Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کفارہ

رفیق حسین

کفارہ

رفیق حسین

MORE BYرفیق حسین

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو زمیندار کے بیٹے کا قتل کرکے ترائی کے جنگلوں میں چھپ جاتا ہے۔ انہیں جنگلوں میں شیر شیرنی کا ایک جوڑا بھی رہتا ہے۔ ایک روز شیرنی اس شخص کو مار ڈالتی ہے تو شیر اسے چھوڑکر چلا جاتا ہے۔ شیرنی اور اس کے بچوں کو بستی والے مار ڈالتے ہیں اور شیر کو پنجرے میں بند کر لیتے ہیں۔ پنجرے میں بند شیر جب دنیا کے نظام پر غور کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ یا رب یہ دنیا کن گنا ہوں کا کفارہ ہے۔‘‘

    ریل سے اتر کر اگر شاہ گڈھ اسٹیشن سے ٹھیک شمال کی طرف روانہ ہو تو پانچ گاؤں چھوڑ کر اخیر گاؤں سکھ داس پور آتا ہے۔ اس کے بعد دو میل سے بھی زیادہ چوڑے میدان کو پار کرکے نگاہیں ایک سبزی مائل سیاہ دیوار پر رکتی ہیں۔ جو کہ دائیں ہاتھ پر ساردا نہر کی اونچی پٹری سے شروع ہو کر دائیں طرف دھندلی پڑتے پڑتے نظروں سے غائب ہو جاتی ہے۔ دراصل یہ دیوار نہیں ہے بلکہ ترائی کے جنگل کا وہ حصہ ہے جسے مصطفٰے آباد رینج کہتے ہیں۔ چونکہ اس جنگل میں چوپاؤں کی کثرت ہے، اس لئے اس میدان میں سوائے گیہوں کی ایک فصل کے اور کوئی کاشت نہیں ہوتی۔ وہ بھی اس طرح کہ کنارے کے تمام گاؤں کے لوگ متفق ہو کر جنگل کے کنارے کنارے میلوں میل تک کانٹے دار درختوں کی شاخوں سے ایک باڑھ کھڑی کر دیتے ہیں، جس سے کچھ بچاؤ ہو جاتا ہے۔ ورنہ دراصل یہ دس بارہ میل کا لمبا اور ڈھائی میل کا چوڑا گیہوں کا ایک تختہ خود بچاؤ ہے۔ اتنی بڑی کھیتی میں نقصان ہوتا معلوم نہیں ہوتا۔ رات کے آٹھ بجتے ہی جگہ جگہ پر سانبھر اور چیتل منہ اونچا کرکے اپنے پھیلے ہوئے شاخدار سینگ لپیٹ پر ملا کرتھوتھنے بھر راستہ ڈھونڈھ لینے کے بعد بےتکلف اندر آ جاتے ہیں۔ ان کے پھیلے ہوئے سینگ کانٹے دار لکڑیوں کی دیوار کو چیر کر ان کے جسم سے زیادہ چوڑا راستہ بنا دیتے ہیں۔ رات بھر چرنے کے بعد پھوٹنے کی ہلکی روشنی پر یہ جانور پھر اسی طرح واپس نکل کر جنگل میں گھس جاتے ہیں۔

    ہولی کو جلے پانچ دن ہو چکے ہیں۔ رات کے دو بجے ہیں، چاندنی چٹکی ہوئی ہے۔ کانٹوں کی باڑھ سے کچھ دور گھٹنوں تک اونچے کھیت میں چھہ چیتلیں کھڑی ہوئی اطمینان سے آدھے سوکھے گیہوں کے پتے ایک ایک کر کے بین رہی ہیں۔ کھیت کے کنارے پر ایک جگہ فٹ دو فٹ کا گیہوں کا ایک گچھا، جیسے کہ اکثر رہ جاتے ہیں۔ اب بھی سبز ہے۔ اس میں تین اور چیتلیں چمٹی ہوئی ہیں۔ ان کے برابر ہی کھیت سے باہر شاندار جھانک ۱ موٹی گردن اینٹھائے پھیلے ہوئے بارہ سینگ تاج کی طرح لگائے خاموش کھڑا کچھ سوچ رہا ہے۔ ہاتھ پیر، سر یا آنکھیں کسی کو بھی جنبش نہیں ہے۔ صرف کان وقتاً ادھر سے ادھر، ادھر سے ادھر پھر جاتے ہیں۔ آنکھیں اس قدر تیز نہیں ہیں کہ برابر گھنے جنگل کی تاریکیوں میں پتہ چلا سکے۔ ہوا بھی مخالف ہے۔ کھیت سے جنگل کی طرف چل رہی ہے۔ اس لئے تو بھی نہیں لے سکتا ہے کانوں ہی سے کام لے رہا ہے۔ دور گھنے میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہلکی کھس کھس ہوتی ہے۔ دائیں ہاتھ پر کسی جگہ سے بہت خفیف کھٹ کھٹانے کی آواز آ رہی ہے۔ ان دونوں آوازوں کی اسے مطلق پروا نہیں ہے۔ یہ صاف پہچان گیا ہے کہ یہ آواز نیولی کے بچوں کے کھیلنے کی ہے اور دوسری جنگل کی نیلی کھٹ کھٹ بڑھئی کے درخت کی چھال میں سے کیڑے چننے کی ہے۔ جھانک اس فکر میں ہے کہ ابھی تھوڑی دیر ہوئی سال کے درختوں میں وہ جو زمین سے ملی لمبی سی چیز کے ہلنے کا شبہ سا ہوا تھا۔ دراصل وہ شیر ہی تھا یا کچھ اور؟ صرف ایک خفیف سی سوکھے پتے کی پیر کے نیچے چرچرانے کی آواز اس کو سارا ماجرا بتا دینے کے لئے کافی ہے۔

    لیکن کیا مجال کہ شیر یا شیرنی کا پیر بےجا پڑ جائے۔ حالانکہ سال بنی کی تمام زمین پت جھڑ کے سوکھے پتوں سے بچھی پڑی ہے۔ لیکن یہ دونوں بغیر ایک پتے کو بھی چڑچڑائے یا کھس کھسائے یہاں آکر دیمک کی بنائی چھوٹی سی دیوار کی آڑ میں اسی گلے کی واپسی کے انتظار میں بیٹھ گئے ہیں۔ چیتلوں اور ان کے درمیان بھٹ کے چوڑے پتوں اور مڑور پھلی کی لمبی شاخوں سے اس قدر آڑ ہو گئی کہ نظر ان دونوں کو بھی کچھ نہیں آ رہا ہے۔ پھر بھی دونوں اطمینان سے دب کے بیٹھے ہیں۔ تیز ہوا میں جو کھیت سے جنگل کی طرف چل رہی ہے۔ چیتلوں کی بو اور ان کے ہلنے جلنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔

    دفعتاً ہوا میں شیرنی کو ایک نئی بو معلوم ہوتی ہے۔ گھبرا کر شیر کی طرف سر گھماتی ہے۔ شیر نے کوئی نئی بو محسوس نہیں کی۔ وہ اسی طرح بیٹھا رہتا ہے کہ اتنے میں پھر تیز ہوا کا جھونکا آتا ہے۔ اب شیر کو بھی یہ نئی بو معلوم ہوتی ہے شیر جھنجھلا کر دونوں کان آگے جھکاتا ہے۔ لیکن شیرنی پریشان ہو کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ ہوا کا ایک جھونکا پھر آتا ہے۔ اب شبہ کی گنجائش نہیں رہتی دونوں اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پھر آہستہ سے گھوم کر شمال سے مشرق کی طرف چل دیتے ہیں۔

    باہر کھیت میں جھانک اب بھی اسی طرح کھڑا ہے۔ سبر گچھے پر اب بجائے تین کے پانچ چیتلیں پھدک رہی ہیں۔ باقی چار ان ہی سوکھے گیہوں میں سے پتے کھا رہی ہیں۔ چرتے چرتے ان چاروں کو بھی بو معلوم ہوتی ہے۔ ایک ایک کر کے چاروں سر اونچا کرکے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک جھانک کی طرف دیکھتی ہے۔ جھانک جنگل کی طرف کان لگائے اسی طرح بےخبر کھڑا تھا۔ ایک چیتل کو دور سکھ داس پور کی سمت دھندلی سی ہلتی ہوئی کوئی چیز معلوم ہوتی ہے۔ چیتل فوراً ’کو‘ کی لمبی آواز لگاتی ہے۔ سنسان رات میں جنگل کے کنارے سے آواز گونجتی ہے۔ باقی تمام چیتلیں چونک کر سر اونچے کرکے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ جھانک بھی گھوم پڑتا ہے۔

    یہ تمام جانور پانچ منٹ تک پتھر کی مورتوں کی طرح بےحس کھڑے رہتے ہیں۔ بو برابر آ رہی ہے۔ لیکن دور ہلنے والی چیز رک گئی ہے۔ پانچ منٹ کے بعد وہ چیز پھر ہلتی ہے۔ سب چیتل ایک ساتھ جنگل کی طرف جھپٹتے ہیں۔ کانٹوں کی باڑھ جابجا ٹوٹی ہوئی ہے۔ چیتل ان ہی میں سے ایک راستے سے ایک کے بعد ایک قلانچیں بھرتے نکلتے ہیں۔ سب سے آخر میں جھانک بھی اس قطار میں شامل ہو جاتا ہے جوکہ چیتلوں نے بنا لی ہے۔ جنگل میں گھستے گھستے وہی چیتل پھر دو دفعہ ’کو کو‘ کی آواز لگاتی ہے اور سب چیتل جنگل میں غائب ہو جاتے ہیں۔ سامنے کچھ دور سوکھے گیہوں میں ایک پریشان انسان کھڑا ہے۔ پھانسی کے تختے پر بےکسی اور بےبسی کی موت سے بچنے کے واسطے بہاری گاؤں سے بچتا ہوا شاہ گڈھ اسٹیشن سے دیوانہ دا راس جنگل کی طرف آیا تھا۔

    اس کے خیال میں گھنے سر سبز جنگل پھولوں پھلوں سے لدے، چھوٹے چھوٹے چشموں سے آراستہ دامن پھیلائے اس کو اپنی گہرائیوں میں چھپانے کے واسطے تیار کھڑے تھے۔ لیکن جنگل کے کنارے آتے ہی اس سمت سے بھی خوف طاری ہو گیا۔ اس کی پشت پر گاؤں کی اکا دکا ٹمٹماتی روشنیاں ملک الموت کی آنکھیں معلوم ہو رہی تھیں۔ اس کے سامنے وہ جنگل جس کو کہ یہ زندگی کا گہوارہ سمجھ کر جو یا ہوا تھا قبر کی طرح تاریک اور بھیانک معلوم ہورہا تھا۔ آنکھوں سے اس نے کچھ نہ دیکھا تھا، نہ ناک سے کوئی بو محسوس کی تھی۔ صرف چیتل کی کوکیں سنی تھیں اور ان ہی تین آوازوں نے اس کی خیالی جنت کو ہیبت ناک گھنابن بنا دیا تھا۔

    بہاری دیہات کا رہنے والا ضرور تھا۔ بھوت پریت سے ڈرنا جانتا ہی نہ تھا۔ لیکن جنگل سے ناواقف تھا۔ اس کا دل دھڑکنے لگا۔ اس کو پھر آگے پیچھے چاروں طرف موت نظر آنے لگی۔ اس کا سر چکرانے لگا۔ وہ سرپکڑ کر وہیں کھیت میں بیٹھ گیا۔ اپنی بے کسی پر اس کی آنکھوں سے خود بخود آنسو بہنے لگے تھے۔ اس کے دماغ میں خیالات کا ایک ایسا ہیجان تھا کہ وہ کسی ایک بات کو لگاتار سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ کبھی وہ اپنی بدقسمتی کا خیال کرتا تھا کبھی بیکس بڈھے باپ اور ماں کی حالت سوچتا تھا۔ کبھی اپنی موجودہ حالت پر نظر ڈالتا تھا اور کبھی آئندہ زندگی بسر کرنے کا نقشہ کھینچنا چاہتا تھا۔ لیکن ہر پھر کے ہر خیال میں کسی نہ کسی طرح ایک تصویر آ جاتی تھی، ’’چاندنی رات میں ایک کھیت کی مینڈ ہے، اس پر ایک آدمی خون میں نہایا اوندھا پڑا ہے۔ اس کے پیروں کی طرف وہ خود گنڈاسہ لئے کھڑا ہے۔‘‘ اس تصویر سے بہاری لرز جاتا تھا۔ کانپ اٹھتا تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ نہ سوچے مگر بار بار یہی خیال آ جاتا تھا۔ وہ بار بار کہتا تھا بلدیو سنگھ کا قاتل میں ہوں تو سہی لیکن ہے رام یہ کیسے ہوا۔۔۔ کیسے ہوا۔۔۔؟ ہاں میں نے مارا۔۔۔ دو گنڈا سے سر پر ہلکے سے مارے تھے اور تیسرا ہی زور سے مارا جو پیٹھ میں گھس گیا۔۔۔ اس ہی سے تو گر پڑا۔ پیٹھ کا زخم۔۔۔؟ نہیں پیٹھ والے سے کیا ہوا۔۔۔ وہ تو پہلا ہی گنڈاسہ سر میں گھس گیا۔۔۔ میں نے مارا۔۔۔؟ یہ کیا ہو گیا تھا۔۔۔؟ ہے رام یہ کیا ہو گیا۔۔۔؟ رے رام یہ کیا ہو گیا۔۔۔؟ ہے بھگوان، اب وہ زندہ ہو سکتا ہے۔۔۔ ناہیں! ناہیں۔۔۔ ہے بھگوان۔۔۔معافی مل سکتی ہے۔۔۔؟ ناہیں! ناہیں۔۔۔‘‘

    اسی طرح سوچتے سوچتے ٹھنڈی ہوا نے تھکے ہوئے دماغ میں نیند کے ہلکے ہلکے پردوں میں ملا کر ایک عجیب تصور پیش کر دیا۔ کیا دیکھتا ہے، بلدیو سنگھ کا باپ اس کے سامنے لڑکے کو لئے کھڑا ہے اور اس سے کہہ رہا ہے، ’’کنور بھیا یو ہے بِہاری تمرے سامنے! اب ماپھ کر دیو۔ اچھے ہوئی جائی ہو۔‘‘ بلدیو سنگھ کےمنہ سے خون بہہ رہا ہے۔ وہ آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ باپ دونوں ہاتھوں سے اسے پکڑے کھڑا ہے اور برابر کہہ رہا ہے، ’’بس کنور اب جان دیو، ماپھ کر دیو۔ اچھے ہوئی جاؤ۔‘‘ پھر بڈھا اس کی طرف غصہ سے دیکھ کر کہتا ہے، ’’بہاری تم بھی ماپھی مانگ لیؤ بیٹھے کا دیکھ رہے ہو۔ مانگو ماپھی۔‘‘ بہاری ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہے۔ بلدیو سنگھ سر ہلا کر باپ سے کہتا ہے، ’’معاف نہیں کروں گا۔‘‘ اب بہاری اس کے پیروں پر گر پڑتا ہے۔ اس پر وہ کہتا ہے، ’’میں نا معاف کروں گا بلاؤ سپاہیوں کو۔ پکڑو۔ پکڑو۔ دوڑو اسے پکڑو۔۔۔‘‘

    بہاری کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیسوں آدمی دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ وہ چونک کر جلدی سے کھڑا ہو گیا صبح کی سہانی روشنی اسے بھیانک معلوم ہوئی۔ سنہرا زرد گیہوں کا کھیت موت کے ہاتھوں مٹایا ہوا نظارہ معلوم ہوا۔ کالا جنگل کا کنارہ ایک قلعہ معلوم ہوا۔ جس میں اس کو موت سے پناہ مل سکتی تھی۔ یہ فوراً اس کی طرف لپکا۔ لیکن چار قدم چلنے کے بعد اس نے گھوم کر پیچھے دیکھا کہ کوئی تعاقب تو نہیں کر رہا ہے۔ درختوں میں سے جھانکتے ہوئے سکھداس پور کے مکانوں پر اس کی نگاہ پڑی۔ ہر مکان اس کو مشتبہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ بہاری جنگل کی طرف بھاگا۔ کانٹوں دار باڑھ کو پھاندتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔

    جس وقت دوبارہ مرغے نے اذان دی تو بہاری نے آنکھیں کھول دیں۔ صبح ہلکا نور پھیل رہا تھا۔ قریب ہی کسی درخت پر کوئی مور رات بھر کے سمیٹے ہوئے پر پھڑپھڑا رہا تھا۔ اس کے سر کی طرف اوپر کی کسی ڈالی پر ایک چھوٹی چڑیا۔ ’’چیں چوں، چیں چوں‘‘ چہک رہی تھی۔ لمحہ بہ لمحہ روشنی کے ساتھ چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں بڑھ رہی تھیں، بہاری نے دن بھر کے سکڑے ہوئے ہاتھ پیروں کو جنبش دی اور محسوس کیا کہ جوڑ جوڑ میں درد ہو رہا ہے۔ وہ ’’اے بھگوان کرپا کر بھگوان‘‘ کہہ کر بیٹھ گیا اور اطمینان سے وہ رسی کھولی جس سے کہ اس نے اپنا سینہ اور کمر برگد کے دو شاخے سے باندھ رکھا تھا۔ تاکہ وہ سوتے میں درخت سے نہ گر پڑے۔ بہاری کو آج جنگل میں آئے آٹھ دن ہو چکے ہیں۔ یہیں اس نے مڑوڑپھلی کی چھال سے یہ رسی بٹ لی ہے۔ رات کو کھیت میں سے گیہوں کی بالیاں توڑ کر ہو لوں کی طرح بھون کر کھا لیتا ہے اور پھر جنگل کے کنارے ہی کسی موٹے درخت پر چڑھ کر اس کی ڈالیوں میں اپنے کو باندھ کر سو رہتا ہے۔

    دن نکلتے ہی پھر اندر گھنے میں گھس کر جنگل سے گھری ہوئی چاندر میں چھپ جاتا ہے۔ جنگل کا جو تصور اس نے باندھا تھا یہاں آکر اس میں سے کچھ نہ پایا۔ سال کا جنگل دراصل ایک میدان کی طرح تھا۔ جس میں فٹ سوا فٹ اونچے بھٹار اور کریاری کے چھوٹے پودوں میں لاکھوں سال کے درختوں کے سیدھے اور ننگے بلاشاخوں کے تنے کھڑے ہوئے پچاس ساٹھ فٹ کے اوپر چھتری نما چند ڈالیوں سے ایک چھت تھامے ہوئے تھے۔ رات کو ان درختوں پر چڑھ رہنا اور دن میں ان کے نیچے زمین پر پھرنا ناممکن تھا۔

    آٹھ نو بجتے ہی جنگل میں گائے اور بھینسوں کے گلے اور چرواہے آ جاتے تھے۔ مزروعہ زمین کی طرف جنگل کے کنارے البتہ نیچے اور پھیلی ہوئی ڈالیوں کے درخت بھی تھے۔ گھنی جھاڑیوں کے مجموعے سے بنی ہوئی چھوٹی بڑی بھجیاں بھی تھوڑی تھوڑی دور پر تھیں۔ لیکن دن میں ان میں چھپنا نا ممکن اور کسی طرح ٹھیک نہ تھا۔ سال بنی شمال کی طرف میلوں اسی طرح چلی گئی تھی۔ اس کے مشرق میں ساردا نہر کی شاخ ہر دوئی برانچ بہہ رہی تھی اور مغرب کی طرف ناقابل گزر کھیر کے جنگل سے مِلا ایک چاندر تھا۔ اسی چاندر کے بیچ میں ایک چھوٹا سا تالاب یا گڈھا تھا۔ جس کے کنارے دلدل یا کیچڑ میں بیٹھ کے اور کھڑے رہ کر بہاری دن گزارتا تھا۔ نیچے کیچڑ میں جوکیں ہاتھ پیر اور پیٹھ پر ڈانس اور آنکھ کے آگے صدہا بھنگے اسے ستاتے تھے۔

    جنگل کا چاندر صدہا جنگل سینٹوں پتاوروں اور گھاسوں کا ایک ابسا اونچا اور گھنا ٹکڑا ہوتا ہے۔ جس میں کہ انسان کو پورا پیر رکھنا محال ہوتا ہے۔ اونچائی میں ہاتھی مع ہو دہ اس میں چھپ جاتے ہیں۔ چاندر میں کبھی کوئی ایسا قدآور درخت نہیں ہوتا جس پر کہ انسان چھ سات فٹ بھی اوپر چڑھ سکے۔ اگر کوئی یہ چاہے کہ چاندر کی ٹٹھیرے نما گھانسوں کو کچل کر دو فٹ جگہ بنا لے تو یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ وہ اس قدر سخت ہوتی ہیں کہ بغیر کسی مضبوط ہتھیار کے نہیں کٹ سکتیں۔ پھر اب موسم بھی اور ہے۔

    ہولی جل چکی ہے۔ سبز لہلہاتے چاندر کو چار مہینے کی سخت سردی نے مار کر سکھا دیا ہے۔ یہاں نہ اب چڑیاں چہچہاتی ہیں نہ کالا تیتر بولتا ہے۔ کھڑکھڑاتا ہوا بھورا چاندر ایک چنگاری کا منتظر ہے۔ جو کسی نہ کسی طرح ہر چاندر میں پہنچ کر ان مردہ گھانسوں کو فنا کی آخری منزل میں پہنچا دیتی ہے اور جب چاندر جل کر بھوری اور سیاہ راکھ سے ڈھکا ہوا نکل آتا ہے تو اس کی خاک سے آنے والی نسل کے بے خبر نو نہال پودے ہنستے ہوئے سر نکالتے ہیں۔۔۔ ظالم۔۔۔ ظالم۔۔۔ قدرت کے قوانین ظالم ہیں۔

    چاند اگتا ہے۔۔۔ وہ ہستیاں جو کبھی حیات کی طالب نہیں ہوئی تھیں، حالت بے خبری میں وجود میں لاکر اس دنیا میں گرم وسرد جھونکے برداشت کرنے کے لئے چھوڑ دی جاتی ہیں۔ عرصۂ حیات کم ہے۔ مصائب عالم بھی ہیں، موسم کی سختیاں بھی ہیں۔ وجود کی جدوجہد بھی جاری ہے کہ بیڑا پار لگ جاتا ہے اور پھر وہی ہو ترا ہے۔۔۔ ظلم۔۔۔ ظلم۔۔۔ قدرت کے قوانین ظالم ہیں۔

    قدآور درخت، چھوٹے پودے، لاکھوں قسم کی گھاسیں۔ بڑے بڑے جانور اور درندے، چوپائے اور پرندے۔ چھوٹے چھوٹے جانور، کروڑہا قسم کے کیڑے اور انسان سب اسی قانون کے تابع پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ چکی چل رہی ہے۔ دانے ڈالے جا رہے ہیں۔ آٹا نکل رہا ہے۔ شاید یہ عالمِ ہستی خود کسی گناہِ عظیم کا کفارہ ہے۔

    بہاری بڑی دیر تک ہاتھ میں رسی لئے دوسرے ہاتھ کی انگلی سے برگد کی چھال کو کریدتا ہوا اسی ڈگالے پر بیٹھا سوچتا رہا۔ وہ جنگل کی اس زندگی سے اتنا عاجز آ چکا تھا کہ اب اس بات پر بالکل آمادہ تھا کہ پاس کے کسی گاؤں میں جاکر فقیر یا سادھو کے بھیس میں قسمت آزمائے۔ اگر پکڑا بھی گیا اور پھانسی پر بھی لٹکنا پڑا تب بھی گوارا تھا۔ لیکن وہ تکلیفیں جو اب وہ اٹھا رہا تھا نا قابل برداشت معلوم ہو رہی تھیں۔ اس کے پاس سوائے ایک ماچس کے بکس اور چند بےکار روپیوں کے کوئی چیز نہ تھی کاش کی ایک چاقو ہی ہوتا۔ دیا سلائیاں بھی ختم ہونے کے قریب آ چکی تھیں۔ دیا سلائی کا خیال آتے ہی اس نے پھٹے ہوئے کوٹ کی جیب سے ماچس کا بکس نکال کر اس کی تیلیاں گننے کے بعد نہایت احیتاط سے پھر اس کو جیب میں رکھ کر ’’بھگوان! دیا کرو بھگوان،‘‘ کہتے ہوئے درخت سے نیچے اترنا شروع کیا۔ جب آخری ٹہنے پر آ گیا تو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس میں لٹک گیا۔ اس کے پیر اب بھی زمیں سے چار فٹ اونچے ہوں گے کہ اس نے دونوں ہاتھ چھوڑ دیئے اور دھم سے زمین پر آ رہا۔ سنبھل نہ سکا ہاتھ زمین پر ٹیک کر بیٹھ گیا۔ ساتھ ہی اس کے دائیں ہاتھ کی طرف ساٹھ فٹ کے فاصلہ پر ایک عورت کی ’’ارے دیا‘‘ چلانے کی آواز آئی۔ سر گھما کر دیکھا تو ایک عورت رفع حاجت کرنے لٹیا وٹیا چھوڑ کر بھاگی چلی جا رہی ہے۔ بہاری بھی گھبرا کر اٹھا، جنگل کے اندر کی بھاگنے لگا مگر فوراً ہی لٹیا کا خیال آیا۔ بھاگتا ہوا اس تک گیا اور اسے اٹھا رہا تھا کہ کپڑے کی بڑی سی ایک پوٹلی اور نظر آئی۔ اس نے اسے بھی اٹھا لیا اور لٹیا کا پانی گراتا ہوا عورت سے دوسری سمت کو بھاگا۔ فاتوں اور مصیبتوں سے جسم لاغر ہو رہا تھا۔ تھوڑی ہی دور میں سانس پھول گیا۔ بھاگنا بند کر دیا۔ تیز قدم اٹھاتا اسی چاندر میں گھس گیا۔

    چاندر میں پہنچ کر بہاری نے اس پوٹلی کو کھولا تو اس میں سے ایک کھرپی، ایک ہنسیا۔ چھٹانک بھرکے قریب تمباکو۔ چلم۔ ایک دیا سلائی کی ڈبیہ اور کوئی سوا سیر آٹا کی روٹی اور بینگن کی بھاجی نکلی۔ بہاری نے فوراً کھرپی اور ہنسیا کی مدد سے چاندر میں ایک خشک جگہ تھوڑی سی زمین صاف کی۔ اس کے بعد لٹیا میں پانی بھر کر لایا آٹھ دن ہو چکے تھے۔ سیر ہو کر روٹی کھائی۔ پھر آگ جلاکر چلم بھری اور اطمینان سے پیتا رہا۔ عرصے کے بعد یہ نعمتیں ملیں۔ روٹی اور تمباکو دونوں نشہ چڑھا، تو وہ وہیں پڑ کر سو گیا۔ دن کے دس بجے سویا، شام کے چار بجے اٹھا۔ درخت پر نیند کہاں بھرتی تھی۔ اب جو سوکر اٹھا تو خواہ مخواہ طبیعت پر ایک طرح کی بشاشی تھی۔

    صبح کو ہراساں ہو کر وہ گاؤں میں جانے کے لئے بالکل تیار ہو گیا تھا۔ لیکن اب اس کے خیالات بدل گئے۔ زندگی کا چسکا پھر زندہ ہو گیا۔ ہنسیا کو دیکھ کر وہ فوراً سمجھ گیا کہ گیہوں کی کٹائی شروع ہو گئی ہے۔ اس وقت اسے یہ فکر تھی کی جلد سے جلد جس قدر گیہوں کھیتوں سے کاٹ سکتا ہو کاٹ کر جنگل میں کہیں چھپا دے۔ ورنہ جب گیہوں نہ رہیں تو کیا کھائےگا۔ آبادی میں واپس جانے کو اب اس کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ اس کو یقین تھا کہ وہ انسانوں میں گیا نہیں کہ پکڑا گیا۔ اس نے تصفیہ کر لیا کہ جہاں تک ہو سکے فی الحال تو جنگل میں ہی چھپا رہے۔

    دنوں کے بعد پیٹ بھر روٹی نے اس میں ایک نئی روح ڈال دی تھی۔ شام ہوتے ہی وہ آئندہ کے منصوبے گانٹھتا ہوا نکل کر چاندر سے جنگل کی سو فٹی سڑک کے کنارے آہستہ آہستہ آ رہا تھا کہ اس کے بائیں ہاتھ کی طرف سڑک کے دوسرے کنارے پر اس کی نگاہ پڑی۔ کیا دیکھتا ہے کہ سامنے سے شیر چلا آ رہا ہے۔ سر سے پیر تک پسینہ آ گیا۔ بت بن کر جہاں کا تہاں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ بہاری کو یقین سا ہو گیا تھا کہ اس جنگل میں شیر یا بھیڑیا کوئی نہیں ہے۔ آج اس نے پہلی دفعہ شیر کو دیکھا تھا۔ لیکن شیر اس کو دو دفعہ پہلے دیکھ چکا تھا اور آج تیسری دفعہ آمنا سامنا ہی ہو گیا۔ شیر نے اس کو دیکھ کر اپنا بھاری شا ہانہ چہرہ تمکنت سے پیچھے پھیر کر ایک لمحہ کے واسطے کچھ دیکھا اور پھر نہایت شان اور اطمینان کے ساتھ اسکی طرف دیکھتا ہوا بالکل آہستہ آہستہ بڑھنے لگا۔

    بہاری سکتہ کے عالم میں کھڑا دیکھتا رہا کہ شیر کے پیچھے ایک اور شیر تیز قدم آرہا ہے۔ یہ شیرنی تھی۔ پورے دن پیٹ سے ہونے کی وجہ سے اس کی طبیعت چڑچڑی ہو گئی تھی۔ جونہی شیر کے قریب آئی اس کی بھی نگاہ بہاری پر پڑی۔ ہلکی سی غراہٹ اس کے منہ سے نکلی۔ شیر اور آہستہ ہو گیا۔ جونہی شیرنی اس کے بائیں ہاتھ کی طرف برابر میں آئی، شیر پاس کے جنگل کی طرف گھوم پڑا اور ناراض شیرنی کو اپنے پہلو سے ڈھکیلتا ہوا ہٹا لے گیا۔ بہاری کے اس قدر اوسان خطا ہو گئے تھے کہ شیر اور شیرنی کے جنگل میں غائب ہو جانے کے بعد بھی وہ وہیں کھڑا تھا۔

    عقل کام نہ کرتی تھی کہ کدھر جائے کیا کرے۔ آخر کار پھر روانہ ہوا۔ تھوڑی ہی دور گیا ہوگا کہ اس کی پشت پر مور چلایا۔ مڑ کر دیکھا تو وہ دونوں شیر اس سے کتراکر کچھ دور جنگل کے اندر اندر چل کر پھر سڑک پر نکل آئے تھے اور اس طرح اسے چھوڑ کر جا رہے تھےبہاری کے متواتر جنگل میں موجودگی سے غصہ دونوں ہی کو آ رہا تھا۔ مگر شیر سمجھدار مطمئن طبیعت کا تھا۔ اس نے دیکھا کہ معاملات نازک ہوتے جا رہے ہیں۔ ا س کی ملکہ پیٹ سے ہے۔ تنہائی کی سخت ضرورت ہے۔ یہاں یہ انسان ہر وقت موجود رہتا ہے دوسرے اس کی موجودگی سے دس بیس کا نکر اور پاڑے جو اس ٹکڑے میں مستقل طریقے سے رہتے تھے کوچ کر گر گئے ہیں اور نہ صرف یہی بلکہ چیتل اور سانبھروں کی ٹولیوں نے بھی ادھر کا آنا بند کر دیا ہے۔ غذا کی کمی ہوتی جاتی ہے۔ بہتر ہے کہ اس ٹکڑے کے چھوڑ کر چوکا ڈھایا کے نرکلوں میں رہا جائے۔ چنانچہ وہ شیرنی کو لئے نکلا چلا گیا۔ چار میل کی معمولی چہل قدمی کے بعد دونوں ساردا کی (اصلی نہر) کینال پر پہنچ گئے۔ سامنے چوکا ڈھایا کا پل تھا۔ مگر ان کو اس کی ضرورت نہ تھی۔ اس سے دو سو قدم ادھر ہی نہر میں انھوں نے پانی پیا اور پھر تیرتے ہوئے پار نکل گئے۔

    رات گئے تک بہاری گیہوں میں لگا رہا تھا۔ صبح دھوپ نکل آئی تھی اس کی آنکھ کھلی اس نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا۔ دور کھیت میں تین چار لال صافے دیکھ کر اس کی روح خشک ہو گئی۔ جلدی سے رسی کھول کر درخت سے نیچے اترا۔ درخت کی جڑ میں چاروں طرف بن کروندوں کی گھنی جھاڑیوں نے اور اس پر پھیلی ہوئی بیلوں نے پوری آڑ کر رکھی تھی۔ یہ وہیں سمٹ کر بیٹھ گیا۔ مارے ڈر کے سانس بھی پوری نہ لیتا تھا، دل کی دھڑکن سے مجبور تھا۔ جس کی آواز اس کو نقاروں کی چوٹوں کی طرح معلوم ہو رہی تھی اور جب سپاہیوں اور آدمیوں کے پیروں کی آہٹ اسی طرف بڑھتی سنائی دینے لگی تو اس نے اپنی آنکھیں بھی بند کر لیں۔ اس نے کہا، ’’ہے رام ایک میں اور سارا جگ میرا دشمن۔ میری کیا دردشا ہو گئی ہے۔ میں نے کس جنم میں کونوں پاپ کئے تھے۔‘‘ اس کے تصور نے چاندنی رات کا وہ نقشہ پھر اس کے سامنے کر دیا جبکہ اس کا گنڈا سہ پہلی دفعہ بلدیو سنگھ کے سر میں کھسکھساتا ہوا گھستا چلا گیا تھا۔ اس کے سیدھے ہاتھ کو تیز دھار کے زندہ ہڈی میں گھسنے کا احساس ہونے لگا۔ بہاری نے پھریری لیکر اس خیال کو ہٹا دیا اور نہ معلوم کیوں اور کس لئے وہ اپنے آپ سے بحث کرنے لگا۔

    ’’میں مجرم ضرور ہوں لیکن سزا کا مستحق نہیں ہوں۔ میں ہرگز ایسا نہ کرتا اگر میرے دوستوں نے مجھے شراب نہ پلا دی ہوتی اور اگر بلدیو سنگھ کے باپ نے میرے اوپر اس قدر ظلم نہ کئے ہوتے۔ بےدخل کیا، زمین چھینی، باغ چھینا۔۔۔ لیکن اس کا بدلہ۔۔۔ لڑکے کو مار ڈالنا۔۔۔؟ قتل! قتل۔۔۔؟ قتل۔۔۔؟ ہاں قتل۔۔۔ میں نشہ میں تھا پھر اسی حالت میں رمضانی نے آکر جوش دلا دیا۔۔۔ جمنا میری منگیتر ہے۔۔۔ میری منگیتر ہے۔۔۔ اس کے گھر میں بھی تو بلدیو تھا۔۔۔ جمنا۔۔۔؟ اب کس کی ہے۔۔۔؟ ہے رام کرپا کر۔۔۔‘‘

    بالکل قریب آدمیوں کے باتیں کرنے کی آوازیں آنے لگیں۔ لوگ اسی طرف آ رہے تھے۔ بڑے داروغہ۔۔۔ خاں کی آواز آئی، ’’پاگل ہوئے ہو۔ کہیں ڈاکو کھیت کاٹتے ہیں؟ گیہوں چراتے ہیں؟ ڈاکو ہوتا تو کہیں نہ کہیں واردات ضرور کرتا۔‘‘

    ایک آواز، ’’ سرکار اِکل لا ہے۔ ساتھ ماں کوؤنا ہے۔‘‘

    بڑے داروغہ، ’’ہاں بے ہاں اکل لے ہی واردات بھی کیا کرتے ہیں۔ اکادکا راہگیروں کو لوٹتے ہیں۔ سوتوں کے گھروں میں گھستے ہیں۔ کہیں گیہوں چراتے ہیں اور ایسا ڈاکو کہ سالے کے پاس چاقو تک نہیں۔ کیوں جی پہلے تو ہاتھ ہی کی توڑی بالیاں تھیں نا؟ ٹھیک سے دیکھا تھا؟ پہچان لیتے ہو ہاتھ کی ٹوٹی؟‘‘

    ایک آواز، ’’ارے حجور ہم دیکھ کے بتائی دیں۔ کوؤ جناور نے کھائی، کوؤن ہنسیا کاٹی، مل سرکار یہ ہٹی کوؤن بڑا۔‘‘

    بڑے داروغہ، ’’کوئی بالکل نیا مجرم ہے۔ ضرور خون کرکے بھاگا ہے۔ ہو نہ ہو وہی مفرور قاتل ہے۔ کیا نام تھا جی؟ گشتی چٹھی پڑھی تھی۔ یاد ہے؟‘‘

    ایک کانسٹبل کی بھاری آواز، ’’ بہاری ولد مہابیر ساکن مکروان۔ مقتول بلدیو سنگھ۔‘‘

    ایک آواز، ’’داروغہ جی اتے ناملے ہے چاندرماں۔ نہیں تو کھیرے ماں ہوئی ہے اتے چلو۔‘‘

    داروغہ جی، ’’ابے الو کی دم یہ ہم بھی جانتے ہیں۔ یہاں تو پیروں کے نشان دیکھنا چاہتے ہیں اور چاندر میں جاکر کیا چھ آدمی ڈھونڈ لیں گے؟ پانچ سو آدمی بھی ہوں تو نہیں ڈھونڈ سکتے ہیں۔ یہ تو گاؤں ہی میں پکڑا جائےگا۔ تھوڑے دن میں گھبراکر ضرور کسی نہ کسی گاؤں میں جائےگا۔ تم لوگ خیال رکھنا جو پکڑ کر لائےگا یا اطلاع دےگا اسے بہت انعام ملےگا۔‘‘

    جان۔جان۔ دنیا بھر سے زیادہ پیاری جان۔ تیری حفاظت ہر طرح کی جاتی ہے سڑک کے کنارے اندھی لنگڑی بڑھیا سسک سسک کر بھیک مانگتی ہے۔ جوانی کے وہ دن! عشاق کے ہجوم، عیش وعشرت، روپیہ پیسہ، بال بچے، گھر بار سب رخصت ہو گئے۔ کچھ نہ رہا۔ اب کیوں جی رہی ہے؟ کس کا انتظار ہے؟ گئے دن واپس آنے کی امید ہی نہیں۔ پھر کیوں جی رہی ہے؟ جان! سب سے پیاری جان باقی ہے۔ اس ہی کو گہرے داموں پالتی ہے۔

    الوداع! اے انسان کی بستیوں الوداع! بہاری اب کبھی تمہاری طرف رخ نہ کرےگا۔

    انسانی رہ گذر سے کوسوں دور گھنی سبز اور شاداب جھاڑیوں اور طرح طرح کے فرنوں سے ڈھکا چوکا ڈھایا ڈھلواں اترتا ہوا اپنے میں ٹھنڈی سبز بید کی جھاڑیاں شامل کر لیتا ہے تو پھر وہاں انتہائی گھنا پندرہ فٹ اونچا نرکل کا تختہ اس سے آ ملتا ہے۔ جب تمام جنگل سوکھ جاتا ہے اور ہر طرف آگیں لگی ہوتی ہیں تو یہاں مہکتے ہوئے پھولوں میں صدہا چڑیاں جھولا جھولتی ہیں قدرت کے راگ گاتی ہیں۔ اسی نرکل میں ایک جگہ سے چھچاندی پھچاندی بو آتی ہے۔ تر زمین پر نازک نرکل بچھا کر شیر اور شیرنی نے تھوڑی سی جگہ بنا لی ہے اور اس ٹھنڈے اور روشنی سے محفوظ گھر میں شیرنی نے بچے دئے ہیں۔ جن کو وہ لیٹی ہوئی بڑے غور سے دیکھ رہی ہے۔ اس کی پشت پر شیر غافل سو رہا ہے بچوں کی آنکھیں کھل چکی ہیں۔۔۔ وہ آپ میں کھیل رہے ہیں۔ سنہرے بدن پر ہلکی دھاریاں بھی نظر آنے لگی ہیں۔

    شام ہو گئی ہے شیرنی کو انتظار ہے کہ کب اس کا سرتاج شیر اٹھے اور کب وہ ڈھائے سے اوپر سانپ لائن سے کچھ دور روہنی کی جھاڑیوں میں جائے جہاں کل کا بچا ہوا آدھا سانبھر اب بھی پڑا ہے۔ شیر انگڑائی لے کے لیٹے سے سراٹھا کر اس کو اور بچوں کو دیکھتا ہے۔ شیرنی فوراً بدن کو جھکولا دیکر کھڑی ہو جاتی ہے۔ گول مٹول بھورے دونوں بچے جو اس کے اورپر سوار ایک دوسرے پر داؤں لگا رہے ہیں۔ لد لد زمین پر گر کر لڑھک جاتے ہیں۔ جیسے ہی شیر اٹھ کر بیٹھتا ہے۔ شیرنی نرکلوں میں آمدورفت سے بنی ہوئی گلی کا رخ کرتی ہے۔ شیرنی چونکہ دودھ پلا رہی ہے۔ اس کی اشتہا بڑھی ہوئی ہے۔ وہ بھوکی ہو رہی ہے۔ آخر شیر بھی روانہ ہو گیا۔ جب نرکلوں سے باہر آ گیا تو اس نے ایک لمبی چوڑی انگڑائی پھر لی اور شیرنی کے پیچھے پیچھے اطمینان سے چل دیا۔

    بید کی جھاڑیوں سے نکل کر جونہی یہ دونوں سانپ لائن پر آئے ایک ساکھو کی ساٹھ فٹ کی بلندی سے مورنے می وں، می اوں، کے نعرے لگائے۔ ہلدو کی درخت پر بیسیوں بندروں کی کٹکٹی بندھ گئی۔ ان دونوں کو آج شکار تو مارنا نہ تھا۔ چھپ کر پھرنے کی ضرورت نہ تھی۔ ان کے نکلنے کی اگر جنگل کو اطلاع ہو گئی تو ہو جائے۔ اطمینان سے کھلم کھلا سانپ لائن پر چلتے رہے اور جب روہنی کے جنگل کے نیچے پہنچ گئے تو باری باری ایک ایک جست لگا کر ڈھائے پر چڑھ گئے اور روہنی میں تھوڑی دورچل کر سانبھر کی بچی کھیچی ٹھٹھری پر پہنچے۔ لیکن یہاں آتے ہی دونوں کے شاہانہ سکوت اور اطمینان میں قہر اور غصہ کا تغیر پیدا ہو گیا۔ شیر غضب ناک ہونے لگا۔ اس کی نرم ونازک لچکتی ہوئی ملکہ خونخوار جھنجھلائی ہوئی شیرنی ہو گئی۔۔۔ گوشت چرایا گیا ہے۔ انسان کی بو آ رہی ہے۔۔۔ شیر کی سیدھی دم کی نوک دائیں اور بائیں لہرا لہرا کر طبیعت کے انتشار کو ظاہر کرنے لگی۔ شیرنی کو غصہ زیادہ تھا۔ ناگن کی سی دو پھنکاریوں کی سی آوازیں اس کے منہ سے نکلیں۔ وہ سانبھر کی بچی ہوئی کھال اور ہڈیوں کو سونگھتی ہوئی اس کے چاروں طرف گھومی۔ پھر ایک طرف روانہ ہو گئی۔ آج وہ ضرور اس موذی چور سے بدلہ لےگی۔ یہ تیسری بار ہے کہ اس کا شکار چوری ہوا ہے۔ شیر بھی اس کے ساتھ ساتھ روانہ ہو گیا۔ لیکن اب اس پر پھر وہی فطری متانت آ گئی تھی۔ وہ بڑھ کر شیرنی کے آگے ہو لیا۔ جاتے جاتے تین فرلانگ کے بعد جیسے ہی کنارے کی گھنی پتاور سے کھلی ہوئی فائر لائن پر شیر نے باہر سر نکالا۔ دو سو قدم پر سامنے بھاگتا ہوا انسان نظر آیا۔ شیر آہستہ سے ایک قدم پیچھے ہٹ کر اپنے سیدھے ہاتھ کی طرف گھوم پڑا اور اسی طرف کٹتا ہوا شیرنی کو نہر کی پٹری پر نکال لے گیا۔

    اگر کوئی چیز انسانی دماغ پر ایک ہی وقت میں دو متضاد اثرات پیدا کر سکتی ہے تو ترائی کے جنگلوں ہی میں۔ جنھوں نے خود ان جنگلوں کی سیر نہیں کی ہے وہ مشکل ہی سے سمجھ سکتے ہیں۔ شام کے وقت چوکاندی کے ڈھائے کے کنارے کسی فائر لائن پر کھڑے ہو تو دونوں طرف کے اونچے سال کے جنگلوں میں لاکھوں قدآور درختوں کے تنے ہی تنے اوپر کے سبز پتوں سے بنی ہوئی چھت کے اندھیرے میں نگاہ سے اوجھل پڑتے پڑتے غائب ہو جاتے ہیں۔ ڈھائے کی طرف صدہا جھاڑیاں ان پر بیلیں اور دھانی رنگ کے نازک پودوں کے بعد ہری کچی بیت کی بیلوں سے بنی ہوئی جھاڑیوں سے ہوتی ہوئی نگاہ نرکل کے لہلہاتے تختے پر میلوں جاکر دھندلی پڑتے پڑتے کسی دور ودراز جنگل میں مل جاتی ہے جو کہ فاصلہ کی وجہ سے دھندلا غبار کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ جنگل میں ہر طرف خاموشی ہی خاموشی ہوتی ہے۔ دفعتہً ایک مرغی کڑکڑاتی ہے اور اس کے بعد ہی مور چلاتا۔ می آؤں، می آؤں اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ سین ایک ہی وقت میں انتہائی دلفریب بھی معلوم ہوتا ہے اور انتہائی بھیانک بھی۔ انسان خوف زدہ ہو کر یہاں سے بھاگنا بھی چاہتا ہے اور ہٹنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔ لیکن یہ سب کچھ اسی وقت تک ہے جب تک دن کی روشنی پوری طرح موجود ہے۔ جوں جوں اندھیرا بڑھتا ہے اس کی دلفریبی بھیانک پن میں بدل جاتی ہے۔ جوں جوں شام ہوتی ہے دل کی حرکت تیز ہوتی ہے اور جھٹپٹے کے وقت دیکھنے والے کو یہ جنگل موت کا بھیانک سمندر معلوم ہوتا ہے درخت اور جھاڑیاں سیاہ کمل اوڑھ کر منحوس شکلیں اختیار کر لیتی ہیں۔ اس وقت سیر کرنے والے کا دل روشنی اور انسانی صحبت کے واسطے تڑپتا ہے۔ وہ جلد جنگل سے نکل کر گھر کی طرف روانہ ہوتا ہے اور جب ایک دفعہ پھر وہ لیمپ کی روشنی میں اپنے ہم جنسوں میں جا بیٹھتا ہے تو اس کا دل خودبخود خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔

    لیکن صرف چار مہینے کے قلیل عرصے میں پیاری جان کا حفاظت کا جذبہ بہاری کے دماغ کو ان احساسات سے معطل کر چکا ہے۔ انسانی خیالات اور محسوسات ساکت ہو چلے ہیں۔ ان کے بجائے خالص حیوانیت ترقی کر رہی ہے۔ سر اور ڈارھی کے خودرو پریشان بالوں سے گھرا ہوا چہرہ انسان کے چہرے سے بہت کچھ جدا معلوم ہوتا ہے۔ کمرسے گھٹنوں تک اب بھی کپڑے کی چند لیریں لٹکی ہوئی ہیں۔ حرکات میں وحشت، چال میں چیتے کی سی جھپک! اور آنکھوں میں ہرن کا سا چوکنا پن ہے۔ اب وہ بیٹھ کر بجائے اپنی بدقسمتی کے واقعات سوچنے کے جنگل کی آوازوں پر کان لگا کر ان کے مطلب اخذ کرتا ہے۔ جنگل کی جڑوں اور پتوں سے بڑھ کر پرندوں کے انڈے، بسیرا لیتے پرندے، مرے گرے جانور! اور دوسروں کا مارا شکار کھاتا ہے۔

    ایک دن حسب دستور جب مور نے کوک کر! میناؤں نے شور مچا کر اور بید کی رہنے والی مرغیوں نے کڑ کڑا کر اطلاع کر دی تھی کہ جنگل کا بادشاہ اور اسکی ملکہ رات کے کاروبار سے فراغت کرکے دن بھر سونے کے واسطے نرکلوں میں گھس گئے ہیں اور جب بندروں نے بھی درختوں سے اترنا شروع کیا تو بہاری بھی درخت سے اترا۔ رات کو سابھروں کے بےتحاشا بھاگنے۔ چیتلوں کے ’’پوق پوق‘‘ چلانے کے بعد چوکا کی طرف شیر کے فتحمندانہ گرجنے کی آوازیں سن چکا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ آج پھر تازہ شکار مارا گیا ہے۔

    اب اس کے واسطے یہی تھا کہ شام ہونے سے پہلے اس شکار کو ڈھونڈھ لے جس کو کہ شیر اور شیرنی نے انتہائی کمال سے کہیں چھپا دیا ہوگا۔ بہاری اس کی تلاش میں روانہ ہوا لیکن ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے دن ڈھل گیا۔ یہ نا امید ہو کر اس جستجو کو دوسرے دن کے واسطے ملتوی کرنے ہی کو تھا کہ شکار کی گھسیٹنی پر اس کی نگاہ پڑ گئی۔ فوراً بہاری نشان پر روانہ ہوا۔ نرکلوں سے آدھ میل جنوب کی طرف سانپ لائن پر سے ہوکر جہاں نرکل ختم ہو کر پانی اور کیچڑ میں گھنا پیڑ کھڑا تھا یہ جا پہنچا۔

    اب گوشت کچھ دور نہ تھا۔ ضرور اسی پیڑ میں ہوگا۔ ایک کو ابھی وہاں بیٹھا تھا۔ لیکن شام ہو چلی تھی۔ وہاں جانا مخدوش تھا۔ شیر کے نکلنے کا وقت آگیا تھا۔ مگر بہاری کو تین دن کا فاقہ ہو چکا تھا۔ اس نے ہمت کی کہ جلدی سے تھوڑا سا گوشت کاٹ لائے۔ پانی میں چھپ چھپاتا پیڑ ے کو دونوں ہاتھوں سے ہٹاتا تیزی سے بڑھا، پتوں سے ڈھکے سابھر تک پہنچا تھا کہ دور مور چلایا۔ مرغیاں کڑکڑائیں۔ بہاری سانبھر پر جھکا ہوا تھا۔ تین سکنڈ کے واسطے ٹھٹک گیا۔ لیکن فوراً ہی اس نے ارادہ کیا کہ ایک ہی ٹکڑا کاٹ لے۔ کھائی اور چری ہوئی سانبھر کی لاش پر ایک ہی وقت میں ایک جگہ دونوں ہاتھ ہنسیا سے گوشت کاٹنے میں مصروف ہو گئے۔ دو لقمے پیٹ میں اور سیر بھر کا ٹکڑا ہاتھ میں لیکر بہاری بھاگا۔ پیڑے سے نکل جھاڑیوں میں سے ہوکر جس وقت وہ سانپ لائن پر آیا تو وہیں شیرنی کھڑی تھی۔ خاموش بجلی سی کوندی۔ چارمن کا شیرنی کا جسم ایک ہی چھلانگ میں بھاگتے ہوئے۔ بہاری پر گرا۔ کمر اور پسلیاں سیٹوں کی طرح چرچراتی چلی گئیں۔ بہاری شیرنی کے اگلے پیروں کے نیچے ایسا پڑا تھا۔ جیسے کھونٹی سے گری اچکن پڑی ہو۔

    شیر پیچھے رہ گیا تھا۔ وہ ان واقعات سے بےخبر ٹہلتا ہوا جیسے ہی قریب آیا ٹھٹک کر رک گیا۔ شیرنی نے لاش کو اس طرح منہ میں اٹھا لیا جیسے بلی نیم مردہ چوہے کو اور جھٹکے دینے لگی۔ شیر کے منہ سے گھٹی ہوئی غراہٹ کی آواز نکلنے لگی۔ بہاری کے زمین پر گھسٹتے ہوئے پیر اور لٹکتے ہوئے ہاتھ ہلتے دیکھ کر خوف سے شیر کی گردن کے بال کھرے ہو گئے۔ شیر انسان سے نہ ڈرتا تھا لیکن جنگل کے قوانین اس طرح شکن ہوتے دیکھ کر تھرا گیا۔ وہ آہستہ سے گھوما اور ’’خوں، خوں، خوں‘‘ غرّاتا ہوا شیرنی کو ہمیشہ کے واسطے چھوڑ کر ایک طرف روانہ ہو گیا۔ ڈھائے سے اترکر پیڑے اور اس کے بعد کلک کے جنگل میں سے نکلتا ہوا چوکا کو تیر کر نیپال کی طرف نکل گیا۔

    انسان کے گوشت اور خون میں ایک عجیب صفت ہوتی ہے۔ جس طرح کتے کے کاٹے سے انسان بورایا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح درندے انسان کے گوشت سے بورا جاتے ہیں۔ پھر ان کو ہر وقت انسان ہی کی جستجو رہتی ہے۔ شیرنی کا بھی یہی حال ہوا۔ ایک بن رکھے اور دو گاڑی والوں کو مارنے کے بعد جب اس کو اور آدمی چوکا ڈھایا کی طرف نہ ملے تو اپنے بچوں سمیت وہ نہر پار کرکے گھومتی گھومتی مزروعہ زمین اور گاؤں سے ملے، میناکوٹ کی زمینداری جنگل میں آ گئی۔

    یہاں آکر اس نے متواتر کئی خون کئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن دوپہر کے وقت ہاکا کرکے طرح طرح کی آوازوں سے ڈرا کر اسے نئے اگے چاندر سے نکالا۔ دونوں چھوٹے بچے ساتھ تھے جن کی وجہ سے یہ بھاگ بھی نہیں سکتی تھی۔ جوں ہی یہ بچوں کو لئے چاندر سے نکلی سامنے درختوں پر بندھے ہوئےمچانوں سے تڑاتڑ بندوقوں کے فیر ہوئے۔ دو گولیاں اس کے لگیں اور ایک اس کے بچے کے۔ دونوں وہیں ڈھیر ہو گئے۔ محمود کی گولی گردن پر اور احمد میاں کی پاکھے پر کبھی خطا ہی نہیں ہوئی۔ دوسرا بچہ پھر چاندر میں گھس گیا جو کہ کمل اور کپڑے ڈال کر زندہ ہی پکڑ لیا گیا۔

    آج اس واقعہ کو برسوں گذر گئے ہیں اب بھی کہیں ایک سفید بڈھا لکڑی ٹیکے ٹیکے پھر کر زندگی کے کاروبار بھی کرتا ہے اور دن میں کئی دفعہ لکڑی کے سہارے بیٹھ کر اپنے اکلوتے بیٹے بلدیو سنگھ کو یاد کرکے آنسو بہاتا ہے اور کہتا ہے، ’’اے بھوگوان میں کونوں پاپ کئے تھے جو مجھے یہ سزا ملی۔‘‘ اور اب بھی کہیں ایک گیارہ فٹ لمبا شاندار شیر اپنے لاغر جسم کو لچکاتا ہوا گھنٹوں کٹہرے کی سلاخوں کے آگے گھومتا ہے اور جب سلاخوں میں سے نکلنے کا راستہ نہیں ملتا تو بیٹھ کر کسی دور دراز خیال میں غرق ہو جاتا ہے۔ تماشائی تالیاں بھی بجاتے ہیں کنکریاں بھی پھینکتے ہیں مگر اس کو خبر نہیں ہوتی۔ وہ کسی گہرے خیال میں ہوتا ہے۔

    شیر کیا سوچتا ہوگا۔۔۔؟

    یا رب! یہ دنیا کن گناہوں کا کفارہ ہے؟

    مأخذ:

    گوری ہو گوری (Pg. 5)

    • مصنف: رفیق حسین
      • ناشر: اردو اکیڈمی سندھ، کراچی
      • سن اشاعت: 1952

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے