کالی ساڑی
چار برس ہو گئے۔ دن کتنی تیزی سے گزر گئے، اس درمیان کچھ بھی نہ بدلا۔ سوائے اس بات کے کہ وہ دو بچوں کا باپ بن چکا تھا۔ اس نے خیال کو جھٹکا اور ہاتھ دھونے لگا۔ شام کے پانچ بج رہے تھے، وہ خیالوں سے باہر نکلا۔
صاحب ! ”دہاڑی“ مالک نے پیسے گنے۔ کل وقت سے آجانا۔ جاتے جاتے اس کو نصیحت کر گئے۔
شدید گرمی سے برا حال تھا۔ اس نے آج پختہ ارادہ کر لیا تھا کل اتوار بازار سے وو نجّو کے لیے کالی ساڑی ضرور لے گا۔
کب سے اس کی خواہش تھی کہ محرم میں گاؤں کی تمام عورتوں کی طرح وہ بھی کالے کپڑے پہنے۔ نجو کا گورا بدن، پتلی کمر، اور کمر پر وہ چھوٹا کالا تل۔۔۔ اس نے سوچا۔ اور اس کے بدن میں جھر جھری سی دوڑ گئی۔ اس کی نظر سامنے بیٹھی عورت پر پڑی۔ اس کی کمر، ابھرے ہوئے بلاؤز ۔ دوسرے پل اس نے نظریں جھکا لیں۔ سٹی اسٹیشن پر آٹو رکشہ والے نے آواز لگائی۔ اس نے پانچ روپیہ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اور آگے بڑھ گیا۔ رات سونے کے لیے لیٹا تو پھر اسے وہ آٹو والی عورت یاد آ گئی۔ اس نے خیال جھٹکا اور نجو کی ساڑی کا حساب لگانے لگا۔ اس نے سو چا پیسہ بچے گا تو بچی کے لیے ایک گڑیا لے لے گا۔ اس کے سامنے منی کی سانولی صورت یاد آگئی۔ اس نے سوچا منی کاش اپنی ماں کو پڑ جاتی۔ پھر اچانک ہی وہ مسکرایا۔ منی گوری نہیں تو کیا۔ ناک نقشہ بالکل اپنی ماں کی طرح ہے۔
صبح کھٹ پٹ کی آواز پر وہ جاگا۔ اس نے دیکھا اس کے ساتھی کندھوں پر رومال ڈالے۔ کام پر نکلنے کو تیار ہیں۔ اس نے سوچا رات دیر تک سوچنے سے وہ دیر میں سویا۔ اس لئے آج آنکھ دیر سے کھلی۔ اسے یاد آیا آج اتوار ہے۔ اس کے چہرے پر مسکان تھی اس نے سوچا آج کی دہاڑی ملا کر وہ نجو کی کالی ساڑی کا انتظام کرلے گا۔ وہ آج اتنا خوش تھا کہ اس نے ناشتہ بھی نہیں کیا۔ بس وہ کسی طرح کام پر پہنچ کر کام ختم کر کے بازار پہنچنا چاہتا تھا۔
بازار میں اس کو کوئی ساڑی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ بہت مشکل سے اس کو ایک ساڑی پسند آئی۔ مگرمنی کی گڑیا اور خوراک کے پیسے نہ بچے۔ اس نے سوچا چلو اگلی بار۔
وہ رات کو تھکا ہارا پسینے سے شرابور اپنے کمرے پر آ گیا۔ کمرہ کیا۔۔۔ سائبان تھا۔ مشکل سے دولوگوں کے رہنے کی جگہ میں چار لوگ سوتے تھے۔ چاروں اس کے گاؤں کے تھے۔ اس نے ساڑی کو اپنے پرانے زنگ آلود بکس میں اخبار میں لپیٹ کر رکھ دیا۔ ابھی گھر جانے میں شاید ایک مہینہ لگ جائے۔ اس بار اماں کی دوا، حسن کی فیس، گھر کا خرچ اور بہن کے جہیز کے لیے بھی کچھ رکھا ہے۔ اس نے سوچا۔ وہ روز کام سے واپسی پر نجو کو یاد کرتا۔ کالی ساڑی میں اس کا ابھرا ہوا سینہ اس نے یاد کیا۔ منی کے دودھ پینے کی وجہ سے اب اور بھی سڈول اور خوبصورت ہو گیا تھا۔ نجو جب کالی ساڑی پہنے گی تو میں کہوں گا پوری آستین کا بلاوز بنواؤ اور تھوڑا لمبا بھی تاکہ کمر کا تل کسی کو نہ دکھے۔ اس نے سوچا کالی سازی میں کالا تل کہیں چھپ نہ جائے۔
اس کے بدن میں ایک بار پھر جھر جھری سی ہوئی۔ کچھ دیر وہ بستر پر بے سدھ پڑا رہا۔ پھر اس نے وہ کالی ساڑی بکسے سے نکالی اور اس کو اپنے سینے سے لگا کر سو گیا۔
صبح دس بجے کی ٹرین تھی۔ رات آٹھ بجے اتارے گی۔ اس نے سوچا دس بجے تک گھر پہنچ جائے گا۔ مگر منی اور حسن تو سو گئے ہوں گے ۔
پھر اس کے سامنے نجو کا خوبصورت چہرہ گردش کرنے لگا۔ وہ دل ہی دل میں یہ سوچ کر خوش ہور ہا تھا کہ نجو سے کہوں گا ابھی رات ہی میں پہن کر دکھاؤ۔ اور وہ نخرے دکھائے گی مگر پھر مان جائے گی۔ آخر پورے چار سال کی شادی میں اس کے لیے پہلا جوڑا آیا تھا۔
ٹرین جوں جوں رفتار پکڑ رہی تھی اسکے دل کی دھڑکن بڑھتی جارہی تھی۔ جیسے ریس میں اول آئے گھوڑے کی ہوتی ہے۔ جوں ہی ٹرین رکے گی وہ اڑ کر گھر پہنچ جائے گا۔
ٹرین لیٹ تھی۔ تقریبا گیارہ بجے اس کا اسٹیشن آیا۔ وہ خوشی سے اپنا تھیلا ٹانگے تیز قدموں سے اپنے گاؤں کی طرف بڑھنے لگا۔ گاؤں کی سڑک پر کب بجلی آئے گی اس نے سوچا۔ اب وہ گاؤں کی پگڈنڈی پر چلا جا رہا تھا۔ گاؤں میں گرمی شہر کے مقابلے میں کم ہے اس نے زیر لب کہا۔ مگر دوسرے ہی پل اس کو کسی کے کراہنے کی آواز آئی۔ اس کے قدم رک گئے، اس نے غور سے سنا۔۔۔ کوئی آواز نہیں۔ میرا وہم ہوگا اس نے سوچا مگر دوسرے ہی پل پھر کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دینے لگی ۔ اس کو خیال آیا کہیں بھوت چڑیل تو نہیں ۔ پھر اس نے استغفار پڑھا۔ اور آگے بڑھنے لگا۔ مگر پھر آواز تیز ہونے لگی۔ اس نے اس بار تمام خیال جھٹک کر ہمت کی۔ اور ٹارچ کی روشنی اس طرف کی جس طرف سے آواز آرہی تھی۔ اس نے جو کچھ دیکھا وہ اس کے ہوش اڑانے کو کافی تھا۔ وہ ہڑبڑا کر دو قدم پیچھے ہٹا مگر دوسرے پل اس کے اندر کا ضمیر جاگ اٹھا۔ نہیں نہیں میں کسی کو ایسی حالت میں نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ بھی کسی مجبور عورت کو۔ اس اندھیری رات میں وہ جانتا تھا اگر اس نے اس لڑکی کی مدد نہ کی تو معلوم نہیں صبح تک وہ بچےگی بھی کہ نہیں۔ اس نے ایک طرف ہٹ کر پولیس کو فون لگایا۔ دو چار گھنٹی کے بعد فون رسیو ہوا مگر نیند کے آغوش میں دروغہ نے اس کی بات نہیں سنی مگر وہ لگاتار فون کرتا رہا حتی کہ پولیس مدد کے لیے چوکی سے نکل گئی۔ اس کو اطمینان ہو گیا کہ چلو اس نے اپنے حصے کا کام کر دیا۔ مگر اس کو خیال آیا پولیس والوں میں پتہ نہیں کتنے لوگ ہوں گے اور وہ اس عورت کو ایسی حالت میں دیکھیں گے برہنہ خون میں لت پت۔ جسم شاید کئی درندوں نے مل کر نو چا تھا۔ پاس ہی اس کی جوتی اور پرس پڑا تھا مگر کپڑے کا کچھ پتہ نہ تھا۔ کون ہے کس کی بیٹی ہے اس نے سوچا۔ کسی کی بیٹی بہن ہو مگر اس کو اس وقت کپڑے کی ضرورت ہے۔ اس نے سوچا کاش میرے پاس کوئی کپڑا ہوتا ۔ دوسرے پل اس کو خیال آیا کالی ساڑی۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔ وہ تو نجو کے لیے۔۔۔ ایک لمحے کو وہ خود غرض ہونے لگا مگر اس کو خیال آیا اگر اس لڑکی کی جگہ نجو ہوتی تو۔۔۔ اسے کپکپی آگئی۔ اس نے بلا کچھ سوچے تھیلے سے ساڑی نکال کر اس برہنہ بدن پر ڈال دی۔ اس نے دیکھا لڑکی نے پر سکون ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔
سائرن کی آواز سنائی دے رہی تھی پولیس مدد کے لیے پہنچ چکی تھی۔ پریس والے اس کی فوٹو کھینچ رہے تھے۔ بڑی پوچھ تاچھ کے بعد صبح اس کو پولیس چوکی سے جان چھوٹی۔
وہ سر جھکائے تھکے جسم کے ساتھ گھر میں داخل ہوا۔ بچے اس کے آگے پیچھے ناچنے لگے۔ بیوی پر امید نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ شرفو نے نظریں جھکالیں۔ گویا وہ نجو کے سوال کو نظر انداز کر رہا تھا۔ آخر کار اس سے رہا نہ گیا۔ اس نے تھیلا اپنی طرف کھینچ لیا۔ میری کالی ساڑی۔۔۔ کہتے ہوئے وہ محرم کا بکھان کرنے لگی مگر تھیلے میں تو کوئی ساڑی نہیں تھی۔ اس نے پھر شرفو سے پوچھا۔ میری ساڑی؟ تم نے تو کہا تھا اس بار تمہارے لئے اتوار بازار سے ساڑی لایا ہوں۔ ابھی پرسوں ہی تو تم نے بتایا تھا۔ حسن کے چاچا کے فون سے تم نے فون کیا تھا۔
شرفو خاموشی سے اس کو دیکھتا رہا۔ نجو کے بار بار اصرار پر اس نے کہا کل رات جب میں گاؤں میں داخل ہوا۔۔۔ آگے وہ کچھ کہتا کہ نجو بول پڑی تم کل رات ہی آگئے تھے۔ پھر رات بھر کہاں تھے؟ اور میری ساڑی کس کو دے دی؟ بتاؤ کس کلموہی کے ساتھ رات گزاری۔ کون ہے جس کو میری ساڑی دے آئے۔ اس نے آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ بلند آواز میں چلانا شروع کر دیا۔ دروازے پر دستک ہورہی تھی۔ چچا رحیم ہاتھ میں اخبار لیے شرفو کو مبارکباد دے رہے تھے۔ اور شرفو کالی ساڑی میں نجو کا گھٹا ہوا جسم دیکھ رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.