Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جنہیں نہیں ہونا تھا

محمد امین الدین

جنہیں نہیں ہونا تھا

محمد امین الدین

MORE BYمحمد امین الدین

    ان دیکھی لکیر پار کرتے ہی میرے لیے یکایک سب کچھ بدل گیا۔ عجب سی کھلبلی مچ گئی او رہر طرف افراتفری سی پھیل گئی۔ روشن تصویریں دھندلے رنگوں میں ڈھل گئیں۔ سینکڑوں بلکہ لاکھوں ایک دوسرے میں پیوست اور پھر جدا ہوتے رنگ برنگے دائرے اور ان میں بنتی بگڑتی زندگی کی تصویریں، جنہیں اپنی جگہ پر ہونا تھا، نہیں تھیں اور جنہیں نہیں ہونا تھا وہ تھیں۔ پل پل میں چیزیں اپنی ہئیت تبدیل کررہی تھیں۔ سامنے کا مینار ذرا دیر میں ایک لمبی لاٹھ کی شکل اختیار کر گیا ، لیکن کچھ ہی دیر میں کچھ اور ہوجائے گا۔ فضا میں اڑتے پرندے کبھی غبارے اور کبھی بادل کی طرح دکھائی دینے لگے۔ دوڑتی بھاگتی گاڑیاں قدیم الجثہ جانور اور لوگ جانوروں کے پیٹ میں ٹھنسی اور ہضم ہوتی خوراک محسوس ہونے لگے۔ یوں لگتا تھا جیسے ہر شے نے اپنا مادی چولہ اتار پھینکا ہو اور کسی سلو لائیڈ اور پروجیکٹر کے درمیان متحرک تصویریں روشنیوں جیسا رنگ اختیار کر بیٹھی ہوں۔ میرے کمرے میں چوبیس گھنٹے ٹی وی پر دکھائی دینے والی انگریزی فلموں کی طرح جن میں حیرت بھری ہوتی ہے۔

    میں نے بے اختیار مضافاتی علاقے کے کچے راستے پر سے گزرتے گھوڑے اور اس کے پیچھے بندھی گاڑی کو چھونے کی کوشش کی۔ میرا ہاتھ فضا میں تیرتا رہ گیا۔ مجھے یقین ہو چلا کہ میں کسی اجنبی دنیا میں آگیا ہوں، یا اجنبی دنیا میرے اردگرد پھیل گئی ہے۔ میں حیرتیں سمیٹتا دوسری طرف جا نکلا۔ حد نظر تک پھیلا سبزہ اب میری پشت پرتھا اور میں بے ہنگام جدید عمارتوں والے کسی شہر کے بڑے بڑے دائروں میں جھولتے فلائی اوورز میں سب سے بلند فلائی اوور کے جنگلے سے لگا نیچے دوڑتی بھاگتی زندگی کا نظارہ کررہا تھا۔ لیکن جنگلہ کہاں تھا؟ وہاں تو صرف جنگلے کی تصویر تھی۔ حیرتوں میں خوف در آیا۔ اچانک جھٹکا لگا اور میں جنگلے کو پکڑنے کی کوشش میں تیرتا رہ گیا۔ میں تیزی سے نیچے کی طرف جارہا تھا، جہاں ایک سگنل پر بہت سی گاڑیاں سبز روشنی کے انتظار میں کھڑی ہوئی تھیں۔ عین درمیان میں، جہاں لوہے کی نوک دار سلاخوں والا بڑا سا ٹرالر کھڑا ہوا تھا، میں گرتا چلا گیا۔ خوف سے میری چیخ نکل گئی۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں نوکدار سلاخیں میرے سر سے پیر تک پیوست ہوتی چلی گئیں۔ نہ رکنے والی چیخ فضا میں بکھر گئی۔ مگر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ سلاخیں اپنی جگہ قائم تھیں اور میں اپنی جگہ۔۔۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ تمام گاڑیاں میرے آس پاس سے گزرتی چلی گئیں۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ دور لوہے کے جنگلوں نے قہقہہ لگایا ۔آواز مجھے یہاں تک سنائی دی ۔ میں سوچتا رہ گیا کہ کیا لوہے کا جنگلہ ہنس بھی سکتا ہے؟

    اچانک پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے میں چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ آس پاس کوئی پرندہ نہیں تھا۔ تو پھر یہ پر۔۔۔ یکلخت مجھے اپنی پشت پر وزن محسوس ہوا۔ جیسے میرے کندھوں پر بھیگی روئی کی بوری دکھ دی گئی ہو۔ میں ہاتھ پشت پر لے گیا۔ میرے ہاتھوں نے نرم اور ریشم جیسی کسی چیز کو چھوا۔ مجھے اطمینان سا محسوس ہوا کہ میں کسی چیز کو چھو سکتا ہوں۔ ورنہ حالت یہ تھی کہ میں جس کسی چیز کو بھی ہاتھ لگاتا وہ غیرمرئی ہوجاتی۔ مجھے ایک خیال نے چونکا دیا۔ میری پشت پروں سے کیوں بھری ہوئی ہے؟ کیا میرے پر نکل آئے ہیں؟ میں نے دوبارہ اپنے ہاتھوں سے انہیں چھو کر دیکھا۔۔۔ ہاں میں پرندہ بن گیا تھا۔۔۔ کون سا پرندہ؟۔۔۔ ابھی یہ خیال میرے دماغ میں ابھرا ہی تھا کہ خود بخود میرے پیر زمین سے اوپر اٹھنے لگے۔ میرے پروں نے پھیل کر دور تک فضا کو اپنے اندر سمیٹ لیا۔ میں پہلی ہی اڑان میں بادلوں کو چھونے لگا۔ فلائی اوورز اور بڑی بڑی عمارتوں کا جال بہت نیچے رہ گیا تھا۔ میں نے اپنے قریب سے گزرتے بادلوں کو چھو کر دیکھا۔ مگرمیرا ہاتھ ایک بار پھر فضا میں جھول کر رہ گیا ۔ اس کا مطلب میں اب بھی اپنے علاوہ کسی کوچھو نہیں سکتا۔ میں نے اپنے پروں کے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ میرے دائیں طرف دور ایک معمولی سا نقطہ ہر لحظہ بڑھتا ہوا دکھائی دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ نقطہ ایک بڑے غبارے کی شکل اختیار کرتا چلا گیا اورایک ہی زقند میں میرے قریب سے یوں گزرا جیسے مخالف سمتوں میں تیزی سے دوڑتی دو ٹرینیں کسی ایک مقام پر باہم ملتی بھی ہیں اور نہیں بھی۔ لیکن لمحے کے ہزارویں حصے میں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کوئی بڑا سا ٹرک نما جہاز ہے جس میں بڑے بڑے پہیے لگے ہوئے ہیں۔ اس ٹرک نما جہاز کی ایک نشست پر میری مرحوم امی بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں نے مڑ کر دیکھنا چاہا مگر میلوں تک پھیلے پروں نے مجھے زیادہ دور تک دیکھنے نہیں دیا۔ امی کی یاد میرے حواس پر چھانے لگی۔ مجھے یاد آیا کہ امی کو میرے سوتیلے باپ نے تیز دھار چھری کے وار سے ماردیا تھا۔ وجہ میرے مرحوم باپ کی جائیداد تھی، جو کہ میرے پاپا کے انتقال کے بعد میری امی کے نام منتقل ہوچکی تھی۔ وکیل نے عدالت میں ثابت کردکھایا کہ میری ماں نے دراصل میرے سوتیلے باپ کو مارنے کی کوشش کی اور دورانِ مزاحمت اپنے ہی ہاتھوں خود قتل ہوگئیں۔ اس مقدمے کے عوض بڑی مارکیٹ کی ان چار دکانوں کا مالک وکیل بن گیا جو کبھی میرے پاپا کی جائیداد کا حصہ تھیں۔۔۔ اس وقت میں کہاں تھا؟ ہاں یاد آیا۔ میں بڑے بڑے پہیوں والی وہیل چیئر کے ہتھوں کو اپنے مڑے تڑے ہاتھوں سے زبردستی دبوچے بیٹھا اس خبیث شخص کو بے بسی سے دیکھتا رہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ میں اس کے لیے عضو معطل ہوں او رکچھ نہیں۔اب میری امی بہت ساری دوسری عورتوں کے جلو میں میرے قریب سے گزررہی تھیں۔

    اڑنے کی وجہ سے میرے پروں کی نمی اب کم ہونے لگی تھی۔میں مزید ہلکا ہو کر تیزی اور زیادہ بلندی پر پرواز کررہا تھا۔ پھر مجھے تیرتا ہوا ایک خوبصورت باغ دکھائی دیا۔ میں نے غیر ارادی طورپر مہارت کے ساتھ اپنا رخ باغ کی طرف کرلیا اپنے دائیں طرف کے پروں کو جھکا کر باغ کی سمت مڑتے ہوئے مجھے خود بھی حیرت ہوئی تھی۔

    اونچے اونچے قرمزی درختوں کے درمیان مجھے ادھ کھلا سنہری دروازہ دکھائی دیا۔ میں اندر داخل ہوگیا۔۔۔ میلوں تک پھیلے ہوئے پر خود بواد سمٹتے چلے گئے اور میں نرم اور ریشم جیسی گھاس پر اپنے پیروں کے بل کھڑا ہوگیا۔ میں چونکا۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ میں اپنے قدموں پر کیسے کھڑا ہوگیا؟ میں حیرت سے اپنے پیروں کی طرف دیکھنے لگا۔ لیکن وہاں تو دوسری ہی حیرت میرے قدموں سے لپٹی ہوئی تھی۔ میری نظریں میرے قدموں تلے نرم اور ریشم جیسی گھاس کے آر پار شفاف شیشے کی مانند گزرتی بہت دور تک دیکھ رہی تھیں، جہاں اونچے اونچے فلائی اوورز کے درمیان ایک گھوڑا گاڑی گزرتی جارہی تھی۔ گاڑی بان کوئی اور نہیں میرا سوتیلا باپ تھا۔ مجھے یاد آیا کہ میں اس گاڑی کو پہلے بھی دیکھ چکا ہوں، مگر تب گاڑی بان کوئی اور تھا۔ ابھی میں ذہن پر زور دے کر یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ کسی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ آواز دینے والا سامنے قرمزی درختوں کے جھنڈ سے نکل کر آرہا تھا۔۔۔ میں پہچان گیا۔۔۔ یہ میرے پاپا تھے۔۔۔ قریب آکر انہوں نے دونوں بازو پھیلا کر مجھے اپنی بانہوں میں لے لیا۔ پاپا سے ملنے کی خوشی کا احساس اپنے قدموں پر کھڑے ہونے اور کسی کو چھونے کی مسرت سے بڑھ کر تھا۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے درختوں کے جھنڈ میں لے گئے، جہاں ہم صدیوں پر محیط اس عجیب و غریب دنیا کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ رفتہ رفتہ مجھ پر حیرتیں منکشف ہورہی تھیں۔ میرے دماغ میں پھیلا ہوا دھند صاف ہوتا چلا گیا۔ مجھے سب یاد آنے لگا۔

    پاپا کے مرنے کے بعد امی نے تمام جائیداد کے کاغذات اپنے نام منتقل کروالیے تھے۔ اس کام میں سب سے زیادہ مدد اور رہنمائی جائیداد کی خریدوفروخت کا کام کرنے والے شخص نے کی تھی۔ ان دنوں میں نے امی کو زندگی سے بھرپور قہقہے لگاتے دیکھا۔ مجھے سخت حیرت ہوئی، کیونکہ کچھ عرصے پہلے ہی میں نے امی کو پاپا کے انتقال پر شدید گریہ و زاری کرتے دیکھا تھا۔ جائیداد کی منتقلی کے دوران اس شخص نے نہ جانے کیسے امی کو شیشے میں اتارلیاکہ وہ ہمہ وقت اسی کے ساتھ دکھائی دینے لگیں۔ وہ شخص اور امی گھنٹوں اوپری منزل کے کمرے میں چلے جاتے اور میں نچلی منزل کے کمرے میں کبھی وہیل چیئر او رکبھی بستر میں لیٹا آیا کے رحم و کرم پر گھر میں گونجتے سناٹے کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا۔ میں نے دیکھا کہ ایک دن گھر کی پشت پر بنے لان میں بہت سارے مہمان اکھٹے ہوئے۔ اس رات اجنبی کو امی نے مجھ سے متعارف کروایا اور کہا کہ اب یہ تمہارے پاپا ہیں۔

    میں نے سوچا کہوں کہ امی آپ دوسرا شوہر کرسکتی ہیں لیکن میں باپ نہیں بدل سکتا۔ مگر میں خاموش رہا۔ بولنے کی کوشش میں الفاظ میرے اندر ہی گھٹ جایا کرتے اور صرف خرخراہٹیں سماعتوں سے ٹکراتی تھیں۔ اس دن مجھے اپنے معذور ہونے کا احساس شدت سے ہوا ۔ ایسی حالت میں آیا میرا مدعا سمجھ لیا کرتی۔ نہ جانے اسے خدا نے ایسی کیا صلاحیت عطا کی تھی جو کہ وہ مجھ جیسے ذہنی اور جسمانی معذور کو مجھ سے زیادہ جانتی تھی۔ وہ میرے قریب ہی فرش پر بیٹھ جایا کرتی۔ میرے گھٹنوں کو سہلاتی اور میرا دھیان بانٹنے کی کوشش کرتی اور میں اس کے سفید کوٹ کے کھلے گریبان کے اندر ممتا ڈھونڈتے ڈھونڈتے بہل جایا کرتا۔

    ہفتے میں ایک دن میں اس تنخواہ دار ملازمہ کی مامتا سے محروم رہتا۔ اس دن مجھے امی کی قربت مل جاتی۔ ایسے ہی ایک دن تکیے سے ٹیک لگائے ادھ کھلے دروازے سے میں نے اپنے سوتیلے باپ کے ہاتھوں امی کو قتل ہوتے اور پھر ایک دن عدالت سے قاتل کو باعزت بری ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ اس دن میں چیخ چیخ کر بتانا چاہتا تھا یا پھر وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔ مگر نہ میں بھاگ سکتا تھا اور نہ بتاسکتا تھا۔ آیا نے میری آنکھوں میں خوف اور سچائی پڑھ لی تھی۔ اس نے میرے سوتیلے باپ سے نفرت کا اظہار بھی کیا تھا۔

    امی کی موت کے بعد آیا میرا زیادہ خیال رکھتی۔ مگر مجھے ہر وقت ڈر لگا رہتا کہ کہیں میں بھی امی کی طرح نہ ماردیا جاؤں۔ ایک بار خوف کی حالت میں اپنی بے ربط باتوں کو سمجھاتے ہوئے میں نے آیا سے کہا کہ وہ مجھ یہاں سے لے جائے۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ کیا جواب دے گی۔ یہی کہ یہاں کی تنخواہ سے اس کے گھر کا خرچہ چلتا ہے۔ مجھے ساتھ لے جانے کی صورت میں وہ دہری مشکل میں پڑ جائے گی۔ ایک تنخواہ سے محرومی اوردوسرے معذور کی دیکھ بھال۔ اس نے یہی جواب دیا اور میں بے بسی کی دھوپ میں حسرت اوڑھے خاموش ہوگیا۔

    زندگی کے کچھ اور دن سوتیلے باپ کی خباثت آمیز مسکراہٹ کو دیکھتے ہوئے گزر گئے۔ مجھے خوف آنے لگتا لیکن آیا کی موجودگی سے ڈھارس رہتی۔ ایک روز میرے پیروں پر دواؤں کے آمیزے کی مالش کے دوران اس نے مجھے رازداری سے کہا۔

    ’’تم جانتے ہو یہ کمینہ مجھ سے کیا کہتا رہتا ہے؟ یہ چاہتا ہے کہ میں تمہیں آہستہ آہستہ زہر دے کر ہلاک کرنے میں اس کی مدد کروں‘‘۔

    میں چونکا۔ میرے منہ سے خرخراہٹیں نکلنے لگیں۔ وہ جب دوبارہ گویا ہوئی تو اس کے چہرے سے ہمدردی اور محبت رخصت ہورہی تھی، اور طنز اس کی جگہ لے رہا تھا۔

    ’’میں نہیں چاہتی کہ تمہیں اندھیرے میں رکھوں۔ اسی لیے میں تمہیں یہ سب بتارہی ہوں کہ میں نے اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ تم خود سوچو کہ اس معذوری کی حالت میں تم کب تک جینا چاہو گے۔تمہارے سگے ماں باپ مرچکے ہیں، اور رشتے دار تمہیں اپنانے کے لیے تیار بھی نہیں ہیں۔ اس بے شمار دولت کو نہ تم استعمال کرسکتے ہو اور نہ اس سے خوشیاں خرید سکتے ہو۔ نہ شادی کرسکتے ہو اور نہ بچے پیدا کرسکتے ہو۔ کیا تمہیں نہیں لگتا کہ تمہیں مرجانا چاہیے؟‘‘

    آیا کے جملے میرے دماغ پر ہتھوڑے بن کر برس رہے تھے۔ میرے خون کی گردش تیز ہونے لگی۔ یوں لگتا تھا کہ کسی بھی لمحے میرا جسم فضا میں شیشے کی کرچیوں کی طرح بکھر جائے گا۔ میری نگاہیں آیا کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں جہاں آہستہ آہستہ مامتا کی شفقت کی جگہ لالچ بھری مسکراہٹ پھیل رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ میں بے بس ہوں۔ اسی لیے وہ فاتحانہ انداز میں اس منصوبے سے مجھے آگاہ کررہی تھی۔ وہ کہنے لگی:

    ’’تمہاری موت کی صورت میں وہ مجھے پانچ لاکھ دینے کا وعدہ کررہا ہے۔ میرے لیے یہ رقم بہت بڑی ہے۔ لیکن اس کمینے کے حصے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اسی لیے میں نے اس سے کہا ہے کہ اگر وہ مجھ سے شادی کرتا ہے تو میں یہ کام کردوں گی۔ مجھے امید ہے کہ وہ مان جائے گا اور ہم بہت جلد شادی کرلیں گے۔ تمہارے مرنے کا مجھے بہت افسوس ہوگا۔ مگر یقین کرو کہ تمہارا مرجانا تمہارے اپنے حق میں بہتر ہے‘‘۔

    مالش کرنے کے بعد میرے پیروں کو کمبل سے ڈھانپ کر وہ کمرے سے باہر چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ میرے لیے دودھ کا گلاس لیے کمرے میں داخل ہوئی۔ میں گلاس دیکھ کر خوفزدہ ہوگیا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی:

    ’’گھبراؤ نہیں۔ ابھی یہ صرف دودھ ہے۔ جب تک وہ شادی نہیں کرلیتا، میں ایسا کچھ نہیں کروں گی۔ ہوسکتا ہے وہ بعد میں مکر جائے اور مجھے جیل بھجوادے‘‘۔

    میں حیران تھا کہ وہ کسی قدر ڈھٹائی اور اعتماد سے مجھے میرے ہی قتل کے منصوبے سے آگاہ کررہی تھی۔ وہ گزشتہ چھ سات برسوں سے میری خدمت پر مامور تھی۔ شوہر کے انتقال کے بعد پاپا نے اسے میرے لیے ملازم رکھ لیا تھا۔ وہ میرا ہر کام بخوشی کرتی، حتیٰ کہ وہ سب بھی جسے کرتے ہوئے میری امی تک گھبرایا جایا کرتیں۔ میں اس سے بہت مانوس ہوگیا تھا۔ ہمیشہ اسی کے ہاتھوں سے کھاتا پیتا۔ مگر یکایک اب وہ مجھے بہت بری لگ رہی تھی۔

    میں کچھ دن اسی خوف کی حالت میں دعا مانگتا رہا کہ کاش اس کے دل میں رحم آجائے۔ اس کے دل میں خوف خدا آگیا مگر ایک حد تک۔

    قرمزی درختوں کے جھنڈ میں بیٹھے سارے واقعات مجھے رفتہ رفتہ یاد آتے چلے گئے۔ مجھے یاد آیا کہ کچھ دنوں بعد دو بھاری بھرکم نوجوانوں نے اسلحہ کے زو رپر میرے سوتیلے باپ اور آیا کے سامنے مجھے فرضی اغوا کیا اور وہیل چیئر سمیت مجھے ایک بڑی وین میں بٹھا کر لے گئے۔ جب مجھے ہوش آیا تو گاڑی ایک مضافاتی علاقے سے گزررہی تھی۔ سنسان سڑک پر ایک گھوڑا گاڑی جاتی دکھائی دی۔ میں نے اسے آواز دینا چاہی، مگر میری خرخراہٹیں شیشوں کے اندر گھٹ کر رہ گئیں۔ گاڑی تیز رفتاری سے گزرتی چلی جارہی تھی۔ سڑک کے دو طرفہ درختوں کے جھنڈ اور حد نظر تک پھیلا ہوا سبزہ آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف جارہا تھا۔ تھوڑی دیر میں کسی دوسرے شہر کے آثار دکھائی دینے لگے۔ بڑا اور جدید شہر جس کے ہر دوسرے موڑ پر بڑے بڑے دائروں میں جھولتے فلائی اوورز جنہیں میں اپنے کمرے میں ٹی وی کے ذریعے پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ ایک فلائی اوور کے اوپر انہوں نے گاڑی لے جا کر روک دی۔ دونوں نے مجھے گاڑی سے اتار کر جنگلے سے لگا کر کھڑا کردیا۔ دو فٹ کے فاصلے پر فلائی اوور کی گرل ٹوٹی ہوئی تھی۔ میری وہیل چیئر کا بریک جو پہلے کھنچا ہوا تھا اب ہٹا دیا گیا ۔ جنگلے سے نیچے تیز رفتار متحرک زندگی رواں دواں تھی۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا۔ دونوں نوجوان گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔ میری سمت بیٹھے نوجوان نے گاڑی کے دروازے کو اس طرح جھٹکے سے بند کیا کہ وہ میری وہیل چیئر سے ٹکرا گیا۔ گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی چلی گئی اور میں قرمزی درختوں کے جھنڈ میں اپنے پاپا کے پاس آگیا، جو مجھے مسکرا کر دیکھ رہے تھے۔ پاپا کی پشت پر روشن تصویریں عجیب و غریب رنگوں میں ڈھل رہی تھیں۔ سینکڑوں بلکہ لاکھوں ایک دوسرے میں پیوست اور پھر جدا ہوتے رنگ برنگے دائروں اور ان میں بنتی بگڑتی زندگی کی تصویریں۔

    کچھ چیزیں جنہیں اپنی جگہ پر ہونا تھا، نہیں تھیں اور جنہیں نہیں ہونا تھا وہ تھیں۔

    (۱۹۹۹ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے