Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کفن

MORE BYعلی عباس حسینی

    کہانی کی کہانی

    حمید اور نصیر اپنے مرحوم باپ سے بہت محبت کرتے تھے۔ کفن دفن کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ انھیں کس کپڑے کا کفن دیا جائے۔ گاڑھے کا کفن ان کی شان کے خلاف ہوگا اور لٹھا تو شہر میں ہی دستیاب ہوگا۔ برسات کا موسم ہے، شام کا وقت ہے اور کپڑے پر کنٹرول بھی چل رہا ہے۔ اس کے باوجود نصیر شہر جاتا ہے اور حکام کے دربار کی خاک چھانتا ہوا بلیک میں لٹھے کا کپڑا لے آتا ہے، جب تک وہ کپڑا لے کر آتا ہے تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

    حمید و نصیر دونوں بھائی گلے میں باہیں ڈالے باپ کی لاش کے پاس بیٹھے رو رہے تھے اور ان کا ہنس مکھ چہرہ ان کی نظروں میں پھر رہا تھا۔ کیسا ہی غم ہو اپنے بچوں کو دیکھ کر کھل جاتے تھے۔ ان کے زرد جھری دار چہرے پر مسرت کی لہریں اسی طرح دوڑتی محسوس ہوتی تھیں جس طرح پھولی ہوئی سرسوں کے کھیت میں ٹھنڈی ہوا کے تند جھونکے تموج پیدا کر دیتے ہیں۔

    دونوں عیاں دار تھے، بیوی بچوں والے۔ لیکن اب بھی وہ انہیں فکرمند دیکھ کر اسی طرح چمکارتے۔ ان کی پیٹھیں ٹھونک کر سمجھاتے جیسے وہ اب بھی صندلی پاؤں پر چلنے والے بچے تھے۔ کہتے، ’’میں تو ابھی زندہ ہوں تمہیں کاہے کی فکر ہے؟‘‘ اسی آخری علالت کو لے لیجیے۔ دونوں باہر تھے۔ تار دے کر بلائے گئے تھے۔ بہن کہتی تھی جب بیہوشی سے افاقہ ہوتا دعا مانگتے، ’’میرے مالک بس اتنی مہلت چاہتا ہوں کہ میں اپنے دونوں بچوں کو ایک نظر دیکھ لوں! میرا کفن دفن انہیں کے ہاتھوں میں انجام پائے۔‘‘ جب دونوں سراسیمہ و بدحواس گھر پہنچے تو ان کے پکارنے پر آنکھیں کھول دیں۔ مسکرائے اور بولے، ’’خدا کا شکر ہے۔ تم دونوں کو دیکھ لیا۔‘‘ پھر نصیر کا ہاتھ حمید کے ہاتھ میں دے کر بولے، ’’حمید تم بڑے ہو۔ نصیر کو بیٹے کی طرح سمجھنا۔ نصیر، دیکھو بیٹے۔ حمید میری جگہ پر ہیں اور بیٹو کفن دفن میں زیادہ پریشانی نہ اٹھانا۔‘‘ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بس اتنے ہی کے لیے جان اٹکی تھی۔ ایک ٹھنڈی سانس لی اور دنیا سے سدھارے۔

    ایسا شفیق باپ جب اٹھ جائے تو حمید و نصیر کی آنکھیں گنگا جمنا کیوں نہ بن جائیں۔ وہ دنیا و مافیہا کو بھولے ہوئے رو رہے تھے۔ انہیں نہ تو بہن کے سنبھالنے کا ہوش تھا اور نہ یہ یاد تھا کہ مردہ زندوں کے لیے بہت سے فرائض چھوڑ جاتا ہے۔ وہ یونہی سسک رہے تھے کہ دفعتاً ان کے خاندانی بزرگ نوازش میاں آ گئے۔ انہوں نے حمید کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سمجھانے والے لہجہ میں کہا، ’’باہر چلو۔ کفن کا انتظام کرنا ہے۔‘‘

    حمید نے گھبراکر ان کا منھ دیکھا۔ ہاتھ پاؤں ڈالے۔ ایک بے بس تنکے کی طرح وہ غم کے دھارے پر اس وقت بہا چلا جا رہا تھا۔ نوازش میاں کی یہ مداخلت بہت کھلی لیکن اس نے اپنے کو سنبھالا۔ واقعی اسے اپنے پیارے باپ کے دفن و کفن کا انتظام کرنا ہوگا۔ گاؤں سے بھر قبر کھودنے کے لیے۔ شہر سے چھالین کفن کے لیے منگوانا ہوگا۔ اعزا و برادری سے بھگتنا پڑےگا۔ تیجا ہوگا۔ چھ ماہی ہوگی، دیسہ ہوگا اور ابھی برسوں ہی تو بقول اکبر، ’’پلاؤ کھائیں گے، احباب فاتحہ ہوگا!‘‘

    راستہ میں نوازش میاں نے اس سے آہستہ آہستہ کہا، ’’بیٹے کفن ملنا بہت مشکل ہے۔ نصیر! تم شہر جاؤ تو شاید اچھا چھالٹین مل جائے۔‘‘

    حمید نے کفن ملنے میں جو آج کل دقتیں ہیں ان کو دفعتاً محسوس کیا۔ طبیعتیں ابھی تک کنٹرول کی عادی نہیں ہوئی ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کے دماغ میں چھالٹین ملنے کی دقتیں ایک کے بعد ایک آنا شروع ہوئیں اور دل ہی دل میں باپ کے لیے کفن ملنے اور نہ ملنے کے امکانات پر وہ غور کرنے لگا۔ اسی طرح سوچتاہوا جب وہ باہر آیا تو وہاں دالان میں تخت، پلنگ اور کرسیوں پر گاؤں کے اکثر بوڑھے اور جوان بیٹھے تھے اس نے بسورتے ہوئے ملازم کو آواز دی۔

    ’’جھمن بھروں کو بلاکر قبر کی جگہ بتا دو۔‘‘ نوازش میاں نے پھر کہا، ’’بیٹے، یہاں کا سب انتظام ہم لوگ کر دیں گے، تم کفن کی فکر کرو۔‘‘

    حمید نے اپنے میں عجیب طرح کی بےبسی محسوس کی۔ شہر یہاں سے آٹھ کوس دور اورسڑک خام۔ برسات کا زمانہ، دو بجے دن کا وقت، کب روانہ ہوگا، کب شہر پہنچےگا کب درخواست دےگا، کب کفن ملےگا۔ اس نے اعزا کا منہ دیکھا۔ ہر ایک کی گردنیں جھک گئیں۔ نوجوان بڑبڑائے، ’’خدا غارت کرے اس کنٹرول کو!‘‘ بڑے بوڑھے بولے، ’’کیا زمانہ لگا ہے!‘‘

    حمید نے گھٹی آواز میں پوچھا، ’’کیا گاؤں میں اب کوئی جولاہا کپڑا نہیں بنتا؟‘‘

    نوازش میاں نے اظہار ناراضگی کیا، ’’کیا بھائی بشیر کو گاڑھے کا کفن دوگے۔‘‘

    ایک بزرگ بولے، ’’زندگی بھر انہوں نے اچھے سے اچھا کھایا، اچھے سے اچھا پہنا۔ اب کفن دیا جائےگا گاڑھے کا، سبحان اللہ!‘‘

    نصیر نے جوباہر آ گیا تھا۔ جھڑک کے کہا، ’’نہیں صاحب ہماری موجودگی میں تو ایسا نہیں ہوگا۔ میں ابھی شہر جاکر انتظام کرتا ہوں۔‘‘

    حمید نے سر جھکا لیا۔ اس کو باپ سے حددرجہ محبت ہوتے ہوئے بھی بار بار یاد آ رہا تھا کہ بردیمنی بھی گاڑھا ہی ہوتا ہے۔ لیکن بھری برادری کے سامنے وہ سُبک نہیں ہو سکتا تھا۔ سب یہی کہیں گے، ’’میاں حمید نے چند پیسوں کا منہ دیکھا اور باپ کو گاڑھے میں لپیٹ کر گاڑ توپ دیا!‘‘

    نصیر نے گاؤں کا یکہ منگوایا اور روانہ ہو گیا۔ لاغر ٹٹو، کچی سڑک، جگہ جگہ پر کیچڑ اور پانی۔ ادھر جوانی کی جلدی، شہر پہنچنے کی بیتابی، اپنی بات رکھنے کی دھن، وہ ہر پانچ منٹ پر یکہ بان سے تاکید کرتا۔ ’’جلدی چلو، تیز ہنکاؤ۔‘‘ یکہ بان کو بھی لاگ تھی۔ وہ بھی گاؤں کے ’’رئیس کی لہاس‘‘ سے ہمدردی کے سلسلے میں بے زبان سے ہمدردی بھول جاتا۔ کبھی ٹٹو کی پھیک سے تواضع کرتا۔ کبھی لگام کے پھرے سے۔ کبھی گھوڑے کے ساتھ خود بھی دوڑتا۔ کبھی یکہ پر بیٹھ کر جانور کو پیٹتا۔ خود بھی پسینہ اور کیچڑ میں بستا جاتا تھا اور ٹٹو کی بھی وہی حالت بناتا جاتا تھا۔ جہاں سڑک برابر ہوتی یکہ کے پہیے ڈگڈگی کی طرح ہلتے۔ جہاں کیچڑ ہوتی وہاں اس طرح پھنستے جیسے کیل دیے گئے ہوں۔ یکہ کیا تھا دیہاتی میلوں کا ڈولی والا جھولا تھا۔ نصیر جھنجھنے میں رکھی ہوگی گولیوں کی طرح اچھلتا اور بھرتا بنتا رہا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بعض جگہیں ایسی بھی ملیں جہاں گھٹنوں تک پانی تھا اس میں یکہ بان اور ٹٹو اس طرح چلتے کہ معلوم ہوتا۔ پانچ چار آدمی ایک ساتھ نہانا سیکھ رہے ہیں۔ تھوری ہی دیر میں نصیر کی وہ قطع بن گئی جیسے وہ یکہ پر رہنے کی جگہ گاؤں کے کسی نیم خشک تالاب میں مچھلی پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ چہرہ پر، ٹوپی پر، شیروانی پر، پانی اور کیچڑ کی گلکاریاں ہو گئیں۔ اس نے گھبراکر شیروانی اور ٹوپی اتاری اور مع نوٹوں کے انہیں لپیٹ کر یکہ کے بکس میں رکھ دیا۔

    معلوم ہوتا تھا قدرت کو آج اس کا امتحان لینے میں ہی مزا آرہا تھا۔ اس لیے کہ کوئی نصف گھنٹہ کے بعد اتر پورب کے کونے سے کالی گھٹا اٹھی۔ پہلے تو سورج کی گرمی میں کمی محسوس کی۔ پھر کھیتوں کی ہریالی میں حلقہ سا پڑنے لگا۔ پھرایک سنسناہٹ کی سنائی دی اور ایک طوفان نما تند ہوا کے ساتھ بارش ہونے لگی۔ خیریت ہوئی کہ تھوڑی ہی دور پر املی کا ایک جنگلی درخت تھا۔ اس نے پورے یکے کے لیے چھتری کا کام دیا۔ بھیگے تو ضرور مگر بری طرح نہیں۔ جب پانی کا زور کم ہوا تو پھر چلے۔ لیکن اگر پہلے رفتار پانچ میل فی گھنٹہ تھی تو اب تین ہی میل رہی۔ بعض وقت تو یہ خیال ہوتا کہ اگر پیدل چلتے تو اس سے بہتر ہی رہتے۔ بارے شہر کے قریب پہنچتے پہنچتے ابر چھٹ گیا۔ خاصی دھوپ نکل آئی اور نصیر یکہ پر بیٹھا ہی بیٹھا رس گلے کی جگہ گھٹلی دار گلاب جامن بن گیا۔ اس نے بھیگی ہوئی بنیائن اتار کرنچوری۔ شیروانی پہن کر پائجامہ بھی ایک حدتک خشک کیا اور چھ بجتے بجتے شہر میں داخل ہوا۔

    کچہریاں اور دفتر بند ہو چکے تھے۔ بازار میں تھوڑی بہت چہل پہل تھی۔ دوکانیں کھلی تھیں۔ لیکن سوائے مٹی کے تیل والوں کے کسی کے ہاں بھیڑ نہ تھی۔ کپڑے کی دوکانیں بند تھیں اور جو کھلی تھیں ان کی لٹی پٹی حالت بالکل دیدہ بے نور کی سی تھی۔

    نصیر نے ایک بزار سے پوچھا، ’’کفن کے لیے چھالیٹن چاہیے۔ کہاں ملےگی؟‘‘

    اس نے نصیر کو بڑے رحم سے دیکھا، ’’میاں کپڑے پر کنٹرول ہے۔ کفن کے لیے صرف ایک دوکان ہے۔ وہیں جائیے۔‘‘

    نصیر نے پوچھا، ’’پرمٹ کی تو ضرورت نہ ہوگی؟‘‘

    اس نے بتایا، ’’بغیر پرمٹ کے تو آپ کو ایک چٹ بھی نہیں مل سکتی۔ آپ سیدھے سپلائی آفیسر کے پاس جائیے، وہی انتظام کریں گے۔‘‘

    نصیر ان کے بنگلے کا راستہ پوچھتا وہاں پہنچا۔ پھاٹک کے باہر ہی یکہ روک دیا گیا۔ صاحب کی خبردریافت کی تو معلوم ہوا۔ ٹینس کھیلنے تشریف لے گئے ہیں۔ چپراسیوں کی سردمہری ہاتھوں کے گرم کرنے سے نرم پڑی۔ ایک تپائی بیٹھنےکو ملی۔ سفارش کا وعدہ ہوا۔ آٹھ بجے سپلائی آفیسر صاحب تشریف لائے۔ پھاٹک پر ایک بڑا سا یکہ ٹکا ہوا دیکھتے ہی منغض ہوگئے۔ برساتی میں موٹر سے اترتے ہی پوچھا، ’’اس وقت کون آیا ہے۔‘‘

    جہاندیدہ چپراسی نے ہمدردی کے لہجے میں کہا، ’’حضور دیہات سے ایک شریف آدمی پریشان آئے ہیں۔‘‘

    حکم ہوا، ’’کہہ دو ہم اس وقت کسی سے نہیں مل سکتے۔‘‘

    چپراسی نے کہا، ’’حضور وہ بیچارے آٹھ میل سے اپنے باپ کے کفن کے لیے آئے ہیں۔‘‘

    ’’تو ان کو اپنے تحصیلدار کے پاس جانا چاہیے تھا۔ پھر منہ لگے چپراسی کو بغور دیکھ کر بولے، ’’اچھا بلا لو۔‘‘

    نصیر نے حاضر ہوتے ہی فراشی سلام کیا۔

    ’’تم کس گاؤں میں رہتے ہو؟‘‘

    ’’حضور، عمر پور میں۔‘‘

    ’’تو تم اپنے تحصیلدار کے پاس کیوں نہیں گئے۔‘‘

    ’’سرکار، بیچ کی ندیاں چڑھی ہوئی ہیں۔ تحصیل کو راستہ آج کل شہر سے ہی ہوکر جاتا ہے۔ پھر میں نے کہا۔ سرکار ضلع بھر کے مالک ہیں۔ اسی دربار سے سب کچھ مل جائےگا۔‘‘

    فولاد کو چپڑنے نرم کر دیا۔ بولے، ’’آپ نے غلطی کی۔ کوئی بات خلاف قانون نہیں ہو سکتی۔‘‘

    چپراسی نے ٹکڑا لگایا، ’’حضور رات کے نو بجے یہ بیچارے تحصیل کیسے جائیں گے، وہاں کب پہنچیں گے۔‘‘

    چپراسی پر پھر ایک نظر غلط انداز پڑی، ’’اچھا یہیں شہر کی دوکان سے لے لیجیے میں پرمٹ لکھے دیتا ہوں۔‘‘

    نصیر پھر دوہرا ہو گیا۔ ڈپٹی صاحب اندر تشریف لے گئے۔ چپراسی نے پرزہ لاکر ایک ہاتھ میں دیا۔ دوسرے سے ایک کرنسی نوٹ لے گیا۔

    یکہ پر سوار ہوکر نصیر پھر بازار گیا۔ وہاں کفن والی دوکان بند ہو چکی تھی۔ بزاز کے گھر کا پتہ پوچھتا ہوا اس کے گھر پہنچا۔ وہ جیسے چھیتھڑوں سے بیزار بیٹھا تھا۔ حد سے زیادہ خفاہوا۔‘‘ واہ صاحب واہ! نوبجے کا سمے اور اب آپ کفن لینے آتے ہیں۔ نہ وکھت دیکھتے ہیں نہ ناوکھت۔ آکھر ہم بھی آدمی ہیں۔ دو گھڑی ہم کو بھی آرام کے لیے چاہیے۔‘‘

    غرض والا باؤلا ہوتا ہے۔ نصیر نے اس کی بھی خوشامد کی۔ یکہ پر بٹھاکر دوکان تک لایا۔ موٹے موٹے قفل کھولے گئے۔ تختے ہٹائے گئے۔ لیکن دوکان کے اندر اندھیرا پاک! نصیر نے دیا سلائی بڑھائی۔ وہ بھی سیلی ہوئی تھی۔ بڑی مشکل سے جلی۔ کڑوے تیل کا ایک دیا ایک کونے میں رکھا تھا۔ وہ روشن کیا گیا۔ مارکین کے تھانوں کا ایک انبار دکھائی دیا۔ بزاز نے پوچھا، ’’کے گزلوگے میاں؟‘‘ نصیر کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کفن میں کتنا کپڑا صرف ہوتا ہے۔ وہ بولا، ’’جتنا سب کو دیتے ہیں۔ اس سے دوتین گز زیادہ ہی دے دو۔‘‘

    اس نے ایک تھان کھینچتے ہوئے کہا، ’’تو یہی کوئی چوبیس گز دے دوں؟‘‘ اور ناپنا شروع کیا۔

    نصیر نے گھبراکر کہا، ’’ارے بھائی یہ تو مارکین ہے۔ مجھے تو چھالٹین چاہیے۔‘‘

    اس نے کہا، ’’کفن کے لیے مارکین ہی دینے کا حکم ہے۔‘‘

    نصیر نے کہا، ’’تو میں تو مارکین نہ لوں گا۔‘‘

    اس نے تھان پٹک دیا، ’’تو بن ناہک ہی مجھ کو پریشان کیا۔ پہلے ہی بتا دیا ہوتا۔‘‘

    نصیر نے سرپکڑ لیا۔ بزاز بڑبڑاتا رہا، ’’نہ لینا ایک نہ دینا دو۔ مجھ کو گھر سے پکڑ لائے جیسے میں ان کا بسایا ہوا ہی تو ہوں!‘‘

    نصیر نے کہا، ’’کیوں بھائی کیا اس دیس سے چھالٹین کے ساتھ ہمدردی بھی اٹھ گئی ہے؟ میں پرسوں مظفرنگر سے چلاہوں۔ آج صبح گھر پہنچا ہوں۔ دوپہر میں باپ نے انتقال کیا۔ ان کی لاش چھوڑ کر آٹھ کوس سے بھیگتا آرہا ہوں۔ رویا پیٹا ہوں آٹھ پہر سے ایک کھیل اڑکر منہ میں نہیں گئی ہے۔ سب سے کہہ آیا تھا باپ کے کفن کے لیے چھالٹین لے کر آؤں گا! اب تم ہی بتاؤ کیا کروں؟‘‘

    بزاز پر بھی اثر ہوا۔ اس کے پتا جب سورگباش ہوئے تھے تو اس نے ان کو کیسی بڑھیا چھالٹین میں لپیٹتا تھا۔ کیسی قیمتی شال اڑھائی تھی۔ شہر کے کتنے باجے لاش کے ساتھ کئے تھے، کتنے روپے پیسے شہر میں لٹائے تھے۔

    وہ نرم ہوکر بولا، ’’میاں سمے ہی ایسا لگا ہے۔ کیا کیا جائے؟‘‘

    نصیر نے اس کی ہمدردی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، ’’توبھیا تمہیں کوئی صورت بتاؤ۔‘‘

    اس نے کہا، ’’میاں تو اپنے تحصیلدار کے پاس جاؤ۔ وہ شاید آپ لوگوں کو جانتے ہوں گے۔ وہ دلوادیں گے۔ نہیں تو (اِدھر ادھر دیکھا) چور بازار جائیے۔‘‘

    نصیر نے آخری فقرہ پر کوئی دھیان نہ دیا۔ وہ ارتکاب جرم پر ابھی آمادہ نہ تھا۔ اس نے بزاز سے پوچھا، ’’کوئی یکہ مل جائےگا تحصیل تک جانے کے لیے اس وقت؟‘‘

    بزاز نے کسی قدر آزردگی سے کہا، ’’سرائے میں جاکر پوچھیے۔‘‘

    نصیر نے سرائے میں پہنچ کر گاؤں کا یکہ کھلوا دیا۔ یکہ بان بھی کھیت آ چکا تھا اور اس کا مریل ٹٹو بھی۔ بڑی مشکلوں سے چوگنا کرایہ دینے پر یکہ تحصیل جانے کے لیے تیار ہوا۔ نصیر نے نہ تو وقت کاخیال کیا اور نہ راستہ کے خطرات کا۔ روانہ ہو گیا۔ بارے وہاں تک پختہ سڑک تھی۔ گھوڑا بھی تازہ دم تھا۔ کوئی گیارہ بجتے بجتے وہاں پہنچ گیا۔ معلوم ہوا سرکار محل سرا میں آرام فرما رہے ہیں۔ اردلیوں کو نذر دی۔ وہاں تک اطلاع بھجوائی، جواب ملا۔ صبح کے پہلے کسی طرح باریابی ممکن نہیں۔

    سنگ آمد و سخت آمد۔ وہیں اردلیوں کی پناہ میں رات بھر پڑا رہا۔ خیریت ہوئی کہ رات میں باران رحمت نے زحمت نہ دی۔ پھر بھی مچھروں کی یورش اور باپ کی بےکفن لاش کے خیال نے سونے نہ دیا۔ مرغ سحر کی بانگ پر ’’تیری آواز مکے اور مدینے!‘‘ کہتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ اس وقت سے انتظار شروع ہوا کہ سرکار برآمد ہوں تو عرضی پیش ہو۔ سات بجے، آٹھ بجے، نو بجے، دس بجے خبر ملی تحصیلدار صاحب غسل فرما رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ عمال دفتر بھی آنے لگے۔ واصل باقی نویس صاحب، اہلمد صاحب، پیشکار صاحب، مقدمے والے، وکلا، اہل غرض، قصبہ کے شرفا اور عمائد۔ ہر شخص منتظر تھا کہ گیارہ بجے حضور نکلے۔

    نصیر بےچین تھا۔ خدا ہی جانے رات بھر میں بہن نے باپ کی لاش دیکھ دیکھ کر کتنا پیٹا ہوگا۔ کیا حالت بنالی ہوگی اپنی۔ وہ بےصبری سے آگے بڑھا۔ اس نے سلام کیا۔ انہوں نے منغض چہرے سے اسے دیکھ کر پوچھا۔ یہ گیارہ بجے رات کو تم ہی آئے تھے۔‘‘

    اس نے ڈرتے ہوئے کہا، ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’تو تمہیں اتنا معلوم نہیں کہ چار بجے کچہری بند ہو جاتی ہے۔ پھر میرا وقت میرا ہوتا ہے، پبلک کا نہیں!‘‘ غضب کی رعونت تھی لب و لہجہ میں۔

    ’’سرکار میں درد رسیدہ ہوں۔ باپ کی لاش کل سے بےکفن پڑی ہے۔‘‘ موربے حقیقت اب بھی اپنی جگہ نہیں پہچان رہی تھی۔

    ’’تو حضور نے اطلاع بھیج دی ہوتی۔ سارے سرکاری کام چھوڑ کر ہم لوگ حاضر ہو جاتے۔‘‘ اب ان کے گداز چہرے پر بالکل ویسی ہی مسکراہٹ تھی جیسی بلی کے چہرے پر چوہے سے کھیلتے وقت پیدا ہو جاتی ہے۔

    نصیر اس زہر میں بجھے ہوئے تیر کو بھی شیر و شہد کا گھونٹ بنا گیا۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا:

    ’’حضور بس اتنی سرپرستی کر دیں کہ چوبیس گز چھالٹین کے لیے حکم دے دیں۔‘‘

    تحصیلدار صاحب تصنع سے جھجک کر پیچھے ہٹے۔ پھر بولے، ’’سنا نائب صاحب آپ کو چوبیس گز چھالٹین چاہیے۔ وہ بھی کفن کے لیے!‘‘ کچہری میں ایک فرمائشی قہقہ پڑا۔

    تحصیلدار صاحب نے متین بن کر کہا، ’’ارے صاحب آپ لوگ ہنس رہے ہیں۔ چہ! چہ! چہ! پیشکار صاحب فوراً گورنمنٹ آف انڈیا کو حکم نامہ جاری کیجیے کہ چوبیس گز چھالٹین ہوائی جہاز کے ذریعہ اس تحصیل میں بھیجے۔ ہمارے تحصیل کے سب سے بڑے رئیس۔۔۔ شیخ محمد نصیر صاحب کو اپنے باپ کے کفن کے لیے درکار ہے۔‘‘ پھر نائب صاحب نے قہقہہ لگایا اور پیشکار و اہلمد نے منہ پر رومال رکھ کر کھس کھس کیا۔ جب افسر اعلیٰ مسخرے کا پارٹ کرے تو ماتحتوں کا فرض ہے کہ وہ اظہار مسرت کریں۔

    نصیر کے جسم بھر میں چنگاریاں لگی تھیں۔ لیکن وہ قانون توہین عدالت سے واقف تھا۔ اس نے ہونٹ چباکر کہا:

    ’’تو حضور کے ہاں سے بھی کفن کے لیے چھالٹین نہ ملےگی؟‘‘

    نائب صاحب نے اس کی تکلیف کو محسوس کیا۔ وہ بیچ میں بول اٹھے، ’’جی ابھی اس تحصیل کا کوٹہ نہیں آیا ہے اور اگر آیا بھی ہوتا تو کفن کے لیے چھالٹین نہیں ملتی۔ نہ جانے آپ کس زمانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔‘‘

    نصیر نے تعظیماً سر جھکایا اور باہر چلا۔ تحصیلدار صاحب، نائب صاحب کی اس دخل درمعقولات سےکچھ خوش نہ تھے۔ اچھا خاصا تفنن کا سامان ہاتھ آیا تھا۔ اسے انہوں نے متین بن کر کھو دیا۔ وہ پکار کر بولے:

    ’’ارے نصیر صاحب، آپ تو چلے ہی جا رہے ہیں۔ پیشکار صاحب سے گورنمنٹ آف انڈیا کے لیے حکم نامہ تو لکھوا لیجیے!‘‘ پھر فرمائشی قہقہہ پڑا۔

    نصیر آنکھوں میں آنسو بھرے چلا گیا۔

    یکہ پر جب آکر بیٹھا تو یکہ بان نے ہمدردی سے کہا، ’’میاں آپ بن ناہک اتنا پریشان ہوتے ہیں۔ ایک کے چار لگیں گے مگر چھالٹین شہر میں مل جائے گی۔ میں دلواؤں گا آپ کو!‘‘

    نصیر کے دل میں ایک انتقامی جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔ اب اسے ارتکاب جرم کا خوف نہ تھا۔ اس نے کہا، ’’چلو بھئی جو کچھ بھی ہو، جتنا بھی لگے۔ میں اب اچھا چھالٹین ضرور لوں گا۔‘‘

    شہر کے چوربازار سے اسے چھالٹین مل گئی۔ آٹھ آنے گز کی چھالٹین کے چار روپے فی گز دینے پڑے۔ تاریک گلیوں میں جانا پڑا۔ چوروں کی طرح سودا خریدنا پڑا۔ قدم قدم پر روپیہ پانی کی طرح خرچ کرنا پڑا۔ کل رقم ڈیڑھ سو تک پہنچی۔ جو روپیہ باپ کی علالت کی خبر سن کر وہ ساتھ لے کر چلا تھا، وہ سب خرچ ہوگیا۔ لیکن وہ خوش تھا۔ اسے نہ بھوک تھی نہ پیاس لگی تھی۔ نہ تکان محسوس ہوتی تھی۔ اس نے بازی جیت لی تھی۔ وہ چہیتے باپ کےکفن کے لیے چھالٹین لیے جا رہا تھا۔ وہ اعزا و برادری کے سامنے سبک ہونے سے بچ گیا تھا۔ وہ اب یہ نہ کہہ سکیں گے کہ لڑکوں نے پیسے کا منہ دیکھا اور باپ کو گاڑھے کا کفن دیا۔

    گھوڑا تیز تھا۔ دن میں دھوپ ہوئی تھی۔ سڑک کا پانی بھی خشک ہو گیا تھا۔یکہ بان کو بھی شہر کی واپسی کی فکر تھی۔ یکہ کی رفتار خاصی چیز تھی۔ پھر بھی نصیر کے لیے رینگنے کے برابر تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا اسے ’’طے ارض‘‘ کامعجزہ آتا۔ یا اس کے پر پرواز نکل آتے کہ وہ جلد سے جلد گاؤں پہنچ کر باپ کو اس چھالٹین میں کفنادیتا۔ نہ جانے لوگ وہاں کیا سوچتے ہوں گے۔ ’’میاں نصیر وہاں جاکر بیٹھ رہے، یہاں مردہ باپ یونہی پڑا ہے۔‘‘ اور بہن کی کیا حالت ہوگی۔ وہ یونہی سرپٹک رہی ہوگی۔ دو دن اور ایک رات میں تو اس نے جان ہی دے دی ہوگی۔ خدا ہی ہے جو اس کی جان سلامت بجے اور وہ یکہ بان سے تاکید کرتا، ’’تیز ہنگاؤ اور تیز!‘‘

    جب وہ اس طرح عجلت کرتا ہوا گاؤں کے قریب پہنچا تو سامنے ہی خاندانی ہڑاوڑ دکھائی دیا اور اس میں کچھ سفید پوش۔ اس نے یکہ کو اور تیز کرایا۔ پاس پہنچا تو دیکھا حمید ایک تازہ قبر کے سرہانے بیٹھا فاتحہ پڑھ رہا ہے۔ نصیر کچھ نہ سمجھ سکا کہ کیا معاملہ ہے۔ وہ چھالٹین ہاتھ میں لیے بھائی کی طرف دوڑا۔ ’’بھائی صاحب میں بابا کے لیے کفن لے آیا۔‘‘

    حمید نے کہا، ’’لیکن بھیا تم نے اتنی دیر لگائی کہ وہ گاڑھے ہی میں لپیٹ کر سونپ دیے گئے۔‘‘

    ایسا معلوم ہوا کہ مایوسی کے تاریک کنویں سے جس رسی کے لیے نصیر باہر نکل رہا تھا۔ وہ کسی نے کاٹ دی۔ وہ لڑکھڑاکر باپ کی گیلی قبر پر گرپڑا اور نئی بیش قیمت چھالٹین مٹی میں سوند گئی!

    حمید نے بھائی کو سنبھالنے کی جگہ جھپٹ کر وہ کفن اٹھا لیا اور اسے صاف کرتے ہوئے کہا، ’’نہ جانے کس مصیبت سے تو یہ کپڑا ملا ہوگا، اسے برباد کرنے سے فائدہ!‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے