aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کلیشے

خرم بقا

کلیشے

خرم بقا

MORE BYخرم بقا

    تم کون ہو؟ اندھیری رات میں فٹ پاتھ پر ایک ضعیف مگر بدہیت آدمی سے اس کے ساتھ ہی لیٹے دوسرے شخص نے پوچھا۔ سڑک کنارے آتی، جاتی گاڑیوں کی روشنی میں وہ بہت دیر سے اس بوڑھے کو دیکھ رہا تھا۔

    بوڑھے کی سرخ آنکھوں میں ذہانت کی چمک تھی مگر چہرے سے وحشت ٹپکنے کا احساس بھی ہوتا تھا۔ سفید اور کالے بالوں کی بےترتیب داڑھی اس وحشت میں اضافے کا باعث بن رہی تھی۔ سر کے بال بے تحاشہ بڑھے ہوئے تھے۔ معلوم ہو رہا تھا کہ ایک عرصے سے پانی اور گنگی کی صحبت سے فیض یاب نہیں ہو پائے۔ ہونٹ موٹے مگر زخمی تھے شاید خود ہی دیوانگی میں چباتا رہا ہو۔ جسم فربہ مگر اچھے قد کی وجہ سے فربہی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ کپڑے بھی میلے چیکٹ تھے، گریبان کے بٹن ندارد، دامن بھی جگہ، جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔ پہنی ہوئی بدرنگی شلوار کا ایک حصہ آدھا غائب تھا اور پیروں میں معلوم نہیں سوجن زیادہ تھی یا میل کی وجہ سے زیادہ بھدے معلوم پڑ رہے تھے۔

    میں بوڑھے نے گندے ناخنوں سے بازو کھجاتے ہوئے حیرانی سے پوچھا۔

    ’’ہاں چاچا تم، کون ہو؟ کہاں کے ہو؟‘‘ دوسرے آدمی کی آواز اکتائی ہوئی تھی۔

    ’’میں۔۔۔‘‘ وہ خاموشی سے کچھ دیر سوچتا رہاپھر بولا، ’’۔۔۔ بادشاہ جہانگیر کے زمانے میں چناب کنارے میرا گھر تھا۔ ماں، باپ، بیوی اور بچوں کے ساتھ زندگی مشکل ہی سہی مگر گزر رہی تھی۔ گاؤں کا جاگیردار ہمارا لہو نچوڑ کر لگان وصول کرتا کہ اسے بادشاہ کا خزانہ بھرنا ہوتا تھا۔ روکھی سوکھی ہی، مگر دو وقت کی روٹی کھا رہے تھے۔ پھر ایک دن سیلاب آ گیا۔ ہر سال ہی آتا تھا لیکن اس دفعہ اس کا بہاؤ زیادہ تھا۔ میرے گھر والے، ڈھور ڈنگر اس سیلاب کی نظر ہو گئے۔ میں بھی ان میں ہی تھا مگر کسی نہ کسی طرح بچ گیا۔‘‘

    ’’کیوں جان نکال رہا ہے بے۔ اتنی رات میں تجھے ڈرانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں؟ سالا جہانگیر کے زمانے میں تھا۔ تھو۔‘‘ اتنا کہہ کروہ آدمی اٹھا اور کچھ دور جا کر دوبارہ لیٹ گیا۔

    بوڑھے نے اس کے جانے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، اسے محسوس بھی نہیں ہوا کہ اس کا سامع اب کوئی نہیں۔ وہ اپنی دھن میں بولتا جا رہا تھا، ’’میری زندگی میں کچھ بچا ہی نہیں تھا۔ میں نگر، نگر پھرتا، قریہ قریہ گھومتا رہا۔ کوئی کچھ دیتا تو کھا لیتا، ورنہ کہیں سے پانی پی کر خدا کا شکر ادا کرتا۔ گھومتے پھرتے میں ایک دن آگرہ جا پہنچا۔

    بازار میں جا رہا تھا کہ چوبدار کی آواز آئی، ’’ہٹو، بچو۔ دیوان صاحب کی سواری آ رہی ہے۔‘‘ میں حیران تھا کہ یہ آواز کیا ہے کہ ایک دم سے دیوان صاحب کی سواری سر پر آ گئی۔ سواری کیا تھی، سپاہی، بہت سارے گھڑ سوار اور بیچ میں اپنی بگھی پر بیٹھے دیوان صاحب۔ ایسی شان و شوکت میری نظر میں اس سے پہلے نہیں گزری تھی۔ میں دم بخود راستے کے بیچ میں کھڑا رہ گیا۔ چوبدار نے اپنا ڈنڈا میرے سر پر رسید کیا، میں تیورا کر گرا اور گھوڑے مجھے روندتے ہوئے چلے گئے۔ بگھی کا پہیہ میرے سینے کے اوپر سے گزرا اور منہ سے خون نکل آیا۔ میں وہیں پر ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔ سنا تھا کہ کچھ فاصلے پر بادشاہ نے ایک گھنٹہ لگایا ہے جس کو بجانے پر عدل کیا جاتا ہے مگر۔۔۔ مردہ جسم گھنٹہ کیسے بجاتا؟‘‘

    پھر میں شاہجہاں کے زمانے میں ننگ دھڑنگ گھومتا تھا کہ دارا نے مجھ سے دعا کے لیے کہا۔میں نے اسے تخت کی بشارت دی۔ اس کے مقابلے میں اس کا بھائی اورنگزیب تھا۔ مغل تاریخ کا پہلا آدمی جس نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے اسلام کو استعمال کیا۔ اس کے جاسوس گاہے بگاہے دارا کے خلاف پراپیگنڈا کرتے کہ وہ مسلمان نہیں رہا، ہندو کافروں کا زیادہ خیال رکھتا ہے۔ وہ اسلام کے لیے خطرہ ہے۔ لڑائی ہوئی اور دارا مارا گیا۔ اور نگزیب نے تمام بھائی بھی مار دیے اور باپ کو زندان میں زندگی بھوگنے کو ڈال دیا۔ میں پابند سلاسل اس کے دربار میں کھڑا تھا۔ اور نگزیب نے مجھے دیکھ کر طنزیہ مسکراہٹ اور زہریلے لہجے میں کہا، ’’تم تو کہتے تھے کہ تخت دارا کو ملےگا۔‘‘

    میں نے اوپر اشارہ کر کے کہا ’’آسمانی تخت اسی کو ملا ہے۔ یہ تو چار دن کی بات ہے جس پر تو بیٹھا ہے۔‘‘

    اورنگزیب نے غضبناک ہو کرمفتی اعظم کو اشارہ کیا، انہوں نے آگے بڑھ کر مجھے کلمہ سنانے کو کہا۔

    ’’لا الہ‘‘ میں نے گونجدار آواز میں کہا۔

    تھوڑی دیر خاموشی رہی، پھر قاضی کی آواز آئی۔ ’’اس کے آگے۔‘‘

    ’’ابھی تو اسی منزل پر ہوں، جب اللہ دیکھ لونگا تو الہ للہ بھی کہہ دونگا۔‘‘ میں نے قاضی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’استغفراللہ‘‘ پورا دربار میں بآواز بلند بولا۔

    مفتی اعظم نے میرے قتل کا فتویٰ جاری کیا۔ میں پہلا بندہ نہیں تھا جس کے قتل کا فرمان فتوے کا مرہون منت تھا، اورنگزیب کی تلوار کی دھار انہیں سے آب دار تھی۔ جب جلاد میرا سر تن سے جدا کر رہا تھا تو مجھے قبل از تاریخ کے انسان یاد آ گئے جو اسی طرح پروہت کے فرمان پر دیوتا کے آگے قربان کر دیے جاتے۔ آج بھی تو وہی ہو رہا تھا!

    جلاد نے میرا سر تن سے جدا کیا اور وہیں تیورا کر گر گیا۔ میرا جسم الگ تڑپ رہا تھا مگر میرا دہن کہہ رہا تھا، لا الہ الا اللہ ۔‘‘

    بوڑھے کو کھانسی کا دورہ پڑا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کھانستا رہا پھر اپنی سانس بحال کرنے کے بعد بولا۔ ’’اس کے بعد میں بنگال کے کسانوں کے ساتھ انگریز حکمرانی میں رہا۔ دو وقت کی روکھی سوکھی جو ہمیں ملتی تھی وہ بھی چھن گئی۔ گھر میں بھوک اور خوف نے ڈیرے ڈال لیے۔میں ایک دن ہمت کر کے اس راستے میں کھڑا ہو گیا جہاں سے انگریز صاحب بہادر کی سواری آتی تھی۔ جیسے ہی سواری آئی میں اس کے سامنے آ گیا۔ میرے اس گناہ کی پاداش میں سپاہیوں نے مجھے ڈنڈوں سے اتنا مارا کہ میں اپنی یاداشت کھو بیٹھا، میں پاگل ہو گیا۔‘‘

    بوڑھا خاموش ہو گیا۔

    کافی دیر کی خاموشی کے بعد خود کلامی کرتے ہوئے بولا، ’’میں کون ہوں؟ میں کون ہوں؟‘‘

    یکدم اٹھا اور خوشی سے ناچنے لگا، ’’ہاں مجھے یاد آ گیا میں کون ہوں۔ میں کلیشے ہوں۔ تمھارا سماج کلیشے ہے، تمھارے رسم و رواج، تمھارے عقائد، تمھارا خدا، تمھارے حکمران، تمھارا قانون سب کلیشے۔ تم بھی کلیشے ہو، میں بھی کلیشے ہوں۔ ہاہاہا میں کلیشے ہوں۔‘‘

    بوڑھا ناچتا ہوا سڑک پر آ گیا۔ اسی اثناء میں ایک تیز پروٹوکول پولیس کار اسے ٹکر مارتی گزر گئی۔ منسٹر صاحب کی گاڑی اتنی رات گئے روکنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ کوئی گاڑی نہیں رکی گویا انسان نہیں جانور تھا۔

    بوڑھا وہیں سڑک پر دم توڑ گیا۔

    ٭٭٭

    اگلے دن اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر آئی، ’’تاریخ کے پروفیسر جو اپنی یاداشت کھو بیٹھے تھے ، عدالت عظمیٰ کی عمارت کے سامنے گاڑی کی ٹکر سے ہلاک۔‘‘

    ’’چناب بپھر گیا، سینکڑوں دیہات زیر آب۔ سیلاب سے ہلاکتوں کا خدشہ‘‘ اسی اخبار کی شہ سرخی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے