Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کفارہ

MORE BYمحمد نہال افروز

    میں چونسٹھ سال کا ایک بزرگ نوجوان ہوں۔ میری تین اولادیں ہیں۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ سبھی کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ بیٹی اپنے گھر خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے۔ بڑا بیٹا انڈیگومیں پائلٹ ہے اور اس کی پوسٹنگ اس وقت حیدرآباد میں ہے۔ وہ وہیں پر اپنے دو نوں بچوں اور بیوی کے ساتھ مقیم ہے۔ چھوٹا بیٹایہیں میرے ساتھ ہی رہتا ہے۔ اس کے بھی دو بچے ہیں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ وہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں بحیثیت منیجر کے اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ چھوٹی بہو بھی ایک گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر ہے۔ دونوں بچے بھی اسکول جاتے ہیں۔ میرا ایک بھرا پورا پریوار ہے۔ سب اپنی اپنی روزی روٹی میں مشغول ہیں۔ یہ اللہ کا احسان ہے۔ شام کو جب بیٹا، بہو اور بچے واپس آتے ہیں تو انہیں آپس ہی میں باتیں کرنے سے فرصت نہیں ملتی، تو وہ کسی اور کے بارے میں کیسے سوچتے، یعنی کہ گھر میں سب کے ہوتے ہوئے بھی میں اکیلا ہی رہتا ہوں۔

    میں ایک گورنمنٹ اسکول میں انگریزی کا ٹیچر تھا۔ سبکدوشی کے بعدمیرا پورا وقت گھر ہی میں گزرتا تھا۔ کچھ صحت کی خرابی اور کچھ اکیلے پن کی وجہ سے میں ہمیشہ بے چین رہتا تھا۔ وقت گزاری کا کوئی سامان بھی گھر میں نہیں تھا۔ مانو میں اپنے ہی گھر میں ایک Paying Gsetکے طور پر رہتا تھا۔ نوکرانی وقت وقت پر ناشتہ اور کھانا دے دیا کرتی تھی۔ نہانا، دھونا اور دوسرے ضروری کام میں خود ہی کر لیا کرتا تھا۔ میں زندہ تھا مگر میری کوئی زندگی نہیں تھی۔ میرے جینے کا کوئی مقصد نہیں تھا۔ کسی کے پاس میرے لیے وقت ہی نہیں تھا۔ بس میں جئے جا رہا تھااکیلا اور تنہا۔

    عمر کے لحاظ سے میں بوڑھا ہوچکا ہوں، لیکن میں جوان ہوں۔ میری جوانی کا علم صرف مجھے ہی ہے۔ میری بیوی بھی مجھے عمررسیدہ ہی سمجھتی ہے۔ ویسے بیوی مجھے کچھ بھی سمجھے اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ میری بیوی سے میرے تعلقات کبھی اچھے رہے ہی نہیں۔ اسی لیے تو آج بیوی کے ہوتے ہوئے بھی میں تنہا ہی زندگی گزار رہا ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ میں تین بچوں کا باپ ہوں۔ نہیں نہیں آپ ایسا کچھ بھی مت سوچئے۔ یہ بچے ہمارے ہی ہیں۔ میرے اور میری بیوی کے۔ بیچ بیچ میں ہمارے تعلقات بہتر ہوجاتے تھے، لیکن اس کی مدت بہت کم ہوتی تھی۔ یہ بچے اسی تعلقات کے نتیجے میں ہیں۔ تینو ں بچوں کے بعد جو ہمارے تعلقات خراب ہوئے تو دوبارہ آج تک نہیں بنے۔ ورنہ آج نتیجہ کچھ اور ہی ہوتا۔

    بہر حال بھلا ہو فیس بک بنانے والے کا۔ پچھلے تین سال سے میرا اچھا خاصہ وقت فیس بک پر ہی گزررہا تھا، لیکن اب حال یہ ہے کہ نہ تو میں فیس بک اوپن کر نے کی جرأت کر پارہاہوں اور نہ ہی مجھ میں گھر سے باہر نکلنے کی ہمت ہے۔ دراصل یہ قصہ فیس بک پر ایک جھوٹی یعنی کہ فیک آئی ڈی سے شروع ہوا تھا۔ یہ فیک آئی ڈی بناتے وقت میں نے سوچا بھی نہیں تھاکہ مجھے اس جھوٹ کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔

    ہوایہ کہ کچھ برس پہلے جب میں اسکول کی ملازمت سے سبکدوش ہوا تو گھر میں پڑے پڑے اوبنے لگا۔ وقت گزاری کے لیے شام کو میں اپنے گھر سے تھوڑی دور ایک چائے کی دکان پر چلا جایا کرتا تھا۔ وہاں میری ہی طرح کچھ اور لوگ بھی آیاکرتے تھے۔ وہاں پر چائے کی چسکی کے ساتھ ساتھ لوگوں سے ہنسی مذاق اورگپ بازی بھی ہو جایا کرتی تھی، جس سے شام کا وقت بہت مزے سے گزر جایا کرتا تھا، لیکن گھر آنے کے بعد وہی اداسی اور اکیلا پن مجھے ستانے لگتا تھا۔ دن تو کسی طرح گزر جایاکر تا تھا، مگر رات الجھن اور بے چینی ہی میں گزرتی تھی۔ رات کے کس پہر نیند آتی تھی اس کا بھی علم مجھے نہیں ہوپاتا تھا۔ ایک دن چائے کی دکان پر مجھے ایک نوجوان سے فیس بک کے بارے میں پتا چلا۔ میں نے دیکھا کہ وہ نوجوان سیکڑوں لوگوں کے پیچ میں بھی اکیلا تھا۔ وہ اپنے موبائل میں اتنا مصروف تھا کہ اسے اپنے آس پاس کے بارے میں کچھ بھی خبر نہیں تھی۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ فیس بک یوز(Use) کر رہا ہوں۔

    ”یہ فیس بک کیا ہوتا ہے؟“ میں نے پوچھا۔

    ”فیس بک ایک ایسی دنیا ہے جہاں آپ اپنے دوستوں سے جب چاہیں بات کر سکتے ہیں۔ خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں رہتے ہوں۔ بلکہ میں یہ کہوں توزیادہ مناسب ہو گا کہ فیس بک کے ذریعے آپ ایک جگہ بیٹھ کر پوری دنیا کی سیر کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ فیس بک پر نئے دوست بھی بنا سکتے ہیں۔“ اس نے تفصیل سے جواب دیا۔

    ”رات میں بھی؟“ میں نے بے قراری سے پوچھا۔

    ”جی ہاں۔“ اس نے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا۔

    مجھے اس کی فیس بک والی بات پسند آئی۔ مجھے لگا اس کے سہارے میرا کافی وقت گزر جا یا کرے گا۔ اس لیے میں نے اس لڑکے سے جانکاری حاصل کر کے فیس بک پیج کے تمام کالم کو صحیح صحیح بھر کر اپنی آئی ڈی بنا لی۔ دو چار دنوں میں کچھ دوست بھی بن گئے۔ دوستوں کی فہرست میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا تھا، لیکن کسی بھی دوست سے کوئی خاص گفتگو نہیں ہو پا رہی تھی۔ میری تمام کوششوں کے بعد بھی کسی سے سلام دعا، خیرو خیریت سے آگے بات نہیں بڑھ پاتی تھی۔ یہ دیکھ کر مجھے حیرانی ہوئی کہ دومنٹ سے زیادہ مجھ سے کوئی بات ہی نہیں کر رہا ہے، جب کہ وہ نوجوان گھنٹوں اس پر باتیں کرتا رہتا ہے۔

    اگلی صبح میں پھر اسی چائے کی دکان پر جا پہنچا، جہاں پر وہ نوجوان مجھے ملاتھا۔ اتفاق سے وہ نوجوان وہاں موجود تھا۔ میں نے اس سے کہاکہ”اس پر تو مجھ سے کوئی بات ہی نہیں کرتا، سلام دعا، خیر و خیریت پوچھنے کے علاوہ کوئی اورکچھ بولتاہی نہیں۔ جب کہ میں بات کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔“

    ”اچھا۔۔۔ ذرا اپنی آئی ڈی دکھایئے“ اس نے کہا۔

    ”یہ لیجیے۔“ میں نے اپنا موبائل اسے تھماتے ہوئے کہا۔

    کچھ دیرمیری فیس بک آئی ڈی دیکھنے کے بعد وہ بولا۔ ”ارے چچا اس بوڑھے آدمی سے کون بات کرنا چاہے گا؟کو ن دلچسپی لے گا اس بڑھاپے میں آپ سے؟آپ ایک نئی آئی ڈی بنایئے۔ ایک نوجوان لڑکے کے نام پراورہاں، آئی ڈی ایٹریکٹو بھی رہے۔“

    ”ایسا ممکن ہے؟“ میں نے پوچھا۔

    ”جی ہاں، بالکل۔“ اس نے جواب دیا۔

    اِس بار میں نے اُس نو جوان کے بتائے ہوئے طریقے سے فیس بک پر اپنی ایک نئی آئی ڈی بنا ئی، جس کی ڈیٹیل اس طرح تھی۔ نیم:عاکف حیدر، ایج: چوبیس ایئرس، ورک اَیٹ:سافٹ ویئر انجینئر، میریٹل اسٹیٹس: سنگل، لِیو اِن: دہلی، انٹرسٹیڈ: ویمین وغیرہ وغیرہ؛ حالانکہ یہ پوری ڈیٹیل جھوٹ پر مبنی تھی۔ اسے آپ فیک آئی ڈی کہہ سکتے ہیں۔

    اس آئی ڈی کو بناتے ہی میری فرینڈ لسٹ میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔ کچھ لوگوں کو میں نے فرینڈ ریکویسٹ بھیجی اور کچھ لوگ خود ہی مجھے فرینڈ ریکویسٹ بھیجنے لگے۔ اس طرح سے اس نئی آئی ڈی پر میرے بہت سارے دوست بن گئے تھے۔ ایک روز نیند نہ آنے کی وجہ سے رات کے قریب بارہ بجے میں فیس بک پر کچھ کر رہا تھا، یوں کہیے کہ فیس بک چلاناسیکھ رہا تھا۔ اسی وقت ایک انجان لڑکی کا مِسج آیا۔

    ”ہائے۔“

    ”ہیلو۔“

    ”کین۔۔۔ آئی چیٹ وِدھ یو!!“

    مِسج دیکھ کرپہلے تو مجھے حیرانی ہوئی، کیوں کہ اس سے کبھی بات نہیں ہوئی تھی، لیکن بعد میں خوشی بھی ہوئی۔ وہ اس لیے کہ اس کے مِسج میں ایک گزارش تھی۔ اب تک میں یہ سوچتا تھاکہ کوئی مجھ سے بات کرے، لیکن یہ خود ہی مجھ سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔ مجھے بھی اس سے بات کرنے میں دلچسپی ہوئی۔ بلکہ مجھے ایسے ہی کسی کی تلاش تھی، جو مجھ سے دیر رات تک باتیں کرے۔

    نام دیکھا فوزیہ اسلم۔ پروفائل چیک کیا تو پایا کہ صاحبہ دہلی ہی کی رہنے والی ہیں۔ عمر اکیس سال اوردہلی یونیورسٹی سے ایم۔ کام کر رہی ہیں۔ مزید تفصیلا ت پر نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ محترمہ کو مردوں سے باتیں کرنا زیادہ پسند ہے۔ اس کے علاوہ فلم دیکھنااور ناول پڑھنا بھی پسندہے۔

    یہ سب دیکھ کر میں سوچا دیکھتاہوں یہ بندی ہے کون؟ اور مجھ سے کیوں بات کرنا چاہتی ہے؟یہی سوچ کر میں نے بھی رپلائی کر دی۔

    ”ہائے۔“

    ”یس، وائی ناٹ۔“

    ”تھینکس فار رپلائی۔“ فور۱ً جواب آیا۔ بندی جیسے میرے مِسج کا ہی انتظار کر ہی تھی۔

    ”ہاؤ۔۔۔ آر۔۔۔ یو۔“

    ”میں ٹھیک ہوں فوزیہ صاحبہ۔ آپ کیسی ہیں اور اتنی دیر تک کیوں جاگ رہی ہیں۔“ میں نے بات کرنے میں دلچسپی دکھائی۔

    ”میں بھی ٹھیک ہوں عاکف صاحب۔ نیند نہیں آرہی تھی۔ دیکھا کہ آپ آن لائن ہیں تو سوچا آپ سے باتیں ہی کرتی ہوں۔“

    ”لیکن آپ مجھ سے کیوں بات کرنا چاہتی ہیں؟“

    ”ہم کئی دن سے فرینڈ ہیں۔ آپ کی پروفائل دیکھی۔ مجھے اچھی لگی۔ ویسے بہت اچھی پروفائل ہے آپ کی۔“

    ”ویسے بہت اچھی پروفائل ہے آپ کی۔“ اس کا یہ جملہ مجھے بہت اچھا لگا۔ میرا تو دن بن گیا۔ یہی تو میں چاہتا تھا۔ سالوں سے ایسے ہی کسی کی تلاش تھی مجھے، جو مجھ سے باتیں کر ے، میرے ساتھ وقت گزارے۔

    ”کیوں؟ ایساکیا ہے میری پروفائل میں۔“ میں نے پوچھا۔

    ”نیچر کی بہت سی تصویریں ہیں۔ لگتا ہے آپ کو نیچر سے بہت لگاؤ ہے۔“ اس نے جواب دیا۔

    ”جی ہاں، میں نیچر اور نیچرل چیزیں بہت پسند کرتا ہوں۔“

    ”یہ تو اچھی بات ہے۔ انسان کو ہمیشہ نیچر سے قریب رہنا چاہیے۔“

    ”اچھا عاکف صاحب اب مجھے نیند آرہی ہے۔ میں سونے جارہی ہوں۔“

    ”پھر باتیں ہوں گی، ان شا ء اللہ، گڈ نائٹ، اللہ حافظ۔“

    ”گڈنائٹ، اللہ حافظ۔“ میں نے بھی جواب میں کہا۔

    اس دن مجھے بہت اچھا لگا۔ ایسالگ رہا تھا جیسے صدیوں بعد کسی اپنے نے مجھ سے بات کی ہے۔ دھیرے دھیرے ہم دونوں میں خوب ساری باتیں ہونے لگی۔ دن میں تو کم، لیکن رات میں روز باتیں ہوتی تھی۔ ہم بہت جلد ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست بن گئے۔ ہر اچھی بری باتیں ایک دوسرے سے شیئر کرنے لگے۔ میں تو بہت سی جھوٹی باتیں کرتا تھا۔ جھوٹ بولنامیری مجبوری بھی تھی، لیکن وہ سچ بولتی تھی یا جھوٹ! یہ مجھے نہیں معلوم تھا۔ یہ بھی مجھے نہیں معلوم تھا کہ خود وہ ایک حقیقت تھی یا پھر میری ہی طرح وہ بھی ایک فیک آئی ڈی تھی۔ بہر حال وہ بہت جلد بے تکلف ہو گئی۔ اس کی بے تکلفی سے مجھے ڈر لگنے لگا۔

    اب میں سوچنے لگا کہ کہیں یہ بے میل رشتہ میرے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ ایک بار میں نے سوچا کہ اسے بلاک کر دیتا ہوں۔ پھر خیال آیا کہ میری تنہائی کا کیا ہو گا؟بے میل رشتے کاخوف ایک طرف اورمیری تنہائی ایک طرف، میں فیصلہ نہیں کر پارہا تھا۔ اس رات میں نے اس سے بات بھی نہیں کی اوریہ سوچ کر جلد ہی سوگیا کہ اپنی طرف سے اس کو مِسج نہیں کروں گا۔ اگراُدھر سے ہائے ہیلو ہوا تو تھوڑی بہت باتیں کر لیا کروں گا۔

    صبح میں تھوڑی دیر سے اٹھا۔ موبائل ہاتھ میں اٹھایا، فیس بک دیکھا تو اس کا مِسج پڑا تھا۔

    ”السلام علیکم!“

    ”کیسے ہیں عاکف صاحب؟“

    ”شایدرات کو آپ جلدی سو گئے تھے؟ آپ نے بات بھی نہیں کی تھی اور گڈ نائٹ بھی نہیں بولا تھا۔“

    ”میں کالج جا رہی ہوں۔ مِسج دیکھتے ہی فوراً رپلائی کیجیے۔“

    ”ٹیک کیئر، اللہ حافظ۔“

    میں نے مِسج دیکھا، لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔ دوپہر میں، میں فیس بک پر کچھ دیکھ رہا تھا کہ اس نے مجھے آن لائن دیکھ کر دوبارہ مِسج کیا۔

    ”ہیلو۔۔۔“

    ”ہاؤ۔۔۔ آر۔۔۔ یو۔ سب ٹھیک تو ہے۔“

    ”آپ نے کوئی جواب نہیں دیا؟“

    ”ہاں۔۔۔ الحمد اللہ۔“ میں نے رپلائی کیا۔

    ”بس یونہیں۔۔۔ مجھے لگا آپ کلاس میں ہوں گی۔ اس لیے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔“

    ”مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اب آپ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہ رہے ہیں۔“

    ”جی کیا کہہ رہی ہیں آپ!آپ کو ایسا کیوں لگ رہا ہے۔ مجھے تو آپ کے کلاس کی فکر تھی۔“ میں نے محسوس کیا کہ یہ لڑکی تومیرے پیچھے ہی پڑ گئی تھی، لیکن اس کا اس طرح پوچھنا مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ میں بھی ڈر اور خوف کو طاق پر رکھ کردلجمعی سے باتیں کرنے لگا، سوچا بعد میں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔

    ”فوزیہ! ایک بات پوچھوں۔“

    ”جی۔۔۔ شیور۔۔۔ شیور۔“ اس نے دلچسپی دکھائی۔

    ”آپ کو مجھ سے باتیں کرنا کیوں اچھالگتا ہے؟“

    میرا اتنا پوچھنا تھا کہ وہ آپ سے سیدھے تم پر آگئی۔

    ”ارے۔۔۔ یہ کیا ہو گیا تم کو۔ ہماری اتنے دنوں سے باتیں ہو رہی ہے۔ تم اچانک سے یہ کیوں پوچھ رہے ہو۔“

    ”بس ایسے ہی تم سے پوچھ لیا۔“ میں بھی فوراً آپ سے تم پر آگیا۔

    ”آج صبح سے تم مجھے بدلے بدلے سے لگ رہے ہو۔ کوئی پرابلم ہے کیا؟“

    ”نہیں۔۔۔ نہیں، کوئی پرابلم نہیں ہے۔ تمہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے۔“

    ”ہم م م م م م۔۔۔ کوئی بات نہیں۔“

    ”اچھا ٹھیک ہے۔ مجھے کوئی آواز دے رہا ہے۔ رات کو بات کرتی ہوں۔“

    ”میں انتظار کروں گا۔۔۔ اللہ حافظ۔“

    ”ٹیک کیئر۔۔۔ اللہ حافط۔“

    رات گیارہ بجے اس کا مِسج آیا۔ ہم دونوں نے بہت دیر تک باتیں کی۔ پھر یہ سلسلہ روز کا ہو گیا۔ ہمارے درمیان دوستی بڑھتی گئی۔ بات تو اکثر ہوتی تھی، لیکن اس دن سے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم لوگ بغیر بات کیے سو ئے ہوں۔ ہمارے بیچ بہت سارے وعدے ہوتے، کبھی ملنے کی بات ہوتی۔ کبھی ایک ساتھ زندگی گزارنے کی پلاننگ ہوتی تو کبھی اور دوسری باتیں ہوجایا کرتی تھیں۔ اس سے باتیں کرنے میں کبھی کبھی مجھے بہت دقت بھی ہوتی تھی۔ کیوں کہ وہ اکثر شارٹ فارم میں باتیں کرتی تھی، جس کو میں بہت مشکل سے سمجھ پاتا تھا۔ اس کا یہ سلسلہ شارٹ فارم سے آگے بڑھ کر علامت بن گیا، جس کی تفہیم میرے لیے بہت مشکل ہو جاتا تھا۔

    ایک روز جب میں نے رات میں اسے مِسج کیا۔ ”السلام علیکم! کیا ہو رہا ہے۔“

    اس نے جواب میں وعلیکم السلام کے ساتھ ایک اسمائیلی(Symbol) بھیجا، جس کا مطلب میں سمجھ نہیں سکا اور نہ ہی میں نے سمجھے کی کو شش کی۔

    ”فوزیہ! تم کالج کس کس دن جاتی ہو؟“ میں نے دوسرامِسج کیا۔

    اس نے جواب میں گلاب کے پھول کا نشان بھیج دیا۔

    ”گلاب کے پھول کا کیا مطلب ہے۔“ میں نے جھنجھلا کردوبارہ پوچھا۔

    ”اس کا مطلب ہے روز جاتی ہوں۔“

    ”اچھا، یہ بتاؤ!کل تمہارے کالج میں فیرویل پارٹی تھی نا۔ تم پارٹی میں تھی؟“

    جواب میں اس نے ہاتھی کا نشان بھیج دیا۔

    ”یہ کیا ہے؟“

    ”ہاں۔۔۔ تھی۔ اتنا بھی نہیں سمجھتے۔“

    ”کس کے ساتھ؟“

    اِس بار اُس نے چمکتے ہوئے سورج کا نشان بھیجا۔

    ”اب یہ کیا ہے؟“

    ”مطلب یہ کہ ’کرن‘ کے ساتھ پگلے۔“

    ”اوہ۔۔۔ یہ کرن کون ہے؟“

    ”میری فرینڈ۔“

    ”اچھا۔۔۔ تم پارٹی میں کیسے کپڑے پہن کر گئی تھی؟“

    اس نے ایک پلین یعنی کہ جہاز کی تصویر بھیج دی۔

    ”یہ بھی مجھے سمجھ میں نہیں آیا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟بتاؤ۔“

    ”ارے بدھو! میں پلین کپڑے پہن کرگئی تھی۔

    ”اچھا۔۔۔! کہاں سے لیے تھے کپڑے؟“

    اس بار بھی اس نے دو کان کی تصویریں بھیج دیں۔

    ”اب یہ کان کیوں بھیج رہی ہو۔“

    ”اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے دکان سے کپڑے لیے تھے۔“

    ”اچھا یہ سب چھوڑو، یہ بتاؤ!تم نے چائے پی لی؟“

    اس نے پھر جواب میں ایک ہتھوڑی کی تصویر بھیجی۔

    ”ارے بابا۔ یہ ہتھوڑی کا کیا مطلب ہے۔“

    ”اس کا مطلب ہے۔ ’ہاں ٹھوڑی‘ چائے پی۔“

    ”اورکھانا کھایا یا نہیں؟“

    اس بار اس نے ہاں کے ساتھ ایک پھول کا نشان بھیجا۔

    ”اب ہاں اور پھول کے نشان کا کیا مطلب ہے۔“

    ”تم کب سمجھوگے بدھو میاں۔ اس کا مطلب ہے ہاں فل پیٹ کھانا کھائی۔“

    ”اوہ ہو۔۔۔ تم بڑی بدمعاش ہو۔ یہ پہیلیاں بجھانا چھوڑواور سیدھے سیدھے بات کرو۔“

    ”اوہ ہو۔۔۔ کیا ہے؟یہ کیا۔۔۔ بزرگوں کی طرح باتیں کیوں کر رہے ہو۔“

    ”اچھا۔۔۔ اوہ ہو۔۔۔ بزرگ بولتے ہیں؟“ میں نے سوالیہ انداز میں جواب دیا۔

    اس کے اس طرح کہنے پر میں سکتے میں آگیا۔ میں ایک دم سے گبھرا گیا۔ مجھے لگا کہ اس کو میری حقیقت معلوم ہو گئی ہے۔

    ”اور نہیں تو کیا۔ نوجوان تو ’اوہ نو‘ بولتے ہیں۔“ اس نے جواب دیا۔

    ”اچھا ٹھیک ہے، مجھے کوئی آوازدے رہا ہے۔ بعد میں بات کرتا ہوں۔“ اس وقت میں نے اس سے پیچھا چھڑایا۔

    ”ہم م م م م م۔۔۔ او کے۔۔۔ بائے“

    ”بائے۔۔۔“

    مجھے اس کی علامتی باتیں سمجھ میں نہیں آرہی تھیں۔ میں اس کی باتوں سے پریشان ہوگیاتھا۔ اوپر سے اس کو مجھ پر شک بھی ہونے لگا تھا کہ میں ایک نوجوان نہیں بلکہ بزرگ آدمی ہوں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اس کی علامتی باتیں سمجھ نہیں پا رہا تھا اور میرے بات کرنے کا لہجہ بھی اسے کچھ عجیب لگ رہا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ آج کی یہ نئی جنریشن ہم سے کتنا آگے ہے۔ میں انگریزی کا ٹیچر ہوتے ہوئے بھی اس کی باتیں اچھی طرح سمجھ نہیں پارہاتھا۔ کبھی شارٹ فارم میں باتیں کر رہی تھی تو کبھی سیمبولک زبان کا استعمال کر رہی تھی۔ میں نے سوچااگر اس سے جلدی پیچھا نہیں چھڑاؤں گا تو یہ میرے لیے مصیبت بن جائے گی۔

    میں نے ارادہ کیا اس سے پہلے کہ میرا راز فاش ہو میں اس لڑکی سے دور ہو جاؤں گا۔ میں اس سے دور ہٹنے کی کوشش کرنے لگااور وہ مجھ سے اور قریب رہنے پر زور دینے لگی۔ پہلے بھی وہ ملنے کے لیے کہتی تھی، لیکن اب ملنے کی ضد کرنے لگی تھی۔ وہ مِسج پہ مِسج کیا کرتی تھی۔ میں اِگنور کرتا رہتا تھا۔ جب بھی میں فیس بک اوپن کرتا اس کے کئی مسیج پڑے رہتے۔ کبھی رپلائی کرتا تو کبھی رپلائی نہ کرتا۔ ہر مِسج میں وہ یہی لکھا کرتی تھی کہ کب اور کہاں ملوگے؟مجھے تم سے ملنا ہے۔ میں ہر بار کچھ نہ کچھ بہانے کیا کرتا تھا۔ کبھی کہتا آفس میں بہت کام ہے۔ کبھی کہتا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور کبھی ماں باپ کی بیماری کا بہانا بنالیتا تھا۔ جب کہ میرے ماں باپ نہ جانے کب اس دنیا کو الوداع کہہ چکے تھے۔ ہر روز میں اس سے کل ملنے کا وعدہ کیاکرتا تھا۔ وہ ہر روزمجھے میرا وعدہ یاددلایا کرتی تھی۔ بہانے کرتے کرتے میں تھک گیا تھا۔ اس لیے فیس بک اوپن کرنا ہی چھوڑ دیا۔

    اب تو پورے ایک ہفتے گزر گئے تھے۔ میں نے فیس بک اوپن نہیں کیا تھا۔ ایک ہفتے بعد فیس بک اوپن کیا تو اس کے پچاسوں مِسج پڑے تھے۔ میں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ کیا کروں؟

    وہ گزارش بھرے مِسج تو بہت کر چکی تھی۔ اب تو دھمکی بھرا مِسج کرنے لگی تھی۔

    ”ہیلو۔۔۔ رپلائی کیوں نہیں کر رہے ہو؟“

    ”جواب دو۔“

    ”تم کیا سمجھ رہے ہو، کسی سے ٹا ئم پاس کرنا اتنا آسان ہوتا ہے۔“

    ”جب دل چاہا بات کی، جب دل چاہا چھوڑ دیا۔“

    ”میں تمہیں معاف نہیں کروں گی۔“

    ”تمہارا پتا میں نے معلوم کر لیا ہے۔“

    ”میں تمہارے گھر آرہی ہوں۔“

    ”محلے والوں کو جمع کر کے ساری باتیں کہہ سناؤں گی۔“

    ”تب تمہیں پتہ چلے گا کسی کے جذبات سے کھیلنے کا مطلب۔“

    ”پورے محلے میں بے عزت کردوں گی تمہیں۔“

    ”کہیں منھ دکھانے کے لائق نہیں رہو گے تم۔“

    ”میں تمہیں جینے کے لائق نہیں چھوڑوں گی۔“

    اور بھی بہت سارے مِسج تھے، لیکن میں ان کو پڑھنے کی ہمت نہیں جٹا پا رہا تھا۔

    آج سے تین سال پہلے میں نے اپنا وقت گزارنے کے لیے ایک جھوٹ کا سہارا لیا تھا۔ اس جھوٹ کو چھپانے کے لیے اب تک سینکڑوں جھوٹ بول چکا تھا اور بیٹھے بیٹھائے ایک مصیبت اپنے سر لے لی تھی۔ میں اس مصیبت سے جتنا بچنا چاہ رہا تھا اتناہی اس میں پھنستا جا رہاتھا۔ ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے چکر میں نہ جانے کتنے جھوٹ بولے جا رہا تھا، لیکن اس سے باہر نکلنے کی کوئی تدبیر نہیں سوجھ رہی تھی۔ آخر کا رمیں نے اسی نوجوان کی مدد سے اپنا فیس بک اکاونٹ ڈی ایکٹیویٹ کردیا۔ پتہ نہیں میں نے یہ صحیح کیا یا غلط۔ میں نے اوپر والے کو حاضر ناظر مان کر اس جھوٹ کاتو کفارہ ادا کر دیا۔ مگر میرے اس جھوٹ کا کفارہ ادا ہوا یا نہیں، یہ مجھے نہیں معلوم۔ بہر حال اب میں پہلے سے بھی زیادہ اکیلا ہو گیاہوں، لیکن اب میں تنہا نہیں ہوں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے