Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جیتی جاگتی تصویر

رومانہ رومی

جیتی جاگتی تصویر

رومانہ رومی

MORE BYرومانہ رومی

    میں شادی بیاہ کی تقاریب میں جانے سے عموماََ گریز ہی کر تی ہوں مگر آج مجھے مجبوراََ جانا ہی پڑا تھا۔۔۔ موڈ خراب ہونے کی وجہ سے میں کونے کی ایک میز پر اکیلی بےزار سی بیٹھی تھی اور آنے والے مہمانوں کا بےدلی سے جائزہ لے رہی تھی۔۔۔ رنگا رنگ لباس اور جیولری کی نمائش میں مصروف خواتین کے میک اپ زدہ چہر وں سے مجھے عجیب سی الجھن محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔اف! کتنی بناوٹ اور اداکاری ۔۔۔ رات گہری ہونے لگی تھی۔۔۔ مگر بارات کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔۔۔ اس سے پہلے کہ میرا موڈزیادہ خراب ہوتا اچانک میری نظر رخسانہ پر پڑی۔۔۔ میں نے اپنی آنکھوں کو ایک بار بند کر کے دوبارہ کھولا۔۔۔ یہ میری آنکھوں کا دھوکا ہرگز نہ تھا بلکہ رخسانہ بھی مجھے دیکھ کر میر ی ہی جانب بڑھ رہی تھی۔۔۔ میں نے گرم جوشی سے اسے گلے لگا لیا۔۔۔ رخسانہ میری بچپن کی سہیلی تھی اور اِب ہم دونوں ہی ادھیڑ عمری میں داخل ہو چکے تھے۔۔۔ میں نے تو اِب اپنے بالوں کو رنگنا ہی چھوڑ دیا تھا۔۔۔ کیونکہ ادھیڑ عمری اور اُس پر سفید بالوں کا اپنا ہی گریس ہوتا ہے جس کا مجھے وقتاََ فوقتاََ اندازہ ہوتا رہتا تھا۔۔۔ مگر رخسانہ؟۔۔۔

    ’ارے واہ رخسانہ! زبردست۔۔۔ تم تو کہیں سے بھی ۵۰،۵۵ سال کی عورت نظر ہی نہیں آ رہی ہو بلکہ مجھے تو ایسا لگ رہاہے جیسے تم دن بدن اور جوان ہو تی جا رہی ہو ‘۔۔۔

    میں نے رخسانہ کو خود سے الگ کر تے ہوئے پوچھا۔۔۔

    دراصل رخسانہ سے میر ی ملاقات کافی عرصہ بعد ہوئی تھی اور آخری ملاقات کے وقت وہ بھی میری ہی طرح بوڑھی نظر آنے لگی تھی۔۔۔ مگر اِب اچانک اس کی کایا پلٹ دیکھ کر مجھے حیر ت ہوئی تھی ۔۔۔کیونکہ اس کا پورا حلیہ ہی بدل گیا تھا۔۔۔ کہاں وہ بے ڈول جسم۔۔۔ اور اب کہاں سلم اور سمارٹ۔۔۔ کہاں وہ ٹوٹتے ہوئے بےرونق بالوں کا الجھا ہوا گچھا۔۔۔ اور اب کہاں نرم وملائم ر یشم جیسے خوبصورت تراشے ہوئے بال۔۔۔ کہاں وہ ڈھیلے ڈھالے کپڑے۔۔۔ اور اب کہاں جدید تراش خراش کے چست اور تنگ لباس جو پہننے والے کے پورے جسم کے نشیب و فراز کو چیخ چیخ کر بیان کر تا نظر آتا ہو۔۔۔ کہاں وہ چہرہ جس پر بس آنکھوں میں کاجل کی لکیر ہوتی تھی۔۔۔ آج اُس پر نہایت نفاست سے پورا میک اپ کیا ہو ا تھا۔۔۔ میں حیرت سے اسے دیکھے ہی چلی جا رہی تھی۔۔۔ کہ وہ ہنس پڑی۔۔۔ میں نے رخسانہ سے پھر وہی سوال کیا۔۔۔ رخسانہ شاید میری کیفیت کو سمجھ چکی تھی اس کی آنکھوں میں مجھے آنسو ؤں کی جھلک سی محسوس ہوئی جسے وہ بڑی خوبی سے چھپا گئی۔۔۔ اب تو مجھے یقین ہو گیا کہ اس کے پیچھے کو ئی بات توضرور ہے۔۔۔ اتنے میں وہ بولی۔۔۔

    ’کیا فضول کی باتوں کو لے بیٹھی ہو اتنے دنوں بعد ملی ہو چلو بیٹھ کر کوئی دوسری بات کرتے ہیں‘۔

    مگر میں بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی فوراََ بولی۔۔۔

    ’نہیں! تمہارے اِس بدلے ہوئے روپ کی وجہ کیا ہے؟ سب سے پہلے یہ بتانا ہوگا ورنہ‘۔۔۔

    (۲)

    مَیں نے اسے پیار بھر ی دھمکی دیتے ہو ئے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔۔۔

    ’کیا کروگی پوچھ کر! یہ تو ہر عورت کی کہانی ہے ہر عورت کا دکھ ہے اور ہر عورت اپنی ازدواجی زندگی میں اس دور اِس مقام سے ضرور گزرتی ہے‘۔۔۔

    وہ سنبھل کر دھیرے دھیرے کہنے لگی۔۔۔

    ’تم تو جانتی ہو کہ تمہاری اور میر ی عمر یں کیا ہیں؟ ہم عمر کے اس دور میں ہیں جہاں بزرگی شروع ہو جا تی ہے۔۔۔ جہاں مرد ہو یا عورت اس میں سنجیدگی اور معتبری آ جاتی ہے۔۔۔ اور جانتی ہو یہ عورت کی عمر کا وہ دور ہوتا ہے جب اسے مرد کے سہارے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ مگر افسوس کہ جب ہم عورتیں اپنی عمر کے اس معتبر دور میں داخل ہوتی ہیں تو ہمارے مرد وں کے لیے ہم میں کوئی کشش یا خوبصورتی باقی نہیں رہتی۔۔۔ اسی لیے وہ ادھر ادھر منہ مارنے۔۔۔ یا تانک جھانک کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اِس پر بھی اگر بس نا چلے تو دوسری شادی کا ڈراما شروع کر دیتے ہیں۔۔۔ ہم عورتیں اپنے شوہروں اور بچوں کے لیے اپنی جوانی اور طاقت کو بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔۔۔ مگر اس کے بدلے میں ہمیں محبت۔۔۔ اعتبار۔۔۔اور آخری عمر میں ہماری حفاظت۔۔۔ اورتحفظ کی جگہ۔۔۔ ہمیں بےاعتباری۔۔۔ اور سوکن کے خوف میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔۔۔اور بس۔۔۔ میں بھی اسی خوف کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہوں‘۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے