Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کاغذ کی روٹی

عافیہ حمید

کاغذ کی روٹی

عافیہ حمید

MORE BYعافیہ حمید

    عقیلہ معمول کے مطابق آج پھر لیٹ تھی۔ میں نے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے اسے کچن کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے اپنے تین سالہ بیٹے کو فرش پر بٹھاتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا، باجی! بچے کو دو دن سے بخار ہے اس لیے ساتھ لے آئی۔ میں نے پرانے بستر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس پر بٹھا دو۔ اس نے متشکر نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے کہا کام ختم ہو جائے تو جاتے وقت رات کی پارٹی کے بچے ہوئے کھانے کو نیچے کوڑے دان میں پھینکتی جانا۔ اسی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

    ہادی! ٹی وی کی آواز کم کر لو، میں نے آواز دی۔ مگر مجھے معلوم تھا وہ ایسا کرنے سے رہا۔ اس لیے میں نے اس کے کمرے کا رخ کیا۔ وہ فون پر کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی فون بستر پر رکھ دیا۔ مما ! وہ۔۔۔ ایک دوست ہے۔ اس نے کچھ جھجھکتے ہوئے کہا۔ گھبراہٹ اس کے چہرے سے صاف عیاں تھی۔ میں نے بظاہر اطمینان کے ساتھ کہا، ٹی وی کی آواز کم کر لو۔ میں واپس اپنے کمرے میں آ گئی تھی مگر میرا ذہن کچھ الجھا ہوا تھا۔ ادھر کمرے میں داخل ہوتے ہی موڈ اور خراب ہو گیا تھا۔

    عقیلہ !! عقیلہ !! میرے چیخنے پر عقیلہ کچن سے باہر آئی۔ کیا ہوا باجی؟ میں نے جھلاتے ہوئے کہا، اپنے بچے کو دیکھو کیوں زار و قطار رو رہا ہے۔ اس نے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بنا برآمدے کی طرف دوڑ لگا دی۔ مجھ سے بھی رہا نہیں گیا۔ سوچا آخر بچہ اتنا کیوں رو رہا ہے۔ مگر دوسرے پل آنکھوں کے سامنے منظر بدل چکا تھا۔ عقیلہ بچے کے منہ سے اخبار کا ٹکڑا نکال رہی تھی جسے بچے نے کچھ دیر پہلے کھا لیا تھا۔ میں نے بچے ہوئے اخبار کے ٹکڑے کو اٹھا لیا۔ قبل اس کے کہ میں کچھ سمجھ پاتی، عقیلہ نے بچے کی پیٹھ پر مارتے ہوئے کہا، کاغذ کیوں کھایا؟ بچے نے توتلی زبان میں کہا، کاگد نہیں لوتی تھی۔ میں نے ہاتھ میں پکڑے اخبار کو غور سے دیکھا۔ اس پر کسی مشہور ہوٹل کا اشتہار تھا۔۔۔ ”ہمارے یہاں روٹی کی کُل سترہ قسمیں دستیاب ہیں“ساتھ ہی روٹی کی بڑی سی تصویر اخبار کی زینت بنی ہوئی تھی۔ اب اس تصویر سے آدھی روٹی غائب تھی جو شاید بچے کے گلے سے نیچے اتر چکی تھی۔ میرا ذہن کل شام کے بچے ہوئے کھانے کی طرف گیا جس میں روٹی کی مختلف اقسام موجود تھیں۔ عقیلہ نے بچے کو گود میں اٹھا لیا۔ اس نے سہمی ہوئی آواز میں کہا باجی۔۔۔ باجی۔۔۔ کام ختم ہو گیا ہے، میں جاؤں؟ ساتھ ہی جھجگتے ہوئے پوچھا، باجی۔۔۔ یہ کھانا۔۔۔ کوڑے میں ڈال دوں؟

    میری زبان گنگ تھی۔ میں کچھ کہتی، اس سے پہلے وہ زینے سے اتر چکی تھی۔ میں نے بالکنی سے دیکھا اس نے کھانے کی تھیلی کوڑے دان میں ڈال دی۔ اور نہ جانے کیوں غصے میں اپنے تین سالہ بیٹے کو زوردار تھپڑ مارا۔

    میں نے اخبار پر لکھے پتے پر فون کیا اور روٹی کی سترہ اقسام کا آرڈر دیا۔

    ہادی! ہادی ۔۔۔! میری پکار سن کر ہیڈ فون کو کچھ ٹھیک کرتے ہوئے ہادی نے کمرے سے جھانکتے ہوئے کہا، کیا مما، آپ ہر وقت ڈسٹرب کرتی رہتی ہیں۔ میں نے خاموشی سے ہادی کی طرف دیکھا۔ اس نے نارمل ہوتے ہوئے کہا، اچھا بتائیں۔۔۔ میں نے کہا نیچے آرڈر آیا ہے، فلاں ایڈریس پر پہنچا دو۔

    تقریبا ایک گھنٹے بعد فون پر ہادی کی گھبرائی ہوئی آواز آئی۔۔۔ مما! ہیلو مما! عقیلہ آنٹی کے گھر باہر بھیڑ بہت ہے۔ میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا گھبراؤ نہیں وہیں رکو، میں آرہی ہوں۔

    آدھے گھنٹے کا راستہ تذبذب میں گزر گیا۔ بھیڑ کو ہٹاتے ہوئے میں اندر پہنچی۔ عقیلہ مجھے دیکھتے ہی سسک پڑی۔۔۔ باجی! وہ پچھلے ایک مہینے سے بیمار تھے۔ میں نے تسلی دی اور ہادی کے ہاتھ سے پیکٹ لے کر بچوں کی طرف بڑھا دیا۔

    مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ جنازہ اٹھانے کی تیاری بھی ہونے لگی۔ کسی نے کہا، ارے عقیلہ! بڑے بیٹے کو بلاؤ، باپ کو کندھا دے۔ شکیل بیٹا! باپ کو کاندھا دو۔ عقیلہ نے بھرائی آواز میں کہا۔ شکیل نے روٹی کے ٹکڑے کو جیب میں رکھتے ہوئے جنازے کو کندھا دیا۔ جنازہ گلی سے نکل چکا تھا۔ گھر میں آہ و فغاں جاری تھا۔ ہر طرف شور و غوغا تھا مگر یہ شور دو طرح کا تھا۔ باہر اکیلا کی چیخ آسمان کا سینہ چاک کر رہی تھی اندر چار بچے روٹی کے اقسام پر لڑ رہے تھے۔ کسی کو موٹی کریم والی روٹی چاہیے تھی تو کسی کو لال والی اور میٹھی والی روٹی۔

    اُدھر میت کو قبر میں اتارا جا چکا تھا اور شکیل بچی ہوئی روٹی کو جیب سے نکال کر اطمینان سے کھا رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے