Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جگنوؤں کے دیس میں

رابعہ الرباء

جگنوؤں کے دیس میں

رابعہ الرباء

MORE BYرابعہ الرباء

    دور دور تک پانی، گھنے درختو ں کی چھا یہ، مدھر چلتی ہوا ئیں، چاروں اور ایک سحر انگیز کیف۔ یہا ں خواہ مخواہ ہی مو ر محو رقص رہتا ہے۔ شام ہوتے ہی اس کے بچپن کی کلی اور کلی میں بیٹھی معصومیت کِھل اْٹھتی۔ رنگ برنگی تتلیا ں اِ دھر اْدھر اْڑتی پھر تیں۔ کبھی تلسی پر، کبھی رات کی رانی کی کسی ٹہنی پر، کبھی دن کے راجے کی گود میں، کبھی گلاب اور کبھی موتیے سے آنکھ مچولی اور ان کے آگے پیچھے ساتھ ساتھ جگنو بھی آنکھ مچولی کرتے چلے آتے۔

    لیکن اگر چھت سے نظارہ کریں توسامنے وسیع وعریض باغ میں جگنو رات کے تاروں کی طرح چمکتے نظر آتے۔ اس کی معصومیت آسمان کے تارے اور زمین کے جگنو ؤں کی اور کھنچی چلی جاتی۔

    آسمان کے ستارے توشفاف چاند کے سنگ اٹکھیلیاں کرتے مگر یہ زمین کے ستارے کتنے بھیانک چمکتے ہیں۔ درختوں کی اْوٹ سے اچانک کبھی کوئی جانور اپنے جسم کے ایک بھیانک لوتھڑے کو ہاتھ میں پکڑے ہوئے نمودار ہوتا اور اْسے اپنی اور بْلاتا۔ اشارے کرتا۔ آنکھو ں سے کچھ سمجھانے کی کوشش کرتا۔ جو اسے سمجھ نہ آتا تھا۔

    آسمان کا چاند فوراََ اْسے آواز دیتا اور وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی جاتی اور جا کردھڑکتے دل کے ساتھ سہمی ہوئی سو جاتی۔

    اْف۔۔۔

    یہ تو درجن انچ دراز قامت ہے درجن انچ طویل جاناں۔۔۔ سوچو میرا کیا حال ہو گا۔ سوچو ذرا سوچو۔۔۔ بنانے والے نے کس فرصت میں بنایا ہو گا اور مجھے دیکھو دنیا کے سب سے بڑے نیوز چینل کی سب سے بڑ ی خبر میں ہی ہوں مگر اِن کو علم ہی نہیں۔ جب کہ میں اس دنیا کے سب سے بڑے نیوز چینل کا ہی ملازم ہوں۔ جہا ں بھی جاتاہوں لڑکیا ں مجھ پر مکھیوں کی طرح مرتی ہیں۔ چینل والوں کو جس خبر کا علم نہیں ہو تااِن کو نجانے کیسے ہو جاتا ہے۔

    اْف کیا بتاؤں تمہیں؟میں جب ہاٹ ہوتا تھا تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ اس ظالم حسن کو چھپا بھی نہیں پاتا تھا۔ عر ب کی عورتوں کے حْسن عظیم کی طرح یہ خود ہی باہر نکل کر دعوت عام بن جایا کرتا تھا اور پھر۔ یہ لڑکیا ں بھی حسین مرد کو کہا ں چھوڑتی ہیں۔ ساری دنیا کی حسین لڑکیاں مجھ پر مرتی تھیں۔ لیکن میں۔ میں نے کبھی کسی کی طرف اِ سے اْٹھا کر تو کیا، آنکھ اْٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔

    جس حْسن پہ دنیا بھر کی لڑکیا ں مرتی تھیں۔ میرا وجود اْس سے تنگ آ گیا تھا۔ میں نے ڈاکٹر سے مشورہ کیا اور ایک سرجری کے بعد اسے چند پور کٹوا کر قابل برداشت کروا لیا۔ تب مجھے علم ہوا کہ یہ تو ابھی بھی عورت کے لئے دیوتا ہے۔ وہ طویل قامت اور قوی پہ مرتی ہے۔ میں اب کیا کرتا مجھے بنانے والے نے بنایا ہی بہت فرصت میں تھا۔ کسی خاص عورت کے لئے۔ آہ میں اسے ابھی بھی اوب جاتا ہو ں۔ تو سوچتا ہو ں اس کو ایک اور سرجری سے آدھ درجن دراز کروا لوں لیکن پھر جب سے تم کو دیکھا ہے۔ لگتا ہے بنانے والے نے فرصت سے جوبنایا ہے، تمہارے لئے ہی بنایاتھا۔ تمہیں اتنا بڑا ہی پسند ہو گا ناں۔ یہ تمہا را ہے میر ی جان، یہ تمہارے لئے ہی بنایا گیا ہے۔ اتنا خاص، کسی بہت خاص کے لئے۔

    آسمان سے ایک ستارا ٹوٹا اور زمین کی اور دوڑتا ہو اچمکتا ہو اتیزی سے آتا، کہیں درمیان میں ہی گم ہو گیا۔ لگتا تھا کسی جن یا فرشتے نے اسے زمین پہ آنے سے روک دیا ہے۔

    ‘‘سینکڑوں لڑکیا ں ایسی کہ اْن کا دم نکلے،،

    یہ کہتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ ریل کی دونوں پٹریو ں کے بیچ لے آیا، جہا ں یہ دونوں کسی ٹیکنیکل خرابی کے باعث ایک ہو رہی تھیں اور اس جگہ کو دیر تک خاص احساس تفاخر سے سہلاتا رہا۔ جیسے کسی کی یاد میں سہلا رہا ہو۔ جیسے کسی کے خیال سے نہا رہا ہو۔ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر کہنے لگا،

    میں نے ساری دنیا پھِری ہے، صحراؤں جیسی عورت کہیں نہیں اور دنیا بھر کی عورتیں کہتی ہیں کہ میرے جیسا مرد کہیں نہیں دیکھا۔ کسی مساج سینٹر گیا تو وہ ہاتھو ں میں لے لے کر چوم لیتیں کہ ہائے کیا حْسن ہے۔ زمین والو ں کو ایسے کہا ں نصیب۔ کسی پارلر گیا تو ویکس کرتے کرتے ہاتھو ں سے ہونٹوں سے لال کر دیتیں۔ کبھی بحری جہاز پہ جانا ہو تا تو گوریاں دور سے ہی حْسن طلاطم کو دیکھ کر دوڑی چلی آتیں۔ اور پیار کرنے لگتیں۔ یہ گوریا ں بھی بڑی مزے کی محبت کرتی ہیں۔ ان کے ہو نٹوں سے آگ نکلتی ہے۔ وطن واپس آیا تو دوستو ں کی محفل میں ایک بار شرط لگ گئی، کس کاحسن سب سے بڑا ہے۔ جب نا پا تو اپناہی آٹھ انچا مینارحسن بازی لے گیا بلکہ کچھ سینٹی میٹر اوپرہی تھا۔ تب سے سب دوست پیار سے آٹھ انچا ہی کہتے ہیں۔ ایک ظالم یارکی تو محبت ہی عجیب ہے کہتاہے‘‘ لو آگیا شہزادہ چھ فٹ اونچااوپر سے، آٹھ نیچے سے۔ اور سونے پہ سہگاکہ مشروم کے ٹاپ پہ ایک تل بھی ہے اور تل پہ کس لڑکی کی جان نہیں نکلتی۔

    لیکن میں نے کبھی اپنے حسن پہ فخر نہیں کیا۔ بس دل کرتا ہے حسن حْسن سے ملے، دل دل سے ملے، بدن بدن سے ملے، روح، روح سے ملے۔ سوچ، سوچ سے ملے۔ اور لگتا ہے اب یہ سب مل گیا ہے۔ تو پھر تم سے کیسا پردہ، تم تو اپنی ہو۔ بنی ہی میرے لئے ہو۔ تم تو یو ں بھی کوئی قدرتی وِگر میکسیمائزر لگتی ہو سچی۔۔۔

    دیکھو گی؟ نکالوں باہر؟ یہ بھی تو تمہارا اپنا ہی ہے۔ کہتا ہے اسے چاہنے والے آگئے ہیں۔

    ، روشنی آ ج آسما ن سے ایک روشن چمکتاتارا خا مو شی سے ٹوٹا اور زمین کی طرف رواں ہو گیا بہت تیز تھی، رفتار بہت تیز تھی، اتنے ٹوٹے تاروں کو دیکھ کر لگنے لگا ہے خاک ہو جانے والو ں کی رفتا ر تیز ہی ہوا کرتی ہے۔ آج بھی کسی فرشتے یا جن نے اس کو راستے میں ہی روک لیا۔ اور وہ نجانے کہا ں خاک ہو گیا۔

    زندگی بہت حسین ہے، مگر حْسن خود سوچتا ہے کہ تمہیں زندگی کا حْسن کیسے دے؟ تمہارے کچھ سپنے ہوں گے، ارمان ہوں گے، خواب ہوں گے۔

    مگریہ سب کہانیوں میں ہی ہو تاہے۔ ڈرامو ں، فلمو ں میں ہوتا ہے۔ ویسے سوچتا ہو ں تمہیں تو آدھ درجن لمبابھی چھوٹا سا ہی لگتا ہو گاناں۔ مگر نارمل تو یہی ہو تا ہے۔ باقی سب تو ہوائی باتیں ہیں۔ یہ چھوٹا سا ہے، موٹی مرغی کے دیسی انڈے کی طرح۔ لیکن ہے خالص، دیسی، پیور۔ خالص گوشت زیادہ لذیز ہو تا ہے۔ مگر بندر کیا جانے ادرک کا سواد۔

    بس اسی لئے کہتا ہو ں، بندر نا بنو، ادرک کا سواد چکھ لو۔ یہ تمہیں پھر کبھی نہیں ملے گا۔ چھوٹا نقصان بھی نہیں پہنچاتا۔ ہوتا بھی ہارڈہے۔ ایک دم آئرن راڈ، اس کو کْشتو ں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خالص خوراکو ں کی خالص پیدا وار ہے، پائیدار ہے، دلدار ہے۔ گھنٹو ں کے مزے، میر ی تو بیویاں مجھے کہتی ہیں‘‘ سجناں آپ بڑے رومانٹک ہیں، ہائے اللہ برداشت ہی نہیں ہوتے، آدھ درجن لمباہے، مگر آٹھ سو وولٹ دیتا ہے،

    میں نے جب سے تم کو دیکھا ہے نا ں، آٹھ سونہیں ہزار وولٹ آتا ہے پو را۔ اصل میں کچھ لو گو ں کے زندگی میں آنے سے انسا ن کو اپنی اصل اہلیت کا اندازہ ہو تا ہے۔ اور وہی اصل میں اس کا حق دار ہو تا ہے، لہذا تم ہی اصل حق دار ہو۔ صرف تم۔۔۔

    آجاؤ۔۔۔ بس ایک بار سہی۔۔۔ میں تو عورتوں کے بس کی بات ہی نہیں۔ عرب شہزادے جو شکا رپہ آتے ہیں، میں تو اْن کو شانت کرتا ہو ں۔ یہ دولت، یہ گاڑیا ں، یہ بنگلے، سب تحائف تو میرے الٹے ہاتھ کی جاگیر ہیں۔ لیکن میں پھر بھی کہو ں گا، اصل مالکن تم ہو۔

    آج پھر آسمان سے ایک چمکتا ستارا ٹوٹا اور زمین کی اور کھنچا چلا آیا۔ مگر آج بھی کسی فرشتے یا کسی جِن نے اسے روک لیا۔

    ‘‘چھوٹا ہے، پرمو ٹا ہے،،

    بڑی شرارتی ہو۔ یہی چوائس ہے نا ں تمہاری۔ بھلا تمہیں کیسے پتا چلا کہ میرا‘‘ چھوٹا ہے، پر موٹاہے، او ناٹی گرل،، ۔ بس چوکا انچ ہے۔ جیسے چھوٹا خاندان، زندگی آسان۔

    شادی کے بعد بتاؤں گا تمہیں، ایٹم کی طاقت۔ ایٹم ہوتا چھوٹا ہے مگر بم بنا سکتا ہے۔ تمہیں میں بم بنادوں گا۔

    آج پھر آسما ن سے تارا ٹوٹا اور تیزی سے زمین پہ گرنے ہی والا تھا کہ کسی فرشتے یا جِن نے ہمیشہ کی طرح اْس کا راستہ روک لیا۔

    یہ کائنات کا مالک بھی نرالا ہے کہ کبھی کبھی شیطان سے فرشتوں کے سے کام لے لیتا ہے۔

    ویسے کبھی تم نے سوچا ہے کہ شیطا ن اورفرشتو ں کے کتنے کتنے طول البلدکے ہوں گے۔ ہو ں گے بھی یا نہیں؟۔ میرا خیال ہے فرشتوں کو تو یہ طاقت عطا ہی نہیں ہوئی۔ کیو نکہ یہ حیوانی طاقت ہے اور جب کوئی یہ طاقت کھو دیتا ہے، فرشتہ بن جاتا ہے۔

    واہ واہ۔ حیوانو ں کو فرشتہ بنا دیتا ہے اور تمہیں تو فرشتے بھاتے ہیں۔ ہے نا ں؟ فرشتو ں کو ہی پسندکرتی ہو ناں؟ اوربندہ فرشتہ خاص عمر کے بعد ہی بنتا ہے۔

    جب اس سے حیوانی طاقت چھین لی جاتی ہے۔

    عورت کی نفسیات کا اگر بغور مطالعہ کریں تو وہ کبھی بھی جوان مرد کو پسند نہیں کرتی۔ جوان مرد تو اس کے کسی بھی قسم کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا۔ ابھی تو اس نے خود تجربات کرنے ہوتے ہیں، مطمئن کرنا اسے کہا ں آتا ہے۔ و ہ جوان مرد کی طرف صرف بچے کے لئے کھنچی چلی جاتی ہے۔ پسند فرشتے کو کرتی ہے۔ یوں بھی جوان عورت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اس کا لمس و نم سوکھے شجر کو لہرا دیتا ہے۔ تم سمجھ رہی ہو نا، جوان مرد عورت کی معاشرتی ضرورت ہے اور فرشتہ عمر اس کی دِ لی چوائس۔

    میں بھی تو اب ایک فرشتہ ہی ہوں

    آسمان سے آج اکھٹے دو ستارے ٹوٹے اور چمکتے ہوئے، دوڑتے ہوئے زمین کی طرف آہی رہے تھے کہ کسی فرشتے یا جن نے اْسے روک لیا۔

    میرے پاس ہے ہی کیا؟۔ کچھ بھی تو نہیں۔

    ایک چھوٹا سا گوشت کا لوتھڑا ہی تو ہے۔ تم کو اس سے کیا ڈر؟ کیا خوف؟۔ تم توہر طرح محفو ظ ہو۔ بس یہ پیاسا ہے، بہت پیاسا۔ لڑکیا ں اس کو دھتکار دیتی ہیں۔ تم ایسی نہیں ہو، حساس ہو سمجھتی ہو کہ احساس کس کو کہتے ہیں۔ میرا بھی تو دل ہے نا ں، وہ بھی تو محبت کے خواب دیکھتا ہے کہ کوئی اس کو بھی اپنی قوت لمس و نم سے خود فریبی میں مبتلا کر دے۔

    جتنی خشک زمین ہو گی اْسے اتنا ہی زیاد ہ پانی چاہئے ہو گا۔ اسے اتنی ہی پیاس بھی لگی ہوگی۔ میں نے جب سے تم کو دیکھا ہے لگتا ہے تم چشمۂ آب ہو۔ پہاڑوں سے نکلتا تازہ شفاف پانی، جو میری پیاس بھجا دے گا۔ مجھے ہرا بھرا کر دے گا۔

    سمجھو تو یہ کسی ثواب سے کم نہیں۔ ایک بے جان لوتھڑے کو جان دینا مسیحائی ہے۔ میں نے کب کو ئی عمو می تقاضا کیا ہے؟بس مسیحائی کی بھیک مانگی ہے، جس کے لئے تم کو شاید منتخب کیا گیا ہے۔

    آسمان سے آج تین ستارے ٹوٹے اور زمین کی طرف آنے لگے فرشتو ں یا جنو ں نے انہیں آج بھی روک لیا۔ آخر یہ فرشتے یا جن چاہتے کیا ہیں کہ زمین ستاروں سے کہیں بھر نہ جائے۔ کیا ستارے اس کے ماتھے کا ہی جھومر بنے رہیں؟

    کیا تمہارے دل کی گھنٹیاں اب بھی نہیں بجیں؟

    کیا اب بھی تم بے قرار نہیں ہو ئیں، اسے دیکھ کر؟ اپنے جانو کی جان کو دیکھ کر؟اب بھی بدن میں آگ نہیں لگی؟ کیا اب بھی ارمانو ں نے کروٹ نہیں لی؟

    یہ دیکھو، اِس طرف سے دیکھو، یہ دیکھو انچی ٹیپ سے ناپ رہا ہو ں۔ دیکھو۔۔۔ دیکھو یہ دیکھو۔۔۔ اس طرف سے بھی دیکھو۔ اب بتاؤ؟ کیا اب بھی اس کو ہاتھو ں میں تھا م لینے کو دل نہیں کیا؟ کیا اب بھی اِس کو لولی پاپ بنانے کو دل نہیں کیا؟ اب بچ کے دکھا ؤ۔ سارے کا سارا حْسن تمہیں قید کر کے بھیج دیا ہے۔

    اس نے ساری کی ساری تصاویر اور تحریر ڈیلیٹ کر کے یہ نیا نمبر بھی بلاک کردیا۔

    آج آسمان سے بہت سے ستارے ٹوٹ کر زمین کی گود میں آ رہے ہیں۔ مسلسل آرہے ہیں۔ مگر یہ فرشتے یا جنو ں کو پتا نہیں کیا بیڑہے ان سے۔ راستے میں ہی روک لیتے ہیں۔ میں تو آسمان پرجا نہیں سکتی اور فرشتے یا جن اِ ن کو زمین پہ آنے نہیں دیتے۔ راز کیا ہے۔ یہ سمجھ سے باہر ہے۔ اب تو جگنو بھی اس دیس کو چھوڑ گئے ہیں۔ اب تو تتلیا ں بھی نظر نہیں آتیں۔ اگر کوئی اِکا دْکا تتلی آہی جاتی ہے تو بے رنگ ہو تی ہے۔ ہم نے ان کے بھی رنگ اْڑا دئیے ہیں۔

    وہ دوڑ کر چھت پر گئی۔ اب ہر طرف اونچی اونچی عمارتیں بن چکی ہیں۔ دور دور تک لہلہاتا سبزہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ عمارتوں کے سر ے ایک دوسرے سے جْڑے ہوئے ہیں۔ سانس بھی لینا دشوار ہے۔ مگر سامنے و ہ باغ جو ں کا توں قائم ہے۔ عمارتوں کے عین وسط میں آ گیا ہے۔ اور چھت کے بھی بس ایک سائیڈ سے دکھائی دیتا ہے۔ وہ آج بھی جگنو دیکھنے اْسی کو نے میں جا کھڑی ہوئی، جہاں کبھی بچپن میں ہو اکرتی تھی۔ آج دور دور تک کو ئی ایک بھی جگنو دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ شاید ان جانوروں کی کثرت سے خوف زدہ ہو کر ہجرت کر گئے ہیں۔ ان جانو روں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ پہلے کو ئی کسی درخت کی اوٹ سے نکل آتا تھااور اپنے بدن کا آلہ جراحی پکڑ کر ہلاتا رہتا۔ آج بہت زیادہ ہیں۔ ایک کا تو آلہ درخت کے تنے کے ساتھ لپٹتا ہوا اوپر کو اْٹھا ہوا ہے۔ اور شاید ہَوا سے خزاں کے بیمار پتوں کی طرح جھول رہا ہے۔ باقی سب اپنے اپنے ہاتھوں میں تھا مے فٹ بھر، آدھ درجن انچ دراز، ایک پور، دو پور تین پور لامبے جانوروں کو ایک خاص ردھم سے جنبش دے رہے ہیں۔

    تھپ تھپ تھپا تھپ۔۔۔

    پریو ں و حوروں کی سسکیو ں اور چڑیلو ں کے قہقوں سے فضا میں خوف بڑھتا جا رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے