Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کالے کوس

بلونت سنگھ

کالے کوس

بلونت سنگھ

MORE BYبلونت سنگھ

    کہانی کی کہانی

    تقسیم ہند کے بعد ہجرت اور پھر ایک نئی سرزمین پر قدم رکھنے کی خوشی بیان کی گئی ہے۔ گاما ایک بدمعاش آدمی ہے جو اپنی کنبہ کے ساتھ پاکستان ہجرت کر رہا ہے، فسادیوں سے بچنے کی خاطر وہ عام شاہ راہ سے ہٹ کر سفر کرتا ہے اور اس کی رہنمائی کے لئے اس کا بچپن کا سکھ دوست پھلور سنگھ آگے آگے چلتا ہے۔ پاکستان کی سرحد شروع ہونے سے کچھ پہلے ہی پھلورے گاما کو چھوڑ دیتا ہے اور اشارہ سے بتا دیتا ہے کہ فلاں کھیت سے پاکستان شروع ہو رہا ہے۔ گاما پاکستان کی مٹی کو اٹھا کر اس کا لمس محسوس کرتا ہے اور پھر پلٹ کر پھلور سنگھ کے پاس اس انداز سے ملنے آتا ہے جیسے وہ سرزمین پاکستان سے ملنے آیا ہو۔

    چھوٹا سا قافلہ، جو تین عورتوں اور ایک مرد پر مشتمل تھا، دم لینے کے لیے کنوئیں کے قریب ڈیرا ڈالے تھا۔ وہ لوگ مسلمان تھے۔۔۔ اور وہ دن اس سرزمین کو آزادی ملنے کے دن تھے جسے آج کل پاکستان اور ہندوستان کہتے ہیں۔

    مرد، ۳۲ یا ۳۳ برس کا گرانڈیل شخص تھا۔ سر پر چھوٹی سی پگڑی کے دو چار بل۔۔۔ گلے میں کرتہ، اس کے نیچے چوڑی نیلی دھاری کا تہبند۔۔۔ ناک نقشے میں کوئی عیب نہیں تھا۔ داڑھی استرے کی یورش سے کئی دنوں سے بےنیاز تھی۔ مو­­­­نچھیں خوب بڑی بڑی، کبوتروں کے پروں کی مانند، نیچے کو گری ہوئیں۔ آنکھیں متجسس اور تیز، جن میں اب تک تھکن کے آثار ہویدا تھے۔ جسم کے پھیلے ہوئے ڈھانچے، لمبی لمبی بانہوں اور طویل ٹانگوں کے باوجود وہ موٹا نہیں تھا۔ اس کے بدن کی پرورش میں ڈنڈ، بیٹھک اور باداموں کا ہاتھ نہیں بلکہ اس کے جسم کے ریشے ریشے کی پرورش گیہوں یا مکئی کے آٹے اور ساگ بھات پر ہوئی تھی۔ اس کا نام غلام محمد عرف گاماں تھا۔ ­­­وہ اچھا آدمی نہیں تھا۔۔۔ اس میں ایک ہی اچھی بات تھی، وہ یہ کہ اسے نیک ہونے کا دعویٰ نہیں تھا۔ یہ چیز اس کے چہرے ہی سے ظاہر تھی۔

    تین عورتیں۔۔۔ ایک بوڑھی، ایک جوان اور ایک نوخیز، بالترتیب اس کی ماں، بیوی اور بہن تھیں۔ بوڑھی پانچوں نمازیں پڑھ پڑھ کر سارے ہندوؤں خصوصاً سکھوں کے نیست و نابود ہو جانے کی دعائیں مانگا کرتی تھی سوائے پھلور سنگھ کے۔۔۔ پھلور سنگھ عرف پھلورا اس کے بیٹے کا دوست تھا۔ بیوی کی عمر پچیس برس کے قریب تھی۔ سیدھے سادے خد و خال۔۔۔ شادی کو آٹھ برس گزر چکے تھے لیکن ایک بلونگا تک پیدا نہیں ہوا تھا۔ گامے کے دوست پرمعنی انداز سے اسے کہنیوں سے ٹہوکے دے کر پوچھتے، ’’کہو استاد! آخر ماجرا کیا ہے؟‘‘ اس پر گاما اچھا انسان نہ ہونے کے باوجود لمحہ بھر کے لیے آسمان کی جانب دیکھتا اور کہتا، ’’جو اللہ کی مرضی!‘‘

    ’’ہاں بھئی آڑے وقت میں اللہ کے سوا اور کون کام آتا ہے!‘‘

    اس کی بہن عاشاں حسین اور نازک اندام تھی۔ اس اعتبار سے وہ گامے سے بہت مختلف تھی۔۔۔ اس کی بابت گامے نے اڑتی ہوئی خبر سنی تھی کہ وہ گاؤں کے ایک چھوکرے اللہ دتے کو میٹھی نظروں سے دیکھتی ہے اور اللہ دتہ بھی اس کے فراق میں سرد آہیں بھرتا ہے۔۔۔ گاما نے تہیہ کر لیا تھا کہ جب کبھی وہ انہیں اکٹھا دیکھ پائےگا تو گنڈاسے سے ان کے سر اڑا دے گا، لیکن باوجود کوشش کے گامے کو اس افواہ کی صداقت کا ثبوت نہیں مل سکا۔

    چار ناخوش انسانوں کا یہ خانماں برباد قافلہ پیادہ پا پاکستان کو جا رہا تھا۔ ان کی کہانی دوسرے لاکھوں مسلمانوں کی کہانی تھی جو مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کو جانے کے لیے مجبور کیے گئے تھے۔ گاماں۔۔۔ لٹیرا بھی تھا اور قاتل بھی۔ بدمعاش بھی تھا اور ڈاکو بھی۔۔۔ لیکن ان سب برائیوں کے باوجود وہ کسان تھا۔۔۔ ہل چلانا اور بیج بونا اس کا آبائی پیشہ تھا۔

    ملک کی تقسیم کے بعد دفعتاً ساری خدائی ان کی دشمن ہو گئی۔ گھر کی چاردیواری تک انہیں بھینچ کر مار ڈالنے کی دھمکیاں دینے لگی۔ وہ دھرتی جو پہلے بجائے ماں کی تھی، اب گرم ہوکر اس قدر تپ گئی تھی کہ اس پر اس کے بچوں کا چلنا پھرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ وہ زمین جو پہلے ان کا پسینہ جذب کر کے سونا اگلتی تھی، اب ان کا خون پی کر بھی مطمئن نہیں ہوتی تھی، چنانچہ ایک روز گامے نے گھر آکر کہا، ’’اب ہمیں جانا ہی ہوگا۔‘‘

    سامان؟ اس پر وہ تلخ ہنسی ہنسا اور اس نے تینوں عورتوں کو بکریوں کے مانند گھر سے باہر ہانک دیا۔ اس کے بعد خونی نظارے، آگ، دہشت، بھوک اور پیاس۔۔۔ مسلسل۔۔۔ پھلور سنگھ، گامے کا دوست تھا۔ برے کاموں میں دونوں ساتھی رہے تھے۔ مل کر انہوں نے اچھا کام کبھی نہیں کیا تھا۔ پھلور سنگھ نے مشورہ دیا کہ ان کا کسی بڑے قافلے کے ہمراہ جانا خطرے سے خالی نہیں۔ چنانچہ گامے نے سب کچھ پھلورے پر چھوڑ دیا اور وہ راتوں رات چوری چھپے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک پہنچا دیتا۔ دن کے وقت وہ لوگ آرام کرتے اور رات ہوتے ہی پھر سفر شروع کر دیتے۔

    ایک رات پھلورے کے آنے میں کچھ دیر ہو گئی تو مالک مکان جو ڈرپوک تھا، ان سے کہنے لگا، بھئی! آج رات حملے کا سخت خطرہ ہے۔ ان کا وہاں سے چلے جانا ہی بہتر ہے۔ ورنہ وہ خود بھی جان سے ہاتھ دھوئیں گے اور اسے بھی پھنسا دیں گے۔ گاؤں سے باہر بھی جان کا خطرہ کم نہیں تھا لیکن مجبوری کے عالم میں گاماں اللہ کا نام لے کر، تینوں عورتوں سمیت وہاں سے چل کھڑا ہوا۔ ہرچند گاماں مضبوط انسان تھا، اسے اپنے زور بازو پر بھروسہ بھی تھا لیکن مسلح ہجوم کا مقابلہ کرنا اس کی قوت سے باہر تھا اور پھر عورتوں کا ساتھ! انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ دن کے وقت کھیتوں، جھاڑیوں یا کسی اندھے کنوئیں میں چھپ جاتے اور رات بھیگ جانے پر چل کھڑے ہوتے۔ انہیں پھلور سنگھ سے جدا ہوئے دو راتیں گزر چکی تھیں اور تیسری گزر رہی تھی۔

    رات بھیگ چکی تھی لیکن انہوں نے ابھی سفر جاری نہیں کیا تھا۔ چاندنی رات تھی لیکن آسمان پر ہلکا سا غبار چھایا ہوا تھا اس لیے چاندنی بہت اداس دکھائی دے رہی تھی۔ اس وقت وہ ایک ایسے کنوئیں کے پاس بیٹھے تھے جو ایک مدت سے ویران پڑا تھا۔ کنوئیں کی مینڈھ گر چکی تھی۔ دو کچی دیواریں اس امر کی گواہ تھیں کہ کبھی یہاں بھی رہٹ کی روں روں سنائی دیتی ہوگی۔ شاید الغوزوں کی تانیں بھی اڑتی ہوں گی اور چنچل کنواریوں کے نقرئی قہقہے بھی فضا میں گونجتے ہوں۔۔۔ یہ مقام سطح زمین سے قدرے بلند تھا۔ گاماں سر اٹھا کر دور دور تک نگاہ دوڑا رہا تھا۔ وہ اندازاً مغرب کی جانب بڑھ رہے تھے، لیکن انہیں اس کا کوئی علم نہیں تھا کہ اس وقت وہ کہاں ہیں اور پاکستان کی حدود سے کتنی دور ہیں۔ وہ قریب قریب نڈھال ہو چکے تھے۔ کاش پھلورے کا ساتھ نہ چھوٹتا تو شاید اب تک وہ منزل مقصود تک پہنچ گئے ہوتے۔

    بوڑھی ماں کے ڈھیلے ڈھالے چہرے میں جھانکتی ہوئی بےرونق آنکھوں سے حیرت اور درماندگی کا اظہار ہوتا تھا۔ اپنی طویل زندگی میں اس نے اس قسم کے واقعات دیکھے نہ سنے تھے۔۔۔ بیوی بھوک، مسلسل پریشانی اور عزت و آبرو کے خوف سے بالکل نڈھال ہو چکی تھی۔ اس کا سر ڈھلک کر دیوار سے ٹک گیا تھا۔۔ عاشاں، وہ نسبتاً تازہ دم تھی۔ ایک تو خیر عمر کا تقاضا تھا اور پھر شاید اسے خطرے کی اہمیت اور نوعیت کا پورا پورا احساس بھی نہیں تھا۔ اس کے بوجھل بالوں نے جھک کر اس کے چہرے کے بہت بڑے حصے کو ڈھانپ رکھا تھا۔ البتہ اس کے نازک لب، ترشی ہوئی حسین ناک اور گھنی بھنویں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔۔۔ پھیکی چاندنی نے اس کی صورت کو خوابناک بنا دیا تھا۔

    بیٹھے بیٹھے گاما سوچنے لگا۔ ممکن ہے، عاشاں اور اللہ دتے والی بات درست ہو۔۔۔ اب اس قسم کے خیال سے وہ ناخوش نہیں ہوا۔۔۔ ننھی منھی بھولی بھالی فاختہ سی بہن کبھی کبھار اچٹتی ہوئی نظروں سے بھائی کی جانب دیکھ لیتی اور پھر آنکھیں جھپکا لیتی۔۔۔ وہ بچپن ہی سے بھائی سے سخت ڈرتی تھی تاہم وہ اکھڑ بھائی کی سلامتی کے پیارے پیارے سوز بھرے گیت گایا کرتی۔ دفعتاً ہوا چلنے لگی۔ پیپل کی پتیوں نے تالیاں بجا بجا کر گامے کو چونکا دیا۔ وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور بوجھل آواز میں بولا، ’’اب ہمیں چلنا چاہیے۔‘‘

    عورتیں کچھ تامل کے بعد گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ان میں سے کسی کو بھی پتہ نہیں تھا کہ انہیں کدھر جانا ہے۔ سب لوگ بوجھل قدموں سے ایک سمت کو چل دیے۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ کنوئیں سے کچھ دور ہی گئے ہوں گے کہ گامے کے قدم رک گئے۔ عورتیں بھی رک گئیں۔ زمین ناہموار تھی۔ دور دور تک آبادی کا کوئی نشان نہیں ملتا تھا اور پھر آبادی سے انہیں کیا سروکار؟ ان کے جسم تھک کر چور ہو چکے تھے۔ بدن کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ مارے بھوک کے انہیں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کلیجہ کسی بھاری پتھر کے نیچے دب گیا ہو۔

    گاماں کھوئی کھوئی نظروں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ قریب ہی اینٹوں کا بھٹہ تھا، وہ بھی سنسان پڑا تھا۔ معلوم ہوتا تھا مدت سے اسے یونہی چھوڑ دیا گیا ہے۔۔۔ حد نگاہ تک کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ ان کے حق میں یہ بات اچھی تھی، لیکن تکلیف دہ بات یہ تھی کہ منزل مقصود کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ ابھی غالباً انہیں ان گنت کوسوں کا فاصلہ طے کرنا پڑےگا۔ ان گنت کوس! اس کے ذہن میں الجھن سی پیدا ہونے لگی۔ اس نے گھوم کر عورتوں کی جانب دیکھا۔ انہیں دیکھ کر اسے بڑا رحم آیا۔ یہ معصوم، بے گناہ، سادہ لوح صورتیں! پھر اس نے کھیت کی مینڈھ پر بیٹھتے ہوئے کہا، ’’آؤ تھوڑی دیر آرام کر لیں۔‘‘ وہ سب ایک لفظ تک کہے بغیر بیٹھ گئیں۔ انہوں نے اتنا بھی تو نہیں کہا کہ ابھی تو ہم دو فرلانگ بھی نہیں چلیں، آرام کی کیا ضرورت۔

    کھیتوں کے سلسلے پھیلتے ہوئے افق میں گم ہو رہے تھے، جہاں آسمان تپتی ہوئی زمین کے لب چومتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ اس نے ہر جانب بار بار نظر دوڑائی اور پھر زیر لب بڑبڑایا، ’’نہ معلوم پاکستان کہاں ہے۔‘‘ بوڑھی ماں نے آسمان کی جانب نظر اٹھا کر کہا، ’’اللہ! ہمیں ملت کی سرزمین تک جلد پہنچا دے۔‘‘ وہ عفت مآب عورتیں اپنی آبرو کے لیے فکر مند ہو رہی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ ایک مرتبہ وہ آبرومندی کے ساتھ پاکستان کی سرزمین تک پہنچ جائیں۔ خواہ وہاں پہنچتے ہی ان کو موت آ جائے۔ انہیں اپنی جانیں ایسی پیاری نہیں تھیں۔

    گامے نے تاروں سے نظر ہٹا کر دونوں ہاتھوں میں کھیت کی بھربھری مٹی کو اٹھایا اور اسے بڑے انہماک سے دیکھنے لگا۔ اس نے اسے دبا کر اس کے لمس کو محسوس کیا۔ اس نے ہوا کو سونگھا۔ طویل وعریض جال کے مانند پھیلی ہوئی کھیتوں کی مینڈھوں پر نگاہ دوڑائی جو ایک دوسری کو کاٹتی چھانٹتی افق تک پھیل گئی تھیں۔۔۔ لیکن گامے کی نگاہیں پاکستان کی زمین، پاکستان کی مٹی، پاکستان کے کھیتوں اور پاکستان کی جھاڑیوں کی متلاشی تھیں۔ فضا مغموم تھی لیکن وہاں اس قدر سکون اور امن تھا کہ ایک مرتبہ تو ان عورتوں کو بھی یقین سا ہونے لگا کہ کالی کملی والا ضرور انہیں باعزت تمام منزل مقصود تک۔۔۔ معاً ایک جھٹکے کے ساتھ گاماں چوکنا ہو گیا۔ اس نے مضبوط مچھلیوں والا بازو حفاظت کے انداز سے عورتوں کے آگے پھیلا دیا۔ دوسرا ہاتھ چشم زدن میں چھری تک پہنچ گیا۔ اس کے طاقتور بازوؤں کے پٹھے پھڑپھڑانے لگے۔ اس کی متجسس آنکھیں بھٹے کی جانب ایک نقطے پر جم گئیں۔

    آخر ہے کیا۔۔۔؟ لیکن یہ سوال عورتوں کے لبوں تک نہیں آ سکا۔ اب گاما عظیم الجثہ اصیل مرغ کے مانند بازو پھیلائے، قدم زمین میں گاڑ گاڑ کر آگے بڑھتے ہوئے دھیرے سے بولا، ’’اس بھٹے کے پیچھے ضرور آدمی چھپے بیٹھے ہیں۔‘‘ انہیں بھی ایک شخص کی جھلک دکھائی دی۔ عورتوں نے سوچا کہ اب اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کی کوئی سبیل نہیں ہو سکتی۔ چند لمحوں بعد ٹوٹی پھوٹی اینٹوں اور مٹی کے ٹیلوں کے پیچھے سے ایک آدمی نمودار ہوا۔۔۔ وہ سکھ تھا۔ وہ تن تنہا آگے بڑھنے لگا۔ وہ بھی گامے کے مانند لمبا تڑنگا شخص تھا۔ حرکات و سکنات سےوہ بھی شریف انسان دکھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔ اس کے پیچھے۔۔۔ اس کے پیچھے اور کوئی نہیں تھا۔ شاید اس کے ساتھی بھٹے کے پیچھے چھپے بیٹھے تھے۔ وہ قدم بقدم آگے بڑھ رہا تھا۔

    گاماں رک گیا۔ دھندلی روشنی میں وہ سایہ قریب سے قریب تر آتا گیا۔ یہاں تک کہ گامے کے اعصاب کا تناؤ نقطہ عروج تک پہنچ کر دفعتاً صفر پر آ گیا۔ غالباً۔۔۔ نہیں یقیناً۔۔۔ نووارد پھلورا تھا اور پھر نسبتاً بلند نعروں سے انہوں نے ایک دوسرے کا استقبال کیا۔ آتے ہی پھلورے نے پہلے عورتوں کا جائزہ لیا۔ سب کو صحیح سلامت پا کر بولا، ’’شکر ہے! شکر ہے!‘‘ گامے نے مسکراکر کہا، ’’ہم سب سلامت ہیں۔‘‘

    ’’لیکن تم لوگ تنہا کیوں چلے آئے تھے۔ میرا انتظار کیوں نہیں کیا تم نے۔۔۔‘‘

    گامے نے سارا قصہ کہہ سنایا۔ اس پر پھلورے نے غل مچاکر کہا، ’’یہ تو تمہیں گھر سے نکالنے والے کی انتہائی حماقت تھی اور تمہاری بھی بےوقوفی تھی۔ افوہ! وہاں پہنچ کر میں بہت پریشان تھا۔ یہ درست تھا کہ کچھ خطرہ پیدا ہو چلا تھا، لیکن تمہیں بآسانی چھپایا جا سکتا تھا۔ اس دن سے تمہاری تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔ یہی فکر تھی کہ کہیں فسادیوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔‘‘ ماں بولی، ’’بیٹا! اللہ کےفضل سے ہمارا بال تک بیکا نہیں ہوا، لیکن ہمارے یہ دن تو بہت ہی مصیبت میں کٹے ہیں۔ ہمیں تو یہ امید بھی نہیں رہی تھی کہ تم ہمیں دوبارہ ملوگے۔۔۔‘‘

    ’’واہ جی واہ۔‘‘ پھلورے نے اور شور مچاکر کہا، ’’بھلا تمہارے دل میں اس قسم کے خیالات پیدا ہی کیوں ہوئے۔ دیکھو نا! تمہارے پیروں کے نشانات دیکھ کر یہاں تک آن پہنچا ہوں۔‘‘

    فضا میں دونوں غیر شریف مردوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ اداس چاندنی رات میں چہل پہل نظر آنے لگی۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ عورتوں نے بڑے اطمینان کا سانس لیا، جیسے اب ان کی مدد پر پوری فوج پہنچ گئی ہو۔۔۔ پھلورا جو اس بڑھیا کے ہاتھوں میں پل کر جوان ہوا، باتیں کیے جا رہا تھا۔ ادھر ادھر کی باتیں ہو چکیں تو گامے نے کہا، ’’یار! ہم تو اٹکل پچو چلے آئے ہیں۔ نہ جانے کہاں سے کہاں نکل آئے ہیں۔ کچھ پتہ نہیں چلتا۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خود ہی رک گیا اور آنکھیں سکیڑ کر دور دور تک نگاہیں دوڑانے لگا کہ شاید کہیں پاکستان کی سرزمین دکھائی دے۔

    اس پر پھلورے نے گامے کو ایک بازو میں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’اوئے گامیاں! اب تو تم پاکستان پہنچ چکے ہو۔ تم کیا سمجھے بیٹھے تھے۔۔۔ کہ وہاں پہنچنےکے لیے دریا پہاڑ پھاندنے پڑیں گے؟‘‘ گاماں ہکا بکارہ گیا۔ ہکلا کر بولا، ’’سچ۔۔۔؟ کہاں ہے پاکستان؟‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر آنکھیں سکیڑ کر افق کی جانب دیکھنے لگا۔ عورتوں کے لبوں پر بھی مسکراہٹ کی لہریں دوڑنے لگیں۔ پھلورے نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’وہ رہے پاکستان کے کھیت۔‘‘

    سب لوگ پھلورے کےساتھ ساتھ تیز تیز قدم اٹھا کر چلنے لگے۔ بمشکل ایک فرلانگ دور پہنچ کر پھلورا رک گیا۔ پھر ہاتھ سے اشارہ کرکے بولا، ’’لو اب یہاں سے پاکستان کے کھیت شروع ہو جاتے ہیں۔ تم سیدھے چلے جاؤ۔ کہیں پولیس یا فوج کی چوکی تک پہنچ جاؤگے یا کسی گاؤں میں جا پہنچو گے۔۔۔ اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں۔۔۔‘‘

    عورتوں نے جنگلی چکوریوں کی طرح اپنی رفتار تیز کر دی۔ گاماں دو کھیت تو تیر کی سی تیزی کے ساتھ پار کر گیا اور پھر رکا۔ تینوں عورتیں لپکی ہوئی اس کے پیچھے چلی آ رہی تھیں۔ تیز چلنے کے باعث وہ ہانپنے لگی تھیں۔ گامے کی باچھوں میں سے ہنسی پھوٹی پڑتی تھی۔ گھوم کر کہنے لگا، ’’اماں! ہم پاکستان پہنچ گئے ہیں۔‘‘ معصوم عورتوں نے رک کر نظریں ادھر ادھر دوڑائیں اور دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔

    گامے نے قدرے توقف کے بعد جھک کر دونوں ہاتھوں میں کھیت کی بھربھری مٹی بھرلی اور اسے اپنے چہرے کے قریب لے آیا۔ چند لمحوں تک اسے غور سے دیکھتا رہا۔ دبا کر اس کے لمس کو محسوس کیا، ہوا کو سونگھا، پھر سر گھما کر طویل و عریض جال کی مانند پھیلی ہوئی کھیتوں کی مینڈھوں پر نگاہ دوڑائی جو ایک دوسرے کو کاٹتی چھانٹتی افق تک چلی گئی تھیں۔۔۔

    اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی کے آثار پیدا ہونے لگے۔ پھر اسے احساس ہوا کہ پھلورا اس کے ساتھ نہیں ہے۔۔۔ پھلورا دو کھیت پرے دھندلی چاندنی میں اڑیل ٹٹو کی طرح زمین پر پاؤں جمائے کھڑا تھا۔ چند لمحوں تک وہ سب چپ چاپ اس کی جانب دیکھتے رہے۔ بلند و بالا پھلور سنگھ کی ڈھیلی پگڑی کے شملے ہوامیں لہرا رہے تھے اور اس کی طویل لاٹھی کی برنجی شام اس کے داہنے کان کی لو چوم رہی تھی۔ عمر رسیدہ ماں نے پھلورے کی طرف دیکھا اور پھر پس منظر میں چھٹکے ہوئے ستاروں پر نظر دوڑا کر دل میں کہنے لگی، میں پانچوں وقت نماز کےبعد اللہ سے اس شخص کے حق میں دعا مانگا کروں گی۔ سادہ لوح عورت یہ بھول گئی کہ کیا اس شخص کے حق میں دعا مانگنے پر شانِ کریمی سب کے گناہ معاف کر دےگی؟

    الوداع کہنے کے لیے گاماں دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا اپنے دوست کی جانب بڑھا۔۔۔ اس کے پاؤں من من کے ہو رہے تھے۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ پھلورا دو کھیت پرے کیوں رک گیا ہے۔ جب دونوں قریب قریب کھڑے ہوئے تو قد و قامت اور ڈیل ڈول میں دونوں برابر تھے۔ پھلورے کے پرخشونت چہرے پر بھدی سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔۔۔ جیسے وہ کہہ رہا ہو، ’’گامے! تم سرزمین پاکستان سے مجھے ملنے کے لیے واپس آئے ہو۔‘‘

    گاماں نے اپنے بلند قد کو اور بھی بلند کیا اور ایک مرتبہ پھر اپنے سامنے کھڑے ہوئے کڑیل کسان سے آنکھیں ملائیں۔ اس کی گھنی مونچھیں متحرک ہوئیں۔ اس نے پھلورے کا چوڑا چکلا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پھر۔۔۔ جیسے اثبات میں سر ہلاتے اس نے بھرپور مردانہ آواز میں جواب دیا،

    ’’آہو پھلوریا!‘‘

    مأخذ:

    بلونت سنگھ کے بہترین افسانے (Pg. 156)

      • ناشر: ساہتیہ اکادمی، دہلی
      • سن اشاعت: 1995

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے