Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کہیں یہ پروائی تو نہیں

الطاف فاطمہ

کہیں یہ پروائی تو نہیں

الطاف فاطمہ

MORE BYالطاف فاطمہ

    کہانی کی کہانی

    ’’تقسیم سے پیدا شدہ حالات کے درد کو بیان کرتی کہانی ہے۔ اچانک لکھتے ہوئے جب کھڑکی سے پروائی کا ایک جھونکا آیا تو اسے بیتے ہوئے دنوں کی یاد نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ بچپن میں اسکول کے دن، جھولتے، کھاتے اور پڑھائی کرتے دن۔ وہ دن جب وہ گھر کے ملازم کے بیٹے ربی دت کے پاس پڑھنے جایا کرتے تھے۔ ربی دت، جو انہیں اپنی بہن مانتا تھا اور ان سے راکھی بندھوایا کرتا تھا۔ مگر اب نہ تو راکھی بندھوانے والا کوئی تھا اور نہ ہی اس کا دکشنا دینے والا۔‘‘

    تین سوپینسٹھ دنوں کا بھاری بوجھ ایک بار پھر حال کے ہاتھوں سے پھسل کر ماضی کے اندھیارے غار میں جا گرا ہے۔

    اس اجاڑ سے کمرے کی کھڑکیاں چوپٹ کھلی ہیں، گہرے سبز درختوں کے عقب میں سرمئی بادلوں میں لپٹا ہوا آسمان کتنا عجیب نظر آرہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کسی نے خلائی فضاؤں میں بڑاسہانا اور دکھی دکھی سا حسن بکھیر دیا ہے۔ بڑی تپش اور جلا کن کے بعد ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔

    ’’کہیں یہ پروائی تو نہیں؟‘‘

    میرے آگے میز پر کاغذوں اور کتابوں کا بے ترتیب ڈھیر ہے۔ میں نے لکھتے لکھتے ہاتھ روک لیا ہے اور اپنا قلم بند کر کے گلے میں لگا لیا ہے۔ اس لیے نہیں کہ رت سہانی ہے اور انگور کی بیل پاگل کن حد تک خوبصورت نظر آرہی ہے اور ایسے سمے انسان ڈیری فارمنگ پر کتاب نہیں لکھ سکتا۔ وہ دودھ کی کیمیاوی اجزا اور مویشیوں کی خوراک میں سرسوں کی کھلی اور بھوسے کے اجزا کی اہمیت پر بحث نہیں کر سکتا ہے۔ ہاں ٹھیک ہے، میں اس وقت گائے بھینسوں کے متعلق ایک لفظ نہیں لکھوں گی۔

    اور بات یہ ہے کہ میں بڑی بے دھیان ہوں، قلم گلے میں لگا ہوتا ہے اور میں سارے میں ڈھونڈتی پھرتی ہوں۔ بہت بار کے دیکھے ہوئے چہرے دیکھ کر سوچا کرتی ہوں، یہ کون ہیں۔ میں نے تو ان کو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ میرا حافظہ اتنا خراب ہے کہ مجھے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کس نے مجھے دکھ پہنچایا ہے اور کس کے متعلق یہ طے کیا تھا کہ اس سے ہمیشہ خفا رہنا ہے۔ اور جس دن مجھے کوئی بہت ضروری کام کرنا ہوتا ہے تو اس دن کوئی اور ہی اور بہت ہی واہیات سا پروگرام بنا کر بیٹھ جاتی ہوں۔ ہاں تو بھئی میرا کیا ٹھیک ہے کبھی ایسا نہ ہو کہ میری یادوں کے نگر ویران اور ڈھنڈار رہ جائیں اور ساری جانی پہچانی باتوں کو سرے سے پہچان ہی نہ پاؤں، اسی لیے تو میں نے کاغذ ڈال دئیے ہیں اور قلم گلے میں لگا لیا ہے۔ اسی لیے کہ میں چاہتی ہوں کہ ذرا پیچھے کی طرف ٹیک لگا کر آنکھوں کو چندھیا کر دور افق کی اور تاک کرتو دیکھوں۔ کیا خبر ماضی کے بے کراں راستوں پر جاتا ہوا وہ وقت مڑ کر پیچھے دیکھ ہی لے۔

    ارے ہاں، خوب وہ دیکھو، گئے ہوئے وقت نے پلٹ کر مجھے پکارا ہے۔ اور اب میرے سامنے سے گرد وپیش کا ہرمنظر تحلیل ہو رہا ہے اور خلاؤں میں سے وہ کھویا ہواافق نمودار ہو رہا ہے۔ ہاں یہ بڑااچھا سا پھاٹک وہی تو ہے جس کی لوہے کی سلاخوں سے چمٹ کر ہم پہروں جھولا کرتے تھے، ٹکٹ بنتے اور بیچے جاتے، گارڈ ہری جھنڈی دکھاتااور سواریاں ریلنگ پر پیر جما کر سلاخوں سے چمٹ کر ریل کی سواری کرتے اور باقی لوگ اس کو زور سے باہر کی طرف دھکیل دیتے تھے۔ باہر کو سڑک چلتی تھی اور پھاٹک کے بالکل سامنے کو لوہار کی بھٹی دہکتی تھی۔ سر خ سرخ لوہا جھن جھن ٹھن ٹھن ٹھان کر کے پیٹا جاتاتھا۔ اندر کو جاتے تھے تو بڑے اور چھوٹے باغ، نربسی کی باڑھ اور گلاب کی بیلیں چڑھے ہوئے نازک گیٹ نظر آتے اور ہم فرض کر لیتے کہ گاڑی جنگلوں اور کھیتوں سے گزر رہی ہے۔ جب گاڑی کو سٹیشن میں داخل کرنا ہوتا تو انگوٹھا ٹھوڑی کے نیچے اور شہادت کی انگلی ناک کی سیدھ میں ماتھے پر چپکا لیتے اور انگوٹھے اور انگلی کی گھاٹی سے ہونٹ جماکر پوری طاقت سے چیخ مارتے۔۔۔ کوداُوو اور بالکل ہوتا کہ گاڑی سٹیشن میں داخل ہو رہی ہے۔

    گرمی کی ساری چھٹیاں یوں ہی پھاٹک کے دروازوں پر جھولتے اور سمر ہاؤس کے اندر ماردھاڑ سے بھرپور کھیل کھیلتے گزر جاتیں، ڈاکو پکڑے جاتے اور پولیس اور ڈاکوؤں میں بڑی زبردست جھڑپیں ہوتیں اور پھر ایک دم ڈاکو توبہ کر کے کچے امرودوں اور شہتوتوں کی دکانیں لگا لیتے۔ گملے پھوڑ پھوڑ کر اور گھس گھس کر سیر آدھ سیر کے بٹے اور سکے بنائے جاتے اور بس یوں ہی کھیلتے کھیلتے ایک دن معلوم ہوتا کہ بس چھٹی ختم، کل سکول جانا ہے اور اس کل والے دن ہم نو بجے تک مکر کیے پڑے رہتے۔ سکول کی بس آکر پلٹ جاتی، لیکن تابکے۔ پھر دوسری کل چار بجے رات سے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگا لیا جاتا۔ پھر ہر بار جب اسکول کھلتا، توایک نہ ایک نئی مصیبت ساتھ آتی۔ اور اس مرتبہ یہ آئی کہ ایک نئی موٹی سی صاحبہ کلاس میں آئیں۔ بغیر کور کی ساڑھی باندھے اور عینک لگائے۔ انھوں

    نے کلاس کی مسلمان لڑکیوں کو ہندی کے قاعدے دئیے۔ اور کہا کہ اس کے صَرف سیکھ کر آنا۔ یہ کتاب دیکھ کر میں برا مان گئی۔ پانچویں کلاس میں ہو کر ہم یہ قاعدہ کیوں پڑھیں۔ ایک بار تو ایسا ہی قاعدہ پڑھ چکے تھے۔ ساری تصویریں وہی بنی تھیں۔ خیر انھوں نے بتایا تھا کہ پانچویں جماعت میں ہندی ضرور پڑھنا ہے اور ہم نے اس کو بستے میں احتیاط سے رکھ دیا اور وہ پڑا رہا۔ دو دن کے بعد وہ پھر آئیں تو ہم نے بڑے اطمینان سے سنا دیا۔ الف سے ا نار۔ ب سے بکری۔ ح سے حقہ اور ڈ سے ڈھول۔ ’’پاگل، دیوانی۔‘‘ وہ غصے سے بے حال ہوگئیں۔ ’’پھر سے سیکھ کر آؤ۔‘‘

    بھئی یہ کیا مصیبت ہے، مگر کون بتاتا کلاس کی ساری لڑکیاں ہم سے دو دو ہاتھ اونچی تھیں۔ وہ خالی گھنٹوں میں بیٹھ کر کروشیا کی لیسیں اور لال سبز اونوں کے سویٹر بنتی تھیں۔ ہم ان سب سے شرماتے تھے اور ٹوٹی چوڑیاں اور گولیاں کھیلا کرتے تھے۔ اس لیے کتاب پھر رکھ لی اور سوچا یہ خود ہی پاگل ہیں۔ صاف صاف تو حقے اور بکری کی تصویر بنی ہے اور یہ برا مانتی ہیں، مگر جب ہر بار پھٹکار پڑنے لگی تو ہم نے اماں سے رجوع کیا۔ وہ خود تو پڑھاتی نہیں، کہتی ہیں گھر سے سیکھ کر لاؤ۔

    ’’تم ربی دت سے کہو وہ تم کو پڑھا دے گا۔‘‘ اماں نے مشورہ دیا۔

    اور پھر ہم نے اس لڑکے کو خوشامدیں شروع کیں جس کے باپ کو ہم مہاراج کہا کرتے تھے، وہ باہر کوٹھڑیوں میں رہتا تھا۔

    ربی دت نے بڑی بڑی آنکھوں میں موٹا موٹا کاجل اور ماتھے پر نظر کا بڑا سا کالا ٹیکا لگائے، کالے ڈورے میں پرویا ہوا سونے کا تعویذ پہنے، آنکھیں مٹکائیں اور اپنی شرائط پیش کیں۔

    ’’تم ہماری چٹیا تو نہیں کھینچو گی؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’جھولا جھولنے دو گی؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’بیس جھونٹے دو گی؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’گوس روٹی کھلاؤ گی؟‘‘

    اور یہاں ہم سٹپٹا گئے۔ ہم اس کی فرمائش پر اس کو گوشت کھلاتے تو اماں ناراض ہوتیں۔ خبردار جو اس کو گوشت دیا ہے کبھی۔

    ’’مت کھلاؤ، ہم بھی نہیں پڑھاتے۔‘‘

    ’’کھلائیں گے۔‘‘

    اور ان کی تشریف آتی تو گھس کر پلنگ یا تخت کے نیچے بیٹھ جاتے۔ پھر گھسیٹ گھساٹ کر نکالتی تو بڑے رعب فرماتے، پڑھو۔ چھوٹا ؤ۔ بڑا او۔ ای۔ سارے تصویر وں والے ورق لگا کر پڑھا دئیے۔

    پھر ایک دن پڑھایا۔ ’’موہن اچھا لڑکا ہے۔ بھور بھئے جاگتا ہے اور اشنان کرتا ہے۔‘‘ بھئی مجھے یقین نہ آیا کہ اتنے اجنبی حرفوں میں سے اتنے مانوس بول نکل سکتے ہیں۔

    ’’کم بخت گدھا، پڑھاتا نہیں ٹھیک سے۔‘‘

    ’’پڑھائے تو رہے ہیں اور کاتمراسر پڑھائیں۔‘‘

    ’’جھوٹا مکار۔ انگریزی میں سے انگریزی کی آواز نکلتی ہے اور تو ہندی میں اردو پڑھا رہا ہے!‘‘

    ’’جاؤ ہم نہیں پڑھاتے۔‘‘ وہ میدان چھوڑ کر بھاگ نکلتا کیوں کہ یہ معاملہ خود اس کی سمجھ سے بالاتر تھا، ہندی میں سے اردو کی آواز کیوں نکلتی ہے۔

    بڑی مشکل سے اس بات سے سمجھوتا کیا کہ ان عجیب و غریب اور بالکل ہی نئے حرفوں میں سے وہی آوازیں نکلتی ہیں جنھیں ہم اردو میں پڑھا کرتے ہیں۔

    اب لکھائی شروع ہوئی۔ ’’یہ یہ کیا لگی ہے اوکے اوپر پھچیا سی۔‘‘ میں ماترا کو دیکھ کر پوچھتی۔

    اور وہ پھر گڑبڑا جاتا۔ ’’یہ ایسے ہی ہے تم اس سے مت بولو، اپنا کام کرو۔‘‘

    غرض اس نے ماترائیں نہ بتانا تھیں، نہ بتائیں۔

    میرے دل میں ایک الجھن سی رہی یہ کیا دھاندلی ہے۔ کہ وہی بات اردو میں پڑھو، وہی ان عجیب و غریب حرفوں میں پڑھو۔ ضرور کوئی سازش ہے پڑھنے والوں کو پریشان کرنے کے لیے۔ طبیعت ضد یا سی گئی۔ بے کار کون سرمارے اور ربی دت بھی میری روز کی جھک جھک سے تنگ آچکا تھا۔ ہم نے ہندی کا قاعدہ ایک طرف ڈال دیا۔ ایک یہ بھی بات تھی کہ اب ہم ایک ایسے سکول جانے والے تھے کہ جس میں جھگڑا ہی نہ تھا۔ اور یوں وہ استادی شاگردی کا رشتہ ٹوٹ گیا۔۔۔ ..اور اب وہ دن بھر نظر نہ آتا، سکول جاتا اور وہاں سے آکر واہی تباہی پھرتا۔ یا پھر گھر میں بیٹھ کر بڈھوں کی سی باتیں کرتا، اس لیے کہ اس کا کوئی بھائی بہن نہ تھا اورسارے رشتے دار وطن میں تھے۔

    ہاں تو بھئی ربی دت تم خوب تھے اور اب اس وقت بھی اس تمام پس منظر میں بالکل نظر آرہے ہو۔ اور ہمیشہ ہی نظر آتے ہو۔ جب برکھا رت آتی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ وہاں جہاں گھر تھا، گھٹائیں جھوم کر آتی ہوں گی اور جھڑی لگ کر پانی برستا ہو گا۔ اولتیوں سے پانی کے شراٹے چلتے ہوں اور لوگ سلونو مناتے ہوں گے تو پھر مجال ہے جو تم یاد نہ آؤ۔ جب میرے اور تمہارے درمیان استادی اور شاگردی کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ تو تم نے ایک دوسرا رشتہ یوں جوڑا کہ اوٹ میں کھڑے ہو کر اپنی بیٹھی بیٹھی سی آواز میں رٹ لگا دی،‘‘ تم کیسی بہنی ہو، تم ہمرے راکھی بھی نہیں باندھت ہو۔ اوروں کی بہنیں تو بھیا لوگن کے راکھیاں باندھت ہیں۔‘‘

    جب سارے دن تم نے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دروازے کی اوٹ میں چھپ چھپ کر اور راکھی نہ باندھنے کے طعنے دے دے کر ناطقہ تنگ کر دیا تو پھر اماں نے ہم لوگوں کو تمہارے لیے راکھیاں منگا کر دیں اور پھر جو تم دروازے کے پیچھے آکر چھپے تو پکڑ کر تمہارے ہاتھ میں وہ لال سبز ڈوروں اور پھندنوں والی راکھیاں باندھ دی گئیں۔ اپنے ہاتھوں میں تین تین راکھیاں دیکھ کر تم خوشی کے مارے گھر بھاگ گئے اور اسی شام سفید جھاگ سی دھوتی، لیس والا کرتا اور گاندھی کیپ لگائے پیتل کے تھال میں چاول، اندر سے اور کیلوں کے ساتھ آٹھ دس آنے پیسے رکھے تم آئے اور اسی دروازے کی آڑ سے ہاتھ بڑھا کر تھال رکھ دیا اور بولے، ’’یہ تمہاری دچھنا ہے۔‘‘

    کیا کہنے تھے تمہارے، یہاں کس کو راکھیاں باندھنے کا ہوش اور شوق تھا، مگر تم ہر سال سلونو پر پہلے ہی سے یاد دلانا شروع کر دیتے۔ ’’راکھی منگائے لی ہمری۔‘‘ اور تمہارے دل میں یوں زبر دستی کا بھیا بننے کا کتنا احترام تھا۔ ببی جب شادی کے بعد پہلی بار شملے سے آئیں تو تم باہر سے ان کا بستر اپنے اوپر بڑی مشکل سے لاد کر لائے۔ اور جب تم سے کہا گیا کہ بھئی تم کیوں لائے حبّل اٹھا لاتا۔ تو تم چپکے سے بولے کیوں لے آتا حبّل، آپا کے دلھا جو کہنے لگتے تھے کہ یہ کیسا بھیا ہے تمہارا جو ایک بستر بھی نہیں اٹھا سکتا۔

    اور اسی پر بس نہیں تھے، لڑلڑ کر جھولے پر بیٹھتے اور جب ہم تم کو پینگیں دیتے، تو لرزتی آواز میں کہتے، ’’ہولے ہولے جھونٹے دو، ہم ڈراؤتے ہیں۔‘‘

    ’’کیوں ڈرتے ہو، ہم تو نہیں ڈرتے۔‘‘

    تم چپکے سے کہتے، ’’تم گوس روٹی کھاتی ہو۔ ہم دال روٹی کھاتے ہیں۔‘‘

    اور جب اندر باہر کوئی بھی تم سے پوچھتا ہے کہ بھئی تم ہندو ہو یا مسلمان، تو تم بہت اطمینان سے جواب دیتے کہ ’’ہم تو بیگم صاحب کی ذات برادری ہیں۔ میں تو بیگم صاحب کا بیٹا ہوں۔‘‘

    اور تم بڑی اونچی ذات کے باہمن تھے۔ تمہارے باپ کی ذات اتنی اونچی تھی کہ اس کے نکھٹو ہونے کے باوجود تمہارے نانا نے جو ڈاکٹر تھا، اپنی بیٹی اس کو دے دی تھی۔

    ہاں تو تم کوجب بھی وقت ملتا جھٹا جھٹ وضو کرتے تخت پر اماں کی جانماز بچھاتے اور کھٹا کھٹ رکوع اور سجدے کرتے۔ بد بد کر کے منھ ہی منھ میں دعا مانگ کر منھ پر ہاتھ پھیر لیا کرتے۔

    کوئی ہنستا تو برا مانتے۔ اور جب بھی مہاراجن کو کوئی بھی ہندو ٹوکتا، ہر وقت مسلمانوں میں رہتا ہے اور ان کی نقلیں کرتا ہے، تو وہ ہنس کر کہہ دیتی۔ ’’چلو ان کا ہی ہو کر جی جانے دو، میرے تو دو مر چکے ہیں۔‘‘

    اور پھر قصے کا کلائمکس یہ تھا کہ جب گھر گھر میلاد ہو رہے تھے تو ہمارے گھر بھی میلاد ہوا، اور پھر تم کب ماننے والے تھے۔ تم مہاراجن سے لڑے اور جھگڑے اور وہ اتنی بھولی بھالی تھی کہ وہ تیار ہو گئی۔ اس نے ہم سے مانگ کر دری چاندنی کا فرش کیا۔ گل دستے منگائے، اگر بتیاں سلگائیں اور پٹھانی بوا کی خوشامدیں کیں کہ ہمارا للّا ضد کر رہا ہے، چل کر میلاد پڑھ دیو۔

    اور میر محفل تم ہی تھے۔ کبھی پان بانٹتے، کبھی سب کے عطر لگاتے اور گھڑی گھڑی گلاب پاش سے گلاب چھڑکتے اور تم اس فکر میں مرے جارہے تھے کہ کوئی ایسی بات تو نہیں رہ گئی جو بیگم صاحب کے یہاں ہوتی ہے۔

    جاڑے کی راتوں میں سرِ شام سے سب لحافوں میں دبک جاتے اور کبھی کبھی کہانیاں سنتے تو تم بھی کسی نہ کسی کے لحاف میں گھس کر بیٹھ جاتے۔

    اور بس پھر یہ ہوا کہ ایسا معلوم ہوا کہ زمین اپنے بوجھ سے گھبرا گئی ہے، اس کو جانے پہچانے چہرے اور آوازیں بُری لگنے لگی ہیں۔ جیسے کسی نے اناج کے دانوں کو سوپ میں رکھ کر پھٹک دیا۔ کوئی اڑ کر یہاں گیا اور کوئی کہیں اور۔ بیج اور دانے جس طرف جاتے ہیں اپنی دنیا بسا لیتے ہیں۔ دھرتی کے وجود میں اپنی باریک جڑیں کنکھجورے کی طرح گڑو دیتے ہیں۔ اس سے چمٹ جاتے ہیں اور اس کا سینہ چیر کر باہر نکل آتے ہیں۔

    تو بھئی ربی دت، قصہ یہ ہے کہ ہم یہاں آگئے، تم وہاں ہو گے۔ کون جانے کتنے معتبر، کتنے ذمہ دار اور دانا بن گئے ہوگے۔ اب پھر ساون رت آئی ہے اور جہاں تم ہو خوب برکھاہو رہی ہوگی، کسان بوریوں کے گھونگے اوڑھے کھیتوں کی نلائی اور دیکھ بھال میں مصروف ہوں گے، بگلوں اور طوطوں کی ڈاریں اِدھر سے اُدھر اڑتی پھرتی ہوں گی۔ برہمنیاں اپنے بھائیوں کے لیے سلونوں میں راکھیاں لے کر نکلیں گی۔ لال، سبز دھوتیاں باندھے ماتھے پر بندیا اور پیروں میں آلتا لگائے ان کی بھربھر ی گوری کلائیوں میں ساون کی کالی اور سبز چوڑیاں ہوں گی۔

    تمہارے ہاتھ راکھیوں سے بھر بھر جاتے ہوں گے اور تم تھالوں میں سجا سجا کر دکھشنا دیتے ہوگے، دروازوں کی اوٹ سے نہیں، سامنے بیٹھ کر۔

    اونہہ خیر بھئی ہم کو کیا۔ ہم کو کب شوق تھا یہ تمہاری زبردستی تھی کہ لڑلڑ کر راکھی بندھواتے تھے۔ اور بھئی اب ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا زمانہ بھی تو ختم ہو گیا۔ اب انسان بڑی بڑی باتوں کے متعلق سوچتا ہے۔ اب اس کو ہر چھوٹی اور گھٹیا بات سے نفرت ہوتی جا رہی ہے۔ اور بھئی بات تو یہ ہے کہ میں یا تو تم جو بھی بیتے ہوئے دنوں کے متعلق سوچتا ہے، غلط کرتا ہے، زندگی جہاں ہے وہاں کیوں ٹھہری رہے۔ زندگی کی ناؤ کاکام وقت کی بے چین لہروں پر ڈولنا ہے اور جو وہ ساحل میں دھنس کر رہ جاتے تو۔

    زندگی کے سمندر میں ایک جہاز یورپ کو جاتا ہے اور دوسرا پچھم کی اَور بڑھتا، موافق ہوائیں ان کی رہنمائی کرتی ہیں اور تقدیر ان کی منزلیں متعین کرتی ہے۔

    ہماری زندگیوں کے جہان بھی اپنی اپنی سمت کو ہو لیے۔ پھر بھی آج ایک دم یہ جی چاہ رہا ہے کہ چپکے سے وہاں پہنچو ں جہاں تم بڑے معتبر بنے بیٹھے ہو۔ پیچھے سے ایک ٹیپ لگاؤں اور پوچھوں راکھی بندھوانا ہے؟ اور ہماری دچھنا کا تھال کون سا ہے۔۔۔

    اور آج یہ سب بھولی بسری باتیں یوں کیوں یاد آرہی ہیں، جیسے پرانا درد چمک اٹھے۔ اس لیے کہ بڑی تپش اور جلا کن کے بعد ٹھنڈی ہوا چلی ہے۔

    ارے کہیں یہ پروائی تو نہیں ہے؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے