے دروازے بند رہتے ہیں اور جب کبھی مدارسن کے گھر کا دروازہ کھلتا ہے، تو اس میں سے ایک بیوہ کا چہرہ تمھیں ڈھونڈتا ہے، دو موٹی موٹی آنکھیں لمحہ بھر کے لئے چمکتی ہیں، پھر ایک جوان سڈول بازو آگے بڑھتا ہے اور پھر یہ تمام جسم پیچھے حرکت کرتا ہے۔

    تم نے بیوہ کا چہرہ نہیں دیکھا، چہرے پر نفرت کی جھریاں ہیں، مٹتے ہوئے شباب کے آخری لمحے، بیوگی کی تلخیاں، زندگی سے انتہائی نفرت اور ایک نہ مٹنے والی پیاس اور تشنگی کا اظہار، جو اکثر مدراسن کی آنکھوں سے جھلکتا ہے۔ صرف مدراسن کی آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ اس کا پرتو تم ان جوان لڑکیوں کی آنکھوں میں دیکھ سکتے ہو، صرف آنکھوں میں ہی نہیں، بلکہ اس نفرت، اس پیاس، اس بھوک، اس تشنگی اور بیوگی کی تشکیل تم ان لڑکیوں کے جسموں میں دیکھ سکتے ہو، لڑکیاں اکثر خاموش اور اداس رہتی اور ناریل کے درختوں کی طرف دیکھتی رہتی ہیں۔

    ہم سب اپنے کمرے کی چابی ان مدارسنوں کو دے جاتے ہیں، اگر تم ان لڑکیوں کی جنسی بھوک کا اندازہ کرنا چاہو تو تم ایک دن کمرے کی چابی خود انھیں دینا، تمھیں معلوم ہو جائےگا کہ وہ کمرے کی چابی لینے کے لئے کتنی بے قرار رہتی ہیں، دروازہ اکثر بند رہتا ہے، آہستہ سے دروازہ کھٹکھٹاؤ، فوراً دروازہ کھل جائےگا اور ایک بد صورت چہرہ تمھاری طرف دیکھےگا۔

    چہرہ، بالکل بدصورت چہرہ، صاف سلیٹ کی طرح، جذبات سے عاری، نہ ہنسی، نہ خوشی، نہ غم، نہ زندگی نہ موت، بالکل بےحس، بے جان چہرہ اور پھر ایک میلا سا ہاتھ تمھاری طرف بڑھےگا، میری انگلیاں کئی بار غیر ارادی طور پر ان بدنما انگلیوں سے مس ہوئیں، لیکن ایک بار دھڑکن پیدا نہ ہوئی جو ایک جوان لڑکی کے جسم سے مس ہوکر پیدا ہوتی ہے، ان سب لڑکیوں کی شکلیں ایک جیسی ہیں، ان کے جسم، ان کے چلنے پھرنے کے انداز، ان کے دیکھنے کا طریقہ ایک ہی ہے، وہ تمھاری طرف بار بار دیکھیں گی، لیکن نگاہوں سے یہ پتہ لگتا ہے کہ جوانی میں شکست کا احساس ہو چکا ہے۔ مگر ان لڑکیوں کی تربیت، ان کا ماحول، ان کے رہنے سہنے کے طریقوں کو ایک نئی تشکیل دی جائے تو ممکن ہو سکتا ہے کہ یہی لڑکیاں آفت کا پرکالہ بن جائیں اور اس سوئی ہوئی زندگی میں شعلہ بن کر چمکیں۔

    اگرچہ ان کا رنگ سیاہ ہے، لیکن جوانی کو رنگ سے کیا نسبت، دور کیوں جاؤ، ہمارے محلے میں ایک لڑکی رہتی ہے جس کا رنگ بالکل ان مدارسیوں سے ملتا ہے، مگر اس کے حسن میں کتنی کشش ہے، کتنی جاذبیت ہے، اس کا اندازہ میں ہی لگا سکتا ہوں، یہ لڑکی اکثر سفید ساڑھی پہنتی ہے، سیاہ رنگ اور سفید ساڑھی، سفید ساڑھی اور سیاہ رنگ۔۔۔ سیاہ رنگ سفید ساڑھی میں خوب چمکتا ہے، خوب پھبتا ہے، لڑکی کو ساڑھی پہننے کا طریقہ خوب آتا ہے، جسم کا ہر خط اتنا واضح ہو جاتا ہے کہ لڑکی کو بار بار دیکھنے کو جی چاہتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی ایک مصور ہے جو ساڑھی کو مصور کے برش کی طرح استعمال کر سکتی ہے۔ ایک ہلکا سا جھٹکا، کہ انسانی جسم نے ایک نئی طرز اختیار کی۔ وہ ہر روز ساڑھی بدلتی ہے، کبھی کبھی آسمانی جیسے ناریل کے سبز پتے، کبھی کبھی سرخ جیسےشفق کی لالی، سرمئی، مٹیالا رنگ بدلتے ہیں، حسن بدلتا ہے، جوانی بدلتی ہے، ہر چیز بدل جاتی ہے، لیکن لڑکی کا حسن اسی طرح قائم ہے۔

    آؤ، میرے قریب آؤ، وہی لڑکی آرہی ہے، لو وہ آرہی ہے اور آشیانہ بلڈنگ کے سکنڈ فلور کے رہنے والے بالکونی میں کھڑے ہو جاتے ہیں، لڑکی کے ہر قدم کی آواز ان کے دل کی دھڑکن سے ہم آہنگ ہو رہی ہے، دور کبوتر ہوا میں پرواز کرتے ہیں، ناریل کے پتّے ہوا میں جھومتے ہیں، سورج کی سنہری کرنیں بالکونی پر ناچتی ہیں، نگاہیں لڑکی کی طرف لپکتی ہیں، ساڑھی جسم سے چپکی ہوئی ہے، جسم کا ہر خط واضح ہے، پنڈلیوں سے اوپر رانوں تک اور پھر کولھوں کا سنگم، کتنا دلفریب، کتنا دل کش ہے۔ مصور کو داد دو، اس کی حنائی انگلیوں کو چوم لو، اگر چوم سکتے ہو، نظر کمر تک جاتی ہے، کمر پر زیادہ گوشت نہیں اور پھر سینے کا پھیلاؤ، چھاتیوں کازیر و بم۔۔۔ اور سمندر لہریں مار رہا ہے، لہریں آتی ہیں، ساحل سے ٹکراتی ہیں اور واپس چلی جاتی ہیں اور اوپر۔۔۔ ایک چھوٹا سا خوبصورت سا چہرہ، چھوٹے چھوٹے پتلے ہونٹ اور کسی کی زبان ان پتلے ہونٹوں پر پھرتی ہوئی، نچلا ہونٹ کچھ کھنچا ہوا، آنکھیں سیاہ، پلکیں جوانی کے بوجھ سے جھکی ہوئی۔

    یہ جانتے ہوئے کہ لوگ دیکھ رہے ہیں، لڑکی شرماتی نہیں، آنکھوں میں مستی ہے، کامرانی ہے، لڑکی کو احساس ہے کہ وہ اپنےحسن سے لوگوں کو مسحور کر سکتی ہے، کتنا صحت مند احساس ہے، وہ آگے بڑھتی ہے، ہری چند اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک آہ بھرتا ہے اور کہتا ہے، مار ڈالا، مار ڈالا، ہائے مار ڈالا اور چٹرجی کی ہنسی جیسے مردہ زندہ ہو گیا اور اوتار سنگھ کا جھک کر دیکھنا اورر گھبیر کا شعر پڑھنا۔ ’’زندگی چاند سی عورت کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ اور سب کا پیچھے ہٹ جانا اور کرسیوں پر بیٹھ کر گالیاں بکنا، خدا کو تہذیب کو، سرمایہ داروں کو، حکومت کو، ماں باپ کو، سب کو۔

    رگھبیر کا عریاں ہوکر کمرے میں پاگلوں کی طرح چکر لگانا، چٹرجی کا کرسی میں دھنس جانا، اوتار سنگھ کا اپنی پگڑی اتارنا اور لمبے لمبے بدبودار بالوں میں کنگھی کرنا۔۔۔ اور میرا لڑکی کی طرف دیکھتے رہنا۔۔۔ دیکھتے رہنا۔۔۔ یہاں تک کہ حسن نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ شباب کی خوشبو ہوا میں گم ہو جاتی ہے اور کسی کے قدموں کی مدھم چاپ آہستہ آہستہ خاموش ہوتی جاتی ہے۔۔۔ اور صرف گالیوں کی آواز مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح دماغ سے ٹکراتی رہتی ہے، ابے او حرامزادے، ابے او الو کے پٹھے۔۔۔

    مأخذ:

    مہندر ناتھ کے بہترین افسانے (Pg. 158)

    • مصنف: مہندر ناتھ
      • ناشر: اوپندر ناتھ
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے