Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کابلی والا

رابندرناتھ ٹیگور

کابلی والا

رابندرناتھ ٹیگور

MORE BYرابندرناتھ ٹیگور

    میری پنج سالہ بچی منی ایک لمحہ کے لیے خاموش نہیں رہ سکتی۔ مجھے یقین ہے کہ اس نے اپنی تمام عمر میں ایک لمحہ بھی خاموشی میں ضائع نہیں کیا۔ اس کی ماں اکثر اس سے تنگ آکر اسے کوستی لیکن میں نہیں۔ میرے نزدیک منی کو خاموش دیکھنا غیر فطری بات ہے۔ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لیے میں اس کے ساتھ ہمیشہ محبت بھری باتیں کرتا ہوں۔

    ایک صبح جب کہ میں اپنے نئے ناول کے سترھویں باب کا آدھا حصہ پڑھ چکا تھا، میری چھوٹی سی منی میرے کمرے میں گھس آئی اور میرے ہاتھوں میں ہاتھ دیتے ہوئے بولی، ’’ابا، رام دیال نوکر کو اکو خوا کہتا ہے اسے کچھ نہیں آتا۔ کیا اسے کچھ آتا ہے؟‘‘ پیشتر اس کے کہ میں اسے زبانی اختلاف بتاتا، جو کہ دنیا کی ہر زبان میں موجود ہے۔ اس نے ایک اور سوال کر دیا، ’’ابا تمہارا کیا خیال ہے؟ بھولا کہتا ہے بادلوں میں ایک ہاتھی چھپا ہوا ہے جو کہ اپنی سونڈ سے پانی برساتا ہے، اس لیے تو بارش ہوتی ہے۔‘‘

    اور تب ایک نیا سوال کر دیا، جب کہ میں اس کے پہلے سوال کا جواب دینے کے لیے تیار ہو رہا تھا، ’’ابا۔‘‘ منی نے کہا، ’’اماں کا اور آپ کا کیا رشتہ ہے؟‘‘

    ’’میری بیوی ہے۔‘‘ میں نے خود اسے کہا اور میرے پر غم غصہ ظاہر کرتے ہوئے منی کو حکم دیا، ’’منی جاؤ۔ بھولے کے ساتھ کھیلو۔ میں مصروف ہوں۔‘‘

    میرے کمرے کی کھڑکی سڑک کی طرف کھلتی ہے۔ بچہ میرے نزدیک ہی میرے قدموں میں بیٹھا ہوا کھیل رہا تھا اور میں سترہویں باب کا وہ حصہ بڑے انہماک کے ساتھ پڑھ رہا تھا جہاں کہ میرے ناول کا ہیرو پرتاپ سنگھ کنچن لتا کو ہاتھوں پر اٹھائے قلعہ کی تیسری منزل کی ایک کھڑکی سے بھاگ رہا تھا۔ یکایک منی نے اپنا کھیل بند کر دیا اور چلاتی ہوئی کمرے کی کھڑکی کی طرف بھاگی۔

    ’’کابلی والا۔۔۔ کابلی والا۔‘‘ واقعی نیچے گلی میں سے کابلی والا گزر رہا تھا۔ وہ اپنے ملک کے موٹے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ سر پر لمبی سی پگڑی تھی اور ہاتھوں میں انگور کے ڈبے اٹھائے ہوئے تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس آدمی کے متعلق میری منی کے کیا خیالات تھے لیکن اس نے اسے زور زور سے پکارنا شروع کر دیا۔

    ’’آہ۔‘‘ میں نے خیال کیا کہ ابھی وہ اندر آ جائےگا اور میرا سترہواں باب کبھی بھی ختم نہ ہوگا۔ عین اسی وقت کابلی والے نے مڑ کر بچے کو دیکھا۔ اس کو بہت ڈر لگا اور اپنی ماں کے آغوش میں چھپنے کے لیے بھاگی اور غائب ہو گئی۔ منی کا خیال تھا کہ کابلی والے کی پشت پر جو صندوقچہ ہے (جسے ایک آدمی نے اٹھایا ہوا ہے۔) اس میں اس کی عمر کے ہی دو تین بچے ہیں۔

    یہ پھیری والا اتنے میں میرے کمرے میں آ گیا اور متبسم لہجہ میں مجھے دعائیں دیں۔ میرے ناول کے ہیرو اور ہیروئن کی حالت نازک تھی۔ تاہم مجھے اس سے کچھ خریدنا ہی پڑا۔ اگر کوئی آجائے تو اسے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ چلاجا۔ اس خریدوفروخت کے دوران میں ہم میں روسیوں، انگریزوں اور سرحدی پالیسی کے متعلق باتیں ہوتی رہیں اور جب وہ جانے لگا تو اس نے پوچھا، ’’چھوٹی بچی کہاں ہے جناب؟‘‘

    میں نے اس خیال سے کہ منی کا جھوٹا خطرہ مٹ جائےگا، اسے باہر بلا لیا۔ وہ میری کرسی کے قریب کھڑی کابلی والے اور اس کے صندوقچے کو دیکھتی رہی۔ اس نے کابلی اخروٹ اور چمونے اسے دیے لیکن منی خوف سے میری ٹانگوں کے ساتھ پِلچتی گئی۔ یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔

    ایک صبح اس سے کچھ عرصہ بعد جب کہ میں اپنے گھر سے باہر چلا جا رہا تھا تو میں یہ دیکھ کر چوکنا سا ہو گیا۔ منی دروازے کے قریب بیٹھی ہوئی کابلی والے سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی جو کہ اس کے قدموں کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اپنی تمام عمر میں، مجھے یہی معلوم ہوا کہ سوائے اپنے باپ کے اتنا صابر دیکھنے والا نہیں دیکھا تھا۔ منی کی ساری کا آنچل باداموں اور چمونوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ کابلی والے کا تحفہ تھا، جو کہ اسے دیکھنے آیا تھا۔

    ’’تم نے یہ پھل اسے کیوں دیے؟‘‘ میں نے کہا اور جیب سے آٹھ آنے نکال کر دے دیے۔ اس شخص نے پیسے لے لیے اور جیب میں ڈال لیے۔ لیکن افسوس ایک گھنٹے کے بعد جب میں واپس آیا تو اپنی بیوی کو گھڑکیاں دیتے ہوئے سنا۔ بیچاری منی سے سوال پوچھے جارہے تھے کیونکہ اس کی ماں نے اس سے آٹھ آنے چھینے تھے جو کہ کابلی والا اسے واپس دے گیا تھا۔

    ’’تم نے یہ آٹھ آنے کہاں سے لیے؟‘‘

    ’’کابلی والے نے مجھے دیے۔‘‘ منی نے کہا۔

    ’’کابلی والے نے تجھے دیے؟‘‘ اس کی ماں غصے میں بولی۔

    ’’او منی تم نے یہ پیسے اس سے کیسے لیے؟‘‘

    میں نے اسی وقت کمرہ میں داخل ہوکر منی کو مار پڑنے سے بچا لیا اور اپنی تحقیق جاری کر دی۔

    یہ پہلا یا دوسرا موقع نہیں تھا۔ میں نے دیکھا کہ دونوں اکثر ملتے ہیں۔ کابلی والے نے باداموں اور چمونوں کی رشوت دے کر منی کے خوف کو دور کر دیا تھا۔ اب دونوں گہرے دوست تھے۔ وہ دونوں آپس میں عجیب و غریب مذاق کرتے تھے جو کہ ان کی مسرت کا باعث ہوتا ہے۔ منی کابلی والے کے مضبوط جسم کو دیکھ کر قہقہہ مارتی اور کہتی، ’’او کابلی والے۔ کابلی والے تمہارے صندوقچے میں کیا ہے؟‘‘ اور وہ اپنے پہاڑی لب و لہجہ میں کہتا، ’’ایک ہاتھی۔‘‘

    دونوں ہنس پڑتے تھے۔ ایسی باتیں انہیں بہت مسرور کرتی تھیں۔ تب کابلی والا بھی اس سے سوال کیا کرتا تھا۔ چھوٹی سی منی بتا سسر کے گھر کب جائےگی۔ اب تو چھوٹی بنگالی لڑکیاں سسر کے متعلق سب کچھ جانتی ہیں لیکن ہم نے اپنے بچے کو بچپن ہی سے ایسی باتیں نہیں سکھائی تھیں۔ اس لیے منی حیران ہو گئی اور بیساختہ اس کے منہ سے نکل گیا، ’’کیا تم وہاں جا رہے ہو؟‘‘

    کابلی والے کے درجہ کے لوگوں میں سسر کے دو معنی ہیں۔ وہ بیل کو بھی اسی نام سے پکارتے ہیں۔ اس لیے کابلی والے نے سر ہلاتے اور دانتوں کو پیستے ہوئے کہا، ’’میں سسر کا سر توڑ دوں گا۔‘‘ یہ سنتے ہی منی قہقہے مارنے لگتی اور بعد میں اس کا دوست کابلی والا بھی قہقہے مارنے لگتا۔

    کابلی والے کی موجودگی میں میری آنکھوں کے سامنے بلند چوٹیوں والے پہاڑوں کا منظر کھنچ جاتا تھا۔ پہاڑوں کی سنگلاخ چٹانیں۔۔۔ سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے درے۔۔۔ پہاڑوں سے میدانوں کی طرف جاتی ہوئی اونٹوں کی قطاریں اور پگڑی پوش مسلح تاجر۔۔۔ ہر چند میرے تصور کے سامنے گھومنے لگتی تھی۔ اس کے علاوہ منی کی ماں نے مجھے اکثر کہا تھا، اس شخص سے ہوشیار رہنا۔

    منی کی ماں بدقسمتی سے بڑی بزدل واقع ہوئی ہے۔ وہ جب کبھی گلی میں شور سنتی ہے یا لوگوں کو اپنے مکان کی طرف آتے دیکھتی ہے، وہ ہمیشہ یہی نتیجہ نکال لیتی ہے کہ وہ چور، شرابی، سانپ چیتے یاانگلش جہازران ہیں۔ باوجود تجربہ وقت کے وہ اپنے خطرے کو دور نہیں کر سکی۔ اس لیے اسے کابلی والا پر شک تھا اور مجھے اس پر نظر رکھنے کی تلقین کیا کرتی تھی۔

    میں قہقہہ مارتے ہوئے اس خطرے کو دور کرنے کی کوشش کرتا لیکن وہ مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دیتی تھی۔ کیا بچے کبھی اغوا نہیں ہوئے؟ کیا کابل میں غلامی نہیں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک مضبوط انسان چھوٹے سے بچے کو اٹھاکر لے جائے۔ اس کے سوالات معقول تھے لیکن میں نے اس شخص کو گھر پر آنے سے نہ روکا اور یہ دوستی روزبروز پروان چڑھتی گئی۔

    سال میں ایک دفعہ جنوری کے درمیان میں رحیمان کابلی والے کی عادت تھی کہ وہ واپس اپنے ملک میں جاتا تھا۔ اس لیے جونہی وہ وقت قریب آتا تو وہ گھر گھر سے اپنا ادھار فراہم کرتا تھا۔ اس سال وہ منی کو بروقت مل سکتا تھا، جسے دیکھ کر کسی دوسرے شخص کو یہی گمان ہوتا تھا کہ ان دونوں کے درمیان کوئی خاص سازش پوشیدہ ہے۔ کیونکہ جب وہ صبح کو نہ آتا تو شام کو ضرور آتا تھا اور میں بھی یہ دیکھ کر چوکنا ہو جاتا تھا۔ جب کہ کمرے کی تاریکی میں کابلی والا رونما ہوتا اور منی کابلی والا۔۔۔ کابلی والا پکارتے ہوئے اس کی طرف بھاگتی تھی اور فوراً ہی بعد دونوں ہنسنے لگ جاتے تھے۔

    ایک صبح کابلی والے کے واپس جانے سے چند دن پیشتر میں کمرے میں بیٹھا ہوا محو مطالعہ تھا۔ موسم سرد تھا۔ کھڑکی سے سورج کی کرنیں میرے پاؤں پر گر رہی تھیں اور خفیف سی حرارت پہنچا رہی تھیں۔ اس وقت تقریباً آٹھ بجے کا وقت تھا اور پٹری پر چلنے والے اپنے سروں کو ڈھانپے ہوئے ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔

    یکایک میں نے گلی میں شور سنا۔ باہر گردن نکال کر دیکھا تو کابلی والا دوپولیس سپاہیوں کے درمیان آ رہا تھا اور اس کے پیچھے لڑکوں کا ہجوم تھا۔ کابلی والے کے کپڑوں پر خون کے چھینٹے پڑے ہوئے تھے اور ایک سپاہی چاقو اٹھائے ہوئے تھا۔ میں جلدی سے باہر نکلا اور پوچھا کیا معاملہ ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ ایک شخص نے رام پوری شال کا سودا کیا لیکن بعد ازاں اس نے خریدنے سے انکار کر دیا اور اسی جھگڑے کے دوران میں رحیماں نے اسے زخمی کر دیا اور اب اپنے غصے کی حرارت میں مجرم اپنے دشمن کو مختلف برے ناموں سے پکار رہا تھا۔ یکایک میری بچی منی اس کی آواز سن کر میرے مکان کے برآمدے میں آئی اور کہنے لگی، ’’او کابلی والا، کابلی والا۔۔۔‘‘

    جونہی رحیمان نے اسے دیکھا، اس کا چہرہ تمتما اٹھا۔ آج اس کے ساتھ ہاتھی کے متعلق گفتگو نہ کرسکی لیکن اس نے دوسرا سوال کردیا، ’’کیا سسر کے گھر جا رہے ہو؟‘‘

    ’’ہاں چھوٹی منی۔‘‘ رحیمان نے کہا اور یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ خاموش نہیں ہوئی، اس نے اپنے زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہاتھوں کو اوپر اٹھایا اور کہنے لگا، ’’میں نے اس بوڑھے سسر کا سر توڑ دیا ہوتا لیکن میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔‘‘

    رحیماں قاتلانہ حملہ کے جرم میں چند سال کے لیے قید کردیا گیا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور وہ منی کے دل سے فراموش ہوتا گیا۔ اب منی اپنے نئے ساتھیوں میں اپنے لیے دلچسپی تلاش کرنے لگی۔ جوں جوں وہ جوان ہوتی گئی، اس نے اپنا زیادہ وقت لڑکیوں میں صرف کرنا شروع کر دیا تھا۔

    کئی سال گزر گئے تھے۔ یہ موسم خزاں کا مہینہ تھا اور ہم منی کی شادی کا انتظام کر رہے تھے، جو کہ پوجا کی چھٹیوں میں ہونی تھی۔ صبح منور تھی۔ بارش کے بعد ہوا میں نمی موجود تھی اور سورج کی کرنیں اصلی سونے کی مانند دکھائی دیتی تھیں۔ علی الصبح ہی میرے گھر کے دروازے پر شادی کی شہنائیاں بج رہی تھیں اور ان کی آواز میرے دل پر جدائی کی ضرب لگا رہی تھی۔ کیونکہ آج رات کو منی کا بیاہ تھا۔

    صبح ہی سے مکان میں شور وشر گونج رہا تھا۔ میرے مکان کے برآمدمے میں تنبو تنا ہوا تھا جو کہ درمیان میں ایک بانس کا سہارا لیے ہوئے تھا اور میں کمرے میں بیٹھا ہوا محو مطالعہ تھا۔ باہر تنبو کے گرداگرد لوگوں کی ریل پیل دکھائی دے رہی تھی۔ اتنے میں ایک شخص کمرے میں آیا، یہ کابلی والا تھا۔ رحیمان۔۔۔ کابلی والا۔۔۔ پہلے تو میں پہچان نہ سکا۔ کیونکہ نہ تو اس کی پشت پر صندوقچہ تھا اور اب تو اس کا مضبوط جسم بھی ڈھل چکا تھا لیکن جب وہ مسکرایا تو میں اسے پہچاننے میں کامیاب ہوا۔

    ’’تم کب آئے رحیمان؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔

    ’’گزشتہ رات۔‘‘ اس نے کہا، ’’مجھے جیل سے رہا کیا گیا تھا۔‘‘

    ’’آج یہاں رسومات ادا کی جا رہی ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’اور میں مصروف ہوں۔ یہاں پر کسی دن آ سکتے ہو؟‘‘ فوراً ہی وہ جانے کے لیے مڑا لیکن جونہی وہ دروازے کے قریب پہنچا۔ وہ ہچکچایا اور بولا، ’’کیا میں ایک لمحہ کے لیے منی کو نہیں دیکھ سکتا جناب۔‘‘

    اس کا خیال تھا کہ منی ابھی بچی ہی ہوگی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہ نقشہ کھنچ گیا جب کہ منی، کابلی والا۔۔۔ کابلی والا کرتے ہوئے اس کی طرف بھاگتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اسی طرح آپس میں ہنسی مذاق کریں گے، جس طرح کبھی کیا کرتے تھے۔ حقیقتاً اس نے ان گزرے ہوئے دنوں کے تصور کے زیر اثر یہاں آنے کی جرأت نہ کی تھی اور پہلے کی طرح انگور، اخروٹ اور چھوہارے لایا تھا، جو کہ اس نے اپنی جیب کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ملک کے کسی شخص سے خریدے تھے۔ میں نے دوبارہ کہا، ’’آج گھر میں رسم ہے، اس لیے تم آج کسی سے بھی نہیں مل سکتے۔‘‘ اس کا چہرہ اتر گیا اور اس نے ایک لمحہ کے لیے مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھا اور یہ کہتا ہوا باہر نکل گیا، ’’صبح بخیر۔‘‘

    مجھے اس کے چلے جانے پر بہت افسوس ہوا اور چاہا کہ اسے واپس بلالوں لیکن وہ خود ہی واپس آ گیا اور کہنے لگا، ’’جناب میں یہ چند چیزیں چھوٹی سی منی کے لیے لایا تھا۔ یہ آپ اسے دے دیں۔‘‘ میں نے انہیں لے لیا اور اسے پیسے دینے لگا تھا کہ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا، ’’آپ بڑے مہربان ہیں جناب۔ مجھے دولت پیش مت کرو۔۔۔ آپ کے پاس ایک چھوٹی سی لڑکی ہے اور بعینہ ایسی ایک لڑکی میرے گھر میں موجود ہے۔ مجھے اس کا خیال ہے اور تمہارے بچے کے لیے پھل لاتا ہوں۔۔۔ اپنے لیے نفع پیدا کرنے کے لیے نہیں۔‘‘

    اتنا کہنے کے بعد اس نے اپنے بڑے لبادے سے کاغذ کا ایک ٹکڑا رکھ دیا اور اسے دونوں ہاتھوں سے کھولا۔ یہ ڈرائینگ نہ تھی اور نہ ہی فوٹوگراف۔ جب کہ کاغذ پر ایک چھوٹے سے ہاتھ کا سیاہی کا نشان تھا اور یہی نشان اسے اس قابل بناتا تھا کہ وہ کلکتہ کی گلیوں میں ا پنا سودا بیچ سکے۔ میری آنکھوں سے آنسو آ گئے۔ میں یہ بھول گیا کہ وہ غریب کابلی پھل بیچنے والا ہے جب کہ میں۔۔۔ لیکن نہیں، میں اس سے زیادہ کیا بتا سکتا تھا۔ وہ بھی میری طرح باپ تھا۔ اس کی پہاڑوں میں رہنے والی چھوٹی سی ’’پاربتی‘‘ کے ہاتھ کے نشان نے مجھے منی کی یاد دلا دی۔

    میں نے فوراً ہی اندر سے منی کو بلوا بھیجا۔ بہت سی مشکلات حائل ہوئیں لیکن میں نے پرواہ نہ کی۔ منی شادی کے لال سلک کے کپڑے پہنے ہوئے تھی۔ اس کے ماتھے پر صندل کا قشقہ چمک رہا تھا۔ وہ ایک جوان دلہن کی طرح آئی اور میرے پاس پرحجاب کھڑی ہو گئی۔ کابلی وانے نے اسے دیکھا، اس کی آنکھوں میں گزرے ہوئے دنوں کا نقشہ کھنچ گیا اور ہنستے ہوئے بولا، ’’چھوٹی سی منی کیا تم اپنے سسر کے گھر جا رہی ہو؟‘‘

    لیکن اب منی لفظ کے معنی سمجھتی تھی، اس لیے وہ خاموش رہی اور نئی نویلی دلہن کی طرح سرنگوں کھڑی رہی۔ اس کے بعد وہ چلی گئی اور رحیمان نے ایک سرد آہ بھری اور فرش پر بیٹھ گیا۔ اسے خیال آیا کہ اس کی لڑکی بھی اس لڑکی کی طرح اب جوان ہوگی اور اسے اس کو ایک نئے دوست سے آشنائی کروانی ہے آہ۔۔۔ معلوم نہیں، ان آٹھ سالوں میں اس کے ساتھ کیا بیتی؟

    شادی کی شہنائیاں گونج رہی تھیں اور سورج اپنی کرنیں ادھر ادھر پھینک رہا تھا لیکن رحیمان کلکتہ کی ایک گلی میں خاموش بیٹھا تھا اور اس کی آنکھوں کے سامنے افغانستان کے بنجر پہاڑ گھوم رہے تھے۔ میں نے اسے ایک نوٹ دیتے ہوئے کہا، ’’رحیمان اپنے ملک کو واپس چلے جاؤ اور اپنی بچی سے ملو، ممکن ہے یہ کار ثواب میری بچی کی مسرتوں میں اضافہ کر دے۔‘‘

    اس کے بعد میں چند ضروری کاموں میں لگ گیا کیونکہ میں نے سوچا ہوا تھا کہ بجلی کے بلب جلائے جائیں گے اور ملٹری کا بینڈ بھی منگواؤں گا لیکن گھر کی عورتوں کو میرے اس پروگرام سے محروم ہونا پڑا کیوں کہ اس شادی سے زیادہ مجھے جس چیز کی مسرت تھی وہ یہ تھی کہ ایک مدت کا کھویا ہوا باپ دور کسی ملک میں جاکر پھر اپنے اکیلے بچے سے ملےگا۔

    مأخذ:

    انار کلی (Pg. 23)

    • مصنف: رابندرناتھ ٹیگور
      • ناشر: آزاد بک ڈپو، لاہور
      • سن اشاعت: 1945

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے