Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کاغذ کا رشتہ

ذکیہ مشہدی

کاغذ کا رشتہ

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسے شخص کی کہانی، جس نے کبھی بھی اپنی بیوی کی قدر نہیں کی۔ شادی کے بعد سے ہی وہ اس سے بیزار رہتا۔ ہر وقت مار پیٹ کرتا رہتا۔ گھر سےکئی کئی دنوں تک غائب ہو جاتا ۔ پھر ایک روز وہ ایک چمار کی لڑکی کو لیکر بھاگ گیا اور اس کی بیوی کو اس کے بھائی اپنے گھر لے آئے۔ انہوں نے اپنی بہن پر اس سے طلاق لینے کے لیے کہا لیکن وہ اس کے لیے راضی نہیں ہوئی۔ ایک عرصے بعد شوہر سسرال آیا۔، بیوی کو لینے نہیں، پیسے مانگنے کے لیے۔ اس کے سالوں کو جب اس کے آنے کے مقصد کے بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے اسے بہت مارا۔ مار پیٹ کے بعد شوہر واپس جانے لگا تو اس کی بیوی نے پردے کی آڑ سے اسے کچھ روپیے تھما دیے۔

    باہر اوسارے میں کوئی اونچی اونچی آوازوں میں بول رہا تھا۔ شاید بڑکو، چھوٹے اور ابا سب اکٹھے مل کر بول رہے تھے۔ ’’کاہے سب جنی سبیرے سبیرے ہلا کرت جات ہیں۔‘‘ اماں نے اعتراض سے زیادہ تجسس کا اظہار کیا اور چولہا پھونکتے پھونکتے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ میلے دوپٹے سے ماتھے پر آئی پسینے کی بوندیں پونچھیں اور دھواں دیتی ارہر کی جلاون کا مٹھا یونہی چھوڑ کر باہر کی طرف چل دیں۔ بڑکو کی دلہن نے گھونگھٹ اوپر سرکایا اور چولہے کا چارج اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔

    اماں کی تو خاص عادت تھی۔ ناتی پوتے والی ہوگئیں لیکن جہاں ذرا باہر سے کسی لڑائی بھڑائی کی آواز آئی یا عورتوں کی ٹولی گیت گاتی ہوئی گزری، وہ سارے کام چھوڑ کر ہاتھ جھاڑ جھوڑ کر دوڑتیں دروازے کی طرف، اور میلے ٹاٹ کاپر دہ سرکاکر اس وقت تک دروازے میں اڑی رہتیں جب تک وہ واقعہ گزر نہ جاتا پھر ابا کو کھانا کھلاتے وقت سارے دن کی روداد سناتیں:’’آج رام دین کے گھر سے بدھاوا آیا رہا۔ پتو ہو (بہو) کو تین بیٹن پر بیٹا ہوا ہے نا۔۔۔‘‘ یا ’’نور محمد کی چھٹکی بہو پے جنات پھر سے آئے رہیں۔‘‘

    بڑکو کی دلہن گھونگھٹ میں دھیرے دھیرے مسکراتی اور منو کی آنھیں حسب دستور خلا میں کچھ دیکھتیں۔ نور محمد کی ’’چھٹکی بہو کا شوہر‘‘ یعنی بدرالدین کتنا خیال کرتا تھا اس کا، کتنا چاہتا تھا لیکن اس کی ناک ہمیشہ چڑھی رہتی۔ کسی دن ساس کچھ زیادہ کہہ سن دیتیں تو اس پر دورے پڑنے لگتے۔ ہاتھ پیر اکڑ جاتے، دانت بیٹھ جاتے۔ اماں کا پختہ عقیدہ تھا کہ یہ سب جنوں کی کرامات ہیں۔ تالاب کے کنارے گھنے برگد پر ان کا ڈیرا تھا اور اس شیطان چھوکری نے خاص کر اسی برگد میں جھولا ڈلوایا تھا۔

    منو ٹھنڈی سانس لیتی۔ اسے اتنا چاہنے والا شوہر ملتا تو پاؤں دھو دھو کر پیتی۔ لوگ کہتے ہیں جوڑے آسمان پر ملائے جاتے ہیں۔ کون ملاتا ہے جوڑے؟ ضرور اللہ میاں نے کوئی فرشتہ مقرر کیا ہوگا لیکن کیا اس کی سدھ بدھ لے لی تھی جو ایسے اندھے جوڑے ملاتا تھا۔ بدرالدین جیسے نیک کماؤ لڑکے کو مل گئی یہ لوہے کے چنے چبوانے والی اور وہ جو تھی، بے زبان گائے جیسی خدمت گار محبت کرنے والی۔ اسی کو مل گیا وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ اب تو اس کا نام لیتے ہوئے بھی جیسے کوئی خیالات کے دھارے میں بڑی سی پتھر کی چٹان ڈال کر روک لگا دیتا تھا اور نام بڑی مشکل سے ذہن میں آتا تھا۔۔۔ ضیا۔

    اماں نے ٹاٹ کا پردہ سر کایا تو جیسے انہیں کاٹھ مار گیا۔ وہ کسی دل چسپ تماشے کی امید میں دوڑی تھیں۔ شاید وہ پگلا محمد پھر مسجد میں گھس آیا تھا یا ان کے چچیرے جیٹھ کے لڑکے نے کھیت میں جاتے ہوئے پانی پر پھر روک لگائی تھی اور بڑکو اور چھوٹےاس کا مزاج درست کرنے پر تلے ہوئے تھے یا یہ سب کچھ نہیں تو تالاب سے بہت بڑی مچلیگ نکلی تھی۔ کئی دن سے مولوی صاحب مچھلیاں نکلوانے کی بات کر رہے تھے۔

    وہاں تو یہ سب کچھ بھی نہیں تھا۔ وہاں تو وہ تھا۔ وہ۔ اماں نے آنکھیں ملیں۔ ہاں وہ ضیا ہی تھا۔ سرجھکائے، میلا پاجامہ پہنے۔ دھاری دار قمیص آستینوں پر سے پھٹی ہوئی تھی۔ چہرے پر پھٹکار برس رہی تھی۔ وہ چوروں کی طرح ان لوگوں کے نرغے میں گھرا کھڑا تھا اور تینوں کی آوازیں بتدریج اونچی ہو رہی تھیں۔ چشم زدن میں نور محمد بھی آگئے۔ کسی بھی متنازعہ معاملے میں نور محمد ایسے ہی آموجود ہوتے تھے جیسے وہ جن ہوں اور چراغ رگڑ کر ان کو حاضر کیا گیا ہو۔

    ’’ذرا صبر سے کام لیو۔ دھیرے بولو۔‘‘ نور محمد نے پہنچنے کے ساتھ ہی معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ ’’تم الگ رہو۔‘‘ انہوں نے بڑکو اور چھوٹے سے کہا۔

    ’’الگ کیوں رہیں چچا؟‘‘ دونوں تن کر بولے۔ چھوٹے تو اس کا گریبان تھامنے کو آگے بڑھا۔ ہائیں ہائیں کرکے نور محمد نے بیچ بچاؤ کرایا۔ اماں اب اس اچانک لگنے والے دھچکے سے سنبھل چکی تھیں۔ وہ جودیکھ رہی تھیں، وہ سچ تھا۔ یہ ضیا ہی تھا۔ ضیا جس نے ان کے چھوٹے سے خوشیوں بھرے گھر میں دکھ ہی دکھ بھر دیے تھے۔ ان کی معصوم اکلوتی، چہیتی بیٹی منو کی زندگی تباہ کردی تھی۔ وہ ٹھگی سی گھڑی رہ گئیں۔ بھرتے زخم کو کسی نے کچوٹ دیا تھا۔

    ان کے یہاں تابڑتوڑ پانچ بیٹے ہوئے تھے۔ انعام، اکرام، شہزادہ، بڑکو اور چھوٹے۔ پہلے دوبیٹوں میں تو بہت خوش رہیں۔ ان کی ساس کی نظروں میں بھی ان کی قدر بڑھ گئی تھی۔ بیٹے کی پیٹھ پر بیٹا ہوا تھا۔ لیکن شہزادہ پیدا ہوا تو وہ تھوڑا اداس ہوگئیں۔ بیٹی ہوتی تو کیا اچھا ہوتا۔ بیٹی ماں کا دکھ درد سمجھتی ہے۔ چلی جائے تو بھی ماں کادرد اس کے دل سے کم نہیں ہوتا۔ بیٹے کی شادی ہوئی نہیں کہ گیا ہاتھ سے۔ بڑکو اور چھوٹے پیٹ میں آئے تو انہوں نے بیٹی ہونے کے لیے منت مانی، پانچوں پیرن جاکر دعا کی۔ جناتوں والی مسجد کی دیوار پر ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کوئلے سے اپنے دل کی خواہش لکھی تب جاکر چھٹی بار درد جھیلنے پر آمنہ پیدا ہوئی ۔ بڑی بڑی آنکھوں والی گیہوں کی سنہری بالی جیسی رنگت والی آمنہ بچپن سے ہی خاموش طبیعت اور نیک مزاج۔

    آمنہ کے ابا شرع کے بڑے پابند تھے۔ مولوی ٹھہرے۔ لیکن اماں نے گود میں سوئی چھ مہینے کی آمنہ کے منہ میں چھاتی دیتے وقت سوچا تھا۔۔۔ مولوی صاحب گانے بجانےکے سخت خلاف ہیں مگر اس کی شادی میں ہم ضرور گائیں گے۔ سات دن ڈھولک ٹھنکے گی۔ اور ایک ایک دن گن کر گزارنے کے بعد سترہ اٹھارہ برس گزرے تھے اور وہ دن آیا تھا جب آمنہ کی شادی طے ہوئی تھی۔ اماں کونے کونے آنسو پونچھتی پھرتیں اور جب چہرہ نارمل ہوجاتا تو گاتی بجاتی عورتوں کے بیچ آکر بیٹھ جاتیں۔

    ’’ارے بھوجی! سبیرے کھائے کو نہیں ملا تھا کیا؟ آواز کا پالا ماردہس ہے۔‘‘ وہ اپنی خاص سہیلی بابو کا متاپرشاد کی بہو سے ٹھٹھول کرتیں۔ وہ ڈھولک بجانے میں استاد تھیں۔ گیت گانے کی اجازت مولوی صاحب سے انہیں نے دلوائی تھی۔

    اماں کے کلیجے میں ہوک اٹھی۔ سارے مناظر ایک سیکنڈ میں آنکھوں میں گھوم گئے تھے۔ وہ بلبلاکر گالیاں دیتی ہوئی پلٹیں۔ ’’ ارے داڑھی جار، بے ایمان کے پوت۔ ابھین تم اچھے بھلے ہو۔ مرے ناہیں جو ہمری منو کا چھٹی ملت۔ یا اللہ۔ ارے دلہن۔ ایک ہمت دیکھو۔ کاہے آیا ہے یہاں۔۔۔ ؟‘‘ وہ زور زور سے بولتی ہوئی دھواں بھرے باورچی خانے میں آئیں۔ ان کی ایک ایک حرکت سے اضطراب ٹپک رہا تھا۔ آنکھیں بے چین تھیں۔

    ’’کون اماں؟‘‘ بڑکو کی دلہن نے گھونگھٹ تلے آنکھیں اٹھائیں۔ کسی چھٹی حس نے آمنہ کو خبردار کیا کہ کوئی خاص بات ہے۔ نہ جانے کیا۔ لیکن کچھ، جواس سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ ذرا سا کسمسائی۔ باہر سے تیز آوازیں اب بھی آرہی تھیں۔ نور محمد چچا کی بھاری آواز بھی ان میں گھل مل گئی تھی۔ پیچھے والے آنگن میں بندھی گائے نے زور زور سے رمبھانا شروع کردیا تھا۔

    ’’ارے وہی جیا۔ ہیجہ پکڑے اس کو۔ گولے لگے۔‘‘

    آمنہ تڑپ کےاٹھی۔ ’’کون؟ کہاں؟ کوستی کیوں ہو اماں؟ کسے کوس رہی ہو؟‘‘

    ’’تب کا پھول مالا چڑھائیں۔ اوہو کرکے دیکھ لیا۔‘‘

    بڑکو کی دلہن بھی اٹھ چکی تھی اور دروازے کی طرف لپک جھپک بڑھ گئی تھی۔ آمنہ نے کسی اضطراری کیفیت کے تحت اماں کو کوسنے سے منع کیا تھا لیکن بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی وہ بھی اٹھ کرآگے بڑھی۔ ’’ارے کہاں جائے رہی ہو منو۔ صورت حرام کی صورت دیکھے کو۔‘‘ اماں نے پکار کر کہا مگر وہ بڑھ چکی تھی۔ اس نے پردے میں سے جھانکا تو دل اچھل کر حلق میں آرہا۔ وہ ضیا ہی تھا۔ پھٹے حال، پھٹکار زدہ، فاقہ زدہ۔

    شیخ صلاح الدین کا بیٹا شیخ ضیاء الدین میٹرک پاس تھا۔ گھر میں اچھی کھیتی باڑی تھی۔ اپنا ٹریکٹر تھا۔ اماں ابا نے تو اپنی حیثیت سے بڑھ کر گھر ڈھونڈا تھا۔ شریف لوگ تھے۔ نہ جانے کہاں سے بیٹا ایسا آوارہ نکل گیا تھا۔ آمنہ نے اس گھر میں نہ جانے کتنی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ پھول کی چھڑی بھی جس کو نہیں چھوائی گئی تھی اس نے مار بھی کھائی۔ ضیا ایک نیا پیسہ نہیں کماتا تھا۔ کھیتوں کی دیکھ بھال اس کے لیے ہتک عزت تھی۔ نوکری کے لائق وہ تھا نہیں۔ بس لڑکیوں کے اسکول کے آگے کھڑا رہتا۔ تیری میری بیٹیوں کو چھیڑتا۔ اپنی ایک بیٹی ہوگئی تب بھی عقل نہیں۔ گھر چھوڑ کر دومرتبہ پہلے ہی بھاگ چکا تھا۔ تیسری مرتبہ بھاگا تو پتہ چلا پرے گاؤں سے کسی چمار کی بیٹی کو لے کر نکل گیا ہے۔ سال بھر کوئی خیر خبر نہیں ملی تو اماں نے آمنہ کو بلاکر گھر پر ہی رکھ لیا۔ سال بھر اور گزر گیا۔ گھروالے آمنہ پر خلع لے لینے کے لیے زور دینے لگے۔ آمنہ راضی نہیں ہوئی۔ شاید کبھی عقل آئے، شاید کبھی واپس لوٹ آئیں۔ اس نے یہی سوچا۔ اس کی ویران آنکھوں کو دیکھ کر گھر میں کسی کا جی ہنسنے کو نہ چاہتا۔ بڑکو اپنی دلہن کے لیے کوئی چیز نہ لاتے۔ بچے کو سب کے سامنے دلارتے تک نہیں تھے کہ نہ جانے آمنہ کے جی پر کیا گزرے۔ دلہن دل ہی دل میں کڑھتیں۔ اکلوتی نند سے محبت بھی تھی اور بہنا پا بھی لیکن محبت اور بہناپے کی خاطر ساری مسرتوں پر روک لگانے کو کون راضی ہوتا ہے۔

    شاید وہ واپس آگیا ہے۔ آمنہ نے سوچا۔ اماں کوس کیوں رہی ہیں؟ بھائی مارنے کو دوڑ رہے ہیں۔ ایک عزت دار گھرانے میں داماد کے ساتھ اسی طرح کا سلو ک کیا جاتا ہے۔ بھیا اور ابا کو کیا ہوگیا ہے؟

    ’’چچا!‘‘ باہر بڑکو نور محمد سے کہہ رہے تھے۔ یہ اگر اپنی غلطی مانتے، اپنے ظلم کی تلافی کرنے کو کہتے تو ہم سرآنکھوں پر بٹھاتے۔‘‘

    ’’یہ آئے ہیں۔۔۔‘‘ چھوٹے کی آواز غصے سے کانپ رہی تھی۔ ’’یہ آئے ہیں روپیہ مانگنے۔‘‘

    ’’کیا حق ہے ان کا؟ شرم نہیں آتی؟ ان کی بیوی بچے کو ہم پال رہے ہیں۔ دو برس گزر گئے پلٹ کر نہیں دیکھا۔‘‘

    نور محمد چچا کہہ رہے تھے۔ ’’اچھا، اچھا۔ ذرا غصہ قابو میں کرکے رہو بھیا۔ ہم بات کرتے ہیں۔‘‘ وہ ضیا سے مخاطب ہوئے۔ ’’بٹیا کو لے جانے آئے ہو؟‘‘

    ’’بٹیا کو لے جانے کی استطاعت ہے۔ ذرا اس کا حلیہ دیکھیے۔ یہ شیخ صاحب کا بیٹا ہے؟‘‘ تھرتھراتی آمنہ نے آنسوؤں کی چلمن کے پیچھے سے غور سے دیکھا۔ وہ کوئی جیب کترا معلوم ہو رہا تھا۔ یا بھکاری۔ فاقہ زدہ، مظلوم، غیرت ، حیا اور خودداری بیچ کر وہ ان لوگوں کے درمیان آیا تھا۔

    بڑکو نے آنکھیں لال کرکے اس کی طرف دیکھا۔ ’’چچا، یہ بےغیرت مجھ سے روپے مانگ رہا تھا۔ ہم لوگ نہ ہوتے تو یہ ہماری اکلوتی نازوں کی پالی بہن کو بھیک منگوادیتا۔ اس کے سارے زیور بیچ کر کھا گیا چوٹا۔ وہ تو کہیے ہم پانچ بھائی ہیں جو اس کی اور ہماری ننھی بھانجی کی پرورش ہوگئی ورنہ۔۔۔‘‘ ورنہ بڑکو کی آوازمیں غصے کے ساتھ انتہائی رنج کی آمیزش تھی۔

    ’’اس کی ہمت کیسے ہوئی کہ یہاں آئے؟‘‘ چھوٹے تقریباً جوتا سنبھال چکے تھے۔ شاید یہ آخری ذریعہ ہوگا جو اس نے آزمانا چاہا۔ باپ تو پہلے ہی عاق کرچکے تھے۔ وہ چمار کی بیٹی کو لے کر بڑی تھکا فضیحت ہوئی تھی۔ پنچایت نہ پڑتی درمیان میں تو خون خرابے ہوجاتے۔ گھر والے صورت دیکھنے کے روادار نہیں تھے۔ اس نے سوچا شاید سسرال والے کچھ دے دیں۔ بیٹی کا دباؤ ہے۔ سسرال والے تو نہ جانے کب سے طلاق کے خواہاں تھے۔ آمنہ کے انکار سے مجبور تھے ورنہ لے چکے ہوتے۔ طلاق نہ ہونے سے کاغذی رشتہ قائم تھا۔

    آمنہ نے آنکھیں میچ کر آنسو پئے۔ یہ اس کا شوہر تھا۔ جب شادی ہوئی تھی تب ایسا لفنگا سا نہیں لگتا تھا۔ کم از کم حلیہ تو درست تھا۔ گھر چھوڑ کر نہ جانے کہاں کہاں کی ٹھوکریں کھائی تھیں۔ کیا کیا سہا تھا جو شرم و حیا کو طاق پر رکھ کر ان لوگوں سے پیسے مانگنے آیا تھا، جن کی بیٹی کو اس نے دکھ ہی دکھ دیے تھے۔

    ’’جاؤ بھیا۔ خیریت اسی میں ہے کہ چپ چاپ لوٹ جاؤ۔۔۔‘‘ نور محمد نے نرم لیکن مضبوط لہجے میں کہا۔ پھر بڑکو اور چھوٹے کی طرف دیکھ کر بولے، ’’ اور تم لوگ اپنی شرافت مت بھولو۔ گالی گلوچ کرنے، جوتا ہاتھ میں اٹھانے سے کون فائدہ ہے۔‘‘ انہوں نے تاسف سے کہا۔

    آمنہ پھرتی سے پیچھے ہٹ گئی۔ ضیا ہارے ہوئے جواری کی طرح اٹھ رہا تھا۔ اس درمیان اس کی گردن مستقل نیچی رہی تھی۔ نیچے دیکھتے دیکھتے ہی وہ اٹھ گیا تھا۔

    ’’تھو ہے!‘‘ بڑکو نے اس کے پیچھے تھوکاتو بھی اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔

    ’’۔۔۔اے سنو!‘‘

    گھر کے پچھواڑے لگے ارنڈ کے درختوں کے جھنڈ سے آواز آئی تو وہ یوں اچھلا جیسے کوئی پچھل پیری دکھائی پڑ گئی ہو۔ وہ پچھل پیری تو نہیں دھواں دھواں چہرے والی ایک مظلوم سی لڑکی تھی جو آنچل میں سے کچھ کھول رہی تھی۔ ایک دم سے سامنے آگئی۔ ہاتھ میں پکڑے مٹھی بھر مڑے تڑے نوٹ جلدی سے اس کی قمیص کی جیب میں ٹھونسے اور مڑگئی۔

    ضیا نے آنکھیں مٹ مٹائیں۔ شاید یہ آمنہ ہی تو تھی۔ اس کا منہ حیرت سے کھل گیا اور نوٹ نیچےگر پڑے۔ لڑکی کی پشت دور ہو رہی تھی اور شاید کانپ بھی رہی تھی۔

    مأخذ:

    پرائے چہرے (Pg. 139)

    • مصنف: ذکیہ مشہدی
      • ناشر: بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے